• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم تفسیر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ابتداءََ چندمفسرین کے ہاں ایسی اسرائیلیات ،ان کی تفاسیر میں در آئیں۔بعض اہل کتاب حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ انہوں نے قرآن مجید کو پڑھا اور سمجھا تو پچھلی قوموں کے واقعات قرآن میں پائے جو ان کی سابقہ مذہبی کتب میں موجود تھے۔ مگر جیسا کہ قرآن بھی شاہد ہے کہ اہل کتاب نے ان واقعات میں بہت سے سابقے اور لاحقے شامل کردیے تھے۔ چنانچہ یہ نو مسلم ان شنیدہ واقعات کی تفاصیل اہل اسلام کے سامنے بیان کرتے جو بعد میں کتب تفاسیر میں آ تے گئے۔

تجزیہ: کیا یہ واقعات درست مانے جائیں۔ یا اسرائیلیات سمجھ کر رد کر دیے جائیں؟ ان تینوں اقسام کو ہم سامنے رکھ کر کہہ سکتے ہیں۔ روایات کی پہلی قسم تو قابل قبول ہے۔ دوسری قطعا ً قبول نہیں کی جا سکتی۔ جبکہ تیسری کو اگر قبول بھی کر لیا جائے تو بھی اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ ہماری شریعت اب مکمل ہے اسے ان سہاروں کی ضرورت نہیں۔نیز یہ روایات شرعی اعتبار سے حجت نہ ہونگی۔ ہاں ہماری شریعت ان کی تائید کر دے گی نہ کہ وہ ہماری شریعت کی۔

باقی دینی معاملات میں اہل کتاب سے سو ال کرنا علماء امت کے نزدیک حرام ہے۔۔ مسند احمد(۳/۳۳۸، ۳۸۷) میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اہل کتاب سے کچھ بھی سوال نہ کیا کرو اس لئے کہ وہ تمہیں صحیح راہ دکھا ہی نہیں سکتے جبکہ وہ خود گم راہ ہوچکے ہیں۔ یا تم باطل کی تصدیق کروگے یا حق کی تکذیب۔ سنو! اگر موسیٰ علیہ السلام بھی آج تمہارے درمیان زندہ ہوتے تو ان کے لئے بھی یہی جائز تھا کہ وہ میری ہی پیروی کریں۔

صحیح بخاری (۲۶۸۵،۶۹۲۹) میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اے جماعت مسلم! تم اہل کتاب سے کیسے کچھ پوچھ سکتے ہو جبکہ تمہاری وہ کتاب جسے اللہ تعالی نے تمہارے نبی پر اتارا ہے جو صرف تازہ دم اخبار الہیہ کو تمہیں پیش کررہی ہے اورجو ابھی پرانی نہیں ہوئی۔ اللہ تعالی نے تمہیں بتادیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتاب کو بدل دیا تھا اسے اپنے ہاتھ سے انہوں نے لکھا۔ پھر کہا: کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ وہ اس سے کچھ دنیاوی فائدہ اٹھائیں۔ کیا اس نے تمہیں روکا نہیں کہ ان سے سوال کرنے سے تمہارے پاس علم حقیقی نہیں آئے گا۔ توکیوں؟ بخدا ہم نے تو یہ نہیں دیکھا کہ ان کا کوئی فرد تم سے جو تمہاری طرف اتارا گیاہے اس کے بارے میں پوچھتا ہو؟
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اسرائیلیات کے بارے میں علماء کا موقف

کیا ایسی روایات بیان کی جائیں؟ اس بارے میں علماء مفسرین کا اختلاف ہے اور تین انداز سے ہے۔

۱۔کچھ مفسرین نے تو ان روایات کو اسانید سمیت اپنی تفاسیر میں خوب استعمال کیا ہے یہ سوچتے ہوئے کہ جب سند روایت کردی تو اب ہماری ذمہ داری نہیں۔ امام ابن جریر طبریؒ نے اپنی تفسیر میں یہی اصول اپنایا ہے۔

۲۔ بعض نے ان روایات کا بکثرت استعمال کیا جن کا غالب حصہ اسانید سے خالی ہے۔ یہ حاطب لیل تھے جیسے امام بغویؒ کی تفسیر کے بارے میں شیخ الاسلام امام ابنؒ تیمیہ فرماتے ہیں: ان کی یہ کتاب ثعلبی کی کتاب کا اختصار ہے مگر انہوں نے اپنی اس تفسیر کو موضوع احادیث اور بدعی آراء سے بچالیا ہے۔ثعلبی ؒکے بارے میں لکھتے ہیں: وہ حاطب لیل تھے اپنی تفسیرمیں انہوں نے ہر وہ بات لکھ دی ہے جو صحیح تھی ، ضعیف تھی یا موضوع تھی۔(فتاوی ۱۳/۳۰۴)

۳۔ مفسرین میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اسرائیلیات کا بہت ذکر کیا اور ان میں بعض کا تعاقب بھی کرتے ہوئے ان کے ضعیف یا منکر ہونے کا بھی تذکرہ کیا ہے۔یہ انداز ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیرکا ہے۔

۴۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اسرائیلیات کو رد کرنے میں بڑی شدت سے کام لیا ہے بلکہ اپنی تفسیر میں اسرائیلیات کی بو تک نہیں آنے دی۔ جیسے علامہ رشید رضا کی تفسیر۔

یہ بھی یاد رہے کہ اہل سنت کی مسلمہ تفاسیر میں صحیح احادیث کا ذخیرہ کچھ زیادہ نہیں۔ اس لئے مشکل یہ ہے کہ ہر آیت کی تفسیر میں مستند صحیح حدیث مل جائے۔ صحیح بخاری کی کتاب التفسیر اس کی شاہد ہے۔ علمائے تفسیر نے احادیث کے بعد آثار اور ان میں پھر اسرائیلیات کا ذخیرہ بھی جمع کر دیا ہے۔ اس تمام ذخیرہ و مواد کو ائمہ حدیث کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق پرکھ کر ہی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔علماء متقدمین کا اس معاملہ میں یہی معمول رہا تھا۔ ہاں اسرائیلیات کی تائید اگر نصوص سے ہو جائے تو انہیں نصوص کی تائید سمجھنا چائیے ورنہ ان سے کچھ ثابت کرنا یا انہیں حجت سمجھنا درست نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چند مفسر صحابہ وتابعین

صحابہ کرام کی ایک قابل قدر تعداد تفسیر قرآن میں مشہور تھی۔ امام سیوطی رحمہ اللہ نے ان میں خلفاء اربعہ کو بھی شامل کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پہلے تین خلفاء امور خلافت میں مصروف رہے جس کی وجہ سے ان کی تفسیری روایات زیادہ نہیں نیزدیگرمفسر صحابہ بھی موجود تھے۔ اہم مفسرصحابہ میں سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ ،سیدنا علی ؓ، سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ، سیدنا ابی بن کعب ؓ، اور تابعین میں مجاہدؒ، عکرمہؒ، قتادۃؒ، سعید بن جبیر ؒ، وغیرہ ہیں۔ ان کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ:
خلیفہ راشد سیدنا علی کرم اللہ وجہہ رسول اکرم ﷺ کے چچا زاد ہیں۔بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ نے قرابت داری کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے عیالدار چچا سے سیدنا علی ؓ کو ان کے بچپن میں ہی اپنی پرورش میں لے لیا تھا۔پھر ان سے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کردی۔ سب سے پہلے بچے تھے جو آپ ﷺ کے گھر والوں میں آپ ﷺ پر ایمان لائے تھے۔ سیدنا علی ؓ کی کنیت ابوتراب اور ابوالحسن تھی۔رسول اکرم ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی اور اکثر غزوات میں جھنڈا انہی کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔آپ ﷺ نے انہیں گھر کی دیکھ بھال کے لئے غزوہ تبوک میں جانے سے یہ ارشاد فرماتے ہوئے روکا : أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مُوسَی إِلا أَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ(صحیح بخاری:۶۲۱۸)۔
کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ تم میرے لئے ایسے بن جاؤ جیسے ہارون علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کے لئے تھے بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

دوگروپ ان کی دیندار شخصیت ، قرابت داری رسول کی وجہ سے فتنے کا شکار ہوگئے ہیں۔ ناصبی اور روافض۔ ناصبیوں ۔۔ عبد اللہ بن إباض کی طرف منسوب۔۔نے ان کی مخالفت پر قسم کھارکھی ہے اور ہر ممکن کوشش کی ہے کہ ان کے مناقب کو بیان ہی نہ کریں۔انہوں نے اپنے مخالف اہل قبلہ کو کافر کہا اور مرتکب کبیرہ کو موحد نہ کہ مومن۔کیونکہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بھی تکفیر کرتے ہیں۔ دوسری طرف روافض ان سے اپنی مزعومہ محبت میں غلو کا شکار ہیں جنہوں نے ان کے بارے میں ایسی باتیں گھڑ لی ہیں جن کی سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو ضرورت ہی نہیں۔ اگر غور کیا جائے تو یہ باتیں ان کے مناقب نہیں بلکہ مثالب ہیں۔اہل سنت کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں غلو سے پاک بڑا معتدل نکتہ نظر ہے۔

شجاعت ، پاکیزگی نفس اور علمی ذکاء میں لاثانی تھے۔ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نہ ہوتے، امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بعض بڑے مشکل فیصلوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ۔جیسے نحوی کسی لاینحل گرامر کے مسئلے میں کہا کرتے ہیں: قَضِیَّۃٌ وَلاَ أَبَاحَسَنٍ لَہَا۔ یہ تو ایسا مسئلہ ہے جس کے لئے کوئی ابو الحسن نہیں۔سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے ہی مروی ہے۔ فرماتے ہیں: لوگو! کتاب اللہ کے بارے میں مجھ سے پوچھ لو ، بخدا کوئی آیت ایسی نہیں جسے میں نہ جانتا ہوں کہ وہ رات کو اتری یا دن کو۔ سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں: جب ہمیں علی رضی اللہ عنہ کی Stampedبات مل جاتی تو ہم پھر اس سے نکلتے نہیں تھے۔ یہ بھی ان کا ایک قول بیان کیا جاتا ہے کہ میں نے جو کچھ بھی تفسیرقرآن کا علم حاصل کیا ہے وہ بھی سیدنا علیؓ سے ہی سیکھا ہے۔اس شوری کے ممبر تھے جنہیں امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خلیفہ کی تعیین کے لئے تجویز کیا تھا۔ انہیں خلیفہ بننے کی آفر سیدنا عبد الرحمن بن عوف نے کی مگر چند شروط کی وجہ سے وہ اسے قبول نہ کرسکے۔ پھر سیدنا عثمانؓ کی بیعت ہوئی جن کی سیدنا علی اور دیگر صحابہ کرام نے بھی بیعت کی۔ پھر شہادت عثمانؓ کے بعد ان کی بیعت ہوئی۔ کوفہ میں ۱۷رمضان سن ۴۰ہجری کو شہید کردئے گئے۔ تین مشہور اسانیدکے ذریعے سیدنا علی کی تفسیری روایات قابل اعتماد ہیں۔

۱۔ ہشام ، محمد بن سیرین سے ، وہ عَبِیْدہ السلمانی سے اور وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ۔یہ وہ روایات ہیں جنہیں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں بیان فرمایا ہے۔

۲۔ ابن ابی الحسین، ابو الطفیل سے، وہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے۔ اس سند کی روایات بھی صحیح ہیں جنہیں امام سفیان بن عیینہ نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے۔

۳۔ ازہری، علی بن زین العابدین سے، وہ اپنے والد حسین سے، یہ سند بہت ہی صحیح تھی مگر زین العابدین سے بہت سے دیگر ضعفاء اور کذاب لوگوں نے روایت کرکے اس کی اصل شکل کو مسخ کردیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:
آپ عبد اللہ بن مسعود بن غافل، ہذیل قبیلے سے ہیں آپ ؓ کی والدہ ام عبد کے نام سے مشہور صحابیہ ہیں کبھی کبھی ان کی طرف بھی منسوب کئے جاتے ہیں۔سابقین اسلام میں چھٹے فرد تھے۔دو ہجرتیں کیں، بدر میں حاضر تھے اور بعد کی غزوات میں بھی۔

انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے خود ستر سے زائد قرآنی سورتوں کو سیکھا۔ آپ ﷺ نے انہیں شروع اسلام میں فرمادیا تھا: إنک غلام معلَّم۔ تم تو سیکھے سکھائے لڑکے ہو۔(مسند احمد: ۱/۳۷۹، ۴۶۲) آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: جو یہ چاہتا ہے کہ قرآن کو اس تازگی کے ساتھ سیکھے جس طرح قرآن اترا ہے تو وہ ابن ام عبد کی قراء ت سے سیکھ لے۔(ابن ماجہ: ۱۳۸)

صحیح بخاری (۵۰۰۰) میں ہے ابنؓ مسعود نے فرمایا: اصحاب رسول کو یہ علم ہے کہ میں کتاب اللہ کے بارے میں سب سے زیادہ جانتا ہوں بخدا! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، کتاب اللہ کی کوئی ایسی نازل کردہ سورۃ نہیں جسے میں نہ جانتا ہوں کہ کہاں اتری، اور نہ ہی کوئی ایسی آیت ہے جسے میں نہ جانتا ہوں کہ کس کے بارے میں اتری۔اگر میں کسی کے بارے میں یہ جان لوں کہ وہ کتاب اللہ کا علم مجھ سے زیادہ رکھتا ہے تو میں اونٹ پر سوار ہوکر بھی اس کے پاس جانا پڑے تو جاؤں گا۔

ابنؓ مسعود ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے۔ آپ ﷺ کے نعل مبارک، وضوء کے پانی کا برتن اور تکیہ وغیرہ اٹھانے والے خدمت گاروں میں سے تھے۔ ابوموسیؓ اشعری فرماتے ہیں: میں اور میرا بھائی ہم دونوں یمن سے آئے ۔ تھوڑی دیر ہم مسجد میں ٹھہرے۔ ہم نے دیکھا جس طرح ابنؓ مسعود اور ان کی والدہ بیت رسول میں آجارہے تھے ہمیں تو یوں محسوس ہوا کہ ابنؓ مسعود اہل بیت میں سے ہیں۔(صحیح بخاری:۲۴۶۰)

سیدنا عمرؓ بن خطاب نے انہیں کوفہ بھیجا تاکہ اہل کوفہ کو دینی امور کی تعلیم دیں اور یہ لکھا:
وَقَدْ آثَرْتُکُمْ بِعَبْدِ اللّٰہِ عَلَی نَفْسِیْ۔ عبد اللہ کو اپنے سے زیادہ تمہیں ترجیح دی ہے۔۔ساتھ ہی سیدنا عمارؓ کو ان کا گورنر بنا کر روانہ کیا اور فرمایا: یہ دونوں اصحاب محمد ﷺ میں سے چنے ہوئے لوگ ہیں ان کا کہنا ماننا اور اقتدا ء کرنا۔ پھر سیدنا عثمانؓ نے ابن مسعودؓ کو کوفہ کا گورنر بنایا، پھر انہیں سبکدوش کرکے فرمایا کہ آپ واپس مدینہ آجائیں۔ باقی عمر انہوں نے وہیں گذاری ۔ سن ۳۲ہجری کو ستر سال سے زائد کی عمر میں فوت ہوئے اور بقیع میں ان کی تدفین ہوئی۔

بہت سی تفسیری روایات منقول ہیں جن کی تعداد سیدنا علی ؓ کی مرویات سے زیادہ ہے۔ ان کی وہی روایت زیادہ قابل اعتماد ہیں جو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں بیان فرمائی ہیں۔مشہور تابعی مسروق بن الاجدعؒ فرماتے ہیں:سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ ہمارے سامنے ایک سورت پڑھتے اور دن کا بیشتر حصہ اس کی تفسیر میں اور اس کے بارے میں احادیث بیان کرنے میں صرف فرما دیتے تھے"۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما :
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی طرح یہ بھی رسول اکرم ﷺ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ ہجرت سے تین سال قبل پیدا ہوئے۔ رسول اکرم ﷺ کی صحبت کو بچپن سے ہی انہوں نے تھاما۔ان کی پھوپھی سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا امہات المومنین میں سے تھیں۔رسول اکرم ﷺ نے ایک بار انہیں اپنے سینے سے لگایا اور دعا فرمائی: اللہم عَلِّمْہُ الْحِکْمَۃَ۔ اے اللہ ! اسے حکمت سکھا دے۔ ایک روایت میں حکمت کی جگہ الکتاب کے لفظ آئے ہیں۔(صحیح بخاری: ۳۷۵۶)آپ ﷺ نے انہیں ایک بار یہ دعا بھی دی جب وہ آپ ﷺ کے لئے وضوء کا پانی رکھ رہے تھے اَللّٰہُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ(صحیح بخاری:۱۴۳)

اس دعا کی برکت سے تفسیر وحدیث کو سکھانے اور پھیلانے کی وجہ سے امت کے حبر(عالم) کہلائے۔اللہ تعالی نے انہیں علم کا شوق دے دیا، جس کی طلب میں انہوں نے ہمت وکوشش کی اور اس راہ میں آنے والی تکلیف پر صبر کیا۔اس طرح انہیں ایک ایساعلمی مقام ومرتبہ حاصل ہوگیا کہ سیدنا امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ اپنی مجالس میں بٹھاتے اور ان کی رائے لیا کرتے۔مہاجر صحابہ عرض کرتے آپ ہمارے بیٹوں کو کیوں نہیں اجازت دیتے؟ انہیں فرماتے: ذَاکُمُ فَتًی الْکَہُولُ، لَہُ لِسَانٌ سَؤُولٌ، وَقَلْبٌ عَقُولٌ۔ یہ پختہ نوجوان ہے اس کی زبان علم میں بہتی ہے اور دل بڑا سمجھدار ہے۔ پھر انہیں ایک روز بلوایا ابنؓ عباس کو بھی بٹھایا تاکہ انہیں بتائیں کہ میں نے ابنؓ عباس میں کیا دیکھا ہے؟ سیدنا عمر ؓنے اہل مجلس سے پوچھا : اس سورت کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟{اِذَاجَآئَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ }(النصر: ۱) حتی کہ تمام سورت ختم کی۔کسی نے کہا: ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالی ہمیں فتح نصیب فرمائے توہم اللہ تعالی کی حمد کریں اور استغفار کریں۔اور کچھ خاموش رہے۔ سیدنا عمر ؓ نے ابن عباسؓ سے فرمایا: کیا ان کا کہنا درست ہے ؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ پھر تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کی خبر ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو بتادی کہ جب فتح مکہ ہوجائے تو یہ علامت ہے آپ ﷺ کے آخری وقت کے قریب ہونے کی۔لہذا حمد وتسبیح میں آپ مشغول ہوجائیے اور استغفار کیجئے۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: میں بھی وہی جانتا ہوں جو تم جانتے ہو۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ انہیں فرمایا کرتے:
إِنَّکَ َلأَصْبَحُ فِتْیَانِنَا وَجْہاً، وَأَحْسَنُہُمْ خُلُقاً، وَأَفْقَہُہُمْ فِی کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی۔تم ہمارے جوانوں میں زیادہ بارونق چہرے والے ہو، اخلاق میں سب سے بہترین ہو اور کتاب اللہ کے بارے میں سب نوجوانوں سے بڑھ کر فقیہ ہو۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لَنِعْمَ تَرْجُمَانُ الْقُرآنِ اِبْنُ عَبَّاسٍ، لَو أَدْرَکَ أَسْنَانَنَا مَا عَاشَرَہُ مَنَّا أَحَدٌ۔: قرآن کے کتنے بہترین ترجمان ہیں اگر وہ ہماری عمر پالیں تو ہم میں کوئی بھی ان کے ہم مثل نہ ہو۔

اس قول کے بعد وہ چھتیس سال زندہ رہے۔ بعد میں انہوں نے کتنا علم حاصل کیا اور بڑھایا ہوگا؟ ابو وائل کہتے ہیں: سیدنا عثمان ذوا النورین نے انہیں سن ۳۵ھ میں موسم حج کا نگران مقرر فرمایا۔ وہاں انہوں نے سورہ نور یا بقرۃ کو پڑھا پھر اس کی ایسی تفسیر فرمائی کہ مجھے خیال آیا ایسی تفسیر میں نے کبھی بھی ان سے نہیں سنی اگر اسے اہل فارس ، رومی یا ترکی سن لیں تو وہ بھی اسلام لے آئیں۔

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے انہیں بصرہ کا گورنر مقرر کیا۔ جب ان کی شہادت ہوئی تو یہ سب کچھ چھوڑ کر حجاز واپس آگئے اور مکہ میں رہنے لگے۔ پھر وہاں سے طائف تشریف لائے جہاں سن ۶۸ھ میں اکہتر سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباسؓ کی زبانی یہ روایت نقل کی ہے:

جب رسول اکرم ﷺ فوت ہوگئے تو میں نے ایک انصاری دوست سے کہا : آؤ! بزرگ صحابہ سے ہم کچھ علم حاصل کرلیں۔ اس نے مجھے کہا: یَا عَجَباً لَّکَ یَا ابْنَ عَباسٍ! أَتَرَی النَّاسَ یَفْتَقِرُونَ إلِیَک َوَفِی الناسِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ مَنْ فِیْہِم! بڑی عجیب بات ہے ابن عباس ! آپ کیا سمجھتے ہیں صحابہ کی اتنی بڑی تعداد کے ہوتے ہوئے لوگ آپ کے ضرورت مندہوسکتے ہیں؟چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا اور خود اصحاب رسول کے پاس آنے جانے لگا۔ اگر مجھے کسی صحابی کے بارے میں معلوم ہوتا کہ ان کے پاس حدیث رسول ہے تو میں ان کے دروازے پر آتا اور وہ قیلولہ کررہے ہوتے تو اپنی چادر لپیٹ کر دروازے پر بیٹھ جاتا ۔اس دوران ہوا اپنی مٹی اٹھا اٹھا کر مجھ پر بکھیرتی ۔وہ جب باہر نکلتے اور مجھے اس حال میں دیکھتے تو کہتے: اوہ! ارسول اللہ کے چچازاد آپ ؟ خیریت! کیسے آپ آئے؟ کیوں نہ آپ نے مجھے بلوا لیا ہوتا؟ میں کہتا: نہیں۔ضرورت مند میں ہوں اس لئے مجھے آنا چاہئے۔ پھر میں ان سے حدیث کے بارے میں پوچھتا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
فَعَاشَ ہَذَا الرَّجُلُ الأنصَارِی حَتّٰی رَآنِی وَقَدِ اجْتَمَعَ حَوْلِی النَّاسُ یَسْاَلُونِّی، فَیَقُول: ہَذَا الفَتَی کَانَ أَعْقَلُ مِنِّی۔
یہ انصاری صحابی زندہ رہے۔ حتی کہ انہوں نے مجھے اس حالت میں دیکھا کہ لوگ میرے اردگر بیٹھے علم پوچھ رہے ہیں تو یہ کہا کرتا: یہ اللہ کا بندہ مجھ سے زیادہ عقل مند تھا۔

سیدناابن عباس ؓ کو تفسیر قرآن میں امام المفسرین ہونے کا امتیازی مقام حاصل ہے۔اس لئے کہ سب سے زیادہ تفسیر اقوال انہی سے مروی ہیں۔ ان میں ایک بڑا حصہ ضعیف ہے جن کا جانچنا نہایت ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ:
سیدنا ابی بن کعب ؓ انصاری خزرجی صحابی ہیں۔ ستر انصار کے ساتھ بیعت عقبہ ثانیہ میں حاضر ہوئے تھے۔کاتب وحی بھی تھے آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے آپ ﷺ سے پڑھنا، سننا اور اس پر عمل کرنا شروع کردیا۔ علم ، ورع اور زہد میں اپنی مثال آپ تھے۔ابن سعد کہتے ہیں: رسول اکرم ﷺ نے ایک بار ابی کو بلوایا اور فرمایا:
أَنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَمَرَنِی أَنْ أَقْرَأَ عَلَیْکَ، قَالَ: آللّٰہُ سَمّانِی لَکَ؟ قَالَ: اَللّٰہُ سَمَّاکَ لِیْ، فَجَعَلَ أُبَیٌّ یَبْکِیْ۔
اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ پر قرآن پڑھوں۔ انہوں نے عرض کی: کیا اللہ تعالی نے میرا نام لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں! اللہ تعالی نے مجھے تمہارا نام لے کر کہا ہے۔ ابی اس بات کو سن کر رونے لگے۔

مسروق کہتے ہیں: سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مجلس مشاورت میں چھ لوگ ہوا کرتے۔ ان میں علی، عبد اللہ، ابی، ابوموسیٰ اور زید رضی اللہ عنہم خود ان سمیت شامل تھے۔ سیدنا فاروق اعظم نے ان کا نام سید المسلمین رکھا ہوا تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں قرآن مجید جمع کرنے کا حکم دیا تھا۔

وحی لکھنے کے بعد یہ ضرور رسو ل اللہ ﷺ سے ان آیات کے بارے میں سوالات کرتے اس طرح آپ ﷺ کی تفسیر کے بڑے اہم مفسر تھے۔ آپ ؓ پہلے مفسرہیں جن کی تفسیر کتابی صورت میں مرتب ہوئی۔(الاتقان) مدینہ منورہ میں سن ۳۶ھ کو انتقال فرمایا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔

مکی تابعی مفسر زیادہ تر سیدنا ابن عباسؓ کے شاگرد ہیں اس لئے وہ انہی کی تفسیر کو بیان کرتے ہیں۔ان میں عکرمہ، مجاہد، عطاء بن ابی رباح رحمہم اللہ شامل ہیں۔مگر تابعین میں ابو العالیہ رفیع بن مہران الریاحی، محمد بن کعب القرظی، علقمہ بن قیس، مسروق بن اجدع اور عامر شعبی رحمہم اللہ خاصے مشہور مفسرین ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مجاہدبن جبر رحمہ اللہ:
یہ مشہور تابعی سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ کے شاگرد ہیں۔قتادۃ ؒ ان کے بارے میں کہتے ہیں:"تفسیر کے جو علماء باقی ہیں ان میں مجاہد سب سے بڑے عالم ہیں"۔مجاہد کہتے ہیں:
عَرَضْتُ الْمُصْحَفَ عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ثَلاَثَ عَرَضاتٍ مِنْ فَاِتحَتِہِ إِلٰی خَاتِمَتِہِ، أُوْقِفُہُ کُلَّ آیَۃٍ مِنْہُ وََأَسْأَلُہُ عَنْہَا۔۔مَا فِی الْقُرآنِ آیَۃٌ إِلاَّ وَقَدْ سَمِعْتُ فِیْہَا شَیْئاً۔ میں نے شروع تا آخر قرآن مجید کو ابنؓ عباس سے تین بار پڑھا ہر آیت پر میں رکتا اور اس کے بارے میں ان سے سوال کرتا۔۔ قرآن کریم میں کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں میں نے کچھ نہ کچھ سنا نہ ہو۔
ابنؒ ملیکہ کہتے ہیں:
رَأَیْتُ مُجَاہِداً سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ تَفْسِیْرِ الْقُرآنِ وَمَعَہُ أَلْوَاحُہُ، قَالَ: فَیَقُوْلُ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُکْتُبْ۔حَتّٰی سَأَلَہُ عَنِ التَّفْسِیْرِ کُلِّہِ۔
میں نے مجاہد کو دیکھا وہ ابن عباس سے تفسیری سوال کررہے تھے ان کے پاس تختیاں تھیں۔ ابنؓ عباس انہیں کہتے جاتے: لکھو۔ یہاں تک کہ انہوں نے سبھی تفسیر کے بارے میں پوچھا۔ وَلِہَذَا کَانَ سُفْیَانُ الثَّورِیُّ یَقُولُ: إِذَا جَائَ کَ التَّفْسِیْرُ عَنْ مُجَاہِدٍ فَحَسْبُکَ بِہِ وَأَمَّا التَّأوِیُلُ فَشَأنٌ آخَرُ۔(الفتاوی الکبری۷/ ۱۵۲)
اسی لئے سفیان ثوری کہا کرتے : جب تمہارے پاس مجاہد سے تفسیر آجائے تو اسے کافی سمجھو۔ رہی تاویل تو اس کا معاملہ پھر کچھ اور ہے۔

امام شافعی ؒ اور امام بخاری ؒ نے ان کی تفسیر پر خاصا اعتماد کرکے اسے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔امام ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ امت، مجاہد کی امامت اور ان سے دلیل لینے پر متفق ہے ۔ مکہ میں نماز کے دوران حالت سجدہ میں ان کا انتقال سن ۱۰۰ھ میں تراسی سال کی عمر میں ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
قتادۃ رحمہ اللہ:
ان کا پورا نام قتادہ بن دعامہ سدوسی بصری ہے۔ سن اکسٹھ ہجری میں پیدا ہوئے ۔ پیدائشی نابینا تھے۔ علم کے حصول کے لئے سخت محنت کی، حافظہ بڑا قوی تھا ۔ کہا کرتے: میں نے کبھی بات کرنے والے سے یہ نہیں کہا: ذرا دوبارہ سناؤ۔میرے کانوں نے کوئی بھی بات سنی ہو تو میں اسے کبھی بھولا نہیں۔امام احمدؒ بن حنبل نے ان کا تذکرہ بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے اور انہی کے علم ، فقہ، معرفت اختلاف حدیث اورتفسیر کو بخوبی پھیلایا ہے اور انہیں حافظ وفقیہ کہا ہے۔نیز لکھا ہے: شاذ ہی آپ ان سے بڑھا ہواکسی کو پائیں گے۔بصرہ کے بہت بڑے حافظ حدیث تھے۔ واسط میں ان کا انتقال سن ۱۱۷ھ میں چھپن سال کی عمر میں ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سعید بن جبیر رحمہ اللہ:
مشہور تابعی ہیں۔ سن ۴۵ھ میں پیدا ہوئے۔ حبشی تھے۔ فقہ وتفسیر کو انہوں نے صحابہ کرام سے حاصل کیا۔ خصیف کہتے ہیں: تابعین میں طلاق کے مسائل کو سب سے زیادہ سعید بن المسیب جانتے تھے، حج کے عطاء بن رباح، حلال وحرام کو طاؤوس، تفسیر کو مجاہد بن جبر اور ان سب کے علم کے جامع سعید بن جبیر تھے۔سن ۹۵ھ کو حجاج نے انہیں شہید کردیا۔

انہوں نے ابن عباس ؓ ، عبد اللہ بن عمر ؓ، عبد اللہ بن زبیر ؓ، انس ؓ اور ابو مسعود البدریؓ جیسے صحابہ سے استفادہ کیا ہے۔سفیان ثوری کہا کرتے: تفسیر کو چار علماء سے سیکھا کرد۔ سعید بن جبیر، مجاہد، عکرمہ اور ضحاک سے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک بار اہل کوفہ سے فرمایا: تم مجھ سے سوال کیا کرتے ہو جب کہ تم میں سعید بن جبیر جیسے علماء موجود ہیں۔ انہوں نے خلیفہ عبد الملک بن مروان کی فرمائش پر ایک تفسیربھی لکھی تھی۔(تہذیب التہذیب ۷/۱۹۸)
 
Top