السلام علیکم ورحمة الله ۔ مجھ سے اک بھائی نے سوال کیا ہے کہ میری شادی ہے اور تو کیا میں عقیقہ دینا چاھوں اور اسی گوشت سے ولیمہ بھی کر لوں تو کیا یہ درست ہو گا۔
یاں مجھے عقیقہ الگ۔۔ اور ولیمہ الگ کرنا چاہیے۔۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ ؛
عقیقہ کیلئے مستقل علیحدہ جانور ہونا چاہیئے ، اور وہ
بھی صرف بکری، مینڈھا اور دنبہ سے ہی کیا جانا چاہیے جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔بھینس ، گائے اور اونٹ ذبح کیے جانے کے متعلق کوئی صحیح اورقابل اعتماد حدیث موجود نہیں ہے۔لہٰذا اس مسئلہ میں اکثر علمائے سلف و خلف، ائمہ حدیث اور مجتہدین کا عمل اور فتویٰ یہی ہے کہ بھیڑ،یا بکری یا دُنبہ کے علاوہ کسی دوسرے جانور سے عقیقہ کرنا سنت مطہرہ سے ثابت اور صحیح نہیں ہے۔
(جان کے بدلے جان ) اسلئے عقیقہ الگ۔۔ اور ولیمہ الگ کرنا چاہیے۔۔
(
أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَهُمْ عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَأُمِّ كُرْزٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَسَمُرَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَنَسٍ، وَسَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَفْصَةُ هِيَ: بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی الله عنہا نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حفصہ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی بیٹی ہیں، ۳- اس باب میں علی، ام کرز، بریدہ، سمرہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، انس، سلمان بن عامر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
سنن الترمذی، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۱ (۳۱۶۳)، (تحفة الأشراف : ۱۵۱۳)، و مسند احمد (۶/۳۱، ۱۵۸، ۲۵۱)
وضاحت: ۱؎ : عقیقہ اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جو نومولود کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصل میں عقیقہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں نومولود کے سر پر نکلتے ہیں، اس حالت میں نومولود کی طرف سے جو جانور ذبح کیا جاتا ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ عقیقہ «عق» سے ماخوذ ہے جس کے معنی پھاڑنے اور کاٹنے کے ہیں، ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ اس لیے کہا گیا کہ اس کے اعضاء کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں اور پیٹ کو چیر پھاڑ دیا جاتا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی چاہیئے،
حدیث شریف میں وارد لفظ «شاة» کا تقاضا ہے کہ وہ بڑی عمر کا ہو۔ اور لفظ «شاة» کا یہ بھی تقاضا ہے کہ گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز نہیں، اگر گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز ہوتے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف «شاة» کا تذکرہ نہ فرماتے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3163)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے عقیقہ میں بھیڑ اور بکری ہی کو ذبح کرنا مشروع ہے !
عقیقہ میں بھیڑ اور بکری ہی کفایت کرتی ہیں، ان کے علاوہ اونٹ گائے وغیرہ کا عقیقہ نبیﷺ سے ثابت نہیں، دلائل حسب ِذیل ہیں :
1. امّ کرز سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
«عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ، وَ عَنْ الْجَارِیَةِ وَاحِدَةٌ، لاَ یَضُرُّ کُمْ ذُکْرَانًا کُنَّ أَوْ إِناثًا»
"(عقیقہ میں) لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے، بکریوں کا مذکر یا مؤنث ہونا تمہارے لیے نقصان دہ نہیں۔"
( جامع ترمذی : ۱۵۱۶؛ سنن ابن ماجہ : ۳۱۶... إسنادہ صحیح )
اور سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کا بیان ہے :
«عَقَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ بِکَبْشَیْنِ بِکَبْشَیْنِ»
"رسول اللہﷺ نے حسن و حسینؓ کی طرف سے دو دو مینڈھے ذبح کیے۔"
(سنن نسائی : ۴۲۲۴... إسنادہ صحیح )
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ دو جنسوں: بھیڑ اور بکری ہی کا عقیقہ مسنون و مشروع ہے اورعقیقہ میں گائے اور اونٹ کفایت نہیں کرتے،
نیز قولِ سيده عائشہؓ بھی اس مفہوم کی تائید کرتا ہے جيسا كہ عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابو ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ عبد الرحمٰن بن ابی بکرؓ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو عائشہؓ صدیقہ سے کہا گیا : اے امّ المومنین!
«عَقِّی عَنْهُ جَزُوْرًا، فَقَالَتْ : مَعاَذَ اللهِ! وَلٰکِنْ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ شَاتَانِ مُکَافَئَتَانِ»
"اسکی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کریں، اس پر اُنھوں نے کہا : معا ذ اللہ ! بلکہ (ہم وہ ذبح کریں گے) جو رسول ﷺ نے فرمایا ہے: ( لڑکے کی طرف سے) دو ایک جیسی بکریاں۔"
( سنن بیہقی: ۹؍۳۰۱ إسنادہ حسن... عبد الجبار بن ورد صدوق راوی ہے۔ )
عقیقہ میں گائے اور اونٹ ذبح کرنا ثابت نہیں اور جس روایت میں عقیقہ میں گائے اور اونٹ ذبح کرنے کی مشروعیت ہے وہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے۔ اور وہ یہ کہ سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
«مَنْ وُلِدَ لَهُ غُلاَمٌ فَلْیَعُقَّ مِنْ الإِْبِلِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الْغَنَمِ»
"جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو وہ (عقیقہ میں) اونٹ، گائے یا بھیڑ بکری ذبح کرے۔"
1۔اس روایت میں امام طبرانی کے اُستاد ابراہیم احمد بن مرادی واسطی ضعیف ہیں۔
2۔عبد الملک بن معروف خیاط مجہول ہے۔ 3۔ مسعدہ بن یسع باہلی کذاب ہے۔
4۔ حریث بن سائب تمیمی اور حسن بصری کی تدلیس ہے۔