• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے روایت کا جاٰئزہ !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے روایت کا جاٰئزہ !!!
1470418_607940569262614_1937977569_n.jpg
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
یہ حدیث من گھڑت (موضوع ) نہیں ، زیادہ زیادہ اس کو ضعیف کہہ سکتے ہیں
اس حدیث کے بارےمیں مزید تحقیق محدث رسالہ کے شمارہ جولائی 1988ء میں ملاحظہ ہو ، اور اس کا جواب ڈاکٹر حمیداللہ نے اسی سال ستمبر کے رسالہ میں دیا ہے
البتہ بندہ کا میلان اس تحقیق کی طرف ہے جس کو کشف الخفاء ومزیل الالباس میں اس حدیث کے ضمن میں پیش کیا گیا ہے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہُ ،

اللہ تبارک وتعالیٰ اسے ہر پڑھنے والے کے لیے خیر کا سبب بنائے ،

ہمارے ہاں عموماً کچھ باتوں کو بطور حدیث سنایا اور پڑھایا جاتا ہے ، اور مکھی پر مکھی مارنے کے مصداق ان باتوں کی کوئی تحقیق کیے بغیر ، حسنء ظن اور نام نہاد عقیدت و محبت کی بِناء پر انہیں جُوں کا تو مان لیا جاتا ہے ،

انہی باتوں میں سے ایک یہ بات بھی ہے جو بطورِ حدیث سنائی جاتی ہے کہ ((( اُطلُبُوا العِلمَ و لَو بِالصِّینِ ::: عِلم طلب کرو خواہ چین سے(یعنی خواہ چینChina جانا پڑے) )))

گو کہ اِس مقولے کی کمزوری کے عقلی دلائل بھی دیے جا سکتے ہیں لیکن دِین کے معاملات کو، اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب خبروں کو عقل پر پرکھنا دُرُست منھج نہیں ، لہذا ایسی پرکھ عموماً غلطی کا باعث ہوتی ہے، اِسی لیے ایسی خبروں کی پرکھ کے لیے اُن خبروں کے نقل ہو کر آنے والے ہر ذریعے کو جانچنے پرکھنے کے لیے کسوٹیاں مقرر کی گئیں ، اور ان کسٹیوں پر پرکھ کے مطابق خبر کو قُبول یا رد کیا گیا ،

اِن شاء اللہ ،بات کو موضوع سے جُڑے ہوئے رکھنے کے لیے اور اختصار کے پیش نظر میں ِاس وقت خبروں کی نقل کے ذرائع اور ان کی پرکھ کی کسوٹیوں کے بارے میں کچھ بات نہیں کروں گا ،اور یہاںصِرف اِس مذکورہ بالا روایت ، یا مقولے کی حقیقت کے بارے میں اُمت کے اِماموں رحمہم اللہ جمعیاً کی تحقیق ذِکر کروں گا ، اِن شاء اللہ ۔

::::: اِمام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ا ِس مقولے کے بارے میں """ الموضوعات"""میں اِمام ابن حبان رحمہُ اللہ کا قول ذِکر کیا کہ"""یہ بات باطل ہے اور اِس کی کوئی اصل نہیں"""،

میں نے رجب کے بارے میں مَن گھڑت احادیث سے متعلق مضمون"""ماہ رجب کی کونسی بہاریں اور فضلتیں """ میں ذِکر کیا تھا کہ روایات کی صحت کے بارے کہ إِمام ابن حبان رحمہُ اللہ نرمی سے کام لیتے تھے،

غور فرمایے ، قارئین کرام کہ إِمام صاحب رحمہُ اللہ کی اِس نرمی کے باوجود اگر وہ کسی حدیث کو کمزور یا باطل قرار دیں تو اُنکی بات کافی مضبوط ہوتی ہے،

یہ ، چین میں جا کر عِلم حاصل کرنے والی مندرجہ بالا روایت ، مذکورہ ذیل کتابوں میں روایت کی گئی ہے ،

اِمام ابو نعیم الاصبہانی رحمہُ اللہ کی""" اخبار اصبھان """، اور ، اِمام ابن علیک رحمہُ اللہ کی"""الفوائد"""، اور ،

اِمام الخطیب البغدادی رحمہُ اللہ کی"""تاریخ بغداد"""،اور ، اِمام البیہیقی رحمہُ اللہ کی"""المدخل"""،

اور اِمام ابن عبدالبر رحمہُ اللہ کی"""جامع بیان العِلم"""، اور پھر کئی دیگر کتابوں میں نقل کی گئی ، سب روایات کی سندیں ایک مُقام پر مشترک ہو کر یہ ایک سند بن جاتی ہے:::

"""حسن بن عطیہ کے ذریعے ، کہ اُس نے ابو عاتکہ طریف بن سلیمان سے سُنا ، کہ وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ کے ذریعے روایت کرتا کہ ،،،،،،"""،

قارئین کرام ، اِس سند کے مرکزی اور مشترک راوی ابو عاتکہ طریف بن سلیمان کے بارے میں أمیر المؤمنین فی الحدیث إِمام محمد بن إسماعیل البخاری رحمہ اللہ و رفع درجاتہُ نے اپنی معروف کتاب """تاریخ الکبیر"""میں فرمایا کہ """مُنکر الحدیث""" ہے ، یعنی اِسکی بیان کردہ روایت (حدیث)مُنکر ہے، یعنی ناقابل یقین اورنا قابل اعتماد ہے ، انکار کیے جانے کی مستحق ہے ،،

"""الجرح و تعدیل"""میں اِمام ابو حاتم محمد بن اِدریس الرازی رحمہُ اللہ نے"""ضعیف الحدیث""" قرا دِیا ، ،،یعنی اِس کی بیان کردہ حدیث کمزور ہے ،،،

اِس روایت کی دو اور سندیں بھی ہیں :

جن کا ذِکر إِمام عبدالرحمن السیوطی رحمہُ اللہ نے """ اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة """ میں کیا ہے ،

جِن میں سے ایک میں"""یعقوب بن اِسحاق بن اِسماعیل العسقلانی"""نامی راوی ہے جِسے اِمام شمس الدین الذہبی رحمہُ اللہ نے"""جھوٹا"""قرار دِیا ،

اور دوسری سند میں"""احمد بن عبداللہ الجُویباری """نامی راوی ہے جِسے خود اِمام السیوطی رحمہُ اللہ نے"""حدیث گھڑنے والا"""کہا ہے ،

اختصار کے پیش نظر میں نے تفصیل سے حوالہ جات کا ذِکر نہیں کِیا ، کِسی کے پاس اگر اِس مِن گھڑت روایت کی اِن ناقابل اعتبار سندوں کے عِلاوہ کوئی اور سند ہو براہِ مہربانی مجھے اُس کی اطلاع کرے اور اگر نہیں ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات پاک سے محبت کے صرف ز ُبانی دعوے مت کیجیے ، بلکہ اُس محبت کے عملی تقاضے پورے کیجیے ، جن میں سے ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذاتِ مبارک سے کوئی ایسا قول یا فعل منسوب ہونے سے روکیے جو نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں ثابت نہیں ہوتا-

نہ ہی ہر کوئی کام یا بات جو نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب ہو کر سامنے آئے اسے مانیے اور نہ ہی اسے کہیں نشر کیجیے جب تک وہ صحیح نہ ھو ، ہمیشہ یاد رکھیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ

(((((مَنْ كَذَبَ عَلَىَّ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ:::))))

جس نے مجھ پر جھوٹ بولا (یعنی میرے بارے میں کچھ جھوٹ بولا )تو اُس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا )))))

صحیح بخاری /حدیث/107کتاب العلم/باب 38،

و السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
یہ حدیث من گھڑت (موضوع ) نہیں ، زیادہ زیادہ اس کو ضعیف کہہ سکتے ہیں
اس حدیث کے بارےمیں مزید تحقیق محدث رسالہ کے شمارہ جولائی 1988ء میں ملاحظہ ہو ، اور اس کا جواب ڈاکٹر حمیداللہ نے اسی سال ستمبر کے رسالہ میں دیا ہے
البتہ بندہ کا میلان اس تحقیق کی طرف ہے جس کو کشف الخفاء ومزیل الالباس میں اس حدیث کے ضمن میں پیش کیا گیا ہے ۔
آپ نے بجا فرمایا ہے اس حدیث کو بعض علما نے حسن بھی قرار دیا ہے،اسی لیے علامہ ابن العراقی نے اس حدیث کی بابت کہا ہے:
"قد صحح بعض الائمۃ بعض طرقہ"
اور علامہ مزی نے تو اس کو حسن بھی قرار دیا ہے:"ان طرقہ تبلغ بہ رتبۃ الحسن"
بہر حال یہ روایت موضوع نہیں ہے واللہ اعلم بالصواب
 
Top