• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق پر اعتماد کیا تقلید ہے؟

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
تویہی سوال آپ سے ہے کہ ایک عامی مقلد کو کیسے پتہ چلے گا کہ میرے امام صاحب کس کس مسئلہ میں خطاء اور کس میں صواب پر ہے ؟
اس طرح کوئی بات نہیں ہوتی، پہلے زیر بحث موضوع طے ہوجانے دیجئے، جوسوالات اٹھائے گئے ہیں ان کے جوابات مل جانے دیجئے،یاکم ازکم اعتراف ہی کرلیجئے کہ ان سوالات کے جوابات ہمارے پاس نہیں ہیں، پھر سوال کیجئے،ہم بڑے شوق سے جواب دیں گے لیکن درمیان بحث میں یہ خلل اندازی نامناسب ہے، اس طرح بات کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتی۔
 
شمولیت
جنوری 03، 2014
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
59
آپ کا خیال ہے کہ ائمہ متقدمین نے جن مسائل کااستنباط کیاہے وہ بغیر دلیل کے ہی کیاہے؟اگریہی خیال ہے جیساکہ ظاہرہوتاہے تو نہایت غلط خیال ہے
محترم عرض ہے یہ ہمارا خیال نہیں ہے بلکہ آپ کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کیوں کہ آپ نے کم از کم دو بار
اگرائمہ متقدمین کی فقہی آراء کو دلیل جانے بغیرماننا تقلید ہے
اگر کوئی کسی فقہ کےا مام کی رائے پر اعتماد کرے،دلیل جانے بغیر اس کی رائے کی پیروی کرے
آئمہ متقدمیں کی آراء کو بغیر دلیل کے منوانے پر بضد ہیں۔ اس لیے ہمارا خیال غلط نہیں بلکہ آپ کی باتوں میں غلطی موجود ہے۔

پوراعالم اسلام اس پر تقریبامتفق ہے کہ یہ حضرات جنہوں نے مسائل کااجتہاد کیامجتہد تھے
الحمد اللہ ہم بھی اس بات سے تقریباََمتفق ہیں۔

اوران کا مجتہد ہوناہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ وہ صاحب علم وتحقیق تھے اور صاحب علم وتحقیق کبھی کوئی رائے بغیر دلیل کے اختیار نہیں کرتا۔
یہ بات بھی حق ہے کہ آئمہ صاحبِ علم وتحقیق تھے۔ جہاں تک امام ابوحنیفہ کا تعلق ہے تو ان کے علم و تحقیق جاننے کے لیے اگر امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کی کتاب (الجرح و تعدیل جلد 1 ص 4 اور 12) کو دیکھ لیا جائے تو میرے خیال میں زیادہ بہتر ہوگا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محمد علی جواد صاحب !لکھنے کے بعد ایک مرتبہ نظرثانی ضرور کیاکیجئے،ہوسکتاہے الفاظ کے ساتھ ساتھ فکر کی بھی اصلاح ہوجائے، ورنہ آپ کی تحقیق اتنی ہی دقیق ہوگی جتناکہ آپ نے لکھاہے

اپنی تحریر پر خود غورکرلیاکریں،ورنہ اس فورم کے ایک علمی نگراں صاحب اس طرح کی ٹائپنگ کی غلطیاں دیکھ کر بہت دور تک پہنچ جایاکرتے ہیں۔

اگر کتب مصطلح حدیث کی تھوڑی ورق گردانی کی زحمت گواراکرلیاکریں تو معلوم ہوگاکہ راوی پر محدثین کا حکم لگانا زیادہ تراجتہادی ہوتاہے،کم تر غیراجتہادی ہوتاہے،ایک شکل تویہ ہے کہ کسی امام یامحدث نے کسی راوی کو جھوٹ بولتے ،غلط کام کرتے دیکھاتواس کا ذکر کردیا،یہ تو گواہی کے قبیل سے ہے،لیکن راوی پر زیادہ ترحکم اس طرح لگایاجاتاہے کہ ایک محدث یاحدیث کاامام کسی راوی کی تمام مرویات کو جمع کرتاہے اوراس کی مرویات کا تقابل اس کے شیوخ کے ساتھ شریک دیگر روات کی روایت سے کرتاہے اوراس بنیادی پر وہ راوی پر ضعیف یاثقہ کاحکم لگاتاہے اوریہ اجتہادی امر ہے جس کی صراحت امام ترمذی سے لےکر ابن تیمیہ تک سبھی نے کی ہے۔اس کو غیراجتہادی کہناصرف یہ بتاناہے کہ آپ نے اس موضوع پر مطالعہ نہیں کیاہے۔

یہ ایک عامی شخص کو کیسے معلوم ہوگا؟یاتو ہرشخص محدث بن جائے جوممکن نہیں اور جب ہرشخص محدث نہیں بن سکتاتواسے کیسے معلوم ہوگا اورکیسے اطمینان ہوگاکہ یہ روایت ان اصول وضوابط پر پورااتررہی ہے جو محدثین نے وضع کیاہے؟

اولاتو احادیث کے صحت وضعف میں خود محدثین میں اختلاف ہے، اصول حدیث میں سے بھی بعض اصولوں میں اختلاف ہمیں ملتاہے جو کتب مصطلح حدیث میں موجود ہے،پھر احادیث کااجماعی موقف ایک عامی کو کیسے معلوم ہوگا، یاتو وہ تحقیق کرے کہ دیگر تمام محدثین نے اس حدیث کے تعلق سے کیاہے اورپھر اس کو البانی کے حکم سے ملاکردیکھئے، اس کی فرصت کتنے افراد کو حاصل ہے؟
فرصت کی بات چھوڑدیں ،البانی نے جس حدیث پر صحت کا حکم لگایاہے وہ حدیث محدثین کے اجماعی موقف کے مخالف ہے یاموافق ہے اس کی تحقیق کی صلاحیت کیاہراہلحدیث کو حاصل ہے؟اگرہاں میں جواب ہے تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوراگرنامیں جواب ہے تو پھر بات وہیں اٹک جاتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی ،تواس طویل مراسلے کا فائدہ کیاہوا

کاش یہ جملہ تحریر کرنے سے قبل اس پر غورکرتے اور سوچتے کہ میں کیالکھ رہاہوں،کیاائمہ مجتہدین نے جومسائل وضع کئے ہیں وہ ان کی ذاتی آراء ہیں، اناللہ واناالیہ راجعون۔یہ ایک فطری چیز ہے کہ خالی گھڑا میں تھوڑا پانی زیادہ شور کرتاہے اور سمندر اپنی بے پناہ وسعت کے باوجود بیشتر پرسکون اورخاموش رہتاہے ،ہماری خواہش یہ ہے کہ
کیف پیداکرسمندر کی طرح
وسعتیں ،خاموشیاں،گہرائیاں​
امام ابوحنیفہ کو ہم چھوڑدیتے ہیں ان پرآپ کو اعتماد نہیں ہے لیکن دیگر ائمہ فقہاء جوگزرے ہیں ان کے تعلق سے بھی آپ کی رائے اگریہ ہے کہ ان کے ذکر کردہ فقہی مسائل ان کی ذاتی آراء ہیں تویہ نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ ان کے ساتھ بھی ظلم ہے اور میں کہوں گاکہ یہ ان کی توہین بھی ہے۔
حضرات ائمہ مجتہدین اس سے بہت دور تھے کہ وہ فقہی مسائل محض اپنی رائے کے طورپر ذکر کریں
اصل غلط فہمی یہ ہوئی ہے کہ بعض حضرات مجتہدین نے تواضع اورانکساری کے طورپر (جوایک مومن مخلص کی شان ہونی چاہئے)فقہی مسائل کو اپنی رائے کے طورپر بیان کیا،اس کو صحیح تناظر میں دیکھنے کے بجائے اس کو واقعتا ان کی ذاتی رائے سمجھ لینا کم فہمی ہے،جیسے کہ آپ کے ایک وسیع المطالعہ والعلم استاد اپنے کو احقر العباد لکھتے ہیں،توکیااپ بھی ان کو احقر العباد سمجھناشروع کردیں گے؟آپ کاایک بزرگ جس نے بڑی خدمات انجام دی ہیں، تواضع اورانکساری میں کہتاہے کہ میں نے کچھ نہیں کیاتوکیا واقعتاآپ یہ سمجھ لیں گے کہ اس نے کچھ نہیں کیا،جملوں کو ،تحریروں کو صحیح تناظرمیں پڑھنے اورسمجھنے کی عادت ڈالیے ،اس طرزفکر سے کسی دوسرے کا کچھ نقصان توہونے سے رہا،خوداپنارہاسہابھرم بھی ختم ہوگا۔

عموماًغیرمقلد یہ اعتراض کرتے ہیں لیکن اس طرح کے جملوں کا صحیح پس منظر یاتوانہیں معلوم نہیں ہوتایاپھر وہ تجاہل عارفانہ برت کر عوام کو مغالطہ میں رکھنااورڈالناچاہتے ہیں،
اس طرز کے اوراس قبیل کے جتنے جملے ہیں کہ میری رائے کے خلاف جب حدیث مل جائے توپھر اس کو دیوار پر ماردو،میرے رائے پر پیشاب کردو،میری رائے کی دلیل جانوپھراس پر عمل کرو،بغیر دلیل جانے میری رائے اختیار نہ کرو،وغیرذلک،آپ غورکریں گے توپائیں گے کہ اس طرح کے تمام جملے ہرایک امام نے اپنے انہیں شاگردوں سے کہاہے جوعلم میں ان کے جانشیں تھے،خود بھی بڑے صاحب علم تھے،مجھے باوجود تلاش اورجستجو کے کہیں یہ بات نہیں ملی کہ کسی ایک مجتہد نے بھی کسی عامی یاکسی جاہل سے یہ بات کہی ہے کہ میری رائے پر عمل مت کرو ،میری رائے کے خلاف حدیث دیکھوتو اسے دیوار پر ماردووغیرذلک۔یہ ہمیں بتاتاہے کہ ان بزرگوں نے ،ان فقہاء نے ،ان مجتہدین نے اس باب میں عوام اورخواص کے درمیان فرق کیاہے۔اہل علم کو اجازت دی ہے کہ وہ ان کی رائے سے اختلاف کریں، ان کی رائے کا دلائل کی روشنی میں جائزہ لیں اورترک واختیار کافیصلہ کریں لیکن عوام کیلئے انہوں نے یہی بات پسند کی ہے کہ وہ علماء سے مسائل پوچھ کرعمل کریں،خود رائی سے کام نہ لیں۔
محمد علی جواد اور دیگر صاحبان جو اس بحث میں حصہ لیناچاہتے ہیں،ان سے گذارش ہے کہ وہ بحث برائے بحث سے پرہیز کریں۔
وماتوفیقی الاباللہ
محترم -

محدثین کا حکم تو راوی کے بارے میں اجتہادی ہوتا ہے- لیکن یہ اجتہاد بھی تو آخر تحقیق پر مبنی ہوتا ہے- ایک محدث اپنی ذاتی راے سے تو راوی پر حکم نہیں لگاتا - آپ مقلدین جس نیت سے بات کررہے ہیں اس سے تو پورا ذخیرہ حدیث ہی مشکوک ہو جاتا ہے - اب جو چاہے محدث کے اجتہاد پر اعتماد کرے اور جو چاہے رد کردے؟؟ اس بات سے مقصد مقلد کا یہی ہوتا ہے کہ عوام کو بے وقوف بنا کران کو تقلید کا باطل جواز فراہم کیا جا سکے- حالانکہ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ "معتبر کی گواہی کو قبول کرنا کتاب و سنت سے ثابت ہے یعنی ہم گواہ کی گواہی کو اتباعِ سنت میں قبول کرتے ہیں نہ کے کسی کی تقلید میں-

اس کے برعکس آئمہ متقدمین کے فرمودات ان کی راے پر مبنی ہیں - امام ابو حنیفہ کا یہ کہنا کہ " اے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو، میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔ (تاریخ بغداد 424/13 ،تاریخ ابن معین 2/607 وسندہ صحيح) - اس بات کو روز روشن کی طرح واضح کررہا ہے کہ انہوں نے اپنی بات کو راے قرار دیا ہے نہ کہ اجتہاد -اجتہاد میں ظن غالب ہوتا ہے جب کہ راے میں ظن غالب نہیں ہوتا - اسی لئے امام صاحب نے فرمایا کہ ایک دن اگر میری ایک راے ہوتی ہے تو دوسرے دن وہ بدل بھی سکتی ہے- ہم کب کہتے ہیں کہ آئمہ متقدمین کے فرمودات بغیر "تحقیق" کے ہیں ہے-ان کی تحقیق یقیناً قابل قدر ہے- لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اجتہاد فتویٰ کی بنیاد ہے- جب کہ رائے پر فتویٰ قائم نہیں کیا جاتا -خلفاء راشدین کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جب ان میں بھی کسی حدیث کے بارے میں نزاع ہوتا تو وہ گواہ طلب کرتے تاکہ اس بات پر اطیمنان ہو جاتے کہ یہ بات نبی کریم صل الله علیہ وآ له وسلم سے صحیح طور پر مروی ہے یا نہیں- اور وہ جو فتویٰ صادر کرتے تھے وہ اپنی اجتہادی تحقیق کے بعد قرآن واحادیث کی روشنی میں ہی صادر کرتے تھے (اگرچہ ان کے اجتہاد میں خطاء کا احتمال بھی تھا)- جب کہ راے کے بارے میں ایسا نہیں ہوتا - حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے امیرالمونین ابو بکرصدیق رضی الله عنہ کو معدنین زکات کے بارے میں راے دی کہ ان پر تلوارنہ اٹھائی جائے کیوں کہ یہ کلمہ گو ہیں - لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنے اجتہادی فتویٰ کی بنیاد پرحضرت عمر رضی الله عنہ کی راے کو مسترد کردیا اور ان معدنین زکات سے تلوار کے ساتھ جہاد کیا-

آپ کہتے ہیں کہ کسی " مجھے باوجود تلاش اورجستجو کے کہیں یہ بات نہیں ملی کہ کسی ایک مجتہد نے بھی کسی عامی یاکسی جاہل سے یہ بات کہی ہے کہ میری رائے پر عمل مت کرو ،میری رائے کے خلاف حدیث دیکھوتو اسے دیوار پر ماردووغیرذلک ۔یہ ہمیں بتاتاہے کہ ان بزرگوں نے ،ان فقہاء نے ،ان مجتہدین نے اس باب میں عوام اورخواص کے درمیان فرق کیاہے"-

تو محترم اگر آپ تقلید کے جواز میں یہ بھونڈی مثال پیش کررہے ہیں تو میں کہوں گا کہ یہ آپ کی کم فہمی ہی ہے اور کچھ نہیں- عامی تو آئمہ اربعہ کے وجود سے پہلے بھی اس دنیا میں موجود تھے- نا صرف دنیا میں بلکہ قرون اولیٰ میں بھی عامی طبقہ موجود تھا جو سلف و صالحین اور مجتہد صحابہ کرام، اور تابعین کے نقش قدم پر اپنی زندگی گزارنے کی حتی الامکان کوشش کرتا تھا- جس کا ہمیشہ یہ طریقہ رہا ہے کہ اپنے متبعین حق علماء کے پاس تصفیہ طلب مسائل لیکر جاتے اور متعلقہ مسئلے کے بارے میں قرآن و حدیث کا حکم معلوم کرتے اور اس پر عمل کرتے- لیکن اس مبارک اور با برکت دور میں ہمیں دور دور تک "تقلید" نام کی چیزکا کوئی اتا پتا نہیں ملتا-

دوسری بات یہ کہ اگر بالفرض محال آپ کا یہ بھونڈا جواز مان بھی لیا جائے کہ ایک عامی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ قرآن و احدیث نبوی کے علم کا صحیح ادرک کرسکے اور خود سے اجتہاد کرے یا دینی مسائل کو سمجھ سکے اور نہ اس کے پاس اتنی فرصت ہوتی ہے کہ دین کا دقیق علم حاصل کرسکے تو اس لئے اس پر کسی ایک امام کی پیروی لازم ہو جاتی ہے تا کہ گمراہی سے بچ جائے - تو پھر سوال ہے کہ بالفرض اگر ایک عامی تحقیق کرتے ہوے علم کے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ خود سے اجتہاد کرسکے یا فقہی مسائل سے انسباط کرسکے اور فتویٰ صادر کرسکے قران و حدیث کی روشنی میں- تو کیا اس کے بعد بھی وہ تقلید کا پٹہ اپنے گلے میں پہنے رہے یا اس کو اتار پھینکے؟؟- کیوں کہ ہم تو یہی دیکھتے آے ہیں کہ مقلدین کی اکثریت عامی سے عالم اور عالم سے مجھتہد بن بیٹھی لیکن تقلید اور حنفیت کا پٹہ مرتے دم تک ان کے گلے میں پڑا رہا -

تیسری بات یہ کہ جن آئمہ اربعہ کی تقلید کا ڈھنڈھورا احناف بڑی شد و مد کے ساتھ پیٹتے ہیں - وہ اس بات کا کیا جواب دینگے کہ یہ آئمہ اربعہ خود ایک وقت میں عامی تھے - ظاہر ہے کہ یہ محترم شخصیتیں پیدائشی طور پر تو مجھتہد نہیں تھیں- تو پھر کیا ان سے تقلید کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے؟؟ اگر نہیں تو پھر ثابت کیجئے کہ یہ آئمہ بھی کسی نہ کسی کے مقلد تھے؟؟ (اب یہ نہ کہیے گا کہ بخاری و مسلم سے پہلے حدیث کا وجود نہیں تھا اس کے تقلید کا جواز سے کوئی تعلق نہیں ہے)-

چوتھی بات یہ کہ جن شاگردوں نے ان آئمہ اربعہ وغیرہ سے اختلاف کیا وہ کس بنیاد پر کیا؟؟ جب کہ آپ کا دعوی ہے کہ چوتھی صدی ہجری میں چار آئمہ کی فقہ پر اجماع ہو چکا کہ اسی پرعمل کیا جائے گا - (اس سے باہر کسی فقہ کا کوئی وجود ناقبل تسلیم ہے)- ظاہر ہے پھر تو ہر امام کا شاگرد اپنے استاد کی فقہ کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کا ہر صورت پابند ہے - پھر ان سے اختلاف کیوں - زیادہ سے زیادہ وہ باقی تین آئمہ کی فقہ سے اختلاف تو کر سکتا ہے لیکن اپنے امام کی فقہ سے اختلاف اس کے لئے جائز نہیں؟؟-

یہ بات جن لیں میں بھی بحث براے بحث کا قائل نہیں - صرف اپنی اور بھائیوں کی اصلاح درکار ہے-

والسلام -
 
Last edited:
Top