• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
علم حدیث کی انواع


۱۔ علم حدیث روایةً: یہ حدیث کاوہ علم ہے جس کا تعلق صرف روایت حدیث سے ہے۔اس کی تعریف یہ ہے:

هُوَعِلْمٌ یُعْلَمُ بِهِ أَقْوالُ النَّبِیِّ ﷺ وَأَفْعَالُہُ وَتَقَارِیْرُہُ، وَ ضَبطُھَا وَرِوَایَتُھَا وَتَحْرِیْرُ أَلفَاظِھَا۔ رسول اللہ ﷺ کے ہر قول و فعل اورتقریر، نیز ان کا ضبط ، روایت اور حدیث کے الفاظ کی صحیح تحریرکا علم۔

علماء حدیث نے اس تعریف میں ’’روایت‘‘ سے مراد درج ذیل معنی لئے ہیں۔

۱) روایت: لغت میں بات کو دوسرے تک پہنچانے کا نام ہے۔ اصطلاح میں حدیث کو دوسرے تک پہنچانا اور جس نے بیان کی ہے یعنی قائل کی طرف مخصوص الفاظ سے اسے منسوب کرنا۔ جیسے: حَدَّثَنَا، یا أَخْبَرَنَا، یا سَمِعْتُ یا عَنْ۔ پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اسے حاصل کرنا اور پھر آگے پہنچانا۔ جو کچھ بھی نہ پہنچائے وہ راوی نہیں ہوتا۔ اگر کوئی حدیث بیان کرے مگر اسے قائل کی طرف منسوب نہ کرے تو اسے روایت نہیں کہتے۔

۲) روایت حدیث میں متن اور سند کے الفاظ کا صحیح ضبط ہو اور متعلقہ تمام احادیث کی اسانید کا احاطہ بھی۔

۲) راوی کے نام کی تحقیق و تصدیق ہو نیز جس شیخ سے روایت کی اس کے مبینہ الفاظ اور انداز اداء کا بخوبی ضبط۔

۳) رواۃ اور متن کے احوال کی بحث سے اجتناب کیا جائے۔

فائدہ: روایت حدیث کے ذریعے سنت رسول، ایام رسول اور امور رسول ضبط تحریر میں آکر محفوظ ہوگئے ۔ مختار قول کے مطابق صحابہ کرام کی طرف منسوب بات بھی اس میں شامل ہوسکتی ہے۔

روایت بالمعنی: یہ یاد رکھئے! کہ افعال ، تقریر اور صفات رسول سے متعلق تمام احادیث معناً ہی روایت ہوں گی۔یعنی یہ صحابی رسول کے اپنے الفاظ میں ڈھلی ہوں گی جو اس کی اپنی نظر ، سوچ اور فکر کے مطابق ہوں گے۔ یہ احادیث تمام حدیثی مواد میں ستر فی صد سے زائد ہیں ۔ان احادیث میں لفظی تغیر، کمی وبیشی یا تقدیم وتاخیرصحابی سے ممکن ہے۔مگر کیا متأخر راویوں کے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟ اس کا جواب آگے آرہا ہے۔

ہاں آپ ﷺ کے ارشادات جو سارے حدیثی مواد میں بیس فیصد سے بھی کم ہیں ۔ انہیں بلفظہ ادا کرنا ویسے ضروری ہے جیسے راوی نے اپنے شیخ سے سنا ہوتا ہے ۔ان اقوال میں کسی تبدیلی، تغیر یا کمی وبیشی یا تقدیم وتاخیرکی قطعاً اجازت نہیں۔

لیکن اگر راوی، حدیث کے مخصوص الفاظ بھول جائے اور اسے یہ یقین ہو کہ اس کا مفہوم یہ ہے تو کیا وہ وقت ضرورت ان الفاظ کو معناً بیان کرسکتا ہے؟ محدثین کا اصول یہ ہے کہ ایک عادل راوی بھی ایسا کرنے کا مجاز نہیں۔سبھی وہی الفاظِ حدیث بیان کریں جو آپ ﷺ کے ہیں۔مگر کچھ محدثین نے ان حدیثی الفاظ کو دو حصوں میں منقسم کیا ہے:

۱۔ جو الفاظ حدیث مشروع اذکار کے ہیں اور جن کے مخصوص الفاظ ہیں انہیں بدلنا جائز نہیں۔ اگرراوی انہیں بھول گیا ہے تو توقف کرلے۔

۲۔ دوسری قسم ان الفاظ کی ہے جن سے لفظی نہیں بلکہ ان کا مفہوم اجاگرہوتا ہے۔ اور جن کا تعلق آپ ﷺ کے افعال، تقریرات اور عام اجتماعی معاملات سے ہے۔ ان الفاظ میں چند شروط کے ساتھ تبدیلی کی جاسکتی ہے:

أ۔ یہ روایت ایسے متقن اور ضابط عالم سے ہو جو حدیث کو لغت کے اعتبار سے سمجھتا ہو اور مراد حدیث کو بھی۔جیسے امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ۔

ب۔ ضرورت اس کی داعی ہومثلاً راوی لفظ حدیث کو بھول رہا ہو اور اس کے معنی کا بخوبی حافظ ہواور اسے صحیح جامہ پہنا سکتا ہو۔وہاں الفاظ حدیث اسے یاد دلا دئے جائیں۔ اور اگرالفاظ حدیث کا حافظ ہو پھر تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاالا یہ کہ اسے مخاطب کو سمجھانے کی ضرورت پیش آجائے۔

ج۔ الفاظ حدیث ایسے نہ ہوں جو عبادت کے لئے ہی بیان ہوئے ہوں جیسے اذکار کے الفاظ۔ کیونکہ ایسے اذکار کے الفاظ توقیفی ہوا کرتے ہیں جنہیں بالمعنی روایت نہیں کیا جاسکتا۔

د۔اگر کسی حدیث کو بالمعنی روایت کرنا بھی ہو تو حدیث بیان کرنے کے بعد أو کَمَا قَالَ ﷺ جیسے الفاظ ضرور کہے جو سامع کو یہ باور کرادیں گے کہ لفظ حدیث تو نہیں بلکہ اس کا معنی پیش کیا گیاہے۔

یہی تقسیم اور مفہوم ہی درست ہے کیونکہ اگر ہم انہی الفاظ کی روایت پرہی زور دیں تو ہرحدیث مشکوک ہوجائے۔ مثلاً: حدیث کے یہ الفاظ: َزوَّجْتُکَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرآنِ۔اور دیگر روایات میں مَلَّکْتُکَهَا بھی آیا ہے۔یہی اس کا معنی ہے جوصحیح بخاری میں بار بار پیش کیا گیا ہے۔اگر ہم اسے غیر جائز کہیں تو پھر شریعت کو دیگر زبانوں میں پیش کرنا بھی غیرجائز ہو گا۔اگر زبان کو شریعت کی تبلیغ کے لئے بدلا جاسکتا ہے تو پھر حدیث کے ایک لفظ کو دوسرے عربی لفظ میں ہی بدلا گیا ہے۔ عالم حدیث اگر اس لفظ کو بھول جائے اور وہ اس کے ملتے جلتے مفہوم میں اسے بیان کردے توایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔تسلی کی بات یہ ہے کہ ایسا صرف بہت ہی کم احادیث میں ہوا ہے۔مگر بعض لوگوں نے اسے اپنے فقہی اختلاف کا سبب وموضوع بنالیا ہے۔حالانکہ ہے سب کا اپنا اپنا استنباط۔ہمیں بھی حدیث نَضَّرَ اللہ امْرَأًسمِعَ۔۔۔ کی رو سے ثقات وعادل رواۃ حدیث سے حسن ظن رکھنا چاہئے۔ باقی جس صحابی نے بِنَبِیِّك الَّذِیْ أَرْسَلْتَ کو بِرَسُولِكَ پڑھا تھا تو آپﷺ نے دراصل تبدیلی معنی کی وجہ سے تصحیح فرمائی۔ کیونکہ رسول تو فرشتہ بھی ہوسکتا ہے۔ جبکہ آپ ﷺ نے اس دعا میں دونوں صفات نبی اور رسول کی جمع کردیا تھا۔

۲۔ علم حدیث درایةً: یہ حدیث کی حقیقت جاننے کا علم ہے ۔ جس کی تعریف یہ ہے۔

عِلْمٌ یُتَعَرَّفُ مِنْہُ حَقِیقَةِ الرِّوایَةِ وأحکامُهَا، وشُروطُهَا وشُروطُ الرُّواةِ وَأَصْنافُ الْمَروِیَّاتِ، وَمَا یَتَعَلَّقُ بِهَا۔یہ علم روایت کی حقیقت اور اس کے احکام وشروط کا علم دیتا ہے۔نیزرواۃ کی شروط اور مرویات کی اقسام اور ان سے متعلق دیگر امور کا شعور دیتا ہے۔

درایت سے مراد:

حدیث کی سند اور متن کا درست فہم وادراک درایت کہلاتا ہے۔ جس میں بحث وتنقید کے بعد سند ومتن کے صحیح یا ضعیف ہونے کاحکم بھی لگایا جاتا ہے۔استدلال کا یہی توازن ہی درایت کہلاتا ہے۔

حقیقت روایت سے مراد ہے: سنت وحدیث کوآگے نقل کرنا اورجس سے لی اسی کی طرف اسے منسوب کرنا۔ حقیقت روایت ہے۔

شروط سے مرادراوی حدیث کا تحمل ۔۔۔یعنی حدیث کو کس کس طریقے سے حاصل کیا۔ اسے تحمل حدیث کہتے ہیں جس کے آٹھ طریقے ہیں جن میں سماع، قرا ء ۃ، اجازہ و مناولہ وغیرہ شامل ہیں۔

اصناف روایات : یعنی حدیث متصل ہے یامنقطع ، مرسل ہے یا مدلس کی وغیرہ کی تفصیل۔ یامرویات کی اقسام کیا ہیں۔مثلاً مسانید ، معاجم واجزاء وغیرہ کا تفصیلی تعارف۔ احادیث ہیں یا آثار۔

خلاصہ:

علم الحدیث روایۃً: ایسا علم جس میں رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب اقوال، افعال، تقریر یا اوصاف کے ضبط اور اس کے الفاظ کی تحریر پر مشتمل مباحث ہوں۔کہ ان کی روایت کیسے ہوئی؟

علم الحدیث درایۃً: چند قوانین جن کے ذریعے سے سند و متن کے حالات کا علم ہو۔یا وہ قوانین جو راوی اور مروی کی حالت بتادیں کہ انہیں قبول کیا جائے یہ رد؟

اصول وقواعد:

… آپ ﷺ نے جو کچھ کہا اور کیا منجانب اللہ ہوتا ہے ۔ ورنہ نعوذ باللہ یہ شریعت سازی ہوتی جس کی آپ ﷺ کو اجازت نہیں تھی۔(الجاثیۃ: ۱۸، الشوری: ۲۱، ۱۳، المائدۃ: ۴۸)

…غیبی اور متشابہ امور بھی احادیث میں ہیں جن پر ایمان بلاریب ہونا ضروری ہے۔ ان میں عقلی تک بندی درایت نہیں بلکہ ایمانی کمزوری ہے۔اسی لئے صحت حدیث کے لئے سند ومتن دونوں پر زیادہ نظر ہونی چاہئے جو محدثین نے رکھی۔

…علم حدیث میں غور وخوض کی صلاحیت ہے۔جس کا بھرپور مظاہرہ روایت اور درایت میں کیا گیا ہیورنہ مصطلحات اور دیگر علوم الحدیث میں جو گہرائی ، دقت اور اختصار ہے وہ فکر وتدبرحدیث کے گہرے شواہد ہیں۔

… درایت حدیث میں مقصد شریعت،فہم حدیث، اصول وفروع میں نص حدیث کی حدود اور ان میں رہنے کا اسلوب آجاتاہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے درست فرمایا تھا:

الْحَدِیثُ الصَّحِیحُ لَا یُعْرَفُ بِرِوَایَتِہِ فَقَطْ، وَإِنَّمَا یُعْرَفُ بِالْفَهْمِ وَالْحِفْظِ وَکَثْرَةِ السَّمَاعِ۔ (معرفۃ: ۵۹) حدیث صحیح محض روایت سے نہیں جانی جاتی بلکہ اسے فہم، حفظ اور کثرت سماع سے جانا جاسکتا ہے۔

… محدثین نے ایسی حدیث کی بالکل تصحیح نہیں کی جو عقل یا قیاس جلی کے خلاف تھی۔ہاں اس حدیث کی ضرورتصحیح کی ہے جسے عقل یافت نہ کرسکے۔محدثین کبھی بھی نقد حدیث سے غافل نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاذ، منکر، مضطرب اور موضوع وغیرہ اصطلاحات کو ان کے علاوہ کوئی اور متعارف نہ کراسکا۔ ڈاکٹر صبحیؒ صالح لکھتے ہیں:

حدیث نبوی کے متن یاعبارت کا درس و مطالعہ اور کتب روایت کا حفظ و اہتمام اس وقت تک بے کار ہے جب تک اس کے پہلو بہ پہلو درایت حدیث نہ ہو یعنی اس کے تمام پہلوؤں پر غور و فکرنہ کرلیا جائے ۔درایت حدیث ہی وہ فن ہے جس میںنبی اکرمﷺ کے اقوال و افعال کا تاریخی و تفصیلی اور تجزیاتی مطالعہ کیا جاتا ہے۔

وہ مزید لکھتے ہیں:

درایت حدیث کا علم، حدیث نبوی کی عبارت سے وہی تعلق رکھتا ہے جو علم تفسیر کو قرآن کریم سے ہے یا احکام کو واقعات کے ساتھ ۔درایت حدیث سے متعلق بیشترمباحث ، حدیث کے ابتدائی دور میں جداگانہ حیثیت رکھتے تھے۔ موضوع، غرض وغایت اور طرز و انداز کے اعتبار سے یہ مباحث بالکل منفرد تھے جب تدوین حدیث اور تصنیف و تا لیف کا دور آیا تو ہر عالم نے ایک الگ شعبہ چن لیا۔ اور اس طرح درایت حدیث سے متعلق علوم ،کئی قسموں میں بٹ گئے ۔مگر علوم الحدیث کا نام سب اقسام پر حاوی ہے ۔

…علماء نے ان دونوں اقسام کے یہ چند نام بھی تجویز کئے ہیں۔

علوم الحدیث، مصطلح الحدیث، اصول الحدیث۔

اس علم کے بارے میں صاحب در مختار نے کیا ہی خوب نقل کیا ہے۔

العَلُومُ ثَلَاثَہٌ: علوم تین ہی ہیں:
عِلْمٌ: نَضَجَ وَمَا احْتَرَقَ وہ علم جو پکا مگر جلا نہیں۔ وعِلْمٌ : مَا نَضَجَ وَ احْتَرَقَ وہ جو پکا نہیں اور جل گیا ہے۔ وَعِلْمٌ : نَضَجَ وَ احْتَرَقَ۔۔ وَھُوَ عِلْمُ الحدیثِ۔ وہ علم جو پکا اور جل گیا یہ علم حدیث ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
علم مصطلح کیوں؟


مصطلح یااصطلاح کا معنی ہے: اتِّفَاقُ قَوْمٍ عَلَی وَضْعِ الشَّئِ۔ کسی شے کو بنانے میں قوم کا اتفاق۔ یا لغوی معنی سے دوسرے معنی کی مراد بیان کرنے کے لئے کسی لفظ کا استخراج، اصطلاح کہلاتا ہے۔اس میں لغوی معنی کی کبھی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ جیسے: صلاۃ، زکوۃ یا حج وصوم وغیرہ۔

علماء حدیث نے حدیث کے علم میں اپنے استعمالات کو جو عرفی نام دیا وہ اصطلاح یا مصطلح کہلایا۔ مثلاً: یہ حدیث ضعیف ہے۔ یا فلاں راوی مدلس ومنکَرہے۔ یایہ حدیث معلق ،مسلسل یا منقطع ہے وغیرہ ۔ایسی مصطلحات کی وضاحت بھی انہوں نے خود کی ہے۔ایک اور خاص بات اس کے قواعد واصول ہیں۔مثلاً: وصل اور ارسال کی تعریف کے بعد یہ جاننا کہ ان دونوں میں تعارض کی صورت میں کیا قاعدہ ہے؟ اس کے لئے یہ مصطلح تَعَارُضُ الْوَصْلِ وَالاِرْسَالِ۔ صحیح وحسن اور ضعیف احادیث میں یا صحاح کے مابین کس حدیث کو یا صحیح ومرسل میں کس حدیث کو کس قاعدہ کی رو سے ترجیح دی جائے۔ رجال صحیحین اور ان کی شروط یا معتزلہ ومتکلمہ اورمنکرین حدیث کے حدیث کو غیرمقبول قرار دینے کے وضع کردہ اصولوں کا جواب بھی ان قواعد ومصطلحات کے روشنی میں دیا گیا ہے۔ضمناً حدیث کی تحقیق کا طریقہ کار متعین کردیا، کتب حدیث کے مراتب وطبقات بھی گنوا دئے گئے۔ کتب حدیث کے مختلف ناموں مثلاً جامع، سنن، مستخرج، مستدرک، مسند، معجم، اجزاء، اور کتب اطراف وعلل نیز اربعینات بھی انہی مصطلحات کا ثمرہ ہیں۔ان مصطلحات کی تعداد ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

کچھ فرومایہ قسم کے لوگ بھی جب حدیث میں مشق آزمائی کرنے لگے تو حدیث کی پہچان کے لئے ان اصطلاحات کا مقید کرنا اور متعارف کرانا اورضروری ہوگیاتھا۔اس علم کی رو سے وہ افراد جو محدثین کا مقام حاصل کرنا چاہتے تھے اپنی نااہلی کے سبب صف محدثین سے خارج کردئے گئے ۔اور ان کی غیر محتاط روش تھم گئی ۔نتیجۃًمسلک ومذہب سے بالا ہوکر اصول حدیث اور اصول فقہ دوش بدوش چلنے لگے اور اختلافی مسائل میں ترجیح قائم کرنے کا میزان بن گئے۔

یہ علم بھی بتدریج تحقیق ومناقشہ سے متعارف ہوا۔ ایسی آسان اصطلاحات کا استعمال ان سے شروع ہوگیا۔مثلاً جب دو احادیث میں تعارض دیکھا ۔اگر ان میں جمع وتوفیق ممکن دیکھی تو کہہ دیتے : اب ان میں کوئی اضطراب نہیں۔اس طرح اصطلاح مضطرب وجود میں آئی۔دیگر اصطلاحات مثلاً صحیح وسقیم، منکر ومعروف، مرسل، وآحاد وغیرہ بھی ایسی ہی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔اسی طرح متواتر وعلم ظنی کی مصطلحات بطور وضاحت مستعار لیںتاکہ حدیث کا معاملہ خالص رہے۔

٭…درایت کایہ ضابطہ کہ خبرواحد سے کتاب الٰہی پر زیادتی جائز نہیں بہت کمزور ثابت ہوا ۔اس لئے کہ یہی اصول: وارث کے لئے وصیت جائز نہیں۔جیسی خبر واحدپر منطبق نہ ہوسکا۔اس لئے محدثین کو مصطلح خبر واحد متعارف کراناپڑی۔

٭… بعض صحیح احادیث کچھ فقہاء ومفتی تابعین کو نہیں پہنچ سکی تھیں اسی لئے انہیں اپنی رائے پر انحصار کرنا پڑا۔یہ ان کی درایت تھی۔ دیگر فقہاء وتابعین وتبع تابعین نے اس سلسلے میںصحابہ کرام کی پیروی کی اور صرف وہ عمومات یعنی عام الفاظ پر چلے اور انہی کے مطابق فتوی دیا۔جب تیسرے طبقہ تابعین میں ان احادیث کی شہرت ہوئی تو انہیں گمان ہوا کہ یہ احادیث کچھ کہہ رہی ہیں اور ہمارے مشایخ کے عمل اور متفق علیہ طریقے کچھ؟ اس لئے انہوں نے مشایخ کا عمل، ان کے طریقے اور بہت سے فقہی مسائل احادیث قبول کرتے ہوئے رد کردئے۔

٭…درایت کاایک مفروضہ یہ بھی بنایا گیا کہ ہوسکتا ہے ایک حدیث طبقہ صحابہ یا تابعین میں صحیح ہو اور بعدکی سند میں وہ ضعیف ہوگئی ہو؟ اس لئے پہلے فقہاء کا استدلال صحیح حدیث پر تھا جسے بعد میں ضعیف کہا گیا؟ سوال یہ ہے کہ وہ آخر کون سی حدیث تھی جو استدلال کا مصدر تو بنی مگروہ مل نہ سکی بلکہ وہ گم ہوگئی؟ کیا کوئی فقیہ یا اس کا شاگرد ایسی احادیث کو ضبط تحریر میں نہ لاسکا؟

٭…علماء صحابہ وتابعین کی یہ عادت تھی کہ وہ ہر مسئلہ میں حدیث کی تلاش کرتے تھے۔ جونہی انہیں کوئی حدیث اپنے استدلال کے خلاف ملتی وہ فوراً اپنی رائے واجتہاد سے کنارہ کش ہوجاتے۔اس روش نے حدیث پر عمل کرنا باعث فخر بنادیا تھا۔

…ان اصطلاحات نے عام وخاص پر بڑا مثبت اورگہرا اثر ڈالا ہے۔وہ یوں کہ فقہ ، وعظ وترغیب وترہیب جیسی کتب میں جب سے احادیث کی تصحیح کے لئے تخریج اور نقد شروع ہوئی ہے اس نے نہ صرف سب کی آنکھیں کھول دی ہیںبلکہ مسلمان کو یہ شعور بھی بخشا ہے کہ وہ بھی صرف صحیح حدیث کو ہی اپنا مطمح نظربنائے۔

٭٭٭٭٭

وَلَا تَكُ کَالدُّخَانِ یَعْلُوْ بِنَفْسِہِ عَلَی طَبَقَاتِ الْجَوِّ وَہُوَ وَضِیْعُ

دھواں مت بنو جو فضا کی پہنائیوں میں اپنے آپ کو بلندتو کرلیتا ہے مگر پھر بھی وہ حقیر ہی ہوتا ہے​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
علم، ظن اور یقین


علم : اس سے مراد مخلوق کا علم ہے۔ کسی چیز کا صحیح ادراک، علم کہلاتا ہے۔ اور اس کا عدم ادراک جہل۔ کسی چیز کا ایسا ادراک کہ اس میں جزم نہ ہو وہ شک ہوتا ہے اور اگر جزم ہو مگر مطابق واقعہ نہ ہو وہ جہل مرکب ہے۔ مثلاً: اگر کوئی پوچھے کہ پاکستان کب بنا؟ تو جواب اگر یہ ہو: مجھے معلوم نہیں۔ تو یہ جہل ہے۔ لیکن اگر اس سوال کا جواب یہ ہو :سن ۱۹۴۷میں یا ۱۹۴۸میں ۔تو یہ شک ہے۔ اور اگر جواب یہ ہو۔ سن ۱۹۴۰میں ۔تو یہ جہل مرکب ہے۔ اور اگر جواب یہ ہو سن ۱۹۴۷میں ۔تو یہ علم ہے۔

قَالَ حِمَارُ الْحَکِیمِ تَومَا: لَو أَنْصَفَ الدَّھْرُ کُنْتُ أَرْکَبُ
فَــإِنَّنِیْ جَــاھِلٌ بَسِــیْطٌ وَصَــاحِبِی جَـاھِلٌ مُرَکَّبُ


حکیم توماکے گدھے نے کہا: اگر زمانہ میرے ساتھ انصاف کرتا تو میں سوار ہوتا۔ کیونکہ میں تو محض سیدھا سادھا جاہل ہوں
مگر میرا مالک جو میرے اوپر سوار ہے وہ جاہل مرکب ہے۔​

علم کی علماء نے دو قسمیں بتائی ہیں۔


۱۔ علم ضروری
: وہ علم جوبغیر غور واستدلال کے حاصل ہو اسے علم ضروری کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانی بوجھی معلوم شے ہے۔ جیسے یہ علم کہ آگ گرم ہوتی ہے اور کعبہ مسلمانوں کا قبلہ ہے اور محمد ، ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔حواس خمسہ بھی اسے معلوم کرلیتے ہیں۔

۲۔ علم نظری : لفظ نظر کے متعدد معانی علماء لکھتے ہیں۔جن میں سے ایک رؤیت عینی بھی ہے۔اور دوسراغور وفکر کا نتیجہ بھی۔یہی معنی یہاں مراد ہیں۔احکام شریعت کا صحیح علم غور وفکر اور استدلال کا نتیجہ ہی ہوا کرتا ہے بشرطیکہ غور وفکر کرنے والا ان صلاحیتوں کا مالک ہو۔: اس کا دوسرا نام علم مکتسب بھی ہے۔ناظر ومفکر میں یہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں کہ اس کے تمام عقلی وحسی آلات واعضاء ٹھیک کام کررہے ہوتے ہیں ۔ اس کی نظر دلیل پر ہوتی ہے۔ آیا وہ پختہ وبھرپور دلیل ہے یا نہیں؟ شبہات پر اس کی نظر نہیں ہوتی۔ناظر استدلال کی تمام شروط سے بھی آگاہ ہے؟

ظن: مرجوح کے مقابلے میں راجح جانب کوظن کہتے ہیںاور مرجوح وہم ہوتا ہے۔ امام راغب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ظن کے بعد اگر أن ہے تو یہ معدوم اشیاء کے ساتھ مخصوص ہوگا خواہ وہ قول ہو یا عمل۔اور اگر أن ّ مثقلہ یا مخففہ ہو تو ظن قوی متصور ہوگا۔

٭…قرآن کریم میں لفظ ظن انہتر بار صرف وہم وشک یا جھوٹ کے معنی میں نہیں بلکہ یقین وعلم کے معنی میں آیا ہے۔اور بعض مقامات پر مذمت کے معنی میں اور کچھ مقامات پرمعنی تحسین میں بھی آیا ہے۔ معنی مذمت میں فرمایا: {اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ} بہت سے گمان کرنے سے بچو اس لئے کہ کچھ گمان گناہ ہوا کرتے ہیں۔سبھی ظنون کی مذمت اس آیت میں نہیں کی گئی۔ اور تحسین کے لئے: {الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ} جو یہ ظن رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور بلاشبہ اس کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔گویا قیامت کے وقوع اور اللہ سے ملاقات کا ظنی عقیدہ، ایمان کی علامت ہے۔وہ اس طرح کہ مر کر انسان آخر کہاں جاتا ہے؟ آثار وقرائن کو دیکھ کر انہیں یقین ہوتاہے کہ وہ بھی اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں ۔ اس آیت میں دیکھئے: {وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ} اسے یقین ہوچلا کہ اب جدائی کی گھڑی آہی گئی۔یہاں ظنی عقیدہ بمعنی یقین ہے ۔ خواہ اس سے پہلے اس کا ایمان تھا یا نہ تھا۔ظن پر احکام کا دراومدار بھی ہے: جیسے: {فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ}۔ اگر دوسرا شوہر طلاق دے دے تو اپ پہلے شوہر اور مطلقہ بیوی اگر رجوع کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں بشرطیکہ اگر دونوں ظن کریں کہ وہ اللہ تعالی کی قائم کردہ حدود کو پامال نہیں کریں گے۔ ہمارا سارا عدالتی نظام ظن پر قائم ہے۔اس لئے لفظ ظن اپنے کئی احتمالات کے ساتھ مختلف معانی میں اپنی اپنی جگہ استعمال ہوگا۔ہر جگہ اسے ایک ہی پنجابی والا مفہوم نہیں دینا چاہئے۔

٭…قرآن کریم کے علاوہ ہر علم پر لفظ ظن کا اطلاق ہوا ہے۔ علم فقہ کے بارے میں متقدمین کا کہنا ہے: الفِقْہُ مِن بابِ الظُّنُونِ۔ فقہ تو سراسر ظنیات کا باب ہے۔امام بیضاویؒ واحد فقیہ ہیں جو بہ شدت اس بات کے قائل ہیں : فقہ قطعی علوم میں سے ہے۔ یہ بات محدثین تو نہیں کہتے مگریہ بحث ضرور کرتے ہیں کہ آیا خبر واحد علم یقین کا فائدہ دیتی ہے یا علم ظنی کا۔جیسے امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں: أَخْبارُ الآحادِ تُفِیْدُ الظَّنَّ۔ خبر واحد ظن کا معنی وفائدہ دیتی ہیں۔جس سے مراد غلبہ ظن ہے۔ جو یقین کے قائم مقام ہے۔ظن کے کچھ درجات ہیں جن میں اعلی تریندرجہ: غلبہ ظن کا ہے۔

٭…محدثین نے ہر حدیث کو ظن کے معنی میں لیا۔ اس کی تحقیق کی ۔ ظن سے نکلے اور بات کی تہہ تک پہنچ کر کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے یا یہ حدیث صحیح۔ محدثین کرام نے حدیث میں علامات کو پاکر اسے ظن سے نکالا اور اسے یقین دے دیا۔ ضعیف، ومنکر اور مرسل وغیرہ کی اصطلاحات ہوں یا صحیح وحسن کی یہ سبھی اسی ظن سے نکلے ہوئے نتائج ہیں۔

٭…احادیث کے بارے میں عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ سب ظنی ہیں یقینی نہیں۔بعض اہل علم نے حدیث کی تعریف میں ظن کا لفظ استعمال کیا تو لوگوں کو یہ گمان ہوا کہ احادیث کا معاملہ ہی ظنی ہے جیسے امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں: أَخْبَارُ الآحَادِ تُفِیْدُ الظَّنَّ۔ خبر واحد ظن کا فائدہ دیتی ہیں۔ اس لئے بارشاد الٰہی یہ لوگ ایسا فیصلہ کربیٹھے: { إن الظن لا یغنی من الحق شیئا} ظن صحیح اور سچی بات کا فائدہ ہی نہیں دے سکتا۔اس لئے احادیث ظنی ہیں ان کا ماننا یا ان پر عمل کرنا مفید نہیں۔ہمارا خیال ہے کہ تُفِیْدُ الظَّنَّ والی بات اس وقت کی ہے جب اصول فقہ میں معتزلی خیالات پروان چڑھ رہے تھے ورنہ متقدم محدثین میں حدیث کے لئے ظن کی اصطلاح کا وجود عنقا ہے۔باقی ظن کیا واقعی حق کے مقابلے میں فائدہ دے سکتا ہے؟

٭…صرف دین نہیں بلکہ دنیا کے اکثر معاملات ظن غالب پر چل رہے ہیں جیسے عدالتی فیصلے یا حکومتی قوانین، انٹرویوز، مناصب، تجارت ومعاشرت وغیرہ۔جس کا انکار ہم نہیں کرسکتے ورنہ بدگمانی اور نفرت جگہ لے گی۔ معاشرتی ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کردین نے اکثر احکام ومسائل کو ظن غالب کی بنیاد پربیان کیا ہے اور انہیں شرعی حیثیت دی ہے۔کیونکہ اس کے بغیر معاملات دنیا نہیں چل سکتے۔ زنا کے اثبات، مالی معاملات اور نکاح وطلاق کے بارے میں گواہ مقرر کرنے اور گواہی لینے کا حکم دیا ہے جو ظن کا ہی فائدہ دیتی ہے ۔ پھر ظن غالب کی بنیاد پر جج کا فیصلہ ہوتا ہے کہ گواہ نے گواہی صحیح دی ہے۔اگر ظن غالب، حق کے مقابلہ میں نہیں تو اس پر عمل کیونکر نہ ہو؟ جیسے :{فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ} (البقرۃ: ۲۳۰) ۔یعنی اگر ظن غالب ہو کہ میاں بیوی حدود الٰہی کے پابند رہیں گے تو طلاق دے کر رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔اسی طرح {إن الظن لا یغنی من الحق شیئًا} میں ظن کا معنی لاعلمی وجہالت ہے۔ مراد یہ ہے کہ حق کے مقابلہ میں لاعلمی وجہالت کوئی فائدہ نہیں دیتی۔حدیث رسول حق ہے اور حق ، حق کے مقابلے میں کیسے ہوگا؟آیات متشابہات بھی ظنی الدلالۃ ہیں۔

٭… قرآن کریم میں بعض الفاظ کے دو احتمال ہیں مگر ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کی کوئی دلیل نہیں۔ جیسے: {لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِھَا} (البقرۃ: ۲۳۳) جس کے دو معنی ہیں: والدہ اپنے بچے کی وجہ سے ضرر نہ دی جائے۔ یا ۔وہ ضرر نہ دے۔یا لفظ {قروء} وغیرہ دیکھ لیجئے۔اختلاف قرائت کے قائل دونوں معنی (حیض وطہر) مراد لے سکتے ہیں مگر جو مختلف قرائتوں کے قائل نہیں وہ کیا معنی لیں گے؟منکرین حدیث بھی اس کے ایک معنی پر متفق نہیں۔ یہاں بھی قرائن کو دیکھ کر قطعیت کے ساتھ نہیں بلکہ ظن غالب کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا۔ لہٰذا قرآن کریم دلالت کے اعتبار سے ظنی ہوا۔مگر ثبوت اور سند کے لحاظ سے قطعی ہے۔ اسی طرح ان آیات میں بھی قطعی معنی لیناممکن نہیں ہے: {وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَہِيْدٌ}، {وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ}، {اَوْ يَعْفُوَا الَّذِيْ بِيَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّكَاحِ}، دونوں احتمال ہیں ایک کو ترجیح دی جائے تو وہ قطعی نہیں بلکہ ظنی ہوگا۔

٭… یونانی فلسفہ کی اصطلاح کا وجود متقدم محدثین کے ہاں نہیں ملتا۔ علوم الحدیث میں یہ محض جواب آں غزل کے طور پر جگہ پا گئی۔اگر خیر القرون کی طرح ظن و یقین کے صحیح معنی متعین ہوجائیں تو کئی غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں۔

یقین: اعتقاد جازم کو کہتے ہیں یعنی واقعہ کے مطابق پختہ اعتقاد یقین کہلاتا ہے۔ استدلال سے اگر شک زائل ہوجائے تو یقین قرار پکڑتا ہے۔ جیسے اللہ تعالی کے وجود کا یقین، عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اور محمد بن عبد اللہ ﷺ کے انسان وبشر ہونے کا یقین، رسول پروحی کے نزول کا یقین، قرآن کریم کے کتاب اللہ ہونے کا یقین۔ وغیرہ۔لسان العرب میں ہے:

الْیَقِیْنُ ، العِلْمُ وإِزَاحَةُ الشَّكِّ وَتَحقیقُ الامْرِ۔ وَالیَقینُ ضِدُّ الشَّكِّ و هُوَ فِی الاصلِ بِمَعْنًی الاِسْتِقْرَارِ۔ یُقالُ: یَقَنَ الْماءُ فِی الْحَوضِ إِذَا اسْتَقَرَّ ودَامَ۔ یقین، علم ہے۔ شک کے ازالے کا نام ہے۔ معاملے کو ثابت کرناکو کہتے ہیں۔اس کی ضدشک ہے۔ یقین دئاصلقرار پکڑنے کے معنی میں ہے۔جیسے کہا جاتا ہے: پانی حوض میں ٹھہر گیا جب اسے ٹھہراؤ اور جماؤ مل جائے۔

ظن کے مقابلے میں یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے: {مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ۝۰ۚوَمَا قَتَلُوْہُ يَقِيْنًۢا} (النساء: ۱۵۷) ان کے پاس عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ظن کی پیروی کے سوا کوئی علم نہیں اور یہود نے انہیں یقیناً قتل نہیں کیا ہے۔ اسی طرح: {اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِيْنَ} (الجاثیۃ: ۳۲) ہم تو اسے معمولی گمان سمجھتے ہیں ورنہ ہمیں تو اس کا یقین نہیں۔

نوٹ: کسی شے کے بارے میں یہ کہنا : یہ یقینی ہے ۔ اس کے تین معنی ہوسکتے ہیں:

۱۔ اس کا ثبوت یقینی ہے کیونکہ متواتر سے ثابت ہے یا اس پر اجماع ہے یا آپ ﷺ سے خود سنی ہے۔

۲۔ اس کا مفہوم یقینی طور پر یہی ہے کیونکہ یہی محکم ہے یا مفسر۔ نص ، ظاہر، مؤول، خفی، مجمل ، مشکل یا متشابہ نہیں۔

۳۔ اس کا مضمون یقینی ہے۔ کیونکہ وہ بدیہی ہے یا اس پر برہان موجود ہے۔

اس لئے یہ جملہ: دین یقینی ہونا چاہئے ظنی نہیں۔ سمجھنا آسان ہوگیا۔کیونکہ اس جگہ یقینی سے مراد اگر پہلا معنی ہے تو پھردرج ذیل باتوں پر غور کرنا چاہئے:

أ۔ قرآن مجید کی تعلیم وتبلیغ کا حق ایک آدمی کو نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان کی تعداد تواتر کی حد تک ثابت ہو۔ اس لئے کہ تواتر کے بغیر جو چیز بھی ہوگی وہ محض ظنی ہوگی اور ظنی چیز دین نہیں ہوسکتی۔

ب۔ کسی رسالے، کتاب، اخبار میں یامیڈیا پر ایک شخص کے مضمون اور انٹرویو کو دین سمجھ کر شائع نہیں کرنا چاہئے۔کیونکہ ایک آدمی کی خبر ظنی ہوتی ہے اور ظنی چیز دین نہیں ہوا کرتی۔ بلکہ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو جن کا جھوٹ پر جمع ہوجانا محال ہو۔

ج۔تبلیغ وتعلیم قرآن میں ایک آدمی کا ترجمہ بھی معتبر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ایک کی بات ظنی ہے اور ظنی امر دین نہیں ہوتا۔

د۔ لغت میں بھی ایک آدمی کی شہادت قبول نہیں ہونی چاہئے جب کہ عموماً اہل لغت ایک آدمی کی شہادت لے لیتے ہیں کیونکہ یہ چیز ظنی ہوگی اور ظنی شے دین نہیں ہوتی۔

ر۔ اگر احادیث ظنی ہیں اور دین نہیں تو جو احادیث یقینی ہیں انہیں ہی مان لیا جائے۔مثلاً:

…وہ احادیث جو لفظاً متواتر ہیں کیونکہ متواتر میں عدد معین کی شرط نہیں۔بلکہ جس عدد سے علم حاصل ہو وہی تواتر کے لئے کافی ہے۔اور راویوں کی عالی صفات گنتی کے قائم مقام ہوجاتی ہیں بلکہ بہت سی صفات گنتی سے بھی بڑھ جاتی ہیں۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (۱؍۲۰۳) میں لکھا ہے: نکت علوم الحدیث اور شرح نخبۃ الفکر میں ، میں نے اس شخص کا رد کیا ہے جو کہتا ہے : متواتر کی مثال صرف یہ حدیث ہے: مَنْ کَذبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّاِر۔ بلکہ میں نے بیان کیا ہے کہ متواتر کی متعدد مثالیں ہیں۔ مثلاً: من بنی للہ مسجدًا۔۔ موزوں پر مسح۔۔ رفع الیدین۔۔الشفاعۃ۔۔ الحوض۔۔ آخرت میں اللہ تعالی کے دیدار ۔۔اور الائمہ من قریش جیسی احادیث۔

…وہ احادیث جو معناً متواتر ہیں ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں: طہارت، نماز، زکوۃ، روزہ ، حج، نکاح اور غزوات کے احکام میں بہت سی احادیث معناً متواتر ہیں۔(حجۃ اللہ البالغۃ: ۱؍۱۰۴)

… وہ احادیث جن پر اجماع امت ہے بکثرت ہیں۔

… جن کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے جیسے بخاری ومسلم کی وہ احادیث جن پر بعد کے کسی محدث نے تنقید نہیں کی۔

ان چار اقسام حدیث کو یقینی ہونے کی وجہ سے دین سمجھنا چاہئے۔کیونکہ دین کے یقینی ہونے کا یہ مطلب ہے:

…اس کا مضمون، کلمات اور ان کا معنی، یقینی ہے تو اس مسئلہ میں قرآن وحدیث دونوں برابر ہیں۔ متکلمین دونوں کو یقینی کہتے ہیں اور منطقی، قرآن وحدیث میں کسی کو بھی یقینی نہیں کہتے۔ بلکہ دونوں کو مقبولات کہتے ہیں اور ان کے مقبولات ظنی ہیں۔

… اسی طرح کسی امر کا دین ہونا اس امر کے منافی نہیں کہ وہ تاریخ بھی ہو۔ اس لئے کہ قرآن مجید دین ہے مگر اس میں تاریخ بھی ہے یہی حال احادیث کا ہے۔ جیسے قرآن کریم میں دین پر عمل کرنے والوں اور منکروں کا مفصل حال درج ہے اسی طرح احادیث میں بھی رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا اور ان کے بدخواہوں کا ذکر ہے ۔ جیسے قرآن میں احکام ہیں ویسے احادیث میں بھی احکام ہیں۔ (ملخص از : دوام حدیث مصنفہ شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ)

٭٭٭٭٭​

وَإِذَا الْحَبِیْبُ أَتَی بِذَنْبٍ وَاحِدٍ جَاءَتْ مَحَاسِنُہُ بِأَلْفِ شَفِیْعِ

محبوب ایک غلطی کرتا ہے اور اس کی خوبیاں ہزار سفارشی لئے چلی آتی ہیں​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب ۲

علم حدیث کا موضوع


علم حدیث کا موضوع: ابن جماعہ ؒ کہتے ہیں: (تدریب۱؍۴۱ ) ومَوضُوعُہُ السَّنَدُ وَالْمَتْنُ ۔ حدیث کا موضوع سند اور متن ہے۔

سند اور اس کے معنی

لغت میں لفظ سند کے دو معنی امام ابن جماعہؒ نے بیان کئے ہیں:

لفظ’’سند‘‘ سے مرادپہاڑ کی اونچی اور بلند و بالا جگہ ہے۔اس لئے مُسنِد بھی سند کو اٹھا کر بلندی یعنی قائل تک لے جاتا ہے۔

یا جس پر اعتماد کیا جائے یا اس کا سہارا لیا جائے۔جیسے عرب کہتے ہیں: فلانٌ سندٌ۔فلاں سَند ہے۔یعنی معتمد ہے۔

اصطلاحاً:

سِلْسِلَةُ الرُّوَاۃِ الْمُوْصِلَةِ إِلٰی قَائِلِہِ۔ راویوں کا تسلسل جو متن تک جاملے ۔

رواۃ حدیث کا ایسا سلسلہ جو مؤلف کی سند سے شروع ہو اور قائل رسول اکرم ﷺ یا صحابہ وتابعین تک جاپہنچے۔ یا

الإِخْبَارُ عَنْ طَرِیْقِ الْمَتْنِ ۔ متن کے راستے کی خبر دینا۔سند کہلاتا ہے۔

کیونکہ سند ہی ہے جو متن تک پہنچنے کا ایک ذریعہ بنتی ہے۔یا ان راویوں کا علم ہوتا ہے جنہوں نے متن کو بیان کیا ہے خواہ وہ ضعیف ہوں یا ثقہ۔مگر اعتماد صرف ثقہ اور بیدار مغزپر کیا جاتا ہے۔سیدنا ابوہریرہ ؓ کی روایت میں لفظ مُتَسَانِدِیْنَ جو سند سے ہے اسی معنی میں مستعمل ہے:

خَرَجَ ثُمَامَۃُ بْنُ أُثَالٍ وَفُلَانٌ مُتَسَانِدِیْنَ۔ ثمامہ اور فلاں دونوں ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے نکلے۔ (تدریب۱؍۴۱)

لفظ إسناد: ۔سند کے لئے یہ لفظ بہی محدثین استعمال کرتے ہیں۔لغت میں: إضَافَةُ الشّئِ إِلَی الشَّئِ ایک شے کی دوسری شے کی طرف نسبت۔کو کہتے ہیں۔ جب کہ اصطلاح میں:ا س لفظ کے دو معنی ہیں:

۱۔ یہ بمعنی سند ہے۔ ابن جماعہؒ کہتے ہیں:

الْمُحَدِّثُونَ یَسْتَعْمِلُونَ السَّنَدَ وَالإسْنَادَ لِشَیئٍ وَاحِدٍ۔محدثین کرام لفظ سند اور اسناد کو ایک ہی شئے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

مراد یہی ہے کہ وہ طریقہ جو متن تک پہنچا دے۔اس معنی میں یہ تثنیہ میں آتا ہے اور جمع میں بھی۔جیسے کہتے ہیں: ھٰذانِ إِسْنَادَانِ: یہ دو سندین ہیں۔ یا ھٰذِہِ أَسَانِیْدُ۔ یہ سندیں ہیں۔اس لئے اسناد بمعنی رجال بھی ہے۔ وہ راوی کو متن تک پہنچانے والے ہوتے ہیں۔کیونکہ محدثین صحت حدیث یا ضعف حدیث میں انہی پر اعتماد کرتے ہیں۔

۲۔اسناد: ھوَ رَفْعُ الْحَدِیثِ إِلَی قَائِلِہِ۔ دراصل حدیث کو اس کے قائل تک اٹھا لے جاناہے۔جیسے: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُسَیَّبِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ۔ یہاں اسناد بمعنی مصدر ہے جس کی تثنیہ وجمع نہیں ہوتی۔

ملاحظہ: ایک اعتبار سے اس پر محدث اعتبار کرتا ہے۔(لفظ رفع کا مرادف لفظ عزو ہے اور نسبة بھی)۔یعنی منسوب کرنا۔

مُسْنَد: امام سیوطی نے مقدمہ تدریب(۱؍۴۳) میں لکھا ہے: مسند(نون کی فتح سے) کے تین معنی ہیں:

۱۔ مُسْنَد : مصدر میمی ہے بمعنی إسناد۔ یعنی اولاً ایسی احادیث جمع کی جائیں جو بغیر اسانید کے تھیں پھر ان کتب میں ان احادیث کا ذکر بمع اسانید کردیا جائے۔ اس لئے ان کتب کا نام مسنَد رکھا گیا۔اس موضوع پر امام قضاعی رحمہ اللہ کی مسند شہاب اور دیلمی کی مسند الفردوس ہے۔

۲۔ مُسْنَد : وہ حدیث جس کی سند شروع تا آخر بظاہر متصل ہو۔ جیسے محدثین کا یہ کہنا: جَاءَ الْحَدِیْثُ مُسْنَدًا۔ یہ حدیث مسند آئی ہے۔ اسی معنی میں حضرات شیخین نے اپنی کتب صحیح کے نام الجَامِعُ الْمُسْنَد بھی رکھا ہے۔ان دونوں کی احادیث مسندہ ہیں بعض محدثین کرام اس میں مرفوع، موقوف اور مقطوع بھی شامل کرتے ہیں۔خطیبؒ بغدادی لکھتے ہیں:

هُوَ عِنْدَ أَهلِ الحَدیثِ مَا اتَّصَلَ سَنَدُہُ إِلٰی مُنْتَھَاہُ، وَأْکْثَرُ مَا یُسْتَعْمَلُ فِیمَا جَاءَ عَنِ النبیِّ ﷺ دُونَ غَیرِہِ۔

محدثین کے ہاں وہ ایسی حدیث ہے جس کی سند آخر تک متصل ہو ۔زیادہ تر یہ لفظ اس حدیث کے لئے استعمال ہوتا ہے جو صرف آپ ﷺ کے بارے میں ہی ہو ۔نہ کہ کسی اور کے بارے میں۔

ابن عبد البرفرماتے ہیں: مسند: اسے کہتے ہیں جس کی سندخاص طور پر رسول اللہ ﷺ کی طرف اٹھائی گئی ہو۔ یہ متصل بھی ہوتی ہے اور کبھی منقطع بھی۔( مقدمہ ابن الصلاح : ۱۱۹)

مگر امام الحاکم فرماتے ہیں: مسند: وہی حدیث ہی ہوتی ہے جو متصل ہو اور رسول اللہ ﷺ تک مرفوع ہو۔

ان سب باتوں کو امام سیوطی نے اس شعر میں جمع کردیا ہے:

المُسْنَدُ الْمَرْفُوعُ ذَا اتِّصَالِ وَقِیلَ أَوَّلٌ وَقِیلَ التَّالِیْ

مسند، مرفوع اور متصل کو کہتے ہیں۔مگر کوئی کہتا ہے کہ: مرفوع، مسند ہوتی ہے اور کوئی متصل کو مسند کہتا ہے​

امام ابن حجر عسقلانی (النکت: ۱؍۵۰۶) میں فرماتے ہیں: امام حاکمؒ اور دوسرے محدثین نے مسند، متصل اور مرفوع میں فرق کیا ہے۔اور ان میں ترادف و اشتراک کے قائل نہیں۔ مگر حافظ ابن حجرؒ نے النخبۃ ص۱۵۴میں مسند کی تعریف یہ کی ہے:

مسند: مَرْفُوعُ صَحابِیٍ بسندٍ ظاہرِ الاتصالِ: بظاہر متصل سند کے ساتھ صحابی کا مرفوع کرنا۔مثلاً:

قال البُخَارِیُّ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا یَحْیَی قَالَ حَدَّثَنِیْ أَبُوسَلَمَۃَ، قَالَ حَدَّثَنِیْ بُسْرُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ حَدَّثَنِیْ زَیْدُ بْنُ خَالِدٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ: مَنْ جَہَّزَ غَازِیًا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَقَدْ غَزَا، وَمَنْ خَلَّفَ غاَزِیًا فِیْ سبیل اللہ فقد غزا۔

یہی مسند، مرفوع اور متصل ہے جس کے تعلق کو یوں بیان کیا گیا ہے۔ البیقونی ؒ شعر نمبر ۸میں لکھتے ہیں:

وَالْمُسْنَدُ الْمُتَّصِلُ الإسْنَادُ مِنْ رَاوِیْہِ حَتّٰی الْمُصْطَفَی وَلَمْ یَبِن

وہ حدیث جس کے راوی جناب مصطفی ﷺ تک متصل الاسناد ہوں بغیر کسی اختلاف کے وہ مسنَد ہوتی ہے ۔

۳۔ مُسْنَد :اسی طرح مسنَد اس کتاب کو بھی کہتے ہیں جس میں ہر صحابی کی مرویات ( احادیث یا اقوال )علیحدہ علیحدہ لکھی ہوں۔ یہ احادیث، اسماء صحابہ کی الفبائی ترتیب سے یا صحابہ کے حسب ونسب اور مقام ومرتبے کو ملحوظ رکھ کر جمع کی جاتی ہیں۔جیسے: مسند حمیدی، مسند طیالسی، مسند احمد وغیرہ۔ امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حمد بن احمد صیرفی نے مسند ابو داؤد کو محمد بن حسن النیلی سے سنا۔ چنانچہ مسند کا لفظ محدثین السنن پر بھی بولتے ہیں۔

مسنِد: یہ إسناد سے اسم فاعل ہے۔ جس کا لغوی معنی گذر چکا ہے۔

اصطلاحاً: اس راوی کا لقب ہے جو حدیث کو بروایت بیان کردے۔ خواہ اس کے بارے میںاسے علم ہو یا ہو توسوائے روایت کے اور کچھ نہ جانتا ہو۔ محدثین کے القاب میں یہ کم ترین درجہ ہے۔

سندکی ضرورت اور ابتداء: امام محمد بن سیرین (م۱۱۰ھ) اس کی وجہ یہ بیان فرماتے ہیں:

لَمْ یَکُونُوا یَسْألُونَ عَنِ الإسْنادِ فَلَمَّا حَدَثَتِ الْفِتْنَۃُ قَالُوا: سَمُّوا لَنَا رِجَالَکُمْ، فَیُنْظَرُ إِلٰی أَھلِ السُّنَّةِ فَیُؤْخَذُ حَدِیْثُھمْ ، وَیُنْظَرُ إِلٰی أَھلِ الْبِدْعَةِ فَلَا یُؤخَذُ حَدِیْثُھمْ۔ سند کے بارے میں علماء نہیں پوچھا کرتے تھے مگر جب شہادت ذوالنورین کا فتنہ رونما ہوا تو علماء نے ہر راوی سے یہ کہنا شروع کیا: ہمیں اپنے روایات کا مصدر بتاؤ۔ پھر یہ دیکھا جاتا کہ اگر وہ مصدر اہل سنت میں سے ہے تو اس کی حدیث لے لی جاتی اور اگر وہ اہل بدعت میں سے ہوتا تو اس کی حدیث بالکل نہ لی جاتی۔

اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مختار ثقفی کذاب کے زمانہ عروج میں بھی اسناد کے بارے میں سوالات اٹھے کیونکہ اس دور میں بکثرت ایسی روایات ظاہر ہوئیں جن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں خوب جھوٹ پھیلایا گیا۔(شرح علل الترمذی ۳۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نیز صوفیاء کا دعوی کہ ان کا شجرہ طریقت۔۔سیدنا ابوبکر وعلی رضی اللہ عنہما کے واسطے سے آپ ﷺ تک پہنچتا ہے مگریہ شجرہ بلاسند ہے۔ملا علی القاریؒ(موضوعات) میں واضح کرتے ہیں کہ صوفیاء جو اپنی نسبت حسنؒ بصری عن علیؓ سے ملاتے ہیں۔ ائمہ حدیث کے نزدیک ان کی ملاقات ہی ثابت نہیں۔تحصیل علم تو بڑی بات ہے۔ہاں جو ظاہری صحبت کے محتاج نہ ہوں وہ پھر نسخہ اویسیہ جیسا کارگر نسخہ استعمال کرتے ہیں جو شریعت کے ساتھ سوائے مذاق کے اور کچھ نہیں۔(شریعت وطریقت: ۱۸۳از کیلانی)

سند کی اہمیت:۔ ہم نے ابھی لغوی اعتبار سے لفظ سندکے کچھ فائدے لکھے ہیں جو سلف صالحین سے مستفاد ہیں۔ امام مسلمؒ نے صحیح کے مقدمہ میں لکھا ہے: باب الإِسْنادِمِنَ الدِّیْنِ۔ اور فرماتے ہیں:

حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاﷲِ بْنِ قُھْزَادَ مِنْ اَھْلِ مَرَدٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ انَ بْنَ عُثْمَانَ یَقُولُ: سَمِعْتُ عبدَاﷲِ بْنَ الْمُبَارَكِ یَقُولُ: الإِسْنَادُ مِنَ الدِّیْنِ وَلَوْ لَا الاِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَاشَاءَ۔ ا مام عبد اللہ بن المبارک فرماتے ہیں: اسناد ، دین میں سے ہے۔اگر اسناد نہ ہوتی تو کوئی بھی جو چاہتا وہی کچھ کہہ دیتا۔

اسی طرح ان کا یہ قول بھی :

وقَالَ مُحَمدُ بْنُ عَبدِاﷲِ: حَدَّثَنِی الْعَبَّاسُ بْنُ اَبِی رَزْمَةَ قَالَ:سَمِعْتُ عَبْدَاﷲِ: یَقُولُ: بیَنْنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْقَوَائِمِ، یَعْنِی: الإِسْنَادَ ۔

امام نوویؒ اس قول کی وضاحت میں فرماتے ہیں:۔

اس قول کا مطلب یہ ہے اگر حدیث صحیح اسنادکے ساتھ کرنا ضروری ہے ہم اسے ہی قبول کریں گے ورنہ چھوڑ دیں گے۔یعنی حدیث بھی بغیر سند کے کھڑی نہیں ہو سکتی جیسے ایک حیوان بغیر اپنے پاؤں یا یا ٹانگوں کے کھڑا نہیں ہوسکتا۔ امام اوزاعیؒ فرمایا کرتے: اسناد کے نہ ہونے سے ہی علم ختم ہوتا ہے اور اسے گھن لگتا ہے۔ امام سفیانؒ بن عیینہ فرماتے ہیں :

امام زہریؒ نے ایک بارحدیث پیش کرنا چاہی تو میں نے انہیں کہا: ھاتِہِ بِلا إسنادٍ۔ بغیر سند کے اسے بیان کیجئے۔ قال: أَتَرْقَی السَّطْحَ بِلَا سُلَّمٍ۔ تو وہ کہنے لگے: کیا آپ چھت پر بغیر سیڑھیوں کے چڑھنا چاہتے ہیں۔

بہرحال سند ، کسی بھی متن کو قبول کرنے کے لئے فیصلہ کن ہوتی ہے۔کہ کیا یہ حدیث قبول کی جائے یا رد کردی جائے۔

نوٹ: محدثین جب کہتے ہیں : فلاں نے تین سو یا پانچ لاکھ احادیث لکھی ہیں تو اس سے ان کی مراد اس حدیث یا آثار وفتاوی تابعین کی متعدد ومکرراسانیدہیں ۔امام یحییؒ بن معین کہا کرتے: لَو لَمْ نَکْتُبِ الْحَدِیْثَ خَمْسِیْنَ مَرَّةً مَا عَرَفْنَاہُ۔ اگر ہم حدیث کو پچاس مرتبہ نہ لکھیں ہم اسے سمجھ ہی نہ پائیں۔ ان کی مراد اسانید وآثار وفتاوی ہیں۔(سیر اعلام النبلاء۱۱؍۸۴) عبد اللہ بن جعفر کہتے ہیں: میں نے ابراہیم بن سعید الجوہری سے سیدنا ابوبکر ؓکی احادیث کے بارے میں پوچھا تو بچی سے انہوں نے کہا: مجھے مسند ابوبکر کا تیئیسواں جزء لا دو۔ میں نے عرض کی: سیدنا ابوبکرؓ سے تو صرف پچاس احادیث ہی ثابت ہیں۔ تیئس جزء کہاں سے آگئے؟ کہنے لگے: جس حدیث کی میرے پاس سو اسانید نہ ہوں تو میں پھر اس میں یتیم ہوں۔

احمد بن سلمہ کہتے ہیں امام مسلم رحمہ اللہ کی تالیف صحیح میں پندرہ سال میں ان کے ساتھ رہا مگر کتاب میں صرف بارہ ہزار احادیث تھیں۔ جس سے ان کی مراد مکررات تھیں۔ یعنی اگر انہوں نے حدیث یوں بیان کی: حَدَّثَنَا قُتَیْبَةُ، وَأَخْبَرَنَا ابْنُ رُمْحٍ۔ تو یہ دو احادیث شمار کیں۔ جن کے تمام الفاظ میں اتفاق مگر ایک کلمہ میں اختلاف تھا۔اس لئے ذخائر حدیث دیکھیں تو اسانید زیادہ ہیں مگر متون بہت کم۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا کہنا ہے:

أُصولُ الاَحْکامِ نَیِّفٌ وَّخَمْسُ مِائَۃِ حَدیثٍ، کُلُّھا عِنْدَ مَالِكٍ إِلاَّ ثَلاثِیْنَ حَدِیثًا، وَکُلُّھَا عِنْدَ ابْنِ عُیَیْنَةَ إِلَّا سِتَّةُ أَحادیْثَ۔ اصول احکام کی پانچ سو سے کچھ زائد احادیث ہیں۔ جو سوائے تیس کے سبھی امام مالکؒ کے پاس تھیں اور سوائے چھ کے باقی امام ابنؒ عیینہ کے پاس۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسناد عالی واسناد نازل: اسناد کی یہ دو قسمیں ہیں۔

إسناد عالی: مصدر عُلُوّ سے یہ اسم فاعل ہے۔ اور سِفْلٌ کی ضد ہے۔

اصطلاحاً: اسے کہتے ہیں جس کی سند کے راوی دوسری حدیث کی سند کے مقابلے میں کم ہوں۔ اس کو پہچاننے کا ایک طریقہ راوی اور شیخ کے مابین کا زمانہ ہے جو شیخ کی وفات کے بعد علو سند کی پہچان کراتا ہے۔

طلب علو سندکی دلیل: سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا سفر مجمع البحرین ہے۔اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کا بنو اسرائیل سے یہ فرمانا: {قَالَ اِنَّہٗ يَقُوْلُ}، ہد ہد کا سلیمان علیہ السلام کو ملکہ سبا کی خبر دینا اور یہ کہنا :{اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ}۔اور اس پر سلیمان علیہ السلام کا یہ فرمانا: {سَنَنْظُرُ ۔۔}تحقیق خبر کے بعد یہ فیصلہ کرنا بھی ہے کہ راوی سچا ہے یا جھوٹا۔ ۔رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں ضمام بن ثعلبہ کی آمد بھی طلب علو سند کی دلیل ہے تاکہ آپ ﷺ کے قاصد کی دی ہوئی خبر کی خود بلاواسطہ سماع کے ساتھ تصدیق کرلے۔صحابہ وتابعین ، نقاد ائمہ اور کبار محدثین نے اسناد عالی کے لئے دور دراز کے علاقوں کی رحلہ کی۔

امام احمدؒ فرماتے ہیں: طَلَبُ الإِسْنَادِ الْعُلُوِّ مِنَ السُّنَّةِ ۔ اسناد عالی کی طلب سنت رسول ہے۔
بقول ابن جوصاء:

إِسنادُ خَمسینَ سَنَةٍ مِنْ مَوتِ الشَّیخِ، إِسْنادُ عُلُوٍّ۔ شیخ کی موت کے پچاس سال کے بعدتک طالب علم اگر ہوش وہواس کے ساتھ زندہ رہے تو یہ اسناد عالی ہے۔

اسناد عالی میں صحیح بخاری کی بائیس ثلاثیات بھی ہیں۔جن میں امام بخاریؒ اور رسول اکرمﷺ کے مابین صرف تین اشخاص ہیں۔ ابوطاہر السلفی ؒنے گیارہ سال کی عمر میں شیخ ابن البطر سے احادیث سنیں جب کہ ان کی عمر ایک سو سے متجاوز تھی۔ ان کی وفات کے بعد السلفی خود سو سال سے زائد عرصہ حیات رہے اور یوں ان کی اسناد اپنے دور کی عالی سند تھی۔امام ذہبیؒ بھی اپنی ایک اسناد عالی پر فخریہ لکھتے ہیں: مجھے امام اللیثؒ بن سعد کی ایسی سند عالی کا شرف حاصل ہے کہ آج ۷۲۶ھ کو آسمان کے نیچے کوئی ایسا نہیں کہ اس کے اور اللیث کے درمیان چھ راوی ہوں۔یہ عالی سند پانچ طرح کی ہے۔ پہلی علو مطلق میں اور باقی چار علو نسبی میں پائی جاتی ہیں:

علو مطلق: ایسی سند جو ہر طرح سے صحیح ہو اور جس سے رسول اللہ ﷺ کا قرب حاصل ہو۔جیسے صحیح بخاری میں وارد ۲۲ثلاثیات ہیں کہ امام بخاریؒ جو ۲۵۶ھ میں فوت ہوئے اور آپ ﷺ ۱۱ھ میں۔ دونوں کے درمیان ۲۴۵سال کا عرصہ ہے مگر صرف امام بخاریؒ اور رسول اللہ ﷺکے درمیان تین نسلیں ہیں۔یہ بہت ہی عالی شان قرب ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ کو حاصل ہے۔ایسی سند اسانید عالیہ میں زیادہ اہم ہے۔

علو نسبی: اس سے مراد چار قسم کے قرب ہیں۔

۱۔ ائمہ حدیث امام اعمش، امام مالک وغیرہ میں سے کسی امام حدیث کا قرب جس سند میں حاصل ہوجائے۔ مثلاً:

قَالَ الْبُخَارِیُّ ثَنَا إسْمَاعِیْلُ ، ثَنِیْ مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِھابٍ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَةَ مَرْفُوعاً: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ۔ اس صحیح اور ستھری سند میں ایک ایک راوی اپنے وقت کا بہت بڑا امام ومحدث اور فقیہ ہے۔اور ہر ایک کا قرب بہت قلیل واسطوں سے امام بخاری رحمہ اللہ کو حاصل ہے۔

۲۔ ایسا علو سند جو کسی معتمد کتاب حدیث کی روایت کے قریب کردے۔ جیسے صحیحین کا قرب۔ یہ متأخر علماء حدیث کا مہتم بالشان مسئلہ ہے جسے انہوں نے ہی باقی رکھا ہے۔ ۔ یہ چار انواع کا ہے۔

أ۔ موافقت: کسی مصنف کی سند کے بغیر اس کے شیخ تک کم تر واسطوں سے پہنچنا اور پھر مصنف کی روایت میں مل جانا۔مثلاً: امام بخاری قتیبہ عن مالک سے ایک حدیث روایت کریں۔ بعد ازا ں کسی راوی کو ایک ایسی سند ملی جو قتیبہ عن مالک والی تھی۔ یوں امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ تک بغیر امام بخاریؒ کے واسطہ کے جو سنداسے ملی اس سے علو سند کے علاوہ موافقت بخاریؒ بھی اسے نصیب ہوگئی۔

ب۔ بدل: مثلاً یہی حدیث امام بخاری عن قتیبۃ عن مالک کی بجائے کسی اور شیخ سے ملی جوامام مالک کے شاگرد تھے یعنی قعنبی عن مالک۔ تو قعنبی ، قتیبہ کے بدل ہوگئے۔

ج۔ مساواۃ: کسی راوی کی سندحدیث ابتداء سے آخر تک مصنف کی اسی سندحدیث کے راویوں کی تعداد کے برابر ہو۔ مساواۃ کہلاتا ہے۔مثلاً: امام نسائی ایک روایت بہ سند بیان کرتے ہیں جس میں ان کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان گیارہ راوی ہیں۔کسی اور راوی کو بعینہ یہی حدیث ایک دوسری سند سے رسول اللہ ﷺ تک ملی جس میں گیارہ راوی ہیں۔تو یہ روایت امام نسائی کی روایت میں تعداد رواۃ کے برابر ہوگئی۔

د۔ مصافحہ: کسی راوی کی سند رسول اللہ ﷺ تک ہو اور اس کے مصنف شاگرد کی سند بھی آپ ﷺ تک ہو۔ اور دونوں کے راویوں کی تعداد برابر ہو اسے مصافحہ کہتے ہیں۔امام ابنؒ حجر فرماتے ہیں تو ایسی صورت میں ہم امام نسائی رحمہ اللہ کے برابر ہیں تو گویا ہم نے ان سے مصافحہ کرلیا۔

۳۔راوی کی وفات پہلے ہونے سے علو: مثلاً: ابن الصلاح کہتے ہیں: ایک شیخ سے میں روایت کرتا ہوں جو مجھے بیہقی سے اور وہ الحاکم سے روایت کرواتے ہیں۔ دوسری روایت وہی شیخ مجھے ابوبکر عبد اللہ بن خلف سے اور وہ حاکم سے روایت کرواتے ہیں گو دونوں سندیں عدد میں برابر ہیں۔ امام بیہقی کی وفات سن ۴۵۸ھ پہلے ہوئی اور خلف کی سن ۴۸۷ھ میں۔ یہاں علو کا سبب امام بیہقی کی پہلے وفات ہے کیونکہ رواۃ میں اس کا وجود نادر ہے بہ نسبت متأخر کے جسے بہت سے ساتھی آخر حیات تک ملے ہوں گے۔

۴۔ سماع مقدم کی وجہ سے علو: جیسے دو شخص ایک شیخ سے حدیث سنیں ۔ ایک نے ساٹھ سال پہلے سنا اور دوسرے نے چالیس سال پہلے۔سند میں عدد میں دونوں مساوی ہیں مگر پہلے کی سند اس لئے اعلی ہوگی کہ اس کا سماع مقدم ہے۔

خلاصہ: ان اسانید عالیہ کا خلاصہ یہ ہے:

۱۔ وہ سند جو صاف ستھری ، ضعف سے پاک اور خود صحیح ہو ۔یہ علو اسناد کی ایک اعلی ترین قسم ہے۔

۲۔ وہ سند جو کسی امام حدیث کے قریب ترین ہواور صحیح ہو۔

۳۔ وہ سند جو کسی مشہور کتاب تک ہو۔جیسے صحیح بخاری تک کی عالی سند۔

۴۔ وہ سند جس میں شیخ کی وفات دوسرے شیخ کی نسبت پہلے ہوئی۔

۵۔ وہ سند جس میں ایک شیخ کا سماع دوسرے سے پہلے نصیب ہوا۔وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إسناد نازل: اسے اسناد سافل بھی کہتے ہیں۔ جو سفل سے ہے اور علو کی ضد ہے۔

اصطلاحاً: وہ سند جس میں راویوں کی تعداد دوسری حدیث کی سند کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوں۔یعنی جو عالی کے برعکس ہو۔جیسے ابن ابی الدنیا بہت لوگوں سے روایت کرتے ہیں جو سب غیر معروف ہیں۔وجہ یہ بھی تھی وہ رحلہ کم کرتے۔ پھر ادھر ادھر سے انہیں روایت ملتی اور اسے نازل سند کے ساتھ لکھ لیتے خواہ وہ کیسی ہی بنتی ہو۔امام ابن حجرؒ اس کی وجہ یہ فرماتے ہیں:

محدثین میں علو سند ایک پسندیدہ شے تھی وجہ یہ تھی کہ وہ صحت اور قلت خطا کے قریب ترین تھی۔کیونکہ سند کے ہر راوی سے خطا ہوسکتی ہے اس لئے جتنے بھی درمیان میں رواۃ زیادہ ہوں اتنی ہی لمبی سند ہوگی جس میں خطا کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور جتنے بھی کم ہوں۔۔۔(شرح النخبۃ: ۳۱)۔

اقسام: اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔نازل مطلق اور نازل نسبی۔ جو علوکے برعکس ہیں۔

طبقات سند: لغت میں متشابہ لوگ۔جن کی ایک صفت میںاشتراک ہو۔ کو طبقہ کہتے ہیں ۔اس کی جمع طبقات ہے۔

اصطلاحاً: وہ معاصرلوگ جو کسی صفت میںایک دوسرے کے قریب ہوں جیسے: غزوہ بدر میں مشترک ہونا۔ یا فتح مکہ سے قبل اسلام لانا یا صحبت ، شہر ، عمر یا شیخ میں مشترک ہونا۔یاوہ لوگ جو عمریا استادمیں قریب ہوں۔ یا صرف اسناد میں قریب ہوں۔یعنی ایک کے شیوخ دوسرے کے بھی ہوں یا راوی ایک ایسے طبقہ سے ہو جن سے وہ ایک آدھ صورت میں ملتا جلتا ہو۔ ایسے افراد کا علم ہوجائے تو اشتباہ سے بچاجاسکتا ہے۔ محدثین نے چار اہم طبقوں پر سند کی بنیاد رکھی ہے۔ وہ طبقات سند یہ ہیں:

۱۔طبقہ صحابہ: یہ سند کا بالکل ابتدائی طبقہ ہے جو رسول اکرم ﷺ سے روایت کرتا ہے۔چونکہ سند مرفوع میں صحابی رسول کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ ان کی روایت ناقابل تردید اور عدالت سے پر ہوتی ہے: الصَّحَابةُ کُلُّھم عَدُولٌ۔ تمام صحابہ عادل ہیں۔ورنہ صحابی کے بغیر روایت شدہ حدیث مرسل کہلاتی ہے جو صحیح نہیں ہوتی۔

۲۔طبقہ تابعین: وہ شخص جو صحابی رسول کو حالت ایمان میں ملا ہوخواہ عرفی صحبت نہ ہی ہواور اسی حالت میں ہی وہ فوت ہوا ہو۔ائمہ حدیث نے آیت میں لفظ اتَّبَعُوھُمْ کا مصداق اسی نسل کے مسلمانوں کو سمجھا ہے ۔ان میں مخضرم تابعین بھی شامل ہیں جو زمانہ رسالت میں پیدا ہوئے مسلمان بھی تھے مگر رسول اکرم ﷺ کی زیارت نہ کرسکے۔ سبط ابن العجمی نے ایسے چالیس مخضرم تابعین کے نام گنوائے ہیں مگر سات فقہاء مدینہ سب پر ترجیح پا گئے ۔سند حدیث میں اس طبقہ کے ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ تابعی حدیث کو بذریعہ صحابی روایت کریں۔بصورت دیگر وہ حدیث منقطع ہوگی نہ کہ متصل۔

۳۔طبقہ اتباع التابعین: تبع تابعی، تابعی کے بعد کی نسل کو کہتے ہیں۔ اس کے لئے بھی وہی شرط ہے کہ بحیثیت مومن تابعی سے اس کی ملاقات ہوئی ہو اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا ہو۔روایت حدیث کے لئے تبع تابعی کا ثقہ وضابط ہونا بھی ضروری ہے تاکہ اس کی روایت قبول کی جائے۔جیسے امام مالک رحمہ اللہ ہیں۔تبع تابعی کی معرفت کا ایک یہ فائدہ ہے کہ مرسل اور منقطع کے درمیان تمیز کرلی جاتی ہے۔

۴۔ وہ طبقہ علماء جنہوں نے تبع تابعین سے براہ راست علم حدیث حا صل کرکے اسے روایت کیا ہو۔ یا اپنی کتب میں اس روایت کو انہوں نے لکھا ہو۔

اصول وقواعد:

٭… طبقہ کو بعض محدثین قرن بھی کہہ دیتے ہیں۔مثلاً الحسن بن عرفہ فرماتے ہیں: کَتَبَ عَنِّی خَمْسَةُ قُرُونٍ۔ مجھ سے پانچ قرون یعنی طبقات نے لکھا۔ پہلا طبقہ: ابن ابی حاتم کا۔ دوسرا طبقہ: ابن ابی الدنیا کا۔ تیسرا طبقہ: ابن خزیمہ کا۔ چوتھا طبقہ: محاملی کا اور پانچواں طبقہ الصفار کاہے۔

٭… ہر دو طبقات کی مجاذبت بھی ہونی چاہئے۔یعنی دونوں ایک دوسرے کے شاگرد واستاذ ہوں ورنہ مبالغہ آرائی میں طبقات کی تقسیم ہوگی تو غلط ہوگی جو بالآخر ہر طبقہ میں تین یا اس سے زائد طبقات جنم دیں گے۔راوی کے حال، مقام ومرتبہ کے تعین کے بعد اس کا شمار مخصوص طبقہ میں ہوگا۔یہ نہیں ہوسکتا کہ تابعی کو طبقہ صحابہ میں یا صحابی کو طبقہ تابعین میں رکھا جائے۔

٭…جب شیوخ مختلف ہوں تو طبقات طلبہ بھی مختلف ہوجاتے ہیں۔ اور سند بھی عالی یا نازل بن جاتی ہے۔

٭… طبقات ابن سعد پہلی موضوعی کتاب ہے جس کے مؤلف محمد بن سعد ہیں جوکاتب واقدی بھی کہلاتے ہیں۔ یہ کتاب دس جلدوں سے زائد ہے۔ پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بڑے صاحب علم انسان تھے۔علماء کہتے ہیں کہ ابن سعد نے اپنی طبقات میں واقدی سے بہت کم لکھا ہے کیونکہ وہ ضعیف تھے اور ابن سعد ان کی روایات کا انتخاب کرکے لکھا کرتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الانساب:
درجہ بالا سند میں آپ نے راوی کی نسبت پر بھی غور کیا ہوگا جو شہر، یا قبیلہ کے طرف عموماً ہوتی ہے۔علماء حدیث نے رواۃ کے حالات زندگی کو نسب نامے سمیت لکھ دیا ہے ۔ روایت حدیث میں یہ بڑی وقیع معلومات ہیں۔ قبائل وشعوب اور خاندان کی فروع تک کی تقسیم ان انساب میں موجود ہیں کیونکہ مستقبل کی طرف جتنا ہمارا رخ ہوگا اتنا ہی ماضی پارینہ ہوجاتا ہے۔اور ماضی حافظے سے محو ہوسکتا ہے ۔ اس لئے جد امجد کے ساتھ مختلف خاندانوں اور قبائل کابالترتیب اصطلاحات سمیت ذکر کرنا علماء انساب کا ایک اہم کام ہے۔جیسے: فصیلہ، فخذ، بطن، عمارۃ، قبیلہ اور شعب۔اس لئے قرشی، قیسی، اور ہمدانی تو کوئی بھی ہوسکتا ہے مگر بالعکس نہیں۔مثلاً آپ ﷺ بنو مطلب سے تھے۔ یہ آپ کا فَصِیلَۃ ہوا۔ جس میں آپ ﷺ کے چچا اور چچازاد شامل ہیں۔ پھر آپ کا فَخِذ بنوہاشم ہیں اور بَطَن بنو عبد مناف۔ قریش آپ کی عِمَارۃ ہیں اور بنو کنانہ آپ کا قَبِیْلَہ، اور مضر آپ کی شَعْب یعنی قوم ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

اللہ تعالی نے بنوکنانہ کا انتخاب اولاد اسماعیل سے کیا اور قریش کا کنانہ سے، اور ہاشم کا قریش سے، اور مجھے بنوہاشم سے منتخب کیا۔(مسلم)

آپ ﷺ کی والدہ محترمہ آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب ہیں۔ کلاب تک کی نسبت میں ان کے خاوند عبداللہ بھی آملتے ہیں۔

راوی حدیث کا تعارف اور مختلف علوم​

اوپر ہم نے طبقات اور انساب کے بارے میں مختصر معلومات دی ہیں جن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ راویان حدیث کا تعارف نیز رواۃ کے علوم کیسے ہمہ جہتی ہیں جودوسرے علوم میں شاید نہیں بلکہ علم حدیث میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ذیل میں ایک مختصر سا چارٹ بطور تعارف پیش کررہے ہیں جس سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ علماء حدیث نے راوی حدیث کا ہر پہلو سے جائزہ لیا اور کوئی گوشہ شاید ہی ایسا ہو جسے انہوں نے بعد والوں کے لئے بطور سوال چھوڑا ہو۔

۱۔ معرفۃ الصحابۃ۔ بے شمار کتب ہیں جن میں صحابہ کرام کا تعارف کرایا گیا ہے اور ان کے طبقات ومراتب پر یا ان کی عدالت پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔

۲۔معرفۃ التابعین: تابعین کرام کا تعارف۔ اس موضوع پر بھی بہت سی تصنیفات ہیں۔ طبقات ومراتب کے تعین اور کبار ومتوسط صغار تابعین کی بحث بالخصوص فقہاء سبعہ کا علمی اور روایت حدیث میں ان کا مقام اس علم کے خاصے ہیں۔

۳۔ معرفۃ المبہمات: ایسے لوگ جن کا ذکر حدیث میں یا روایت میں مبہم آیا مثلاً: رجل یا امرأۃ کے الفاظ۔ ایسے افراد کا تعین اور ان کے ناموں کا سراغ ان کا متن یا روایت میں مقام متعین کیا گیا ۔اس موضوع پر بھی بے شمار مطبوع کتب ہیں۔

۴۔ معرفۃ الوحدان: ایسی روایت جس میں منفرد راوی ہوں اور کوئی دوسرا اس روایت میں شریک نہ ہو۔ ان کی ثقاہت وضعف کا تعین۔ نیز خبر واحد میں اس حدیث کا درجہ کیا ہے؟ اس پر بھی علماء کی کتب موجود ہیں۔

۵۔ معرفۃ من ذکر بأسماء أوصفات مختلفۃ۔وہ راوی جسے مختلف ناموں اور صفات سے بیان کیا گیا۔

۶۔ معرفۃ المفردات من الاسماء والکنی والالقاب۔ ایسے راوی جو اپنی نام ، کنیت یا لقب میں منفرد ہیں۔

۷۔ معرفۃ المشہورین بکناہم: ایسے راوی جو اپنی کنیت میں زیادہ مشہور ہوئے۔

۸۔ معرفۃ الالقاب۔ راوی جن کے مخصوص لقب تھے۔ان کا تعارف۔

۹۔معرفۃ المنسوبین إلی غیر آبائہم۔ وہ راوی جو اپنے والد کی بجائے کسی اور کی طرف منسوب تھے۔

۱۰۔ معرفۃ النسب التی علی غیر ظاہرہا۔ غیر حقیقی نسبتوں والے راویوں کا تعارف۔

۱۱۔ معرفۃتواریخ الرواۃ۔راویوں کی تاریخی معلومات

۱۲۔ معرفۃ من خلط من المحدثین۔ محدثین میں جو اختلاط کا شکار ہوئے ان کی معلومات

۱۳۔ معرفۃ طبقات العلماء والرواۃ۔ علماء اور راویوں کے طبقات کا تعارف۔

۱۴۔ معرفۃ الموالی من الرواۃ والعلماء۔ موالی راویوں اور علماء کا تعارف۔

۱۵۔ معرفۃ الثقات والضعفاء من الرواۃ۔ ثقہ اور ضعیف راویوں کا تعارف

۱۶۔ معرفۃ أوطان الرواۃ وبلدانہم۔ راویوں کے شہروں اور وطن کا تعارف۔

۱۷۔ معرفۃ المخضرمین۔ مخضرم راویوں کا تعارف

۱۸۔ معرفۃ الثقات الذین ضعفوا۔ ان ثقہ راویوں کا تعارف جو ضعیف قرار دئے گئے۔

۱۹۔ معرفۃ أسماء رجال الکتب الستۃ۔ صحاح ستہ کے راویوں کا تعارف

۲۰۔معرفۃ رجال الصحیحین۔ صحیحین کے راویوں کا تعارف

متن اور اس کے معنی​

لغت میں: لسان العرب میں( ۱۳؍۳۹۸) ہے:

الْمُتْنُ: مَا ارْتَفَعَ مِنَ الاَرْضِ وَ اسْتَوَی ۔وَ قِیْلَ: مَا ارْتَفَعَ وصَلُبَ۔ جو چیز زمین سے اٹھی ہوئی اور برابر ہو اسے متن کہا جاتا ہے۔یا جو اٹھی ہوئی اور سخت زمین ہو وہ متن کہلاتی ہے۔متن : کمر کو بھی کہتے ہیں جو جسم کا مضبوط ترین حصہ ہوتاہے۔متن غایت کو بھی کہتے ہیں عرب کہا کرتے ہیں: مَتَنْتُ الْکُبْشَ: میں نے مینڈھے کو اس کی کھال سے علیحدہ کیا۔گویا کہ مسند متن کو اس کی سند سے باہر نکال لاتا ہے۔یا تَمْتِیْنُ الْقَوْسِ سے ہے۔ جس کی رسی کو انتہائی مضبوطی کے ساتھ کمان سے باندھا جاتا ہے اسی طرح مسند بھی متن کو سند کے ساتھ مضبوطی سے باندھتا ہے۔

اصطلاح میں:متن کی تعریف ابن جماعہؒ یہ کرتے ہیں:

الْمَتْنُ: ھُوَ مَا انْتَھَی إِلَیہِ غَایَةُ السَّنَدِ مِنَ الْکَلَامِ۔ وہ کلام جہاں سند آکر ختم ہو جائے اسے متن کہتے ہیں۔

چونکہ مُسْنِد، حدیث کو بذریعہ سند مضبوط و سخت یا ظاہر کر دیتا ہے اور اسے سند کے ذریعے ہی قائل تک اٹھا لے جاتا ہے۔ اس لئے نص حدیث یا الفاظ حدیث کو متن کہتے ہیں جس سے بے شمار معانی ظاہر ہوتے ہیں۔

سندومتن کی مثال : صحیح بخاری کی کتاب العلم کی حدیث نمبر ۱۰۹میں ہے:

حَدَّثَنا مَکِّیُّ بْنُ إبراھیمَ قال:حدثنا یزیدُ بنُ أبی عُبَیدٍ عَن سَلِمَةَ قَال:سَمِعتُ النبیَّ ﷺ یقولُ: مَنْ یَقُلْ عَلَیَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْیَتَبَّوَّاْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ جو مجھ پر وہ بات گھڑ دیتا ہے جو میں نے نہیں کہی۔تو وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ بنالے۔ (باب إثم من کذب علی النبی ﷺ )

امام بخاری ؒ کا یہ قول :

حَدَّثَنا مَکِّیُّ بْنُ إبراھیمَ قال: حدثنا یزیدُ بنُ أبی عُبَیدٍ عَن سَلِمَةَ قَال: سَمِعتُ النبیَّ ﷺ یقولُ:

اسی کو الإخبارُ عَنْ طَرِیقِ الْمَتْنِ۔ یعنی متن کے راستے کی خبر دینا۔ کہتے ہیں۔

متن کی تعریف ہم نے یہ پڑھی تھی کہ مَا انْتَھَی إِلَیہِ السَّنَدُ مِنَ الْکلَامِ ۔وہ کلام جس کا آغاز سند کے اختتام پر ہو۔ چنانچہ اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد متن کہلاتا ہے:

مَنْ یَقُلْ عَلَیَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْیَتَبَّوَّاْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّار


نوٹ: مذکورہ حدیث میں آپ نے بغور دیکھا کہ اما م بخاریؒ اور رسول اﷲﷺ کے درمیان صرف تین راوی ہیں۔ امام بخاریؒ کی ایسی احادیث کو ثلاثیات بخاری کہا جا تا ہے۔ صحیح بخاری میں عام ترتیب کے اعتبار سے یہ حدیث نمبر ۱۰۹ہے۔مگر ثلاثیات بخاری کے اعتبار سے یہ حدیث سب سے پہلی ہے۔حافظ ابن حجرؒ فتح الباری(۱؍۲۴۳)میں لکھتے ہیں:

وھَذَا الْحَدیثُ أَوَّلُ ثُلا ثِیٍّ وَقَعَ فِی الْبُخارِیِّ ۔وَلَیْسَ فِیہِ أَعْلٰی مِنَ الثُّلَاثِیَاتِ، وَ قَدْ أَفْرَدتُّ فَبَلَغَتْ أَکْثَرُ مِنْ عِشْرینَ حَدیثًا۔ صحیح بخاری میں یہ پہلی ثلا ثی روایت ہے۔ثلاثیات میں اس سے بہتر اور اعلی کوئی روایت نہیں۔ میں نے ایسی احادیث کو ڈھونڈا ہے جن کی تعداد بیس سے زائد ہے۔

٭…اس عربی عبارت میں۔۔أعْلٰی سے مراد۔یہ بھی ہے کہ سند میں ثقہ راوی خواہ کم ہوں وہ اس سند سے کہیں اعلی ہوگی جس کے رجال سندمیں زیادہ اور عادل ہوںبلکہ وہ نازل ہوگی۔امام بیقونیؒ فرماتے ہیں۔

وکُلُّ ما قَلَّتْ رِجاَلہُ علَا وضِدُّہُ ذَاكَ الَّذِیْ قَدْنَزَلَا

ہر وہ حدیث جس کے راوی کم سے کم ہوں وہ سند عالی ہوگی ورنہ سندنازل ۔

ملاحظہ: امام ابن حجرؒ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ طالب علم کو سند سے متعلق تمام معلومات ہونی چاہئیں۔ بالخصوص سند عالی اور سند نازل کی۔ لَیْس فِیہ أَعْلٰی مِنَ الثُّلاثِیَاتِ کا مفہوم بھی یہ ہے۔

اس سندکے طبقات:

پہلے طبقہ میں۔ سلمۃبن عمرو بن الاکوع(م: ۷۴ھ)صحابی رسول ہیں۔دوسر ے میں یزید بن ابی عبیدہ ابوخالد اسلمی ،(م: ۱۴۶ھ) تابعی ہیں سلمہ بن الاکوع سے روایت کرتے ہیں اور ان کے مولیٰ( آزاد کردہ غلام )ہیں۔تیسرے طبقہ میں: مکی بن ابراھیم ابو السکن بلخی(م:۲۱۴ھ) ہیں جو اتباع تا بعین میں سے ہیں۔اور یزید بن ابی عبیدہ سے روایت کرتے ہیں۔ابو الحجاج المزی (تہذیب الکمال ۲۸؍۴۸۰ )میں لکھتے ہیں۔انہوں نے سترہ تا بعین سے حدیث سنی جن میں یزید بن ابی عبیدہ بھی ہیں جن کا ذکر اس روایت میں آیا ہے۔مکی، اما م بخاری کے بڑے شیوخ میں سے ہیں۔ مکی نام ہے نہ کہ نسبت۔چوتھے طبقے میں خود اما م بخاری ؒ ہیں جنہوں نے تبع تابعین سے حدیث سنی۔اور اسے اپنی کتاب میں روایت کیا۔

اصول وقواعد:

٭…حدیث کے دونوں حصے کسی بھی حدیث کو جانچنے کے لئے ضروری ہیں صرف سندی اعتبار سے تجزیہ درست نہیں ہوگا جب تک متن کو نہ کھنگال لیا جائے اور نہ ہی اس کے برعکس۔

٭… یہ ضروری نہیں کہ سند اگر صحیح ہو تو متن بھی صحیح ہوگا۔کیونکہ کبھی متن میں شذوذ اور نکارت ظاہر ہوجاتی ہے یا اصول صحیحہ کی مخالفت بھی۔اسی طرح اس کے برعکس۔ دونوں کو اصول کے مطابق پرکھنا ہوگا۔

٭…تمام ترصحیح اسانیدکا انحصار ودارومدار ان چھ علماء پرہے: اہل مدینہ کی اسانید امام محمد بن شہاب الزہری رحمہ اللہ پر۔ اہل مکہ کی عمرو بن دینار پر، اہل بصرہ کی قتادۃ اور یحییٰ بن کثیر پر، اہل کوفہ کی ابواسحق اور اعمش پر، پھر ان چھ علماء کا علم ان مصنفین میں جمع ہوگیا جو علوم حدیث کے ماہراور مصنف تھے۔ مدینہ میں امام مالک اور ابن اسحاق کے پاس، مکہ میں ابن جریج اور ابن عیینہ کے پاس، بصرہ میں ابن ابی عروبہ، حماد بن سلمہ، شعبہ، ابوعوانۃ اور معمر کے پاس، معمر نے ان سابق چھ علماء سے سماع بھی کیا، اور کوفہ میں سفیان ثوری کے پاس اور شام میں اوزاعی کے پاس اور واسط میں ہشیم کے پاس۔حماد بن زید اور اللیث کو بھی ان میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ پھر ان سب کا علم یحییٰ بن سعید القطان ، یحییٰ بن ابی زائدۃ، عبد الرحمن بن مہدی، یحییٰ بن آدم، ابن المبارک، وکیع اورابن وہب جیسے علماء میں جمع ہوگیا۔(تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۳۶۰، سیر اعلام النبلاء ۹؍۵۲۶)

٭٭٭٭٭​

غیبی مدد​

قرآن کریم کو اللہ تعالی نے معجزہ وچیلنج بنایا اوردیگر کتب سے ممتاز کیا ۔ یہی قرآن اب تک روز اول سے ہم تک اپنی اصل صورت میں منقول ہوتا چلا آرہا ہے کسی نے یہ جرات نہیں کی کہ وہ اس کے الفاظ وحروف کو تبدیل کرسکے۔مگر شیطان نے یہ ذلیل حرکت ضرور کی کہ قرآن کریم کے معانی اور مفہوم میں تاویل کے انبار اور ہیر پھیر کرکے تحریف وتبدیلی کرے۔بعینہ اس کی یہ حرص وخواہش بھی رہی کہ احادیث رسول میں کچھ کمی وزیادتی ایسی کردے جس سے کچھ بندے تو گمراہ ہوسکیں۔


رب کریم نے علماء حق کو ۔۔ جو ہدایت وراستی کا منارہ نور تھے اور انتہائی بیدار مغز وناقد تھے۔۔ توفیق بخشی کہ وہ اس شیطانی گروہ کی خبر لیں اور حق وبہتان کے مابین فرق کریں۔انہوں نے سنت رسول ومعانی قرآن میں کی گئی کسی بھی کمی وبیشی کا ازالہ کیا اور ان دونوں کی حفاظت کی۔ چنانچہ دین کا ہر عالم جس پر اللہ تعالی نے اپنی دینی نعمت نچھاور کی وہ ان فقہاء کانائب بن گیا جو قرآن وحدیث کے معنی ومفہوم کو بخوبی جانتے تھے۔اس نے قرآن وسنت میں کی گئی ہر قدیم وجدید خطا وغلطی کو دور کیا۔ ان میں کچھ غلطیاں ظاہر وباہر تھیں جن سے اغماض نہیں برتا جاسکتا تھا اور کچھ مخفی تھیں جن کی اصلاح کے لئے عادل علماء کا اجتہاد ہی کام آیا۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مصطلحات حدیثیہ


کچھ اصطلاحات کو متعارف کرانے کا مقصد یہ ہے کہ علوم شریعہ میں ان کی کیا اہمیت ہے؟ یہ اصطلاحات درج ذیل ہیں:

خبر ،حدیث ، سنت ، اثر

۱۔ خبر : لغت میں خبر بمعنی نبأ کے ہے جس کی جمع اخبار ہے۔

اصطلاح میں حافظ ابن حجرؒ نے شرح النخبہ ص (۷) میں علمائے حدیث کی تین آراء کو لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

۱۔ الخَبَرُ عِنْدَ عُلَمَاءِ ھذَا الْفَنِّ مُرَادِفٌ لِلْحَدِیثِ: اس فن کے علماء یعنی محدثین خبر کو حدیث کا مرادف (synonym) سمجھتے ہیں۔

یعنی حدیث و خبر کی تعریف ایک ہی ہے۔جیسے بشر وانسان۔ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ دونوں اصطلاحات مرفوع، موقوف اور مقطوع کے لئے بھی استعمال ہوسکتی ہیں۔
کچھ علماء کہتے ہیں: مرفوع کے علاوہ پریہ اصطلاح پھرمقیدہوگی۔مثلاً: ھذََا حَدِیْثٌ مَوْقُوفٌ عَلَی أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ۔

۲۔یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ وہ اس طرح کہ:

الْحَدِیثُ مَا جَاءَ عَنِ النبیِّ ﷺ وَاْلخَبَرُ مَا جَاءَ عَنْ غَیْرِہِ ۔ جو خبر ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کی طرف سے آئے اسے حدیث ، اورجو غیرنبی کی طرف سے یعنی صحابہ یا تابعین وتبع تابعین وغیرہ کی طرف سے آئے وہ خبر ہوگی۔

اسی سبب سے علم تاریخ سے شغف رکھنے والے کو اخباری کہہ دیتے ہیں جیسے: عسل بن ذکوان الاخباری، ابوعیینۃ بن محمد بن ابی عیینۃ الاخباری اور محمد بن عبد اللہ ابوعبد اللہ الاخباری بغدادی۔وغیرہ۔ اور جو حدیث وعلم حدیث میں شغف رکھتا ہو اسے محدث کہہ دیتے ہیں۔ مگرعلماء خراسان کا نظریہ یہ ہے کہ خبر اسے کہیں گے جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہو اورثر وہ ہوگی جو غیر نبی سے مروی ہو۔

۳۔ ان دونوں کے مابین عام وخاص کی نسبت ہے۔یعنی حدیث صرف رسول محترم ﷺ سے آئے گی اور خبر آپ ﷺ سے یا کسی اور سے۔مراد یہ کہ ہرحدیث، خبر ہے مگر ہر خبر، حدیث نہیں۔بالعکس نہیں ہو گی۔اس نسبت کو عموم وخصوص مطلق کہتے ہیں۔

مثلاً: حدیث میں ہے: لَا صَلاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ۔ اس میں لَا صَلَاۃَ: عام ہے ہر قسم کی نماز کو شامل ہے۔ بَعْدَ الْعَصْرِ: وقت کے لحاظ سے خاص ہے۔ اسی طرح : إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلَا یَجْلِسْ حَتّٰی یُصَلْیَ رَکَعَتَینِ۔ میں إِذَا دَخَلَ أَحدُکُم ُالمَسجِدَ: وقت میں عام ہے اور فَلَا یَجْلِسْ حَتّٰی یُصَلِّیَ رَکَعَتَینِ نماز میں خاص ہے۔ ان دونوں کے درمیان عام وخاص کی نسبت ہے۔

٭…اہل بلاغت ہر اس قول کو خبر کہتے ہیں جس میں سچ اور جھوٹ کا احتمال ہو۔اس سے قطع نظر کہ اس کا قائل کون ہے۔یا ہر قول کو سچ یا جھوٹ قرار دینا درست ہواسے بھی خبر کہتے ہیں خواہ اس کا قائل کوئی بھی ہو۔اس لئے احادیث رسول یا سنت نبویہ جن میں صیغہ امر ونہی آئے ہیں سبھی بذریعہ خبر ہی آئے ہیں جن میں صدق وکذب کا احتمال بھی ہوسکتا ہے۔لہٰذا جو حدیث کو بیان کرے گا ممکن ہے اسے سامع کہے : صدقتَ یا کذبتَ۔اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی طرف جو بات منسوب ہو وہ آپ ﷺ نے نہ کہی ہو۔

حافظ ابن حجرؒ نے ان تینوں اقوال میں سے آخری قول کو ترجیح دیتے ہوئے کہا ہے: وَعَبَّرْتُ ھُنَا بِالْخَبَرِ لِیَکُونَ أَشْمَلَ۔ میں نے اس کتاب میں (نخبۃ الفکر) حدیث سے مراد خبر ہی لی ہے تاکہ بات زیادہ جامع اور واضح ہوجائے۔

۲۔حدیث : لغت میں قدیم کی مقابل ہے۔ اس سے مراد نئی چیز یا بات۔ قصہ، کہانی۔ قرآن کریم کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔

اصطلاحاً: جوقول وعمل یا تقریر یا صفت خَلقی و خُلُقی خواہ بعثت سے پہلے کے ہوں یا بعد کے۔اور وہ نبی ﷺ کی طرف منسوب ہوں اسے حدیث کہتے ہیں۔غبر نبی کے اعمال واقوال یا صفات سے ممتاز کرنے کے لئے اہل علم نے یہ اصطلاح صرف رسول اکرم ﷺ کے لئے مخصوص کرلی اور آپ ﷺ نے بھی فرمائی۔

امام ابن حجر ؒ صحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں:
المُرَادُ بِالْحَدِیثِ فِی عُرْفِ الشَّرْعِ مَایُضَافُ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ۔
شریعت میں حدیث سے مراد وہ چیز جو آپ کی طرف منسوب ہو۔

فائدہ: امام سیوطی ؒ فرماتے ہیں:
وَکَأَنَّہُ أُرِیْدَ بِہِ مُقَابَلَةُ الْقُرْآنِ لِأنَّہُ قَدِیْمٌ۔
لفظ حدیث اصل میں قرآن کے قدیم ماننے کا اعلان ہے کیونکہ اس کے مقابلے میں حدیث جدید ہے۔اس اصطلاحی معنی سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ حدیث: آپ ﷺ کی طرف منسوب کسی قول یا فعل یا تقریر یا صفت کا نام ہے۔اس لئے حدیث وسنت کے شائق کو اثری یا محدث کہتے ہیں۔

۳۔سنت:

لغت میں فُعْلَۃٌ کے وزن پر ہے بمعنی مفعولۃٌ۔ سَنَنْتُ الإِبِلَ سے ہے جب ان کا بخوبی خیال رکھا جائے۔لغت میں اس کے متعدد معانی ہیں: منہج، راستہ یا سیرت کوبھی سنت کہتے ہیں۔خواہ وہ اچھی ہویا بری۔اسی معنی میں آپﷺ کا ارشاد ہے:
(مَنْ سَنَّ فِی الإسلامِ سُنَّةً حَسَنَةً ۔۔۔ مَنْ سَنَّ فِی الإسلامِ سُنَّةً سَیِّئَةً۔۔)
جس نے اسلام میں کسی اچھے طریقے کو رواج دیا ۔۔ جس نے اسلام میں کسی برے طریقے کو رواج دیا۔(متفق علیہ)

لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ شِبْراً بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتّٰی لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَاتَّبَعْتُمُوھمْ۔ قُلْنَا: یَارَسُولَ اللہِ! اَلْیَھوْدَ وَالنَّ•صَارٰی؟ قَالَ: فَمَنْ؟
تم ضرور اپنے سے پہلوں کی پیروی کروگے دست بدست اور بازو بہ بازو۔ حتی کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی ضرور ان کی اتباع کروگے۔ ہم نے عرض کی: کیا یہود ونصاری کی پیروی ہوگی؟ آپ نے فرمایا: تو اور کس کی؟ (متفق علیہ)

ان احادیث میں لفظ سنت معاصی اور شریعت کی مخالفت نیز ان کی اقتداء و عمل کے لئے بھی بولا گیا ہے۔

اصطلاحاً : محدثین سنت کو حدیث کا مرادف کہتے ہیں:

مَا أُضِیفَ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ مِنْ قَولٍ، وَفِعْلٍ، وَتَقْریْرٍ وَ ھِیَ مُرَادِفَةٌ لِلْحَدِیْثِخطأ ۔
جو قول وفعل اور تقریر رسول اکرم ﷺ کی طرف منسوب ہو۔

نوٹ: ایسی صورت میں سنت، صرف حدیث مرفوع کو شامل ہوگی۔ اس لئے رسول اکرم ﷺ کی ہر چیز سنت ہوگی جس کی خبراللہ تعالی نے ہمیں دی کہ یہ آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے یا قدوہ و رول ماڈل ہے۔پھراس کی تابعداری مسلمان پر فرض ہے۔ اس سنت میں عقائد واحکام و سیرت، اخلاق، شمائل، اخبار، اقوال وافعال سبھی شامل ہیں۔یہ سنت ، تشریعی بھی ہے اور عرفی بھی۔ ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سنت لامتناہی مفاہیم واسالیب کا بھی نام ہے۔ جیسے: کائنات، فطرت ، سوسائٹی ، اقتصاد ، مختلف علوم اور دیگر معاملات کی عام معلومات اگر رسول محترم سے ملتی ہیں تو وہ بھی سنت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحاح اور سنن کی کتب میں ایمانیات و احکام کے ساتھ اخلاق پر مشتمل احادیث بھی ہیں۔اسلاف بدعت کے مقابلے میں لفظ سنت استعمال کرتے۔ جو سنت نبویہ ، سنت صحابہ اور تابعین اور ان کے بعد کے سلف صالحین کے طریقے پرچلتا اسے اہل السنۃ کا خطاب دیتے۔ اور جو اسلاف کے طریقے کو چھوڑ کر مخصوص سوچ یا افراد کے پیچھے لگتا اسے اہل الرائے کہتے۔اور جو اپنے نئے طریقے بطور ثواب کے گھڑتا اسے اہل البدعۃ کہتے۔

۴۔ اثر : لغت میں أ ثرشے کے باقی ماندہ نشان کو کہتے ہیں۔یاریتلی زمین پر آدمی کے چلنے کے نشانات کو کہتے ہیں۔مشہور جاہلی شاعر کہتا ہے:

وَالْمَرْءُ مَا عَاشَ مَمْدُوْدٌ لَہُ أَثَرُ۔
آدمی جب تک زندہ رہے اس قدر اس کے نشانات پھیلے چلے جاتے ہیں۔

قرآن مجید میں ہے:
{ أو أثارۃ من علم۔۔}
میں أثَاَرَۃٍ سے مراد وہ علم ہے جس کے آثار تاحال روایت یا تحریر کی وجہ سے باقی ہوں۔کہا جاتا ہے: أَثَرْتُ الْعِلْمَ رَوَیْتُہُ۔ یعنی میں نے علم کو روایت کیا ۔ أ ثرکے اصل معنی روایت یاعلم کو تلاش کرنا، کے ہوتے ہیں۔( المفردات (ص:۹) ۔

اصطلاحاً: اس کے تین معانی ہیں:

۱۔ اثر ، حدیث کے مقابلے میں عام ہے اور حدیث خاص ۔یعنی اثر اسے کہتے ہیں جو رسول اکرم ﷺ سے یا کسی اور سے مروی ہو۔اس لئے مرفوع، موقوف اور مقطوع کو بھی اثرکہا جاتا ہے۔جس کی شہادت امام ابوجعفر الطحاویؒ کی کتاب شرح معانی الآثار ہے۔جس میں مرفوع، موقوف اور مقطوع ومراسیل روایات ہیں۔ لغوی اعتبار سے یہ معنی ہی صحیح ہے۔کیونکہ لفظ أَثَر، أَثَرْتُ الْحَدِیْثَ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے: رَوَیْتُہُ۔ میں نے اسے روایت کیا۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں: اثر کے بارے محدثین کرام کا نکتہ نظر ہی زیادہ پسندیدہ ہے۔اور سلف وخلف نے اسی معنی میں ہی اسے استعمال کیا ہے کہ اثر صرف مروی پر بولا جائے خواہ وہ رسول اللہ ﷺ سے ہو یا کسی صحابی سے۔

۲۔ اثر، حدیث سے مختلف ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اقوال کے علاوہ صحابہ وتابعین کرام کے اقوال، افعال اور تقریرات وغیرہ کوبھی کہتے ہیں۔علماء خراسان نے اثر کی تعریف یہی کی ہے:

مَا یُرْوَی عَنْ غَیْرِ الرَّسُولِ ﷺ فَیُطْلَقُ عَلَی غَیْرِ الْمَرْفُوعِ۔ جو رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی اور سے مروی ہو اور مرفوع کے علاوہ کسی اور پر یہ چسپاں ہو۔

ابو القاسم فورانی کہتے ہیں کہ ہمارے فقہاء کا کہنا ہے: خبر وہ ہے جو نبی کریم ﷺ سے مروی ہو اور اثر وہ جو صحابہ کرام سے۔اس طرح اثر کی اصطلاح موقوف ومقطوع دونوں پر منطبق ہوگی نہ کہ مرفوع پر۔حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب مَعْرِفَۃُ السُّنَنِ وَالآثَارِ کا نام بظاہر اسی چیز کو اجاگر کرتا ہے کہ اثر مرفوع کو نہیں بلکہ غیر مرفوع کو کہتے ہیں۔ اسلاف اس تفریق میں اس کے امام تھے۔ اور بیہقی رحمہ اللہ نے یہ تفریق وامتیاز ان خراسانی علماء کی تحریر میں بکثرت پایا اورجسے متأخرین نے سراہا بھی۔اس لئے وہ موقوف کو اثر کہتے ہیں اور مرفوع کو خبر۔

۳۔ اثر ،محدثین کرام اسے صرف حدیث کا معنی ہی دیتے ہیں۔ اس کی جمع آثار ہے۔رسول اللہ ﷺ کی سنن آپ ﷺ کے آثار ہیں۔حدیث ماثور بھی اسے کہتے ہیںجو لوگ ایک دوسرے کی خبر دیتے آئیں۔ یعنی جسے اخلاف اپنے اسلاف سے نقل کریں۔اثری: یہ اثر کی طرف نسبت ہے وہ شخص جو جماعت و آثار کی اتباع کرتا ہے نہ کہ معین شخص کی ۔

لفظ أثر کی شرعی دلیل :
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

جو شخص اگر کسی چیز کو دین بنانا چاہتاہے تو اللہ سبحانہ وتعالی کا اس سے یہ مطالبہ ہے:{ائتونی بکتاب من قبل ہذا أو أثارۃ من علم۔۔} الاحقاف:۴)۔ یعنی اس قرآن سے پہلے تمہارے پاس اپنے عقائد ونظریات کی کوئی کتاب ہے یا کوئی علمی نشانات ہیں تو لے آؤ۔اس آیت میں کتاب سے مراد تو کتاب ہی ہے اور أثارۃ سے مراد جیسا کہ سلف میں سے کسی نے کہا ہے: روایت واسناد ہے۔ کچھ نے خط بھی مراد لیا ہے کیونکہ روایت ہو یا اسناد، وہ خط سے ہی لکھی جائے گی اس لئے کہ أثارۃ ، اثر سے ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اجو مطاع ہے وہ اپنے علم کو سند کے ذریعے مؤثر ومقبول بنائے گا۔ یا اسے خط سے مقید کرے گا اس طرح یہ اس کے آثار بن جاتے ہیں۔

امام حاکم رحمہ اللہ نے المَدْخَلُ إِلٰی کتابِ الإِکْلِیْلِ میں مطر الواراق کا ایک قول ذکر کیا ہے {أو أثارۃ من علم۔۔} سے مراد اسناد حدیث ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کادرجہ بالا قول اس کی مکمل تائید ہے۔ اس ساری گفتگو سے ہم یہی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اثر کے بارے میں علماء کے دو اقوال ہیں:

۱۔ محدثین کی اصطلاح میں اثر اور حدیث ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔دونوں میں کوئی فرق نہیں۔

۲۔ دونوں میں فرق ہے اثر اسے کہتے ہیں جس کی نسبت صحابہ کرام کے اقوال وافعال کی طرف ہو اور حدیث وہ جو آپﷺ کی طرف منسوب ہو۔

ان اقوال کی دلیل مقدمہ صحیح مسلم بابُ وُجُوبِ الرِّوایةِ عَنِ الثِّقَاتِ وَتَرْكِ الْکَذَّابِیْنَ ۱؍۵۹میں یہ ہے: سنت ہی منکر اخبار کی روایت سے اس طرح روکتی ہے جیسے قرآن مجید فاسق کی خبر سے منع فرماتا ہے۔ آپ ﷺ ہی کا یہ مشہور اثر ہے:

مَنْ حَدَّثَ عَنِّی بِحَدِیثٍ یُرِیْ أَنَّہُ کَذِبٌ فَھو أَحَدُ الکاذِبَینِ۔ جو مجھ سے حدیث بیان کرے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک جھوٹ ہے تو وہ دوجھوٹوں میں کا ایک ہے۔

اثر بمعنی حدیث تب ہو گا جب وہ لفظ رسول کے ساتھ مقید ہو۔ جیسے امام مسلم اسی روایت میں فرماتے ہیں: وَھوَ الاثرُ الْمَشھورُ عَنْ رسولِ اللہِ ﷺ۔ ورنہ وہ بمعنی حدیث نہیں ہوگا۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اقسام حدیث

آپ ﷺ کا قول ، فعل، تقریر اور آداب وشمائل چونکہ سب وحی خفی ہیں۔ اس اعتبار سے علماء حدیث نے حدیث کی متعدد اقسام بتائی ہیں۔ چند مشہور درج ذیل ہیں:

حدیث قولی: یہ آپ ﷺ کے ارشادات ہیں جوآپ ﷺ ہی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں۔جیسے:

إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ کَلامِ النُّبُوَّةِ الاوْلٰی: إذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ۔ (صحیح بخاری: کتاب الانبیاء:۵۴)

حدیث وحی خفی ہے اس کا نزول ہوا اور جس کے ابلاغ کا فرض آپ ﷺ کو سونپا گیا ہے:

{يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۰ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۰ۭ}۔ (المائدہ ۶۷)
اے رسول!جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے۔اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو آپ نے اس کے پیغام پہنچانے کا حق ادا نہیں کیا۔

حدیث فعلی: آپ ﷺ کی روز مرہ زندگی کی وہ اعمال ہیں جو آپ ﷺ نزول وحی الٰہی کے عین مطابق بجا لاتے تھے۔جیسے صحیح بخاری میں ح:۳۵۸۰، صحیح مسلم میں ح ۲۶۸ میں ام المؤمنین فرماتی ہیں:

کَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ یُحِبُّ التَّمَیُّنَ ماَ اسْتَطَاعَ، فِی طَھورِہِ، وَ تَنَعُّلِہِ، وَتَرَجُّلِہِ، وَفِی شَأنِہِ کُلِّہِ

حدیث تقریری: یہ کسی صحابی یا صحابیہ کا کوئی عمل، قول یا فعل ہے جسے یا تو آپ ﷺ نے سننے کے بعد برقرار رکھا یا سکوت اختیار فرمایا یا آپ نے ناپسند نہیں فرمایا یا موافقت فرمائی یا اسے مستحسن سمجھا۔ جیسے: آپ ﷺ نے مدنی لوگوں کا طریقہ مضاربت برقرار رکھا جو ان کے ہاں معروف تھا۔ اسی طرح عید کے موقع پر بچیوں کا غناء، حبشیوں کا مسجد میں گتگہ بازی کا مظاہرہ، یا گوہ کا آپ کے دسترخوان پر آپ ﷺ کے سامنے کھایا جانا۔

یہی حدیث ہے جس سے محدثین استدلال لیتے ہیں تا کہ آپ ﷺ کے ارشاد، عمل یا تقریر سے فائدہ اٹھایا جائے۔

نوٹ: احادیث میں قبل از نبوت کی کچھ سیرت واخبار بھی ہیں۔جیسے آپ ﷺ کا امی ہونا،صادق وامین معروف ہونا، غار حراء میں آپ ﷺ کا تحنث، سیدہ خدیجہ ؓ کا آپﷺ کے قبل از نبوت کے اخلاق ومحاسن کا ذکر۔یہ تمام حالات آپ ﷺ کی نبوت وصداقت کی دلیل ہیں۔ بعد از نبوت کے حالات کتب حدبث میں درج ہیں تاکہ وہ شریعت کا مصدر قرار پائیں ۔نیز کتب سیرت میں نسب نامہ کے علاوہ آپ ﷺ کے قریبی رشتہ دار وں کا ذکر بھی ہوتا ہے وہ بھی حدیث کہلاتے ہیں۔ باقی کتب تفسیر، سیرت ومغازی میں قبل از نبوت کے واقعات اس لئے بیان نہیں ہوتے کہ انہیں کوئی شرعی مصدرنہ بنالے۔

٭٭٭٭٭​

یہ والہانہ جذبے

نقل اور نقد کے علماء نے روایت واسناد کے علم کا فریضہ نبھایا۔ اس سلسلے میں انہوں نے مختلف بلاد اسلامیہ کے کٹھن سفر کئے۔ شب بیداریاں کیں۔مال واولاد سے بچھڑے اور جو کچھ تھا وہ اس راہ میں لنڈھا دیا، صرف معرفت حدیث کے لئے بھوک وپیاس اور بچھونے کی لذت کو ترک کرکے انہوں نے کچے فرش کو اپنا بچھونا بنایا۔ دوست واحباب اور اہل وعیال سے دور رہ کر غربت کے کڑوے گھونٹ پئے۔انتہائی مشکل وہولناک مراحل سے وہ گذرے۔ یہ والہانہ جذبے ایسے ہی تھے جیسے اللہ تعالی نے اپنے گھر کعبہ کو لوگوں کے بار بار پلٹنے اور ثواب کمانے کا محبوب مرکز بنادیا کہ اکناف عالم سے لوگ اس کی طرف آئیں اور اس راہ میں آنے والی ہر تکلیف کو برداشت کریں۔یا جیسے جنگجومجاہد کے لئے جہاد نفس و مال کو محبوب وعزیز بنادیا ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی نے محدثین کرام کے لئے بھی یہ سب جذبے انتہائی عزیز و محبوب اور خوشگوار بنادئے تاکہ اس کے دین کی حفاظت ہوسکے اور ہدایت پانے والے اس دین سے ہدایت پاسکیں اور دین حق اور ہدایت کو غالب کرسکیں جس کے لئے اللہ تعالی نے اپنے رسول محترم کو بھیجا خواہ آپ ﷺ کا آنا مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گذرے۔

٭٭٭٭٭​

تَوَاضَعْ تَکُنْ کَالنَّجْمِ لَاحَ لِنَاظِرٍ عَلَی صَفَحَاتِ الْمَاءِ وَھُوَ رَفِیْعُ

عاجزی اختیار کرو۔ تم ستارے کی مانند ہوجاؤگے جس کا عکس دیکھنے والے کو پانی کی سطح پر نظر آتا ہے جبکہ وہ ستارہ اس سے کہیں بلند ہوتا ہے۔​
 
Top