• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ طحاویہ - امام ابو جعفر طحاوی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

عقیدہ طحاویہ
از امام ابو جعفر طحاوی

فہرست

1. مختصر حالات امام ابو جعفر طحاوی
2. توحید باری تعالی
3. محمد صلی اللہ علیہ و سلم
4. قرآن کریم
5. رویت باری تعالیٰ (یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار)
6. تنزیہ باری تعالیٰ
7. معراج
8. حوض کوثر ، شفاعت اور عہد ازل
9. علم الہی اور تقدیر
10. لوح و قلم اور نوشتۂ تقدیر
11. عرش و کرسی ، انبیاء اور ملائکہ پر ایمان
12. ذات و صفات میں غور و فکر سے ممانعت
13. گناہ اور ایمان۔۔ امید مغفرت اور خوف عذاب
14. ایمان سے خارج کرنے والی چیز
15. حقیقت ایمان اور مراتب ایمان
16. گناہ کبیرہ
17. گنہ گار فاسق کے بارے میں
18. اطاعت اولی الامر
19. راہ اعتدال
20. بعض مخصوص چیزوں پر ایمان
21. قبر اور سوال و جواب
22. آخرت اور اس کے احوال
23. جنت و جہنم
24. افعالِ عباد
25. نظام کائنات اور مرضی مولی
26. دعا اور اس کے اثرات
27. سب اللہ کے محتاج
28. اللہ کا غضب اور رضامندی
29. صحابہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفاء اربعہ
30. عشرہ مبشرہ
31. بزرگان دین کو اچھے لفظوں سے یاد کرنا
32. کرامات اولیاء
33. علامات قیامت
34. دعوائے غیب کرنے والے کاہن اور نجومی
35. جماعت کی شیرازہ بندی
36. اسلام کی راہ اعتدال
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مختصر حالات امام ابو جعفر طحاوی
بسم اللہ الرحمن الرحیم

سلسلۂ نسب
ابوجعفر احمد بن محمد بن سلامہ بن سلمہ بن عبدالملک بن سلمہ بن سلیم بن سلیمان بن جواب الازدی الطحاوی۔
صحراۓ مصر کی ایک بستی کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے طحاوی نام سے مشہور ہوئے۔
آپ سن ۲۳۹ میں پیدا ہوئے۔
سن بلوغ کو پہنچے تو تحصیل علم کے لیے مصر منتقل ہوئے۔ ابتداء میں اسماعیل بن یحیٰ المازنی سے علم حاصل کیا۔جیسے ہی علم میں وسعت پیدا ہوتی گئ ویسے ہی مسائل فقہ میں انہماک بڑھتا گیا ، امام صاحب نے قریب تین سو شیوخ و اساتذہ سے کسب فیض اور تربیت علم و عمل پائی۔
مصر میں موجود اور نو وارد تمام علماء کی خدمت میں جا پہنچتے اور تبادلۂ خیال کرتے ،
علامہ بن یونس آپ کے بارے میں لکھتے ہیں
امام طحاوی ثقہ ، جید ، عالم فقیہ اور ایسے دانشمند انسان تھے کہ ان کی مثال نہیں۔
علامہ ذہبی فرماتے ہیں :
امام طحاوی بہت بڑے فقیہ ، محدث ، حافظ ، معروف شخصیت ، ثقّہ راوی ، جید عالم اور زیرک انسان تھے۔
امام طحاوی رحمہ اللہ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے طرز استدلال سے بہت زیادہ متاثر تھے اس لیے عمر بھر مسلک حنفی کی نشر و اشاعت کرتے رہے ، اسی بنا پر اپ کوحنفی مسلک کا بہت بڑا وکیل سمجھا جاتا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تصانیف
العقیدۃ الطحاویہ ،
معانی الاثار ،
مشکل الاثار ،
احکام القران ،
المختصر ،
الشروط ،
شرح الجامع الکبیر ،
شرح الجامع الصغیر ،
النوادر الفقہیہ ،
الرد علی ابی عبید الرد علی عیسی بن ابان۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وفات
ذی القعدۃ ۳۲۱ بروز جمعرات اپ نے وفات پائی ،اور قرافہ نامی بستی میں دفن کیے گیے ، رحمۃ اللہ رحمۃ واسعۃ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
توحید باری تعالی صفات باری تعالی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جمیع حمد اس اللہ کے لیے ہیں ، جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔

حجۃ الاسلام امام ابوجعفر وراق طحاوی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
یہ اہل سنت و الجماعت کے عقیدے کا بیان ہے ، جسے ملت اسلاامیہ کے فقہائے عظام امام ؛ ابوحنیفہ نعمان بن ثابت ، امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم اور امام ابو عبداللہ محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے طریق پر ذکر کیا جاتا ہے۔ انہی باتوں کا دین کے اصول کے طور پر وہ عقیدہ رکھتے تھے اور رب العالمین کے بارے میں ان کا یہی دین و ایمان تھا۔

اللہ کی توفیق سے ہم توحید باری تعالی میں اپنا یہ عقیدہ بیان کرتے ہیں:

بلا شبہ اللہ تعالی ایک ہے۔
اس کا کوئی شریک نہیں۔
کوئی شئے اس کی مثل نہیں۔
کوئی چیز اس کو عاجز کرنے والی نہیں۔
وہ قدیم ہے ، اس کی کوئی ابتدا نہیں۔
وہ دائمی ہے ، اس کو کوئی انتہا نہیں۔
وہ فنا ہونے والا اور مٹنے والا (مرنے یا ختم ہونے والا) نہیں۔
دنیا میں وہی کچھ ہوتا ہے ، جس کا وہ ارادہ کرتا ہے۔
انسانی وہم و فکر اس کی حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے ، نہ ہی انسانی فہم اس کی ذات کا ادراک کر سکتی ہے۔
وہ مخلوق کے مشابہ نہیں۔
وہ (تنہا) سب کا خالق ہے ، (اور یہ سب کو پیدا کرنا ان میں سے) کسی کے محتاج ہونے کی وجہ سے نہیں۔
بدون کلفت وہ سب کو روزی دینے والا ہے۔
وہ بے خوف و خطر سب کو موت دینے والا ہے ، اور دوبارہ سب کو پیدا کرنے والا ہے بلا مشقت۔
وہ اپنی جمیع صفات کے ساتھ تخلیق عالم کے قبل ہی سے متصف ہے۔ مخلوقات کی تخلیق سے اس کی صفات میں ایسی کوئی چیز زیادہ نہیں ہوئی جو پہلے نہ تھی ، وہ جس طرح اپنی صفات کے ساتھ ازل سے ہے ، اسی طرح ان صفات سے ابد تک متصف رہے گا۔
" خالق " کی صفت سے اس کا اتصاف تخلیق کے بعد سے نہیں ، (بلکہ پہلے سے ہے) اسی طرح " باری " کی صفت سے اتصاف بریت (مخلوق) کو پیدا کرنے کے بعد سے نہیں ، (بلکہ پہلے سے ہے)۔
" ربوبیت " کی صفت سے وہ تب سے متصف ہے ، جب کہ کوئی مربوب (تربیت پانے والا) نہ تھا اور " خالق " کی صفت سے تب سے متصف ہے جب کہ کوئی مخلوق پیدا بھی نہ کی گئی تھی۔
وہ جس طرح کسی مردے کو زندہ کرنے کے وجہ سے " محی " (زندہ کرنے والا) کہا جاتا ہے اسی طرح اس (صفتی) نام سے زندہ کرنے سے قبل بھی متصف ہے۔اور اسی طرح " خالق " کا (صفتی) نام بھی تخلیق سے قبل ہی اس کو حاصل ہے۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کہ وہ تمام چیزوں پر (پہلے سے) قادر ہے ، اور تمام اشیاء (وجود میں) اسی کی محتاج ہیں۔ اور یہ سب کچھ کرنا اس پر سہل ہے ، اور وہ کسی چیز کا محتاج و ضرورت مند بھی نہیں۔
اس کے مثل کوئی چیز نہیں ، اور وہ سمیع و بصیر ہے۔
مخلوق کو اسی طرح پیدا کیا جیسا کہ وہ جانتا (اور چاہتا) تھا۔
اور ان کی تقدیریں مقدر فرمائیں ،
مدت حیات کی تعیین فرمائی۔
اللہ تعالی پر کوئی شۓ اس کی تخلیق سے قبل بھی پوشیدہ نہ تھی۔
اور جو کچھ یہ کرنے والے ہیں ، وہ اسے تخلیق کے قبل ہی سے جانتا ہے۔
تمام کو اس نے اپنی فرماں برداری کا حکم دیا ہے ، اور نافرمانی سے منع فرمایا ہے۔
اور ہر شئے اس تقدیر اور مشیت کے مطابق ہی چلتی ہے۔ اور (ہر جگہ) اسی کی مشیت (ارادہ) کار فرما ہے ، نہ کہ بندوں کی مشیت و ارادہ۔ ہاں کچھ کسی بندے کے بارے میں اللہ چاہے ، تو جو اللہ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے ، اور جو کچھ وہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔
جس کو چاہے وہ ہدایت دیتا ہے ، اور اپنے فضل سے عافیت و حفاظت دیتا ہے ، اور جسے چاہے وہ گمراہ کرتا ہے اور انصاف کے ساتھ ذلیل و مبتلائے (عذاب)کرتا ہے۔ اور اس طرح تمام ہی لوگ اس کے ارادے کے مطابق اس کے فضل و عدل میں دائر ہیں۔
اللہ تعالی اپنے ہمسروں اور ہم مثل اضداد سے پاک ہے ، (یعنی کوئی ہمسر و ضد نہیں)
کوئی اس کے فیصلہ کو رد کرنے والا نہیں ، اور نہ کوئی کسی بات پر اس کی گرفت کرنے والا ہے ، اور نہ ہی کسی کو اس کے برخلاف غلبہ حاصل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
محمد صلی اللہ علیہ و سلم
محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) یقیناً اس کے منتخب بندے ، خاص نبی، اور پسندیدہ رسول ہیں۔ وہ خاتم النبیین ہیں ، تمام متقیوں (نیکوں) کے امام ، نبیوں کے سردار ، اور پروردگار عالم کے محبوب ہیں۔
آپ کے بعد کسی قسم کا دعوئ نبوت گمراہی اور نفس پرستی ہے۔
آپ تمام جناتوں اور جمیع انسانوں کے لیے دین حق، راہ ہدایت ، نور ایمان اور ضیاء اسلام لے کر بطور نبی مبعوث کیے (بھیجے) گئے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآن کریم
قرآن کلام الہی ہے ، وہ باری تعالی کی ہی فرمائی (تکلم کی) ہوئی بات ہے ، اس کی کوئی کیفیت متعین نہیں ، اپنے رسول پر بطریق وحی نازل فرمایا۔ اور جمیع مسلمان اس بات کی تصدیق کرتے ہیں ، اور یقین رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ تعالی کا حقیقی کلام ہے ، اور مخلوق کے کلام کی طرح مخلوق نہیں ؛ لہذا جو شخص قرآن سنے اور یہ کہے کہ وہ انسان کا کلام ہے تو وہ کفریہ بات کہتا ہے اور ایسے انسان کی اللہ تعالی نے برائی بیان کی ہے اور اسے جہنم (سقر) کی دھمکی دی ہے ، چنانچہ قرآن میں ہے : " ساصلیہ سقر " (میں عنقریب اسے جہنم میں ڈالوں گا)۔ اللہ کی یہ وعید اس شخص کے لیے ہے جو یہ کہتا تھا کہ " ان ہذا الا قول البشر " (کہ یہ تو انسان کی باتیں ہیں) ، پس ہمیں یقین ہے کہ یہ قرآن خالق بشر کا کلام ہے ، اور کسی بشر کے کلام کے مشابہ نہیں۔
اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کو انسانی صفت و حالت سے متصف کرے وہ کفر کرتا ہے ، پس جس شخص نے یہ سمجھ لیا ، اس نے درست کام کیا۔ اور کافروں جیسی باتیں کرنے سے بچ گیا ، اور اس نے جان لیا کہ حق تعالی اپنی صفات میں کسی انسان کے مشابہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

رویت باری تعالیٰ
یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار


حق تعالی کی رویت (دیدار) اہل جنت کو یقینا نصیب ہوگا۔ جس میں ذات باری تعالی کا احاطہ نہ ہوگا اور نہ کوئی کیفیت ہوگی۔ چنانچہ قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے :" وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربہا ناظرۃ" (بہت سے چہرے (لوگ) اس دن تروتازہ اپنے رب کو دیکھیں گے)۔
اس رویت کی کیفیت و تفصیل وہی ہوگی جیسی کہ اللہ کے علم و ارادہ میں ہے۔ اور صحیح احادیث میں اس بابت جو کچھ ہے وہ سب جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ، بر حق ہے اور اس سے رسول اللہ نے جو مطلب مراد لیا وہ سب درست ہے۔ اس مسئلہ میں ہم اپنی رائے سے تاویل و وضاحت نہیں کرتے اور نہ اپنی مرضی کے خیالات باندھتے ہیں۔ اس لیے کہ دین کی ایسی باتوں میں وہی شخص سلامت رہتا ہے جو اپنے کو اللہ و رسول کے حوالے کر دے اور ایسی مشتبہ چیزوں کی حقیقت کو اس کے جاننے والے (اللہ و رسول) کے حوالے کر دے۔
اسلام پر وہی شخص ثابت قدم رہ سکتا ہے جو قرآن و سنت کے سامنے سر تسلیم خم کر کے خود کو ان کے حوالے کر دے ، لہذا جو شخص ایسی چیزوں کی تحقیق و خوض میں مشغول ہوگا ، جس کی فہم اس کو نہیں دی گئی تو وہ توحید خالص ، معرفت صافیہ اور ایمان صحیح سے دور ہی رہے گا ، اور کفر و ایمان ، تصدیق و تکذیب ، اور اقرار و انکار میں ڈانوا ڈول، گرفتار وسوسہ ، حیران و پریشان اور مبتلائے شک و تردد رہے گا۔ اور نہ تو مومن مخلص بن پائے گا نہ منکر جاحد۔
جنتیوں کو دیدار الہی نصیب ہونے کے عقیدہ پر اس شخص کا ایمان صحیح نہ کہلائے گا ، جو اس دیدار کو وہمی کہے یا اپنی فہم سے کوئی دوسری تاویل کرے۔
رویت باری تعالی اور دیگر تمام صفات باری تعالی میں صحیح تاویل (مطلب) یہی ہے کہ (انسانی) تاویلات کو ترک کر کے کتاب وسنت کو تسلیم کر لیا جائے۔ اور یہی مسلمانوں کو دین ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تنزیہ باری تعالیٰ


(یعنی باری تعالی کا صفات کاملہ سے متصف ہونا اور صفات نقص سے پاک ہونا)

جو شخص جناب باری تعالی کی صفات کی نفی کرنے سے نہ بچا اور (اسی طرح) وہ شخص جو صفات کو مشابہ مخلوق قرار دینے سے نہ بچا وہ گمراہ ہوا اور " تنزیہ " کے راستہ پر نہ چلا۔
باری تعالی یکتائی صفات سے متصف اور منفرد اوصاف کے حامل ہیں۔ مخلوق میں کوئی اس جیسی صفات والا نہیں۔
باری تعالی حد ، انتہاء ، حصے ، اعضاء ، اور ادوات (جوارح) سے پاک ہے۔
جہات ستہ (فوق ، تحت ، یمین ، شمال ، قدام ، خلف) میں سے کوئی جہت باری تعالی کا احاطہ نہیں کرتی ، جیسا کہ مخلوقات کا احاطہ کرتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
معراج

معراج حق ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو رات میں معراج کرائی گئی ، اور بحالت بیداری نبی کریم صلی اللہ کو بنفس نفیس آسمان پر لے جایا گیا ، اور پھر وہاں سے جہاں جہاں اللہ تعالی نے چاہا۔ اس موقع پر اللہ تعالی نے اپنی شایان شان آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا استقبال فرمایا ، اور جو کچھ چاہا اس کا حکم (وحی) فرمایا۔ وصلی اللہ علیہ فی الاخرۃ والاولی (آپ پر درود ہو ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی)۔
 
Top