• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب۳

تعداد اسانید کے اعتبار سے خبر کی اقسام


جب ہمیں خبر یا حدیث پہنچتی ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں: اس کے رایوں کی تعداد معین ہوگی یا غیر معین ۔جمہور محدثین نے خبر کی نسبت آپﷺ اور صحابہ وتابعین کی طرف کی ہے اور حدیث کی صرف آپﷺ کی طرف۔اس طرح :

قسم اول: متواتر
قسم ثانی:آحاد یا خبر واحد

أ۔خبر متواتر:

لغت میں لفظ تواتر: پے در پے کے معنی میں ہے۔ کہاجاتا ہے: تَوَاتَرَ الْمَطَرُ: پے درپے بارش ہوتی رہی۔ ایک کے بعد دوسرا قطرہ۔ اسی سے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا} پھر ہم پے در پے اپنے رسولوں کو بھیجتے رہے۔ دورسولوں کے درمیان وقفہ ہوتا تھا۔ اگروقفہ کے بغیر ہوتو اسے مواصلۃ کہتے ہیں۔ وَتِیرةٍ : عربی زبان میں طریقہ کو بھی کہتے ہیں۔جیسے : مَا زَالَ عَلَی وَتِیرةٍ وَاحِدَۃٍ: وہ ابھی تک ایک ہی عادت پر قائم ہے۔ متواتر اسم فاعل ہے۔ جس کا مطلب ہے ایک شے کے بعد دوسری شے کا آنا۔

اصطلاح محدثین میں:
علماء حدیث نے متواتر کی تعریف یہ کی ہے۔

مَارَوَاہُ جَمَاعَةٌ، فِی یسْتَحِیْلُ فِی الْعَادَۃِ أَنْ یَتَوَاطَؤُا عَلَی الْکِذْبِ عَنْ مِثْلِھمْ مِنْ أَوَّلِ السَّنَدِ إِلٰی مُنْتَھَاہُ وَ أَسْنَدُوہُ إِلٰی شَیٗءٍ مَحْسُوسٍ وَأَفَادَ خَبَرُھُمُ الْعِلْمَ لِسَامِعِہِ۔ ایسی حدیث جسے اول سند سے تا انتہاء ایسی جماعت روایت کرے کہ جس کا جھوٹ پر اتفاق عادۃً محال ہو۔ نیز وہ کسی محسوس شے کی طرف منسوب ہو۔نیزان کی خبر اپنے سامع کو علم کا فائدہ بھی دے۔

مثال:
امام بخاری رحمہ اللہ جزء القراء ۃ کے ص ۴پر لکھتے ہیں:

وَتَوَاتَرَ الْخَبَرُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ: لَا صَلَاةَ إِلاَّ بِأُمِّ الْقُرْآنِ۔ آپ ﷺ سے تواتر کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے کہ: ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

چار شرائط:

اولاً:
تواتر کے لئے معین تعداد کی ضرورت نہیں۔قول مختار یہ ہے کہ راویوں کی تعداد کم از کم چار ہو جو حفظ حدیث، دین اور ثقاہت میں قابل اعتبار ہوں۔

ثانیاً:
یہ کثرت سند کے تمام طبقات میں پائی جائے۔کہیں کم نہ ہوپائے۔جہاں کمی ہوئی وہ متواتر نہیں ہوگی۔

ثالثاً:
عقل باور کرے کہ ان کا کسی جھوٹ پر عادۃً بھی متفق ہونا ناممکنات میں سے ہے۔

رابعاً:
وہ مروی خبر بھی حسی ہو۔اعتقادی نہ ہو یعنی ہرطبقے کے تمام راوی سَمِعْنَا یا رَأَیْنَا جیسے الفاظ کہیں تاکہ سامع کو یقین ہو۔

ایسی روایت مفید علم ہوگی۔

متواتر کی انواع:
اس خبرکی دو قسمیں ہیں:

۱۔ متواتر لفظی ۲۔ متواتر معنوی

متواتر لفظی:
وہ خبر جس کے لفظ یا عمل متواتر ہوں نہ کہ معنی۔ مثلاً :

آپ ﷺ کی یہ قولی حدیث جو سیدنا ابوہریرہ ؓ کے علاوہ دیگر صحابہ سے بھی انہی الفاظ کے ساتھ مروی ہے:

مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ
جس نے مجھ پر عمداً جھوٹ بولا وہ اپنا مقام دوزخ بنالے۔(متفق علیہ)

اسباب تواتر:
محدث بزارؒ (م: ۲۹۲ھ) نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو چالیس صحابہ نے انہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
ابو بکر الصیرفی ؒ، امام شافعیؒ کے الرسالہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
یہ حدیث ساٹھ سے زائد صحابہ سے مرفوعاً مروی ہے۔
ابن مندہؒ نے ستاسی صحابہ گنوائے ہیں۔
امام نوویؒ نے بعض محدثین سے نقل کیا ہے کہ ا س حدیث کو باسٹھ صحابہ کرام نے روایت کیا جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔
اس حدیث کو بقول امام سیوطی(ازہار المتناثرہ ح: ۱) ستر سے زائد صحابہ نے روایت کیا ہے اور ہر صحابی کی سند روایت کو لکھا بھی ہے آخیر میں کہا ہے: فھٰؤُلاءِ اثْنَانِ وَسَبْعُونَ صَحَابِیًّا۔ تو یہ ہے بہتر صحابہ کی روایت۔

متواتر معنوی:

مَا تَوَاتَرَ مَعْنَاہُ دُونَ لَفْظِہِ۔ وہ خبر جس کا معنی تواترسے مروی ہو نہ کہ اس کے لفظ۔

جیسے: شفاعت کی احادیث، گو ان میں مختلف حالات کا تذکرہ ہے مگر سبھی شفاعت رسول پر متفق ہیں۔ دعا کے لئے دونوں ہاتھ اٹھانے کی متعدد احادیث ہیں مگر معنی پر سبھی متفق ہیں گو دعاؤں کے الفاظ اور حالات مختلف ہیں۔اسی طرح دیگر احادیث مثلاً: حوض کوثر ، دجال کی آمد، نزول سیدنا عیسیٰ علیہ السلام، اور قبرکو سجدہ گاہ نہ بنانے کی احادیث۔

متواتر معنوی کی تقریبی مثال:

جیسے کوئی حاتم کے بارے میں کہے کہ اس نے ایک اونٹ دیا اور دوسرا کہے : اس نے گھوڑا دیا۔کوئی کہے: اس نے دینار دیا۔ اس تمام گفتگو میں ایک قدر مشترک تواتر کے ساتھ مل رہی ہے: اور وہ ہے : دینا۔ کیونکہ ہر حال میں وہ موجود ہے۔

تصنیفات متواتر احادیث :
متأخر علماء نے کوشش کی ہے کہ متواتر احادیث کو جمع کیا جائے۔ ان میں:

محمد بن طولون دمشقی (م: ۹۵۳ھ) کی کتاب: اللَّآلِی الْمُتَنَاثِرَۃُ فِی الاَحادیثِ المُتَواِتَرۃ۔

امام سیوطی (م: ۹۱۱ھ)کی دو تصانیف: الأَزْھَارُ المَتَنَاثِرَۃُ فِی الأخبارِ المُتواتِرۃِ اور قَطْفُ الأزْھارِ ہیں۔

اور محمد بن جعفر الکتانی کی کتاب: نَظْمُ المُتَنَاثِرِ مِنَ الحدیثِ المُتَوَاتِرِ ہے۔ اس میں تین سو دس احادیث ہیں۔

نوٹ:
جب کسی حدیث کے لئے صرف متواتر کا لفظ ہو تو وہ محدثین کے ہاں متواتر لفظی مراد ہوا کرتا ہے۔

اس کا وجود:

بہت سے علماء کا نکتہ نظریہ بھی ہے کہ متواتر احادیث شاذ ہی ملتی ہیں۔بلکہ وہ لفظ متواتر کو علم حدیث میں دخیل سمجھتے ہیں۔
امام ابن الصلاحؒ نے بصراحت لکھا ہے کہ اس کا وجود نادر ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

ومِنْہُ الْمُتَوَاتِرُ الْمَعْرُوْفُ فِی الْفِقْہِ وَأُصُوْلِہِ وَلَا یَذْکُرُہُ الْمُحَدِّثُونَ، وَ ھُوَ قَلِیْلٌ لَا یَکَادُ یُوْجَدُ فِیْ رِوَایَاتِھِم
اسی مشہورکی ایک قسم متواتر حدیث ہے جو فقہ اور اصول فقہ میں خاصی معروف ہے۔ محدثین اس کا ذکر نہیں کرتے۔ یہ قلیل تعداد میں ہے بلکہ ان کی روایات میں اس کا وجود بھی نادر ہے۔(التقریب:تیسویں نوع)

مگر ابن حجر رحمہ اللہ ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں ان کی یہ رائے متواتر احادیث کی بکثرت منتشراسانید کے بارے میں قلت اطلاع پر مبنی ہے۔ بہرحال اگرصرف مرحلہ قبل از تدوین ہی کو لیں تو متواتر احادیث کا وجود ملتا ہے اور بعد از تدوین کو لے کر اگر فیصلہ کریں تو پھر جس نے متواتر کی نفی کی ہے وہ درست ہے۔

اس کا حکم:
علماء فقہ وحدیث متفق ہیں کہ متواترحدیث خواہ لفظی ہو یا معنوی اس سے علم یقین وضروری حاصل ہوتا ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

متواتر حدیث کے لئے رواۃ کی تعداد متعین کرنا ٹھیک نہیں بلکہ لفظ تواتر سے کئی معانی مراد لئے جاتے ہیں۔کیونکہ متواتر سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جس سے علم حاصل ہو۔ کبھی مخبرین کی کثرت سے یہ علم حاصل ہوتا ہے اور کبھی رواۃ کی مخصوص صفات ، ضبط اور ان کے دین کی وجہ سے بھی خبر متواتر کہلاتی ہے۔اور کبھی چند قرائن خبرسے ایسے چمٹے ہوتے ہیں جن سے مجموعی طور پر علم (یقین) حاصل ہوتا ہے ۔کبھی حدیث کو امت قبول کرکے متواتر کا درجہ عطا کردیتی ہے۔اس لئے کہ امت کبھی بھی ضلالت پر جمع نہیں ہوسکتی۔اسی طرح تواتر حدیث وہ بھی ہوتی ہے جس کی صحت پرمحدثین جمع ہوجائیں۔نیر علم یقین کا حصول کبھی راویوں کی کثرت سے ہوتا ہے اور کبھی دینداری وضبط یا دیگر صفات سے۔(مجموع الفتاوی ۱۸؍۱۶،۱۴۸)

ب۔ خبر واحد یا اخبار آحاد:
اسے حدیث آحاد بھی کہتے ہیں۔

لغت میں لفظ آحاد ، احد کی جمع ہے جس کا معنی ہے : ایک۔

جمہور محدثین کی اصطلاح میں:

ھُوَ مَا لَمْ یَجْمَعْ شُرُوطُ التَّوَاتُرِ۔ جس میں تواتر کی شرائط اکٹھی نہ ہوسکیں۔

اقسام:
جمہور محدثین نے خبر واحد کو تین اقسام میں منقسم کردیا ہے:

۱۔ غریب ۲۔ عزیز ۳۔مشہور

۱۔ خبر غریب:
عربی میں فرد واحد کو غریب کہتے ہیں یا اسے جو اپنے رشتہ داروں سے دور ہو۔اسے مفرد یا فرد بھی کہتے ہیں۔

اصطلاح میں:

ھُوَ الَّذِیْ یَنْفَرِدُ بِرِوَایَتِہِ شَخْصٌ وَاحِدٌ فِیْ جَمِیْعِ طِبَاقِ السَّنَدِ أَوْ بَعْضِھَا۔ وہ خبر ہوتی ہے جسے سند کے تمام طبقات میں یا بعض میں ایک شخص روایت کرے۔

مثال: آپ ﷺ نے فرمایا:

إنَّمَا الاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَ إِنَّمَا لِکُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَی۔۔۔الحدیث۔ بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔(متفق علیہ عن عمرؓ بن الخطاب)

حکم:
یہ حدیث، صحیح، حسن اور ضعیف بھی ہوسکتی ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے: صَحِیْحٌ غَرِیبٌ۔ یا حَسَنٌ غَرِیبٌ۔ یا صرف غَرِیْبٌ۔ آخری اصطلاح امام ترمذی بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ امام زیلعی بھی نصب الرایۃ میں اس کا ذکر تو کرتے ہیں مگر اس کا ضعف نہیں بتاتے۔ مگرامام ترمذی رحمہ اللہ اکثر وبیشتر اس سے مراد ضعیف ہی لیتے ہیں۔

٭… غرابت کبھی سند میں ہوتی ہے اور کبھی متن میں۔ یا کبھی دونوں میں۔ اس لئے تخریج حدیث دونوں۔۔ متن اور سند۔۔ کے ذریعے ہونی چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اقسام:
اس کی دو قسمیں ہیں:

غریب مطلق:
وَ ھُوَ مَا کَانَتِ الْغَرَابَةُ فِیْ أَصْلِ سَنَدِہِ۔ یہ وہ روایت ہے جس کی اصل سند میں غرابت یعنی فرد واحد ہو۔ اصل سے مراد جس راوی سے حدیث شروع ہوئی۔ جیسے حدیث إنما الاعمال کی سند میں سیدنا عمرؓ اصل ہیں اور منفرد ہیں۔

غریب نسبی:
ھُوَ مَا کَانَتِ الْغَرَابَةُ فِیْ أَثْنَاءِ سَنَدِہِ۔ یہ وہ روایت ہے جس کی اثناء سند میں غرابت ہو۔جیسے:

ماَلِكٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ دَخَلَ مَکَّةَ وَعَلَی رَأْسِہِ الْمِغْفَرُ۔ (متفق علیہ) آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر خود تھی۔ امام مالکؒ اس حدیث کی روایت میں امام زہریؒ سے منفرد ہیں۔ ایک معین شخص کی طرف نسبت کی وجہ سے اسے غریب نسبی کہتے ہیں۔

کتب:
اس موضوع کی احادیث ہمیں درج ذیل کتب سے مل سکتی ہیں:

أ۔ مُسْنَدُ الْبَزَّارِ(م:۲۹۲ھ)

ب۔ المُعْجَمُ الاَوْسَطُ از امام طبرانی(م: ۳۶۰ھ)

خاص اسی موضوع پر درج ذیل کتب ہیں:

أ۔ السُّنَنُ الَّتِیْ تَفَرَّدَ بِکُلِّ سَنَةٍ مِنْھَا أَھْلُ بَلْدَۃٍ۔ از ابوداؤد رحمہ اللہ(م: ۲۷۵ھ)

ب۔ غَرَائِبُ مَالِكٍ از امام دار قطنی(م: ۳۸۵ھ)

ج۔ الاَفْرَادُ از امام دارقطنی۔

د۔ کتاب أطرافُ الْغَرَائِبِ وَالاَفْرادِ از محمد بن طاہر مقدسی

ز۔ الاحادیثُ الصِّحَاحِ وَالْغَرَائِبِ از ابو الحجاج المزی

۲۔ خبر عزیز:
یہ لفظ عَزَّزَ یُعَزِّزُ سے ہے۔لغت میں: اس کے دو معنی ہیں: طاقتور ہونا یا سخت ہونا۔ قرآن مجید میں ہے: {فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ}۔ تو ہم نے تیسرے سے انہیں قوی کیا۔
دوسرا معنی: جس کا وجود کم اور نادر ہو۔اس لئے یہ نام اسم بامسمی ہے۔ علم مصطلح میں کم تر ، اکثر پر اعتماد کرکے اپنا فیصلہ صادر کرتا ہے۔ مثلاً تین راوی حدیث روایت کریں اور ایک چوتھا راوی بھی اسے روایت کرے تو ہم اسے قبول کرلیں گے۔

اصطلاح میں:

وَھُوَ مَا لَم یَقِلَّ عَدَدُ رُوَاتِہِ عَنِ اثْنَینِ فِی جَمیعِ طَبَقَاتِ السَّنَدِ وَإِنْ زَاد عَنہُ فِی بَعضِ الطِّبَاقِ، وَسُمِّیَ بِذَلِكَ لِقِلَّةِ وُجُودِہِ، وَإِمَّا لِکَونِہِ عَزَّ أَی قَوِیَ بِمَجِیْئِہِ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ۔
وہ ہوتی ہے جس کے راویوں کی تعداد سند کے کسی بھی طبقے میں دو سے کم نہ ہو خواہ بعض طبقوں میں دو سے زائد یہ تعداد ہوجائے۔نادر ہی پائی جاتی ہے اس لئے یہ نام یا پھر یہ عزیز ہوجاتی ہے یعنی یہی حدیث کسی اور سند کے آنے پر قوی ہوجاتی ہے۔

مثال: آپ ﷺ کا وہ ارشاد ہے جسے دو صحابہ انس بن مالک اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں :

لَا یُؤمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیہِ مِنْ وَلَدِِہِ ووَالِدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعینَ۔
(متفق علیہ عن انس ؓبن مالک) تم میں کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے، اس کے والد اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔

سیدنا انس سے دو تابعی قتادہ بن دعامۃ سدوسی(م: ۱۱۴ھ)اورعبد العزیز بن صہیب البنانی بصری(م: ۱۳۰ھ) روایت کرتے ہیں اور قتادہ سے ابو بسطام شعبہ بن الحجاج(م: ۱۶۰ھ) اور سعید بن ابی عروبۃ العدوی(م: ۱۵۷ھ) روایت کرتے ہیں جبکہ عبد العزیز بن صہیب سے اسماعیل بن علیۃ(م: ۱۹۳ھ) اور عبدالوارث بن سعید تیمی(م:۱۸۰ھ) روایت کرتے ہیں۔ صحابہ میں سے دو اس حدیث کو روایت کررہے ہیں اور پھر اگلی نسل میں انسؓ سے دو پھر ان میں سے ہر ایک سے دو دو روایت کررہے ہیں۔سند کے ہر طبقے میں دو دو راوی موجود ہونے سے یہ حدیث عزیزٹھہری۔

حکم:
یہ حدیث بھی صحیح، حسن، ضعیف، مرسل اور موضوع بھی ہوسکتی ہے۔ وہ حدیث قابل عمل ہوگی جو صحیح کی شرائط پر پورا اترے۔ ورنہ نہیں۔پھر حسن حدیث ۔ ورنہ ضعیف مگر موضوع قابل قبول ہیں اور نہ ہی قابل عمل۔

۳۔خبرمشہور:
یہ لفظ شَھَرَ یَشْھَرُشُھْرَةً سے اسم مفعول ہے۔مشہور کا مطلب اعلان شدہ اورمعروف۔

اصطلاحاً

مَا رَوَاہُ ثَلَاثَةٌ أَوْ أکْثَرُ فِی کُلِّ طَبَقَةٍ مِنْ طَبَقَاتِ السَّنَدِ وَلَمْ یَبْلُغْ حَدَّ التَّوَاتُرِ۔
وہ ہوتی ہے جسے تین یا تین سے زائد راوی سند کے ہر طبقے میں بیان کریں۔ مگر وہ عدد حدتواتر کو نہ چھوئے۔

امام ابن حجرؒ لکھتے ہیں:

إِذ أَنَّ أَقَلَّ مَا تَثْبُتُ بِہِ الشُّھْرَۃُ ثَلَاثَةٌ۔

اس لئے کہ کم از کم تین اسانید تک کی حدیث کو شہرت مل ہی جاتی ہے۔

مراد یہ ہے کہ جب ایک حدیث کی مختلف اسانید ہوں اور جسے تین یا تین سے زائد راوی روایت کرتے ہوں۔اسے شہرت مل گئی۔ جس کی وجہ سے اسے مشہور کہا جاتا ہے۔مثلاً: آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

نَحْنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ یَومَ الْقِیَامَةِ۔۔
ہم آخری امت ہیں مگر روز قیامت سب سے آگے ہوں گے۔

اس حدیث کو صحاح ستہ کے علاوہ امام احمدؒ نے بھی سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔اسے منتشر اور عام ہونے کی وجہ سے مشہور کہا جاتا ہے۔ یہ مشہور خبر صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
علماء مصطلح نے صحیح مشہور حدیث کی مثال یہ دی ہے:
إِنَّ اللہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعاً یَنْتَزِعُہُ۔۔۔
جسے صحابہ میں سے تین سیدنا ابن عمر، سیدنا ابوہریرہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے۔
حسن مشہور کی مثال:
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ
اور ضعیف مشہور کی مثال:
الاُذُنَانِ مِنَ الرَّأسِ دی ہے۔(تدریب الراوی: ۳۶۹)

مستفیض:
بعض محدثین نے اسی معیار کی ایک اور اصطلاح کا بھی تعارف کرایا ہے جس کا نام مستفیض ہے۔
یہ فَاضَ الْمَاءُ یَفِیْضُ فَیْضًا سے ماخوذ ہے پانی جب بہتا ہے تو وہ زور لگاتا ہے اور پھیل جاتا ہے۔ اسی سے حدیث مشہور کو مستفیض کہا گیا۔کیونکہ وہ بھی پھیل جاتی ہے اور مشہور ہوجاتی ہے۔ اصطلاحاً اس کی تعریف میں تین اقوال ہیں:

۱۔ یہ مشہور کی مرادف ہے۔

۲۔ نہیں بلکہ یہ اس سے زیادہ خاص ہے۔ کیونکہ اس میں شروع تا آخر راوی عدد میں برابر ہوتے ہیں مگر مشہور میں نہیں۔

۳۔ خاص نہیں بلکہ عام ہے۔یعنی ہر مشہور ، مستفیض ہے اور ہر مستفیض، مشہور نہیں۔

بہر حال مستفیض ایسی خبر کو کہتے ہیں جس کی سند کے شروع ، درمیان اور اخیر میں یعنی ہر دور میں کم از کم تین افراد نے روایت کیا ہو۔مگر مشہور میں یہ قید نہیں بلکہ اس کی سند کے ہرطبقے میں کم از کم تین راوی ہوں جو تواتر کی حد کو نہ پہنچ پائیں۔

نوٹ:
یاد رکھئے! ہر دور میں ایسی احادیث زبان زد عام ہوئی ہیں ۔ چونکہ اکثریت علم حدیث سے واقف نہیں ہوتی وہ بعض اوقات ان احادیث کو اپنے وعظ ، دروس اور محافل میں سنتے یا سناتے بھی ہیں ۔ اس لئے محدثین کرام جو اس میدان کے شہسوار ہیں۔ اپنے دور میں مشہور مگر موضوع وباطل احادیث کو جمع کردیتے ہیں۔ یہ چند کتب ہیں جن میں مشہور احادیث ہیں:

۱۔ اللآلِیُ المَنْثُورةُ فِی الاحادیثِ المَشْھورةِ۔ از ابن حجر عسقلانیؒ(م: ۸۵۲ھ)

۲۔ اَلْمَقاصِدُ الْحَسَنَةُ فِیْمَا اشْتَھَرَ عَلَی الاَلْسِنَةِ۔ از سخاویؒ(م: ۹۰۲ھ)

۳۔ الدرر المنتثرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ۔ از عبد الرحمن سیوطی(م: ۹۱۱ھ)

۴۔ البدر المنیر فی أحادیث البشر النذیر۔ از عبد الوہاب شعرانی(م: ۹۳۷ھ)

۵۔ تمیز الطیب من الخبیث۔ از عبد الرحمن بن الدیبع الشیبانی(م: ۹۴۴ھ)

۶۔ التذکرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ۔ محمد بن عبد الرحمن زرکشی(م: ۹۷۴ھ)

۷۔ إتقان ما یحسن من الاحادیث الدائرۃ علی الالسن۔ از محمد الغزی(م: ۹۸۵ھ)

۸۔ تسہیل السبیل إلی کشف الالتباس۔ از محمد الخلیلی(م: ۱۰۵۷ھ)

۹۔ کشف الخفاء ومزیل الإلباس۔ از اسماعیل بن محمد عجلونی(م: ۱۱۶۲ھ)

۱۰۔ أسنی المطالب۔ از عبد الرحمن بن محمد الحوت(م: ۱۲۷۶ھ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خبر واحد اور نظریہ ظن:
اکثر اصولی معتزلی حضرات خبر واحد کو ظنی الثبوت کہتے ہیں کہ ظن سے یقین کا فائدہ نہیں ہوتا۔ محدثین وفقہاء نے لفظ ظن کی وضاحت کی اور شواہد سے ثابت کیا کہ
ظن: یقین و شک دونوں کا معنی دیتا ہے۔جو اصول دنیاوی معاملات کو نبھانے کا ہے محدثین نے وہی یہاں بھی لاگو کیا کہ خبر اگر صحت کے قرائن دیتی ہو تو پھر اس سے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ اور اگر صحت کے قرائن موجود نہ ہوں تو بھی اختلاف کی گنجائش نہیں۔علماء وائمہ فقہاء کے اکثریت اسی کی قائل ہے۔اس لئے حدیث میں علماء وفقہاء کا اختلاف، تنوع کا ہے حقیقی نہیں اسے مخالفت باورنہیں کرانا چاہئے۔اختلاف تنوع سے ہماری مراد مثلاً: ایک شخص زکوۃ دیتا ہے مگر صدقہ نہیں کرتا، اور دوسرا زکوۃ بھی دیتا ہے اور صدقہ بھی کرتا ہے اور تیسرا نہ زکوۃ دیتا ہے اور نہ ہی صدقہ کرتا ہے۔اسے اختلاف تنوع کہتے ہیں۔

قرائن سے گھری خبر کی انواع ہیں:
مثلاً: جو خبر صحیحین میں ہو ۔ اس خبر کے صحیح ہونے کے قرائن یہ ہیں:

…ان دونوں حضرات کی حدیثی علمی شان وبزرگی مسلمہ اور دیگر فقہاء ومحدثین کے مقابلے میں کم تر نہیں۔

…صحیح حدیث کو نکھارنے اور اسے چھانٹنے میں یہ دونوں سبھی محدثین سے برتر وبہتر ہیں۔

… علماء نے ان دونوں کتب کو سرآنکھوں پہ بٹھایا ہے اور اسے بڑا مقام دیا ہے۔یہ وہ خصوصیت ہے جو تواتر کی بکثرت اسانید وطرق کے مقابلے میں اعلی مقام رکھتی ہے۔ اس لئے صحیحین کی احادیث دیگر تمام روایات کے مقابلے میں اعلی نوع کی احادیث ہیں۔ دیگر کتب کی احادیث میں بھی اگر صحت کے قرائن دستیاب ہیں تو وہ بھی علم ویقین کا فائدہ دیں گی اور قابل عمل بھی ہوں گی۔

احناف کے ہاں خبر واحد:
اس کی تعریف عام کتب فقہ واصول میں یہی کی گئی ہے۔

ھُوَ مَا دُوْنَ الْمَشْھُورِ وَالْمُتَوَاتِرِ۔
وہ خبر جو مشہور اور متواتر سے کم درجہ کی ہو۔

اسی طرح خبر واحد دیگر انواع کو ممتاز کرنے کے لئے یہ تعریف کی گئی ہے:

والمَشْھُورُ عِندَ الحَنَفِیَّةِ: ھُوَ کُلُّ حَدیثٍ نَقَلَہُ عَنْ رسولِ اللہِ ﷺ عَدَدٌ یَتَوَھَّمُ اجْتِمَاعُھُمْ عَلَی الْکِذْبِ، وَلٰکِنْ تَلَقَّتْہُ الْعُلَمَاءُ بِالقَبُولِ وَالْعَمَلِ بِہِ، بِاعتبارِ الاصلِ ھُوَ آحادٌ وَبِاعْتبارِ الفَرْعِ ھُوَ مُتَوَاتِرٌ۔ (اصول السرخسی: ۲۹۱)
احناف کے ہاں مشہور وہ حدیث ہے جسے رسول اللہ ﷺ سے رواۃ کی اتنی تعداد روایت کرے کہ ان کا جھوٹ پر اتفاق ہونے میں وہم ہو۔ بشرطیکہ علماء نے اسے شرف قبولیت بخشا ہو اور اس پر عمل بھی کیا ہو۔اصل کے اعتبار سے ایسی خیر ، آحاد میں شامل ہوگی اور فرع کے اعتبار سے متواتر میں۔

معلوم ہوا کہ احناف محدثین کی تقسیم سے مختلف ہیں۔ ان کے نزدیک ایسی احادیث کی تین اقسام ہیں: متواتر ، مشہور اور خبر واحد۔ وہ مشہور کو خبر آحاد کی نہیں بلکہ خبر واحد کی طرح ایک قسم سمجھتے ہیں۔مشہور کی اس تعریف سے ان کی مراد یہ ہے کہ مشہور خبر عصر صحابہ میں خبر واحد ہو یعنی جس میں صحابہ کی تعداد حد تواتر تک نہ پہنچتی ہو مگر زمانہ تابعین اور تبع تابعین میں یہ تعداد بتدریج بڑھ کر حد تواترتک ہوجائے۔

جب کہ محدثین متواتر کے لئے ابتدائی تین عصور عصر صحابہ وتابعین اور تبع تابعین میں رواۃ کی مساوی تعداد چاہتی ہے۔ بعد کے عصور میں یہ جماعت محدثین کو مطلوب نہیں۔ اس لئے کہ حدیث اسی مبارک دور میں مدون ہوچکی تھی اور متواتر اور عام ہوگئی تھی۔ مثلاً متفق علیہ حدیث ، متواترہے کیونکہ یہ حدیث وہ عدد رواۃ رکھتی ہے جس سے یقین حاصل ہو۔ نیزصحیحین کی تدوین کے بعد ہزاروںکتب ایسی ہیں جو شیخین سے روایت کرتی ہیں۔ اس لئے کہ سب مانتے ہیں کہ یہ احادیث صحیح ہیں اور ثبوت کے درجہ تک پہنچتی ہیں۔ رہی مشہور تو اس کا زمانہ صحابہ میں حد تواتر تک نہ پہنچنا اور بعد میں پہنچنا یہ غیر واضح سی تعریف ہے جو بیک وقت متواتر ، خبر واحد کے لئے بھی کی جاسکتی ہے۔

دونوں تعریفوں میں فرق اور موازنہ:

۱۔ جمہور محدثین کے ہاں خبر آحاد، اصلاً آحاد اور فرعاً متواتر یا بالعکس بھی ہوسکتی ہے۔ وہ اس طرح کہ آپ ﷺ سے ایک ایسی جماعت حدیث روایت کرے جو حد تواتر تک نہ پہنچتی ہو پھر آنے والی صدی میں یہ حدیث پھیل کر متواتر ہوجائے۔یہ ہے اصلاً آحاد اور فرعاً متواتر۔ بالعکس یوں ہوگی کہ وہ خبر متواتر الاصل ہو پھر سند کے کسی طبقہ میں وہ آحاد ہوجائے۔ یا تمام طبقات میں وہ آحاد ہو جائے۔ احناف کے ہاں مشہور آحاد الاصل ہوتی ہے یعنی عصر صحابہ میں وہ آحاد تھی مگر دوسری اور تیسری صدی میں وہ خوب منتشر ہو کر متواتر بن گئی۔

۲۔ جمہور محدثین متواتر اور آحاد کے درمیان کوئی اور درجہ حدیث نہیں رکھتے مگر احناف ان کے درمیان مشہور کا درجہ متعین کرتے ہیں۔ایسی صورت میں ۔۔ محدثین کے ہاں۔۔مشہور، خبر واحد میں شامل ہوگی کیونکہ وہ متواتر سے کم درجہ کی ہے۔یعنی جمہور محدثین کے ہاں ہر مشہور خبر، آحاد ہوگی اور احناف کے نزدیک جمہور کی ہرآحاد، مشہور نہیں ہوسکتی ۔

۳۔جمہور محدثین کے ہاں متواتر اور آحاد حجت ہیں۔وہ خبر متواتر سے قرآن کے عام کو خاص بھی کرتے ہیں اور اس کے مطلق کو مقید بھی۔کیونکہ ان کے نزدیک صحیح احادیث قرآن کے مجمل کو بیان بھی کرتی ہیں اور اس کے مشکل کو واضح بھی۔ احکام کے معاملہ میں بھی وہ نص پر ان احادیث سے اضافہ درست سمجھتے ہیں جبکہ احناف حدیث کے مقبول ومردود ہونے کی شرائط کو تسلیم کرتے ہیں لیکن درایت یا شدت احتیاط کے نام سے بعض کمزور اصول وضع کرکے وہ صحیح احادیث کی ایک بڑی تعداد کو رد بھی کردیتے ہیں۔

۴۔ متواتر اور آحاد ۔۔دونوں کو محدثین حجیت میں ، عمل میں اور قرآن کے ساتھ اپنے تعامل میں برابرسمجھتے ہیں۔کیونکہ متواتر علم ضروری کا فائدہ دیتی ہے جبکہ خبر واحد ظنی یا قرائن کے مل جانے سے علم قطعی کا ۔

۵۔ احناف کے نزدیک مشہور کا منکر کافر نہیں ہوگا۔ مگر اکثر علماء احناف کے ہاں اس سے ایساعلم طمانینت ضرور حاصل ہوتا ہے جو علم یقین کا ادنی درجہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایسی حدیث بیان قرآن کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ اور مجمل کو مفصل اور عام کو خاص بھی کرتی ہے۔مطلق کو مقید اور مشکل کی وضاحت بھی کرتی ہے۔احکام میں نص پر زائدبھی ہوجاتی ہے کیونکہ یہ حدیث عصر ثانی اور عصر ثالث میں قبولیت کا درجہ پاچکی ہے۔مگر خبر آحاد نہیں۔

۶۔ مشہور حدیث کے لئے احناف، عصر اول کے بعد کا عصرمعتبر قرار دیتے ہیں۔ جبکہ جمہور محدثین کے نزدیک۔۔ حدیث خواہ مشہور ہو یا آحاد ۔۔اس کا خود صحیح ہونا معتبر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عصر اول کے بعد اس کا مشہور ہونا اس کی آحادیت کو ختم نہیں کرتااور نہ ہی اسے بعد میں حد تواترتک پہنچاتا ہے بلکہ ایسی حدیث۔۔۔ تصحیح وتضعیف کی۔۔۔ اور۔۔۔مطالعہ و نقدکی۔۔۔ محتاج ہوجاتی ہے۔اس لئے کہ متواتر کی جو شرائط ہیں وہ ایسی مشہور میں نہیں ہوتیں۔

۷۔جمہور محدثین کے نزدیک کسی بھی حدیث سے اخذحکم یا ترک حکم کا دارومدار اسی پر ہے کہ وہ صحیح یا حسن درجے کی ہو یا پھر ضعیف ہو۔چہ جائیکہ وہ متواتر ہو یا مشہور ہو یا آحاد۔صرف شہرت حدیث کسی بھی حدیث کی صحت کے لئے کافی نہیں جب تک وہ تصحیح وتضعیف کے عمل سے نہ گذرے۔واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نسبت کے اعتبار سے خبرواحد کی اقسام


اس کی تین اقسام ہیں۔

۱۔ مرفوع ۲۔ موقوف ۳۔ مقطوع

أ۔ مرفوع: (Raised)

لغوی تعریف:
لغت میں یہ اسم مفعول ہے۔ اور رَفَعَ الشَّئُ یَرْفَعُہُ فَھُوَ مَرْفُوعٌ سے ماخوذ ہے۔ اور وضع کی ضد ہے۔

اصطلاح:
علماء حدیث نے اس کی دو انداز سے تعریف کی ہے۔

۱۔ امام ابن کثیرؒ اختِصَارُ عُلُومِ الْحَدیثِ کی چھٹی نوع میں لکھتے ہیں:

المَرْفُوعُ مَا أُضِیْفَ إِلَی النبیِّ ﷺ قَولًا أو فعلًا عَنہُ، وَسَواءٌ کَانَ متصلًا أو منقطعًا أو مرسَلًا۔
مرفوع آپ ﷺ کے اس قول یا فعل کہتے ہیں جو آپ ﷺ کی طرف منسوب ہو خواہ وہ متصل ہو، منقطع ہو یا مرسل ہو۔

اس تعریف سے مرسل اور منقطع نکل گئے ہیں۔ محدثین کے ہاں یہی تعریف ہی متداول ہے۔یہ یاد رکھئے کہ مرفوع کے لئے اتصال کی شرط نہیں۔

۲۔ دوسری تعریف خطیب بغدادی نے الکفایہ( ۲۱) میں اس طرح کی ہے:

ھُوَ مَا أَخْبَرَ فِیہِ الصَّحابِیُ عَن قَولِ رسولِ اللہِ ﷺ وَفِعْلِہِ۔
جس روایت میں صحابی اگر رسول اللہ ﷺ کے قول وفعل کو بتائے اسے مرفوع کہتے ہیں۔

اصول:
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی تعریف سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ مرفوع کے لئے متصل ہونا شرط نہیں۔وجہ یہ ہے کہ متصل۔۔ مرفوع ، موقوف اور مقطوع سبھی کو شامل ہوتی ہے۔

اصول:
حدیث قدسی:
وہ ہے جسے رسول اکرم ﷺ اللہ رب العزت کی طرف سے لفطاً یا معناً ارشاد فرمائیں اور جوبذریعہ روایت ہم تک پہنچی ہو۔ یہ قرآن بھی نہیں اور نہ ہی قرآن کریم میں سے ہے۔اس لئے یہ مرفوع کے ضمن میں آئے گی۔

مثال:
اسی تعریف کی رو سے مرفوع کی دو مثالیں دی جاتی ہے۔ ایک سند متصل سے اور دوسری سند منقطع سے۔

امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب الادب المفرد میں روایت کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا الْحُمَیْدِیُّ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ ﷺ لَا یُقِمْنَ أَحَدُکُمُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِہِ ثُمَّ یَجْلِسُ فِیْہِ وَلٰکِنْ تَفَسَّحُوْا وَتَوَسَّعُوْا۔
آپ ﷺ نے فرمایا: کہ تم میں کوئی بھی کسی کو اس کی جگہ سے مت اٹھائے اور خود بیٹھ جائے۔بلکہ کھل جاؤ اور وسعت پیدا کرو۔

اس حدیث کی سند متصل ہے اور نیچے سے اوپر رسول اللہ ﷺ تک اسے اٹھایا گیا ہے۔اس لئے یہ مرفوع ہے۔

منقطع کی مثال:

قَالَ ابْنُ مَاجَةَ: حَدَّثَنَا أَبُوبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَةَ ثَنَا وَکِیْعٌ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ الْحُدَّانِیِّ عَنْ أَبِیْ جَعْفَرٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْحَجُّ جِھَادُ کُلِّ ضَعِیْفٍ۔


یہ حدیث منقطع ہے راوی ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین ہے انہوں نے سیدہ ام المؤمنین سے کوئی حدیث سنی ہی نہیں۔

مرفوع حدیث کا حکم:
یہ صحیح بھی ہوسکتی ہے اور حسن وضعیف بھی۔

ب۔ موقوف: (Halted)

لغت میں وقف سے اسم مفعول ہے۔جس کا مطلب ہے روکا ہوا۔ٹھہرا ہوا۔

اصطلاح میں:
امام نووی ؒ التقریب ۱؍۱۸۴میں کہتے ہیں:

الْمَوقُوفُ ھُوَ الْمَرْوِیُّ عَنِ الصَّحَابَةِ قَولًا لَھُمْ أو فِعْلًا أَو نَحْوَہُ مُتَّصِلًا کَانَ أَو مُنْقَطِعًا

جو خبر صحابہ سے خواہ وہ ان کا قول ہو یا فعل یا اس سے ملتا جلتا ہو۔ ہمیں متصل ملے یا منقطع۔ اسے موقوف کہتے ہیں۔

اس تعریف سے معلوم ہوا کہ موقوف :
متصل یا منقطع بھی ہوسکتی ہے۔

متصل موقوف کی مثال:
مثلاً سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول:

قَالَ الْبُخَارِیُّ: حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذٍ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُونَ، أَتُحِبُّونَ أَنْ یُکَذَّبَ اللہُ وَرَسُولُہُ۔

یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور متصل سند کے ساتھ ہے۔

منقطع کی مثال:
امام احمدؒ نے کتاب الاشربۃ میں لکھا ہے:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی السَّفَرِ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ عُمَرَ قَالَ: الْخَمْرُ مِنْ خَمْسَةٍ، مِنَ الزَّبِیْبِ وَالتَّمْرِ وَالشَّعِیْرِ وَالْبُرِّ وَالْعَسَلِ۔


حکم:
یہ حدیث صحیح، حسن یا ضعیف بھی ہوسکتی ہے۔

نوٹ: موقوف کی اصطلاح جب کسی غیر صحابی کے لئے ہو تو مقید ہوجاتی ہے۔ امام نوویؒ( تدریب ۱؍۱۸۴ ) میں لکھتے ہیں:

وَ یُسْتَعْمَلُ فِی غَیرِھِمْ مُقَیَّدًا، فَیُقالُ وَقَفَہُ فُلانٌ عَلَی الزُّہریؒ وَنَحْوَہُ۔
غیرصحابہ کے لئے یہ اصطلاح مقید مستعمل ہوتی ہے۔
پھر یوں کہا جاتا ہے: کہ فلاں نے اس روایت کو زہریؒ پر وقف کردیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
موقوف سے متعلق چند مسائل:

۱۔ صحابی کی تفسیر:

اس کی دو حالتیں ہوسکتی ہیں:

أ۔ اگر اس کی تفسیر رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہو تو اس کا حکم مرفوع کا ہوگا۔

ب۔ اگر نہ ہو تو وہ موقوف کہلائے گی۔

۲۔ صحابی رسول کا یہ کہنا:
جیسے:
أُمِرْنَا أَوْ نُھِیْنَا أَوْ أُمِرَ النَّاسُ وَنَحْوَہُ أو مِنَ السّنَّةِ۔
ہمیں حکم دیا گیا، ہمیں منع کیا گیا یا لوگ حکم دئے گئے۔یا یہ بھی سنت ہے۔ آیا یہ موقوف ہے یا مرفوع؟ علماء کے دو اقوال ملتے ہیں:

أ۔ اس کا حکم مرفوع کا ہے۔ یہی جمہور محدثین کہتے ہیں اور اکثر اصولی علماء بھی۔جن میں خطیب بغدادی، امام نووی، ابن الصلاح، الشیرازی، ابن قدامہ رحمہم اللہ شامل ہیں۔ ابن قدامہؒ نے اس کی تائید میں یہ لکھا ہے کہ یہی اکثریت کی رائے ہے۔اور یہی صحیح ہے۔

ب۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ قول موقوف ہے۔ یہ قول اسماعیلی، الصیرافی اور ابن حزم رحمہم اللہ کا ہے۔

مثال:
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول:
أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ فِی الْعِیْدَیْنِ الْعَوَاتِقَ۔
ہمیں حکم دیاگیا کہ ہم عیدین میں بالغ لڑکیوں کو بھی لے چلیں۔

اسی طرح ان کا قول:
نُھِیْنَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ۔
ہمیں جنازے کے پیچھے چلنے سے منع کیا گیا۔

یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول:
أُمِرَ النَّاسُ أَنْ یَکُونَ آخِرُ عَھْدِھِمْ بِالْبَیْتِ الطَّوَافُ۔
لوگ حکم دئے گئے کہ ان کا آخری عمل حج، بیت اللہ کا طواف ہو۔

اور اگر لفظ سنت کا استعمال کوئی تابعی کرے تو ایک رائے کے مطابق یہ مرفوع ہوگی اور دوسری رائے کے مطابق موقوف۔مگر مرسل حدیث، مرفوع نہیں ہوگی۔جیسے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبۃ بن مسعود کا کہنا:
السُّنَّةُ أَنْ یَخْطُبَ الإِمَامُ فِی الْعِیْدَیْنِ خُطْبَتَیْنِ یَفْصِلُ بَیْنَھُمَا بِجُلُوسٍ۔
سنت یہ ہے کہ امام عیدین میں دو خطبے دے اور ان کے درمیان بیٹھ کر فرق کرے۔(عبید اللہ فقہاء سبعہ میں سے ہیں۔ دیکھئے: الارشاد از خلیلی: ۱۶، تدریب الراوی۲؍۳۴۵) یا:

قَالَ أَنَسٌ: مِنَ السُّنَّةِ إِذَا تَزَوَّجَ الْبِکْرَ عَلَی الثَّیِّبِ أَقَامَ عِنْدَھَا سَبْعًا۔ (متفق علیہ)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ سنت ہے کہ جب کوئی دوسری شادی کسی کنواری سے کرے تو اس کے پاس سات دن رہے۔

۳۔ صحابی کا یہ کہنا : کُنَّا نَفْعَلُ کَذَا أَوْ کُنَّا نَقُولُ کَذَا۔
ہم یہ کیا کرتے یا ہم یہ کہا کرتے۔

اس میں علماء حدیث کا اختلاف یہ ہے کہ کیا اسے موقوف سمجھا جائے یا مرفوع؟ چنانچہ تین آراء یہ ہیں:

أ۔ اگر صحابی اپنے قول کو رسول اکرم ﷺکے زمانہ کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ مرفوع ہے ورنہ موقوف۔یہ رائے خطیب بغدادی، ابن الصلاح، امام حاکم، امام نووی، امام رازی اور شیرازی کی ہے جو صحیح ہے۔

ب۔ یہ مرفوع ہے خواہ صحابی اپنے قول کو زمانہ رسول ﷺ کی طرف منسوب کرے یا نہ کرے۔یہ قول امام عراقی، ابن الصباغ اور محمد بن الخطیب البکری کا ہے۔

ج۔ یہ موقوف ہے خواہ صحابی اپنے قول کو زمانہ رسول ﷺ کی طرف منسوب کرے یا نہ کرے۔یہ قول ابوبکر اسماعیلی کا ہے۔

مثال: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کُنَّا نَعْزِلُ عَلَی عَھْدِ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ فَبَلَغَ ذَلِكَ نَبِیَّ اللہِ ﷺ فَلَمْ یَنْھَنَا۔ (بخاری ومسلم)
ہم زمانہ رسول میں عزل کرتے ۔ آپ ﷺ کو ہمارا یہ عمل جب پہنچا تو آپ ﷺ نے ہمیں منع نہ فرمایا۔

اصول:
ابن عدیؒ کہتے ہیں:
حسن بن علی بن شبیب کثیر الحدیث محدث تھے۔ ان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ احادیث کو مرفوع کردیتے اور متون میں اضافہ بھی۔ یہ عادت بغدادی ثقہ محدثین میں عام ہے کہ وہ موقوف کو مرفوع کرتے ، مرسل کو متصل بناتے اور اسانید میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔

امام ذہبیؒ لکھتے ہیں:
شاید وہ اس لئے ایسا کرتے جب انہیں ان روایات کا رفع اور وصل معلوم ہو۔ یہ رخصت تو ہے مگر مناسب نہیں۔

اصول:
ابن ابی فدیک نے محمد بن اسحاق کو دیکھا کہ وہ ایک کتابی سے لکھ رہے تھے۔ اسرائیلیات کی روایت میں یہ چیز معیوب نہیں۔ آپ ﷺ ہی کا فرمان ہے: حَدِّثُوا عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَلَا حَرَجَ۔

آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
إِذَا حَدَّثَکُمْ أَھْلُ الْکِتَابِ فَلَا تُصَدِّقُوھُمْ وَلَا تُکَذِّبُوھُمْ۔
کوئی کتابی جو بات کرتا ہے اس کے سماع کی اجازت تو آپ ﷺ نے دے دی۔ کیا ہم ان کی میڈیکل یا سائنس پر مبنی باتیں سن کر یقین نہیں کرتے۔ پھر آگے بھی منتقل کرتے ہیں؟ جب کہ یہ باتیں دین ہوتی ہیں اور نہ ہی حجت۔ حجت تو کتاب اللہ ہے یا سنت رسول ﷺ۔

ج۔ مقطوع: (Cut-Off)اس کی تعریف یہ کی گئی ہے۔

مَا أُضِیْفَ إِلٰی التَّابِعِیِّ فَمَنْ بَعْدَہُ۔
وہ خبر جو تابعی کی طرف یا اس سے نیچے تبع تابعی کی طرف منسوب ہو۔

خواہ اس کی سند متصل ہو یا منقطع۔ امام نوویؒ التقریب میں ۱؍۱۹۴میں لکھتے ہیں:
المقْطُوعُ: وَجَمْعُہُ الْمَقَاطِعُ وَالْمَقَاطِیْعُ، وَ ھُوَ الْمَوقُوفُ عَلَی التَّابِعِیِّ قَولًا لَہُ أَوْ فِعْلًا۔
مقطوع کی جمع مقاطع یا مقاطیع آتی ہے اور وہ تابعی کے قول یا اس کے فعل پر وقف ہونے کا نام ہے۔

مثال:
سیدنا ابن ؒسیرین کا قول:
إِنَّ ھٰذَا الْعِلْمَ دِیْنٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِیْنَکُمْ
یہ حدیث ، علم دین ہے لہٰذا دیکھ لیا کرو کہ تم کس سے یہ علم حاصل کررہے ہو۔

یا امام مالک رحمہ اللہ کا قول:
اُتْرُك مِنْ أَعْمَالِ السِّرِّ مَا لَا یُحْسِنُ بِكَ أَنْ تَعْمَلَہُ فِی الْعَلَانِیَّةِ۔
وہ سری اعمال ترک کردو جو تمہیں علانیہ کرتے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔

حافظ ابن حجرؒالنزہۃ:۱۵۵میں مقطوع کی وضاحت کے بعد لکھتے ہیں:
وإِنْ شِئْتَ قُلْتَ: مَوقُوفٌ علَی فُلانٍ۔
اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو: یہ حدیث فلاں پر موقوف ہے۔وہ یہ بھی النزہۃ ۱۵۴میں فرماتے ہیں:

فَحَصَلَتِ التَّفْرِقَةُ فِی الاصْطِلاحِ بَینَ الْمَقْطُوعِ وَالْمُنْقَطِعِ، فَالْمُنْقَطِعُ مِنْ مَبَاحِثِ الإِسْنَادِ کمَا تَقَدَّمَ وَالْمَقْطُوعُ مِنْ مَبَاحِثِ الْمَتْنِ کَمَا تَرَیٰ!!!
لہٰذا مقطوع اور منقطع کی اصطلاحات میں فرق ہو گیا۔ منقطع اسناد کے مباحث سے تعلق رکھتی ہے اور مقطوع متن کے مباحث سے ۔جیسا کہ ان کی تعریفات سے معلوم ہوگیاہے۔

موقوف ومقطوع کی اصطلاحات کا أثر کی مصطلح سے تعلق بتاتے ہوئے حافظ ابن حجرؒ النزہۃ :۱۵۴میں لکھتے ہیں:
ویُقَالُ لِلاَخِیْرَیْنِ أَیِ الْمَوْقُوفُ وَالْمَقْطُوعِ: الاَثَرُ!!!
آخری دو یعنی موقوف ومقطوع کوأثر بھی کہا جاتا ہے۔

نوٹ: امام شافعی ؒ مقطوع اور منقطع کو ایک ہی شے سمجھتے ہیں ۔ امام نوویؒ التقریب (۱؍۱۹۴ ) میں اس کا سبب بتاتے ہیں۔

إِلَّا أَنَّ الشَّافِعِیَّ اسْتَعْمَلَ ذَلِكَ قَبْلَ اسْتِقْرَارِ الِاصْطِلَاحِ کَمَا قَالَ فِی بَعْضِ الاَحَادِیْثِ: حَسَنٌ۔ وَ ھُوَ عَلَی شَرْطِ الشَّیْخَینِ۔
مگر امام شافعیؒ نے اس مصطلح کا استعمال اس وقت کیا جب اصطلاحات حدیث متعین نہیں ہوئی تھیں جیسے انہوں نے بعض احادیث کے بارے میں لکھا ہے : یہ حسن ہے۔ جب کہ وہ حدیث شیخین کی شرط کے مطابق ہے۔

اثری تصنیفات :
علماء حدیث نے آثار وموقوف احادیث کو جمع کرکے کتب بھی لکھی ہیں۔ مثلاً(تدریب ۱؍۱۹۵ ) :

جَمَعَ أَبوحَفْصٍ ابْنُ بَدْرٍ الْمَوصِلِیِّ کِتَابًا سَمَّاہُ: مَعْرِفَةُ الْوَقُوفِ عَلَی الْمَوقُوفِ، أَوْرَدَ فِیہِ مَا أَورَدَہُ أَصْحَابُ الْمَوْضُوعَاتِ فِی مُؤَلَّفَاتھمْ فِیْھَا، وَھُوَ صَحِیحٌ عَن غَیرِ النَّبِیَّ ﷺ، إِمَّا عَنْ صَحَابِیٍّ أَو تَاِبعِیٍّ فَمَنْ بَعْدَہُ، وَقَال: إِنَّ إِیْرَادَہُ فِی الْمَوضُوعَاتِ غَلَطٌ، فَبَیْنَ الْمَوضُوعِ وَالْمَوقُوفِ فَرْقٌ۔
ابوحفص ابن بدر الموصلی نے ایک کتاب معرفۃ الوقوف علی الموقوف لکھی ہے اس میں اسی قسم کے مواد کو انہوں نے لکھا ہے جو عام طور پر موضوعات پر لکھنے والوں نے جمع کیا ہوتا ہے۔ جب کہ یہ مواد اس صورت میں صحیح ہے اگر وہ غیر نبی سے ہو۔ یا صحابی سے یا تابعی اور اس کے بعد والے سے۔ اور کہا ہے: ان روایات کا موضوعات میں بیان کرنا ہی غلط ہے کیونکہ موضوع اور موقوف میں بڑا فرق ہے۔

نیز موقوف ومقطوع روایات ہمیں ان کتب میں ملیں گی۔( تدریب ۱؍۱۹۵)
ومِنْ مَظَانِّ الْمَوقُوفِ وَالْمَقْطُوعِ: مُصَنَّفُ ابْنِ اَبِی شَیْبَةَ وَ عَبدِ الرزاقِ وَتفَاسیرُ ابْنِ جَریرٍ، ابْنِ اَبی حَاتِمٍ وابْنِ الْمُنْذِرِ وَغَیرِھِمْ۔
موقوف ومقطوع روایات کا وجود ہمیں مُصَنَّفُ ابْنِ اَبِیْ شَیْبَةَ اور مُصَنَّفُ عَبدِالرَّزَّاقِ میں ہی ملتا ہے یا پھر ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن المنذر کی تفاسیر میں۔

٭٭٭٭٭​
روایت ونقل ہی ایسا طریقہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کیا لائے۔اس کی معرفت کے لئے صرف عقل کا فی نہیں بلکہ آنکھ جس طرح اپنے آگے روشنی نہ پاکر اپنا نور کھو بیٹھتی ہے اور اسے اندھیرا ہی نظر آتا ہے اسی طرح عقل کا نور بھی کبھی راہ راست نہیں پاسکتا جب تک کہ اس پر رسالت کا سورج طلوع نہ ہو۔سیدنا ابورافعؓ ، ابو ثعلبہ ؓاور دیگر صحابہ نے آپ ﷺ سے متعدد روایات میں یہ ارشاد نبوی ﷺ روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
خبردار! میں تم میں سے کسی کو اپنے تکیہ پر ٹیک لگائے نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرے معاملات میں سے کوئی معاملہ آتا ہے جس کا میں نے کوئی حکم دے رکھا ہو یا اس س منع کیا تو وہ کہے: ہمار ے اور تمہارے درمیان قرآن ہی حکم ہے تو جو ہم اس میں حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اور جو اس میں حرام پائیں گے اسے حرام۔ خبردار! میں کتاب دیا گیا ہوں اور اس کے ساتھ اس کے مثل بھی۔ ایک اور روایت میں ہے: خبردار! وہ کتاب کی مانند ہے۔(ابوداؤد: ۴۶۰۵، ترمذی: ۲۶۶۳)
٭٭٭٭٭

پستی کا کوئی حد سے گذرنا دیکھے اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ رہے ہر جزر کے بعد دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب۴

ردو قبول کے اعتبار سے خبر واحد کی اقسام


خبر مقبول اورخبر مردود
خبر واحد اپنی قوت وضعف کی وجہ سے یہی دو قسمیں رکھتی ہے ۔یہ بالکل ایسی ہیں جیسے فقہاء کے ضعیف وصحیح اقوال ہوتے ہیں اور فقہاء کرام ان میں سے صحیح کا انتخاب کرکے اسے قابل عمل قرار دیتے ہیں جسے وہ مفتی بہا کہتے ہیں اور باقی ضعیف اقوال کو ترک کردیتے ہیں۔

۱۔ مقبول :
جمہور کے نزدیک غلبہ ظن کی وجہ سے جو حدیث صدق میں ترجیح پا جائے وہ مقبول ہوتی ہے۔اور واجب عمل ٹھہرتی ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے پاس اللہ کے حضور کوئی ایسا عذر نہیں ہوگا کہ ہم اسے ترک کردیں کیونکہ اس میں صدق کی صفت موجود ہے۔ جو ناقل کی صفت کا ثبوت ہے۔یہ حدیث اعتقاد میں بھی ہوسکتی ہے اور عمل میں بھی۔اگر خبر واحد میں اعتقاد کو قبول نہ کریں تو بہت سی دینی چیزیں ہم سے رہ جائیں گی۔اس کی دو قسمیں ہیں: صحیح اور حسن۔

۲۔مردود:
ایسی حدیث جس کا ناقل یا مخبر غلبہ ظن کی بنیاد پر اپنی سچائی میں ترجیح نہ پاسکے۔اس لئے یہ رد ہوجاتی ہے اورجمہور محدثین کے نزدیک واجب عمل نہیں ٹھہرتی۔ اصل تو اس کی صفت کذب ہے جو ناقل کی صفت کا ثبوت ہے۔

اس لئے کہ اللہ تعالی نے یہ فرمایا:
اس کی تحقیق کرلو۔اس لئے خبر واحد پر عمل ہوسکتا ہے جب یہ تحقیق ہوجائے کہ اس کے راوی مقبول ہیں یا مردود؟ اس کی سندآیا متصل ہے یا غیر متصل؟ کیا اس کا متن شاذ تو نہیں؟ کیا اس کے متن یا سند میں کوئی علت تو نہیں؟ اس لئے تحقیق کرنے پر کوئی ایسا قرینہ (أَمْرٌ یُشِیْرُ إِلَی الْمَطْلُوبِ) کوئی ایسی شے جو مطلوب کی طرف اشارہ کردے) جو ان دونوں اقسام میں کسی ایک سے جاملے تو وہ حدیث اس سے ملحق ہوجائے گی۔ورنہ توقف کرناہو گا۔متوقف حدیث مانندمردود ہوجائے گی اس لئے نہیں کہ اس میں رد ہونے کی صفت تھی بلکہ اس لئے کہ اس میں مقبول ہونے کی صفت مفقود تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مقبول حدیث کی پانچ اہم شروط


ایسی مقبول حدیث کی توثیق کے لئے محدثین نے پانچ شروط رکھی ہیں تاکہ راوی اور متن دونوں کی تصدیق ہوجائے اور قابل ہوسکے۔

٭… متصل ہو:
اس حدیث کی سند میں کہیں کسی راوی کا سقوط نہ ہو۔ بلکہ سند کا ہر راوی اپنے شیخ سے براہ راست روایت کرے اور کہے: حَدَّثَنِی، یا سَمِعْتُ، أََنْبَأَنَا، یا رَأَیْتُ فُلانًا یا عَنْ فُلانٍ وغیرہ۔ ایسی صورت میں یہ تعریف صحیح، حسن اور ضعیف۔۔ جو بغیر تدلیس کے ہو۔۔ کو شامل ہوگی۔یہ الفاظ حدیث کی محافل ومجالس، استاذ کی موجودگی، اس سے سماع اور اخذ وتحمل حدیث کے طریقہ کارکو واضح کرتے ہیں۔

اصول:
قرون اولی میں غیر متصل سند کومرسل کہا جاتا تھا۔

اصول:
اتصال کے لئے احتمالی الفاظ جیسے: عَنْ فُلَانٍ، قَالَ فُلَانٌ یا فَعَلَ فُلَانٌ وغیر ہ درست نہیں۔ اور نہ ہی قابل قبول ہیں۔ورنہ دوسری یا چودھویں صدی کا کوئی عالم، فقیہ یا ولی بغیر سند کے۔۔اشارہ ، اجتہادیا خواب کی بنیاد پر۔۔ یہ کہہ دے گا: قَالَ رَسُولُ اللہِ۔ اور لوگ اسے حدیث مان لیں گے۔

٭… عادل :
لغت میں لفظ عَدل مصدر ہے ۔جَور کا ضد یہ لفظ ہے۔ طریق عدل وہ راستہ ہوتا ہے جو سیدھا ہو ٹیڑھا نہ ہو۔عربی میں ٹیڑھا عصا دیکھ کر کہتے ہیں: وَاللہ ھٰذِہِ عَصَا مَائِلَةٌ مَا ھِیَ عَدْلٌ۔ یہ عصا مائل ہے یہ عدل نہیں یعنی سیدھا نہیں۔اگر یہ سیدھا ہو تو کہتے ہیں: ھٰذِہِ عَدْلٌ۔ یہ سیدھا ومستقیم عصا ہے۔عدل کا اسم فاعل عادل ہے ۔نفس میں جو بات ٹھہرجائے کہ یہی مستقیم ہے اسے عدل کہتے ہیں۔ایسا راستہ جس کے دونوں اطراف نہ کمی ہو نہ زیادتی اسے بھی وسط و عدل کہتے ہیں۔دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔امت اسلامیہ بھی اپنے منہج اور عقیدہ کے اعتبار سے تمام امتوں کے مقابلے میں معتدل ہے۔

فقہاء کی اصطلاح میں عَدْلٌ:
صیغہ مبالغہ بھی ہے۔جس سے مراد ایسا راسخ ملکہ جو فرد کو تقوی اور مروئت پر جما دے۔یہ ملکہ اس وقت نصیب ہوتا ہے جب آدمی کبائر سے اور بعض صغائر ومباح سے بھی مجتنب رہے ۔یا وہ ایسامتقی شخص ہو جو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے اور صاحب مروئت وخیربھی ہو وہ عادل ہوتا ہے۔

محدثین کی اصطلاح میں:
جوراوی مسلمان، بالغ اور عاقل ہو اور فسق کے تمام اسباب وذرائع سے محفوظ ہو۔نیز خلاف مروئت کاموں سے بھی وہ بچا ہوا ہو۔وہ عادل ہے۔ اپنے فسق کی وجہ سے فاسق اپنے ضمیرسے انصاف نہیں کر سکتا اس لئے وہ عادل ہو ہی نہیں ہوسکتا اور نہ ہی صاحب مروئت۔اس لئے روایت کا استحقاق عادل کو حاصل ہے نہ کہ فاسق کو۔

عدالت کبائر یعنی شرک وکفر، فسق یا بدعت سے مجتنب رہنے اور صغائر پر اصرار نہ کرنے اور خلاف مروئت کاموں سے بچنے کا نام ہے۔یہی تقوی بھی ہے۔شرک تو واضح گناہ ہے اور مشرک میں استقامت کہاں؟ رہا فسق یہ بھی غیر مستقیم عمل ہے مگراستقامت کی نفی اس میں مقید ہوتی ہے ۔ بدعتی بھی غیر عادل ہیں۔اگر بدعت غیر مفسقہ کسی عالم سے ہوجاتی ہے تو دیانۃً ایسے عالم کو رد نہیں کرنا چاہئے۔کیونکہ ہر عالم میں کچھ نہ کچھ بدعت ہوا کرتی ہے۔

مروئت ایساکام جو لوگوں کی نظرمیں خوبصورت بن جائے اور جس سے غلط اوربرے کام ختم ہوجائیں۔جو کام خوبصورت اور باعث زینت ہو وہی مروئت ہے اور عرف میں جو برا اور گندا کام ہو وہ مروئت کے خلاف ہے۔ مثلاً: کسی معاشرے میں مرد عورتوں کے کپڑے پہن لیں یا عورتیں مردوں والے کپڑے پہن لیں تو یہ مروئت نہیں اور نہ ہی یہ دین ہے۔کیونکہ آپ ﷺ نے : لَعَنَ الرِّجَاَل الْمُتَشَبِّھِیْنَ بِالنِّسَاءِ۔ ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں سے مشابہت کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک وقت تھا کہ بازار میں کوئی کچھ کھاررہا ہے تو اس کی مروئت ساقط ہوجاتی تھی۔یا سگریٹ پیتا یا رشوت لیتا اس کی مروئت بھی ختم ہوجاتی تھی۔ مگر اب سب کچھ ہوتا ہے ۔ لوگ غلط وصحیح یا حرام وحلال میں تمیز نہیں کرپاتے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
راوی کی یہ عدالت دو چیزوں سے معلوم ہوتی ہے۔

۱۔تعدیل:
علماء جرح وتعدیل میں کسی نے اسے عادل قرار دیا ہو۔دو علماء کی شرط درست نہیں۔

۲۔ شہرت واستفاضہ:
اہل علم کے ہاں اس کی عدالت و ثقاہت ایسی عام ومشہور ہوکہ اسے کسی معدل کی ضرورت نہ رہے۔ وہ مجالس علمیہ میں شرکت کرنے، ثقہ وعادل اہل علم کی رفاقت اور درست روایت میں معروف ہو۔ اس کی توثیق علماء نے کی ہو۔جیسے امام بخاری ومسلم وغیرہ۔

۳۔ راوی غیر معروف ساہو۔یعنی مجہول ہو۔ اس کی دوقسمیں ہیں۔ مجہول العین اور مجہول الحال۔

مجہول العین:
وہ راوی ہے جس سے ایک آدھ نے روایت کی ہو مگر کسی نے اس کی نہ توثیق کی ہونہ جرح۔ایسا راوی شدید ضعف کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور مبہم کے حکم میں آجاتا ہے۔

مجہول الحال:
وہ راوی ہے جس کی ذات وشخصیت تومعلوم ہو مگراس پرکسی نے جرح کی ہوتی ہے نہ تعدیل۔ ایسے راوی کا ضعف احتمالی(expected) ہوا کرتا ہے اس لئے اس کی حدیث اعتبار (ریفرنس) کے لئے لکھ لی جاتی ہے۔

۴۔ راوی ، بدعتی، فاسق اور غیر متقی ہو۔علماء حدیث اس سے احتجاج کے حکم کے بارے میں مختلف الرائے ہیں جس کی تفصیل آپ بدعتی راوی کے باب میں پڑھیں گے۔

۵۔ راوی، صاحب مروئت نہ ہو۔مروئت نام ہے اسلامی اخلاق وکردار کے اظہار کا اور لحاظ کا۔راوی حدیث معمولی اخلاق میں اپنے آپ کو حدیث کے مطابق نہیں ڈھالتا تو اس سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ حدیث کی روایت وتفہیم کے بارے میں سنجیدہ ہوگا۔

۶۔ راوی صغیرہ گناہوں کے کرنے پر مصر ہو۔ایسا نہ ہو کہ صغیرہ گناہوں میں لت پت ہوتا رہے کہ وہ کبیرہ کا درجہ حاصل کرلے۔عدالت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ان کمزوریوں سے پاک ہو۔

٭…ضابط:
لغت میں ضبط کسی شے کو لازم کرلینا اور اسے روک لینا۔ کے ہیں۔ جیسے: ضَبَطَ الشَّئَ۔ اس نے شے کو ضبط کیا یعنی اسے پختگی سے یاد کرلیا۔ اسی طرح الرَّجُلُ ضَابِطٌ۔ سے مراد یہی ہے کہ وہ پختگی والا(Accurate) ہے ۔

محدثین کی اصطلاح میں ضابط وہ ہے جو حدیث بیان کرتے وقت اپنے حفظ میں رہنے والی عبارت کا محافظ ہو۔اور اگر اپنی کتاب سے روایت کررہا ہے تو وہ اس میں بھی بخوبی ضابط ہو۔اور اگر بالمعنی روایت کررہا ہے تو اس کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ جو معنی وہ پیش کررہا ہے اسے بخوبی جاننے والا بھی ہو۔یہ ضبط دوقسم کا ہوتا ہے:

۱۔ ضبط صدر:حفظ کے ذریعے ۲۔ ضبط کتاب: کتابت کے ذریعے

ضبط صدر:
جو الفاظ حدیث یا معنی حدیث شیخ سے سنے انہیں نہ صرف یاد کرنا بلکہ وقت ضرورت انہیں بغیر کمی وبیشی کے ویسا ہی سنادینا۔یعنی الفاظ کا خیال بھی ہو اور صحیح معنی کی ادائیگی کا بھی۔اسے ضبط صدر کہتے ہیں۔ایسا ضابط عربی زبان کا ماہر بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ لفظ کا مدلول یعنی مرادی معنی جانتا ہے اور مترادفات (synonyms)میں تفاوت (variation) کو بھی۔کیونکہ فقہی احکام الفاظ حدیث سے اخذ ہوتے ہیں ۔ نیز راوی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ مقاصد شریعہ(The Objectives of Islamic Law) اور ان کے اہداف (Objectives) کا عالم بھی ہو۔تاکہ وہ حرام کو حلال یا حلال کو حرام نہ کردے۔

ضبط کتاب:
راوی نے اپنے شیخ سے جو احادیث یا واقعات واخبارسنے انہیں خود لکھنے کے بعدشیخ سے تصحیح کرالی ہو۔اور اپنے پاس اس کتاب کو محفوظ مقام پر رکھا ہوتاکہ کسی کے ہاتھ آکراس میں کوئی تبدیلی ، یا تحریف یا کمی وبیشی نہ ہوپائے ۔ایسے نسخہ سے وہ جب چاہے حدیث صحیح سنا بھی سکے۔یہ اصول ایسی کتب کے لئے نہیں جو مشہور ہو کر ہر ایک کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہیں۔ جیسے صحیح بخاری جسے بہت سے شراح نے ضبط کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ضبط پہچاننے کے اصول:
راوی کے درجہ ضبط واتقان کو جاننے کے لئے۔

۱۔ اگر راوی حدیث اپنی روایت میں ثقہ راویوں کی موافقت کرتا ہے اورنادر ہی ان کی مخالفت کرتا ہے تو یہ راوی رواۃ میں اعلی درجے کا تام الضبط مرتبے کا ہے ۔اوراس کی حدیث صحیح لذاتہ کہلائے گی۔

۲۔ اگر ثقات کی بیشتر روایات کی راوی موافقت کرتا ہے اور بعض میں مخالفت تو یہ پہلے راوی کے مقابلے میں ضبط میں ذرا کم درجے کا راوی ہوگا اور اس کی حدیث حسن لذاتہ کے مرتبہ کی ہوگی۔بشرطیکہ اس کا کوئی متابع نہ ہو۔

۳۔ اور اگر راوی روایت حدیث میں ثقات کی بکثرت مخالفت کرتا ہے تو یہ نچلے درجے کا ضعیف راوی ہوگا اس کی حدیث ضعیف ہوکر رد کردی جائے گی۔بشرطیکہ اس کاکوئی متابع نہ ہو ورنہ اس کی حدیث حسن لغیرہ درجہ کو پہنچ جائے گی۔

۴۔ اگرراوی ثقات کی بھرپور مخالفت کرتا ہے اور بہت کم میں موافقت، تو ایسا راوی خطا سے پُراورکھلم کھلا غلط ہے اس کی حدیث اس کے حافظے میں خرابی کی وجہ سے ترک کردی جائے گی۔اس قسم کے راوی کی احادیث مخالفت اور غلطیوں میں مختلف درجات کی ہوتی ہیں جن کا تذکرہ گذر چکا ہے۔

۵۔معتبر محدثین اسی ضبط کا امتحان لے کر راوی حدیث کا وزن قائم کرتے پھر اسے ضابط قرار دیتے تھے۔امام بخاری رحمہ اللہ ہوں یا ان کے مشائخ ان سب کے ضبط کا امتحان مختلف انداز سے لیا گیا ۔کسی نے اسانید ومتون کو ایک دوسرے میں ضم کرکے ضبط کا امتحان لیا اور کسی نے ہر دس احادیث کے بعد اپنی طرف سے ایک حدیث کا اضافہ کرکے لیا۔جس سے راوی کی علمی پختگی اجاگر ہوتی اور شان بھی۔لوگ بھی اس کے علم وفضل کے معترف ہوتے۔

اصول:

٭… تین شروط(اتصال، عدالت اور ضبط) کا تعلق اسناد سے ہے۔جوایجابی ہیں یعنی ان کا ہونا لازمی ہے۔اور باقی دوشرطیں ۔۔ عدم شذوذ وعدم علت۔۔ سلبی ہیں مراد یہ کہ ان کا نہ ہونا شرط ہے۔

٭…ان تمام صفات کے لئے حَدَّثَنَا، أَخْبَرَنَا، أَنْبَأَنَا، یا سَمِعْتُ، حَدَّثَنِی، أَخْبَرَنِی، أَنْبَأَنِی جیسے الفاظ ہیں۔ کبھی ثقہ راوی لفظ عَنْ بھی استعمال کرتا ہے جسے وہ عموماً کسی اور روایت میں مطلوبہ الفاظ کے ساتھ واضح کردیتا ہے۔ مگر سند میں مسلسل لفظ عَنْ یا لفظ قَالَ اور أَنَّ کا استعمال صحت کی مطلوبہ شرائط کو پورا نہیں کرتے۔

٭… عدم شذوذ:
شذوذ : عربی میں جمہور سے ہٹ کر کوئی منفرد قول وعمل پیش کرنے کو کہتے ہیں۔

اصطلاحاً:
مُخَالَفَةُ الرَّاوِی فِی رِوَایَتِہِ مَنْ ھُوَ أَرْجَحُ مِنہُ عِندَ تَعَسُّرِ الْجَمْعِ بَینَ الرِّوَایَتَینِ۔
راوی اپنی روایت میں اپنے سے زیادہ راجح سے مخالفت کرے کیونکہ دو روایتوں کے مابین موافقت یا جمع کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

مثلاً: اگر ایک راوی دو کا مخالف ہو تو ایک اور دو میں کون سا شاذ ہوا؟ ایک ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک راوی یادداشت میں کمزور ہو اور دوسرا قوی، دوسرا راوی اب اپنی صفت حفظ میں راجح ہوگا۔مخالفت سے مراد یہ نہیں کہ حدیث پر ضعف یا نسخ کا حکم لگا دیا جائے بلکہ اس سے مراد دوسرے کاراجح ہونا ہے۔

مگر علماء اصول اپنا یہ اصول نافذ کرتے ہیں: الْمُثْبِتُ مُقَدَّمٌ عَلَی النَّافِیْ ثابت کرنے والا نفی کرنے والے سے مقدم ہو گا۔ (فتح المغیث ۱؍۱۹) اس لئے وہ روایت قبول کرلیتے ہیں اور محدثین اسے شاذ کہتے ہیں۔کیونکہ راوی اوثق کی مخالفت کرتا ہے۔اور ایسی صورت میں دونوں احادیث میں موافقت کیسے ہوسکتی ہے؟

٭… عدم علت:
علت عربی میں مرض کو کہتے ہیں۔عدم علت سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے مرض سے پاک ہو۔

اصطلاحاً :
ھِیَ فِی الاَصْلِ سَبَبٌ خَفِیٌّ قَادِحٌ فِیْ صِحَّةِ الْحَدِیْثِ، مَعَ أَنَّ ظَاھِرَہُ السَّلَامَةُ مِنْہُ۔ کَوَھْمِ الثِّقَةِ وَمَا شَابَھَہُ مِنْ وَصْلِ الْمُرْسَلِ، أَوْ رَفْعِ الْمَوْقُوْفِ، وَقَدْ تُطْلَقُ عَلَی الظَّاھِرِ مِنْہُ مِثْلَ الإِرْسَالِ وَالتَّدْلِیْسِ وَالاِنْقِطَاعِ وَالتَّعْلِیْقِ وَالإِعْضَالِ فِی السَّنَدِ وَمِثْلَ مُخَالَفَةِ الْحَدِیْثِ لِلْقُرْآنِ، أَوْ لِلْحَدِیْثِ الثَّابِتِ، أَوْ لِلْعَقْلِ السَّلِیْمِ، أَوْ لِلتَّارِیْخِ الثَّابِتِ أَوْ لِلْحَقَائِقِ وَالتَّجَارِبِ الْعِلْمِیَّةِ فِی الْمَتْنِ۔ علت دراصل حدیث میں چھپا ایک مخفی سبب ہے جوبظاہر اپنی سلامتی کے صحت حدیث پر اثرانداز ہوتا ہے۔جیسے ایک ثقہ کا وہم کرنا،یا اس سے مشابہ وہم جیسے مرسل کو موصول بنالینا، یا موقوف کو مرفوع کردینا۔کبھی ظاہری عیب پر بھی یہ لفظ چسپاں ہوتا ہے جیسے۔سند میں ارسال، تدلیس، تعلیق یااعضال وغیرہ کا ہونا۔یا حدیث کا مخالف قرآن ہونا، یا ثابت شدہ حدیث کے مخالف ہونا یا عقل سلیم ، ثابت شدہ تاریخ کے مخالف ہونا۔یا پھر علمی حقائق اور تجربات کے خلاف متن کا ہونا وغیرہ۔

یہ مخفی عیب حدیث کو ناقابل حجت بنادیتا ہے۔یہ علت اثناء تخریج وتحقیق معلوم ہوتا ہے ۔ بظاہروہ حدیث صحیح وسلامت نظر آتی ہے۔مثلاً: ایک حدیث، سند مرفوع کے ساتھ مروی ہو اور وہی موقوف بھی ہو۔اور موقوف ، مرفوع کی نسبت زیادہ صحیح ہو۔ ایسی صورت میں وقف کے ذریعے مرفوع روایت، معلول ہوگی اور حدیث، کلام نبی ﷺ نہیں بنے گی۔ یاوہ حدیث منقطع یا موقوف ہو یا اس کا راوی فاسق یامبتدع داعی ہو یا برے حافظہ کا مالک ہو ۔ اس صورت میں حدیث معلول ہوگی نہ کہ صحیح ۔ کیونکہ وہ علت قادحہ سے محفوظ نہیں رہی۔سند کی طرح یہ علت متن میں بھی ہوتی ہے اور کبھی سند کی علت متن میں قدح پیدا کردیتی ہے۔

اصول:
٭…عدم شذوذ اور عدم علت کی شرط محدثین کی ہے ۔ فقہاء کی نہیں۔اس علم کی ضرورت فقیہ، اصولی اورمفسر کو ہے۔ اس لئے یہ غیر محدثین پر تو حجت ہے مگر محدثین پر نہیں۔

٭…محدثین تو اس روایت کو بھی معلول قرار دیتے ہیں جسے ایک ہی راوی اولاً مرفوع روایت کرے اور بعد میں اسے دوسری اسانید سے موقوف یا مرسل روایت کردے۔ کیونکہ وہ اسے راوی کا سہو یا جہل سمجھتے ہیں۔ پھر بھی وہ قرائن دیکھ کرحتمی اور ترجیحی فیصلہ کرتے ہیں۔ یہی محقق محدثین کا نقطہ نظر ہے۔ رہے علماء اصول تو وہ ایسے راوی کی حدیث قبول کرلیتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ جب راوی کے نزدیک یہ خبر صحیح ہے اوراس کا ایک فتوی اس روایت کے عین مطابق ہے جو اس نے آپ ﷺ سے کی تھی تو اس میں کیا قباحت ہے؟

٭… چونکہ حدیث میں علت ظاہر نہیں بلکہ ہمیشہ مخفی ہوتی ہے۔اس لئے محدثین ان دو مصطلحات حَدِیثٌ صَحِیحٌ اور حَدِیثٌ إِسْنَادُہُ صَحِیحٌ میں فرق کرتے ہیں۔ پہلی حدیث کو وہ صحیح اس لئے کہتے ہیں کیونکہ اس میں علت نہیں جب کہ دوسری اصطلاح میں علت ہونے کا احتمال ہے۔ (مقدمہ علوم الحدیث:۳۵)

٭… صحیح حدیث کی پانچ شرائط میں سند ومتن کا روایتی اور درایتی مطالعہ بھی ہے۔ جس کے بغیر حدیث کا قبول کرنا یا اسے رد کرنا غیرعلمی کوشش ہوگی اور اس کے بغیر مسائل فقہ کشید کرنا بھی فقہ اسلامی کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی۔

٭…ان پانچ شرطوں میں سے کوئی ایک موجود نہ ہو تو اس حدیث کو صحیح نہیں کہا جائے گا۔
 
Top