• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم تفسیرپرقراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم تفسیرپرقراء ات کے اثرات

قاری رشید احمد تھانوی​
مقالہ نگار قاری رشید احمد تھانوی ﷾ نے چند سال قبل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد سے پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ عبدالقادر﷾ (شعبہ علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور) کی زیر نگرانی ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ موصوف کے مقالہ کا عنوان تھا:’’تفسیر قرآن ِحکیم پر اختلاف ِقراء ات کے اثرات کا ایک جائزہ‘‘۔ زیر نظر مضمون اسی مقالہ کے جامع خلاصہ پر مشتمل ہے، جس کی تلخیص مقالہ نگار نے خود کر کے ہمیں فراہم کی ہے۔ موضوع کی افادیت کے پیش نظر قارئین ِرُشد کے لئے اس تحریر کو ہم شائع کررہے ہیں۔ اس اہم موضوع کے جملہ پہلوؤں پر تفصیلی مطالعہ کے سلسلہ میں شائقین کو اصل مقالہ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن حکیم کی تفسیر کے سلسلہ میں قراء ات کو ایک اہم ماخذکی حیثیت حاصل ہے،خاص طورپرمتواتر قراء ات کونظراندازکرناقرآن کے ایک حصہ کونظراندازکرنے کے مترادف ہے۔نیز دومتواترقراء تیں دوآیتوں کی طرح ہیں،ان میں سے کسی ایک قراء ت کاانکارقرآن کی آیت کاانکارہے۔اگر دومتواترقراء توں میں تعارض آجائے توان میں سے ایک کوناسخ دوسری کومنسوخ قراردیناممکن نہیں ہے۔اس لئے کہ یہاں نزول میں تقدم یاتاخر معلوم کرنے کاکوئی ذریعہ نہیں ہے۔لہٰذا دونوںمیں تطبیق کی صورت نکالناضروری ہوگا۔البتہ شاذقراء ت اگرکسی متواتر قراء ت کے معارض ہوتو اس کوردکردیاجائے گا۔قراء تیں زیادہ ہونا’اختلاف تعدد ‘ہے ۔ ’اختلاف تضاد‘نہیں۔کوئی متواتر قراء ت ایسی نہیں جس سے تضاد لازم آتاہو۔اگرظاہری تعارض ہوتووہ دراصل ’اختلاف تعدد‘ ہے،تاکہ اختصارکے ساتھ ایک ہی آیت کی دوقراء توں سے دومختلف اَحکام ثابت ہوسکیں۔
تفسیر میں قراء ات ِمتواترہ کی قبولیت میں جمہور علماء میں سے کسی کا اختلاف نہیں ملتا۔ البتہ دومختلف المعنی قراء توں میں معنی کی تطبیق کے لحاظ سے ترجیح وغیرہ کارجحان پایاجاتاہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک قابل قبول معنی ہی کسی قراء ت کے قبول ہونے کامعیارہے۔جیساکہ امام ابن جریرطبری﷫(م۳۱۰ھ)کاطرزعمل رہاہے،لیکن جمہور مفسرین نے اس طرزعمل کو ناپسندکیاہے۔بعض علماء نے امام طبری﷫ کواس اعتبارسے معذور ماناہے کہ قراء اتِ متواترہ کی تدوین کازمانہ امام طبری﷫ کے بعد کاہے ؛لہٰذا امام طبری﷫ کے سامنے متواتر وغیرمتواترمیں امتیازکے وہ معیارات نہیں تھے ،جوائمہ قراء ات نے متعین کئے تھے،لیکن بعد کے ادوار میں جب متواتراورغیرمتواترکافرق بالکل ظاہر ہوگیاتوپھر متواترکوشاذکے ساتھ خلط ملط کرکے رد کرنا یااس میں تشکیک پیداکرناعدم علم اورنا واقفیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن حاجب﷫(م۶۴۶ھ) لکھتے ہیں :
’’القراء ات السبع متوا ترٌ لو لم تکن متواترۃً لکان بعض القرآن غیر متواترٍ کمَلِکِ ومٰلِکِ ونحوِھا، وتخصیص أحدھما تحکم باطل لاستوائِـھما‘‘(منتہی الوصول والامل فی علمی الاصول والجدل:ص ۳۴)
’’سات قراء تیں متواتر ہیں ۔اگر یہ متواتر نہ ہوں تو قرآن کا بعض حصہ غیر متواتر بن جائے گا ۔جیسے ملک اور مالک ،اور اس طرح کی اور قرا ء تیں، اور ان دونوں میں سے کسی ایک کی تخصیص کرنا سینہ زوری ہے (باطل فیصلہ ہے) اس لئے کہ یہ دونوں برابر ہیں ‘‘۔
آسان الفاظ میں یہ کہاجاسکتاہے کہ اگر روایت حفص قطعی طورپر قرآن ہے، توجن اَساتذہ سے روایت حفص منقول ہے انہی اساتذہ سے باقی قراء تیںبھی منقول ہیں۔ تویہ کیسے ہوسکتاہے ایک ہی سند سے آنے والی ایک قراء ت تومتواتر شمارہو اوردوسری ناقابل اعتبار بن جائے…؟
علامہ شوکانی﷫(م۱۲۵۰ھ)إرشادالفحول میں لکھتے ہیں:
’’والحاصل:أن ما اشتمل علیہ المصحف الشریف واتفق علیہ القراء المشہورون فھو قرآن،وما اختلفوا فیہ فإن احتَملَ رسمُ المصحف قراء ۃَ کلّ واحد من المختلفین مع مطابقتہا للوجہ الإعرابی والمعنی العربی،فھی قرآنٌ کلّھا،وإن احتمل بعضَہا دون بعض،فإن صحّ إسناد ما لم یحتملہ،وکانت موافقۃ للوجہ الإعرابی،والمعنی العربی، فھی الشاذّۃُ ولھا حکمُ أخبار الآحاد فی الدلالۃ علی مدلولِھا،وسوائٌ کانت من القراء ات السبع أو من غیرھا وأمّا مالم یصحّ إسنادہ ممّالم یحتملہ الرسم فلیس بقرآنٍ ولا منزلٍ منزلۃ أخبار الآحاد‘‘ (إرشاد الفحول الی تحقیق الحق من علم الاصول: ۱؍۸۲ )
’’حاصل یہ کہ جس چیز پر مصحف ِ شریف مشتمل ہے اور مشہور قراء اس کے اوپر متفق ہیں تو وہ قرآن ہے۔ اورجس میں ان کا اختلاف ہوا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں :
(ا) مصحف کا رسم دونوں مختلف قراء توں کا احتمال رکھتا ہے ،اور یہ دونوں قراء تیں اعرابی وجہ اور معنی کے مطابق ہیں تو یہ سب بھی قرآن ہیں۔
(ب) اگر مصحف کارسم ایک کااحتمال رکھے اور دوسری قراء ت کا احتمال نہ رکھے، تو پھر دو صورتیں ہیں:
(أ) اس غیر محتمل قراء ت کی اسناد صحیح ہے اور وہ اعرابی وجہ اور معنی عربی کے موافق ہے،تو پھر وہ شاذ قراء ت ہے، اوراپنے مدلول پر دلالت کرنے میں اس کا حکم خبر واحد کی طرح ہے ۔ عام ہے کہ یہ قراء ات سبعہ میں سے ہو یا نہ ہو۔
(ب)اور وہ قراء ت جس کا رسم میں احتمال نہ ہو اور اس کی اسناد بھی صحیح نہ ہو تو پھر وہ قرآن نہیں ہے اور نہ ہی اس کوخبر واحد کے درجے میں رکھا جائے گا ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوقراء تیں مثل دوآیتیں
جب کسی کلمہ قرآنی میں دومتواترقراء تیں ہوں تومفسرین وفقہاء کے نزدیک وہ دوآیات کی طرح ہیں۔ان کی تفسیر اسی طرح کی جائے گی جس طرح ایک مسئلہ میں واردہ دو آیات کی تفسیرکی جاتی ہے۔چنانچہ أحکام القرآن للجصاص میں ہے:
’’ وھاتان القراء تان قد نزل بھما القرآن جمیعا ونقلتھا الأمّۃ تلقّیا من رسو ل اﷲ ﷺ (أحکام القرآن للجصاص:۲؍ ۳۴۵ ،با ب غسل الر جلین)
’’ اور یہ دونوں قرا ء تیں ایسی ہیں کہ قرا ٓ ن ان دونوں کے ساتھ نازل ہوا ہے اور امت نے ان کو رسول اللہﷺسے حاصل کیا ہے ‘‘۔
اس اصول کے بارے میں امام جصاص﷫(م۳۷۰ھ) لکھتے ہیں :
’’وأیضا فإ ن القرا ء تین کالآیتین،فی إحداھما الغَسل وفی الأخریٰ المسحُ لاحتمالھما للمعنیین فلو وردت آ یتا ن إحداھما توجب الغَسل والأخری المسحَ لمَا جازَ ترکُ الغَسل إلی ا لمَسحِ ‘‘ (الجصاص:حوالہ مذکور،۲؍۳۴۶)
’’ اور دو قراء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں، ان میں سے ایک میں دھونے کا معنی ہے دوسر ی میں مسح کا معنی ہے، کیو نکہ یہ دونوں معانی کا احتمال رکھتی ہیں ۔ چنانچہ اگر بالفرض دو آیتیں نا زل ہو جا تیں، ایک کا مو جب دھوناہو تا اور دوسری کا مسح ہو تا ،تو بھی دھونے کو مسح کے مقا بلہ میں تر ک کرنا جا ئز نہ ہو تا ۔ ‘‘
تفسیر قر طبی میں ہے : ’’ولیس من المتشابہ أن تقرا الآ یۃ بقرا ء تین ویکو ن الاسم محتملا أومجملا یحتا جُ إلیٰ تفسیر؛ لأن الواجب منہ قدرُ ما یتناوَلُہ الاسم أو جمیعہ ۔ والقراء تا ن کالآ یتین یجب العمَلُ بمُوجبِھما جمیعا ‘‘(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی:۴؍۱۱)
’’ یہ با ت متشا بہ میں سے نہیں ہے کہ کو ئی آ یت دو قراء توں سے پڑھی گئی ہو ،اور اسم احتمال یا اجمال کی وجہ سے تفسیر کا محتاج ہو ؛ کیونکہ ثابت تو اس میں سے اسی قدر ہو گا جس کو اسم شامل ہو گا یا تمام ثا بت ہو گا ۔ اور دو قرا ء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں ، دونوں کے موجب پر عمل کر نا ضروری ہے ۔ ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح فتاوی ابن تیمیہ میں ہے:
’’وأما القراء ۃ الأخری وھی قراء ۃ من قرأ وأرجلِکم بالخفض فھی لا تخالف السنّۃ المتواترۃ؛ إذالقراء تان کالآیتین‘‘(کتب ورسائل ومجموعہ فتاوی فی الفقہ:۲۱؍۱۳۱،کتاب الفقہ)
’’اوربہرحال دوسری قراء ت جوکہ وارجلکم زیر کے ساتھ ہے،وہ سنت متواترہ کے مخالف نہیں ہے؛اس لئے کہ دوقراء تیں دوآیتوںکی طرح ہوتی ہیں‘‘۔
تفسیر روح المعانی میں اس اُصول کو بڑ ی وضا حت سے بیان کیا گیاہے :
’’ ومن القواعد الأصولیۃ عند الطائفتین أن القراء تین المتواترتین إذا تعارضتا فی آیۃ واحدۃ فلھا حکم آیتین‘‘ ( روح المعانی ازآلو سی : ۶؍ ۶۶)
’’ اُصولی قواعد میں سے ایک یہ ہے ( دونوں طا ئفوں کے نزدیک )کہ متواتر قرا ء تیں جب ایک آیت میں متعارض ہو جا ئیں تو ان کا حکم دو آیتوں کی طرح ہے ‘‘ ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوقراء توں میں تعارض کاوقوع
دوقراء توں میں کبھی تعارض واقع ہوجاناممکن ہے۔چنانچہ أصول السرخسی ج۲ ص۱۲ میں ہے:
’’یقع التعارض بین الآیتین،وبین القراء تین۔‘‘ ( فصل: بیان المعارضۃ بین النصوص)
’’دوآیتوں اوردوقراء توں کے درمیان تعارض واقع ہوتاہے۔‘‘
علامہ سیوطی﷫ کی الاتقان ج۲ ص۳۰ میں ہے : ’’وتعارض القراء تین بمنزلۃ تعارض الآیتین۔‘‘
’’دوقراء توں کاتعارض دوآیتوں کے تعارض کی طرح ہے۔‘‘
اسی طرح تفسیر نیل المر ام میں علامہ قنوجی﷫ لکھتے ہیں :
’’وقد تقرّر أنّ القراء تین بمنز لۃ الآ یتین فکما أنّہٗ یجب الجمع بین الآیتین المشتملۃ اِحداھما علی زیا دۃ العمل بتلک الزیا دۃ کذلک یجب الجمع بین القراء تین ‘‘ (نیل المرام ، ص ۵۲)
’’یہ بات ثابت شدہ ہے کہ دوقراء تیں دوآیتوں کی طرح ہیں،توجس طرح ایسی دوآیتوں کے درمیان تطبیق کرناضروری ہے ،جن میں سے ایک آیت کسی زائدمعنی پرمشتمل ہو،اسی طرح دوقراء توں میں بھی جمع وتطبیق واجب ہے۔‘‘
فتح البا ری شرح بخاری میں ہے :
’’بین القراء تین تعارضٌ ظا ہرٌ ۔ والحُکمُ فیما ظاہرہٗ التعارض أنہ إن أمکن العمل بھما وجب،وإلا عُمِل با لقدر الممکن ،ولا یتأ تی الجمع بین الغسل والمسح فی عضو وا حد فی حالۃ واحدۃ؛ لأ نہ یؤدی إلی تکرار المسح لانّ الغسل یتضمن المسح۔والأمر المطلق لا یقتضی التکرار،فبقی أن یعمل بھما فی حالین توفیقا بین القراء تین وعملا بالقدر الممکن۔‘‘ (فتح الباري:۱؍ ۳۵۶)
’’ دونو ں قرا ء توں میں ظاہری تعا رض ہے ، اور ظا ہر ی تعارض والی چیز کا حکم یہ ہے کہ اگر دونوں پر عمل ممکن ہو تو یہ ہی واجب ہو گا ، ورنہ بقدر امکا ن دونو ں پر عمل کیا جا ئے گا ۔ اور یہا ں ایک عضو میں’ غسل ‘ اور ’ مسح‘ کو ایک ہی حا لت میں جمع نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس سے مسح کا تکرار لا زم آ تا ہے اس لئے کہ ’ غسل ‘ ، ’ مسح ‘ کو بھی شامل ہو تا ہے ، جبکہ امر مطلق تکرار کا تقا ضا نہیں کر تا ۔ لہٰذا یہ ہی صورت با قی رہی کہ دونوں قرا ء توں پر دو مختلف حالتوں میں عمل کیا جا ئے ، تاکہ دونوں قرا ء توں میں موا فقت ہو جا ئے اور بقدر امکان عمل بھی ہو جا ئے ‘‘۔
اس مضمون میں اولاً ایسی قراء تیں جمع کی گئی ہیں،جن کا معنی ایک حدتک تو مختلف ہے،لیکن ان دونوں قراء توں کامصداق اورمحل ایک ہی ہے۔قرآن مجید میں اس طرح کی قراء تیں کثیر تعدادمیں پائی جاتی ہیں۔چندمختلف مقامات کامطالعہ کیاگیاہے۔آخرمیں ایک شاذ قراء ت کی مثال بھی ذکرکی گئی ہے،تاکہ ان قراء توں کے تفسیرپر اثرات کی وضاحت ہوسکے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نمبر(١) فَیُضَعِّفہٗ/فیُضَاعِفہٗ
’’مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قرضًا حسناً فیضٰعِفَہٗ لَہٗ اَضْعَافًا کثَیِرْۃً‘‘ (البقرۃ:۲۴۵)
اختلاف قراء ات
اس آیت میں کلمہ فیضٰعفہٗ میں چار قراء تیں ہیں:
نمبر(١)۔۔۔۔فَیُضَعِّفُہٗ۔۔۔۔امام ابن کثیر﷫،ابوجعفر﷫
نمبر(٢)۔۔۔۔فَیُضَعِّفَہٗ۔۔۔۔امام ابن عامر﷫،امام یعقوب﷫
نمبر(٣)۔۔۔۔فیُضَاعِفَہٗ۔۔۔۔امام عاصم﷫
نمبر(٤)۔۔۔۔فیُضَاعِفُہٗ۔۔۔۔امام نافع﷫،ابوعمروبصری﷫،حمزہ﷫ ،کسائی﷫
(النشر:۲؍۲۲۸،نیزمصحف القراء ات العشر، سورۃالبقرۃ:۲۴۵)
یہ کلمہ سورہ حدید میں بھی واقع ہوا ہے،اوراس میں بھی اسی نوعیت کااختلاف ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ قراء ات
اما م قیسی﷫(م۴۳۷ھ) تشدید والی قراء ت کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’وحجۃ من شدّد وحذفَ الألفَ أنّہ حملَہ علی الکثیر لانّ فعّلتُ( مشدد العین)بابہ تکثیر الفعل‘‘
’’ جن قراء نے تفعیل سے پڑھاہے تو ان کے نزدیک یہ فعل کثرت پر دال ہے؛اس لئے کہ تفعیل کی خاصیت تکثیرفعل ہے۔‘‘
اور تخفیف والی قراء ت یعنی مفاعلہ والی قرا ت کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’أنّ ضاعفتُ أکثر من ضعّـفتُ؛ لأن ضعّـفتُ معناہ مرّتان، وحُکِی أن العرب تقول: ضعّفتُ درھمک أی جعلتہ درھمین،وتقول ضاعفتہٗ أی جعلتہ أکثر من درھمین‘‘(الکشف عن وجوہ القراء ات السبع: ۱؍۳۰۰)
’’صیغہ مفاعلہ ،صیغہ تفعیل سے بڑھ کرہے۔اس لئے کہ تفعیل والے صیغہ کامعنی ہوتاہے : دومرتبہ ،جیساکہ عرب کہتے ہیں:ضعّفتُ درھمَکَ میں نے تیرے درہم کودُوگناکردیا۔اورجب ضاعفتہٗ کہتے ہیں،تومعنی ہوتاہے کہ میں نے تیرے درہم کو دوگناسے بھی زیادہ کردیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معنی قراء ات
امام ابن الجوزی﷫(م۵۹۷ھ) زاد المسیرمیں لکھتے ہیں:
’’معنی ضاعف وضعّف واحد، والمضاعفۃ الزیادۃ علی الشیء حتی یصیر مثلین أو أ کثر‘‘ ( زاد المسیر : ۱؍۲۲۱)
’’ضاعف اور ضعّف کامعنی ایک ہی ہے،اورمضاعفہ کسی چیزپر زیادتی اوراتنے اضافہ کانام ہے،جس سے وہ دوگنی یازیادہ ہوجائے۔‘‘
تفسیر مظہری میں ہے :
’’اور تشدید اس میں تکثیر کے لیے ہے ۔۔۔اور مفاعلہ مبالغہ کے لیے ہے ۔‘‘ (تفسیر مظہری: ۱؍۵۵۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتیجہ قراء ات
خلاصہ یہ کہ ان دونوں قرا ء توں کوسامنے رکھ کر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ و ہ شخص جو اللہ کے لیے اس قرض والے کام کو اخلاص نیت کے ساتھ کرتا ہے اس کا اجر اور بدلہ کسی اعتبار سے بھی کم نہیں ہوگا۔ اس میں کثرت بھی دواعتبارسے ہوگی اور اس میں برکت بھی ہوگی ۔گویا یہ دونوں قراء تیں معنی کے اندر مزید وسعت پیدا کر رہی ہیں ۔
نمبر(٢) فَتَبَیَّنُوْا / فَتَثَبَّتُوْادونوں امرکے صیغے ہیں،لیکن مادہ کافرق ہے۔
یہ کلمہ دومقامات پر آیاہے:
(ا)’’یٰٓـأیّھا الّذِیْنَ اٰمَنُوا إذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبیلِ اللّٰہِ فتَبیّنُوا وَلَا تقُوْلُوْا لِمَنْ ألقٰی إلَیْکُمَ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤمِناً ‘‘ (النساء: ۹۴ )
(ب)’’یٰٓـأیّھا الّذین اٰمَنُوْا إنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بنبـاٍ فتبیّنوا أنْ تُصِیْبُوا قومًا بجہالۃٍ فتُصبِحُوا عَلٰی ما فَعلتُم نٰدمین َ‘‘ ( الحجرات: ۶)
 
Top