• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم الفواصل … توقیفی یا اجتہادی؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شمار میں اِختلاف کی وجہ
قائلین توقیف آئمہ شمار میں اختلاف کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’شمار کے اماموں کے اختلاف سے اس میں شبہ ہوتا ہے کہ اختلاف اجتہاد کی علامت ہے اس کا جواب یہ ہے کہ شمار میں جو اختلاف ہے وہ ویسا ہی ہے جیسا کہ قراء ۃ کی وجوہ میں اختلاف ہے۔ ‘‘ (کاشف العسر:۱۳۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فواصل کا قیاسی ہونا
جس آیت پر آپﷺنے ایک بار وقف کیا اور دوسری مرتبہ اس پر وصل فرمایا تو اس چیز میں یہ احتمال ہے کہ آپﷺ کا وقف کرنا فاصلہ کی تعریف کے لیے تھا یا وقف تام کی تعریف کے واسطے یا یہ بات بتانے کے لیے کہ اس جگہ استراحت (آرام لینا) مقصود ہے اور اس کے بعد وصل کرنا۔ مگر ایسا (یعنی وقف تام یا استراحت) اسی صورت میں سمجھا جائے گا جبکہ وہ مقام فاصلہ کا نہ ہو۔ اسی طرح وصل کرنا کہ وہ مقام فاصلہ ہو مگر وقف تام کے لیے اس کو وصل کردیا۔ اب یہ کیسے معلوم ہوگا کہ اس کلمہ پر فاصلہ ہے یا نہیں اس بات کی تعیین؍اجتہاد کے ذریعے کی جاتی ہے۔
قیاس کسے کہتے ہیں اس سے متعلق علامہ جعبری﷫ فرماتے ہیں:
’’فھو ما ألحق من المحتمل غیر المنصوص بالمنصوص لمناسب، ولا محذور في ذلک لأنہ لا زیادۃ فیہ ولا نقصان وإنما غایتہ أنہ محل وصل أو فصل‘‘(حدیقۃ الزہر فی عد آي السور (مخطوطہ):۲۲)
’’قیاس یہ ہے کہ جو احتمال غیر منصوص کسی مناسب امر کی وجہ سے منصوص کے ساتھ لاحق کردیا گیا ہو وہ بھی فاصلہ مانا جائے گا اور اس بات میں کوئی خرابی نہیں ہے اس میں کوئی کمی اور بیشی نہیں ہوتی اور اس کی غرض و غایت محض اس کا محل وصل یا محل فصل ہونا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ جلال الدین سیوطی﷫ کا کہنا ہے کہ وقف ہر کلمہ پر الگ الگ بھی جائز ہے اور تمام قرآن کا وصل کرنا بھی جائز ہے لہٰذا قیاس اس بات کا محتاج ہے کہ وہ فاصلہ کی معرفت کا کوئی طریقہ معلوم کرے۔ (الاتقان فی علوم القرآن: ۲؍۲۶۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قائلین قیاسی کے دلائل
قائلین قیاسی کی رائے ہے کہ اس علم کا بہت بڑا حصہ تو ایسا ہے جو توقیفی ہے۔ لیکن ایک قلیل حصہ قیاسی بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ نبی کریمﷺ سے کچھ جزئیات منقول ہیں۔ ان سے قواعد کلیہ مستنبط کیے گئے اور انہی کی طرف جزئیات بھی لوٹا دی گئی ہیں۔ جن کے بارے میں نص نہیں آئی۔ قائلین قیاسی کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں۔
(١) جب حضرت اعمش﷫ تابعی سے امام حمزہ﷫ نے سوال کیا کہ کیا سبب ہے کہ آپ نے ’’إِلَّا خَآپفِیْنَ‘‘ (البقرہ:۲؍۱۱۴) پر آیت شمار نہیں کی تو اس کے جواب میں اعمش﷫ نے یہ دلیل بیان کی کہ ہماری قراء ۃ میں ’’خَآپفِیْنَ‘‘ کے بجائے ’’خیفاً‘‘ ہے۔ (البیان فی عدآی القرآن:۱۰۹)
مقصد یہ تھا کہ اس قراء ت کی رُو سے یہ کلمہ پہلی اور بعد والی آیتوں کے شکل اور ان کے وزن پر نہیں حالانکہ قرآن مجید کی اکثر آیتیں شکل و وزن میں متحد ہوکر آئی ہیں۔ اس کے اپنی ماقبل اور مابعد آیات سے شکل و وزن میں متحد نہ ہونے کی وجہ سے حضرت اعمشa نے اس پر آیت شمار نہیں کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاری فتح محمد کا کہنا ہے کہ علامہ دانی﷫ کی اس روایت سے دو باتیں ثابت ہوئیں۔
(١) آیات کے بارے میں مُشاکلہ اور تناسب والا قاعدہ معتبر بھی ہے اور اماموں نے اس کو استعمال بھی کیا ہے۔
(٢) جن کلمات پر آیت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں نص و روایت نہ آئی ہو ان میں اجتہاد کرلینا اور اس کے ذریعہ سے ان کا حکم معلوم کرلینا صحیح اور درست ہے۔ (کاشف العسر:۱۳۶)
ابو ایوب انصاری امام اعمش﷫ اور امام حمزہ ﷫ کے قول سے متعلق فرماتے ہیں:
’’آیات کے بارے میں اجتہاد کے جائز اور صحیح ہونے کی ایک دلیل وہ بھی ہے جس کو اعمش﷫ نے ’’خَآپفِیْنَ‘‘ پر آیت شمار نہ کرنے کے بارے میں بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس میں ہماری قراء ۃ ’’خیفاً‘‘ ہے۔ اس کی رُو سے یہاں مشاکلہ اور موازنہ کا قاعدہ معدوم ہے اس لیے ہم نے اس کو آیت کا آخری سر شمار نہیں کیا اور اس ارشاد کی بنیاد اس اجتہاد پر ہے جس میں کسی طرح بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ (لوامع البدر:۹۱)
(٢)آیات کی تمام جزئیات کے بارے میں نصوص نہیں آئیں (یہ رائے ابن عبدالکافی، علامہ دانی﷫ اور امام شاطبی﷫ وغیرہم کی ہے)۔ (مرشد الخلان:۲۰)
(٣) شمار میں اماموں کا اختلاف ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہنا ظاہر کے خلاف ہے کہ آیات کا اختلاف قراء ۃ کی وجوہ کے اختلاف کی طرح ہے اس لیے کہ قراء ت کی وجوہ اُمت پر آسانی اور مہربانی فرمانے کے لیے نازل ہوئی ہیں اور شمار کا یہ حال نہیں ہے۔ (کاشف العسر:۱۳۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاری فتح محمد فرماتے ہیں:
’’آیات کے بعض مواقعوں کا اجتہاد سے ثابت ہونا اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اس لیے کہ اس سے قرآن مجید میں نہ کوئی زیادتی لازم آتی ہے اور نہ کمی بلکہ اس علم کے تمام مسائل وصل و فصل کے مقامات کی تعیین کے لیے ہیں۔‘‘ (کاشف العسر:۱۴۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قائلین توقیفی اور قیاسی کے نقطۂ نظر میں تطبیق
قائلین توقیفی اور قیاسی کے نقطۂ نظر میں تطبیق بیان کرتے ہوئے عبدالرزاق علی ابراہیم موسیٰ فرماتے ہیں:
’’إن ھذا العلم بعضہ ثبت بالنص وھو العظم وبعضہ ثبت بالإجتہاد ولکن لما کان الإجتہاد في ھذا العلم ھو رد الجزئیات التي لم ینص علیھا إلی ما نص علیہ منھا، صح أن یقال: إن ھذا العلم نقلي۔‘‘ (مرشد الخلان:۲۱)
’’اس علم کا بعض حصہ نص سے ثابت ہے جو بہت زیادہ ہے اور بعض حصہ اجتہاد سے ثابت ہے۔ اس علم میں اجتہاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان جزئیات کو جن کے بارے میں نص وارد نہیں ہوئی ہے، ان جزئیات کی طرف لوٹانا جن کے بارے میں نص وارد ہوئی ہے۔ اس لیے یہ کہنا بھی درست ہے کہ یہ علم نقلی ہے۔‘‘
قاری فتح محمد صاحب فرماتے ہیں کہ اس علم (یعنی علم الفواصل) کے دو حصے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) وہ جو نص اور روایت سے ثابت ہے اور یہ اکثر ہے۔
(٢) وہ جواجتہاد کے ذریعے حاصل ہوا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جن جزئیات کے بارے میں نص اور روایت نہیں آئی ان کو ان جزئیات کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے جن کے بارے میں نص موجود ہے اور ان ہی سے غیر منصوص جزئیات کا حکم بھی نکال لیا جائے۔ پس چونکہ بغیر نص والی جزئیات کا حکم بھی نص والی جزئیات ہی سے نکالا جاتا ہے اس بناء پر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ علم پورے کا پورا توقیفی اور نقلی ہے۔ (کاشف العسر:۷۰-۷۱)
قاری صاحب اس سے متعلق مزید فرماتے ہیں کہ آیات کے شمار میں اختلاف سے یہ لازم نہیں آتا کہ آیات کے شمار توقیفی اور نبیﷺکے بتائے ہوئے نہ ہوں کیونکہ یہ اختلاف مشاکلہ اور تناسب کی وجہ سے ہے۔ یہ دونوں قاعدے بھی فن کے علماء نے اُن آیات سے نکالے ہیں جن پر آیت ہونے کے بارے میں نص و روایت موجود ہے۔ پس ان آیات سے یہ دو قاعدے نکال کر اُن میں بھی جاری کردیئے جن کے بارے میں نص و روایت نہیں تھی اور اس ذریعہ سے ان غیر نص والی آیات کو بھی وہی حکم دے دیا جو نص والی آکا تھا اور وہ حکم یہ تھا کہ ان پر آیت ہے۔ پس اسی طرح غیر نص والی آیات پر بھی یہی حکم لگادیا کہ ان پربھی آیت ہے چونکہ یہ حکم مشاکلہ اور تناسب کے ذریعہ لگایا گیا ہے اور یہ دونوں نص والی آیات سے مستنبط ہیں اس بناء پر گویا وہ بغیر نص والی آیات بھی نص والی آیات ہی سے لی گئی ہیں اور اس طرح سب آیات توقیفی ہوگئیں۔ ( ایضاً:۱۳۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حاصل کلام یہ ہے کہ آیات کے فواصل کے شمار میں جو اختلاف ہے اس سے یہ بات ہرگز نہیں نکلتی کہ یہ تمام اجتہادی؍ قیاسی ہیں۔ اس علم میں جو توقیف ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ صحابہ﷢نے قرآن کے الفاظ اور اس کی آیات اور ان کا شمار یہ تینوں چیزیں خود نبی کریمﷺسے سنی ہیں اور یہ اختلاف و اجتہاد توقیف کے منافی نہیں ہے۔اس لیے کہ نبی کریمﷺ نے صحابہ﷢ کو آیات کی تعلیم ان کے رؤوس پر وقف کرنے کے ذریعے دی۔ جن رؤوس پر آپﷺنے ہمیشہ وقف کیا ان پر سب آئمہ کے نزدیک فواصل ہیں اور جن پر ہمیشہ وصل کیا اُن پر اجماعاً فواصل نہیں۔ آئمہ کے مابین اختلاف اصل میں ان رؤوس کے بارے میں ہوا جن پر ایک مرتبہ آپﷺنے وقف کیا اور دوسری مرتبہ وصل۔ اب آپﷺکے اس وقف اور وصل میں اختلاف ہوا کہ آپﷺ نے وقف فاصلہ کی تعلیم کے لیے کیا تھا یا وقف تام یا استراحت کے لیے ؟اسی طرح وصل کہ اُس پر فاصلہ تھا، جبکہ آپﷺنے وقف تام کی وجہ سے وصل کیا۔ اس اختلاف کی بناء پر آئمہ میں اختلاف واقع ہوا کہ ان آیات کے رؤوس پر فواصل ہیں یا نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آپﷺکے وقف ووصل کی تین صورتیں ہیں:
(١) وہ کلمات جن پر آپﷺنے ہمیشہ وقف کیا ہے ان پر اجماعاً فاصلہ کا اطلاق ہوگا۔
(٢) وہ کلمات جن میں ہمیشہ وصل کیا ہے یہ اجماعاً متروک ہیں۔
(٣) وہ کلمات جن پر کبھی وقف کیا ہے اور کبھی ان کو وصل سے پڑھا ہے اس قسم میں اختلاف ہے۔
اس تیسری صورت کے وقف میں پھر تین طرح کے احتمالات ہیں:
(١) اس لیے کہ یہ آیت کا آخری سرا ہے۔
(٢) اس لیے کہ آگے پڑھنے کے لیے سانس میں قوت آجائے۔
(٣) وقف کا طریقہ بتلانے کے لیے ہو کہ کسی حرف پر وقف کس طرح کیا جاتا ہے۔ مثلاً وقف میں حرکت والے حرف کو ساکن اور تاء تانیث سے بدل دیتے ہیں وغیرہ۔
 
Top