• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ طائفہ منصورہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حجت و وحی و رسالت

اس کے ساتھ یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر محض ’میثاق‘ اور ’فطرت‘ کی حجت ہی پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ ان کی جانب پیغمبر مبعوث کیے، جو انھیں اس میثاق کی یاددہانی کراتے تھے، جو اللہ عزوجل نے ان سے لیا تھا۔ پھر ان پر اپنی کتابیں نازل فرمائیں اور قرآن کریم کو سلسلہ کتب کی اپنی آخری کتاب قرار دیا، جو پہلی کتابوں کی محافظ و نگہبان ہے، جس کے آگے سے باطل راہ پاسکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔ اللہ عزوجل نے قرآن شریف کو تبدل و تغیر سے محفوظ رکھا ہے اور اسے ہر اس شخص کے لیے حقیقت رس اور واضح حجت قرار دیا ہے، جس تک یہ پہنچ جائے، چنانچہ فرمایا:
وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۰ۭ (الانعام19:6)
’’اور میری طرف یہ قرآن بہ طور وحی کے بھیجا گیا ہے، تاکہ میں اس کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے، ان سب کو ڈراؤں۔‘‘

پس زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کا ایک ہی دین ہے اور وہ ہے، دین اسلام۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ . (آل عمران19:3)
’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین، اسلام ہی ہے۔‘‘

نیز فرمایا:
وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ (المائدۃ3:5)
’’اور میں نے تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمایا۔‘‘

اتمامِ حجت:
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ عزوجل قیامت کے روز کسی کو عذاب نہ دے گا، الا یہ کہ پیغمبروں کے متنبہ کرنے سے اس پر حجت قائم ہو چکی ہو اور اس نے اعراض و عدم توجہ اور بے التفاتی کا مظاہرہ کیا ہو۔ارشادِ ربانی ہے:
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا (الاسراء 15:17)
’’ اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ ( لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے) ایک پیغمبر نہ بھیج دیں۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُجَّۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۰ۭوَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا (النساء 165:4)
’’ یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان کومبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اورحکیم و دانا ہے۔‘‘

نیز فرمایا:
تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ ۖ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ‌ ﴿٨﴾ قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ‌۔۔۔﴿٩﴾. (الملک 8۔9:67)
’’ (جہنم) شدت غضب سے پھٹی جاتی ہوگی۔ ہر بار جب کوئی انبوہ اُس میں ڈالا جائے گا، اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے ’’ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟وہ کہیں گے کیوں نہیں (واقعی ڈرانے والا آیا تھا)۔ ‘‘

اسی طرح دنیوی زندگی میں اپنے بندوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ انہیں عام عذاب سے ہلاک نہیں کرتا، مگر اس کے بعد کہ ان تک رسولوں کی تنبیہ وا نذار پہنچ جائے اور پھر وہ اس کے مقابلے میں جحودو اعراض کا رویہ اختیار کریں۔ فرمانِ الٰہی ہے:
وَلَوْ اَنَّآ اَہْلَكْنٰہُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِہٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰى (طٰہٰ 134:20)
’’ اگر ہم اس کے آنے سے پہلے ان کو کسی عذاب سے ہلاک کردیتے تو پھر یہی لوگ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی پیروی اختیار کر لیتے۔‘‘

نیز فرمایا:
وَتِلْكَ الْقُرٰٓى اَہْلَكْنٰہُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَعَلْنَا لِمَہْلِكِہِمْ مَّوْعِدً. (الکہف 59:18)
’’ یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں۔ انہوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جنتی اور دوزخی

ہم اہل قبلہ میں سے کسی معین شخص کے بارے میں جنت یا دوزخ کی گواہی دیتے ہیں نہ ہی معافی اور عذاب کی، مگر یہ کہ پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے بارے میں کوئی نص شرعی موجود ہو۔
ارشادِ ربانی ہے:
وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (البقرہ 216:2)
’’اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ ‘‘

اگر حسن خاتمہ ہو اور میّت سے متعلق ایسے قرائن ظاہر ہوں، جو خیر و بھلائی کی بشارت دیں تو اس صورت میں، بہ طور امید نہ کہ بالجزم، یہ کہنا ممکن ہے کہ ہم اسے شہید سمجھتے ہیں، یا ہمیں امید ہے کہ یہ شہید اور جنتی ہے،لیکن ہم اللہ عزوجل کے سامنے اس کا تزکیہ بیان نہیں کرتے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے :
نَھَانَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ أَنْ نُوجِبَ لِأَحَدٍ مِّنْ اَھلِ الدِّینِ النَّارَ (السنۃ لإبن أبی عاصم:807)
’’ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس بات سے روکا ہے کہ ہم اہل دین میں سے کسی پر دوزخ کو واجب قرار دیں۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسلام میں داخلے کا طریقہ

انسان، اسلام میں شہادت توحید کے ذریعے داخل ہوتا ہے۔ ارکان اسلام میں سے سوائے نماز کے کوئی شے اس شہادت سے کفایت نہیں کرتی۔ پس جسے نماز پڑھتے اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کرتے دیکھا گیا، تو وہ مسلمان ہے، اس پر مسلمان ہونے کا حکم لگایا جائے گا، اگرچہ اس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے شہادت توحید کا زبان سے اقرار کیا ہے یا نہیں،
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
مَنْ صَلَّی صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَاَکَل ذَبِیْحَتَنَا، فَذَاکَ الْمُسْلِمُ لَہٗ ذِمَّۃُ اللّٰہِ وَذِمَّۃُ رَسُوْلِہٖ. (بخاری: 378)
’’ جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہماری طرح قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا، تو وہ مسلمان ہے، جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ہے۔‘‘

اگر انسان کا کفر شہادت توحید کے علاوہ کسی اور جہت سے ہے، تو پھر اس کے مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شہادت توحید کا اقرار کرے اور اس سبب سے بھی توبہ اور اظہار براء ت کرے، جو اس کے کفر اور دائرہ اسلام سے نکلنے کا باعث تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شہادتِ توحید کی شرائط

جس نے صراحت سے زبان کے ذریعے توحید کی شہادت دی، اس کی جان اور مال محفوظ ہوگئے۔ دنیا میں اس سے مسلمانوں جیسا ہی برتاؤ کیا جائے گا، جب تک وہ کسی ایسے معاملے کا اظہار نہ کرے جو اس کے اسلام کو باطل کر دے یا اس کا خاتمہ کر دے۔ اسے بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اور اس پر وہ ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو دوسروں پر ہیں۔ اگر اس نے شہادت توحید کی شرائط پوری کیں، تو یہ آخرت میں اس کے لیے نافع ہو گی۔

نطق و اقرار کے علاوہ اس کی شرائط یہ ہیں:
علم ، صدق، اخلاص، عدم شک، یقین، اس پر عمل پیرا ہونا، اس سے اور اس کے حاملین سے محبت رکھنا، اس پر راضی ہونا، اس کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا، اطاعت وانقیاد اور اس پر کاربند رہنا۔

جس نے ان شرطوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’لا الٰہ الا اللہ‘ کا اقرار کیا تو یہ کلمہ اسے روزِقیامت فائدہ دے گا، خواہ اس کا عمل کیسا ہی ہو۔ ان احادیث کو بھی اسی پر محمول کرناچاہے جن میں یہ مضمون بیان ہو ا ہے کہ جس نے ’لا الٰہ الا اللہ‘ کہا وہ جنت میں داخل ہوگا خواہ اس کے دل میں رائی کے دانے یا ذرے کے برابر بھی ایمان ہو یا اس نے کبھی بھی نیک عمل نہ کیا ہو، مطلب یہ ہے کہ توحید سے زائد عمل نہ کیا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ظاہر و باطن میں تعلق

ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ظاہر و باطن میں باہمی تعلق ربط و تلازم کا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں اور متاثر بھی، اور ایک دوسرے پر دلیل بھی بنتے ہیں۔ پس جس کا ظاہر فاسد ہو، اس کے باطن میں بھی فساد ہوتا ہے اور جس کے باطن میں فساد ہو، اس کا ظاہر بھی لازماً فاسد ہوتا ہے۔ جو ظاہر ی طور پر کافر ہے، وہ باطن میں بھی کافر ہے اور جو باطن میں کافر ہے، وہ ظاہر میں بھی کافر ہے۔ منافق اپنے کفر کو کتنا ہی چھپانے کی کوشش کرے، وہ متعدد قرائن سے بے نقاب ہوجاتا ہے، بلکہ اپنے اندازِگفتگو سے بھی پہچان لیا جاتا ہے، اللہ رب العزت لازماً اسے رسوا کرتا ہے۔
حدیث پاک میں ہے:
أَلَا وَاِنَّ فِیْ الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ، وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَالْجَسَدُ کُلُّہٗ، أَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ. (بخاری:52؛مسلم:1599)
’’ خبردار! جسم میں ایک ٹکڑا ایسا ہے کہ جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اور اگر اس میں خرابی آجائے، تو سارا جسم فساد کا شکار ہو جاتا ہے۔ ‘‘

ہمارا عقیدہ ہے کہ کسی انسان کے دل میں ایمان کا کفر کے ساتھ اکٹھا رہنا ممکن نہیں ہے، جب اِن میں سے ایک موجود ہو گا، تو دوسرا لازماً زائل ہو جائے گا۔

یہ ہوسکتا ہے کہ ایک ہی دل میں ایمان اور فسق یا ایمان اور کفر اصغر یا شرک ِ اصغر مجتمع ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شرک و کفر اور شرطِ استحلال

ہم یوں نہیں کہتے کہ ’’ہم کسی شخص کو گناہ کی بنا پر کافر نہیں ٹھہراتے تا آنکہ وہ اس گناہ کو جائز اور حلال سمجھے۔ ‘‘

بلکہ ہمار ا کہنا تو یہ ہے کہ ’’ہم ہر گناہ کی بنا پر کسی کو کافر قرار نہیں دیتے یا ہم شرک کے سوا کسی گناہ کی وجہ سے کسی فرد پر کفر کا حکم نہیں لگاتے مگر یہ کہ وہ اس کو حلال قرار دے دے۔‘‘

اعضاء و جوارح سے صادر ہونے والے بعض اعمال ایسے ہیں، جن سے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ کفر اکبر ہیں اور ان کے ساتھ اعتقاد، جحود یا استحلال کی شرط عائد نہیں کی، مثلاً: اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی شریعت سازی، جس کا اس نے اذن نہیں دیا، سورج یا بتوں کو سجدہ کرنا، اللہ عزوجل، دین یا انبیائے کرام علیہم السلام کو گالی دینا یا قرآن سے استہزاء کرنا، یا دین کی کسی شے کی توہین کرنا۔

پس شرک فی نفسہٖ کفر ہے۔ اسی طرح ہر کفر یہ قول و عمل بہ ذاتہ کفر ہے، اس کے لیے استحلال یعنی جائز سمجھنے کی شرط نہیں ، نہ ہی یہ ضروری ہے کہ دل میں اس کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھا جائے!

ہم اس کے بھی قائل نہیں کہ انسان محض جحودو انکار یا استحلال ِ قلبی ہی کی بنا پر کافر ہوتا ہے، جیسا کہ جہمیہ اور مرجئہ کاگمان ہے۔ کفر اس امر سے زیادہ وسعت رکھتا ہے کہ اسے محض جحود میں محصور سمجھا جائے۔ اس لیے کہ بسا اوقات کفر، اعراض اور عدم التفات کے پہلو سے ہوتا ہے، گاہے عناد و تکبّر کی جہت سے اور بعض دفعہ طعن و استہزاء کے پہلو سے۔ اِسی طرح کبھی کفر، مشرکین سے دوستی اور تعاون کی بنا پر ہوتا ہے اور کبھی اللہ عزوجل یا اس کے وعدہ وعید میں شک کی وجہ سے۔ بعض مرتبہ عبادت کی کسی قسم یا نوع کو مخلوق کے لیے بجا لانے سے بھی کفر لازم آتا ہے۔ پس ان تمام اقسامِ کفر کی بنا پر کسی شخص کی تکفیر ممکن ہے، اگرچہ وہ حق کا انکار نہ ہی کرتا ہو یا اپنے قلب و ذہن میں کفر کو حلال نہ ہی سمجھتا ہو۔

اسی طرح ممکن ہے کہ جحود و تکذیب زبان و عمل سے ہو، جیسا کہ دل سے اس کے ہونے کا امکان ہے۔ تمام صورتوں میں اسے کفر جحودہی کا نام دیا جائے گا، اور ا س تمام تفصیل پر نصوص شریعت دلالت کناں ہیں۔

بعض اعمال، محض معاصی ہیں، جو کفر کا باعث نہیں اور نہ ہی ان کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے، الا یہ کہ وہ انہیں حلال اور جائز ٹھہرا لے، مثلاً: زنا، سرقہ اور شراب نوشی وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ضابطۂ اسلام و کفر

جو شخص ہمارے سامنے اپنے اسلام کا اظہار کرے، ہم اس پر مسلمان ہونے کا حکم لگائیں گے اور اس سے مسلمانوں جیسا معاملہ ہی کریں گے۔ اور جو ہمارے سامنے بلا کسی معتبر مانع شرعی کے اپنا کفر ظاہر کرے گا، ہم اس کی تکفیر کریں گے، ظاہری و باطنی طور پر اس پر کفر کا حکم لگائیں گے اور اس سے کافروں جیسا برتاؤ کریں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرتکب ِشرک

شرک توحید کی ضد ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ تم اللہ کی الوہیت و ربوبیت یا اس کے خصائص و صفات میں سے کسی شے میں کسی کو اس کا ہمسر ٹھہرا لو، حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا اور تم پر اتنی نعمتوں کے ساتھ فضل فرمایا، جن کا کوئی حد وشمار نہیں ہے۔

ہم اس شخص کے کفر کا بھی اعتقاد رکھتے ہیں، جو فوت شدہ ہستیوں اور قبروں کی طرف دعا، سوال اور استغاثہ کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے، کیونکہ دعا عبادت ہے، جسے اللہ ذوالجلال کے سوا کسی اور کے لیے بجا لانا جائز نہیں ہے۔ یہی حال اس شخص کا ہے، جو کسی بھی قسم کی عبادت کو مخلوق کی طرف پھیرتا ہے۔
اللہ جل شانہٗ ارشاد فرماتا ہے:
حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَتْہُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَہُمْ۰ۙقَالُوْٓا اَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۭقَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا وَشَہِدُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ اَنَّہُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ .(الاعراف 37:7)
’’یہاں تک کہ وہ گھڑی آجائے گی، جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے پہنچیں گے۔ اس وقت وہ ان سے پوچھیں گے کہ بتاؤ، اب کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کو تم اللہ کے بہ جائے پکارتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ سب ہم سے گم ہو گئے اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی کافرتھے۔‘‘

نیز فرمایا:
قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللہِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَۃُ اَغَيْرَ اللہِ تَدْعُوْنَ۰ۚاِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰ بَلْ اِيَّاہُ تَدْعُوْنَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَيْہِ اِنْ شَاۗءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَۧ (الانعام 41-42:6)
’’ ان سے کہو، ذرا غور کرکے بتاؤ، اگر کبھی تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی ہے یا آخری گھڑی آپہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو؟ بولو اگر تم سچے ہو۔ اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو، پھراگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر ٹال دیتا ہے۔ ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھہراے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو۔ ‘‘

نیز پروردگار ِ عالم نے فرمایا:
قُلْ اِنِّىْ نُہِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۭقُلْ لَّآ اَتَّبِعُ اَہْوَاۗءَكُمْ۰ۙقَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُہْتَدِيْنَ (الانعام 56:6)
’’ اے پیغمبر ! ان سے کہو کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو ان کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے۔ کہو میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا۔ اگر میں نے ایسا کیا، تو گمراہ ہو گیا راہ راست پانے والوں میں سے نہ رہا۔‘‘

ہمارا اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کفر اور شرک کو معاف نہیں کرے گا۔ ان کے علاوہ جوگناہ چاہے گا، معاف فرما دے گا، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ۰ۚوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا (النساء 48:4)
’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں، وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھہرایا، اس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تارکِ عمل

ہم اس شخص کے کفر کے قائل ہیں، جس سے مطلق عمل یا جنسِ عمل ہی مفقود ہے،
کیونکہ اللہ ربّ العزت کا یہ فرمان ہے:
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۰ۭوَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ(آل عمران 31:3)
’’ اے نبی! لوگوں سے کہہ دو کہ ’’ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو ، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘

پس جس نے کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کی اتباع نہیں کی، تو اس سے محبت الٰہی کی بھی مطلق نفی ہوگی اور جس کا یہ معاملہ ہو اس کے کفر میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔

نیز اللہ عزوجل فرماتا ہے:
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى(طٰہٰ 124:20)
’’اور جو میرے ’ذکر ‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔‘‘

نیز فرمایا :
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْہَا اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ. (السجدۃ 22:32)
’’ اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا، جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعہ نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیرے۔ ایسے مجرموں سے ہم انتقام لے کر رہیں گے۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تارکِ نماز

ہم تارک نماز کے کفر کا عقیدہ رکھتے ہیں، اگرچہ وہ دیگر فرائض کی بجا آوری کرتا ہو، کیونکہ اس باب میں صریح آثار اور دلائل منقول ہیں۔

٭ ہم اس شخص کو بدعتی یا گنہگار قرار نہیں دیتے، جو تارک نماز کے کفر کا قائل نہیں، الا کہ وہ اس بنا پر اسے کفر نہ سمجھے کہ نمازعمل ہے اور اس کے نزدیک عمل کو کلیتہً ترک کرنے والا کافر نہیں ہے!
 
Top