• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علمائےاہل حدیث کا ذوق تصوف

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
واہ جی واہ! قارئین حضرات ذرا اس شخص کی "پہاڑ" دلیل دیکھیں جو دے کر اس نے "میدان مار لیا" ہے۔
اگر یہ شخص تصوف کی دلیل دیتے ہوئے لکھتا:




تو میں، محمد علی جواد بھائی اور محمد فیض الابرار بھائی قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ لیکن قرآن و حدیث سے دلیل دینا اس صوفی کے بس میں کہاں؟ یہ قرآن و حدیث پڑھتا تو کیا صوفی رہتا؟

اس کا سارا زور اہلحدیثوں کو صوفی بنانے پر ہے، پتہ نہیں یہ نیا فتنہ کہاں سے اٹھا ہے، ویسے سوچنے کی بات ہے اگر یہ اتنی محنت، اتنا وقت قرآن و حدیث کو فہم صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کے مطابق سمجھنے میں کرے تو کتنا فائدہ ہو

اللہ ہمیں فضول کاموں سے بچا کر مثبت اور مسنون کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
دیکھےارسلان صاحب آپ فقط بحث برائےبحث کر رہے،اب یہ حوالہ بھی فتویاہلحدیث سےہے،پھرجس فتنہ کو آپ نیا کہ رہے ہیں اگروہ فتنہ تو اہلحدیث تمام علماء فتنہ گرہوئے،شرم کامقام ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
www.ubqari.org یہاں سب کچھ موجود ہے
مختصرا بیان کریں اتنا پڑھنے کا وقت نہیں ہے۔ مختصر کر کے عقائد و اعمال اور آپ جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں ان کو ٹو دی پوائنٹس بیان کر دیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آپ سے کیا گفتگو کی جائے یہ تو آپ کی حالت کہ ادھر ادھر سے کاپی پیسٹ کر لیا،اگر بات کرمی دو ٹوک بات کرو اور ایک موضوع کو لیکر چلو ،منکرین تصوف ہونا ہی اتنی بد نصیبی ہے کہ ان پر علم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ۔
عامر صاحب میں نے محدث فورم ویب سائٹ کے مختلف آپشن کے استعمال سے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ عیب نہیں ہے مجھے ایک بات کا علم نہیں سو میں نے لکھ دیا میرے نزدیک یہ میرے دین کی تعلیمات سے ایک اصول ہے اور اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک علم ہونے کی سب سے بڑی دلیل انٹر نیٹ کا مکمل استعمال پر عبور حاصل ہونا ہے تو پھر ایسے علم پر ہماری جانب سے سات حرف!!!!!!!!!!!!!
اور میں ایک ہی موضوع پر بات کر رہا ہوں کہ تصوف کی اصطلاح کو کتاب و سنت سے ثابت کرو وہ تو آپ سے ابھی تک ہو نہیں سکا میں بھی دیکھتا ہوں کہ آپ کب تک میرے اس سوال سے فرار حاصل کرتے رہو گے۔ اور الحمدللہ میں منکرین تصوف سے ہوں کہ میں اس یونانی فلسفہ حیات کو صراحت کے ساتھ گمراہی اور کفر سمجھتا ہوں اور اس پر مجھے اطمئنان قلب بھی حاصل ہے اسی لیے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ پہلے لفظ تصوف کو ثابت کرو وہ تو آپ سے ہو نہیں سکا اور قیامت تک ثابت نہیں کر سکو گے اور آپ کے پاس میرے صرف ایک اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ پہلے آپ ادھر ادھر کی باتیں کرتے تھے اور اب میری ذات پر طعن اور استھزا شروع کر دیا ہے اس سے مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ لاجواب ہو چکے ہو ۔
کیونکہ جس آدمی کو جواب معلوم ہو وہ اتنی دیر نہیں لگاتا اور لاجواب آدمی کی ایک علامت ہوتی ہے کہ وہ معیار سے اتری ہوئی گفتگو شروع کر دیتا ہے اور مخالف کی ذات پر حملے شروع کر دیتا ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص44پر ہے۔ہمارے اہل حدیث عالم و صوفی سید عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ علیہ ست طریقت اور شریقت کے متعلق پوچھا گیا تو کیا خوب آپ نے جواب دیا،سبحان اللہ ہمارے علماء ایلحدیث تصوف وسلوک کسی سے کم نہیں ہیں چند اقتباس پیش کرتا ہوں،فرماتے ہیں:۔
رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور اس کے بعد خیر قرون میں شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت وغیرہ کوئی خاص اصطلاح نہ تھیں۔ صرف شریعت کا لفظ دین کے معنی میں استعمال ہوتا تھا باقی الفاظ قریباً اپنے لغوی معنی پر تھے۔ اس کے بعد جیسے فقہ والوں نے احکام کے درجات بتلانے کی غرض سے فرض واجب وغیرہ اصطلاحات مقرر کی ہیں۔ اسی طرح صوفیائے کرام نے تہذیب اخلاق یعنی علم تصوف میں سلوک عبد کے درجات کو ظاہر کرنے کی غرض سے یہ الفاظ مقرر کیے۔ مثلاًشریعت عقائد اور ظاہری احکام کا نام رکھا جیسے نماز۔۔۔ روزہ وغیرہ۔ طریقت ان پر عمل کرنے میں ریاضت اور مجاہدۂ نفس کرنا اور اپنے اندر اخلاص اور للٰہیت پیدا کرنا۔ حقیقت ان کے اسرارپر مطلع ہوکر اپنا عمل اس کے مطابق کرنا جیسے شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغۃ میں ان احکام کے اسرار لکھے یا نفس اور دل کے امراض پر مطلع ہو کر ہر ایک مرض کا مناسب علاج کرنا اور باطنی صحت قائم رکھنے کے اسباب پیدا کرنا۔ معرفت کشف اور مراقبہ کی حالت ہے۔ جو یقین اور اطمینان قلبی کا اعلیٰ مقام ہے۔ اس وقت اللہ کے سوا کسی شے کی طرف نظر نہیں رہتی اور ذکر الہی میں وہ حلاوت اورلذت پاتا ہے کہ کوئی لذت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی بلکہ ذکر الہی ایک طرح سے اس کی غذا ہوجاتا ہے جس کے بغیر اس کی زندگی مشکل ہے۔
مثال ان چاروں مراتب کی مثال درخت کی سی ہے۔ مثلاً درخت کے لئے جڑیں اور تنا ہے ان کے بغیر درخت کا وجود ہی نہیں۔ پھر ٹہنے اورشاخیں ہیں یہ بھی درخت کےلئے لازمی ہیں۔ پھر پھل ہے پھر اس کی لذت ہے۔ ٹھیک اسی طرح تصوف ہے۔ شریعت کے بغیر تو تصوف کوئی چیز ہی نہیں۔ نہ وہاں طریقت ہے نہ حقیقت نہ معرفت کیونکہ شریعت بمنزلہ جڑ اور تنے کے ہے۔ اس کے بعد طریقت کا مرتبہ ہے جو بمنزلہ ٹہنوں اورشاخوں کے ہے۔ اس کے بغیر بھی تصوف کالعدم ہے۔ پھر حقیقت پھل کے قائم مقام ہے اورمعرفت اس کی لذت کے قائم مقام ہے۔ جیسے درخت پھل اور اس کی لذت کے بغیر کامل نہیں اس طرح بندہ بھی خدا کے نزدیک کمال کو نہیں پہنچتا جب تک اس کے اندر حقیقت اور معرفت پیدا نہ ہو جائے۔
اور خلاصہ میں فرماتے ہیں:۔
خلاصہ خلاصہ یہ کہ شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت خواہ الگ الگ شاخیں ہوں یا ایک ہوں اور الگ ہونے کی حالت میں چارہوں یا کم ہوں۔ کسی صورت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ جو ایک دوسرے سے جدا ہونے کے قائل ہیں وہ ان کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اللہ ان کو سمجھ دے اور راہ راست کی توفیق بخشے۔ آمین ۔بحوالہ فتوی اہل حدیث۔
بھائی یہ ہما رے نزدیک تصوف ہے ،آپ اس پر جو آپکو اعتراض وہ پیش کریں، اس میں دوسری بات یہ کہ یہ ایک اہلحدیث کا فتوی ہے ،نمبر2 ان کے تعلق تصوف کا ثبوت ہے ،
اب آپ ان کے صوفی ہونے کی وجہ سے کفر ،بدعتی ،جائل ہونے کا فتو ی پیش کریں۔
(گفتگو اسی دائرے میں رہ کرنی ہے کاپی پیسٹ کے بجائے دو ٹوک جواب دینا ہے)
حافظ ابن حجرؒ کا نام میں نے اس لئے لیا کہ وہ محدث بھی تھے ،جب انکی سند میں صوفیاء کا نام آئے گا تو آپکے نزدیک وہ کافر بدعتی مشرک ہوئے تو پھر میں آپ سے پو چھوں گا کہ تواتر توارث سے سند حدیث ثابت کرو ،تو پھر میں دیکھو ں گا کہ کافر مشرک کون ہوتے ہیں یہ کسی سے پوچھ لینا کہ جب کوئی کافر نہ ہو تو اسے کافر کہا جائے تو ایسے بد نصیب فتوی گو کے بارے میں اللہ رسول کا کیا حکم ہے۔
عامر صاحب آپ کبھی آپ فلاں اہل حدیث کی بات نقل کرتے ہو کبھی کسی اور کی میرا سوال یہ ہے کہ آپ لفظ تصوف کو کتاب وسنت سے ثابت کرو اس اصطلاح کی اصل کیا ہے میں نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ اہل حدیث علما کا اس بارے میں موقف کیا ہے۔
آپ سے اہل حدیث علما کا تصوف کے بارے میں موقف نہیں پوچھا گیا بلکہ اصطلاح تصوف کے بارے میں پوچھا گیا ہے جس کو ثابت کرنا آپ کے لیے ناممکن ہو رہا ہے۔ یہ تو وہ بات ہو گئی ہے کہ سوال گندم اور جواب چنا!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جب آپ اصطلاح تصوف کو ثابت کر دوگے تو پھر اہل حدیث علما کا اس کے بارے میں جو بھی موقف ہو گا اس پر تفصیل سے بات کریں گے
 
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
جب آپ اصطلاح تصوف کو ثابت کر دوگے تو پھر اہل حدیث علما کا اس کے بارے میں جو بھی موقف ہو گا اس پر تفصیل سے بات کریں گے
جی میں جواب لکھ چکا ہوں ۔
رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور اس کے بعد خیر قرون میں شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت وغیرہ کوئی خاص اصطلاح نہ تھیں۔ صرف شریعت کا لفظ دین کے معنی میں استعمال ہوتا تھا باقی الفاظ قریباً اپنے لغوی معنی پر تھے۔ اس کے بعد جیسے فقہ والوں نے احکام کے درجات بتلانے کی غرض سے فرض واجب وغیرہ اصطلاحات مقرر کی ہیں۔ اسی طرح صوفیائے کرام نے تہذیب اخلاق یعنی علم تصوف میں سلوک عبد کے درجات کو ظاہر کرنے کی غرض سے یہ الفاظ مقرر کیے۔ مثلاًشریعت عقائد اور ظاہری احکام کا نام رکھا جیسے نماز۔۔۔ روزہ وغیرہ۔ طریقت ان پر عمل کرنے میں ریاضت اور مجاہدۂ نفس کرنا اور اپنے اندر اخلاص اور للٰہیت پیدا کرنا۔ حقیقت ان کے اسرارپر مطلع ہوکر اپنا عمل اس کے مطابق کرنا جیسے شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغۃ میں ان احکام کے اسرار لکھے یا نفس اور دل کے امراض پر مطلع ہو کر ہر ایک مرض کا مناسب علاج کرنا اور باطنی صحت قائم رکھنے کے اسباب پیدا کرنا۔ معرفت کشف اور مراقبہ کی حالت ہے۔ جو یقین اور اطمینان قلبی کا اعلیٰ مقام ہے۔ اس وقت اللہ کے سوا کسی شے کی طرف نظر نہیں رہتی اور ذکر الہی میں وہ حلاوت اورلذت پاتا ہے کہ کوئی لذت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی بلکہ ذکر الہی ایک طرح سے اس کی غذا ہوجاتا ہے جس کے بغیر اس کی زندگی مشکل ہے۔
مثال ان چاروں مراتب کی مثال درخت کی سی ہے۔ مثلاً درخت کے لئے جڑیں اور تنا ہے ان کے بغیر درخت کا وجود ہی نہیں۔ پھر ٹہنے اورشاخیں ہیں یہ بھی درخت کےلئے لازمی ہیں۔ پھر پھل ہے پھر اس کی لذت ہے۔ ٹھیک اسی طرح تصوف ہے۔ شریعت کے بغیر تو تصوف کوئی چیز ہی نہیں۔ نہ وہاں طریقت ہے نہ حقیقت نہ معرفت کیونکہ شریعت بمنزلہ جڑ اور تنے کے ہے۔ اس کے بعد طریقت کا مرتبہ ہے جو بمنزلہ ٹہنوں اورشاخوں کے ہے۔ اس کے بغیر بھی تصوف کالعدم ہے۔ پھر حقیقت پھل کے قائم مقام ہے اورمعرفت اس کی لذت کے قائم مقام ہے۔ جیسے درخت پھل اور اس کی لذت کے بغیر کامل نہیں اس طرح بندہ بھی خدا کے نزدیک کمال کو نہیں پہنچتا جب تک اس کے اندر حقیقت اور معرفت پیدا نہ ہو جائے۔
اور خلاصہ میں فرماتے ہیں:۔
خلاصہ خلاصہ یہ کہ شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت خواہ الگ الگ شاخیں ہوں یا ایک ہوں اور الگ ہونے کی حالت میں چارہوں یا کم ہوں۔ کسی صورت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ جو ایک دوسرے سے جدا ہونے کے قائل ہیں وہ ان کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اللہ ان کو سمجھ دے اور راہ راست کی توفیق بخشے۔ آمین ۔بحوالہ فتوی اہل حدیث۔
رہا علماء اہلحدیث والا مسلئہ ہے تو عرض یہ کہ ایک جواب میں اپنے الفاظ میں لکھنا چاہتا ہوں اور وہی جواب مجھے علماء سے مل رہا ہے تو مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے الفاظ میرے لفظوں سے بہت بہتر ہیں۔وہ ورع و تقوی اور علم میں مجھ سے بہت اچھے تھے ہاں آپ کے نزدیک کافر ہوسکتے ،مگر جب تک آپ فتوی نہ لیکر آئے گے یہ کافر کہنا فضول ہے
 
شمولیت
ستمبر 08، 2013
پیغامات
180
ری ایکشن اسکور
163
پوائنٹ
41
خلاصہ خلاصہ یہ کہ شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت خواہ الگ الگ شاخیں ہوں یا ایک ہوں اور الگ ہونے کی حالت میں چارہوں یا کم ہوں۔ کسی صورت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ جو ایک دوسرے سے جدا ہونے کے قائل ہیں وہ ان کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اللہ ان کو سمجھ دے اور راہ راست کی توفیق بخشے۔ آمین ۔
آمین
ماشاء اللہ بھائی اتنی اچھی وضاحت کی ہے ۔جزاک اللہ خیر
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جی میں جواب لکھ چکا ہوں ۔
رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور اس کے بعد خیر قرون میں شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت وغیرہ کوئی خاص اصطلاح نہ تھیں۔ صرف شریعت کا لفظ دین کے معنی میں استعمال ہوتا تھا باقی الفاظ قریباً اپنے لغوی معنی پر تھے۔ اس کے بعد جیسے فقہ والوں نے احکام کے درجات بتلانے کی غرض سے فرض واجب وغیرہ اصطلاحات مقرر کی ہیں۔ اسی طرح صوفیائے کرام نے تہذیب اخلاق یعنی علم تصوف میں سلوک عبد کے درجات کو ظاہر کرنے کی غرض سے یہ الفاظ مقرر کیے۔ مثلاًشریعت عقائد اور ظاہری احکام کا نام رکھا جیسے نماز۔۔۔ روزہ وغیرہ۔ طریقت ان پر عمل کرنے میں ریاضت اور مجاہدۂ نفس کرنا اور اپنے اندر اخلاص اور للٰہیت پیدا کرنا۔ حقیقت ان کے اسرارپر مطلع ہوکر اپنا عمل اس کے مطابق کرنا جیسے شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغۃ میں ان احکام کے اسرار لکھے یا نفس اور دل کے امراض پر مطلع ہو کر ہر ایک مرض کا مناسب علاج کرنا اور باطنی صحت قائم رکھنے کے اسباب پیدا کرنا۔ معرفت کشف اور مراقبہ کی حالت ہے۔ جو یقین اور اطمینان قلبی کا اعلیٰ مقام ہے۔ اس وقت اللہ کے سوا کسی شے کی طرف نظر نہیں رہتی اور ذکر الہی میں وہ حلاوت اورلذت پاتا ہے کہ کوئی لذت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی بلکہ ذکر الہی ایک طرح سے اس کی غذا ہوجاتا ہے جس کے بغیر اس کی زندگی مشکل ہے۔
مثال ان چاروں مراتب کی مثال درخت کی سی ہے۔ مثلاً درخت کے لئے جڑیں اور تنا ہے ان کے بغیر درخت کا وجود ہی نہیں۔ پھر ٹہنے اورشاخیں ہیں یہ بھی درخت کےلئے لازمی ہیں۔ پھر پھل ہے پھر اس کی لذت ہے۔ ٹھیک اسی طرح تصوف ہے۔ شریعت کے بغیر تو تصوف کوئی چیز ہی نہیں۔ نہ وہاں طریقت ہے نہ حقیقت نہ معرفت کیونکہ شریعت بمنزلہ جڑ اور تنے کے ہے۔ اس کے بعد طریقت کا مرتبہ ہے جو بمنزلہ ٹہنوں اورشاخوں کے ہے۔ اس کے بغیر بھی تصوف کالعدم ہے۔ پھر حقیقت پھل کے قائم مقام ہے اورمعرفت اس کی لذت کے قائم مقام ہے۔ جیسے درخت پھل اور اس کی لذت کے بغیر کامل نہیں اس طرح بندہ بھی خدا کے نزدیک کمال کو نہیں پہنچتا جب تک اس کے اندر حقیقت اور معرفت پیدا نہ ہو جائے۔
اور خلاصہ میں فرماتے ہیں:۔
خلاصہ خلاصہ یہ کہ شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت خواہ الگ الگ شاخیں ہوں یا ایک ہوں اور الگ ہونے کی حالت میں چارہوں یا کم ہوں۔ کسی صورت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ جو ایک دوسرے سے جدا ہونے کے قائل ہیں وہ ان کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اللہ ان کو سمجھ دے اور راہ راست کی توفیق بخشے۔ آمین ۔بحوالہ فتوی اہل حدیث۔
رہا علماء اہلحدیث والا مسلئہ ہے تو عرض یہ کہ ایک جواب میں اپنے الفاظ میں لکھنا چاہتا ہوں اور وہی جواب مجھے علماء سے مل رہا ہے تو مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے الفاظ میرے لفظوں سے بہت بہتر ہیں۔وہ ورع و تقوی اور علم میں مجھ سے بہت اچھے تھے ہاں آپ کے نزدیک کافر ہوسکتے ،مگر جب تک آپ فتوی نہ لیکر آئے گے یہ کافر کہنا فضول ہے
یہی کام میں کر رہا تھا تو آپ مجھ پر کاپی پیسٹ کا الزام لگا رہے تھے جب میں نے خود لکھنا شروع کر دیا تو آپ نے کاپی پیسٹ شروع کر دیا
 
Top