• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم تفسیرپرقراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اختلاف قراء ات
ان دونوں آیتوں میں کلمہ قرآنی فتبینوا کے اندر دو قراء تیں ہیں:
نمبر(١)۔۔۔۔فتثبتوا حمزہ ﷫،کسائی﷫، اورخلف﷫
نمبر(٢)۔۔۔۔فتبینوا باقی سب قراء۔ ( النشر: ۲؍۲۵۱)
فتبینوااس کا مادہ بین ہے اور یہ باب تفعّل ہے، اور دوسری قرا ت فتثبتواہے یہ بھی باب تفعّل سے ہے، لیکن اس کا مادہ ثبت ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ قراء ات
امام ابن خالویہ﷫ (م۳۷۰ھ)لکھتے ہیں :
’’یقرأ بالیاء من التبیّن وبالتاء من التثبّت ۔والأمر بینھما قریبٌ لأنّ مَن تَبیّنَ فقد تثبّتَ ومن تثبّتَ فقد تَبیّنَ‘‘ (الحجۃ لابن خالویۃ،ص ۶۳)
’’یا سے پڑھاجائے توتبین سے ،اور تاکے ساتھ تثبت سے ہے۔اورامران دونوں میں قریب ہے، کیونکہ جوشخص معاملہ کوکھول کرواضح کردے ،تواس کوثبوت بھی مل جاتاہے اورجوثبوت حاصل کرلے ،معاملہ اس پرواضح ہوجاتاہے۔‘‘
لیکن امام قیسی﷫ (م۴۳۷ھ)کانقطہ نظراس سے مختلف ہے،لکھتے ہیں :
’’ولیس کل من تثبّت فی أمر تبیّنہ۔ قد یتثبّت ولا یتبیّن لہ الأمر فالتبیّن أعمّ من التثبت فی المعنی لاشتمالہ علی التثبّت‘‘ (الکشف:۱؍۳۹۴،۳۹۵)
اسی طرح امام ابن عطیہ﷫(م۵۴۶ھ) لکھتے ہیں :
’’وقال قوم تبیّنوا أبلغُ وأشدّ من تثبّتوا ؛لأنّ المتثبّت قد لا یتبیّن ۔‘‘(المحرّر الوجیز: ۲؍۹۶)
گویاان دونوں حضرات کے نزدیک تبیین عام ہے ،اس کے معنی میں ثبوت بھی پایاجاتاہے۔لیکن تثبت خاص ہے،اس میں تبین اور وضاحت ضروری نہیں ہے۔یعنی ایساہوسکتاہے کہ کسی معاملہ کاثبوت اوردلیل تومل جائے لیکن وہ واضح اورقابل فہم نہ ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معنی قراء ات
اگرچہ یہ دونوں قراء تیں قریب المعنی تو ہیں لیکن ان دونوں کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی معاملہ کی وضاحت اور تبیین میں تثبت یعنی تحمل اور اتنا ٹھہراؤ اختیار کیا جائے ،اور جلد بازی نہ کی جائے ،یہاں تک کہ حقیقت بالکل کھل کر واضح ہو جائے ۔
جیساکہ مولانا ادریس کاندھلوی﷫ (م۱۹۷۴ء)لکھتے ہیں :
’’ فتبینوا یہ ظاہر کررہا ہے کہ ایسی خبرپر اس وقت تک عمل جائز نہیں جب تک اس کی پوری وضاحت نہ کر لی جائے اور ایک قراء ت میں یہ لفظ فتثبوا پڑھا گیا ہے۔ یعنی اس کی دلیل حاصل کرلو ۔‘‘ (معارف القرآن ،۶؍۴۵۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتیجہ قراء ات
ان دونوں قراء توں کامعنی سامنے رکھتے ہوئے یہ واضح ہوتاہے کہ کسی معاملہ کی تحقیق میں معلومات کوہراعتبارسے جانچنااوربغیرتحقیق کے کسی خبرکوقبول کرنابعدمیں شرمندگی اورافسوس کا باعث ہوسکتاہے۔
نمبر(٣)۔۔۔۔وَلاتُسْـَٔـلُ/وَلاتَسْـَٔـلْ
’’اِنّا اَرسلنٰـکَ بالحقّ بَشیرًا وَّنَذیرا وَلا تُســَٔلُ عَن اَصحٰب الجَحیمِ‘‘ (البقرۃ :۱۱۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مختلف قراء ات
اس آیت میں کلمہ ولا تسـٔل میں دو قراء تیں ہیں:
نمبر(١)۔۔۔۔وَلا تَسْـَٔـلْ۔۔۔۔امام نافع﷫ اوریعقوب﷫
نمبر(٢)۔۔۔۔وَلا تُسْـَٔـلُ باقی سب قراء ۔(النشر:۲؍۲۲۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ قراء ات
امام ابن خالویہ﷫ (م ۳۷۰ھ)الحجۃ میں لکھتے ہیں:
’’ فالحجۃ لمن رفع أنہ أخبر بذلک وجعل لا نافیۃ بمعنی لیس،ودلیلہ قراء ۃ عبد اللّٰہ وأبی ولن تسأل۔والحجۃ لمن جَزمَ أنّہ جعلَہ نہیاً۔‘‘ (ص۳۶)
’’جنہوں نے مرفوع سے پڑھاہے،ان کی قراء ت کی توجیہ یہ ہے کہ یہ اس بات کی خبرہے،اورلانافیہ لیس کے معنی میں ہے۔اور اس کی دلیل عبداللہ بن مسعود﷜ اورابی بن کعب﷜کی قراء ت ’وَلَن تُسألَ‘ ہے۔‘‘(معجم القراء ات القرآنیہ :۱؍۱۰)
البتہ جنہوں نے جزم سے پڑھاہے ان کے نزدیک یہ نہی کاصیغہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معنی قراء ات
تفسیر مظہری میں ہے :’’جمہور کی قراء ت کے موافق ولا تُسْـٔلُ عن أصحٰب الجحیم کے یہ معنی ہوں گے:
’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے اس کی پوچھ گچھ نہ ہوگی کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہ لائے ۔آپ کے ذمہ توصرف پہنچادیناہے۔اور نافع ﷫کی قراء ت پر سو ال سے نہی (منع)کرنا شدت عذاب سے کنایہ ہوگا۔ جیسے کہا کرتے ہیں: اس کا حال مت پوچھ یعنی وہ بہت تکلیف میں ہے ۔‘‘(تفسیر مظہری:۱؍۲۰۷، روح المعانی: ۱؍۳۳۳)
مولانا اشرف علی تھانوی﷫صیغہ نہی والی قراء ت کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’قرأ نافع ولا تسـٔل علی صیغۃ النہی إیذانا بکمال شدۃ عقوبۃ الکفار وتھویلاً لھا ‘‘(بیان القرآن :۱؍۶۵)
’’نافع﷫ نے صیغہ نہی سے پڑھاہے ؛تاکہ کفار کے عذاب کی شدت کی طرف اشارہ ہوجائے‘‘۔
اسی طرح امام قرطبی﷫(م۶۷۱ھ) نفی والی قراء ت کا معنی بیان کرتے ہیں :
’’ والمعنٰی اِنّا أرسلنٰـک بالحقّ بشیرًا وّنذیرًا غیرَ مَسـٔـولٍ عنھُم۔‘‘ (أحکام القرآن :۲؍۹۲)
’’اورمعنی یہ ہے کہ بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا،ڈرانے والابناکربھیجاہے،اس حال میں کہ ان کے بارے میں آپ سے کوئی سوال نہ ہوگا۔‘‘
اور نہی والی قراء ت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ وفیہ وجھان: أحدھما أنّہ نہیٌ عن السؤال عمن عصیٰ وکفر من الأحیاء ؛ لأ نّہ قد یتغیر حالہ فینتقل عن الکفر إلی الإیمان وعن المعصیۃ إلی الطاعۃ،والثانی وھو الأظھر أنّہ نہیٌ عن السؤال عمّن ماتَ علٰی کفرہ ومعصیتہ‘‘ (ایضا)
’’اس میں دوصورتیں ہیں:ایک یہ کہ یہ حکم زندوں میں سے گناہ گاراورکفارکے بارے میں سوال سے روکنے کے لئے ہو،کیونکہ ان کاحال کفرسے ایمان کی طرف،اورگناہ سے اطاعت کی طرف تبدیل بھی ہوسکتاہے۔اوردوسراجوکہ زیادہ ظاہر ہے،کہ یہ حکم کفراورمعصیت پرمرنے والے لوگوں کے بارے میں سوال سے روکنے کے لئے ہو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتیجہ قراء ات
خلاصہ یہ ہوا کہ نفی والی قراء ت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اصحاب جہنم کے بارے میں نبی کریمﷺسے کوئی سوال نہیں ہوگا کہ وہ کیوں ایمان نہیں لائے ۔ اس لئے نبی کریمﷺکی ذمہ داری صرف پہنچا دیناتھی اور نہی والی قرا ء ت سے یہ معنی سمجھ میں آتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺکو ان لوگوں کے بارے میں سوال کرنے سے منع فرمادیا ہے ،جن کے بارے میں جہنم کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اس معنی کی تائید ایک دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے :
’’اِسْتَغْفِرْلَھُمْ أوْلَا تَسْتَغْفِرْلَھُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْ،ذَلِکَ بِأنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ ،وَاللّٰہُ لَا یَھْدِیْ الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ‘‘(التوبۃ :۸۰)
’’اے نبی ﷺ آپ ان کے لئے استغفار کریں یانہ کریں،اگرآپ ان کے لئے سترمرتبہ بھی استغفارکریں گے ،توبھی اللہ تعالی ان کومعاف نہیں فرمائے گا؛اس لئے کہ انہوں نے اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کی ہے،اوراللہ تعالیٰ فاسق قوم کو ہدایت نہیں عطاء فرماتا۔‘‘
گویا اُس آیت میں دوقراء توں کی وجہ سے دو پہلوؤں سے سوال کرنے سے روکناثابت ہوگیا۔یعنی نہ تو نبی کریمﷺسے جہنم والوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا،اورنہ ہی آپ ﷺان کے بارے میں کوئی سوال کریں گے اس لئے کہ ان کی مغفرت کا کوئی اِمکان نہیں ہے اور اگر یہ سوال زندہ لوگوں کے بارے میں ہو توان کاحال تبدیل بھی ہوسکتاہے۔
نمبر(٤)۔۔۔۔لِیَذَّکَّرُوْا/لِیَذْکُرُوْا
’’وَلقَد صَرّفنا فی ھٰذا القُراٰن لیذّکّروا وما یَزیدُ ھُم اِلاّ نُـفورًا‘‘ ( الاسراء :۴۱)
’’اورہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بیان کیاہے؛تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں، اور وہ نفرت میں بڑھتے ہی جاتے ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اختلاف قراء ات
اس آیت میں کلمہ لیذکروا میں دو قراء تیں ہیں :
نمبر(١)۔۔۔۔لِیَذْکُرُوْا۔۔۔۔امام حمزۃ﷫،کسائی﷫، اورخلف﷫
نمبر(٢)۔۔۔۔لیذَّکَّرُوْا۔۔۔۔باقی سب قراء۔ (النشر :۲؍۳۰۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ قراء ات
تخفیف والی قراء ت ذِکْرٌسے مشتق ہے جو کہ نسیان کی ضد ہے ۔جبکہ تشدید والی قرا ء ت تذکُّرسے مشتق ہے جس کا معنی ہے:
تدبّراور اتّعاظ یعنی غوروفکرکرنااورنصیحت حاصل کرنا ۔
تفسیر عثمانی میں ہے:
’’ یعنی قرآن کریم مختلف عنوانوں اور رنگ برنگ کے دلائل وشواہد سے ان مشرکین کو فہمائش کرتا ہے، لیکن بجائے نصیحت حاصل کرنے کے، یہ بدبخت اور زیادہ بدکتے اور وحشت کھاکر بھاگتے ہیں ۔‘‘ (تفسیرعثمانی:۱؍۸۸۰،الاسراء:۴۱)
 
Top