• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم تفسیر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ترجمان القرآن:
یہ مولاناابو الکلام آزاد ؒ کی تصنیف ہے۔مولانا مرحوم کی اس تفسیر میں جوش وہوش اورجولانی طبع کے علاوہ صاحب علم کے ذوق کا سامان بھی موجود ہے۔ یہ تفسیر انتہائی مشکل حالات سے گزر نے کے بعد صرف اٹھارہ پاروں پر منتہی ہوسکی۔ مولانا کے سیاست میں عمل دخل نے تفسیر کی طباعت اور اشاعت کو بار ہا روکا ۔ کئی بار ان مسودوں کو جلا دیا گیا جو مولانا نے لکھے اور متعدد بار ان کو ضبط بھی کیا گیا۔ اس کی دوجلدیں تو مولانا کی زندگی میں ہی شائع ہو گئیں۔ جبکہ تیسری جلد کا آج تک کوئی پتہ نہ چل سکا کہ وہ کہاں گئی۔ بہر حال نامکمل ہونے کے باوجود یہ تفسیر انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تفہیم القرآن:
سید ابو الاعلی مودودی ؒنے یہ تفسیر محض تفہیم قرآن کے لئے لکھی جس میں بیشتر مباحث علمی ، سائنسی اور مناقشاتی ندرت رکھتے ہیں۔ اس کی چھ جلدیں ہیں۔ یہ تفسیر اردو ادب کا شاہکارہونے کے علاوہ نہایت آسان اورجامع ہے۔موجودہ اردو تفاسیر میں یہی ایک تفسیر ہے جو اصل کام نظر آتا ہے۔ تفسیر میں بعض علمی مباحث کو جن آسان اورخوبصورت طریقوں ،مثالوں اور دلائل سے پیش کیا گیا ہے اس کی وجہ سے یہ تفسیر اردو دان طبقے کے لئے خاصی کشش رکھتی ہے۔ اس تفسیر میں داعیانہ انداز غالب ہے۔ قرآن کریم کے دعوتی اسلوب میں جہاں ہمدردی اور نرمی اخلاق اور الفاظ کا محتاط استعمال ہے مولانا نے اس کی ترجمانی میں کہیں کہیں جوشیلا انداز بھی اپنالیا ہے جو قرآن کے دعوتی منہج سے ذرا ہٹ گیا ہے۔مولانا نے لفظی ترجمے سے ہٹ کر آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا مگر وہاں بھی صفات الہیہ کے تاویلی معنی کو نمایاں کرگئے۔متفق علیہ احادیث کو اپنے نکتہ نظر کے مطابق صحیح نہ جانتے ہوئے محدثین امام بخاری ومسلم کی بھی انہوں نے خبرلے لی ہے۔ مولانا ؒ چونکہ ایک سیاسی لیڈر تھے اس لئے تفسیر میں جابجا سیاسی رنگ بھی خاصا نظر آتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تذکیر القرآن:
مولانا وحید الدین خان نے "تذکیر القرآن"کے نام سے دو جلدوں میں قرآن کی تفسیر لکھی ہے۔ یہ تفسیر نصیحت اور تذکیر کے انداز میں ہے جو ایک عقل مند کوحقائق پیش کرکے اپنا مدعا سمجھاتی ہے۔ تفسیرمیں تفصیل سے پرہیز کیا گیا ہے اور علمی بحثوں سے بھی اجتناب برتا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تدبر قرآن:
مولانا امین احسن اصلاحی ؒ اس تفسیر کے مؤلف ہیں۔ آٹھ جلدوں کی یہ یک ضخیم اردو تفسیر ہے۔یہ تفسیر بہت عمدہ ہوتی اگر سلف صالح کے منہج کے مطابق لکھی جاتی۔ اس لئے کہ مؤلف کا قلم اپنے مدعا کو بیان کرنے میں جاندار ہے۔ تفسیر میں قرآن کی تفسیر قرآنی آیات سے کی گئی ہے مگر استشہاد کے طور پر عربی محاورات، اشعار اور لغت کو زیادہ اہمیت دی ہے جب کہ ان عربی محاورات اور اشعار کے مآخذ کا علم تک نہیں ہوتا کہ کہاں سے مستفاد ہیں۔حدیث رسول سے استشہاد پوری کتاب میں شاید دو چار مقامات میں ہو۔حالانکہ صاحب کتاب کی سیرت اور زمانہ وحالات ذکر کئے بغیر کوئی بھی تفسیر گہنی سی ہوتی ہے۔ مولانا مرحوم نے اپنی تفسیر کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی ہے گو وہ جدید سہی مگران میں معتزلی خیالات کی بھرپور ترجمانی کا حق ادا کردیا ہے۔ اسی تجدد کا رنگ یا نتیجہ ہے کہ تفسیر میں نصوص سے استدلال کی کمی اور عقلی ترجیح نمایاں نظر آتی ہے۔نظم قرآن ، آیات و سور کا باہمی ربط تدبر قرآن کی جان ہیں اور بہترین و عمدہ انداز میں اس کو واضح کیا گیا ہے۔

مولانا ؒ نے بعض اجماعی مسائل کو اپنے فہم کے مطابق سخت کلامی کے ساتھ رد کیا اور متنازعہ بھی بنا دیا اور جو انداز گفتگو اس موقع پر اپنایا وہ مولانا جیسے پایہ کے عالم دین کو زیب نہیں دیتا ۔حروف سبعہ پر بھی مولانا کو خاصا اعتراض تھا ، امام زہریؒ جیسے بلند پایہ محدث وبہادر فقیہ سے مستشرقین کی طرح انہیں بھی کد تھی، رجم محصن جیسے اجماعی مسئلے سے بھی کھلا اختلاف رکھتے تھے۔احادیث رسول کو مشکوک بنانے میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ مزاج کی سختی نے انہیں کسی بھی عالم ، فقیہ، محدث، مفسر سے استفادہ یا ان کے ذکرخیر کی سبیل نہیں دکھائی۔محض اپنی منفرد فکر کے عاشق تھے اور اسی کے راہی۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس تفسیر کے مثبت ومنفی اثرات دونوں سے قاری کو آگاہ کرے ۔ آمین۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
احسن البیان:
مولانا صلاح الدین یوسف کے تفسیری حاشیے اور برصغیر کے ممتاز عالم دین مولانا محمد جونا گڑھی ؒ کے اردو ترجمے کے ساتھ یہ تفسیر "احسن البیان"کے نام سے پہلے پہل مکتبہ دار السلام ریاض سے اردو زبان میں شائع ہوئی۔ جسے بعد میں انتہائی مفید پاکر سعودی عرب کی حکومت نے عام اردو دان طبقے کے لئے عمدہ کتابت اور جلدمیں شائع کر دیا ہے مگر پھر بھی اس کے حواشی میں طباعتی اغلاط اور اخطا باقی ہیں۔

یہ تفسیر سلفی رجحانات کی عکاس ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ تفسیر بالمأثور کے اصولوں کے مطابق ہی اسے لکھا جائے۔ آیات کے فہم کے لئے تفسیری حاشئے انتہائی مختصر اور مفید ہیں۔ ابتداء میں ہی سورہ فاتحہ کی بحث چھیڑ کر مقلد مدعو کو محشی نے پرے کردیا ہے جبکہ اس کا اور بھی مقام ہوسکتا تھا۔یہ تفسیر صرف ایک ہی ضخیم جلد میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
معارف القرآن:
مولانا مفتی محمد شفیع ؒ "معارف القرآن"کے مؤلف ہیں۔ ایک طویل عرصہ کا یہ عمل آٹھ ضخیم جلدوں میں مکمل ہو سکا۔ تفسیر میں بامحاورہ ترجمہ ایک خاصے کی چیز ہے۔جسے ا گر علیحدہ شائع کر دیاجائے تو عام مسلمان اس سے بخوبی مستفید ہوسکتا ہے۔ مولانا نے اہم مسائل کے لئے باقاعدہ تبویب کر کے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ فقہی مسائل میں حنفی نقطئہ نظر کو نمایاں کیا ہے جبکہ تصوف کی آمیزش بھی اس کتاب میں موجودہے۔ مولانا مرحوم ایک معتدل عالم دین تھے اس لئے ان کی تفسیرمیں کسی بھی نقطہ نظر کو پیش کرنے میں سخت کلامی نہیں۔وجہ یہ تھی کہ مولانا وحدت امت کے قائل تھے اور مسلکی جھنجٹ سے اہل مذاہب کو آزاد کرانے میں پیش پیش۔ مولانا مرحوم نے اپنی تفسیر میں اہم علمی نکات تفسیر مظہری اور تفسیر بغوی سے نقل کئے ہیں اور کہیں کہیں امام قرطبی کی تفسیر الجامع لأحکام القرآن سے بھی مستفید ہوئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تفسیر القرآن:
مولانا عبد الرحمن کیلانیؒ نے تفسیر القرآن کے نام سے یہ مسودہ لکھا جو ان کی حیات میں تو طبع نہ ہوسکا البتہ ان کی اولاد واحفاد نے اس کی تصحیح وترتیب کا بیڑہ اٹھا کر اسے بہت ہی مناسب سائز میں چھپوا دیا۔اس تفسیر میں بعض ابحاث بہت ہی قیمتی اور علمی ہیں۔روح کا مسئلہ، حلال وطیب کے اصول وضوابط ، توحید وایمانیات اورصحیح عقائد کی وضاحت اس تفسیر کی جان اور قرآن کا مقصود ومطلوب بھی ہیں مزید برآں خرافات وبدعات وتفسیری انحراف وانکار حدیث کے رجحانات کی بھی مولانا نے اچھی خبر لی ہے۔ جدید مسائل کو واضح کرنے کے لئے مولانا نے تفہیم القرآن از مولانا سید مودودیؒ سے جابجا اقتباسات بھی پیش کئے ہیں۔ یہ تفسیر چار جلدوں میں لاہور سے مکمل شائع ہوگئی ہے۔

یہ وہ مفسرین ہیں جو عہد جدید اور قدیم دونوں میں تفسیر قرآن کے حوالے سے ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ اورآج جو بھی تفسیربیان کرتا یا لکھتا ہے اس کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ان قدیم وجدیدمفسرین کی عربی و اردو تفسیر کو زیر مطالعہ رکھے ۔ اصول تفسیر سے واقفیت کے بعد اس میدان میں اترے۔ بالخصوص قدیم و جدید مفسرین کے رجحانات کو پہچانے تاکہ اللہ تعالی کے کلام میں میلان طبع اور قول علی اللہ کا افتراء نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غور طلب:
اہل ایمان کے درمیان قرآن کریم کی تفسیر میں اختلاف ہوسکتا ہے یہ اپنی حدود میں جائز ہی نہیں بلکہ پسندیدہ ہے لیکن بعض اوقات یہی اختلاف ایک انسان کے انداز فکر کو دوسرے انسان کے انداز فکر سے جدا کردیتا ہے۔ اور کتاب وسنت پر ایمان کے باوجود دونوں ایک دوسرے سے بالکل مخالف سوچ اور عمل رکھتے ہیں۔ جہاں ایسی متضاد تفاسیر ہمارے سامنے ہوں تو ہم کسی ایسی تفسیر کو قبول نہیں کرسکتے جو قرآن کے الفاظ یا تفسیر رسول یا ان کے مفہوم سے دور ہو اور جسے قرآن وحدیث کے ماہر ین نے رد کردیا ہو۔اس لئے کہ قرآن ورسول کی وہی تفسیر ہی درست ہوسکتی ہے جو ان کے الفاظ سے براہ راست نکلتی ہو یا جسے کم از کم ان کے اسلوب اور انداز بیان سے استنباط کیا گیا ہو اور جس کی تائید قابل اعتماد اور اونچی سطح کے اصحاب علم کررہے ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207


انحرافی تفاسیر

یہ وہ تفاسیر ہیں جو ان حضرات کی لکھی ہیں جو مرعوب سلطان وسلطنت تھے اوربرصغیر میں فتنوں کو رواج دینے میں پیش پیش۔یہ سب ایسی شہوانہ کوششیں تھیں جو غیروں کی آشیر باد لینے اور اپنے مخصوص کردار، نظریہ وعقیدہ کو پروان چڑھانے کے لئے کی گئیں۔ایک سادہ دل مسلمان کو دین واہل دین سے متنفر اور باغی کرنے اور ذاتی سوچ پر مبنی تفسیری نکات ان کی رفعت قرار پائی۔ عربیت سے نابلد ان محررین نے قرآن کے اصل مقصد کو بے مقصد بنانے کے لئے اسے اپنی جہالت کا ہدف بنایا۔ یہ لوگ اس میں کتنے کامیاب ہوئے اور کون سے سکے ان کے ہاتھ آئے ۔ وقت نے بھی بتایا اوربتائے گا کہ سنت رسول سے کسے کد ہے اور کسے محبت۔اور کس نے جھوٹی نبوت کے افسانے گھڑے اور مسیح موعود بننے کے لئے قرآنی آیات کا انحرافی معنی ومفہوم پیش کیا؟ ، اور کس نے بے راہروی کے سامان فراہم کئے۔ ایسے لوگوں کی تفاسیر کو کھنگالنے کا یہی وہ معیار وکسوٹی ہے جو مسلم کے پاس موجود ہے۔ایسے لوگوں کی پہچان ان کی بود وباش، طرز کلام اور اخلاق وعادات سے بآسانی ہوسکتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلام احمد پرویز:
مرزا غلام احمد قادیانی کے اعلان مسیح موعود اور پھر نبی ہونے نے ایسے فتنہ پروروں کو شہ دی جو اس تاک میں تھے کہ اہل اسلام کا رد عمل اس جھوٹے نبی کے بارے میں کیا سامنے آتا ہے؟ انہوں نے بھی اپنے راستوں کو ہموار کرنے کے لئے سرکاری سرپرستی میں ہی آزاد منش لوگوں کو انکار حدیث و سنت کر کے اپنی گرفت میں لے لیا ۔ اسلاف کے کارہائے نمایاں بیکار محسوس ہوئے حتی کہ انہیں شک وشبہ کی نظر سے دیکھا۔جدید وقتی نظاموں سے متأثر یہ لوگ قرآن کے عطا کردہ نظامہائے ابدی کو نہ سمجھ سکے۔ غلام احمد پرویز کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ تفہیم دین کے روایتی اصول سے ہٹ کر جب انہوں نے اسلام کوسائنسی ، انقلابی، اور اشتراکیت کے انداز میں سمجھنا چاہا تو پھر قرآن کی ہر تفسیر ہیچ ، ہر عمل پست اور ہر اخلاق مولویانہ نظرآیا۔ انہوں نے چاہا کہ رسول اللہﷺ کی ذات کو جب تک پرے نہیں کیا جاتا ہدف کا ملنا بڑا مشکل ہے اس لئے قدیم اسلوب سے وہ ہٹ گئے جس نے نتیجۃً ایک فکری بعد پیدا کردیا۔

سائنسی دور کے آغاز نے نئی نسل اور اسلامی علوم میں جو فکری بعد(Intellectual gap) پیدا کیا اس کو دور کرنے میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ اب مذہب کو عقل کی بنیاد پر سمجھا یا سمجھایا جائے۔کیونکہ پہلے لوگ مذہبی تعلیمات کو عقیدے کی بنیاد پر قبول کرلیتے تھے مگر سائنسی دور شروع ہوتے ہی مذہبی تعلیمات کو عقل کی بنیاد پر قبول کرنے کا مطالبہ ہونے لگا۔تفہیم دین کے روایتی اصول سے ہٹ کر جب دین فہمی کا اسلوب سائنسی اور فکری اسلوب میں ڈھلا تو اس میں بلاشبہ ہمارے بہت سے علماء روایتی طرز تعلیم کے ماہر ہونے کے باوصف جدیدذہن کو متاثر و مطمئن نہ کرسکے۔دوسری طرف جنہوں نے یہ سوچا کہ اسلام کی تعبیر اب سائنسی انداز میں اور عقلی فریم ورک کے مطابق کی جائے تو ان میں اعتدال نہ رہا یا تو وہ بہک گئے یا پھر اسلام کی تشریح وتعبیر انہوں نے عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقلی بنیاد پرکرناچاہی جو اعتزال پسندی کی ایک ٹھنڈی آہ ہی ہے یوں ایسے لوگوں میں ایمانیات اور عقائد اسلامیہ کے بارے میں بھی شک و شبہ کی نفسیات پیدا ہوگئیں۔

مسٹر پرویز نے چاہا کہ میں جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام کی نئی تعبیر بتاؤں مگر ان کی حالت نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والی ہوگئی۔ جدیدیت کو بخوبی سمجھ سکے نہ اسلام کو اور نہ اسلام کی زبان کو۔ اوراگر سمجھے تو وہ بھی معمولی۔نتیجۃً جس زبان کو زیادہ جانتے تھے ان کے لٹریچر کوپڑھا اور انہی کی طرف زیادہ مائل ہوگئے دوسری طرف اسلام کو بھی اگر سمجھنا چاہا تو اردو انگریزی تراجم کے دست نگر ومقلد ہوکر۔ عربی سے بہت ہی کم شدھ بدھ پیدا کی ۔ قرآنی نصوص ہوں یا حدیث کی نصوص دونوں کی ترجمانی انگریزی عربی قوامیس سے انہوں نے کی نہ کہ علماء اسلام کی قوامیس کی۔ اور اپنی کتب میں آیات قرآنیہ یا احادیث کی جو تعبیر کی وہ شاید گولڈزیہر اور جوزف شاخت جیسے کٹر مستشرقین کو بھی شرما دے۔اس لئے کہ انہوں نے غیر مسلم ہوتے ہوئے عربی زبان میں اولاً مہارت پیدا کی اور پھر بہت ہی عیاری سے عربی ٹیکسٹ کے صرف ایک لفظ کو بدل کر انہوں نے مقاصدحاصل کئے مگریہاں تو معاملہ ہی اس کے برعکس ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح ان کی تھوڑی بہت کامیابی کا سبب یہاں کے عوام کی عربی زبان سے جہالت جیسی نعمت ہے ورنہ جس نوجوان کو عربی کی شدھ بدھ ہے وہ سبھی کچھ چند جملوں ہی میں بھانپ لیتا ہے کہ خرابی اور زیغ کہاں ہے۔ قرآن کی تفسیر میں ان کا اسلوب بھی من پسندی کا ہے ۔جہاں چاہا جو چاہا لکھ دیا اور جہاں آیات مطالبہ کرتی ہیں کہ ہمیں بھی سمجھایا جائے وہاں سانس رک گئی۔یہی وہ عقلی فریم ورک تھا جو ان کی ساری فکر ، تحریراور دین فہمی میں عربی زبان سے عدم دل چسپی اور ناپختگی کی صورت میں نمایاں نظر آتاہے۔
 
Top