• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم تفسیرپرقراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معنی قراء ات
امام قیسی﷫ (م۴۳۷ھ ) لکھتے ہیں:
’’والتذّکر أولٰی بنا من الذّکرلہ بعد النسیان‘‘
’’تذکرہمارے لئے زیادہ مناسب ہے نسیان کے بعد اس کویادکرنے سے ‘‘۔
آگے لکھتے ہیں :
’’فالتشدید للتدبر والتخفیف للذکر بعد النسیان۔‘‘ (الکشف: ۲؍۴۷)
’’تشدیدتدبر کے معنی کے لئے ،اورتخفیف بھول کے بعدیادکرنے کے معنی کے لئے ہے۔‘‘
اسی طرح تفسیرزاد المسیر میں ہے:
’’والتّذکّـر:الا تّعاظ والتّد بّر۔‘‘ (زاد المسیر:۳؍۲۶)
تفسیر روح المعانی میں ہے :
’’وقرأحمزۃ والکسائی ھنا وفی الفرقان لیذکروا من الذکر الذی بمعنی التذکر ضد النسیان والغفلۃ،والتذکّر علی القراء ۃ الأولیٰ بمعنی الا تّعاظ‘‘(روح المعانی : ۱۵؍۸۲)
’’امام حمزۃ﷫اورکسائی﷫ نے اس کلمہ کو یہاں اورسورہ فرقان میں مادہ ذکر سے پڑھاہے،جوکہ تذکرکے معنی میں ہے اور نسیان اورغفلت کی ضدہے۔ جبکہ تذکّر پہلی قراء ت کے مطابق نصیحت حاصل کرنے کے معنی میں ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتیجہ قراء ات
خلاصہ یہ نکلا کہ اس آیت میں دو قراء تیں ہونے کی وجہ سے حکم کے دو پہلو نکل آئے :
نمبر(١) قرآن کا ذکر یعنی اس کی تلاوت کرنااوریاد کرنا۔
نمبر(٢) قرآن سے وعظ ونصیحت حاصل کرنا ۔
اور یہ دو ایسے معنی ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نہیں پائے جاسکتے ۔یعنی ذکر کے بغیر نصیحت حاصل نہیں ہوسکتی اور نصیحت حاصل کئے بغیر ذکرناقص ہے۔ چنانچہ ان معانی کی تائید ایک اور آیت سے ہو جاتی ہے:
’’ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدّکر‘‘ (القمر :۱۷)
اس آیت میں بھی ان دونوں معانی کو جمع کیا گیا ہے یعنی ذکر جوکہ نسیان کی ضد ہے اور اذتکار یا تذکرجو کہ غفلت کی ضد ہے، لیکن مذکورہ آیت میں یہ دونوں معانی ایک ہی کلمہ میں دو قراء توں کی بناء پر حاصل ہوجاتے ہیں ۔
نمبر(٥)۔۔۔۔یُقاتِلُونَ/یُقاتَلُونَ
’’اُذِ نَ لِلّذِینَ یُقاتِلُونَ/یُقا تَلُونَ بِاَ نّھُمْ ظُلِمُوْا وإنّ اللّٰہ علٰی نَصرھِم لقدیرٌ‘‘ (الحج:۳۹)
’’اجازت دی گئی ہے ان لوگوں کوجوقتال کررہے ہیں،اس لئے کہ ان پرظلم کیاگیاہے اوراللہ ان کی مددکرنے پریقینا قادر ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اختلاف قراء ات
اس آیت میں کلمہ یقٰتلون میں دو قراء تیں ہیں:
نمبر(١)۔۔۔۔یُقاتِلُون۔۔۔۔معروف۔ابن کثیر﷫،ابوعمرو﷫،شعبہ﷫،حمزہ﷫ ،کسائی﷫،یعقوب﷫،خلف﷫
نمبر(٢)۔۔۔۔یُقاتَلُونَ۔۔۔۔مجہول۔نافع﷫، ابن عامر﷫،حفص﷫، اور ابو جعفر﷫۔(النشر:۲؍۳۲۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ قراء ات
امام قرطبی﷫(م۶۷۱ھ) لکھتے ہیں :
’’ یُقَاتِلون بکسر التاء أی یقاتلون عدوھم۔وقریٔ یقاتَلون بفتح التاء أی یقاتلھم المشرکون وھم المؤمنون۔ولھذا قال:بأنھم ظلموا أی أخرجوا من دیارھم‘‘۔(الجامع لاحکام القرآن: ۱۲؍۶۸)
یعنی اگرصیغہ مجہول کا ہو تواس آیت کا معنی بنتا ہے کہ وہ مسلمان جن کے ساتھ کفار قتال کررہے ہیں، ان کوجواب میں قتال کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔اسی لئے بعدمیں یہ کہاگیاہے کہ ’’اس وجہ سے کہ ان پرظلم کیا گیااوران کوگھروں سے نکال دیاگیاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آیت کاشان نزول
اس آیت کے نزول سے پہلے مسلمانوں کوقتال کی اجازت نہیں تھی حالانکہ مشرکین ان کے ساتھ قتال کرتے رہتے تھے ۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسو ل اللہﷺنے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اس سے پہلے مسلمانوں کوقتال کی اجازت نہیں تھی ۔(اَیضا)
تفسیر مدارک التنزیل میں ہے:
وکانوا یأتون رسول اﷲ من بین مضروب ومشجوع یتظلمون إلیہ،فیقول لھم: اصبروا فإنی لم أومر بالقتال حتی ھاجر۔فأنزلت ھذہ الآیۃ وھی أول آیۃ اذن فیھا بالقتال بعد ما نُھِیَ عنہ فی نیف وسبعین آیۃ ۔(تفسیر مدارک : ۲؍۴۴۳)
’’وہ( صحابہ کرام﷢)رسول اللہﷺکے پاس زخمی حالتوں میں ظلم کی دادرسی کے لئے آتے ،توآپﷺان سے فرماتے:صبراختیارکرواس لئے کہ مجھے قتال کاحکم نہیں دیاگیا،یہاںتک کہ آپﷺنے ہجرت کرلی ۔تویہ آیت نازل ہوئی اوریہ پہلی آیت ہے جس میں،سترکے قریب آیات میں قتال سے ممانعت کے بعد،اب قتال کی اجازت حاصل ہوئی تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معنی قراء ات
مولانا اشرف علی تھانوی﷫ (م۱۳۶۲ھ)بیان القرآن میں لکھتے ہیں:
’’فی قراء ۃٍ یقاتلون مبنیا للفاعل أی الذین یریدون للقتال ویحرصون علیہ۔‘‘( بیان القرآن:۷؍۷۴)
’’ایک قراء ت میں یقاتلون معروف ہے ۔معنی ہے کہ وہ لوگ جوقتال کاارادہ اورخواہش کررہے ہیں۔‘‘
علامہ آلوسی﷫ روح المعانی میں لکھتے ہیں :
’’أی یریدون أن یقاتلوا المشرکین فی المستقبل ویحرصون علیہ‘‘ ( ۱۷؍۱۶۱)
’’یعنی ان کواجازت ہے جولوگ مشرکین سے مستقبل میں قتال کاارادہ اورخواہش رکھتے ہیں۔‘‘
نیزصیغہ معروف والی قراء ت کے لیے متعدد مؤیدات بھی پائے جاتے ہیں مثلا:
نمبر(١)۔۔۔۔’’وجاھِدوا فی اللّٰہ حق جھادہ‘‘ ( الحج :۷۸)
نمبر(٢)۔۔۔۔’’قاتِلوا الذین لا یؤمنون باللّٰہ‘‘(التوبۃ : ۳۹)
چنانچہ علامہ آلوسی﷫ اورحضرت تھانوی﷫نے یقاتلون کا ترجمہ یریدون القتال ویحرصون علیہ سے کیا ہے ،
جس سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ قتال کی اجازت ہر طرح کے لوگوں کو ہے:
(ا) یعنی وہ لوگ جن کے اوپر مشرکین حملہ آور ہو جائیں ۔
(ب) وہ لوگ بھی جو کہ ماضی میں مشرکین وکفار کے ظلم کا شکار رہے ہوں۔
(ج) اوروہ لوگ جن کوظالم کے ظلم کا یقین ہو ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتیجہ قراء ات
مولانا ادریس کاندھلوی﷫ (م۱۹۷۴ء)معارف القرآن میں لکھتے ہیں :
’’حق کو باطل کی سر کوبی کا ہر وقت حق حاصل ہے حتی کہ اگرحق مصلحت سمجھے، قبل اس کے کہ باطل سر اٹھائے ،اس کے سر اٹھانے سے پہلے ہی اس کا سر کچل دیا جائے تو یہ بھی عین حق اورکمال تدبر اور دانائی ہے ۔اور انتظار میں رہنا کہ جب باطل مجھ پر حملہ آور ہو تو اس کی مدافعت کرونگا تو یہ کم عقلی ہے ۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اجازت جہاد کا دوسرا سبب بیان فرمایا کہ جس طرح مظلوم کے لئے ظالم کے ظلم کی مدافعت، اجازتِ جہاد کا سبب بنی، اس طرح اجازتِ جہاد کا ایک سبب دینی مصلحت بھی ہے، وہ یہ کہ اللہ کی حکمت اس امر کی مقتضی ہے کہ ہر زمانہ میں دین حق، انبیاء کرام، اور ان کے نائبوں کے ہاتھوں غالب ہوتارہے۔‘‘(معارف القرآن: ۵؍۲۶،۲۷)
گویا ان دو قرا ء توں کی وجہ سے اس آیت کے معنی میں مزید وسعت پیدا ہوگئی ہے ۔
نمبر(٦)۔۔۔۔لِلْعٰـلِمِیْنَ/ لِلعٰـلَمِینَ
’’ومن آیتہٖ خَلقُ السّمٰوٰت والأرضِ واختلافُ أ لْسِنتِکم وأ لوانِکم اِنّ فی ذٰلک لایٰتٍ لّلعٰلمِینَ‘‘
’’اللہ کی نشانیوں میں سے زمین وآسمان کاپیداکرنااورتمھاری زبانوں اوررنگوں کااختلاف ہے۔اس میں عالموں کیلئے نشانیاں ہیں۔‘‘ (الروم : ۲۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اختلاف قراء ات
اس آیت میں میں کلمہ للعالمین کے اندر دوقرا ء تیں ہیں:
نمبر(١) لام کے کسرہ کے ساتھ جو کہ عالِم (جاننے والا)کی جمع ہے۔امام حفص﷫ کی روایت ہے۔
نمبر(٢) لام کے فتحہ کے ساتھ ،یہ عالَم(جہان) کی جمع ہے،یہ امام حفص﷫ کے علاوہ باقی سب کی قراء ت ہے۔ (النشر:۲؍۳۴۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ ومعنی قراء ات
امام ابو حیان نحوی﷫ امام حفص﷫ کی قرا ء ت بکسر لام کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’إذِ المنتفع بھا اِنّما ھم أھل العلم کقولہ تعالیٰ وما یَعقِلُھا إلّا العالِمُونَ‘‘ (العنکبوت:۴۳) (البحر المحیط:۷؍۱۶۷)
’’زبانوں کے اختلاف سے توصرف علماء ہی فائدہ اٹھاسکتے ہیں،جیسے اللہ تعالی کافرمان ہے :اس کو صرف عالم سمجھتے ہیں۔‘‘
اسی طرح اما م ابن خالویہ﷫ لکھتے ہیں:
’’والحجۃ لمن کسر أنہ جعلہ جمعَ عالِمٍ؛ لأنّ العالِم أقرب إلی الاعتبار من الجاھل‘‘
’’جس نے کسرہ سے پڑھاہے ،اس نے اس کو عالم کی جمع پڑھاہے؛اس لئے کہ عالم جاہل سے زیادہ ادراک کے قریب ہوتاہے ۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’فإن قیل فما وجہ دخول الحیوان والجماد فی جملۃ من یعتبروھما لا یعقلان ذلک ؟ فقیل: إنّ اللفظ وإن کان عاما ،فالمراد بہ الخاص ممن یعقل‘‘ (الحجۃ، ص ۱۷۸)
’’اگرکہاجائے کہ دوسری قراء ت جو کہ بفتحہ لام ہے اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اس میں توحیوانات اورجمادات بھی داخل ہوجاتے ہیں،حالانکہ زبانوں کے اختلاف کو بطورِ اللہ تعالیٰ کی نشانی کے سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا غیر عالم کے لیے مشکل ہے۔ تویہ جواب دیا جائے گاکہ کہ لفظ اگرچہ عام ہے، لیکن اس سے مراد خاص ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتیجہ قراء ات
ان دو قرا ء توں میں سے بکسر لام والی قر اء ت کا معنی تو بالکل واضح ہے۔صرف فتحہ والی قراء ت پراشکال ہوتاہے۔تواس کی تفصیل یہ ہے کہ اس آیت میں چونکہ تین چیزوں کا ذکر ہے :
(١) زمین وآسمان کی پیدائش۔۔۔۔(٢) زبانوں کا اختلاف۔۔۔۔(٣) انسانی رنگوں کا اختلاف
ان میں سے زمین وآسمان کی پیدائش، اور انسانی رنگوں کے مختلف ہونے کاادراک عالِم اور غیر عالِم دونوں کے لیے آسان ہے۔ لہٰذا بفتحہ لام والی قرا ء ت کو اگر عمومی معنی پر بھی رکھا جائے تو کوئی اشکال نہیں ہوتا۔ البتہ بکسر لام والی قر اء ت سے اس بات کی طرف اشارہ ہوتاہے کہ زبانوں کے مختلف ہونے کا اللہ کی نشانی کے طورپرصحیح ادراک کرناعالموں کاکام ہے ۔
نمبر(٧)۔۔۔۔ھَل یَستَطِیعُ ربُّکَ/ھَل تَسْتَطِیعُ ربَّکَ
’’اِذقَالَ الحَوَارِیُّونَ یٰعیسَی ابنَ مَریمَ ھَل یَستَطِیعُ ربُّکَ/ھل تَسْتَطِیعُ ربَّکَ أن یُّنزّلَ عَلینَامائدۃً مّنَ السّمائِ، قالَ ا تّـقُوا اللّٰہَ اِن کُنتُم مُّؤمنینَ‘‘ (المائدۃ:۱۱۲)
’’جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب مان لے گا کہ وہ ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان نازل کردے،توحضرت عیسیٰ نے کہااللہ سے ڈرواگرتم ایمان رکھتے ہو۔‘‘
 
Top