• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم اور علماء کے اخلاق از شیخ بن باز

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
علم اور علما کے اخلاق ہيں 

الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين، والصلاة والسلام على عبده ورسوله وخيرته من خلقه وأمينه على وحيه نبينا وإمامنا محمد بن عبد الله، وعلى آله وصحبه ومن سلك سبيله إلى يوم الدين۔ أما بعد:ہم نے اپنے قاری سے قرآن کریم کی مبارک آیات کی تلاوت سماعت کی جن میں عظمت و نصیحت اور اللہ جسے چاہے اسے پیدا فرماتا اور اختیار فرماتا ہے، اور اللہ تعالی اپنے بندوں کے وہ حالات جاننے والا ہے جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں، اور اللہ جل وعلا ابتداء سے انتہاء تک وہی قابلِ تعریف ہے، وہی پاک اور بلند و بالا ہے، اور اسی کی جانب لوٹنا اور اسی کی پاس ٹھکانہ ہے، اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی مفادات کی خاطر رات و دن کے ذریعہ فضل فرمانے والا ہے، اور یہ محض اللہ عز وجل کی طرف سے رحمت ہے۔اس نے ہمیں اپنی مبارک کتاب میں غور و فکر کرنے کا حق دے کر ہم پر احسان فرمایا ہے، جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اس میں غور و فکر کرے، اور وہ جو اس عظیم کتاب پر ایمان رکھنے والا ہے، اور یہ اللہ تعالی کا حق کلام ہے، جو نازل ہوا ہے اور یہ کلام مخلوق نہیں ہے، اسی سے شروع ہوا اور اسی کی جانب لوٹ جائےگا، وہ علماء کیا ہی شان والے ہیں جو اس عظمت والی کتاب میں غور و فکر کرتے ہیں، اور اس پر اپنی پوری توجہ مبذول کرتے ہیں، ان کا مقصد اپنے رب عز وجل کی مراد کی معرفت کا حاصل کرنا، اور اس پر عمل کرنا ہوتا ہے، تاکہ اللہ عز وجل کے اس فرمان کی اتباع ہوجائے:   ﯾﮧ ﺑﺎﺑﺮﻛﺖ ﻛﺘﺎﺏ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺁﭖ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺱ ﻟﺌﮯﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﻛﯽ ﺁﯾﺘﻮﮞ ﭘﺮﻏﻮﺭ ﻭﻓﻜﺮ ﻛﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭﻋﻘﻠﻤﻨﺪ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﻛﺮﯾﮟ ۔ اللہ سبحانه وتعالی کا فرمان:   کیا یہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پران كے تالے لگ گئے ہیں اور اللہ عز وجل کے اس فرمان کا اپنے دلوں میں احساس پیدا کرتے ہیں کہ:
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
  ﯾﻘﯿﻨﺎﹰﯾﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﮦ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺩﻛﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮨﮯ   ﺁﭖ ﻛﮩﮧ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﯾﮧ ﺗﻮﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻛﮯﻟﯿﮯ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﻭ ﺷﻔﺎ ﮨﮯکچھ بیان کرنے سے پہلے میری وصیت یہ ہے کہ: اس عظیم کتاب پر غور و فکر اور عقل و دانش، اور اس کی تلاوت بکثرت کرتے ہوئے، اور اس کے معانی پر عمل کرتے ہوئے اس میں توجہ دینا چاہئے، اور یہ اس لئے نازل کیا گیا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے، نہ صرف تلاوت کے لئے، تو میں اللہ تعالی سے دعاء کرتا ہوں کہ وہ سب کو توفیق عطا فرمائے۔رہی اس رات میری گفتگو، میں امید کرتا ہوں کہ مختصر ہو، اور وہ جیساکہ ناظمِ جلسہ نے کہا "علم اور علماء کے اخلاق" کے تعلق سے ہے۔علم جیسا کہ سارے لوگ اس کی فضیلت کو جانتے ہیں، سب سے افضل چیز جس کو طلب کرنے والے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کی خواہش کرنے والے اس کی تحصیل میں کوشاں ہیں وہ شریعت کا علم ہے، اور علم کا اطلاق بہت ساری چیزوں پر ہوتا ہے، لیکن علماء اسلام کے نزدیک وہ: علم شرعی ہے، اور یہی معنی اطلاق کے وقت اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی حدیث میں مراد ہے اور وہ: اللہ تعالی اور اس کے اسماء و صفات کی معرفت، اور اس کے بندوں کے حقوق کا علم، اور اللہ سبحانه وتعالى نے جو کچھ ان کے لئے مشروع فرمایا ہے اس کا جاننا ہے۔اور اس تک پہنچنے والے راستے اور طریقے کا علم، اور اس کی تفاصیل، غایت و نہایت کا علم جو دار آخرت میں بندوں کا منتہی ہے۔شریعت کا علم تمام علوم میں افضل ہے اور یہی اس لائق ہے کہ اسے طلب کیا جائے اور اس کے حصول کی خواہش کی جائے، کیونکہ اس کے ذریعہ ہی الله سبحانه وتعالى کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اسی سے عبادت کی جاتی ہے، اور اسی علم سے اللہ تعالی کی حلال اور حرام کردہ چیزوں کی پہچان ہوتی ہے۔(
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اور اسی علم سے اللہ تعالی کی طرف لوٹنے اور اس زندگی کی انتہا کو جانا جاتا ہے۔ اور ان مکلفین کی ایک قسم جنت و سعادت مندی کو حاصل کرے گی، اور دوسرے لوگ جو بکثرت ہوں گے وہ شقاوت و رسوائی میں گرفتار ہوں گے، اور اہل علم حضرات نے اس پر خبردار کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ علم اسی معنی میں منحصر ہوتا ہے۔ اور جنہوں نے اس پر خبردار کیا ہے ان میں شارح كتاب عقيدة طحاویہ قاضی ابن ابو عز اپنی شرح کی ابتداء میں، اور دوسرے حضرات نے بھی اس پر متنبہ کیا ہے جیسے ابن قیم اور شيخ الاسلام ابن تیمیہ اور ایک دوسری جماعت ہے۔اور یہ واضح ہے اور فضیلت میں اپنے متعلقات کے اعتبار سے متفاوت ہوتا ہے، تو ان میں سب سے افضل اور سب سے اشرف علم وہ ہے جو اللہ تعالی اور اس کی اسماء و صفات سے متعلق ہے، اور وہ عقیدے کا علم ہے، تو اللہ جل وعلا اس کی سب سے اعلی مثال ہے وہ پاک اور بلند و بالا ہے، اور وہ تمام وجوہ سے اپنی ذات، اسماء و صفات اور افعال کے اعتبار سے اعلی صفت پر فائز ہے۔پھر اس سے ملا ہوا وہ علم ہے جو اس کے بندوں کے حق سے متعلق ہوتا ہے، اور جن احکام کو اس نے مشروع فرمایا ہے، اور جس کی طرف عاملین پہنچتے ہیں، پھر اس کے بعد وہ علم ہے جو اس کے حصول میں معاون ہے، اور عربی قواعد کے علم اور اصول فقہ کی اسلامی اصطلاحات، اور حدیث کی اصطلاحات سے اس تک پہنچا جاتا ہے، اور اس کے علاوہ وہ علم ہے جو اس علم، اور اس کے سمجھنے اور اس کے کمال سے متعلق اور اس پر معاون ہے۔اور سیرت نبوی کا علم، اسلامی تاریخ، رجال حدیث اور ائمہ اسلام کی سوانح حیات اس سے ملحق ہیں، اور ہر وہ علم جس کا اس علم سے تعلق ہو وہ اسی علم سے ملحق ہوتا ہے۔اور اللہ تعالی نے اس علم کے جاننے والے حضرات کو شرف بخشا، ان کی عزت افزائی فرمائی اور انہیں رفعت شان عطا فرمائی ہے، اور ان کی توحید پرستی اور ان کے اخلاص کی گواہی دی ہے، جیساکہ اللہ عز وجل نے فرمایا:   اللہ تعالی ، ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮨﻞ ﻋﻠﻢ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﻛﯽ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ اللہ تعالی ﻛﮯ ﺳﻮﺍ ﻛﻮﺋﯽ ﻣﻌﺒﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ، ﺍﻭﺭﻭﮦ ﻋﺪﻝ ﻛﻮ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﻛﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ، ﺍﺱ ﻏﺎﻟﺐ ﺍﻭﺭ ﺣﻜﻤﺖ ﻭﺍﻟﮯ ﻛﮯ ﺳﻮﺍ ﻛﻮﺋﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻛﮯ ﻻﺋﻖ ﻧﮩﯿﮟ ۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
تو اہل علم نے فرشتوں کے ساتھ اس کی وحدانیت پر گواہی دی، تو فرشتے - عليهم السلام - اور شریعت کا علم رکھنے والے وہ اللہ کی توحید اور اس کے لئے مخلص ہونے پر اس کی توحید کے گواہ ہیں، اور وہ تمام جہانوں کا رب ہے، اور وہی سچا معبود ہے، اور اس کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت باطل ہے، اور اہل علم کے لئے یہ شرف کافی ہے، اس طور پر کہ اللہ سبحانہ وتعالی ان کے ساتھ اپنی وحدانیت اور استحقاق عبادت پر گواہ ہے، اور اللہ جل وعلا سبحانه وتعالى نے اپنے اس فرمان میں بیان فرمایا کہ یہ حضرات دوسرے لوگوں کے برابر نہیں ہیں:   ﺑﺘﺎ﯃ ﺗﻮ ﻋﻠﻢ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﻋﻠﻢ ﻛﯿﺎ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻛﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﻘﯿﻨﺎﹰ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻭﮨﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻋﻘﻠﻤﻨﺪ ﮨﻮﮞ (اپنے رب کی طرف سے) اور اللہ عز وجل فرماتا ہے:   ﻛﯿﺎ ایک وہ ﺷﺨﺺ ﺟﻮ ﯾﮧ ﻋﻠﻢ ﺭﻛﮭﺘﺎ ﮨﻮ ﻛﮧ ﺁﭖ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﭖ ﻛﮯ ﺭﺏ ﻛﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺣﻖ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﺷﺨﺺ جيسا ہو سکتا ہے جواندها ہو ﻧﺼﯿﺤﺖ ﺗﻮوہی قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔تو یہ حضرات اور وہ لوگ برابر نہیں ہیں، جو جانتے ہیں کہ جو کچھ اللہ نے نازل فرمایا ہے وہ حق ہے اور وہی ہدایت ہے، اور یہی سعادت مندی کا طریقہ ہے، ان لوگوں کے مقابلے میں جو اس راستے کو دیکھنے باوجود اس علم سے سے اندھے ہیں، تو ِان کے اور اُن کے درمیان بہت بڑا فرق ہے، اور واضح فرق ہے جس نے حق کو پہچانا، اور اس کے نور سے روشنی حاصل کی اور اسی ہدایت پر چلا یہاں تک کہ اس نے اپنے رب کی رضا کو پا لیا اور بزرگی و سعامت مندی سے فیض یاب ہوا، اور اس کے درمیان جو اس راستے سے اندھا ہے، جس نے نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور شیطان و خواہشات کی راہ اختیار کی۔یہ اور وہ برابر نہیں ہیں، اور اللہ سبحانہ وتعالی نے بیان فرمایا کہ وہ اہل علم کے درجات بلند فرمائےگا اور یہ صرف ان حضرات کا لوگوں کے درمیان بلند مرتبے کے سبب ہے، اور ان حضرات کے لئے نفع بخش ہونے کے سبب ہے، اسی لئے علماء نے فرمایا: لوگوں کے درمیان ان کا کیا ہی عمدہ اثر ہے، اور لوگوں میں ان کا کیا ہی برا اثر ہے۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
تو ان کا اثر لوگوں کو بھلائی کی طرف بلانے، ان کی حق کی طرف رہنمائی کرنے، اور ہدایت تک پہنچانے کے سبب ہے، اور یہ بہت بلند آثار ہیں جس پر اللہ نے ان کی تعریف فرمائی ہے، اور مؤمنوں نے ان کا شکریہ ادا کیا، ان کے سر فہرست رسل عظام - عليهم الصلاة والسلام - ہیں؛ کیونکہ وہ رہبری کرنے والے اور اس کی طرف بلانے والے ہیں اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کی معرفت اور اس کی شریعت کو جاننے والے ہیں، اور رسل عظام کے بعد سب سے افضل لوگ اور اتباع کرنے والے، ان پر نازل ہوئے احکام کے سب سے زیادہ جاننے والے، اور اس کی طرف کامل طور پر دعوت دینے والے ہیں، اس پر صبر کرنے والے، اور اس کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں، اللہ جل وعلا نے فرمایا:   اللہ تعالی ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻛﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻋﻠﻢ ﺩﯾﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺩﺭﺟﮯ ﺑﻠﻨﺪ ﻛﺮ ﺩﮮ ﮔﺎ اور سبحانہ و تعالی نے فرمایا:   ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺣﺠﺖ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ( ﹳ ) ﻛﻮ ﺍﻥ ﻛﯽ ﻗﻮﻡ ﻛﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﮨﻢ ﺟﺲ ﻛﻮ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺮﺗﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ اور اللہ عز وجل نے بیان فرمایا کہ در حقیقیت درجہ کمال پر اس سے خوف و خشیت رکھنے والے اہل علم ہی ہیں، اگرچہ خشیت عمومی طور پر مؤمنين میں بھی موجود ہے، اور بعض دوسروں میں بھی، لیکن در حقیقت کمال درجہ کی اللہ کی خشیت ہونا علماء کے لئے ہی ہے، اور ان کے سر فہرست رسل عظام - عليهم الصلاة والسلام - ہیں:  ﺍﹴ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻭﮨﯽ ﺑﻨﺪﮮ ﮈﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻋﻠﻢ ﺭﻛﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ یعنی: کامل خوف و خشیت۔اور علماء وہ: اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے جاننے والے، اور اس کی شریعت کے جاننے والے ہیں جس کے ساتھ اس نے اپنے رسل عظام کو مبعوث فرمایا، اسی لئے جب آپ سے کچھ لوگوں نے آپ کے لائے ہوئے علم کو بوجھل سمجھتے ہوئے یہ کہا کہ: اے اللہ کے رسول ہم آپ کی طرح نہیں ہیں، اور یقیناً اللہ تعالی نے آپ کی اگلی اور پچھلی خطاؤں کو بخش دیا ہے، تو ہمارے نبی - عليه الصلاة والسلام - نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم میں تم سے زیادہ الله کا خوف رکھنے والا اور میں تم سب سے زیادہ تقوی کرنے والا ہوں
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اللہ کی معرفت والے اور اس کے دین، اسماء و صفات کے جاننے والے، اپنے علم اور درجات کے اعتبار سے لوگوں کے درمیان سب سے زیادہ طاقتور، وہ لوگ ہیں جو لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والے ہیں، اور ان میں سب سے اعلی و اکمل رسل عظام - عليهم الصلاة والسلام - ہیں، تو وہ اللہ کا خوف رکھنے والے، اور اس کا تقوی اختیار کرنے والے ہیں، رسول الله صلى الله عليه وسلم سے علم کی فضیلت کے باب میں احادیث وارد ہوئی ہیں، اور اس بارے میں بکثرت احادیث منقول ہیں۔ان احادیث میں سے آپ - عليه الصلاة والسلام - کا یہ ارشاد ہے: جو شخص حصول علم کے لئے کسی راستے میں چلے، اللہ تعالی اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے۔ اسے امام مسلم نے اپني صحيح ميں تخریج فرمایا، رحمه الله۔ تو یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ طلباء بہت بڑی بھلائی میں مشغول ہیں، اور اللہ تعالی علم کے حصول میں جس کی نیت کو درست فرمائے اور وہ اس سے اللہ عز وجل کی رضا کا طلبگار ہو، تو وہ نجات و سعادت مندی کی راہ پر ہے، علم کا مقصد علم اور عمل ہے، نہ کے ریا اور دکھلاوا، اور نہ دوسرے وہ مقاصد جو جلد حاصل ہوکر ختم ہوجانے والے ہیں [یعنی دنیوی مقاصد]، بلکہ علم اپنے دین کی معرفت، اللہ کے اپنے اوپر واجب کردہ امور کی معلومات، اور لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے کے لئے حاصل کیا جاتا ہے، تو چاہئے کہ علم حاصل کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور دوسروں کو اس کے اچھے مقاصد سکھائے جائیں، تو ہر وہ راستہ جسے حصول علم کی غرض سے طے کیا جائے وہ جنت کو لے جانے والا راستہ ہے، اور اس میں تمام حسی اور معنوی راستے عام ہیں: تو اس کا ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرنا، اور ایک مسجد سے دوسری مسجد کی طرف جانا، تو یہ تمام راستے علم کی تحصیل کے لئے ہیں، اور اسی طرح علمی کتابوں کا یاد کرنا، مطالعہ کرنا اور لکھنا یہ تمام اسی راستے میں داخل ہے۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
طالبِ علم کو چاہئے کہ وہ ان تمام راستوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کرے، جو علم کی طرف لیجانے والے ہوں، اور اللہ تعالی کی خوشنودی کی غرض سے ان راستوں کا حریص رہے، رضائے الہی اور آخرت کا گھر اس کا مطمحِ نظر رہے، اپنے دین میں تفقہ کے حصول اور اس میں بصیرت حاصل کرنے کا ارادہ کرے، اور وہ اللہ کے واجب کردہ احکام اور اس نے اس پرجو حرام فرمایا ہے اس کو جاننے کی نیت کرے، اپنے رب کو بصیرت و دلیل سے جاننا کی تمنا رکھے، پھر اس پر عمل کرے، اور وہ لوگوں کو بچائے، اور راہ یابی کا داعی، اور حق کا مددگار رہے، اور علم و ہدایت پر اللہ تعالی کی طرف رہنمائی کرنے والا ہوجائے، تو وہ جب بھی اپنی نیک نیتی کے ساتھ اس عظیم خیر کی طرف جس کسی طریقے سے رخ کریگا، تو اس کا سونا بھی جنت کے راستے میں شمار ہوگا، چنانچہ جب وہ سوئے، تو اس کا مقصد حصول علم اور اسباق کو کما حقہ یاد کرنے کے لئے اپنے جسم کو قوت بخشنا ہو، اور اس کا مقصد کسی علمی کتاب کو حفظ کرنے میں، اور حصولِ علم کے لئے سفر کرنے میں اپنے جسم کو تیار کرنا ہو، اور اس نیت کے ساتھ اس کا سونا عبادت، اس کا سفر عبادت، اور اس کے دوسرے تصرفات عبادت ہیں، اس کے بر خلاف جو بد نیتی سے کام لے، تو وہ بڑے خطرے میں ہے، آپ صلى الله عليه وسلم سے حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا:جو شخص ایسے علم کو حاصل کرتا ہے جس سے اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کی جائے اور وہ اسے صرف اس لئے سیکھتا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعہ دنیا کا مال حاصل کرے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائےگااس کو امام ابو داود - رحمه الله - جید سند سے روایت فرمایا ہے۔بری نیت والوں کے لئے یہ سخت تر وعید ہے، اور آپ- عليه الصلاة والسلام سے روایت ہے - آپ نے فرمایا: جس نے علم اس لئے حاصل کیا تاکہ وہ علماء سے مقابلہ کرے، یا بے وقوفوں سے جھگڑا کرے، یا وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے تو اس کے لئے دوذخ ہے، دوذخ ہے۔علم کا حصول اللہ کی معرفت اور اس پر عمل کی غرض سے ہونا چاہئے، اس لئے کہ اللہ تعالی نے اس کا حکم فرمایا ہے، اور اسے حق کی معرفت کا وسیلہ قرار دیا ہے، صحيح حديث میں آیا ہے:  سب سے پہلے جن لوگوں کو جہنم میں ڈالا جائےگا وہ تین قسم کے لوگ ہیں: ان میں سے ایک: جس نے غیر اللہ کے لئے علم حاصل کیا اور قرآن پڑھا، تاکہ اس کے بارے میں کہا جائے: وہ عالم ہے، اور اس سے کہا جائے: تو قاری ہے۔ لا حول ولا قوة الا بالله ۔تو اے اللہ کے بندے، اے طالب علم، تیرے اوپر مخلصانہ عبادت کرنا اور صرف اللہ وحدہ کی معرفت کی نیت کرنا ضروری ہے، علم کے راستے کو طے کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے میں کوشش اور چستی سے کام کرنا لازم ہے، پھر علم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے، تو [علم سے] مقصود صرف عمل ہونا چاہئے، اور یہ مقصد نہيں ہے کہ تو عالم ہوجائے، یا کوئی اعلی ڈگری مل جائے، تو ان سب کے پیچھے یہ مقصد ہونا چاہئے کہ تو اپنے علم پر عمل کرے،
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اور لوگوں کو بھلائی کے جانب متوجہ کرے، اور رسل عظام - عليهم الصلاة والسلام - کا حق کی طرف دعوت دینے میں نائب ہوجائے، اور آٓپ - عليه الصلاة والسلام - نے صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا: اللہ تعالی جس شخص کے ساتھ بھلائی کرنے کا ارادہ فرماتا ہے ، اس کو دین ميں تفقہ ( سمجھ) عطا فرماتا ہے ۔ اسكي صحت پر اتفاق ہے۔تو یہ حدیث علم کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے، اور علم بھلائی اور سعادت مندی، اور توفیق الہی کی علامت ہے، اور یہ کہ اللہ تعالی بندے کے ساتھ بھلائی کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کو دین کا فقیہ بنا دیتا ہے، کہ وہ اس میں بصیرت حاصل کرے، یہاں تک کہ وہ باطل سے حق کو پہچان لے، گمراہی سے ہدایت کو، یہاں تک کہ وہ اپنے رب کے اسماء و صفات اور اس کے عظیم حق کی معرفت حاصل کر لے، اور وہ اللہ تعالی کے برگزیدہ بندوں اور اس کے دشمنوں کو پہچان لے۔اولیاء اکرام کا ٹھکانہ رب کریم کے جوار میں جنت و سعادت، اور اللہ سبحانه وتعالى کا بزرگی والے گھر میں دیدار کرنا ہے۔اور اللہ کے دشمنوں کا ٹھکانہ دردناک سزا و عذاب اور رسوائی ہے، اور اللہ عز وجل کے دیدار سے محرومی ہے۔اور ہم اسی سے علم کی عظمت اور اس کی شرافت کو جانتے ہیں، اور اللہ تعالی جس بندے کی نیت درست فرما دے یہ اس کے لئے سب سے افضل و شرافت والی چیز ہے، اس لئے کہ وہ اس کے ذریعہ افضل واجب اور سب سے عظیم واجب تک پہنچتا ہے، اور وہ اللہ تعالی کی توحید اور اس کے لئے اخلاص ہے، اور اس کے سبب وہ اللہ تعالی کے احکام کی معرفت، اور جو اس نے اپنے بندوں پر واجب فرمایا ہے اس کی معرفت حاصل کرتا ہے، تو یہ ایک بہت عظیم واجب ہے جس سے عظیم واجبات کی ادائیگی کی جاتی ہے، تو بندے کی تمام تر سعادت مندی، اور اس کی نجات صرف اللہ کے پاس ہے، پھر حصولِ علم اور اس کو مضبوطی سے تھامنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے سبب ہے۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اور وہ علماء جنہوں نے علم کو حاصل کیا وہ لوگوں میں سب سے بہتر ہیں، اور روئے زمین پر سب سے افضل ہیں، اور ان کے سر فہرست ان کے امام رسل عظام اور انبیاء -عليهم الصلاة والسلام- ہیں، ااور انبیاء دعوت و تبلیغ اور علم و فضل میں نمونہ عمل اور اساس ہيں، اور انبیاء کے بعد ان سے باعتبار طبقات ملے ہوئے اہل علم حضرات ہیں، تو ہر وہ جو اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا سب سے زیادہ جاننے والا ہے، اور دعوت و عمل میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے، وہ لوگوں کے درمیان جنت میں اپنے درجات اور ٹھکانے کے اعتبار سے رسل عظام کے سب سے زیادہ قریب ہے، چنانچہ علماء روئے زمین پر امام، زمین کے لئے نور اور اس کے چراغ ہیں، اور انہیں دوسروں پر برتری حاصل ہے، یہ لوگوں کی سعادت مندی کی طرف رہبری کرتے ہیں، اور ان کی نجات کے اسباب کی جانب رہنمائی کرتے ہیں، اور اللہ جل وعلا کی رضامندی، اور کرامت و بزرگی کو حاصل کرنے اور اس کے غضب و عذاب سے دور کرنے میں ان کے رہنما ہوتے ہیں۔علماء انبیاء کے وارث ہیں، کیونکہ وہ انبیاء کے بعد لوگوں کے امام ہیں جو لوگوں کو اللہ کی جانب راہ یاب کرتے ہیں، اس کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، اور لوگوں کو ان کا دین سکھاتے ہیں، چنانچہ ان کے اخلاق عظیم ہوتے ہیں، اور وہ صفات حمیدہ سے متصف ہوتے ہیں، وہ علماء حق ہیں، علماء ہدایت ہیں، اور رسل عظام کے نائب ہیں، جو اللہ سے ڈرتے، اس سے خوف زدہ رہتے اور اس کی حکم کی تعظیم کرتے ہیں، اور یہ اللہ تعالی کی تعظیم سے ہے، ان کے اخلاق بلند و بالا ہوتے ہیں، اس لئے کہ یہ حضرات رسل عظام کے مسلک پر چلتے ہیں، اور اللہ تعالی کی طرف دعوت و تبلیغ کرنے میں ان کے راستے اور طریقے پر چلتے ہیں، اور اس کے غضب سے ڈرانے اور جس اچھے کام یا بات کو جاننے کے بعد ان کے راستے کی اتباع کرتے ہیں، اور برائی کے جس کام و عمل کو انہوں نے جانا اس سے دور رہتے ہیں، علماء حضرات نمونہ عمل ہیں، اور انبياء کے بعد ان کے بلند اخلاق، صفات حمیدہ، اعمال جليلہ میں نمونہ ہیں، اور وہ عمل پیرا ہیں اور معرفت والے ہیں، اور اپنے طالبان سے بلند اخلاق اور بہتر طریقے سے پیش آتے ہیں
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
سابق میں گذرا کہ علم اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کو جاننا ہی ہے، اور یہی علم شریعت ہے، اور یہ اللہ تعالی کی کتاب اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کی سنت کی معرفت رکھنا ہے، اور ان چیزوں کی معرفت ہے جو علومِ شریعت کے لئے معاون ہو، تو اہل علم پر واجب ہے، کہ وہ اس عظیم بنیاد کو مضبوطی سے تھامے رہیں، اور لوگوں کو اس کی طرف بلائیں، اور اپنے طالب علموں کو اس کی طرف متوجہ کریں، اور ہمیشہ ان کا ہدف اللہ اور اس کے رسول کا فرمان، اور اس پر عمل ہونا چاہئے، اور لوگوں کو اس کی جانب متوجہ اور راہیاب کرنا، تفرقہ بازی و اختلاف اور فلان فلاں گروہ کی طرف دعوت و تبلیغ، اور فلاں کی رائے، یا فلاں کے قول کی دعوت دینا جائز نہیں ہے، بلکہ واجب یہ ہے کہ صرف اللہ و رسول، اور اللہ کی کتاب اور اس کے رسول - عليه الصلاة والسلام - کی سنت کی طرف دعوت ہے، مذہب فلاں، یا دعوت فلاں، یا گروہ فلاں، یا رائے فلاں کی جانب انتساب و دعوت نہیں ہونا چاہئے، مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کا صرف ایک ہی طریقہ، اور ایک مقصد ہو، اور وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول عليه الصلاة والسلام کی سنت ہے۔اور رہا وہ اختلاف جو چاروں مذہبوں وغیرہ میں اہل علم کے درمیان ہے، تو اس میں واجب یہ ہے کہ جو درستگی کے زیادہ قریب ہے اسے لیا جائے، اور یہ وہ قول ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کی نص کے یا شریعت کے مقتضی کے زیادہ قریب ہو۔بےشک ائمہ اکرام مجتہد ہیں اور ان کا مقصد یہی ہے، اور ان سے پہلے صحابہ اکرام - رضي الله عنهم وأرضاهم - ہیں، وہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے بعد لوگوں کے امام ہیں، اور انہیں لوگوں میں سب سے زیادہ معرفت الہی کا علم ہے اور وہ اپنے علم و اخلاق کے اعتبار سے سب سے افضل و اکمل ہیں۔ان حضرات کا اختلاف بعض مسائل میں تھا، لیکن ان کی دعوت، اور ان کا طریقہ ایک ہی تھا، یہ اللہ تعالی کی کتاب اور اس کے رسول - عليه الصلاة والسلام - کی سنت کی دعوت دیتے تھے، اور اسی طرح تابعیں اکرام اور تبع تابعین اکرام جیسے: امام مالک، امام ابو حنیفہ،امام شافعی، اور امام احمد اور ان کے علاوہ ائمۃ الھدی جیسے: اوزاعی، ثوری، ابن عُيينہ، اور اسحاق بن راہويہاور ان کی طرح دوسرے اہل علم و ایمان، ان کی ایک دعوت تھی، اور وہ اللہ کی کتاب، اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی سنت کی دعوت و تبلیغ، اور یہ اپنے پیروکاروں کو اپنی تقلید سے منع کرتے تھے، اور كہتے تھے: وہاں سے لو جہاں سے ہم نے لیا ہے، یعنی قرآن و سنت سے
 
Top