• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم تفسیرپرقراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اختلاف قراء ات
اس آیت میں دوقراء تیں ہیں:
نمبر(١)۔۔۔۔ھل تَسْتَطِیعُ ربَّـک۔۔۔۔امام کسائی﷫ کی قراء ت ہے۔
نمبر(٢)۔۔۔۔ھل یَستَطِیعُ ربُّک۔۔۔۔باقی سب قراء۔ (النشر: ۲؍۲۵۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ ومعنی قراء ات
بعض علماء نے کہا ہے کہ اس جگہ استطاعت سے مراد حکمت وارادہ کا تقاضا ہو سکتا ہے ۔قدرت رکھنے کا مفہوم وارد نہیں ہے۔اللہ کی قدرت میں تو حواریوں کو شک نہیں تھا، مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ کی حکمت وارادہ بھی ایساہو سکتا ہے یا نہیں ،کہ آسمانوں سے خوان نازل فرمادے ۔
بعض علماء نے کہا کہ کلام کا وہی مطلب ہے جو ظاہری الفاظ سے معلوم ہورہا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدائی ایمان تھا ، اس وقت تک ان کے دلوں میں معرفت کا استحکام نہیں ہوا تھاکیونکہ جاہلیت اور کفر کا زنامہ ماضی قریب ہی میں ختم ہوا تھا ۔
اور امام کسائی﷫ کی قراء ت میں ھل تَسْتَطِیعُ ربَّک آیا ہے ۔یہ عیسیٰ﷤ کو خطاب ہے اور ربک مفعول ہے یعنی اے عیسیٰ﷤ کیا آپ اپنے رب سے یہ درخواست کردیں گے ؟اور آپ کے لئے یہ دعا کرنے میں کوئی رکاوٹ تو نہیں ہے؟ اور کیا آپ کا رب آ پ کی یہ درخواست قبول کرے گا ؟
جیساکہ تفسیرمظہری میں ہے:
’’استطاعت کا معنی ( یہاں ) اطاعت ہے ،مان لینا یعنی درخواست کے مطابق کردینا۔‘‘ (تفسیر مظہری :۴؍۹۰،۱)
حضرت علی،حضرت عائشہ،حضرت عبداللہ بن عباس کی بھی یہی قر اء ت ہے﷢(معجم القراء ات القرآنیۃ،۲؍۲۳۸)
اس قراء ت کو اختیارکرنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا حواری اللہ ( کے رتبہ ) سے خوب واقف تھے ۔(ثناء اللہ پانی پتی :حوالہ مذکور)
اسی لئے حضرت عیسیٰ ﷤نے ان کے قول کوبڑی گستاخی قراردیتے ہوئے فرمایا :
’’اِتَّقُوْااللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْنَ‘‘
’’یعنی اگر مومن ہو تو اللہ سے ڈرو(اللہ کی قدرت میں شک نہ کرو)۔‘‘ (ایضا)
حضرت تھانوی﷫اس کامعنی لکھتے ہیں :
’’ہل تستطیع أن تسأل ربَّک‘‘۔( القرآن،۳؍۷۳)
’’کیاآپ اپنے رب سے سوال کرسکتے ہیں‘‘۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتیجہ قراء ات
اس آیت میں ان دو قر ا ء توں کی بناء پر ایک ہی آیت سے حواریوں کے سوال کے دو پہلو سامنے آتے ہیں:
(۱) یہ کہ وہ یہ سوال کر نا چاہتے تھے کہ کیا حضرت عیسیٰ﷤ کارب آسمان سے کوئی مائدہ نازل کرے گا یا نہیں کرے گا ۔
یعنی وہ اپنے قول:’’آ منّا واشھَد بأ نّنا مسلمون ‘‘(المائدۃ:۱۱۱) کی بنا پر مومن تو تھے، لیکن ابھی ان کو ایمان کے اندروہ رسوخ حاصل نہیں ہوا تھا لہذا وہ یہ سوال کر بیٹھے ۔
جیسا کہ علامہ آلوسی﷫ لکھتے ہیں :
’’ وفیہ علی ماقیل حینئذ تنبیہ علی أن ادعاء ھم الإخلاص مع قولھم ھل یستطیع ربک،لم یکن عن تحقیق منھم ولا عن معرفۃ باﷲ تعالیٰ وقدرتہ سبحانہ لأنھم لو حققوا وعرفوا لم یقولوا ذلک إذ لا یلیق مثلہ بالمومن باﷲ عز وجل۔‘‘(روح المعانی:۷؍۵۰،۵۱)
یعنی ھل یستطیع والی قراء ت ان کے دعویٰ ایمان کے خلاف تھی۔ اس وجہ سے حضرت عیسیٰ ﷤ نے ان کو تنبیہ فرمائی اورکہا اللہ سے ڈرو۔
(ب) لیکن دوسری قراء ت یعنی ھل تستطیع ربک یہ ان کے دعویٰ ایمان باللہ کے خلاف تو بظاہر نہیں ہے، لیکن ا س سے یہ شبہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ ﷤کے اللہ تعالیٰ سے تعلق کو نہیں پہچان سکے تھے۔ گویا ان کو حضرت عیسیٰ ﷤کی درخواست کی قبولیت پر شک تھا ،جس پر حضرت عیسیٰ ﷤نے ان کو تنبیہ فرمائی ۔خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں قراء توں سے حواریوں کے سوال کے دونوں پہلوؤں کی وضاحت ہو جاتی ہے ۔
نمبر(٨)۔۔۔۔المُخلِصِینَ/المُخْلَصِینَ
یہ کلمہ مفرد اورجمع تقریباً دس مقامات پر قرآن پاک میں آیا ہے ۔ جیسے:
’’اِنّہ من عبادنا المخلصین‘‘ (یوسف :۲۴)
’’بیشک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے ہے۔‘‘
’’قالَ ربِّ بِمَا أغویتَنی لاُ زیّننّ لھُم فی الأرضِ ولاُغوینّھُم أجمعین، إ لّا عبادَ ک منھم المُخلَصینَ /المُخلِصینَ‘‘(الحجر :۳۹،۴۰)
’’شیطان نے کہااے رب جیسے تونے مجھے راہ سے ہٹادیا،میں بھی ان سب کوبہاریں دکھلاؤں گازمین میں،اوران سب کوراہ سے بھٹکادوں گا۔‘‘مگرجوتیرے مخلص بندے ہوں۔‘‘
اسی طرح مفرد کا صیغہ بھی آیا ہے:’’واذکرفی الکتاب موسیٰ، اِنّہ کان مخلصاً وکا ن رسولا نبیاً ‘‘ (مریم :۵۱)
’’اورکتاب میں موسی ﷤کاذکرکیجئے،کیونکہ وہ مخلص تھے، اوررسول اور نبی تھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اختلاف قراء ات
ان تمام مقامات میں اس صیغہ میں دو قرا ء تیں ہیں:
نمبر(١)۔۔۔۔المُخلِصِینَ۔۔۔۔صیغہ اسم فاعل کے ساتھ
نمبر(٢)۔۔۔۔المُخلَصِینَ۔۔۔۔صیغہ اسم مفعول کے ساتھ
امام عاصم﷫ ،حمزہ﷫ ،کسائی﷫، اور خلف﷫ ہرجگہ اس کو صیغہ اسم مفعول یعنی بفتحہ لام پڑھتے ہیں۔باقی قراء ان تمام مقامات پر اس صیغہ کواسم فاعل کے وزن پر بکسر لام پڑھتے ہیں۔ (النشر:۲؍۲۹۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ ومعنی قراء ات
صیغہ اسم فاعل والی قراء ت کا معنی تو یہ بنتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے دین اور اعمال کواللہ تعالیٰ کے لیے خالص کیا ہے اور اس معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے :
’’إلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَأصْلَحُوْا وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ وَأخْلَصُوْا دِیْنَھُمْ للّٰہ فاُولٰئِکَ مَعَ الْمُؤمِنِیْنَ‘‘
’’مگروہ لوگ جوتائب ہوئے،اصلاح کی،اوراللہ کے ساتھ جڑے رہے،اوراپنے دین کواللہ کے لئے خالص کیا،تویہ ہی مومنین کے ساتھ ہوں گے‘ـ۔‘(النسآء :۱۴۶)
اور صیغہ اسم مفعول والی قراء ت کا معنی یہ بنتا ہے کہ اللہ نے ان کی برائیوں اور منکرات سے خالص کردیا ہے۔ اور اس معنی کی تائید اس آیت سے ہوجاتی ہے :
’’إنا أخلصنٰھم بخالصۃ ذکری الدار ‘‘ ( صٓ :۴۶)
’’ہم نے ان کوایک خاص بات کے ساتھ مخصوص کیاتھااور وہ آخرت کی یادہے۔‘‘
کیونکہ مؤمنین میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں یعنی اللہ نے ان کو اخلاص کی توفیق دی ہے ۔اور انہوں نے اپنے دین کو ریاکاری سے خالی رکھاہے ۔لہٰذا ان تمام مذکورہ مقامات میں یہ کلمہ صیغہ اسم مفعول اورصیغہ اس فاعل دونوں طرح سے پڑھا گیا ہے تاکہ مؤمنین کی ان دونوں صفات پر دلالت ہوسکے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتیجہ قراء ات
گویا یہ دونوں قراء تیں ایک دوسرے کے معنی کی تکمیل کرتی ہیں اور ساتھ ہی اس بات کی طرف اشارہ بھی ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین اور اپنے اعمال کو اللہ کے لیے خالص رکھا ہے، تواس اخلاص کی توفیق ان کو خود اللہ ہی نے دی ہے ان کا اپنا کمال نہیں ہے ۔یعنی مخلِص
( اسم فاعل)سے صرف یہ سمجھ میں آتاہے کہ وہ ازخوداخلاص کواختیارکرنے والاہے،یکن مخلَص(اسم مفعول)سے اس طرف اشارہ ملتاہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اخلاص کی نعمت عطاء فرمائی ہے،لہٰذااسکے اخلاص میں ایک خاص روحانی قوت بھی ہوگی۔
نمبر(٩)۔۔۔۔أن یَغُلَّ/یُغَلَّ
’’وَمَاکانَ لِنَبِیٍّ أن یَغُلَّ/یُغَلَّ ومن یّغلُل یأت بماغلّ یوم القیٰمۃِ، ثمّ توفّٰی کلُّ نفسٍ مّاکسبَتْ وَھُمْ لایُظلَمُونَ‘‘ (آل عمران:۱۶۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اختلاف قراء ات
اس آیت میں کلمہ یَغُلَّ کے اندر دو قراء تیں ہیں:
نمبر(١) یَغُلَّ ابن کثیر﷫، ابو عمرو﷫،اورامام عاصم﷫،مضارع معروف کے ساتھ۔
نمبر(٢) یُغَلَّ باقی سب قراء، مضارع مجہول کے ساتھ۔(النشر:۲؍۲۴۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ قراء ات
أن یَّغُلَّ یہ غَلَّ یَغُلُّ غُلُولاً سے ہے ۔
اَنْ یُغَلََّّ اس میں دو صورتیں ہو سکتی ہیں یہ غُلول سے بھی ہوسکتا ہے اور اغلال سے بھی ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آیت کاشان نزول
اس آیت کے شان نزول میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ آیت ایک سرخ چادر( قطیفہ حمراء ) کے بارے میںنازل ہوئی تھی جو یوم بدر کو گم ہوگئی تھی ،بعض لوگوں نے یہ کہا کہ شاید رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے رکھ لی ہے۔ (سنن الترمذی:ا۲؍۱۳۰،ابواب التفسیر)
امام ابن عطیہ﷫(م۵۴۶ھ) اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قیل کانت ھذہ المقالۃ من مؤمنین لم یظنوا أن فی ذلک حرجا،وقیل کانت من منافقین ،وقد روی أنّ المفقود إنماکان سیفا۔‘‘ (المحرر الوجیز: ۱؍۵۳۵)
’’کہاگیاہے کہ یہ بات مومنین کی طرف سے ہوئی تھی جواس میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔اوریہ بھی کہاگیاہے کہ یہ بات منافقین نے کی تھی۔ایک روایت ہے کہ تلوارگم ہوئی تھی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معنی قراء ات
تفسیر مظہری میں ہے:
آیت کی دوسری قرا ء ت میں أن یُغَلّفعل مجہول آیا ہے یعنی نبی ﷺ کو خائن قرار دینا جائز نہیں، یا یہ مطلب ہے کہ نبیﷺسے امت کا خیانت کرنا جائز نہیں۔ ( تفسیر مظہری (اردو ): ۲؍۴۰۰)
امام قرطبی﷫(م ۶۷۱ھ)لکھتے ہیں :
’’ فمعنی یَغُلّ یخونَ ومعنی یُغلَّ یُخَوَّنَ۔ویحتمل معنیین: أحدھما یخان أی یؤخذ من غنیمتہ،والآخر یُخوّن أن ینسب إلی الغلول ‘‘ (الجامع لاحکام القرآن: ۴؍۲۵۵، ۲۵۶)
’’یَغُلّ(معروف)کامعنی ہے :یخُونَ،کہ وہ خیانت کرتاہے ۔اور یُغلَّ(مجہول)کامعنی ہے :یُخَوَّنَ۔
اس کے دومطلب ہوسکتے ہیں:ایک یہ کہ اس سے خیانت کی جاتی ہے۔دوسرایہ کہ اس کو خیانت کی طرف منسوب کیاجاتاہے۔‘‘
علامہ آلوسی﷫ صیغہ معروف والی قرا ء ت کامعنی بیان کرتے ہیں :
’’فالمعنی ما کان لنبیّ أن یُّعطی قومًا من العسکر ویمنع آخرین،بل علیہ أن یقسم بین الکلّ بالسّویّۃ۔‘‘
اور صیغہ مجہول کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وفی توجیھھا ثلثۃ أوجہ أحدھا أن یکون ماضیہ أغللت أی نسبتہ إلی الغلول۔۔۔ والمعنی ما صح لنبی أن ینسبہ أحد إلی الغلول۔وثانیھا أن یکون من أغللتہ إذا وجدتہ غالا۔۔۔والمعنی ما صح لنبی أن یوجد غالا۔وثالثھا أنہ من غَلَّ إلی أن المعنی ما کان لنبی أن یغلہ غیرہ أی یخونہ ویسر ق من غنیمۃ۔‘‘ (روح المعانی: ۴؍۱۰۹)
’’معنی یہ ہے کہ کسی نبی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ فوجیوں میں سے کچھ کودے، اورکچھ کو نہ دے،بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ برابر تقسیم کرے اورمجہول والی قراء ت میں تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ایک یہ کہ اس کی ماضی باب افعال سے ہو جس کامعنی ہے کہ اس کومیں نے خیانت کی طرف منسوب کیااورمطلب یہ ہوگاکہ کسی نبی کے بارے میں ایسی نسبت درست نہیں۔ دوسرایہ کہ اس کاباب افعال خائن پانے کے معنی میں ہو تومطلب یہ ہوکہ کسی نبی کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ خائن پایاجائے اورتیسرایہ کہ اس کاباب مجرد کاہو ۔تومطلب یہ ہوگاکہ کسی نبی کے ساتھ یہ نہیں ہوسکتاکہ اس کوکوئی دوسرادھوکہ دے جائے،اور اس کے مال غنیمت میں سے کچھ لے جائے۔‘‘
 
Top