• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم القراء ات اور قواعد ِنحویہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاعدہ
ضمیر مجرور پر اسم ظاہر کا عطف حرف جر دہرائے بغیر جائز ہے۔
یہ قاعدہ کوفی نحاۃ کی نزدیک مسلم ہے اوربعض مصری علماء بھی اس کی حمایت کرتے ہیں اور انہوں نے اس کو قرآن کریم میں سورۃ النساء کی آیت ’’ وَاتَّقُوا اﷲَ الَّذِیْ تَسَآئَلُوْنَ بِہٖ وَالْأَرْحَامَ۱ …٭‘‘ (سورۃ النساء: ۱) سے اخذ کیا ہے ، کیونکہ حمزہ رحمہ اللہ نے ’بہٖ‘ کی ضمیرمجرور پر عطف ڈالتے ہوئے ’الأرحام‘ کو جر کے ساتھ پڑھا ہے اور حرف جر کا اِعادہ نہیں ہوا۔
لیکن جو علماء ضمیر مجرور پر اسم ظاہر کو عطف میں حرف جر کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں اوربغیر اِعادہ جار وہ اس عطف کو جائز نہیں سمجھتے ، وہ حمزہ قاری رحمہ اللہ کی مذکورہ قراء ت پر تین طرح کے اعتراض کرتے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے اور وہ اعتراض حسب ذیل ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) یہ قراء ت معنوی اعتبار سے درست نہیں ہے۔
(٢) ’والأرحام‘ کی جر کی صورت میں اس پر با مقدر ہوگی جوکہ با قسمیہ ہوگی اورمعنی ہوگا ’’رشتہ داریوں کی قسم‘‘ اور یہ جائز نہیں کیونکہ غیر اللہ کی قسم اٹھانا حرام ہے۔
(٣) یہ قراء ت عربی قاعدے کے خلاف ہے۔
جہاں تک پہلے اعتراض کا تعلق ہے ، تو یہ جملہ معنوی اعتبار سے بالکل درست ہے ، کیونکہ معطوف میں با مقدر ہے جس پر معطوف علیہ کی بادلالت کرتی ہے ، لہٰذا یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے ’کیف أصبحت؟‘ تو اس کے جواب میں کہا جائے’خیر‘ را کی جر کے ساتھ اصل میں ہوگا ’بخیر‘ أی أصبحت بخیر‘ اور مذکورہ آیت کا معنی ہو گا: ’’تسائلون بالأرحام‘‘۔
رہا دوسرا اعتراض تو وہ سرے سے باطل ہے ، کیونکہ یہاں باقسمیہ نہیں بلکہ باسببیہ ہے یعنی وہ رشتہ داریاں جن کی وجہ سے تم سوال کرتے ہو ،گویا یہ سوال بالرحم کے قبیل سے ہے۔قسم کے قبیل سے نہیں ہے ، اور کسی چیز کے سبب کے ذریعہ سے سوال کرنا اورکسی کی قسم اٹھانا دو مختلف چیزیں ہیں اگر کہا جائے ’’باﷲ لتفعلن کذا‘‘ تو یہاں باقسمیہ ہے ، لیکن اگر کہا جائے ’’أسألک باﷲ أن تفعل کذا‘‘ تو یہ اللہ کے حق کے واسطے سے سوال ہے ، قسم نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور اگر با کو قسمیہ مان بھی لیا جائے توبھی قسم اٹھانے والا اللہ تعالی ہے اوراللہ تعالی اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم اٹھا سکتا ہے ، جبکہ غیر اللہ کی قسم اٹھانے کی ممانعت تو مخلوق کے لئے ہے، مخلوقات میں سے کسی کو اِجازت نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی قسم اٹھائے۔
رہا یہ اعتراض کہ ’الأرحام‘ کی قراء ت جر کے ساتھ ہو تویہ عربی لغت کے خلاف ہے ، کیونکہ ضمیر مجرور پر اسم ظاہر کا عطف حر فِ جر کو معطوف میں دہرانے کے ساتھ صحیح ہوتا ہے ، اور آیت مذکورہ میں حرف ِ جر کو دوبارہ نہیں لایاگیا، لہٰذا ’والأرحام‘ کو جر کے ساتھ پڑھنا اوربغیر اعادہ جار کے اس کا عطف ضمیر مجرور پر ڈالنا عربی قاعدے کے خلاف ہے۔ یہ اعتراض بھی لغو اورباطل ہے ،کیونکہ حمزہ رحمہ اللہ کا ’والأرحام‘ کو جر کے ساتھ پڑھنا ہی اس قراء ت کے لغت عرب کے موافق ہونے کے لئے بطورِ دلیل کافی ہے، وہ لغت عربیہ کے بھی ماہر تھے، اور اس قراء ت کو انہوں نے نبی کریمﷺسے نقل کیاہے ، گویا یہ قر اء ت منزل من اﷲ ہے۔ لہٰذا بعض علمائِ لغت کا اس قراء ت پر انکار کرنا ویسے ہی مردود ہے جیسے جہمیہ وغیرہ کا نصوصِ صفات کا انکار کرنا مردود ہے، کیونکہ وہ ان کی عقلی قیاس آرائیوں کے خلاف ہیں۔
حقیقی بات یہ ہے کہ ضمیر مجرور پر حر ف جر دہرائے بغیر اسم ظاہر کا عطف جائز ہے ، اورقراء تِ حمزہ﷫ قواعدِ عربیہ کے خلاف نہیں ہے،اس بارہ میں ہم بعض ان نحاۃ کے اَقوال ذکر کرتے ہیں جن کے ہاں عطفِ مذکور مطلقاً جائز ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علمِ نحو کے مشہور ومعروف عالم ابن ہشام رحمہ اللہ ضمیر مجرور پر عطف کے وقت اعادہ حرفِ جر کے عدمِ وجوب کا فیصلہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ولا یجب ذلک خلافاً لأکثر البصریین۔‘‘ (شرح شذور الذہب: ۴۴۹)
یعنی اکثربصریوں کے خلاف عطف مذکور میں حرفِ جر کا دوبارہ لانا ،کوئی ضروری نہیں ہے۔
شرح جامی میں ہے:
’’وہو الذي ذکرناہ أعني لزوم إعادۃ الجار في حالۃ السعۃ والاختیار مذہب البصریین، ویجوز ترکہا اضطراراً وأجاز الکوفیون ترک الإعادۃ في حال السعۃ۔‘‘ (شرح جامی:۱۹۶)
’’یعنی حرف جر کا دوبارہ لانابصریوں کے نزدیک ضروری ہے ، اگرچہ وہ بھی ضرورت کے وقت اسے لازم نہیں سمجھتے اوراس کے ترک کی اجازت دیتے ہیں،ان کے برعکس سب کوفی نحاۃ کے ہاں ضمیر مجرور پر عطف کے وقت حرفِ جر کادوبارہ لاناکسی صورت میں بھی ضروری نہیں ہے۔‘‘
ابن مالک رحمہ اللہ جن کی عربی قواعد میں مایہ ناز کتاب الفیہ (جوعربی نظم میں) ہے فرماتے ہیں:
وعود خافض لدي عطف علی
ضمیر خفض لازماً قد جعلا

ولیس عندي لازماً إذ قد أتی
في النثر والنظم الصحیح مثبتاً​
(الفیہ:۸۹)​
یعنی ضمیر مجرور پر عطف کے وقت حرفِ جر کا اعادہ بصری نحاۃ کی طرف سے ضروری بتا دیا گیا ہے لیکن میرے نزدیک یہ لازم اورضروری نہیں کیونکہ یہ عطف اعادہ جار کے بغیر صحیح ثابت نظم ونثر میں مستعمل ہے۔
جبکہ ’المساعد‘ میں ہے ’والصحیح الجواز مطلقاً‘ (۲؍۴۷۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یعنی صحیح بات یہ ہے کہ عطف بہر صورت جائز ہے خواہ حرف جر دوبارہ لایا جائے یا نہ لایا جائے۔
کوفی نحاۃ نے اپنے مؤقف پر قرآن کریم کی متعدد آیات قرآنیہ سے بھی استدلال کیا ہے جن سے قراء تِ حمزہ رحمہ اللہ کی تائید ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’وَکُفْرٌ۰ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِژ ٭‘‘(البقرۃ:۲۱۷) میں اسم ظاہر کا عطف ’بہ‘کی ضمیر مجرور پر ہے اور حرفِ جر دوبارہ نہیں لایا گیا ، اسی طرح اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِیْنَ٭ ‘‘ (الحجر:۲۰) اس میں’من‘ اسم موصول کا ’لکم‘ کی ضمیر مجرور پر بغیر اِعادہ کے عطف ہے ۔نیز اِرشادباری تعالیٰ ہے: ’’قُلِ اﷲُ یُفْتِیْکُمْ فِیْہِنَّ۳ وَمَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ… ‘‘ (النساء: ۱۲۷) اس میں ’ما‘ موصول کا ’فیہن‘ کی ضمیر مجرور پر حرف جر دوبارہ لائے بغیر عطف ہے۔
ذکر کردہ چند مثالوں سے یہ بات ثابت کرنا مقصود ہے کہ قواعد لغت قراء اتِ قرآنیہ سے اَخذ کیے گئے ہیں، اور قراء ات ان قواعد سے مقدم ہیں، اس لیے قراء ات کو قواعد پر حاکم بنانا اور ان کی صحت وسقم کا فیصلہ قراء ات سے کرنا جوقاعدہ ان کے مطابق ہو اسے قبول کرنا اورجو خلاف ہو اس میں ترمیم کرکے قراء تِ قرآن کے موافق بنانا ہی قرین قیاس ہے، اس کے برعکس قواعدِعربیہ کو قراء ات پر حاکم بنادینا اورقراء ات کی صحت وسقم کو قواعد لغت کے تابع بنا دینا تو ایسے ہی ہے جیسے فروع کو اپنے اصول پر حاکم بنا دیا جائے اوریہ درست نہیں بلکہ عدل وانصاف کے اصول کے خلاف ہے۔ لہٰذا قراء ات کوقواعد سے پرکھنا بھی علمی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہر علم کے بارہ میں ان علماء کی طرف مراجعت کی جائے گی جنہیں اس علم میں تخصص اورمہارت حاصل ہو مثلاً فن حدیث میں أصحاب الحدیث کی بات ہی معتبر ہوگی ،اگر کوئی شخص احادیث پر یا اَحادیث صحیح بخاری پر رائے زنی کرے جو اس فن کا ماہر نہ ہو تواس کی بات کالعدم سمجھی جائے گی اوراسے کوئی اَہمیت حاص نہیں ہوگی بنابریں اَحادیث یا صحیح بخاری کے خلاف لکھی جانے والی کتابیں لائق التفات نہیں ہیں کیونکہ ان کو پرکھنے والے حضرات فن حدیث سے نابلدہوتے ہیں۔اسی طرح فقہ حنفی کے مسائل کے بارہ میں فقہاء حنفیہ کی بات کو جو وزن حاصل ہو گا اس فن کے بارہ میں وہ وزن دوسروں کی بات کو خاص نہیں ہوگا ،کیونکہ بعض علماء ایک فن میں ماہر ہوتے ہیں اوردوسرے علمی فنون میں انہیں کوئی دسترس خاص نہیں ہوتی، مثال کے طور پر امام رازی رحمہ اللہ عقلیات کے امام ہیں لیکن اَحادیث وآثار کے میدان میں تہی دامن ہیں اس طرح وکیع رحمہ اللہ اورعبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ حدیث وآثار کے امام ہیں لیکن علم طب سے واقفیت نہیں رکھتے ،سیبویہ رحمہ اللہ وغیرہ لغت عربیہ کے امام ہیں لیکن فن حدیث کو نہیں جانتے ، حفص رحمہ اللہ وحمزہ رحمہ اللہ وغیرہ قراء کرام قراء تِ قرآن کے امام ہیں لیکن علم فقہ کے ماہر نہیں ہیں۔ اس لیے قراء اتِ قرآن کی صحت کے فیصلے کے لئے قراء کرام کی طرف رجوع کیا جائے گا، آئمہ لغت کی طرف نہیں… کیونکہ یہ ان کا فن نہیں ہے، اسی لیے کہا گیا ہے ’’لکل مقامِ مقالٌ ولکل فنٍّ رجالٌ۔‘‘

٭_____٭_____٭
 
Top