• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم الغیب، نکتہ اتفاق؟

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم
شیخ! میں نے دونوں دروس سنے ہیں لیکن اپنی کم علمی کی وجہ سے ان میں اپنے سوالات کے جواب نہیں پا سکا۔ تحریرا وضاحت فرما دیں تو ممنون ہوں گا۔
جزاک اللہ خیرا
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
محترم عبداللہ حیدر نے جونکتہ اشتراک نکالاتھاوہ میری رائے میں بالکل صحیح ہے۔کچھ حضرات کااعتراض یہ ہے کہ وہ نکتہ اشتراک بھی ہمارے یااسلامی تصورات سے مکمل میل نہیں کھاتے اس لئے اس کونکتہ اشتراک کہناغلط ہے۔ ان قائلین کو ذرا غورکرناچاہئے کہ قرآن کریم نے جب عیسائیوں اورمسلمانوں کے درمیان نقطہ اشتراک تعالو االی کلمۃ سواء بینناوبینکم کی دعوت دی تھی توکیاعیسائیوں کا تصور الہ اسلامی تصورات سے ہم آہنگ تھا؟
اگرآپ نکتہ اشتراک وہاں سے ڈھونڈناچاہتے ہیں جہاں کے فریق کے خیالات بالکل آپ کے خیالات سے ملتے جلتے ہوں تومیرے خیال میں ایساکبھی ممکن نہیں ہوتا۔ نکتہ اشتراک کہتے ہی اس کو ہیں کہ دونوں کے درمیان کوئی بات کسی حدتک مشترک ہو نہ کہ مکمل طورپر مشترک ہو۔اگرآپ مکمل اشتراک کے خواہاں ہیں توزندگی بھر آرام کیجئے۔
ورنہ عبداللہ حیدرصاحب نے جو نکتہ اشتتراک پیش کیاہے اگراس پر بات آگے بڑھے اورفریقین ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کریں تو ممکن ہے کہ جن سے تبادلہ خیال ہورہو ان کے قلب واذہان میں صحیح اسلامی تعلیمات وتصورات جاگزیں ہوجائے۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
محترم عبداللہ حیدر نے جونکتہ اشتراک نکالاتھاوہ میری رائے میں بالکل صحیح ہے۔کچھ حضرات کااعتراض یہ ہے کہ وہ نکتہ اشتراک بھی ہمارے یااسلامی تصورات سے مکمل میل نہیں کھاتے اس لئے اس کونکتہ اشتراک کہناغلط ہے۔ ان قائلین کو ذرا غورکرناچاہئے کہ قرآن کریم نے جب عیسائیوں اورمسلمانوں کے درمیان نقطہ اشتراک تعالو االی کلمۃ سواء بینناوبینکم کی دعوت دی تھی توکیاعیسائیوں کا تصور الہ اسلامی تصورات سے ہم آہنگ تھا؟
اگرآپ نکتہ اشتراک وہاں سے ڈھونڈناچاہتے ہیں جہاں کے فریق کے خیالات بالکل آپ کے خیالات سے ملتے جلتے ہوں تومیرے خیال میں ایساکبھی ممکن نہیں ہوتا۔ نکتہ اشتراک کہتے ہی اس کو ہیں کہ دونوں کے درمیان کوئی بات کسی حدتک مشترک ہو نہ کہ مکمل طورپر مشترک ہو۔اگرآپ مکمل اشتراک کے خواہاں ہیں توزندگی بھر آرام کیجئے۔
ورنہ عبداللہ حیدرصاحب نے جو نکتہ اشتتراک پیش کیاہے اگراس پر بات آگے بڑھے اورفریقین ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کریں تو ممکن ہے کہ جن سے تبادلہ خیال ہورہو ان کے قلب واذہان میں صحیح اسلامی تعلیمات وتصورات جاگزیں ہوجائے۔
جزاک اللہ خیرا۔ کوزے میں دریا بند کر دیا ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
محترم عبداللہ حیدر نے جونکتہ اشتراک نکالاتھاوہ میری رائے میں بالکل صحیح ہے۔
اس پر اسی تھریڈ میں پیچھے تفصیل سے وضاحت ہوچکی ہے۔
کچھ حضرات کااعتراض یہ ہے کہ وہ نکتہ اشتراک بھی ہمارے یااسلامی تصورات سے مکمل میل نہیں کھاتے اس لئے اس کونکتہ اشتراک کہناغلط ہے۔ ان قائلین کو ذرا غورکرناچاہئے کہ قرآن کریم نے جب عیسائیوں اورمسلمانوں کے درمیان نقطہ اشتراک تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ کی دعوت دی تھی تو کیا عیسائیوں کا تصور الہ اسلامی تصورات سے ہم آہنگ تھا؟
جمشید بھائی! ذرا غور کیجئے گا کہ آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عیسائیوں کے ’تصورِ الٰہ‘ کو نکتہ اشتراک نہیں بنایا، بلکہ وہ نکتہ اشتراک اللہ رب العٰلمین - ومن أصدق من الله قيلا - نے اپنے مبارک الفاظ میں بیان فرمایا تھا کہ
أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللهِ
یہ تینوں جملے اللہ عزّ وجلّ کے ہیں، جو وحی ہیں، اور یہ جملے قرآن کریم کی تعلیمات کا نچوڑ اور انبیاء کرام ﷩ کی دعوت کا خلاصہ ہیں، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾ ... سورة النحل
اگرآپ نکتہ اشتراک وہاں سے ڈھونڈناچاہتے ہیں جہاں کے فریق کے خیالات بالکل آپ کے خیالات سے ملتے جلتے ہوں تومیرے خیال میں ایساکبھی ممکن نہیں ہوتا۔ نکتہ اشتراک کہتے ہی اس کو ہیں کہ دونوں کے درمیان کوئی بات کسی حدتک مشترک ہو نہ کہ مکمل طورپر مشترک ہو۔اگرآپ مکمل اشتراک کے خواہاں ہیں توزندگی بھر آرام کیجئے۔
اس کے جواب میں یہی کہہ سکتا ہوں:
﴿ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ﴾ ... سورة القلم کہ ’’ وه تو چاہتے ہیں کہ آپ (ﷺ) ذرا ڈھیلے ہوں تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں۔‘‘
واللہ تعالیٰ اعلم!
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
جمشید بھائی! ذرا غور کیجئے گا کہ آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عیسائیوں کے ’تصورِ الٰہ‘ کو نکتہ اشتراک نہیں بنایا، بلکہ وہ نکتہ اشتراک اللہ رب العٰلمین - ومن أصدق من الله قيلا - نے اپنے مبارک الفاظ میں بیان فرمایا تھا کہ
أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللهِ
یہ تینوں جملے اللہ عزّ وجلّ کے ہیں، جو وحی ہیں، اور یہ جملے قرآن کریم کی تعلیمات کا نچوڑ اور انبیاء کرام ﷩ کی دعوت کا خلاصہ ہیں، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾ ... سورة النحل
جزاک اللہ خیرا انس نضر بھائی ، اللہ ہم سب کو شرک سے بچائے۔

اس کے جواب میں یہی کہہ سکتا ہوں:
﴿ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ﴾ ... سورة القلم کہ ’’ وه تو چاہتے ہیں کہ آپ (ﷺ) ذرا ڈھیلے ہوں تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں۔‘‘
ماشاء اللہ انس نضر بھائی جان بروقت بڑی مناسب آیت کریمہ پیش کی ہے۔
جزاکم ربی خیرا۔
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
122
ری ایکشن اسکور
422
پوائنٹ
76
یہ تینوں جملے اللہ عزّ وجلّ کے ہیں، جو وحی ہیں، اور یہ جملے قرآن کریم کی تعلیمات کا نچوڑ اور انبیاء کرام ﷩ کی دعوت کا خلاصہ ہیں، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾ ... سورة النحل

اس آیت کی ترجمانی مولانا مودودی کرتے ہیں :
ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اُس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ "اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو"

اب آپ یہ بھی ضرور بتاتے جائیں کہ کس عالم دین نے ایسا فتویٰ دیا ہے کہ صرف اہل الحدیث اللہ کی بندگی کرتے ہیں اور باقی تمام مسلم طبقے "طاغوت کی بندگی" میں مشغول ہیں؟؟

﴿ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ﴾ ... سورة القلم
آگے کی آیات بھی لکھ دیجئے جناب۔ (مولانا مودودی کے ترجمے سے شکریے کے ساتھ)

  • یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں
  • ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے
  • طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے
  • بھلائی سے روکتا ہے، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے، سخت بد اعمال ہے، جفا کار ہے
  • اور اَن سب عیوب کے ساتھ بد اصل ہے
  • اِس بنا پر کہ وہ بہت مال و اولاد رکھتا ہے
  • جب ہماری آیات اُس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں

آخری آیت کو چھوڑ کر بتائیں کہ یہ ساری "عملی بیماریاں" مسلمانوں کے کس طبقے میں موجود نہیں ہیں؟؟
تمام ہی طبقوں میں یہ بیماریاں پائی جاتی ہیں ، تو پھر کیا تمام طبقے کسی ایک معاملے پر اتحاد و اتفاق کرنا بند کر دیں؟
اور پھر آخری آیت واضح کر دیتی ہے کہ ان آیات میں تخاطب مسلمان سے نہیں ہے۔ کیونکہ کوئی بھی مسلمان آیات ربانی کو "اگلے وقتوں کے افسانے" بالکل نہیں کہتا۔

آیات مقدسہ کی من مانی شرح سے قطع نظر ، سیدھی سی بات آپ لوگ یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ آپ کا گروہ کسی بھی قسم کی مفاہمت کا قائل نہیں۔ ورنہ تفسیر و تشریح کا اختلاف تو خیر القرون سے بھی ثابت ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
یہ تینوں جملے اللہ عزّ وجلّ کے ہیں، جو وحی ہیں، اور یہ جملے قرآن کریم کی تعلیمات کا نچوڑ اور انبیاء کرام ﷩ کی دعوت کا خلاصہ ہیں، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾ ... سورة النحل
اس آیت کی ترجمانی مولانا مودودی کرتے ہیں :
ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اُس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ "اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو"
اب آپ یہ بھی ضرور بتاتے جائیں کہ کس عالم دین نے ایسا فتویٰ دیا ہے کہ صرف اہل الحدیث اللہ کی بندگی کرتے ہیں اور باقی تمام مسلم طبقے "طاغوت کی بندگی" میں مشغول ہیں؟؟
محترم اور عزیز باطل شکن بھائی! میرا یہ دعویٰ ہے ہی نہیں کہ بریلوی حضرات طاغوت کی بندگی میں مشغول ہیں، نہ ہی میں نے ایسا کہیں لکھا ہے، در اصل جمشید بھائی نے آیت کریمہ ﴿ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ﴾ اس بات کی دلیل میں پیش کی تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو اس آیت کے ذریعے ایک نکتۂ اشتراک کی دعوت دی تھی، حالانکہ عیسائیوں کا تصور الٰہ (تثلیث) ہم سے بالکل ہم آہنگ نہیں تو پھر ہم بریلویوں کے ساتھ عطائی علم غیب وغیرہ کی پیر کرم شاہ ازہری﷫ کی عبارت پر اتفاق کیوں نہیں کر لیتے، تو میں نے جواب میں یہ عرض کیا تھا
جمشید بھائی! ذرا غور کیجئے گا کہ آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عیسائیوں کے ’تصورِ الٰہ‘ کو نکتہ اشتراک نہیں بنایا، بلکہ وہ نکتہ اشتراک اللہ رب العٰلمین - ومن أصدق من الله قيلا - نے اپنے مبارک الفاظ میں بیان فرمایا تھا کہ
أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللهِ
یہ تینوں جملے اللہ عزّ وجلّ کے ہیں، جو وحی ہیں، اور یہ جملے قرآن کریم کی تعلیمات کا نچوڑ اور انبیاء کرام ﷩ کی دعوت کا خلاصہ ہیں، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾ ... سورة النحل
اگر آپ کو میری اس بات سے اختلاف ہے کہ نہیں نکتۂ اشترک عیسائیوں کے تصورِ الٰہ کو بنایا گیا تھا تو اپنا اختلاف واضح کریں! جزاکم اللہ خیرا!
﴿ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ﴾ ... سورة القلم
آگے کی آیات بھی لکھ دیجئے جناب۔ (مولانا مودودی کے ترجمے سے شکریے کے ساتھ)

  • یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں
  • ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے
  • طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے
  • بھلائی سے روکتا ہے، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے، سخت بد اعمال ہے، جفا کار ہے
  • اور اَن سب عیوب کے ساتھ بد اصل ہے
  • اِس بنا پر کہ وہ بہت مال و اولاد رکھتا ہے
  • جب ہماری آیات اُس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں
آخری آیت کو چھوڑ کر بتائیں کہ یہ ساری "عملی بیماریاں" مسلمانوں کے کس طبقے میں موجود نہیں ہیں؟؟
تمام ہی طبقوں میں یہ بیماریاں پائی جاتی ہیں ، تو پھر کیا تمام طبقے کسی ایک معاملے پر اتحاد و اتفاق کرنا بند کر دیں؟
اور پھر آخری آیت واضح کر دیتی ہے کہ ان آیات میں تخاطب مسلمان سے نہیں ہے۔ کیونکہ کوئی بھی مسلمان آیات ربانی کو "اگلے وقتوں کے افسانے" بالکل نہیں کہتا۔
آیات مقدسہ کی من مانی شرح سے قطع نظر ، سیدھی سی بات آپ لوگ یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ آپ کا گروہ کسی بھی قسم کی مفاہمت کا قائل نہیں۔ ورنہ تفسیر و تشریح کا اختلاف تو خیر القرون سے بھی ثابت ہے۔
بھائی! میں نے تو صرف ایک ہی آیت کریمہ ﴿ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ﴾ کوٹ کی تھی، جس سے میرا مقصود یہ تھا کہ ہم علم الغیب کے سلسلے میں ’عطائی علم غیب‘ وغیرہ جیسا عقیدہ رکھ کر مداہنت نہیں کرنا چاہتے۔ (کیا آپ اس بات میں میرے مخالف ہیں؟)
یعنی کیا آپ کا بھی عطائی علم الغیب کا ہے؟ کہ نبی کریمﷺ عطائی علم الغیب کے حامل تھے؟!!
جہاں تک اس سے اگلی آیات کا معاملہ ہے تو وہ نہ میں نے کوٹ کی ہیں اور نہ ہی میں ان آیات کا مصداق بریلوی حضرات کو سمجھتا ہوں۔ نہ جانے آپ نے وہ آیات جو میں نے کوٹ ہی نہیں کیں مجھ پر کیوں چسپاں کر دیں؟!!
وہ آیات آپ نے خود ہی کوٹ کی ہیں، اب آپ ہی بتائیے کہ آپ نے وہ آیات کس کے لئے پیش کی ہیں؟!!
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 
Top