• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علمائے امت کے اقوال

شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
بلا شبہ خیرالقرون کے امام و بزرگ ہمارے اسلاف ہیں مگر دین ان کے اقوال کا نام نہیں بلکہ قرآن و سنت سے عبارت ہے اگر ان بزرگ ہستیوں کا کوئی فتویٰ یا قول قرآن و سنت کے موافق ہے تو نور علی نور قرآن و سنت سے اختلاف کی صورت میں کسی امتی کا قول قطعی طور پر حجت نہیں ہے۔ سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوجی دستہ روانہ کیا اوران پر ایک انصاری صحابی کو امیر مقرر کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے حکم دیا کہ ان کی اطاعت کرنا پھر (بوجہ ) امیر لشکر لوگوں کو غصہ ہوئے اور کہا کہ کیا نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا لوگوں نے کہا ضرور دیا ہے۔اس پر انہوں نے کہا کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ لکڑیاں جمع کرو اور ان سے آگ جلاو اور اس میں کود پڑو لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی جب کود نا چاہا تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع آگ سے بچنے کے لیے کی تھی کیا پھر ہم اس میں داخل ہو جائیں اس کشمکش میں
آگ ٹھنڈی ہو گئ اور ان کا غصہ بھی جاتا رہا پھر نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا اگر تم اس میں کود پڑتے تو اس میں سے نہ نکل سکتے تھے۔ اطاعت صرف معروف میں ہے۔
صحیح بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطعاۃ للامام مالم یکن معصیۃ رقم الحدیث 7145 ، مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامرا فی غیر معصیۃ و تحریمھافی المصیۃ رقم الحدیث 4766۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنی جریمہ کی طرف بھیجا تو وہ اسلمنا ( ہم اسلام لائے ) کہہ کر اچھی طرح اسلام کا اظہار نہ کر سکے بلکہ کہنے لگے صبانا ، صبانا ( ہم اپنے دین سے پھر گئے ) اس پر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ انہیں قتل اور قید کرنے لگے اور ہم میں سے ہر شخص کو اس کے حصے کے قیدی دیئے گئے اور ہمیں حکم دیا گیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کرے اس پر میں نے کہا کہ واللہ میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گا پھر ہم نے اس کا ذکر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اے اللہ میں اس سے برائت کا اظہارکرتا ہوں جو خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا دو مرتبہ یہ الفاظ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائے۔
بخاری کتاب الاحکام باب اذ اقضی الحاکم بجور اورخلاف اہل العلم فھوا رد رقم الحدیث 7189۔
ان احادیث پر غور کریں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں ایک انصاری اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر مقرر کیا تھا بقایا تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کی اطاعت کرنے کا حکم دیاثابت ہو اکہ انصاری اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اجتہاد رکھتے تھے اور انہوں نے اپنی صوابدید کے مطابق درست فیصلے ہی کیے تھے حکم نبوی کے باوجود مطیع صحابہ نے اپنے اپنے لشکر کے امیروں کے جاری کردہ فرامین کو اندھا دھند قبول نہیں کیا ان کے جاری کردہ احکام کومزاج شریعت پر جانچا اور جب انہیں روح شریعت کے منافی پایاتو ماننے سے انکار کردیا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بتایا گیا تو آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے انکارکرنے ولوں کی تائید
کی تھی ثابت ہوا کہ بڑے سے بڑا بھی اگر کوئی دین میں بات کرے تو اس کی بات کو اندھا دھند قبول کرنے کےبجائے قرآن و سنت سے پرکھا جائے گا۔ اگر حق و صواب ہو تو قبول کر لی جائے گی اور اگر غلط ہو تو رد کر دی جائے گی۔ امام شعبیٰ فرماتے ہیں یہ لوگ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ جو حدیث بتائیں اسے پکڑ لو اور
جو ( بات ) اپنی رائے سے کہیں اسے کوڑے کرکٹ میں پھینک دو۔
( سنن دارمی ص 68 جلد 1 رقم الحدیث 206 )
امام حاکم بن عتبیہ فرماتے ہیں لوگوں میں سے ہر آدمی کی بات لے بھی سکتے ہیں اوررد بھی کر سکتے ہیں سوائے نبی علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ( الاحکام لابن حزم ص 293 جلد 6)
امام ابراہیم نخعی تابعی کے سامنے کسی نے سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ کا قول پیش کیا تو انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں تم سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ کے قول کا کیا کرو گے؟
( الاحکام لابن حزم ص 293 جلد 6)
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف ہو ( چھوڑ دو ) آپ علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی حدیث سب سے اولیٰ ہے۔ ( آداب الشافعی و مناقبہ ص 15 )
مقلد مولوی سرفراز خاں صفدر حیاتی دیوبندی فرماتے ہیں یہ بات شک و شبہ سے بلکل بالاتر ہے کہ قرآن و حدیث کی تصریحات اور خلفا راشدین کے صحیح و صریح اقوال کی موجودگی میں کسی مجتہد اور امام کے کسی قیاس اور رائے کی قطعا کوئی وقعت نہیں ۔( الکلام المفید ص 301 )
اس کے بعد خاں صاحب نے اپنی تائید میں عقدالجید ص 85 ، اور الفوزالکبیر ص 9 سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز کا فتاویٰ عزیزی ص 68 جلد 1 سے شاہ محمد اسماعیل صاحب شہید کا تنویرالعینین ص 27 ست رشدی احمد گنگوہی کا سبیل الرشاد ص 30 سے مولوی محمود حسن خاں کا ایضاح لادلہ ص 113 سے اشرف علی تھانوی کا تفسیر بیان القرآن ص 124 جلد 6 و تعلیم الدین 102 و فتاویٰ امدادیہ ص 88 جلد 4 وغیرہ اکابر دیوبند سے عبارات نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمارا بھی اس پر صاد ہے کسی ایک خاص مجتہد کی ایسی تقلید کہ اس کے قول کو حق و صواب سمجھا جائے اور اس سے خطا اور غلطی کو ناممکن تصور کیا جائےاور حدیث صحیح غیر منسوخ کو بھی اس کے قول کے خلاف قبول نہ کرے تو ایسی تقلید مفضی الی الشرک ہے۔ ( الکلام المفید 130 )
 
Top