• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم اور علماء کی فضیلت

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
علم اور علماء کی فضیلت

جناب مولانا حافظ محمد عبدالاعلیٰ درانی کا ماموں کانجن میں طلباء سے خطاب

حمد و ثناء کے بعد!

سب سے پہلے تومیں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ پہلے آپ اپنی حیثیت پہچانیں کیونکہ جب تک انسان اپنے مرتبہ ومقام کو نہیں پہچانتا وہ کسی اور حقیقت کو بھی نہیں جان سکتا۔ آپ وہ ہیں جب گھرسے اللہ کی خاطر محض حصول علم کیلئے نکلتے ہیں تو فرشتے آپ کے پاؤں کے نیچے اپنے مقدس پر بچھاتے،سمندروں کی مچھلیاں استغفار کرتی اورچیونٹیاں اپنے بلوں میں آپ کیلئے دعائیں کرتی ہیں ۔کیونکہ آپ علم نبوت کے طالب علم ہیں جو نبوت کا ورثہ ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نحن معاشرالانبیاء لا نرث ولا نورث ماترکنا فھو صدقۃ حق تعالی نے علم اور علماء ے دین کی جابجا فضیلت بیان فرمائی ہے ۔ سورہ آل عمران میں فرمایا

{شَھِدَ اللٰہُ اَنَّہ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَالْمَلَائِکَۃُ وَاُولُواالْعِلْمِ} ’’اللہ ‘ فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اپنے ساتھ فرشتوں اور پھر اہل علم کاذکرفرمایا۔امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں علم کی فضیلت اورعلماء کی عظمت کاذکرہے ۔ اگر علماء سے زیادہ کوئی معزز ہوتا تواس کانام بھی فرشتوں کے ساتھ لیا جاتا۔ اسی طرح سورہ طٰہ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا

{وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْماً} کہ اپنے رب سے علم میں اضافہ کی دعا کرو۔

گویاعلم اتنی اہمیت والی چیز ہے کہ جس میں اضافہ کیلئے مانگنے کا نبی کریم جیسی ہستی کوحکم دیاجا رہاہے ۔اگر اس سے زیادہ اہمیت والی کوئی چیز ہوتی تو اس کے مانگنے کا حکم بھی دیا جاتا۔(قرطبی) سورہ عنکبوت میں فرمایا {وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُھَا اِلَّا الْعَالِمُوْنَ} ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان فرما رہے ہیں انہیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں۔

مزید ارشاد ہوا: {بَلْ ھُوَ اٰیٰتٔ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوْاالْعِلْمَ} بلکہ یہ قرآن تو روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں ‘ہماری آیتوں کا منکر بجز ظالموں کے اور کوئی نہیں۔

سورہ فاطر میں فرمایا: {اِنَّمَایَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰؤُا} اہل علم نے کہا یہ آیت علماء کی شان بیان کرتی ہے اور اس امتیاز کو حاصل کرنے کیلئے اللہ سے تقوی اور خشیت ضروری ہے۔ یاد رکھو کہ علم محض جان لینے کانام نہیں، خشیت و تقویٰ کا نام ہے۔ عالم وہ ہے جو رب سے تنہائی میں ڈرے اور اس میں رغبت رکھے اور اس کی ناراضگی سے بچے ۔ سورہ زمر میں فرمایا: پوچھو بھلا علماء اور جہلاء برابر ہوسکتے ہیں؟ حالانکہ نصیحت تو عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں ۔

فضیلت علم و علماء کا باب امام بخاری نے کتاب العلم میں قائم کیا ہے۔ باب العلم قبل القول والعمل اس میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ذکرکی’’ کہ جوکوئی حصول علم کیلئے نکلتا ہے اللہ اس کیلئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔ (مسلم) حضرت صفوان بن عسال سے مرفوعا ًروایت ہے کہ طالب علم کے پاؤں کے نیچے فرشتے پربچھاتے ہیں تاکہ وہ راضی رہے اور حصول علم میں دل لگا کر مشغول رہے۔ (ترمذی) حضرت کثیر بن قیس کہتے ہیں کہ میں مسجد دمشق میں حضرت ابودرداء کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی مدینہ منورہ سے ایک حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جاننے کیلئے آیا۔ حضرت ابودردا ء نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا جو علم دین کیلئے نکلتا ہے اللہ اس کیلئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے ۔ بے شک فرشتے طالب دین کے پاؤں کے نیچے پر بچھاتے اور ارض وسماء کی ساری مخلوق حتی کہ سمندروں کی مچھلیاں گہرے پانیوں میں ان کیلئے استغفار کرتی ہیں۔ عابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں کے چاندکی سارے ستاروں پر۔ علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ۔یادرکھو کہ انبیاء کا ورثہ درہم ودینار نہیں ہوتا بلکہ علم دین ہوتا ہے جو جتنا زیادہ حاصل کرے گا اتنی ہی فضیلت حاصل کرسکے گا۔ (ابوداود کتاب العلم )

دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عالم کی عابد پر فضیلت اتنی ہے جتنی میری فضیلت تم میں سے عام مسلمان پر ہے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ‘ اس کے فرشتے اور ارض وسماء کی ساری مخلوق ، حتی کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں معلم خیر کیلئے دعائے رحمت بھیجتی ہیں۔(ترمذی وابوداود)

حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں اور بے شک میں علم بانٹنے والا ہوں اور اللہ مجھے عطا فرمانے والے ہیں۔ یہ امت ہمیشہ خیر پر رہے گی‘ انہیں خوار کرنے والا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتیٰ کہ اللہ کافیصلہ آجائے۔ (بخاری)

یہ ساری فضیلتیں اس وجہ سے ہیں کہ علماء کی وجہ سے لوگ ہدایت پاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم خیبرمیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو جھنڈا دیتے ہوئے وصیت کی تھی کہ جنگ کرنے سے پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دو، اگر ایک آدمی کو بھی راہ ہدایت مل گئی تو یہ سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ قیمتی متاع ہوگی۔

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو اس پر چلنے والوں کا اجر بھی اسے ملے گااور ان کے اجر میں کوئی کمی نہ کی جائیگی ۔ اللہ اپنے فضل اور اپنے خزانے سے ان سب کو الگ الگ بدلہ دے گا۔ اسی طرح برائی کی طرف بلانے والوں پر اس کے پیروکاروں کے گناہوں کا وزن بھی ڈالا جائیگا، برائی کرنے والوں کے کھاتے سے نہیں بلکہ ان کیلئے الگ کھاتہ ہوگا۔ (مسلم عن ابی ھریرۃ)

اپنے بعد علم نافع چھوڑ نے کی فضیلت

علم دنیا اور آخرت دونوں میں باعث رحمت و برکت ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موت کے ساتھ اعمال کا دفتر لپٹ جاتاہے سوائے تین چیزوں کے ۔ فائدہ مند علم، صدقہ جاریہ اور نیک صالح اولاد (مسلم) جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ضرورت کی ہر چیز مہیا فرمائی گئی یہ اس کا کھلا احسان ہے ۔ جس سے ثابت ہوا کہ علم ہمیشہ قابل صد افتخار سمجھا گیا ہے اور اس نعمت عظمی پر ذات باری تعالیٰ کا شکر ادا کیا گیا ہے۔وہ نعمت تھی علم کی۔ پرندوں کی بولیوں کا علم۔

حضرت احمد صالح مصری فرماتے ہیں : علم کثرت روایات کا نام نہیں بلکہ علم نام ہے اس سے واقفیت حاصل کرنے کا جس کی تابعداری فرض ہے یعنی کتاب و سنت اور صحابہ کرام۔ علماء کی تین قسمیں ہیں عالم باللہ ، عالم بامر اللہ اور عالم باللہ وبامراللہ ۔حقیقی عالم وہ ہے جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہو اور حدود وفرائض کو جانتا ہو۔

کوتاہیوں کی نشاندھی

٭ہم نے اب تک دوسروں کی کوتاہیاں ہی دیکھی ہیں خوبیاں نہیں، اسی لیے ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔تبلیغی کام کو موثر بنانا ہے ۔تو نفس کومارنا پڑے گا۔ شہرت اور ناموری کی خواہش سانپ کی طرح ہے جو سوائے زہر چھوڑنے کے کوئی فائدہ نہیں دیتی ۔

٭ بعض علماء عوام کو عشق و عقیدت کے نام سے بے وقوف بناتے ہیں ۔ عقیدت رسول کے نام پر ان کااستحصالExploit کرتے ہیں۔حیرت ہے کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے فدائی وشیدائی ہیں وہ غیرمقبول بنادیے گئے ۔ اہل حدیث، سنت رسول اللہ کا اہتمام کرتے ہیں ۔ عبادات میں ، شادی بیاہ میں اور دنیوی و دینی معاملات میں ۔ان کے بچے نمازی ہوتے ہیں ۔ پوری ڈاڑھیاں رکھتے ہیں ۔شادی بیاہ میں بے جارسومات نہیں ادا کرتے ۔ان کے خطبات میں وہی الفاظ استعمال ہوتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔ ان کی نمازیں سنت سے مزین ہوتی ہیں لیکن پھر بھی ترقی بہت کم ہے کیوں ؟ اس کا مطلب ہے کہ کہیں کوئی خامی ہے۔ دعوت کے انداز میں۔ ان خامیوں کو سمجھو ، مانو اور پھردور کرو ۔

احترام علماء

ادب واحترام انسانی ذہن کے رویے کی عکاسی کرتاہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تقوی القلوب کیلئے پیمانہ ادب ہی کو قرار دیاہے {ومن یعظم شعائراللہ فانھا من تقوی القلوب}حق تعالیٰ کا ادب سب پر مقدم ہے اور نبیوں کاادب اس لیے کہ وہ اللہ کے نبی ہیں ۔ کتب سماویہ کا ادب کہ ان کی نسبت بھی اسی کی طرف ہے ۔علماء دین کاادب کیونکہ وہ علم الٰہی کے وارث ہیں ۔ ضروری نہیں کہ جو فوت ہوچکے ہوں بس انہی کا احترام سمجھا جائے۔ زندہ علماء کا بھی غایت درجہ اکرام کیا کرو ۔ یہ اکرام مسلم اور اکرام علم کے زمرے میں آتا ہے ۔ ایک دفعہ حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری رحمہ اللہ نے مولانا حنیف یزدانی کو کسی کتاب کے چھاپنے پر بڑا زچ کیا لیکن وہ قطعا بے مزہ نہ ہوئے ۔ میں نے مولانا یزدانی مرحوم کی دلجوئی کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ یہ ان کا حق تھا ۔ یہ ہمارے قابل احترام علماء میں سے ہیں۔انہی کی وجہ سے آج ہم راہ حق پر قائم ہیں ۔ اسی طرح مولانا یزدانی مرحوم اس بات پر بہت زور دیا کرتے تھے کہ اپنے مرحوم اسلاف کا نام ادب سے لیا کرو ۔یہ وہی ہیں جن کی جدوجہد کے کارن آج ہم توحید وسنت سے آشنا ہیں اور اس راستے کے مسافر ۔

قرآن کا ادب کہ وہ کلام الٰہی ہے ۔ اسے سب سے اونچی جگہ پہ رکھو ، قرآن کے اوپر کوئی کتاب خواہ وہ تفسیر کی ہو یاحدیث کی، نہ رکھی جائے۔ کیونکہ وہ کلام الٰہی ہے ، جیسے حق تعالی سب سے اونچا ہے اسی طرح اس کا کلام بھی سب سے اونچا ہے ۔ اسی طرح حافظ قرآن کا ادب ضروری ہے ۔ اس سینے پر انشاء اللہ جہنم کی آگ حرام ہے جس میں قرآن محفوظ ہوگا۔ حافظ قرآن کی سفارش روز محشر مقبول ہوگی۔

امام کاادب جب تک وہ مصلے پر کھڑا نہ ہوجائے نمازیوں کو صف بنانا ممنوع ہے لاتقوموا حتی ترونی۔ اگر وہ اپنے گھر میں مصروف ہے تواسے بدتمیزی سے آوازیں دینا جہالت ہے۔ سفید ریش کااحترام تو رب العالمین بھی کرتا ہے ۔ماں باپ کا ادب کرنے والا جنتی ہے ۔جو بڑوں کا احترام نہیں کرتا چھوٹوں پہ شفقت نہیں کرتا وہ دین اسلام سے بیگانہ ہے

٭حضرت مولانا عبدالواحد غزنوی نے دینی کتابوں کی گٹھڑی کو تانگے کی سیٹ پررکھا اور خود تانگے کے حوض میں بیٹھ گئے ۔ کسی نے پوچھا تو فرمایا کہ انہی کی وجہ سے اللہ نے ہمیں عزت دی ہے ہم ان کا ادب کیوںنہ کریں۔

٭ دعوتی رویے میں تبدیلی ہونی چاہیئے ۔ آپ کی تو دعوت ہی عظیم ہے ۔ گرمی گفتار و کرادر کی متقاضی ہے۔ اگردعوت دینے کاانداز بھی گرم ہوتو جلن پیداہوتی ہے ۔ ضرورت ہے ٹھنڈک اور محبت کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا آسانیاں تقسیم کیا کرو نفرتیں نہ بانٹو۔

٭ شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری علیہ الرحمۃ ولی کامل تھے ۔ پوری تبلیغی زندگی میں انہوں نے تلخ لہجے میں تقریر نہیں کی ۔اس لیے ان کی تقریر کے دوران کبھی ہنگامہ نہیں ہوا۔ کبھی لاٹھی گولی نہیں چلی ۔کبھی ان کی زبان گالی میں ملوث نہیں ہوئی ۔ انہوں نے گالی کاجواب گالی سے کبھی نہیں دیا، اس طرح کا ناہموار لہجہ اپنانے کی انہیں ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔بلکہ مخالفین کی بات کو انہی پر ایسے حکیمانہ طریقے سے پلٹ دیا کرتے تھے کہ جواب بھی ہوجاتا اور زبان کا ذائقہ بھی نہ بدلتا تھا۔

٭ ہند وستان کا ایک مشہور شاعرجس کی شہرت سن کرایران سے ایک آدمی ہند پہنچا اس کا پتہ پوچھ کر جب وہاں آیا تو وہ ڈاڑھی مونڈھ رہا تھا اس نے تعجب سے کہا کہ تو ڈاڑھی منڈاتا ہے ۔ اس نے کہا اپنے ہی بال تراشتا ہوں کسی کا دل تو نہیں چیرتا۔‘‘ ایران سے آنے والے نے کہا ’’بلے ولیکن دل مصطفی ٰ را مے تراشی ‘‘ ( کسی کا دل تو زخمی نہیں کرتے لیکن دل مصطفیٰ پہ تو استرا چلاتے ہو)۔

٭ ہمیں دعاؤں کا بہت اہتمام کرنا چاہیئے ۔کیونکہ دعا ہی عبادت ہے بلکہ عبادت کا مغز ہے۔

ذکر الٰہی بڑا موثر ہتھیار ہے۔ ذکرو فکرکی عادت بناؤ۔ہروقت دوسروں پر تنقید کرنے کی علت نے ہمیں خود بھی ذکرالٰہی سے غافل کررکھاہے ۔ نماز فرض کے بعد تو ذکرالٰہی کا خصوصی حکم ہے ہم نے اسے جھگڑے کا موقع بنا رکھا ہے۔ دوستو! ذکرالٰہی کو اپنا معمول بناؤ اور جھگڑوں سے اپنے آپ کو بچاؤ ۔

٭ہروقت تنقید کرتے رہنا بری بات ہے ۔خاص ضرورت کے بغیر تنقید سے پرہیز کرو ۔ اس سے نفرت پھیلتی ہے محبت نہیں۔ ٭خود احتسابی کی عادت ڈالو اس سے آدمی باوقار بن جاتا ہے ۔

٭یاد رکھو ! نمازیوں کو علماء اور اماموں کی عزت وتوقیر کرنے کی تربیت کرو ۔ انہیں بتاؤ کہ امام خود نہیں بنتا اسے اللہ کی طرف سے امام مقرر کیا جاتاہے ۔

٭ اہل حدیث مدارس و مساجد زیادہ سے زیادہ بناؤ ۔تمام طلبا وعدہ کریں کہ وہ فارغ ہوکرکاروبار دنیوی میں نہ پڑیں گے بلکہ دین ہی کا کام کریں گے۔

٭ نمازیوں کی تربیت کرو۔ عام سپیکروں کا استعمال اتنا زیادہ مفید نہیں ہوتا ۔ اختلافی مسائل کبھی پبلک میں بیان نہ کرو ۔ نہ ہی عام لوگوں سے خطاب کے دوران کسی حدیث کو ضعیف یا موضوع کہو ۔یہ کام مستند علماء پر چھوڑ دو۔

٭مسائل کی بجائے فضائل زیادہ بیان کرو ۔ مسائل کی ضرورت بے شک ہے لیکن فضائل سے دین میں رغبت ہوتی ہے جس کی اشد ضرورت ہے۔

مخالفین عقیدہ سلف کو بتایا جائے کہ توحید خالص کیا ہے اور شرک کیا ہے؟ لیکن اچھے طریقے سے ۔یہی لوگ آپ کا خام مال بنتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ انہی کے ہاں سے آئے ہیں ۔ان کے لیے رویہ نرم رکھو اور دعائیں کیا کرو کہ اللہ انہیں عشق رسالت کی برکت سے ہدایت نصیب فرما دے۔

٭نامی گرامی خطباء کی طرز پر تقریر کرنا خالی دامن ہونے کی دلیل ہے۔ اپنی حیثیت خود بناؤ۔ تقاریر اورخطبات کی خوب تیاری کرو ۔ خطبات ریڈی میڈ کتابوں اور کیسٹوں سے نہیں ۔براہ راست کتاب اللہ اور کتب تفاسیر سے خوب تیاری کر کے دیا کریں۔

٭ طلبائے دین بہت زیادہ شفقت و محبت اور رافت کے حق دار ہوتے ہیں کیونکہ یہی کل کو منبر رسول کے وارث بنیں گے۔ میں اساتذہ کرام سے مودبانہ گزارش کرتا ہوں کہ طلبائے دین کے ساتھ اپنے بچوں سے بھی زیادہ پیار کیا جائے۔ ان کی تربیت بڑے اچھے نہج سے کی جائے ۔ انہیں اپنا ہاتھ نیچے کی بجائے اوپر یعنی سخاوت وایثار کاسبق پڑھایا جائے اور عملاً انہیں اس کا عادی بنایا جائے ۔ پہلے خود قربانی کرو پھر عوام کو قربانی کے فضائل ومسائل بیان کرو۔ پہلے آپ اپنی زکوٰۃ نکالیں پھر مسائل زکوٰۃ بیان کریں۔

ذہن سازی کی ضرورت

عزیز دوستو! ہروقت دوسروں کے عیوب ڈھونڈتے رہنا ، جھوٹے اور نفرت پھیلانے والے پروپیگنڈوں کاسبب بنتاہے۔ان میں کوئی خیر نہیں۔

سو دوستو!تنقید اور عیب جوئی کرنے سے سکون ملتا ہے نہ دعوت پھیلتی ہے ۔خوبیاں تلاش کرو خامیاں نہیں۔ شہد کی مکھی بنو ، گندگی کی نہیں جو خود بھی گندی ہے ، ہمیشہ گندی چیز پر بیٹھتی ہے اور جس چیزپر بیٹھتی ہے اسے بھی گندا کردیتی ہے ۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق سمجھنے اچھے طریقے سے سمجھانے اور اس پر عمل پیراہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
فکر مندانہ تحریر جو ہماری کمیوں کی نشاندہی کرتی ہے اور عمل پر ابهارتی ہے۔
جزاک اللہ خیرا
 
Top