• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم تفسیر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب : 16
علم تفسیر


لغوی معنی:
تفسیر(ف س ر) سے نکلا ہے جس کے معنی ظاہر کرنا، کھول کر بیان کرنااور بے حجاب کرنا ہیں۔

اصطلاحی معنی :
تفسیر سے مراد قرآن مجید کے معانی کو واضح کرنا ہے۔ ابو حیان اندلسی ؒ علم تفسیر کی یہ تعریف بیان کرتے ہیں:

تفسیر ایسا علم ہے جس میں قرآن مجید کے الفاظ کے تلفظ ، ان کے مفہوم، ان کے احکام اور ان معانی سے بحث کی جاتی ہے جن کے وہ حامل ہوتے ہیں۔(البحر المحیط ۱/۴)

امام بدر الدین زرکشیؒ (م: ۷۹۴ھ) نے علم تفسیر کی تعریف البرھان میں یوں بیان کی ہے :
تفسیر ایسا علم ہے جس کی مدد سے اللہ کی کتاب جو نبی ﷺ پر نازل ہوئی کا فہم حاصل ہو،اس کے معانی سے واقفیت ہو، اس کے احکام نکالے جائیں اور حکمتیں بیان کی جائیں۔

الاتقان میں علامہ جلال الدین السیوطیؒ نے علم تفسیر کی حسب ذیل تعریف بیان کی ہے:
تفسیر ایسا علم ہے جس میں قرآنی آیات کے نزول ، اسباب النزول ، آیات مکی و مدنی، محکم و متشابہ، ناسخ و منسوخ، خاص و عام، مطلق و مقید، مجمل و مفصل ، حلال وحرام ، وعد و عید ، امر و نہی ، عبرت و امثال وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے۔

مختصر ًا تفسیر ایسا علم ہے جس کی مدد سے انسانی استطاعت کی حد تک رسول اکرم ﷺ پر نازل شدہ کلام الٰہی یعنی قرآن مجید کے معانی ، مطالب، احکام، مسائل کو واضح کرنے کی اور مراد الٰہی تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تاویل

قرآن مجید میں تفسیر کے لئے لفظ "تاویل"بھی استعمال ہوا ہے ۔ علماء سلف اس لفظ کا استعمال بکثرت کرتے۔مگر بعد کے علماء میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں یا ان میں کچھ فرق ہے؟

لغت میں:
لغوی طور پر تاویل "اَوْلَ"سے نکلا ہے جس کے معنی ایسی حقیقت کی طرف رجوع کرنا، واپس لانا یالوٹانا کے ہیں جس کی طرف کلام اشارہ کررہا ہو۔جیسے: {وما یعلم تأویلہ إلااللہ}۔

اصطلاح میں:
کسی کلام کی تشریح و توضیح کرنا تأویل ہے۔ تأویل الکلام سے مراد: تعبیر ، بیان، عمل، ثبوت ، انجام اور تحقیق وغیرہ ہیں۔ اسی معنی میں یہ آیت ہے:
{ہَلْ یَنْظُرُوْنَ إلاَّ تَأوِیلَہُ۔۔۔} (الأعراف:۵۳)
وہ اس کی حقیقت کا انتظار کررہے ہیں۔

اور یہ دعا بھی:
اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ تَأْوِیْلَ الْکِتَابِ۔
اے اللہ! اسے کتاب کی تاویل یعنی مراد ،بیان یاوضاحت سکھادے۔

امام ابن عیینہ ؒ فرماتے ہیں:
اَلسُّنَّۃُ ہِیَ تَأوِیْلُ الأَمْرِ وَالنَّہْیِ أَیْ عَمَلَہُ وَالْقِیَامَ بِہِ فِی الْحَقِیْقَۃِ۔
سنت درحقیقت امر ونہی پر عمل کرنے اور اسے قائم کرنے کا نام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
علماء کی اکثریت کا کہنا ہے کہ تاویل اور تفسیر دونوں ہم معنی ہیں۔جن میں ابوعبید، مجاہد اور ابن جریر الطبری بھی شامل ہیں۔ ابن جریر نے تو اپنی تفسیر کا نام بھی (جامِعُ البَیَانِ فِی تَأوِیْلِ آیِ الْقُرآنِ ) رکھا ہے۔ اس لئے وہ ہر آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں: اخْتَلَفَ أَہْلُ التَّأوِیْلِ یا اَلْقَوْلُ فِی تَأوِیْلِ الآیَۃِ۔ایک اور رائے ہے: کہ تاویل کا لفظ کئی لحاظ سے تفسیر سے بالکل ہی مختلف معنی رکھتا ہے۔ امام راغب اصفہانی ؒ کے نزدیک تفسیر سے مراد کلام الٰہی اور کلام انسانی دونوں کی تشریح کرنا ہے جبکہ تاویل صرف کتب الٰہیہ کی تشریح کا نام ہے۔امام منصور ؒ کہتے ہیں: تفسیر ، قرآن کی مراد کو قطعی طور پر متعین کرنے کانام ہے جبکہ تاویل الفاظ قرآن کے زیر احتمال معانی میں سے کسی ایک کو غیر یقینی طور پر معین کرنے کا نام ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ مفسرین ان دونوں الفاظ کا فرق نہ جان سکے۔وہ یہ سمجھتے رہے کہ تفسیر کا تعلق نص اور اس سے ماخوذ مفہوم سے ہے جبکہ تاویل نص کی گہرائی میں اترنے کا نام ہے۔یا پھر لفظ قرآن کے مختلف محتمل معانی کی وضاحت کو کہتے ہیں۔بعض نے تفسیر اسے کہا جو بذریعہ روایت ہو اور تاویل وہ جو بذریعہ درایت ہو۔

ان تمام آراء میں سب سے بہتر رائے امام ابو عبیدؒ کی ہے کیونکہ قرآن و سنت میں تفسیر کی جگہ تاویل کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً: ارشاد باری ہے: { ۔۔۔وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہُ إِلاَّ اللّہُ۔۔۔ } (ال عمران:۷) اور دعائے رسول بھی ہم پڑھ آئے ہیں: اللہم عَلِّمْہُ تَأوِیْلَ الْکِتَابِ۔

فقہ وعقائد کے صحیح احکام تک رسائی کا نام بھی تاویل ہے تاکہ عام مسلمان کو ان احکام کی تمام حدود وقیود کا علم ہوسکے۔رسائی اگر برعکس ہو تو نتیجہ غلط ہوسکتا ہے جسے تاویل فاسد کہا جاتا ہے جیسے { وَاتَّخَذَ اللّہُ إِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلًا } (النساء:۱۲۵)میں خلیل سے مراد فقیر لینا اور اصلی معنی نامناسب کہنا، تاویل فاسد ہے۔

نوٹ: تاویل کا علم ایک بیش بہا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو تاویل الأحادیث کا علم عطا کیا تھا۔ابن عباس ؓ کے لئے حضور ﷺ نے دعا فرمائی کہ قرآن مجید کی تفسیر و تأویل کا علم انہیں عطا ہو۔ آپﷺ کی اسی دعا کا نتیجہ ہے کہ ابن عباس ؓ کے تفسیری اقوال میں قرآنی الفاظ کی وضاحت و معانی کا تعین بہت سادہ اور عام فہم انداز میں کیا گیا ہے۔تفسیر میں جزمی طور پر مراد الٰہی تک نہیں پہنچا جاسکتا إلا یہ کہ صحیح روایت میں رسول اللہ ﷺ سے اس کی تفسیر منقول ہو یا صحابہ کرام سے جو نزول وحی کے وقت موجود تھے اور انہوں نے حوادث و واقعات کا مکمل احاطہ کیا ہو یا اشکال کے وقت انہوں نے آپ ﷺ کی طرف اس کے مفہوم کے لئے رجوع کیا ہو۔قرآن کا لفظ یا عبارت ایک سے زائد مفہوم کے اگر متحمل ہوں تو پھر ان کی تفسیر یا تاویل انتہائی احتیاط اورٹھوس دلائل کی محتاج ہے۔ بصورت دیگر خود ساختہ نظریہ و تخیل کی ترجمانی ہو گی نہ کہ خدمت قرآن۔اس میں مفسر کی اپنی اجتہادی کوشش جو لفظ قرآن کی بذریعہ لغت عرب صحیح معرفت ہو ، سیاق وسباق کے مطابق اس کا استعمال وہ کرے اور اسالیب عرب کی معرفت کے بعد معانی کا استنباط وغیرہ بھی۔امام زرکشی لکھتے ہیں:
وَکَانَ السَّبَبُ فِی اصْطِلاَحِ کَثِیْرٍ عَلَی التَّفْرِقَۃِ بَیْنَ التَّفْسِیْرِ وَالتَّأْوِیْلِ، اَلتَّمْیِیْزُ بَیْنَ الْمَنْقُوْلِ وَالْمُسْتَنْبَطِ، لِیُحِیْلَ عَلَی الاِعْتِمَادِ فِی الْمَنْقُولِ، وَعَلَی النَّظَرِ فِی الْمُسْتَنْبَطِ۔(البرہان ۲؍۱۷۲) بہت سے علماء کے ہاں تفسیر وتاویل کی اصطلاح میں اختلاف کا سبب منقول ومستنبظ کے درمیان امتیاز کرنا تھا تاکہ منقول پر اعتماد ہواور مستنبط پر غور ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
معتزلہ نے تأویل سے مراد:
لفظ کو اس کے اصل معنی سے پھیر کر دوسرے معنی کی طرف لے جانا لیا ہے ۔یہ اس صورت میں تو جائز ہے جب کوئی ایسی دلیل یا قرینہ موجود ہو جو ظاہری معنی مراد لینے سے روکتا ہو۔تاویل کی یہ اجازت عام الفاظ میں تو دی جاسکتی تھی۔ مگر قرآن مجید میں وارد صفات الٰہی کے مرادی معنی لینے کی کوئی دلیل نہیں۔اس سے تو مخلوق خدا سے تشبیہ ہوجاتی ہے جو رب کریم کی ذات اقدس کے حق میں تنقیص ہے۔اس کی تنزیہ وتقدیس کے بارے میں صحیح نکتہ نظر یہی ہے کہ جس طرح اس نے اپنا تعارف کرایا ہے اسے ویسا ہی لیا جائے کوئی تأویل مشابہت اور کیفیت والی نہ کی جائے۔اس لئے کہ لیس کمثلہ شئ۔ اس جیسی کوئی شے ہے ہی نہیں۔ اور{ فلا تضربوا للہ الأمثال}۔ اللہ کو متعارف کرانے کے لئے مثالیں مت دیا کرو۔ ایسا کرنا اصل معنی کو دوسرے معنی کی طرف پھیرنا ہے۔

یہی تاویلی اورمرادی معنی آج متعدد تراجم قرآن اور تفاسیر میں بخوبی نوٹ کیا جاسکتا ہے ۔جن سے مترجمین اور مفسرین کے رجحانات کا بھی علم ہوتا ہے اور قرآن کریم سے دشمنی رکھنے والوں کا بھی۔ یہ منہج فتنہ ابھارنے کا اگر نہ بھی ہوتو کم از کم اپنی من مانی تأویل اور سلف صالحین کے منہج سے ہٹا ہوا ہے۔ جیسے:

{ استوی علی العرش} سے مراد جلوہ افروز ہونا ۔ یا {جاء ربک والملک} سے مرادتمہارا رب جلوہ فرما ہوگا یابعض صحیح احادیث جن میں اللہ تعالی کی صفات بیان ہوئی ہیں ان کا محض عقلی معنی لینا نہ کہ اصل۔ سوال یہ ہے کہ پھر اس سے مراد کیا ہے ؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہی ہے کہ ہمیں اس کا معاملہ اللہ تعالی پر چھوڑ دیناچاہئے۔اسلاف امت نے ان سب آیات واحادیث کا ایساظاہری معنی لیا ہے جو اس کی ذات جلیل کو زیبا ہے، تاکہ مشابہت وکیفیت کے بغیر خالق ومخلوق کی صفات میں فرق ہوسکے۔ اس لئے کہ یہ سب صفات باری تعالی ہیں جنہیں بلاتمثیل ماننا اور اللہ تعالی کو منزہ وپاک سمجھنا ضروری ہے۔امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
مَا جَہِلَ النَّاسُ وَلاَ اخْتَلَفُوا إِلاَّ لِتَرْکِہِمْ لِسَانَ الْعَرَبِ، وَمَیلِہِمْ إِلٰی لِسَانِ أَرْسَطَاطَالِیْسَ۔لوگ دین سے جاہل تبھی ہوئے اور اختلاف میں تبھی پڑے جب انہوں نے عربی زبان ترک کردی اور ارسطو فلسفی کی زبان کے شوقین بنے۔

امام سیوطیؒ لکھتے ہیں:
وَلَمْ یَنْزِلِ الْقُرْآنُ وَلَا أَتَتِ السُّنَّۃ ُإِلاَّ عَلَی مُصْطَلَحِ الْعَرَبِ وَمَذَاہِبِہِمْ فِی الْمُحَاوَرَۃِ وَالتَّخَاطُبِ وَالاِحْتِجَاجِ وَالاِسْتِدْلاَلِ، لاَ عَلَی مُصْطَلَحِ الْیُوْنَانِ، وَلِکُلِّ قَوْمٍ لُغَۃٌ وَاصْطِلاَحٌ، وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالْی: {وما أرسلنا من رسول إلا بلسان قومہ لیبین لہم}۔ (صون المنطق والکلام: ۱۵)
قرآن اترا اور سنت رسول گویا ہوئی تو اہل عرب کی اصطلاحات میں، ان کی طرزگفتگو اور انداز تخاطب میں،ان کے طریقہ احتجاج اور استدلال میں۔نہ کہ یونانی فلسفہ واصطلاحات میں۔ ہر قوم کی اپنی لغت اور اصطلاحات ہوا کرتی ہیں انہی میں ان کی کتب کو سمجھنا چاہئے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ہم نے کسی بھی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ ان کے لئے کھول کر بیان کرسکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تفسیر اور اصول تفسیر کا ارتقاء :
قرآن کریم کے نزول کے ساتھ ہی علم تفسیر کا آغاز ہوچکا تھا ۔قرآن نے اپنی تفسیر بعض مقامات پر خودکی نیز نبی اکرم ﷺ بھی قرآن کے اولین مفسر وشارح تھے ۔ زبانی تفسیر کے علاوہ آپ ﷺ نے اپنے عمل میں بھی ان آیات کو سمویا۔آپ ﷺ کے اخلاق وسیرت بھی تفسیر قرآن تھے۔ آپ ﷺ نے صرف ان حصوں کی تفسیر فرمائی جنہیں سمجھنا صحابہ ؓ کے لئے مشکل تھا۔ یہ مشکل اس وقت پیش آتی جہاں آیات کی فصاحت وبلاغت صحابہ کرام ؓ کی علمی حد سے زائد ہوتی اور ناقابل فہم بھی۔ مثلاً: مجمل، مشکل، متشابہ آیات اور بعض اصطلاحات وغیرہ۔ جن کی تفسیر کے لئے وہ نبی اکرم ﷺ کی طرف رجوع کرتے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
لَمْ یَکُنِ النَّبِیفُ ﷺ یُفَسِّرُ شَیْئًا مِنَ الْقُرْآنِ إِلا آیَاتٌ تُعَدُّ، عَلَّمَہُنَّ إِیَّاہُ جِبْرِیْلُ۔
آپ ﷺ نے قرآن کریم کی چند گنی چنی آیات کی تشریح کی ہے جنہیں جبریل امین نے آپ ﷺ کو سکھایا تھا۔(تفسیر القرطبی ۱/۳۱)

دراصل مسلمانوں سے مطلوب یہ تھا کہ وہ رسول اکرم ﷺ کی اتباع و اطاعت میں کوئی کمی یاکوتاہی نہ کریں تاکہ قرآن کی صحیح عملی تفسیر کا خود بخودانہیں ادراک ہوتا جائے۔صحابہ رسول اس سے بھی آگاہ تھے کہ آپ ﷺ کے اخلاق وسیرت سبھی قرآن مجید کی تعلیمات کا عکس ہیں۔ اسی لئے امام سیوطیؒ فرماتے ہیں:
اَلَّذِیْ صَحَّ مِنْ ذَلِکَ قَلِیْلٌ جِدًّا بَلْ أَصْلُ الْمَرْفُوْعِ مِنْہُ فِی غَایَۃِ الْقِلَّۃِ۔ آپ ﷺ سے تفسیر بہت کم ہی ثابت ہے بلکہ مرفوع تفسیر تو نہ ہونے کے برابر ہے۔(الاتقان: ۲/۱۷۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد بے شمار عرب وعجم حلقہ اسلام میں داخل ہوئے ۔جنکی اکثریت عربی زبان سے ناواقف تھی۔ ان کی یہ خواہش تھی کہ اپنی مقدس کتاب کو جانیں اور اس کے علوم جیسے: اسباب نزول ، مکی و مدنی وغیرہ سے واقف ہوں۔چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ قرآن کے ان حصوں کی تفسیر بیان کردی جائے جنہیں نبی اکرم ﷺنے بیان نہیں کیا۔ صحابہ ؓ کا یہی منہج رہا کہ وہ سب سے پہلے تفسیر کے لئے اقوال نبی اکرم ﷺ کو دیکھتے ورنہ وہ خود اس کے مطالب بیان کرتے۔

دور تابعین کرام میں تفسیر کی ضرورت اور بڑھ گئی۔اس نسل نے بالمشافہ صحابہ کرام ؓ سے تفسیر کا علم سیکھا۔ ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ آیات کی تفسیر کرتے وقت سب سے پہلے احادیث نبویہ کو دیکھتے۔ پھر اقوال صحابہ ؓ کی طرف رجوع کرتے اور آخری درجے پر اپنے اجتہاد سے کام لیتے۔ اس دور میں تفسیر کے پہلو بہ پہلو بہت سی موقوف و اسرائیلی روایات بھی شامل ہو گئیں ۔ ایسی بحثیں شروع ہوگئیں جنہیں صحابہ کرام ؓ نے غیر ضروری ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔

تبع تابعین کا دور آیا تو اسرائیلیات کی بھرمار ہوگئی۔فرقہ بندی نے جنم لیا جن میں بالخصوص معتزلی، جہمی اور قدری افکار ونظریات نے تفسیری اختلافات کا دروازہ اور کشادہ کردیا، تفسیر میں جعلی روایات کی کثرت ہوئی مگرصحیح نقل وروایت کا سلسلہ بھی اپنی آن بان کے ساتھ جاری رہا ۔عدم احتیاط سے جعلی روایات کی دیومالائی کہانیاں اور داستانیں جزو تفسیربن گئیں ۔ انہی روایات کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کو یہ فرمانا پڑا:
ثَلاَثَۃٌ لَیْسَ لَہَا أَصْلٌ: اَلتَّفْسِیْرُ، وَالْمَلاَحِمُ وَالْمَغَازِیْ۔
تین علوم ایسے ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں۔ تفسیر، جنگیں اور غزوات۔ان تفاسیر میں کلبی اور مقاتل بن سلیمان کی تفاسیر سر فہرست ہیں ۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں:
فِیْ تَفْسِیْرِ الْکَلْبِیِّ مِنْ أَوَّلِہِ إِلٰی آخِرِہِ کِذْبٌ۔
تفسیر کلبی شروع تا آخر جھوٹ کا پلندہ ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا کہنا ہے:
إِنَّ النَّقْلَ عَنْ بَنِی إِسْرَائِیْلَ دَسِیْسَۃٌ دَخَلَتْ فِی دِیْنِنَا۔
اسرائیلی روایات ہمارے دین میں درآئی سازش ہے۔(الفوز الکبیر:۵)

الحمد للہ علمائے اسلاف کی محنت اور تحقیق سے تفسیری روایات میں ضعیف وموضوع حصہ غالب نہ ہوسکا۔ جس کا تدارک عہد صحابہ میں روایت کے ذریعے ہوا اور احتیاط یہ برتی گئی کہ ہر روایت کی تفتیش ہواور ہر ایک کی تفسیر کو میزان صحت قرار نہ دیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
معتزلی حضرات اس فلسفے کے حامی تھے کہ احکام شریعت میں تعارض اور تضاد ہے۔ اس سوچ نے ذرا قدم بڑھائے توصفات الٰہی کی نفی کرڈالی اور اسی نے خبر واحد کے غیر یقینی علم ہونے کا مسئلہ چھیڑا۔ آیات قرآنیہ کی عجیب وغریب تأویلات کیں۔ حقیقت کو مجاز کا معنی دیا۔ صحیح عقائد واحادیث کا خون کیا۔متفقہ مسائل کو متنازعہ بنایامگر خود بھی مسائل کی گتھیوں کو سلجھا نہ سکے بلکہ ہمہ وقت پیچیدگی وابہام ہی ان کے مقدر میں رہی جو جدال ومباحثہ کی ایسی برائی ہے جس کا عمل سے کوئی تعلق نہیں۔ آزاد خیال مقلدین ومحققین اسی مدرسہ فکر کی بخشیش ہیں۔دوسری طرف اس برائی نے بہت سے خدا ترس لوگوں کو رجوع الی الحق کی توفیق دی ۔ امام ابوالحسن اشعری نے الإِبَانَۃُ عَنْ أُصُوْلِ الدِّیَانَۃِ لکھ کر علم کلام کے منہج اور اشاعرہ کے عقائد سے رجوع کرلیا۔فخر الدین رازی کی تفسیر پر یہ تبصرہ اسی لئے تو کیا گیا : فِیْہِ کُلُّ شَئ ٍإِلاَّ التَّفْسِیْرُ۔ اس میں سب کچھ ہے سوائے تفسیر کے۔انہیں بھی خود بصد افسوس یہ کہنا پڑا : فلاسفہ کے تمام مناہج سمجھنے اورعلم کلام کے سارے اصول جانچنے اور اپنانے کے باوجودمیں ان میں وہ فائدہ نہیں پاسکا جو قرآن کریم میں پایا ہے۔(عیون الأنباء ۲/۲۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ضرورت تفسیر

اس لئے قرآن کی صحیح تفسیر کی ہر دور میں ضرورت رہی ہے۔اس کی مزید وجوہات یہ ہیں:
 قرآن میں فصاحت و بلاغت، حکمت او راوصاف کلام کا ایک ایک چمن کھلا ہوا ہے۔ اس کی جامعیت ، ہمہ گیری اور وسعت کا کچھ ٹھکانہ نہیں۔ اس لئے اس کی عربی ذوق اور عربیت کے مطابق تشریح و تفسیر نہایت ضروری ہے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ہر فن کے ماہرین کی یہ عادت ہوا کرتی ہے کہ وہ کسی بھی علم مثلاً طب یا حساب کی کتاب کو پڑھتے ہیں اور اس کی وضاحت وشرح بھی کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کے اس کلام کے ساتھ ایسا معاملہ کیوں ہو کہ وہ بغیر تفسیر(یا بغیر ماہرین) کے سمجھا جائے جب کہ یہ مقدس کتاب انسان کو تباہی سے بچاتی، اسے اخروی نجات دلاتی اور دنیاوی زندگی میں اسے سعادت مند بناتی ہے۔

-- آزاد خیال لوگوں نے اور غیر مسلم متعصبین نے قرآن کریم کے بعض الفاظ کے معانی کواپنی لغات کے ذریعے تلاش کرکے کئی لحاظ سے قرآن کریم کو محرف کرنے اور اہل اسلام کو ملزم بنانے کی مذموم کوشش کی ہے۔مثلاً:
{وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدْوَّ اللّہِ} (الانفال:۶۰)
میں لفظ ترہبون کو نکال کر قرآن کریم اور اہل اسلام کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششیں جہاں عالمی سطح پر کی جارہی ہیں وہاں اپنی اپنی پارلیمنٹ میں بھی ایسی قرار دادیں پاس کرکے مسلمانوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔مزید برآں مطبوعہ تراجم میں بیشتر تراجم بھی عربیت سے نابلد یا الفاظ قرآنی کے عمیق معانی ومطالب سے محروم ہیں۔

-- قرآن میں کچھ باتیں مجمل بھی کی گئی ہیں۔ جن کی وضاحت کے لئے تفسیربہت ضروری ہے تاکہ عوام پر اس کے عقدے کھل سکیں۔ اس کے علاوہ قوانین و احکام کی تفصیلی صورت، حدود و قیود، ان پر رضا مندی واطمینان، او ران کا نفاذ اسی صورت میں ممکن ہے جب ان کی صحیح تفسیر بیان کی جائے۔

--عصر حاضر میں جب عجمی مسلمان زیادہ تعداد میں ہیں اور عربی زبان و ادب سے واقفیت کم ہو چکی ہے۔ تو اس دور میں تفسیر کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے تاکہ کتاب الٰہی کے احکامات اور الفاظ کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے عجمی مسلمانوں کی رہنمائی کی جا سکے۔

-- مذاہب باطلہ اور منحرفین نے تحریف اور تضلیل سے احادیث گھڑ کے تفسیر میں شامل کردی ہیں اوران کے عجیب وغریب مطالب بیان کرکے رسول اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کو متہم کرنے کی کوشش کی ہے۔اس لئے ایسی تفاسیر سے آگاہ ہونا اور صحیح منہج کو سمجھنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تفسیر قرآن کی شرائط:
قرآن پاک میں بغیر کسی علم کے بات کرنے میں سخت وعید کے باوجود بھی اگر کوئی جرات کرتا ہے تو علماء تفسیر نے مفسر کے لئے کچھ شرطیں عائد کی ہیں تاکہ جو تفسیر کرنا چاہے وہ اس وعید سے نکل آئے اور اہل تفسیر میں اس کا شمار ہو۔تعجب اس بات پر نہیں ہوتا کہ کوئی مفسر بن جائے بلکہ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے کلام کے بارے میں ہر کوئی اپنی عقل بگھارنے لگے۔حیرت ہوتی ہے کہ اللہ کے کلام میں کس طرح زبان چل جاتی ہے۔کون ہے آج جو کسی بھی آیت کی تفسیر کے لئے اپنی زبان تو کھولتا ہے مگر یہی آیت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر پیش کی جاتی تو وہ یہ فرماتے:
أَیُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِی، وأَیُّ سَمَائٍ تُظِلُّنِی، إِذا قُلتُ فِی القُرآنِ بِرأیِی أَو بِما لأَأَعْلَمُ۔کون سی زمین مجھے برداشت کرے گی اور کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا اگر میں قرآن کریم کے بارے میں اپنی رائے دوں اور وہ کہوں جو میں جانتا ہی نہیں۔

قرآن پاک کی تلاوت کرنا سب کا حق ہے مگر تفسیر قرآن کرنا ہر ایک کا حق نہیں۔جیسے میڈیکل کی کتب ہر کوئی پڑھ سکتا ہے مگر ہر کوئی پڑھنے کے بعد مریضوں کا علاج معالجہ شروع نہیں کردیتا۔یہی وجہ ہے کہ ہم ایسی حکیموں اور ڈاکٹروں کے خلاف شور مچاتے ہیں کہ حکومت ان کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے جو لوگوں کی زندگی سے کھیلتے ہیں۔مگر ایسی جری نام نہاد مفسرین کے بارے میں ہم خاموش رہتے ہیں جب کہ ان میں مفسر کی ایک شرط تک نہیں پائی جاتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تفسیر کی اقسام

موجودہ دور میں تعلیم کی غرض سے بعض جامعات میں تفسیر کی تقسیم دو طرح سے کی گئی ہے۔

جدید تقسیم
 مشہور تقسیم

جدید تقسیم کے مطابق تفسیر کی تین اقسام ہیں۔
۱۔ تفسیر تحلیلی:
اس میں قرآنی آیات کو گرائمر کے ضابطوں کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے اور صرفی ونحوی مباحث سے قرآنی آیات والفاظ کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔اسے حقیقتا تفسیر نہیں کہا جا سکتا کیونکہ تفسیر کی لغوی اور اصطلاحی دونوں تعریفات اس پر منطبق نہیں ہوتیں۔
۲۔ تفسیر موضوعی:
اس قسم میں ایک ہی موضوع سے متعلق قرآنی آیات کو جمع کر کے ان کی تفسیر کی جاتی ہے۔جیسے احکام کی آیات کو اکٹھا کرکے ان کی تفسیر کرنا اسی طرح آیات ایمانیات، آیات توحید، آیات اخلاق، آیات معاشرت، آیات معیشت وغیرہ۔
۳۔ تفسیرمقارن:
اس قسم میں قرآن مجید کی بعض مخصوص آیات کو لے کر مختلف مفسرین کی لکھی ہوئی تفسیری آراء کا باہمی موازنہ کیا جاتاہے جن میں بنیادی طور پر ان آیات کے بارے میں ہر مفسر کے عقیدہ، مذہبی میلان اور اس کے مؤقف ودلائل کو سمجھا جاتاہے ۔
 
Top