• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم اسباب نزول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب: 15
علم اسباب نزول

تعریف:
اسباب نزول سے مراد وہ واقعات، حوادث اور سوالات ہیں جو کسی آیت یا چند آیات کے نزول کا باعث بنے۔ مثلاً قریش نے آنحضرتﷺسے روح، اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں پوچھا تو ان کے جواب میں سورۃ کہف نازل ہوئی۔ ایسا بھی ہوا کہ آنحضرت ﷺ یا صحابہ ؓ کے دل میں کوئی خیال آیا اور جلد ہی اس کے مطابق کوئی آیت یا آیات نازل ہو گئیں او روہ آرزو ان کا سبب نزول بن گئی۔ مثلاً: آپ ﷺ کا بار بار آسمان کی طرف چہرہ مبارک کو کرنا تاکہ قبلہ تبدیل ہوجائے اور پھر قبلہ تبدیل ہوگیا۔ سیدنا عمر ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کی:یا رسول اللہ! اگر ہم مقام ابراہیم کو مصلی بناتے تو اچھا ہوتا۔ اسی وقت آیت
{وَاتَّخِذُوْا مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی} (البقرۃ:۱۲۵)
نازل ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سبب نزول کی بنیاد پر آیات کی تقسیم:
سبب نزول کی بنا پر قرآنی آیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
 وہ آیات جو بغیر کسی سبب کے نازل ہوئیں۔ مثلاً: انبیاء کے قصے، مستقبل کے واقعات، قیامت کی منظر کشی اور عذاب وثواب کے ذکر پر مشتمل آیات۔ قرآن مجید کا غالب حصہ انہی آیات کا ہے۔ مثلاًًاللہ تعالی کا یہ ارشاد
{وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَں} (التوبۃ:۷۵) یہ آیت کچھ منافقین کے حالات بیان کرنے کے لئے شروع میں نازل ہوئی۔

وہ آیات جن کے نزول کا کوئی نہ کوئی سبب تھا۔ مثلاً:
احکام و اخلاقیات کی زیادہ تر آیات۔اس سبب میں:

٭ … یا تو کوئی سوال ہوتا جس کا جواب اللہ تعالی مرحمت فرماتے جیسے: {یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِطقُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجَِ} (البقرۃ:۱۸۹)
لوگ آپ سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورت کے بارے میں پوچھتے ہیں؟کہئے کہ یہ لوگوں کے مقرر اوقات کے لئے اور حج کے لئے ہیں۔

٭… یا نزول کا سبب کوئی حادثہ ہوتا مگر اس کے لئے وضاحت وتنبیہ کی ضرورت ہو تی ہے ۔امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
{وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ}(التوبۃ:۶۵)
منافق شخص کے بارے میں یہ آیات اتریں جس نے غزوہ تبوک میں کسی محفل میں یہ زبان درازی کی: ہم نے پیٹ کا شوقین، زبان کا جھوٹا اور وقت لڑائی انتہائی بزدل انسان اپنے ان قراء جیسا کسی کو نہیں پایا۔اس کی مراد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ رسول تھے۔آپ ﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو یہ منافق معذرت کرتا ہوا حاضر ہوا تو آپ ﷺ کی طرف سے اللہ تعالی نے یہ جواب دیا:
{قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُ وْن ں} (التوبہ:۶۵)

٭… یا کوئی ایسا کام ہوا ہو جس کا حکم معلوم نہ ہو ۔ جیسے:

{قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْٓ اِلَی اللّٰہِِقصلے وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَاط اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌمبَصِیْرٌ }(المجادلۃ:۱)
یقیناً سن لی اللہ نے اس عورت کی بات جو اپنے خاوند کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی اور اللہ کی جناب میں وہ شکایت کررہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو کو سن رہا تھا بیشک اللہ تعالی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اہمیت اور فوائد

علم اسباب نزول، قرآن فہمی کے حوالے سے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے فوائد علما ء کے مندرجہ ذیل اقوال سے ظاہر ہیں۔

-- امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:"سبب نزول کے جان لینے سے آیت کا مطلب سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ فَإِنَّ الْعِلْمَ بِالسَّبَبِ، یُوْرِثُ اْلِعْلمَ بِالْمُسَبَّبِ"۔

-- علامہ شاطبیؒ نے لکھا ہے"جو شخص قرآن سمجھنا چاہتا ہے اس کے لئے اسباب نزول کا جاننا ضروری ہے"۔

--امام واحدیؒ لکھتے ہیں:"قرآن میں ایسی آیات ہیں کہ اگر ان سے متعلق واقعہ یا سبب معلوم نہ ہو توان کا مطلب سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا"۔

--شیخ ابو الفتح القشیریؒ کہتے ہیں:"سبب نزول کا بیان قرآن کے معانی سمجھنے کا ایک قابل اعتماد طریقہ ہے"۔

--علامہ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں:"بعض محققین علماء نے کہا ہے کہ جو شخص نزول سے واقف نہ ہو، اس کے لئے تفسیر قرآن جائزہی نہیں "۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ان اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ اگر آیات کا سبب نزول معلوم نہ ہو تو اس کا مطلب پوری طرح سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اورمفسر آیت کے معنی بیان کرنے میں سنگین غلطی کر سکتا ہے۔ مثلاًیہ کہ:

اللہ تعالی کا یہ ارشاد کیسے نازل ہوا؟ { یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَل} (المنافقون:۸)
صحیح بخاری (۴۹۰۰) میں ہے:
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن ابی منافق سے یہی کہتے ہوئے سنا۔ وہ أعز سے مراد اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کولے رہا تھا اور أذل سے رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کو۔ زید نے اس کی اطلاع اپنے چچا کو دے دی۔ جنہوں نے رسول اکرم ﷺ کو بھی بتادیا۔ آپ ﷺ نے زید کو بلوا بھیجا جنہوں نے بتایا کہ میں نے خود اس سے یہ بات سنی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلوا بھیجا انہوں نے قسمیں اٹھا لیں کہ ہم نے کہا ہی نہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی باتیں سننے کے بعد انہیں سچا سمجھ لیا۔ پھر اللہ تعالی نے زید رضی اللہ عنہ کی تصدیق کرتے ہوئے یہ آیات اتار دیں تب رسول اکرم ﷺ کے لئے معاملہ واضح ہوگیا۔

-- اسکے علاوہ سبب نزول سے لاعلمی کی بنا ء پر پیدا ہونے والے شبہات شدید اختلاف کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایک بار سیدناعمر ؓ نے بہت غور و فکر کے بعد رائے دی کہ جس امت کا نبی ایک ہو او راس کا قبلہ ایک ہو اس میں اختلاف پیدا ہونے کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اس پر ابن عباس ؓ نے کہا: امیر المؤمنین! قرآن ہمارے سامنے نازل ہوا ہم نے اسے پڑھا اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کیسے اور کن حالات میں نازل ہوا۔ لیکن وہ وقت دور نہیں کہ ہمارے بعد کے لوگ قرآن پڑھیں گے اور ان کو یہ معلوم نہ ہو گا کہ وہ کن حالات میں او رکس موقع پر نازل ہوا ہے۔ ایسی صورت میں باہمی اختلاف پیدا ہو جانے کا قوی اندیشہ ہے۔ سیدناعمر ؓ نے پہلے تو انہیں جھڑک دیا لیکن ان کے جانے کے بعد غور کیا تو محسوس ہوا کہ ابن عباس ؓ کی رائے درست معلوم ہوتی ہے۔ فوراً کسی کو بھیج کر انہیں بلوایا او رکہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔ (الموافقات ۳،۳۴۷)

-- کبھی اللہ تعالی خود ہی رسول اکرم ﷺ کا دفاع فرماکر آیات نازل فرمادیتے ہیں۔مثلاً:{وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃًج کَذٰلِکَج لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا}( الفرقان:۳۲)
اسی طرح آیات افک میں حرم رسول کے تقدس کا دفاع کرتے ہوئے افتراپردازوں کے غلیظ وتوہین آمیز الفاظ کو رد کیا۔

-- کبھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کسی عنایت کرنے کا کوئی سبب بنا دیتا ہے تاکہ افراد امت کو آسانی ہو۔ اس کی مثال تیمم کی آیت کا نزول ہے۔ صحیح بخاری (۳۳۴،۳۶۷) میں ہے:

آیت کا صحیح فہم، سبب کے صحیح علم سے ہوتا ہے۔ مثلاً:{اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِجفَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَفَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَاطوَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًالافَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ ں} (البقرۃ:۱۵۸) یہاں طواف سے مراد سعی ہے۔ کیونکہ بظاہر یہ ارشاد فلا جناح علیہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ سعی کا انتہائی حکم مباح کی قسم سے ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری (۱۲۷۸) میں عاصم بن سلیمان سے روایت ہے:
میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صفا ومروۃ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:ہم سمجھتے تھے کہ ان کے درمیان سعی کرنا جاہلی عادات میں سے ہے۔ اسلام جب آیا تو پھر ہم ان کے بارے میں خاموش رہے۔ آخر اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری {اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہ۔۔۔اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَاط۔۔۔}(البقرۃ:۱۵۸)
اس سے معلوم ہوا کہ گناہ کی نفی ،سعی کے اصل حکم کی وضاحت کے لئے نہیں ہے۔بلکہ حرج کی نفی کے لئے ہے جس کی وجہ سے وہ رک گئے تھے۔اس لئے کہ وہ سمجھے تھے کہ ان کے درمیان سعی جاہلی دور کی عادات ہیں۔ باقی اصل حکم تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہ سے واضح ہوجاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسباب نزول کی روایات:

اسباب نزول کا علم صحا بہ کرام کی روایات سے حا صل ہوتا ہے۔بعض اوقات ان میں مندرجہ ذیل مسا ئل پیدا ہو جا تے ہیں مثلاً:

1: جب روا یات ایک دو سرے سے ٹکراتی ہوں

2:کبھی ایک ہی آیت کے سبب نزول میں متعدد روایات ہوتی ہیں اور وہ باہم ٹکراتی ہیں۔ اس موقع پر کیا کیا جائے؟

یہ بات ذہن نشین ہونی چائیے کہ دو صحیح روایات کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتالیکن اگر دو روایات میں ایک روایت صحیح ہو اور دوسری ضعیف یا موضوع تو اس کا سیدھا سادھا اصول یہ ہے کہ صحیح کو لے لیا جائے اور ضعیف یاموضوع کو ترک کر دیا جائے ۔ مثلاً:
{وَالضُّحٰیں وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی ں مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی ں } (الضحی:۳-۱)اس کے سبب نزول کی دو روایات ہیں۔

پہلی روایت: الاسود بن قیس سے صحیح سند کے ساتھ صحیح بخاری (۴۹۵۰)میں ہے:
اسود نے جندب بن سفیانؓ سے سنا جو کہہ رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ بیمار ہو گئے۔ دو یا تین رات قیام نہ فرما سکے۔ ایک خاتون آپ ؐ سے کہنے لگی: محمد! مجھے لگتا ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں خیر باد کہہ دیا ہے۔ اس پر اللہ نے یہ آیات اتاریں۔

دوسری روایت: امام طبرانی ؒاور ابن ابی شیبہؒ نے حفصؒ بن میسرہ سے ۔۔۔جن کی نانی اماں آپ ﷺ کی خادمہ تھیں۔۔۔ بیان کیا ہے :
ایک پلا آپﷺ کے گھر میں آیا۔ چارپائی کے نیچے اس نے جگہ بنائی اور بیٹھ گیا اور وہیں وہ مر بھی گیا۔ آپ ﷺ چار دن تک منتظر رہے مگر آپؐ پر وحی نازل نہ ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: خولہ! اللہ کے رسول کے گھر میں کیا ہو گیا ہے۔ جبریل ؑ میرے پاس نہیں آ رہے۔ میں نے جی میں کہا! میں ذرا گھر کو جھاڑتی پونچھتی ہوں۔ جھاڑو لے کر میں نے چارپائی کے نیچے مارا تو وہاں سے پلا نکلا، اور وہ بھی مرا ہوا۔ پھر آپ ﷺ کی حالت یوں ہو گئی کہ آپ ؐ وحی کے اترنے پر تھر تھرا رہے تھے۔ اس موقع پر یہ آیت {وَالضُّحٰی ں وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی ں}نازل ہوئی۔(فتح الباری۸/۷۱۰)

یہ عجیب و غریب حدیث اور سند کے اعتبار سے منقطع روایت امام بخاری ؒ کی صحیح روایت کا مقابل نہیں ہو سکتی۔ لہذا صحیح بخاری ؒ کی روایت کو ہم اختیار کریں گے اور طبرانی ؒ وغیرہ کی روایت کو چھوڑ دیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3: جہاں صحیح او رحسن روایات آپس میں ٹکراتی ہوں۔ تو پھر حقیقت حال معلوم کی جائے۔اس ٹکراؤ (تعارض) کی بے شمار صورتیں ہیں۔ چند ایک یہ ہیں۔

ا) دو روایتوں میں ایک روایت کے الفاظ یوں ہوں۔سَبَبُ نُزُوْلِ ھَذِہِ الآیَۃِ کَذَا۔ اس آیت کے نزول کا سبب اس طرح ہے یا کسی واقعہ کو سناکرآیت ذکر کر دی جائے اور کہا جائے: فنزلت الآیۃ۔پھر یہ آیت اتری۔ اور وہ اسے پڑھ کر سنا دے۔

جبکہ دوسری روایت میں عبارت کے الفاظ یوں ہوں:" نَزَلَتْ ھَذِہِ الآیَۃُ فِي کَذَا"۔ یہ آیت فلاں حکم کے لئے اتری ہے۔ یا فلاں حکم کو شامل کرتی ہے۔ تو اس صورت میں الفاظ کی بنیاد پر پہلی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔ اس لئے کہ پہلی روایت میں سبب نزول بیان کیا گیاہے جبکہ دوسری میں نہیں۔

2) کبھی دونوں روایتیں قوت کے اعتبار سے ایک ہی درجہ کی ہوتی ہیں۔ مثلاً: دونوں صحیح ہیں یا دونوں حسن ہیں۔ مگر دونوں کا بیان کردہ سبب نزول ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس صورت میں کسی اور دلیل کی وجہ سے ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دے دی جائے گی۔ مثلاً: ایک روایت کا راوی اس واقعہ کے وقت اپنی حاضری و موجودگی کا کہتا ہے جبکہ دوسرا صرف روایت کرتاہے۔ مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے:{وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ۔۔۔۔} (الاسراء:۸۵)کے سبب نزول میں دوروایتیں ہیں۔

پہلی روایت: امام بخاری ؒ (۲۷۹۴)اپنی سند صحیح کے ساتھ عبد اللہؓ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں:
ایک مرتبہ میں کسی کھیت میں رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ ﷺ کھجور کے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ چند یہودی وہاں سے گزرے ، آپ ؐ کو دیکھتے ہی ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اس نبی سے روح کے بارے میں پوچھو۔ آپ ﷺ سے انہوں نے آکر روح کے بارے میں سوال کیا۔ آپﷺ انہیں جواب دیے بغیر خاموش رہے۔ میں نے آپ ﷺ کی حالت دیکھ کر جان لیا کہ آپ ؐ پروحی نازل ہورہی ہے۔ میں اپنی جگہ کھڑا ہو گیا اور آپ ؐ پر وحی اتری۔ تو فرمایا: وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ۔۔۔۔۔۔

دوسری روایت: امام ترمذی ؒ اپنی سنن میں(۳۱۴۰) ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں:
قریش مکہ نے یہود سے کہا۔ کوئی ایسا سوال ہمیں دو کہ ہم بھی محمد ؐ سے پوچھ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ ؐ سے روح کے بارے میں پوچھو۔ تو انہوں نے پوچھا۔ آپ ﷺ پر یہ وحی نازل ہوئی وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوح۔۔۔ِ

پہلی روایت میں سیدنا ابن مسعودؓ کا یہود کے سوال کے وقت حاضر ہونا مذکور ہے جب کہ ابن عباسؓ کی روایت یہ ذکر نہیں کرتی کہ قریش کے سوال کے وقت ابن عباسؓ موجود تھے۔ اس بناء پر پہلی روایت کوووسری روایت پر ترجیح دی جائے گی۔

ج) کبھی سند کے اعتبار سے دو روایتیں صحیح ہوتی ہیں اوردوسری طرف دونوں واقعات کے درمیان وقت و زمانے کا فرق بھی نہ ہو۔ یعنی دونوں واقعات کے بعد ہی یہ آیت اتری ہو۔ اس صورت میں ہر واقعہ سبب نزول شمار ہوگا۔ مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُمْ شُہَدَآء۔۔۔اِنْ کَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْن } (النور:۶۔۹) ان آیات کا سبب نزول دو مختلف روایتیں ہیں۔

پہلی روایت: صحیح بخاری (۴۲۳)میں ہے کہ سہل بن سعد ؓ روایت کرتے ہیں:
عویمر ؓ عجلانی اپنے قبیلہ کے سردار عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے اور کہا: آپ کی کیا رائے ہے اگر کوئی اپنی بیوی کسی اجنبی مرد کے پاس پائے۔غیرت میں آکر آدمی اگر اس اجنبی کو قتل کر دے تو تم اس کے بدلے میں اسے قتل کردو گے؟ یا وہ کیا کرے؟ عاصم ؓ ! تم جاؤ اوررسول اکرمﷺ سے اس کی وضاحت چاہو۔ عاصم ؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہی سوال کر ڈالا۔ آپ ﷺ نے اس سوال کو سخت ناپسند فرمایا۔ عاصم ؓ نے واپس آ کر عویمر ؓ کو بتایا کہ آپﷺ نے سوال ہی ناپسند کیا ہے۔ عویمر ؓ نے کہا۔ بخدا میں باز نہیں آؤںگا جب تک کہ آپ ﷺسے اس بارے میں خود دریافت نہ کر لوں۔ آئے اور عرض کی۔ اللہ کے رسول! ایک شخص اپنی بیوی کو کسی اجنبی کے ساتھ مشغول پاتا ہے۔ کیا وہ اجنبی کو قتل کر دے؟ اگر ایسا کرے تو کیا آپ اس کے بدلے میں اسے قتل کر ڈالیں گے۔ یا وہ کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: عویمرؓ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں آیات اتاری ہیں۔ آپ ﷺنے ان دونوں کو بلا کر لعان کرنے کو کہا جیسا کہ قرآن مجید میں اس کا طریقہ ہے۔لعان کے بعد عویمرؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں اس کو روکوں تو یہ ظلم ہو گا۔ چنانچہ عویمر ؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اس طرح دو لعان کرنے والوں کے لئے یہ ایک قاعدہ بن گیا کہ وہ لعان کے بعد اپنی بیوی کو طلاق بھی دے۔

دوسری روایت: صحیح بخاری (۲۶۷۱)میں آیات لعان کا سبب نزول حضرت ابن عباس ؓ سے یوں مروی ہے :
ہلال ؓبن امیہ نے آپ ﷺ کی موجودگی میں ہی اپنی بیوی کو شریک بن سحماء کے ساتھ بدکاری کی تہمت لگا دی۔ آپ ؐ نے فرمایا: مدعی کو گواہ پیش کرنا ہو گا ورنہ کوڑے پڑیں گے۔ ہلال نے عرض کی: یا رسول اللہ ؐ! ایک آدمی اپنی بیوی کو کسی آدمی کے ساتھ مشغول پائے اور دوسری طرف وہی گواہوں کو تلاش کرتا پھرے۔ آپ ﷺ یہی فرماتے رہے کہ تم مدعی ہو اس لئے گواہ پیش کرو ۔ہلال نے عرض کی: اللہ کے رسول! خدا گواہ ہے کہ میں اپنے اس دعوے میں سچاہوں۔ مجھے امید ہے کہ میرا رب میری سچائی کی تصدیق میں کچھ نہ کچھ آسمان سے اتار دے گا جو کم از کم کوڑوں کی سزا سے مجھے بچا سکے۔ اتنے میں جبریل ؑ یہ آیات لیکر اترے۔{وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ ۔۔۔اِنْ کَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْن} (النور:۶)آپ ﷺ نے ہلال ؓاور اس کی بیوی کو بلوا بھیجا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ عزو جل یہ تو ضرور جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ تو کیا تم میں کوئی توبہ کرناچاہتا ہے؟۔ وہ عورت کھڑی ہوئی اور اس نے ان آیات کے مطابق حلفیہ بیان دے دیا کہ وہ سچی ہے۔ اس کا خاوند الزام لگانے میں جھوٹا ہے۔ تو آپ ﷺ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی"۔

یہ دونوں روایات صحیح بخاری کی ہیں۔ پہلی روایت عویمر ؓ عجلانی کے بارے میں سبب نزول کو بتاتی ہے جبکہ دوسری ہلال بن امیہ ؓ کے بارے میں۔ ایسی حالت میں کیا کیا جائے؟دونوں روایات میں واقعات گو الگ الگ ہیں مگر معاملہ ایک ہی ہے۔اس لئے قذف کے حکم کو عام کردیا گیا۔ لہذا دونوں واقعات کو ہی صحیح گردانتے ہوئے کہا جائے گا کہ یہ دو حادثے یکے بعد دیگرے ہوئے اور اللہ نے آیات لعان نازل کر کے اس مسئلے کا حل بتا دیا۔

جب لفظ عام ہو اور سبب خاص ہو:
جب کسی خاص واقعہ یا سوال کے جواب یا کسی مشکل کے حل کے لئے ایک یا چند آیات نازل ہوں مگر ان میں لفظ یا حکم، عام ہو نیز مستقبل میں بھی ایسی صورت حال پیش آسکتی ہو توعلماء تفسیرنے یہ اصول: "اَلْعِبْرَۃُ بِعُمُوْمِ اللَّفْظِ لاَ بِخُصُوْصِ السَّبَبِ"۔متعارف کرایا کہ خاص سبب کی بجائے لفظ کے عام مفہوم کو معتبر سمجھا جائے۔ یعنی جب کوئی آیت کسی خاص سبب کے لئے نازل ہوئی مگر اس کے الفاظ عام ہیں تو اس کا حکم بھی اپنے سبب کی وجہ سے عام ہوگا کیونکہ قرآن مجید عام شریعت کو لے کر نازل ہوا ہے اور ساری امت کے لئے ہے۔مثلا ربوٰ ، رجم اورظہاروغیرہ کے احکام۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ان آیات کا حکم تو آپ ﷺ کے زمانے میں فلاں مجرم یا مجرمہ کے لئے تھا۔ تو یہ بات درست نہ ہو گی بلکہ یہ قرآن مجید کا عام حکم ہے اور ہمیشہ کے لئے نافذالعمل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مصادر اسباب نزول:
آیت کا سبب جاننے کے لئے حسب ذیل کتب سے مدد لی جا سکتی ہے۔

کتب تفسیر:
تفاسیر کو دیکھئے جن میں مفسرین کرام آیات کے اسباب النزول بھی لکھتے ہیں۔ مثلاً: تفسیر ابن کثیر،تفسیر ابن جریر طبری۔ وغیرہ۔اگر وہاں اختلاف نظر آئے تو مندرجہ بالا اصولوں کو لاگو کیجئے۔

 کتب حدیث:
کتب حدیث کے مختلف ابواب میں کتاب التفسیرکے نام سے بھی ایک باب ہوتاہے۔ جس میں اسباب نزول کی روایات بھی نقل کی جاتی ہیں۔ اس کی مثال صحیح بخاریؒ میں موجود باب التفسیر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسباب نزول جاننے کا بنیادی قاعدہ:
کسی آیت کا سبب نزول جاننے کے لئے صحیح روایات درکار ہوتی ہیں جو سبب نزول سے آگاہ کرتی ہوں۔ وہی روایت مقبول ہوگی جو نبی کریم ﷺ سے یا صحابہ ؓ سے متصل صحیح یا حسن سند کے ساتھ منقول ہو۔ کیونکہ صحابہ کرام ؓ ہر وقت نبی کریم کی صحبت میں رہا کرتے تھے۔

امام واحدیؒ کا قول ہے:
قرآن کریم کے اسباب نزول کی بابت بجز ان لوگوں کی ہدایت اور سماعی بیان کے جنہوں نے قرآن کو بچشم خود دیکھا اور اسباب النزول میں درک پیدا کیا او راس علم کی تحقیق کی ہے۔ کوئی دوسری بات کہنا ہر گزجائز نہیں"۔(الاتقان ۱/۷۵)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓفرماتے ہیں:
"اس ذات کی قسم! جس کے سواکوئی معبود نہیں۔ اللہ کے کتاب کی ہر آیت کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ وہ کس بارے میں نازل ہوئی اور کب نازل ہوئی"۔(الاتقان ۱/۹)

سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں:
خدا کی قسم! میں ہر ہر آیت کے بارے میں جانتاہوں کہ وہ رات میں نازل ہوئی یا دن کو، میدانی علاقہ میں اتری یا پہاڑ پر۔(الاتقان)

٭٭٭٭٭

قرآن کریم اور اس کے چند مباحث
 
Top