• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم الفواصل … توقیفی یا اجتہادی؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جس طرح تیسری صورت کے وقف میں احتمالات ہیں اسی طرح وصل میں بھی دو احتمالات ہیں:
(١) یہ بتانے کے لیے ہوکہ یہ آیت کا آخری سرا نہیں ہے۔
(٢) اس لیے ہو کہ آیت کا آخری سرا تو ہے لیکن پہلی بار جو وقف کیا تھا وہ رؤوس کی تعلیم کے لیے تھا۔ پھر جب آپﷺ اس سے مطمئن ہوگئے کہ صحابہ کرام﷢ نے اس پر فاصلہ کو پوری طرح سمجھ لیا ہے تو پھر وصل کردیا۔
پس ان سب احتمالات کے ہوتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس پر آیت ہے یا نہیں اور ان احتمالات میں یہ فیصلہ کرنا کہ اس پر فاصلہ ہے یا نہیں اجتہاد؍قیاس ہی سے ممکن ہے۔ آیات کے رؤوس ایسے ہیں کہ وہ نہ توکلی اجتہادی ہیں اور نہ کلی توقیفی۔ آیات کے رؤوس کا ایک بہت بڑا حصہ جس کی تعداد تقریباً چھ ہزار نوے (۶۰۹۰) بنتی ہے ایسے ہیں کہ اُن پر سب کا اتفاق ہے جبکہ کل آیات چھ ہزار دو سو(۶۲۰۰) سے کچھ زائد ہیں ان اختلافی رؤوس سے عددی لحاظ سے کوئی نسبت حاصل نہیں۔ آئمہ کرام نے ان اختلافی رؤوس کی تعیین کے لیے ان آیات سے جن کے رؤوس کی بابت نص وارد ہوئی ہے ،کچھ قواعد مرتب کیے اور پھر ان قواعد کی روشنی میں اختلافی رؤوس کی تعیین ممکن بنائی۔ یہ قواعد انہوں نے چونکہ نص والی آیات سے اخذ کیے تھے اس لیے یہ جزئیات؍قواعد ان کلیات؍نص والی آیات کا حصہ بن گئے۔ اس طرح یہ علم سارے کا سارا نقلی کہلانے لگا۔

٭_____٭_____٭
 
Top