• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم اور علماء کے اخلاق از شیخ بن باز

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اور جو حق سے ناواقف ہو، اس پر واجب ہے کہ وہ ان علماء سے پوچھے جو علم و فضل اور حسن عقیدہ و سیرت میں مشہور ہوں، اور اس میں بصیرت رکھتے ہيں، علماء اکرام کی عزت و توقیر، ان کی فضیلت کی معرفت، اور ان کے لئے اجر عظیم اور مزید توفیق کی دعاء بھی کی جائے، اس لئے کہ انہوں نے بڑی بھلائی کی جانب سبقت فرمائی، علم حاصل کیا اور راہیاب ہوئے، اور راستے کو روشن کیا، [ان پر اللہ کی رحمت ہے]، تو ان کے لئے سبقت کرنے، عالم ہونے اور اللہ کی طرف دعوت دینے کی فضیلت ہے، یہ حضرات صحابہ اکرام تھے اور انکے بعد اہل علم و ایمان والے ہیں۔ تو ان کی قدر و منزلت کو جانا جائے، اور ان کے لئے رحمت کی دعاء، علم حاصل کرنے اور اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے والے کام میں، اور اللہ و رسول کے فرمان کو دوسروں تک پہنچانے، اس پر صبر کرنے، اور نیک کام کی طرف سبقت لے جانے میں ان کی اتباع کی جائے، اور ان عظیم فضائل میں ان کے راستے پر عمل کیا جائے، اور ان کے لئے رحمت کی دعاء کی جائے، لیکن ہرگز یہ جائز نہیں ہے کہ ان میں سے کسی ایک سے متعلق تعصب رکھا جائے، اس طور پر کہ کہا جائے: ان کا قول مطلقًا درست ہے، بلکہ کہا جائےگا: ہر ایک مخطی و مصیب [صحیح یا غلط کا شکار] ہوتا ہے، اور درست وہ ہے جو اللہ و رسول کے فرمان کے موافق ہو، اور جس پر اللہ کی کتاب، سنت اور اہل علم کے اجماع کی حیثیت سے اللہ کی شریعت دلالت کرے، اور اگر اختلاف ہوجائے تو اللہ و رسول کی طرف لوٹنا چاہئے، جیساکہ اللہ سبحانه وتعالى نے فرمایا:   ﭘﮭﺮ ﺍﮔﺮ ﻛﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﻣﯿﮟ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﻛﺮﻭ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻟﻮﭨﺎؤ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ اور الله تعالى نے فرمايا:   ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﮨﻮ ﺍﺱ ﰷ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﮨﯽ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﮨﮯ۔ اور یہی قدیم و حدیث علماء اکرام نے فرمایا ہے۔زيد یا عمرو کے لئے تعصب کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ فلاں فلاں کی رائے کے لئے، اور نہ کسی گروہ اور نہ کسی کے طریقے کے ساتھ، یا فلاں جماعت کے ساتھ،
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
یہ تمام ایسی جدید خطائیں ہیں، جن کے مرتکب بہت سارے لوگ ہیں۔لہذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کا ہدف ایک ہو، اور وہ تمام احوال میں اللہ اور اس کے پیارے رسول - عليه الصلاة والسلام - کی اتباع کرنا ہے، پریشانی و خوشحالی میں، تنگی و آسانی میں، سفر و حضر میں، اور ہر حال میں، اور علماء اکرام کے اختلاف کے وقت ان کے اقوال میں غور و فکر کیا جائے گا، اور کسی کے تعصب کے بغیر جو قول دلیل کے موافق ہوگا اس کی تائید کی جائے گی۔اور رہے عام مسائل تو عوام اس کے بارے میں علماء اکرام سے پوچھے، اور اہل علم میں اُن حضرات کے ذریعے اس کو جاننے کی کوشش کرے، جو بھلائی کے زیادہ قریب اور پختگی و استقامت میں زیادہ قریب ہو۔ عوام علماء سے اللہ کی شریعت کے بارے میں سوال کرے، اور علماء انہیں شرعی علم سکھائیں، اور قرآن و حدیث میں وارد دلائل، اور اہل علم کے اجماع کے مطابق حق کی طرف ان کی رہبری کریں۔عالم کی شناخت اس کے صبر و تقوی اور خوف و خشیت الہی، اللہ و رسول کے واجب کردہ امور کی طرف سبقت، اور اللہ و رسول کی طرف سے حرام کردہ امور سے اجتناب و دوری کے ذریعے ہوتی ہے۔اسی طرح عامل چاہے وہ استاد ہو یا جج، یا اللہ کی طرف بلانے والا مبلغ ہو، یا کسی بھی کام میں ہو، اس پر واجب ہے کہ وہ بھلائی کا نمونہ بن جائے، اور نیک کاموں میں اچھی مثال ہوجائے، جو اپنے علم پر عمل کرے اور جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرے، اور لوگوں کی بھلائی کی طرف رہبری کرے، یہاں تک کہ وہ اپنے طالب علموں، اپنے اہل خانہ، پڑوسیوں اور دوسروں کے لئے ایک اچھا نمونہ بن جائے، اور یہ لوگ، اللہ عز وجل کی شریعت کی مطابقت میں اس عالم کے اقوال و اعمال میں اتباع کریں۔اور طالب علم پر نہایت ضروری ہے کہ وہ ان امور میں سستی سے نہایت پرہیز کرے جو اللہ تعالی نے اس پر واجب فرمائے ہیں،
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اللہ تعالی کے حرام کردہ کاموں کے ارتکاب سے پرہیز کرے، کیونکہ لوگ اس کو اپنے لئے نمونہ بناتے ہیں، تو اگر وہ خود کاہلی سے کام کرے گا تو عوام بھی لاپرواہ ہوجائے گی، اور اسی طرح سنت اور مکروہات میں، اسے چاہئے کہ وہ سنتوں کو ادا کرنے میں رغبت کرے، اگر چہ وہ واجب نہ ہوں، تاکہ اس کی عادت ہوجائے اور لوگ اسے دیکھ کر اس کی پیروی کریں، اور اگر وہ مکروہات اور مشتبہ چیزوں سے پرہیز نہیں کرےگا تو لوگ اس کی بات نہیں مانیں گے۔بہرحال طالب علم کی بڑی شان ہے، اور علماء روئے زمین پر [بھلائیوں کا] خلاصہ اور نچوڑ ہیں، لہذا ان پر وہ فرائض و ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جو دوسروں پر نہیں ہوتی ہیں، جیساکہ رسول اکرم - صلى الله عليه وسلم -فرماتے ہیں: تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت لوگوں کے بارے میں پوچھا جائےگا
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
علماء کرام نگران اور رہبری کرنے والے ہیں، ان پر ضروری ہے کہ اپنی رعایا پر توجہ دیں، اور عوام الناس ان کی رعایا ہے تو ان پر واجب ہے کہ وہ اپنی رعایا کی دیکھ بھال کریں، اور اس میں اللہ تعالی سے خوف کریں، اور ان کی نجات کے اسباب کی جانب رہنمائی کریں، اور انہیں ہلاکت کے اسباب سے خبردار کریں، ان میں اللہ و رسول اور اس کے دین پر ثابت قدم رہنے کی محبت پیدا کریں، ان میں اللہ تعالی کی رضا اور اس کی جنت و بزرگی کو حاصل کرنے کا شوق پیدا کریں، اور جہنم سے خوف دلائیں، اور جہنم لوٹنے کی کیا ہی بری جگہ ہے، تو اس سے بچنا، اور خوف دلانا واجب ہے، اور اس امر کے لئے علماء، اور طالب علموں کو ہی اولویت حاصل ہے، ، اور ہمیشہ ان کا اسی طرح حال ہونا چاہئے، اور اسی طرح ان کے اخلاق ہونے چاہئے، اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے سبقت، اور اللہ تعالی کی نافرمانی سے دور رہنا، اور اللہ کی طرف بلانا، اور اس طرف رہنمائی کرنا، اور اس کی حدود کو پار نہ کرنا، اور ہمیشہ احتیاط سے کام لینا، اور اللہ کے حرام کردہ کاموں سے پرہیز کرنا، اور جس کو اللہ ناپسند فرماتے ہیں اس سے بچنا ضروری ہے، تاکہ اسلامی بھائی ان کی پیروی کریں، اور وہ جہاں بھی رہیں مسلمان ان سے متاثر رہيں، اور میں اللہ تعالی سے اس کے اسماء حسنی، اور اس کی صفات عالیہ کے وسیلے سے دعاء کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اور آپ کو اپنی رضا کی توفیق عطا فرمائے، ہمارے قلوب اور تمام اعمال کی اصلاح فرمائے، ہمیں اور آپ کو ہدایت یافتہ رہنما بنائے، نیکو کار اور اصلاح کرنے والا، اور نیز میں اللہ تعالی سے اپنے دین کی امداد کرنے کی دعاء کرتا ہوں، کہ وہ اپنے کلمہ کو بلندی عطا فرمائے، ، اور مسلمانوں کے حاکموں کو اپنی رضا عطا فرمائے، بندوں اور ملک کی اصلاح فرمائے، اور ان کے باطن کی اصلاح فرمائے، اور انہیں اپنے بندوں کے درمیان اللہ کی شریعت سے فیصلہ کرنے اور اس کا حکم دینے کی توفیق عطا فرمائے، اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اکھاڑ پھینکنے کی توفیق عطا فرمائے۔رہے دوسرے علوم تو ان کی شان الگ ہے جیسے دھات نکالنا، زراعت و کھیتی کے علم اور نفع بخش صنعتوں کی تمام قسمیں، اور ایسے علم جن کی مسلمانوں کو حاجت ہے ان کا سیکھنا واجب ہے، اور یہ فرض کفایہ ہے، اور حاکم کے لئے ضروری ہے کہ جن علوم کی مسلمانوں کو ضرورت ہے ان کو سیکھنے کا حکم دے، اور اس کے جاننے والوں کی امداد کرے، یعنی جس سے وہ مسلمانوں کو نفع پہنچانے میں مدد کرسکیں، اور ان کے دشمن کے مقابلے میں ان کا تعاون کرسکیں، اور بندے کی نيت کے اعتبار سے اس کے اعمال اللہ عز وجل کی عبادت میں شمار ہوتے ہیں، جبکہ اس کی نیت درست ہو، اور اللہ کے لئے اخلاص ہے، اور اگر بغیر نیت کے کریں تو ان کے یہ اعمال مباح ہیں، جیسے مباح صنعتوں کے مختلف اقسام، دھات کا نکالنا زراعت و کسانی وغیرہ۔اور یہ تمام امور مطلوب ہیں اور نیت کی درستگی کے ساتھ عبادت میں شمار ہوں گے، اور اگر نیت سے خالی تو مباح ہے، اور بعض اوقات یہ فرض کفایہ ہوتے ہیں، جبکہ ان کی حاجت در پیش ہو، اور حاکم پر واجب ہے کہ وہ ان کو اس کے اہل پر واجب کر دے، تو ان امور کی ایک شان ہے، اور ایسے حالات ہیں جن میں ان کی ضرورت پیش آتی ہے، اور یہ نیت و حاجت کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔رہا شریعت کا علم تو وہ بہت ضروری ہے، اللہ تعالی نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا، اور اس لئے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اختیار کریں، اور تقوی بغیر علم کے ممکن نہیں ہے، اور وہ قرآن اور حدیث کا علم ہے جیساکہ ما سبق میں بیان ہوا۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اے طلبا اکرام کی جماعت اللہ کا شکر ہے کہ آپ جامعہ اسلامیہ میں ہيں، اور بہت سارے ملکوں اور الگ الگ قومیت سے دین میں تفقہ حاصل کرنے کے لئے یہاں آئے ہيں، اللہ کے احکام کی تعلیم اور اس میں بصیرت پانے کے لئے، اور اس سلفی صحیح عقیدے کے حصول کے لئے جس پر اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم اور آپ کے صحابہ اکرام رضي الله عنهم اور بھلائی کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والے چلے، اور وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنا ہے، اور اللہ کے اسماء و صفات پر ایمان لانا ہے، اور ثابت قدم رہنا ہے اس طریقہ پر جو اللہ سبحانه وتعالى کے لائق شان ہے، بغیر کسی تحریف و تعطیل، بناوٹ و تمثیل، زیادتی و کمی کے۔یہی وہ راستہ ہے جس پر اہل علم چلے اور جس پر رسل عظام صلوات الله وسلامه عليهم أجمعين چلے، اور جس پر ان کے صحابہ اور بھلائی کے ساتھ ان کی اتباع کرنے پر چلے۔میں اللہ کی بارگاہ میں دعاء گو ہوں کہ وہ آپ کو توفیق عطا فرمائے، اور اپنی رضا کے کاموں پر تمہاری اعانت فرمائے، آپ کو علم و تقوی کی توفیق عطا فرما کر آپ کے ملکوں کو صحیح سلامت واپس لوٹادے، اور آپ سے اپنے بندوں کو ہدایت دے، اور آپ کے حالات کی اصلاح فرمائے، اللہ جلّ وعلا ہر چیز پر قادر ہے، وصلى الله وسلم على نبينا محمد عبد الله ورسوله، وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان
 
Top