• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علمِ ناسخ ومنسوخ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب : 11
علمِ ناسخ ومنسوخ

ناسخ ومنسوخ کا مادہ(ن س خ) ہے۔ ناسخ ، نسخ سے فاعل کے وزن پر ہے جس کا مطلب ہے نسخ کرنے والا۔ جبکہ منسوخ مفعول کے وزن پر ہے۔ یعنی نسخ ہونے والا۔

لغت میں نسخ:
ازالہ کرنا، ایک چیز کو زائل کر کے اس کی جگہ دوسری چیز کو لانا، ایک شے کو دوسری جگہ منتقل کرنا۔نقل (Copy) کرنا ،یا بدل دینا کے ہیں۔ عربی میں کہتے ہیں:
نَسَخَتِ الرِّیْحُ الأَثَرَ۔
ہوا نے نشان مٹادئے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{فَیَنْسَخُ اللّٰہُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖط }(الحج: ۵۲)
تو اللہ تعالی شیطان کے ڈالے ہوئے کو زائل کردیتا ہے پھر اپنی آیات کو پختہ تر کردیتا ہے۔

یہ بھی کہتے ہیں:
تناسُخُ المَوَارِیْث
ایک وارث سے دوسرے وارث تک مال کا منتقل ہونا۔
یا تناسُخَ الأَرْوَاحِ۔جن کا یہ عقیدہ ہے۔

اصطلاح میں نسخ :
قرآن وحدیث میں موجودلفظ نسخ کی یہ وہ تعریف ہے جو اس پرپورا اترتی ہے۔
رَفْعُ الْحُکْمُ الشَّرْعِيِّ بِدَلِیْلٍ شَرْعِيٍّ مُتَرَاخٍ عَنْہُ۔
کسی شرعی حکم کو اس کے بعد آنے والی دلیل شرعی سے اٹھالینا۔

وضاحت: اس تعریف میں رفع الحکم سے مراد عمل کا ختم کرنا ہے۔حکم شرعی سے مراد شارع کا مکلف حضرات کے افعال سے خطاب ہوتا ہے۔خطاب شرعی سے مراد: کتاب وسنت ہیں۔ دلیل عقلی اس قید سے نکل گئی۔جیسے: انسان کی موت یا جنون کے ساتھ تکلیف کا ساقط ہوجانا۔اسی طرح اجماع اور قیاس یا اجتہاد و قول مفسر خارج ہوگیا کیونکہ نیا حکم شرعی آگیا ہے۔متراخ عنہ سے وہ عمل خارج ہوگیا جو حکم سے متصل تھا۔جیسے:
{ وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الأبیض من الخیط الأسود من الفجر} کیونکہ{ حتی یتبین}
اکل وشرب کے مباح ہونے کو منسوخ نہیں کرتے۔بلکہ یہ تو مزید وضاحت اور معنی کا تتمہ ہے اس لئے یہ نسخ نہیں ہوگا۔ادلہ میں بظاہر تعارض ہو تو وہ بھی نسخ نہیں ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نسخ کی دلیل:
قرآن کریم میں ہے:
{ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا اَوْ مِثْلِہَا۔۔۔} (البقرہ: ۱۰۶) ہم کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لاتے ہیں۔

اس آیت کی تین مختلف انداز سے قراء ت کی گئی ہے۔
۱۔ ما نَنْسَخْ مِنْ آیَۃٍ أَوْ نُنْسہا: یہ جمہور کی قراء ت ہے ۔ یہاں نسخ بمعنی رفع کے ہے۔مراد ہم جو آیت اٹھالیتے ہیں ۔

۲۔ ما نَنْسَخْ مِنْ آیَۃٍ أَونَنْسَہَا: اس میں نَنْسَأہَا پڑھا گیا ہے۔ یہ قراء ت ابن کثیر اور ابوعمرو کی ہے۔ جو نَسأ سے ہے اور بمعنی تاخیرکے ہے۔اس کے معنی پھر یہ ہوں گے: ہم کسی آیت کی تلاوت کو اٹھا لیتے ہیں یا اس کا حکم موخر کردیتے ہیں ۔ اس میں نسخ سے مراد پھر تلاوت اور حکم دونوں کا اٹھا نا ہوگا۔

۳۔ مَا نُنْسِخْ مِنْ آیَۃٍ أَوْ نُنْسِہَا: اس میں نُنْسِخْ یعنی مزید فیہ پڑھیں تویہ ابن عامر کی قراء ت ہے ۔معنی یہ ہوگا :ہم آپ ﷺ کو یاجبریل امین کو کسی آیت کے منسوخ کرنے کا حکم دیتے ہیں یا ہم کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں۔ یہ شاہانہ انداز کلام ہے جو اللہ تعالی کی بادشاہت واختیار اور عظمت کے اظہار کے لئے ہے۔اس سے مراد متعدد اللہ تعالی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ہی ہے۔ آیۃ سے مراد آیت شرعی ہے کیونکہ نسخ اسی آیت میں ہی ہوتا ہے جس میں امر ونہی ہو۔اب مطلب یہ ہوگا کہ کسی بھی آیت کو یا اس کے حکم کو جب ہم اٹھاتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی آیت یا حکم لاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نسخ کی شرائط:
علماء تفسیر وحدیث نے نسخ کے لئے درج ذیل شرائط بیان کی ہیں:

۱۔ منسوخ کی جانے والی چیز شرعی حکم ہو کوئی قصہ یا کہانی نہ ہو۔
۲۔ جس دلیل سے حکم شرعی کو اٹھایا جائے وہ بھی شرعی ہو۔
۳۔ دلیل شرعی زمانے کے اعتبار سے حکم شرعی کے بعد ہو۔
۴۔ حکم شرعی اور دلیل شرعی کے درمیان تعارض یعنی تضاد ہو۔
۵۔ نسخ نبی اکرم ﷺ کے دور میں اور آپﷺ کی ہدایت کے مطابق ہوا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حکمت نسخ :
علماء قرآن کے مطابق، قرآن مجید میں پائے جانے والے نسخ کی بہت سی حکمتیں ہیں۔ مثلاً:

٭ شریعت دیتے وقت تدریج کا اصول سامنے رکھا گیا تاکہ لوگ معاشرتی رسم و رواج ، اکابر کی تقلید کو آہستہ آہستہ ختم کر کے پیار و محبت سے دینی احکام کو سمجھیں اور انہیں قبول کر لیں۔نیز عام مسلمانوں کی اجتماعی مصلحت کو بھی سامنے رکھا گیا۔ مثلاً: تحویل قبلہ میں حکمت یہ بتائی گئی کہ یہ سب کچھ بطور امتحان تھا کہ وہ الٰہی حکم کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ بڑی حکمت یہ بھی پوشیدہ تھی کہ جب مسلمانوں کے دلوں میں مسجد اقصیٰ اور ارض شام کی محبت و عقیدت سرایت کر گئی تو پھر تین مساجد کو ہی باہم مربوط کر کے باور کرا دیا گیا کہ امت محمدیہ ہی نبوت کی وارث اور مقدس مقامات کی رکھوالی کرنے والی ہے۔

٭ بعض سیاسی حالات کا تقاضا تھا۔ مثلاً: مکی دور میں مسلمان سیاسی طور پر کمزور تھے تو جہاد سے روکا گیااور صبر کا حکم دیا گیا۔ لیکن جب مدینہ میں حالات بہتر ہو گئے تو پہلے حکم کو منسوخ کر کے جہاد کا حکم دیا گیا۔

٭ طوالت سے بچنے کے لئے تلاوت کو منسوخ کر کے حکم کو باقی رکھا گیا مثلاً: حکم رضاعت پر آیات کی منسوخی مگر حکم باقی۔

٭کسی حکم کو منسوخ کر کے اس سے بہتر حکم لایا جاتا تھا۔ مثلاً: شراب کی حرمت وغیرہ۔یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ جب بھی نسخ کرے گا تو یا تو اس سے بہتر حکم عطا کرے گا یا اس جیسا۔ جو بالکل سچا ہے۔

٭ بعض احکامات کی تلاوت منسوخ کر کے حکم باقی رہنے دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حکم بہت گراں اور سخت ہوتا تھا۔ مثلاً:
الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ إِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوْھُمَا أَلْبَتَّۃَ نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ۔
بوڑھا مرد اور عورت جب دونوں زنا کریں تو انہیں بالکل رجم کردو
یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک عبرتناک سزا ہے۔ میں رجم کا لفظ بعض طبیعتوں پر گراں تھا مگر تحویل قبلہ کی طرح یہ بھی امتحان بنادیا گیا کہ من یتبع الرسول ؟ کون رسول کی اطاعت کرتا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آیات منسوخہ کی تعداد:
ابتدائی دور میں قریباً پانچ سو آیات کو منسوخ قرار دیا گیا۔ بعد میں یہ تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ اور علامہ سیوطیؒ کی تحقیق کے مطابق نسخ صرف اکیس آیات میں ہوا۔ (الاتقان ۲؍۳۵) ۔ ڈاکٹر صبحی صالح ؒ کے نزدیک ان کی تعداد صرف دس ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے پانچ آیات کو منسوخ قرار دیا ہے ۔ منسوخ آیات کی تعداد میں یہ فرق، پہلے اور بعد کے علماء میں نسخ کی اصطلاحی تعریف میں فرق کی وجہ سے ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نسخ کی اقسام :
۱۔ نسخ قرآن از قرآن :
علماء ایسے نسخ کے جائز ہونے اور واقع ہونے کے قائل ہیں۔مثلاً:
{وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًاجصلے وَّصِیَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاج} (البقرۃ: ۲۴۰)کو
{وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا }(البقرۃ: ۲۳۴)
نے منسوخ کردیا۔قرآن پاک میں اس قسم کے نسخ تین طرح کے ہیں۔

٭ تلاوت وحکم دونوں منسوخ:
وہ نسخ جس میں تلاوت و حکم دونوں منسوخ ہو گئے۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:
کَانَ فِیْمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضَعَاتِ مَعْلُوْمَاتٍ یُحَرِِّمْنَ ، ثم نُسِخْنَ بِخَمْسِ مَعْلُوْمَاتٍ، فَتُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَہُنَّ فِیْمَا یُقْرَأ مِنَ الْقُرْآنِ۔
"قرآن میں یہ حکم اترا تھاکہ دس بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے پھرحکم منسوخ ہو گیا اور یہ پڑھا گیا کہ پانچ بار دودھ چوسنا حرمت کا سبب ہے۔ اور نبی اکرم ﷺ کی وفات کے وقت یہ قرآن میں پڑھاجاتا تھا"۔( صحیح مسلم: ۱۴۵۲)

اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دس رضا عت کا حکم بھی منسوخ ہو گیا اور تلاوت بھی محو کردی گئی اور جہاں تک پانچ رضاعت کا تعلق ہے تو اس کی تلاوت نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کے آخری زمانے میں منسوخ ہو گئی تھی۔ لیکن اس کا حکم باقی ہے جو آپ ﷺنے حدیث کے ذریعے امت پر واضح کر دیا۔یا جو اسے پڑھتے تھے انہیں اس کے منسوخ ہونے کا علم نہ ہوسکا۔اس کی حکمت یہ ہے کہ جن الفاظ اور ان کے احکام تک کو اٹھا لیا گیاتو ان پر عمل کرنا یا تلاوت کرنا بے اثر تھا اس لئے لفظی وحکمی دونوں چیزیں اللہ تعالی نے منسوخ کردیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭ حکم منسوخ تلاوت موجود:
اس سے مراد وہ نسخ ہے جس میں حکم اٹھ گیا لیکن تلاوت ثواب کے لئے اور مشقت کے اٹھ جانے کے بعد اخف نعمت کی یاددہانی کے لئے ابھی باقی ہے۔ مثلاً:
{ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْن۔۔}(البقرہ:۱۸۴)
اور جو لوگ اس (روزے) کی طاقت رکھتے ہوں وہ ایک مسکین کو فدیہ کے طور پر کھانا کھلا دیں۔

یہ حکم ابتدائی حکم تھا اور سہولت کی خاطر دیا گیا تھا کہ وہ نو مسلم جو روزہ رکھنے کے عادی نہیں ، انہیں آسانی ہو۔ یہ حکم تقریباً ایک سال تک نافذ رہا۔ پھر اس آیت کو منسوخ کر کے اس سے اگلی آیت میں یہ حکم دیا گیا:
{فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ} (البقرہ: ۱۸۵)
تو جو بھی اس ماہ میں موجود ہو وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔

ابتدائی حکم منسوخ ہونے کے باوجود اس کی تلاوت ابھی تک موجود ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭ تلاوت منسوخ حکم موجود :
وہ نسخ جس میں حکم تو ابھی موجود ہے لیکن تلاوت منسوخ ہو گئی۔ مثلاً: موطأ امام مالک اور صحیح مسلم :کتا ب الحدود:۸"میں آیت رجم سیدنا عمر ؓ سے ان الفاظ میں مروی ہے:
قَالَ عُمَرُرَضِیَ اللہُ عَنْہُ:إِیَّاکُمْ أَنْ تَھْلِکُوْا مِنْ آیَۃِ الرَّجْمِ أَنْ یَقُولَ قَائِلٌ: لاَنَجِدُ حَدَّیْنِ فِي کِتَابِ اللّٰہِ… إِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوْھُمَا أَلْبَتَّۃَ، فَإِنَّا قَدْ قَرَأنَاھَا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " کوئی شخص آیت رجم کو یہ کہہ کر نہ چھوڑ دے کہ کتاب اللہ میں (زنا کے بارے میں) دو قسم کی سزائیں نہیں ملتیں۔ کیونکہ خود رسول ﷺ نے بھی رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر ؓ نے کتاب اللہ میں اضافہ کر دیا تو میں اس کو ضرور قرآن میں لکھ دیتا۔ وہ آیت یہ ہے۔ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت اگر زنا کریں تو ان کو ضرور سنگسارکرو۔ کیونکہ ہم نے اس حکم کو (قرآن میں ) پڑھا ہے"۔

حدود میں رجم سے متعلق یہ حکم موجود ہے۔ لیکن اس کی تلاوت منسوخ ہے۔ صحیح بخاری میں (۶۸۳۰) سیدناعمرؓکے خطبے کے یہ الفاظ ہیں
قَدْ قَرَأْنَاھَا وَ عَقَلْنَاھَا وَوَعَیْنَاھَا۔
جو آیت رجم آپ ﷺ پر اتری تھی ہم نے اس کو پڑھا، سمجھا اور اچھی طرح یاد کیا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ سیدنا عمر ؓ کے اس خطبہ عام کو سننے والے بے شمار جلیل القدرصحابہ تھے۔کسی نے ان کی اس وضاحت پراعتراض نہیں کیا۔ اس طرح یہ حدیث صحابہ کے دور میں بھی اور بعد میں بھی متواتر ٹھہری۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۲۔ نسخ قرآن از سنت:
اس کی دواقسام ہیں:

٭ نسخ قرآن از سنت آحادیہ:
جمہور علماء اس کے عدم جواز کے قائل ہیں۔ کیونکہ قرآن متواتر اور یقین کا فائدہ دیتا ہے اور سنت آحادی(خبر واحد) ظنی ہوا کرتی ہے اس لئے اس سے حتمی یقین نہیں ہوتا۔مثلاً:
{ کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرًانِلْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِج حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنں}(البقرۃ۱۸۰)
علماء کا یہ کہنا ہے کہ یہ آیت اس حدیث سے منسوخ ہوگئی ہے:
إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَعْطٰی کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہُ، فَلاَ وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ۔(الترمذی:۲۱۲۱)۔
جب کہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ آیت ، آیت مواریث سے منسوخ ہوئی ہے جیسا کہ اس حدیث کا ابتدائی حصہ بتارہا ہے۔

٭ نسخ قرآن از سنت متواترہ:
ائمہ فقہاء اربعہ میں امام شافعیؒ کے سوا باقی سب نے ایک روایت کے مطابق اس بات کو یہ کہتے ہوئے مان لیا ہے کہ سنت بھی وحی ہے جیسے سورۃ النجم میں ہے:
{وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ں اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی} (النجم:۳،۴)
یا
{ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْن َ} (النحل:۴۴)
اور نسخ بھی بیان کی ایک قسم ہے۔امام شافعیؒ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل ؒنے اسے یہ کہتے ہوئے ناجائز کہا ہے۔
{ مَا نَنسَخْ مِنْ آیَۃٍ أَوْ نُنسِہَا نَأْتِ بِخَیْْرٍ مِّنْہَا أَوْ مِثْلِہَا}(البقرۃ:۱۰۶)
اور سنت قرآن کے مثل نہ خیر ہے اور نہ اس کی مانند۔ اس کا جواب بھی علماء نے یہ دیا ہے کہ اس خیر سے مراد فضل ہے نہ کہ وجوب اتباع اور احکام پر دلالت ہے۔ ورنہ سنت پر عمل تو اسی طرح واجب ہے جیسے قرآن پر ۔ اس کی مثال اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے:
{الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ}(النور:۲)
محصن کو کوڑے مارنا تو رجم سے منسوخ ہوگیا جیسا کہ سنت متواترہ سے ثابت ہے یا بقول بعض یہ محصن کے لئے تخصیص ہے نسخ نہیں کیونکہ کوئی اور مثال اس کی ملتی نہیں۔نسخ کی یہ نوع عقلاً جائز ہے خواہ یہ قرآن میں بھی مذکور نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۳۔ نسخ سنت از قرآن:
جمہور اسے جائز سمجھتے ہیں۔ اس کی مثال بیت المقدس کی طرف نماز میں رخ کرنا ہے جو سنت سے ثابت تھا مگر اس آیت نے اسے منسوخ کردیا
{فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ}(البقرۃ:۱۴۴)ِ
اسی طرح عاشوراء کا روزہ سنت سے ثابت تھا جسے اس آیت نے
{فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ }(البقرۃ:۱۸۵)
منسوخ کردیا۔امام شافعی رحمہ اللہ ۔۔ ایک روایت کے مطابق۔۔ اس کے قائل نہیں کہ قرآن ، سنت کو یا سنت قرآن کو منسوخ نہیں کرسکتے۔وہ فرماتے ہیں:جہاں قرآن نے سنت کو منسوخ کیا ہے وہاں قرآن خود سنت کا نگران بن گیا اور جہاں سنت نے قرآن کو منسوخ کیا وہاں سنت خود قرآن کی محافظ بن گئی۔ یہ اس لئے ہوا تاکہ قرآن وسنت کے مابین موافقت ظاہر ہو۔(الاتقان ۲؍۲۷)

امام زرکشی ؒ امام شافعی رحمہ اللہ کی مراد یہ بتاتے ہیں کہ کتاب وسنت آپس میں مختلف نہیں ہاں ان دونوں میں کا ہر ایک اپنے جیسا ایک ناسخ ضرور رکھتا ہے۔اس طرح قرآن وسنت ایک دوسرے کے محافظ بھی ہیں اور ان میں کلی موافقت بھی ہے یہی ان کی عظمت شان ہے۔(البرہان ۲؍۳۲)
 
Top