• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۳۔متصل سند میں اضافہ:
ھُوَ أَنَّہ یَزیْدُ رَاوٍفِی الإسنادِ رَجُلًا لَمْ یَذْکُرْہُ غَیرُہُ۔ ایسی حدیث جس کی سند کے راویوں میں راوی ایک آدمی(خواہ نام لے یا اسے مبہم رکھے) کا اضافہ کردے جس کا تذکرہ دیگر راویوں میں سے کسی نے اس سند میں نہ کیاہو۔
اسے المَزِیْدُ فیِ مُتَّصِلِ الاَسَانِیدِ بھی کہتے ہیں۔مراد یہ ہے کہ ایک ثقہ آدمی حدیث کو سند متصل کے ساتھ یوںروایت کرتا ہے: حَدَّثَنِی۱حَدَّثَنِی ۲حَدَّثَنِیْ ۳ حَدَّثَنِیْ۴ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ۔ یہ حدیث متصل ہے اس میں چار راوی ہیں۔اسی طرح ایک اورروایت ہے جس کی متصل سند میں ایک راوی کا مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔جس نے اضافہ نہیں کیا وہ اس راوی سے زیادہ متقن ہے جس نے اضافہ کیا ہے۔اس بنا پرمحدثین اسے راوی کا وہم قرار دیتے ہیں۔۔اضافہ کا حکم دو شرطوں سے مشروط ہے:
۱۔کم سند والا ، اضافہ کرنے والے سے ارجح ہو۔
۲۔ کم سند میں راوی سماعت کی صراحت کرے۔ اس لئے مزیدفی متصل الاسانید کو ہمیں متصل ہی سمجھنا چاہئے جو پیش کردہ روایت کے طریقے یا سماع پر غور کرکے ہی سمجھ آتی ہے۔ صریح روایت کے ساتھ اس کا عنعنہ بھی فائدہ وتقویت دے سکتا ہے۔
بہتر یہی ہے کہ قرائن ودلائل دیکھ کر اس کا فیصلہ کیا جائے تاکہ صحیح روایت ترجیح پا سکے۔
مثال: امام احمد نے مسند(۲/۳۸۶،۴۱۶، اور۴۶۷) میں، صحیح مسلم : ۴۷۵۱ میں اور ابوعوانہ نے (۲/۱۰۹) میں بہ سند:
أبُوعَوَانَةَ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطاءٍ، عَنْ أَبِی عَلْقَمَةَ، عَن أبی ہریرَة ۔۔ رَضی اللہُ عنہُ۔۔ ۔۔مَرفُوعًا: مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاع اللہَ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَی اللہَ، وَمَنْ أَطَاعَ أَمِیْرِیْ فَقَدْ أَطَاعَنِی، وَمَنْ عَصَی أَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِی۔
یہی حدیث امام نسائی نے بھی سنن (۸/۲۷۶) میں بہ سند :
أَخْبَرَنَا أَبودَاوٗدَ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبو الْوَلِیدِ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبوعَوَانةَ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبیہِ عَنْ أَبِی عَلْقَمَةَ، عَنْ أَبی ہُریرةَ بِہِ۔
اس سند میں عَنْ أَبِیہ کا اضافہ انہوں نے کیا ہے۔ یہ ہے مزید فی متصل الاسانید جو عنعنہ کے ساتھ ہے جب کہ صحیح مسلم کی روایت میں یعلی بن عطاء کی اپنے شیخ ابوعلقمہ سے سماع کی صراحت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۴۔مضطرَب
بِکَسْرِ الرَاءِ، وَقِیل بِفَتْحِھَا، مَا اخْتَلَفَ الرُّوَاةُ فِی سَنَدِہِ أَو مَتْنِہِ وَتَعَذَّرَ الْجَمْعُ فِی ذَلِكَ وَالتَّرْجِیْحُ یَعْنِی رَوَی مَرَّةً عَلَی وَجْہٍ، وَمَرَّةً عَلَی وَجْہٍ آخَرَ مُخَالِفٌ لِلاوَّلِ عَلَی وَجْہِ التَّسَاوِیْ، وَلَمْ یُمْکِنِ الْجَمْعُ بَینَھُمَا ۔وَلٰکِنَّہُ مَقْبُولٌ إِذَا دَارَ الاِضْطِرَابُ عَلَی الرُّواةِ الثِّقاتِ الْمُتْقِنِینَ فِی السَّنَدِ کَالزُّھْرِیِّ فَلَا یُعَدُّ اِضْطِرَابًا اَلْبَتَّۃَ، وَإلَّا فَضَعِیفٌ وَمَرْدُودٌ۔ وہ حدیث جس کی سند یا متن کو ایک بار کسی ایک راوی یا ایک متن سے روایت کیا جائے اور دوسری بار وہ مختلف ہومگردرجہ میں دونوں مساوی ہوں۔روایت میں ایسی مخالفت ہو کہ ان کے مابین جمع یا ترجیح مشکل ہو۔ہاں یہی حدیث اس وقت مقبول ہوگی جب سند میں اضطراب کا دارومدار ثقہ اور متقن راویوں پر ہو جیسے امام زہری پر،ایسی صورت میں یہ بالکل اضطراب نہیں ہوگا۔ ورنہ وہ ضعیف ہوگی اور مردود۔

مثلاً: ایک محدث زید سے حدیث روایت کرتا ہے۔پھر یہی حدیث اس سے روایت کرنے والا زید کی بجائے عمرو سے روایت کرتا ہے۔ جس راوی نے زید کا نام لیا اور جس نے اسے عمرو سے بدلاوہ عمرو سے کسی بھی صورت میں ترجیح نہیں پارہا۔ اسے مضطرب کہتے ہیں کیونکہ رواۃ حدیث اس راوی کے بارے میں مضطرب ہوگئے۔ کسی نے کہا : وہ زید ہے اور کسی نے کہا: وہ عمرو ہے۔ترجیح کی کوئی صورت وہاں نہیں ملتی۔اگر ہو توپھر اضطراب باقی نہیں رہتا۔

سند میں اضطراب:
سیدنا ابوبکر صدیق کی یہ حدیث: آپ نبی ﷺ سے عرض کرتے ہیں: یَارسولَ اللہِ! أَرَاكَ شِبْتَ؟ قَالَ: شَیَّبَتْنِیْ ھُودٌ وَأَخَوَاتُھَا۔ امام دارقطنیؒ(العلل ۱؍۱۹۳) فرماتے ہیں: یہ حدیث مضطرب ہے۔ اس لئے کہ یہ حدیث صرف ابواسحق السبیعی کی سند سے آئی ہے۔ علماء حدیث نے اس حدیث میں دس وجوہ سے اختلاف کیا ہے۔ کچھ نے ابواسحق سے مرسل روایت کی ہے اور کسی نے اسے مسند ابوبکر بنادیا ہے اور کوئی اسے مسند سعد کہتا ہے تو کوئی مسند عائشہؓ۔ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اس لئے ان کے مابین جمع کرنا بہت مشکل ہے اور ترجیح بھی ناممکن۔ان تمام وجوہ کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی (النکت: ۳۳۰) میں جمع کردیا ہے۔

متن میں اضطراب:
تسمیہ کی حدیث ہے یعنی بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قرائت فاتحہ سے قبل پڑھنا۔ امام ابن عبد البرؒ نے اس پر اضطراب کی علت لگائی ہے۔

نوٹ: سند میں اضطراب زیادہ ہوتا ہے بہ نسبت متن کے۔

اضطراب کا حکم:
اگر ان احادیث میں جمع کرناممکن ہو تو کردیا جائے تاکہ اضطراب ختم ہو۔ جیسے، حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ کے احرام باندھنے والی روایات ہیں۔ آپ ﷺ نے تلبیہ حج افراد کے لئے فرمایا ، یا حج تمتع کے لئے یا قران کے لئے؟ یہ سب مختلف روایات موجود ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَلَا تَنَاقُضَ بَیْنَ ذَلِكَ فَإِنَّہَ تَمَتَّعَ تَمَتُّعَ قِرَانٍ، وَأَفْرَدَ أَعْمالَ الْحَجِّ، وَقَرَنَ بَیْنَ النُّسُکَیْنِ الْعُمْرةَ وَالْحَجَّ، فَکَانَ قَارِنًا بِاعتبارِ جَمْعِہِ النُّسُکَیْنِ، وَمُفْرَدًا بِاعتبارِ اقْتِصَارِہِ عَلَی أَحَدِ الطَّوَّافَینِ وَالسَّعْیَینِ، وَمُتَمَتِّعًا بِاعتِبارِ تَرَفُّھِہِ بِتَرْكِ أَحَدِ السَّفَرَین۔ ان روایات میں باہم کوئی اختلاف نہیں۔ کیونکہ آپ نے فائدہ قران کا ہی اٹھایااور حج مفرد کے اعمال کئے۔ عمرہ وحج جیسے مناسک کو آپ ﷺ نے جمع کیا۔ دونوں مناسک کو جمع کرنے کے اعتبار سے آپ قارن ٹھہرے اور دو طوافوں اور دو سعیوں میں ایک پر اکتفاء کرنے سے آپ ﷺ مفرد ٹھہرے اور دو سفروں میں سے ایک کو اپنے سکون اور آرام کی خاطرترک کرنے کے اعتبار سے آپ متمع بن گئے۔

اصول:…
مضطرب روایات میں جو روایت راجح ہوگئی تو دوسری شاذ یا منکر بن جائے گی۔اس طرح اضطراب بھی ختم ہوجائے گا۔ جیسے: سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا جب آزاد ہوئیں تو آپ ﷺ نے انہیں اختیار دے دیا کہ تم اپنے خاوند کے ساتھ رہو یا اس سے جدا ہوجاؤ۔( صحیح بخاری: ۵۰۹۷) کیا ان کے خاوند مغیث غلام تھے یا آزاد؟ اس پر متعدد مختلف روایات ہیں۔ اسود نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے: وہ اس وقت آزاد تھے۔ جب کہ عروہ اورقاسم بن محمد بن ابی بکر دونوں ام المؤمنین سے روایت کرتے ہیں کہ وہ غلام تھے۔ اختلاف کی اس صورت میں عروہ بن زبیر اور قاسم بن محمد کی روایت کو اسود کی روایت پر ترجیح قرابت کی وجہ سے دیں گے اس لئے کہ ام المؤمنین، عروہ کی خالہ اور القاسم کی پھوپھی ہیں۔ رہے اسود تو وہ ایک اجنبی ہیں نیز ان کی روایت میں انقطاع بھی ہے۔(فتح الباری ۹؍۱۶۸)

اصول:…
مضطرب حدیث ضعیف ہوگی اور ناقابل احتجاج بھی۔کیونکہ اس حدیث کا اضطراب آگاہی دے رہا ہے کہ اس کی روایت کو ضبط ہی نہیں کیا گیا۔مقصدحدیث میں جب اضطراب ہی نہ ہو تو پھراسے اضطراب نام نہیں دینا چاہئے۔ جیسے: فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے روز خیبر بارہ دینار کا ایک ہار خریدا جو سونے اور گوہر کا تھا۔ پھر اسے توڑ کر علیحدہ علیحدہ کرکے بیچا تو انہیں بارہ دینار سے زیادہ ملے۔ آپ ﷺ کو بتایا توتائید کی اور فرمایا: لَا تُبَاعُ حَتّٰی تُفْصَلَ۔ جب تک اسے علیحدہ علیحدہ نہ کیا جائے اسے مت بیچا جائے۔ کسی روایت میں یہ ہے : فضالہ نے اسے خریدا۔ کسی میں یہ ہے کہ کسی اور نے ان سے اسے خریدنے کا کہا۔ پھر کسی میں ہے : وہ سونے اور گوہر کا تھا۔ کچھ میں سونے کے ساتھ موتی لٹکے ہونے کی بات ہے ۔کسی میں بارہ دینا ر، تو کسی میں نو دینار قیمت کہی ہے اور کسی میں سات دینار۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ھَذا لَا یُوجِبُ ضَعْفًا یَعْنِی الْحَدِیْثَ بَلْ بِالْمَقصودِ مِنَ الاِسْتِدْلالِ مَحْفُوظٌ لَا اخْتِلَافَ فِیہِ، وَ ھُوَ النَّھْیُ عَنْ بَیْعِ مَا لَمْ یُفْصَلْ، وَأَمَّا جِنْسُھَا أَو مِقْدَارُ ثَمَنِھَا فَلَا یَتَعَلَّقُ بِہِ فِی ھَذِہِ الْحَالِ مَا یُوجِبُ الاِضْطِرَابَیہ اختلاف حدیث کو ضعیف نہیں کرسکتا بلکہ استدلال کا مقصد اس میں بغیر اختلاف کے محفوظ نظر آتا ہے۔ اور وہ اس چیز کی بیع سے روکنا ہے جو علیحدہ علیحدہ نہیں کی گئی۔ باقی اس کی جنس اور اس کی قیمت کی مقدار وغیرہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں جو حدیث میں اضطراب کو واجب ٹھہرائے۔

نوٹ: اصول حدیث کی مبادیات سے ناواقف لوگ آج ان احادیث میں کیڑے نکالتے ہیں جن پر عمل کیا قبول ہی نہیں کرنا چاہتے۔اس طرح انہیں ہر حدیث میں اضطراب واختلاف نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ توفیق وترجیح کے قواعد سے بے خبری ہے۔ ورنہ یہ اضطراب واختلاف کیا فقہ ، تفسیر یا اصول فقہ میں نہیں؟ اور یہ حقیقت ہے کہ حدیث میں اس اضطراب واختلاف کی مثالیں نادر ہی ملتی ہیں جبکہ ایک ہی مسلک کی کتب فقہیہ میں فقہی اختلاف کی بھرمار ہے۔

اصول:…
اسی طرح راوی کی شخصیت پر اتفاق کے بعد اس کے نام اور کنیت میں اگر دو احادیث میں اختلاف ہوجائے تو یہ اضطراب نہیں۔ احادیث میں یہ چیزعام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۵۔ محرَّف:
اسے کہتے ہیں کہ حدیث کے لفظ کے حروف تو باقی رہیں مگر اس کے اعراب یعنی حرکت میں تبدیلی واقع ہوجائے۔مثلاً: کُلاب کو کوئی کِلاب یا سَلَام کو کوئی سَلّام پڑھ لے یا جُناح کو جَناح کہہ دے یا لکھ لے۔

۶۔ مُصَحَّف:
ایسی حدیث جس کے الفاظ میں نقطوں کی تبدیلی ہوجائے۔ مثلاً: عوام بن مراجم کو ابن مزاحم لکھا یا پڑھا جائے یا متن میں کلمہ ستاًّ ا گر کوئی شیئًا پڑھ لے یا لکھ لے۔ یہ تصحیف ہوگی۔ جیسے:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّھرِ۔ جو رمضان کے روزے رکھے پھر ان کے فوراً بعد چھ روزے شوال کے رکھ لے تو اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب ملے گا۔

٭…یہ محدثین کی اصطلاح ہے ورنہ مصحف ومحرف دونوں تحریف ہیں۔تصحیف وتحریف کا علم ہوجانے کے بعد اسے ثابت شدہ صحیح اور اصلی صورت کی طرف لوٹانا اور پڑھنا یا لکھنا چاہئے۔ پھر اس کی صحت یا ضعف کا اندازہ کرکے عمل کرنا یا ترک کرنا چاہئے۔

٭…یہ فن اتنا اہم ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کو کہنا پڑا: ومَنْ یَعْری عَنِ الخَطَأ وَالتَّصْحِیفِ۔ کون ہے جو غلطی اور تصحیف سے بچا ہو؟۔یا : مَنْ یُفلَتُ مِنَ التصحیفِ۔ کون ہے جو تصحیف کی لغزشوں سے بچا ہو؟ بڑے حاذق علماء بھی کچھ نہ کچھ خطا کر بیٹھے۔ الاماشاء اللہ۔ اس کی وجہ بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ بیشترکتابی تحریر اس دور میں بغیر نقطوں اور اعراب کے ہوا کرتی تھی۔ جس کا نتیجہ یہی ہوتا کہ نگاہ اس لفظ کو سمجھنے میں خطا کربیٹھتی۔ پھر اداء میں بھی خطا ہوتی اور سماع میں بھی۔فہم بھی بعض اوقات دھوکا کھاجاتا۔ جیسے: محمد بن المثنی عنزی نے ایک بار ایک حدیث کو پڑھ کر یہ کہا: نَحْنُ قَومٌ لَنَا شَرَفٌ، نَحْنُ مِنْ عَنْزَةَ، صَلّٰی إِلَینَا رسولُ اللہِ ﷺ۔ ہم عنزی لوگوں کے لئے اتنا شرف ہی کافی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے قبیلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہے۔ اکثر کاتب تسع کو سبع لکھ لیتے ہیں یا برید کو یزید۔

سیدنا زید بن ثابت کی حدیث: أَنَّ النبیَّ ﷺ اِحْتَجَرَ فِی الْمَسجِدِ۔ کو ابن لہیعہ نے احْتَجَمَ پڑھا۔حدیث میں ہے: آپ ﷺ نے: نَھَی عَنِ التَّحْلِیقِ یَومَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ۔ نماز جمعہ سے قبل حلقے بنا کر بیٹھنے سے منع فرمایا۔ ایک صاحب اس حدیث سن کر کہتے ہیں کہ میں نے چالیس برس اس پر عمل کیا ہے کہ نماز سے قبل میں نے کبھی حجامت نہیں بنوائی۔انہوں نے تحلیق کا مطلب سرمنڈوانا لے لیا۔

عثمان بن سعید الدارمیؒ کہتے ہیں ہم مصر میں سعید بن ابی مریم ؒکے ہاں بیٹھے تھے ایک شخص آیا اور عرض کی کہ مجھے چند احادیث بیان فرما دیجئے۔ابن ابی مریم نے اس کی اس درخواست پر کوئی توجہ نہ دی۔ اتنے میں ایک اور صاحب آئے انہوں نے احادیث سننے کی خواہش ظاہر کی ابن ابی مریم نے انہیں سنادیں۔ پہلا شخص بولا کہ میں نے آپ سے عرض کی مگرآپ حدیث سنانے سے باز رہے لیکن اس شخص کی درخواست پر آپ نے اسے احادیث سنادیں آخر کیوں؟ ابن ابی مریم فرمانے لگے کہ جب تم شیبانی اور سیبانی یا ابو جمرۃ اور ابو حمزہ کے مابین اس وقت تمیز کرلو کہ ان دونوں میں کون کون ابن عباس سے کیا کیا روایت کرتا ہے تو ہم تمہیں نہ صرف احادیث سنائیں گے بلکہ اس کی طرح اپنے خاص طلبہ میں شامل کرلیں گے۔(المحدث الفاصل: ۲۷۴، سیر اعلام النبلاء ۱۰؍۳۲۹)

امام ذہبی رحمہ اللہ اس واقعہ پر اپنا تبصرہ یوں فرماتے ہیں:

یہ تو ہمارے اسلام کی علمی حالت تھی اور آج ہماری حالت کیا ہے؟ ہم ایک مصحف صحیفہ سنتے ہیں جس میں غیر معروف شیخ کی اجازت ہے اور پھر ہم اس کادوسرے نسخہ سے مقابلہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں ۔ اختلاف اور غلطیوں کو بتاتے ہیں۔ ایک اور فاضل صاحب اس کی تصحیح فرماتے ہیں اور ہمارا طالب علم اسی نسخے پر بچوں کے نام لکھ کر اپنا شغل کررہا ہے۔ ہمارا عالم اسے لکھ رہا ہے اور شیخ صاحب گھمیریاں لے رہے ہیں۔ بزرگ ایک وادی میں بیٹھے ہیں جہاں اس نسخے کی مشکلات پر گفتگو ہورہی ہے ۔مبتدع اس نسخے سے بھرپور استدلال لے رہا ہے۔اور ہر مومن سوال کر رہا ہے کہ کیا ان چھچھوروں نے امت کا دین محفوظ کرنا ہے؟

ر۔سوء حفظ: بھی دو وجہ سے تھا۔ یا تو اپنے سے زیادہ ثقہ کی مخالفت ہوتی یا پھرسارا معاملہ ہی خلط ملط تھا۔پہلی مخالفت شاذ ہے اور دوسرا اختلاط۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۵۔ شاذ:
ھُوَ مَا خَالَفَ فیہِ الْمَوصُوفُ بِالضَّبْطِ مَنْ ھُوَ أَضْبَطُ مِنہُ، أَو مَا اْنَفَردَ بِہِ مَنْ لَا یَحْتَمِلُ حَالَةَ قَبُولِ تَفَرُّدِہِ۔ ایک حدیث کا مقبول ضابط راوی اسی روایت میں اپنے سے مرتبہ میں بڑے ضابط کی مخالفت کررہا ہو۔یا اسے بھی شاذ کہہ دیتے ہیں جو ایسے راوی سے منفرد ہو جس کے حالات اس کے تفرد کو قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
…بڑے ضابط سے مراد ایک راوی کا دوسرے راوی کے مقابلے میں ضبط میں اعلی درجہ کا ہونا۔ مثلاً ثقہ راوی، صدوق سے بڑے درجے کا ہے۔ اسی طرح ائمہ ابن معین، احمد بن حنبل، نسائی اور ابوحاتم کسی راوی کو ثقہ کہتے ہیں تو یہ راوی اس راوی سے درجے میں بڑا ہوگا جسے صرف ابن معین اور نسائی ثقہ کہیں ۔

شذوذ کے اہم اصول و نکات:
… محدثین کم ثقہ کی روایت کو شاذ قرار دیتے ہیں اور بڑے ثقہ یا امام کی روایت کو محفوظ۔ مگر صرف اس روایت میں مخالفت کی وجہ سے اس کی دیگر روایات کو رد نہیں کردیتے۔
… یہ شرط اس لئے ہے کہ فرد واحد کا علم حدیث، ضروری نہیں کہ کامل ہو یا دیگر علماء کے برابر ہو۔ اس لئے جب ایک عالم، فقیہ یا امام کی منفرد روایت ہو یا اس کی ذاتی رائے یا علم ہو تو ضرور ی ہے کہ اس کے علم کو دیگر فضلاء وعلماء کے ذریعے بھی پرکھا جائے۔ایسی منفرد روایت یارائے جب دیگر فضلاء اور علماء کے علم سے مختلف ہو تو اسے شذوذ کہتے ہیں۔
…شذوذ کا اصول یہ ہے کہ اسے ایک عالم کی ذاتی رائے یا علم سمجھ کر بڑے احترام کے ساتھ نظر انداز کردینا چاہئے اور دیگر بڑے علماء وفضلاء کی روایت و علم کو ترجیح دینی چاہئے۔ حدیث وفقہ کے علم اور روایت میں بھی یہی اصول چلے گا۔اور اگر اس خاص شذوذ کے علاوہ اس عالم کا علم دوسرے فضلاء سے ہم آہنگ ہے تو ایسا عالم وفقیہ باوجود اس ایک آدھ شذوذ کے پھر بھی قابل قدر ہوگا۔
…کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہ اکیلاراوی بھی شاذ نہیں ہوتا بشرطیکہ وہ دو سے زیادہ ضابط اور حفظ میں زیادہ قوی ہو۔
…شاذ روایت محدثین کے ہاں قابل عمل اس لئے نہیں کہ اس کے مقابلے میں زیادہ ثقہ راوی اس کی نفی کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ انہیں دونوں کے مابین جمع کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس لئے اوثق یا ثقات کی روایت کو وہ ترجیح دیتے ہیں۔
…بعض اوقات اصولی المُثْبِتُ مُقَدَّمٌ عَلَی النَّافِیْ ثابت کرنے والا نفی کرنے والے سے مقدم ہوگا۔ کہہ کر شاذ کی روایت کو لینا بھی پسند کرتے ہیں۔اور اوثق کو چھوڑ دیتے ہیں۔

شذوذ کی مختلف حالتیں
ضابط کی اضبط سے متن میں مخالفت: سنن ابی داؤد میں حدیث (۲۳۳۷) بہ سند:
ھَمَّامُ بْنُ یَحْیَی، قَال: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَن رسولِ اﷲ ﷺ قال: کُلُّ غُلامٍ رَہِینةٌ بِعَقِیقَتِہِ، تُذْبَحُ عَنہُ یَومَ السَّابِعِ، وَیُحْلَقُ رَأسُہُ ویُدْمٰی۔ ہر نومولود اپنے عقیقے کے ساتھ مرہون ہوتا ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے،اس کا سر مونڈا جائے اور۔۔۔۔۔۔۔
ابوداؤد کہتے ہیں: ہمام کے اس کلام میں دیگر رواۃ نے مخالفت کی ہے۔ کیونکہ یہ ہمام کا وہم ہے۔قتادۃ کے دیگر شاگردوں میں مثلاًسعید بن ابی عروبۃ اور ابان بن یزید العطار نے یُسَمّٰی کہا ہے ۔ اور یہ صاحب کہتے ہیں: یُدْمَی۔اس لئے اس لفظ کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔

ضابط کی اضبط سے سند میں مخالفت: مسند احمد (۵/۳۸۲،۴۰۲)، صحیح بخاری(۱/۵۲)، مسلم(۱/۲۲۸) میں بہ سند:
عَنِ الاَعْمَشِ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ حُذَیْفَةَ بْنِ الْیَمَانِ أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ أَتَی سُبَاطَةَ قَومٍ فَبَالَ عَلَیْھَا قَائِمًا، فَأَتَیْتُہُ بِوَضوءٍ، فَذَھَبْتُ لِأتَأخَّرَ عَنہُ، فَدَعَانِی حَتّٰی کُنْتُ عِندَ عَقِبَیْہِ، فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَی خُفَّیہِ۔
یہی حدیث اسی سند کے ساتھ اعمش سے اور لوگوں نے بھی روایت کی ہے جن میں: ابن عیینہ، وکیع، شعبہ، ابوعوانہ، عیسیٰ بن یونس، ابومعاویہ، یحییٰ بن عیسیٰ الرملی اور جریر بن حازم شامل ہیں۔
مگر اس جماعت کی مخالفت ابوبکر بن عیاش نے کی ہے۔جب کہ وہ خود ثقہ ہیں اور ان کی ایسی غلطیاں بھی ہیں۔ وہ اسے أعْمَش، عَن أبی وَائلٍ عَنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَہَ سے روایت کرتے ہیں۔ حافظ ابوزرعہ الرازی فرماتے ہیں: ابوبکر بن عیاش نے اس حدیث میں غلطی کھائی ہے صحیح سند وہی ہے جو أعْمش عن أبی وائل عَنْ حُذَیْفَةَ ہے۔ اس طرح ابوبکر بن عیاش کے ذریعے اس حدیث کی سند، شاذ ہوئی۔

متن میں غیر ثقہ کا تفرد بغیر مخالف کے بھی ناقابل قبول ہوگا: جب منفرد راوی ایسا ہو جس کے حفظ یا اتقان کی توثیق نہ کی گئی ہو اورنہ ہی یہ منفرد کسی کی روایت کا مخالف ہو۔ اس کا یہ تفرد اسے کمزور کردے گا اور صحیح کے دائرہ سے دور کر دے گا۔ پھر اس کے بعد یہ راوی حسب حالت مختلف مراتب کی وجہ سے اوپر تلے ہوگا۔ اگر یہ منفرد راوی حافظ، ضابط اور مقبول کے درجہ سے بہت دور نہیں یعنی وہ صدوق ہو تو اس کی حدیث حسن شمار ہوگی اور درجہ ضعف تک نہیں پہنچے گی۔لیکن اگر وہ اس درجہ سے دور ہو تو وہ ضعیف ہوگا خواہ وہ حفظ کی وجہ سے کیوں نہ ہو تو اس کا شمار شاذ ومنکر میں ہوگا۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں: اگر وہ ضبط میں ثقہ نہیں مگر ضابط کے درجہ سے پرے بھی نہیں تو اس کی حدیث حسن ہوگی ورنہ شاذ ، منکر اور مردود ہوگی۔ابوداؤد (۱۲۹۷) ،ابن ماجہ (۱۳۸۷)، ابن خزیمہ (۱۲۱۶)، اور طبرانی نے المعجم الکبیر(۱۱/۲۴۳) میں بہ سند:

عَبدُ الرحمنِ بْنُ بِشْرِ بْنُ اْلحَکَمِ، عَنْ مُوسَی بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ القَنبَارِیِّ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ أبانَ، عَنْ عِکْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ……

صلاۃ التسبیح کی حدیث روایت کی ہے۔اس روایت میں موسیٰ قنباری صدوق ہیں مگر منفرد ہیں۔ جن کاکسی معتبر سندسے کوئی متابع ہے نہ کوئی شاہد۔ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: اس لئے یہ شاذ ہے۔پھر نماز کی ہیئت میں مخالفت بھی اس میں ہے۔

اہم نکتہ: بعض علماء موسیٰ بن عبد العزیز کی اس حدیث کو منکر کہتے ہیں اور بعض شاذ، اس لئے جب راوی کے تفرد یا مخالفت پر شذوذ یا نکارت کا لفظ بولا جاتا ہے تو یہ اصطلاح کے خلاف نہیں۔

سند میں غیر ثقہ کا تفرد بغیر مخالف کے ناقابل قبول ہوگا: جیسے یہ روایت:
عَبْدُ المجیدِ بْنُ عَبدِ العزیزِ بْنِ أَبی رَوَّادٍ، عَن مَالكٍ، عَن زیدِ بْنِ أَسلُمَ، عَنْ عَطاءِ بْنِ یَسارٍ، عَنْ أَبِی سعیدٍ الخُدْرِیْ ۔رضی اللہ عنہ۔ ۔مَرْفوعًا: إِنَّما الاعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔۔۔۔ الحدیث۔

اس روایت میں عبد المجید کو بہت سے علماء نے ثقہ قرار دیا ہے۔مگر یہاں وہ امام مالک سے یہ سند روایت کرنے میں اکیلے ہیں۔ جب کہ درست یہی ہے کہ امام مالک کے علاوہ دوسروں نے بھی یہی حدیث بہ سند :

یَحْییَ بْنُ سعیدِ الانْصاریُّ، عَن مُحمدِ بْنِ إبْراھِیمَ التَّیْمِیِّ، عَنْ عَلْقَمةَ بْنِ وَقّاصٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ


روایت کی ہے۔ چنانچہ عبد المجید کا سندی تفرد شذوذ ہے۔ امام بخاری اسی لئے اس غریب صحیح حدیث کو اپنی کتاب کی ابتداء میں لائے ہیں۔

اہم نکتہ: یہ بات ذہن میں رہے کہ کسی حدیث کے راوی کا تفرد۔خواہ سند میں ہو یا متن میں۔بہرحال مخالفت کی انواع میں سے ہے۔ کیونکہ اسے دوسرا معین صورت میں روایت کرتا ہے اوریہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے ویسے روایت نہیں کرتا۔

تفرد ثقہ یعنی جس کا کوئی مخالف نہیں اس کی دو صورتیں ہیں:

۱۔ ثقہ راوی ایسی حدیث روایت کرے جو صرف اسی کے ذریعے سے ہوئی ہو اور اس کا کوئی معارض نہ ہو۔ یہ حدیث بلاخلاف مقبول حدیث ہے ۔امام حدیث یا حافظ حدیث کی روایت کردہ اس حدیث کی اہمیت کو کوئی روایت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔بلکہ اس کے برعکس یہ منفرد حدیث اس کے حفظ واتقان کی دلیل ہے کہ ایسی شے اس نے محفوظ کی ہے جو کوئی دوسرا نہ کرسکا۔اسی لئے امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ کہنا ہے:

شاذ حدیث یہ نہیں ہوتی کہ ایک ثقہ راوی اس حدیث کو روایت کرے جو کسی اور نے نہ کی ہو بلکہ شاذ وہ ہوتی ہے کہ ثقہ ایسی حدیث روایت کرے جو دیگر لوگوں کی روایت کی مخالف ہو۔

امام نوویؒ فرماتے ہیں:جب ایک متقن اور ضابط ثقہ راوی حدیث روایت کرنے میں منفرد ہو تو اس کی یہ روایت بلاخلاف مقبول ہے ۔ اور خطیب ؒبغدادی نے تو اس پر علماء کا اتفاق لکھا ہے۔

حافظ عراقی ؒکہتے ہیں: جب راوی کسی روایت میں منفرد ہو تو اس کی روایت جانچی جائے اگروہ کسی کی مخالفت نہیں کررہا تو پھر یہ اسی کی روایت ہے جو کسی اور کے پاس نہیں۔ پھر بھی اس منفرد راوی کو جانچا جائے کہ آیا وہ عادل و حافظ ہے اتقان وضبط میں قابل اعتماد ہے؟ اگر ہے تو اس کی منفرد روایت قبو ل ہوگی اور اس کی انفرادی حیثیت اس کے حق میں بری شے نہ ہوگی۔

امام مسلم لکھتے ہیں: امام زہری رحمہ اللہ کی نوے منفرد روایات ہیں۔ جس میں ان کے ساتھ کوئی بھی دوسرا شریک نہیں اور یہ سب روایات جید ہیں۔ کتب حدیث میں روایات پیش کرتے وقت اسی اصول کو کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔اس سے بہتر کوئی اور دلیل نہیں ہوسکتی کہ ائمہ حدیث نے اپنی تصنیفات میں غریب احادیث روایت کیں جو صرف ایک ہی سند سے جانی جاسکتی تھیں اور اس سے انہوں نے احتجاج بھی لیا۔ حتی کہ شیخین نے صرف صحیح احادیث کی تصنیفات لکھیں اوربکثرت ان غریب احادیث کو روایت کیا جن کی سند یا مصدر ایک ہی تھا۔جن میں ایک حدیث سیدنا عمر بن الخطاب کی إنما الاعمال بالنیات والی ہے۔ یہ حدیث محمد بن ابراہیم التیمی سے منتشر ہوئی اور پھر یحییٰ بن سعید الانصاری سے ایک سو سے زیادہ رواۃ نے اسے روایت کیا۔اسے آحاد مطلق یا فرض مطلق بھی کہتے ہیںپھر بھی یہ حدیث آحاد غریب مطلق ہے۔ نیز یہ ان چار احادیث میں سے ہے جن پر پورے دین اسلام کا دارومدار ہے۔

دوسری صورت: ایک لفظ کا، یا جملے کا ، یا حدیث کے زیاہ تر حصے کا اضافہ۔اس کا ذکر ثقات کے اضافہ میں آرہاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۶۔ مُختلَط:
اختلاط یاد داشت کی کم زوری کا نتیجہ ہے۔ جس میں راوی پر احادیث مشتبہ ہوجاتی ہیں اوراس کی روایت درست نہیں رہتی۔ ایسا راوی مختلِط کہلاتا ہے اور اس کی روایت کردہ حدیث مختلَط۔

ھُوَ الَّذِی فَسَدَ نِظَامُ عَقْلِہِ بِسَبَبِ مَرَضٍ أَو ضَرَرٍ، أَو کِبَرِ سِنٍّ ونَحْوِھَا، أَو ضَاعَتْ کُتُبُہُ فَلَمْ َیقْدِرْ عَلَی أَدَائِ مَا أَرَادَ رِوَایَتَہُ عَلَی وَجْہِ الصَّوَابِ۔ وہ راوی جس کی عقل کسی بیماری، تکلیف یا بڑھاپے کی وجہ سے خراب ہوگئی ہو۔ یا جس کی کتب ضائع ہوجائیں اور اپنی یادداشت سے حدیث رسول کو صائب طریقے سے سنانے پر قادر نہ ہو۔

راوی لاعلاج مرض یا دکھ کا شکار:
اچانک مال کی چوری یاکوئی بیماری لاحق ہوتی کہ بصارت چلی جاتی۔چنانچہ حافظے سے وہ حدیث روایت کرتے تو بھولتے اور غلطی کرتے۔ طلبہ انہیں اس بھول یا غلطی پرآگاہ کرتے تو اسے وہ قبول کرتے۔ جسے تلقین کہتے ہیں۔ ان بیماریوں اور حوادث کا شکار ہشام بن عمار، عبد الرزاق صنعانی اور علی بن مسہر جیسے ثقہ راوی ہوئے۔

راوی عمر رسیدہ ہوجائے۔ جیسے عطاء بن السائب اور حصین بن عبد الرحمن دونوں ثقہ راوی ہیں مگر بڑھاپے میں ان کی یادداشت جاتی رہی تھی۔جوانی میں بھی یہ اختلاط ہوسکتا ہے۔ مگر اکثریت بڑھاپے میں ہی نسیان واختلاط کا شکار ہوتی ہے۔

کتب جلنے پر اختلاط:
جیسے عبد اللہ بن لہیعہ ایک مصری محدث تھے۔ احادیث مشایخ سے سن کر انہوں نے نہ صرف لکھیں بلکہ سنا کر ان کی اصلاح بھی کرائی۔اچھے اساتذہ کی سند بھی ان کے پاس تھی۔مرجع و مرکز علم تھے۔یہ اپنی کتب کو سامنے رکھ کر بڑے اعتماد سے حدیث پڑھایا کرتے۔اتفاق سے ان کی لائبریری جل گئی اور سب کچھ راکھ ہوگیا۔ بعد میں جو کچھ پڑھانے کی کوشش کرتے تو معاملہ ان پر (Mixed up)ہوجاتاکیونکہ علم حافظے میں نہ رہا تھا۔

سرکاری ذمہ داری قبول کرنے کے بعد اختلاط: روایت حدیث یکسوئی کا تقاضا کرتی ہے تاکہ یہ علم ازبر رہے ورنہ ذہن بٹ جائے تو یادداشت کمزور پڑجاتی ہے۔اس لئے محدثین کی اکثریت آخر وقت تک سرکاری عہدوں اورمنصب قضاء سے مجتنب رہی۔حفص بن غیاث نخعی انتہائی ذہین وفطین ثقہ محدث تھے۔اپنے ہمسروں سے کہیں آگے۔ عہدہ قضاء پیش کیا گیا تو قبول کر لیا۔ ظاہر ہے مختلف النوع مقدمات ونزاع کو جاننے ، ان کی تہہ تک پہنچنے ، عدالتی کاروائی کو نمٹانے اور روزانہ کئی مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے مطالعہ چاہئے۔ اس لئے ان کی توجہ جونہی اُدھر ہوئی حدیثی علم ان سے جاتا رہا پھربتدریج معاملہ مختلط ہوتا گیااور ہوبھی گیا۔

ایسے اختلاط کے دو اسباب ہیں۔

۱۔ اختلاط لازم
۲۔ اختلاط طارئ

اختلاط لازم:
یہ ایساضعیف راوی ہے جو پہلے سے ہی مختلط ہے اس لئے اس کا اختلاط اس کے ساتھ لازمی اور چمٹا ہوا ہے۔یہ سئ الحفظ ہوتا ہے تو ثقہ کی مخالفت کرتا ہے۔ اس لئے اس کی روایت ضعیف ہوگی۔

اختلاط طارئ:
اچانک کسی حادثے کا شکار ہو کر مختلط ہوجانا اختلاط طارئ کہلاتا ہے۔ مثلاً: مرض، کتب خانہ جل جانا وغیرہ۔ ایسا راوی گو حادثہ سے پہلے ثقہ ہوتا ہے مگر اپنا حافظہ کھوکر بہت کچھ بھول جاتا ہے اسے مختلط کہتے ہیں۔ ضبط نہ ہونے کی وجہ سے اس کی روایت قبول نہیں کی جاتی کیونکہ راوی اب ضعیف ہوگیا ہے ۔

مختلط کی روایت قبول ورد کرنے کے ضابطے

معمولی و شدید اختلاط کی وجہ سے محدثین نے ایسے راوی کے چند ضابطے متعارف کرائے تاکہ رد وقبول حدیث میں احتیاط ہو:

ضابطہ نمبر ۱… جس کا اختلاط شدیدتھا اس کے لئے یہی ضابطہ بنا کہ اس کی حدیث قبول نہ کی جائے۔ کیونکہ اس میں وہم اور خطا غالب نظر آتی ہے۔

ضابطہ نمبر۲… جس کا اختلاط معمولی تھا، اصول یہ بنا کہ اس کی روایت قبول کرلی جائے لیکن اختلاط اگر خطا کی صورت میں واضح ہو اسے ترک کردیا جائے۔ صحیحین میں شیخین کایہی طریقہ ہے۔بالفرض یہ امتیاز کرنا مشکل ہوکہ آیا یہ حدیث اختلاط سے پہلے کی ہے یا بعدکی۔ تومزید تشفی کے لئے تحقیق کرلی جائے۔

ضابطہ نمبر۳… اختلاط واضح ہو تو روایت حدیث سے روک دیاجائے۔ مثلاً سعید بن عبد العزیز تنوخی راوی کے بارے میں ابو مسہر کہتے ہیں: سعید اپنی وفات سے قبل مختلط ہوگئے تھے۔ کوئی انہیں عرضاً اپنی احادیث پیش کرتا تو فرماتے : میں ان کی اجازت نہیں دے سکتا۔(تاریخ ابن معین بروایت الدوری ۲/۲۰۴)

انہی میں جریر بن حازم بھی ہیں جن کی اولاد نے محسوس کیا کہ اباجان کو اختلاط ہوتا ہے تو انہیں ان کے شاگردوں سے چھپا دیا۔نیز روایت حدیث سے بھی روک دئے گئے ۔ عبد الرحمن ؒبن مہدی فرماتے ہیں:

جَرِیرُ بنُ حازِمٍ اخْتَلَطَ، وَکَانَ لَہُ أَولادٌ أَصْحابُ الحَدیثِ، فَلَمَّا خَشُوا ذَلِكَ مِنْہُ حَجَبُوہُ، فَلَمْ یَسْمَعْ مِنْہُ أَحَدٌ فِی اخْتِلَاطِہِ شَیْئًا۔ (الجرح والتعدیل از ابن ابی حاتم۱/۱/۵۰۵)

ضابطہ نمبر۴…جو اپنی بعض روایات میں مختلط ہوا۔تو انہیں چھوڑ کر باقی احادیث لے لی جائیں۔ ثقات محدثین میں کچھ مکثرین کو اپنی بعض روایات میں اختلاط ہوا مثلاً معمر بن راشد ۔ امام ذہبیؒ سیر اعلام النبلاء (۷/۱۲) میں فرماتے ہیں:

وَمَعَ کَوْنِ مَعْمَرٍ ثِقَة ثبتًا، فَلَہُ أَوْھَامٌ، لَا سِیَّمَا لَمَّا قَدِمَ الْبَصْرَةَ لِزِیَارَةِ أُمِّہِ، فَإِنَّہُ لَمْ یَکُنْ مَعَہُ کُتُبُہُ، فَحَدَّثَ مِنْ حِفْظِہِ، فَوَقَعَ لِلْبَصْرِیِّیْنَ عَنْہُ أَغَالِیْطُ، وَحَدیثُ ھِشامٍ وَعبدِ الرزاق عَنْہُ أَصَحُّ، لِأنَّھم أَخَذُوا عَنْہُ مِنْ کُتُبِہِ۔ باوجود ثقہ اور ثبت ہونے کے معمر کی احادیث میں چند اوہام بھی ہیں بالخصوص جب وہ بصرہ اپنی والدہ محترمہ کو ملنے آئے تو ان کے پاس اپنی کتب نہیں تھیں۔صرف حافظے سے احادیث بیان کیں اس لئے اہل بصرہ کی ان سے جو احادیث ہیں ان میں کچھ غلطیاں ہیں جب کہ ہشام اور عبد الرزاق کی ان سے روایات زیادہ صحیح ہیں کیونکہ انہوں نے ان سے بذریعہ کتاب احادیث اخذ کی تھیں۔

چند اصول:

۱۔قبل از اختلاط ثقہ کی شنیدہ حدیث قبول کی جائے گی ۔ مثلاً امام نسائیؒ اپنی السنن(۳/۵۴) میں بہ سند:

یَحْیَی بْنُ حَبِیبِ بْنِ عَرَبِیٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السائِبِ عَن أبیہِ، قَالَ: صَلّٰی بِنَا عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ صَلاةً أَوْجَزَ فِیھَا، فَقَال لَہُ بَعْضُ القَومِ: لَقَدْ خَفَّفْتَ ۔أَو أَوْجَزْتَ الصَّلَاةَ۔ فَقَالَ: أَمَا عَلَی ذَلِكَ، فَقَدْ دَعَوتُ فِیھَا بِدَعَوَاتٍ سَمِعْتُھُنَّ مِنْ رَسولِ اللہِ ﷺ، فَلَمَّا قَامَ تَبِعَہُ رَجُلٌ مِنَ الْقَومِ۔۔۔ الحدیث۔ السائب کہتے ہیں ہمیں عمار بن یاسر نے نماز پڑھائی اور مختصر سی پڑھائی۔ کچھ لوگوں نے کہا: آپ نے آج بہت ہلکی یا مختصر نماز پڑھائی ہے؟ فرمانے لگے : میں نے یہ اس لئے کیا کہ میں نے نماز میں کچھ دعائیں کیں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھیں۔ پھر جب وہ کھڑے ہوئے تو ایک شخص ان کے پیچھے ہولیا۔

اس حدیث کی سند میں عطاء بن السائب ثقہ راوی ہیں آخری عمر میں مختلط ہوگئے تھے۔مگر ان کی روایت ترک نہیں ہو گی کیونکہ ان کے شاگرد حماد بن زید نے یہ روایت ان سے قبل از اختلاط سنی تھی۔ یحییٰ بن سعید القطانؒ کہتے ہیں: سَمِعَ حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ مِنْ عَطَاء ٍقَبْلَ اخْتِلَاطِہِ۔ یہی بات ابو حاتم رازیؒ نے کہی ہے۔

۲۔ بعد از اختلاط ثقہ کی شنیدہ روایت قبول نہیں ہوگی۔ مثلاً: امام ابوداؤدؒ :(۲۶۰۲)، ترمذی ؒ:(۳۴۴۶)، اور دیگر نے بہ سند:

عَنْ أَبِی إِسحٰقَ السَّبِیْعِیِّ، عَن عَلِیِّ بْنِ ربیعۃَ الوَالِبیِّ، عَن عَلِی بنِ أبی طالبٍ۔۔رضیَ اللہُ عَنْہُ۔۔ مَرفوعًا: إنَّ رَبَّكَ یُعْجِبُ مِنْ عَبدِہِ إذَا قال: اغْفِرْ لِی ذُنُوبِیْ، یَعْلَمُ أَنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَیرِیْ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ تمہارا رب اپنے بندے سے اس وقت خوش ہوتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے: میرے اللہ! میرے گناہ معاف کردے۔ بندہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا۔

اس روایت میں ابواسحق السبیعی مدلس ہیں کیونکہ انہوں نے یہ حدیث علی الوالبی سے سنی ہی نہیں۔ امام مزیؒ تحفۃ الاشراف (۷/۴۳۶) میں بہ سند:

عَنْ عَبدِ الرحمٰنِ بْنِ مَھدِیٍّ، عَن شُعبةَ، قَال: قُلتُ لاَبی إسحقَ: مِمَّنْ سَمِعْتَہُ؟ قَال: مِنْ یُونُسَ بْنِ خَبابٍ، فَلَقِیْتُ یُونُسَ بْنَ خبابِ، قُلتُ: مِمَّنْ سَمِعْتَہُ؟ قَالَ: مِنْ رَجُلٍ سَمِعَہُ مِنْ عَلِیِّ بْنِ رَبِیْعَةَ۔

مگر اسی روایت کواحمد بن منصور رمادی ؒنے :

عَن عبدِ الرزاقِ الصَّنْعانِیِّ، فَقَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أبِی إسحقَ، أَخْبَرَنِی عَلِیُّ بْنُ رَبِیعَةَ سے روایت کیا ہے۔ (المحاملی فی الدعاء: ۱۵، بیہقی السنن الکبری)۔

یہ روایت معلول بھی ہے وہ اس طرح : عبد الرزاق ثقہ ہیں حافظ ہیں مگر مختلط ہیں، انہیں تلقین کی جاتی جسے وہ مانتے۔ رمادی کا ان سے سماع بعد از اختلاط کاہے اس لئے اس روایت میں سماع کی صراحت پر یقین نہ کیا جائے۔

۳۔ ابتداء سے ہی مختلط ، ضعیف ہو تو اس کی روایت رد ہوگی۔ اس لئے کہ اس میں ایک اختلاط ہے اور دوسرا ضعف۔مثلاً: لیث بن ابی سلیم ضعیف و مضطرب الحدیث راوی ہے آخری عمر میں مختلط بھی ہوگئے تھے۔ ابن حبانؒ کہتے ہیں:

اخْتَلَطَ فِی آخِرِ عُمُرہِ، فَکَانَ یُقَلِّبُ الاَسَانِیْدَ، وَ یَرْفَعُ الْمَراسِیلَ، وَیَأْتِی عَنِ الثِّقَاتِ بِمَا لَیْسَ مِنْ حَدِیْثِھِمْ۔ آخری عمر میں انہیں اختلاط ہوگیا تھا، اسانید بدل دیا کرتے تھے مراسیل کو مرفوع کردیتے اور ثقات سے ایسی احادیث روایت کرتے جو ان کی نہ ہوتیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۷۔ منکر:
ھُوَا الْحَدیثُ الَّذیْ یَتَفَرَّدُ بِرِوَایَتِہِ الرَّاوِیُّ الضَّعِیفُ، أَو مَا یُخَالِفُ بِہِ مَنْ ھُوَ أَقْوٰی مِنْہُ۔ وہ حدیث جسے ضعیف راوی روایت کرنے میں منفرد ہو یا ایسی حدیث روایت کرے جس میں وہ اپنے سے قوی تر راوی کی مخالفت کررہا ہو۔ ضبط کی یہ مخالفت خواہ متن میں ہو یا سند میں منکر کہلاتی ہے۔
مثال:
النَّضْرُ بْنُ شَیبَانَ، قال: قُلْتُ لِأبِی سَلَمَةَ، حَدِّثْنِی بِشَیءٍسَمِعْتَہُ مِنْ أَبِیكَ یُحَدِّثُ بِہِ عَنْ رَسولِ اللہِ ﷺ، قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی فِی شَھْرِ رَمَضَانَ، قَال: قال رسولُ اللہِ ﷺ: إِنَّ اللہَ عَزَّوجَلَّ فَرَضَ عَلَیکُم صِیامَ شَھْرِ رَمَضانَ، وَسَنَنْتُ لَکُم قِیَامَہُ، فَمَنْ صَامَہُ وَقَامَہُ إِیْمانًا وَاحْتِسابًا خَرَجَ مِنَ الذُّنُوبِ کَیَومٍ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ۔
اس سند میں نضر بن شیبان نے اس حدیث کی روایت میں غلطی کی ہے۔ کہ ابو سلمہ نے اپنے والد سے سنا ہے حالانکہ انہوں نے اپنے والد سے کچھ سنا ہی نہیں۔ نکارت کی یہ ایک صورت ہے اور دوسری یہ ہے کہ ایسی حدیث نضر کے علاوہ بہت سے ثقہ، حفاظ راوی جیسے یحییٰ بن سعید، امام زہری، یحییٰ بن ابی کثیر وغیرہ نے ابوسلمہ عن ابی ہریرۃ مرفوعاً بایں الفاظ روایت کی ہے:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ، وَمَنْ قَامَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ إِیْمَانًا وَاحْتِسابًا، غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ۔
نضر بن شیبان نے اس حدیث کی سند اور متن دونوں میں اپنے سے اوثق اور احفظ رواۃ کی مخالفت کی ہے۔اس لئے وہ خود ضعیف ٹھہرے اور سنداً یہ حدیث منکر بنی۔

اصول حدیث:
محدثین کے ہاں منکر کا استعمال تین طرح کا ہے:
۱۔ جس حدیث کا راوی ثقات کی مخالفت کرے۔
۲۔ جس کا راوی عادل وضابط نہ ہو اگرچہ وہ مخالفت نہ کرے پھر بھی وہ منکر کہلاتا ہے۔
۳۔ عادل ضابط راوی روایت حدیث میں اکیلا ہو اسے بھی متقدمین منکر کہتے۔ جیسے امام احمد بن حنبل، صحیح بخاری کے راوی ، امام محمد بن ابراہیم تمیمی کے بارے میں فرماتے ہیں : ھُوَ مُنْکَرُ الْحَدیثِ۔ یعنی وہ حدیث کی روایت میں منفرد ہیں۔ متقدمین میں سوائے امام احمدؒ اور بردیجیؒ کے دیگر ائمہ، غریب کو منکر کے معنی میں لیا کرتے۔ بعض محدثین قیس بن ابی حازم کی احادیث کو مناکیر کہتے ہیں۔اور دوسرے مناکیر نہیں بلکہ غرائب کہتے ہیں۔
۴۔ہر مقبول راوی کی منکر روایت کو دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ راوی ضعیف ہے۔(المیزان ۱؍۱۸۸)
تنبیہ: یہاں چند اہم باتیں قابل ملاحظہ ہیں۔

۱۔ منکر کی روایت میں ضعیف الحفظ راوی اکیلا ہوتا ہے۔اغلب بات یہی ہے مگرکچھ علماء حدیث کا کہنا ہے جس منفرد راوی کی عدالت میں(نہ کہ حفظ میں) قدح ہووہ منکر کہلاتا ہے۔ اسی لئے اکثر ائمہ متقدمین نے منکر ، کی اصطلاح موضوع حدیث کے لئے استعمال کی ہے اور متاخرین یہ تعریف کرتے ہیں۔

۲۔ نکارت صرف سند میں نہیں بلکہ متن میں بھی ہوا کرتی ہے مثلاً ثقات کی جماعت ایک حدیث کو لفظاً روایت کرتی ہے اور ضعیف راوی اسی حدیث کو مختلف الفاظ سے روایت کرتا ہے۔ جیسے نضر بن شیبان کی مثال گذر چکی ہے۔یا ایک حدیث کو ثقات کی جماعت روایت کرتی ہے مگر ضعیف راوی اسی حدیث کو چند زائد ا لفاظ سمیت روایت کردیتا ہے جو ثقات نے بیان نہیں کئے ہوتے۔مثلاً: مسند احمد(۳/۹۹،۱۰۱،۲۸۲)، صحیح بخاری(۱/۴۰) صحیح مسلم(۱/۲۸۳) ابوداؤد:۴،۵، الترمذی:۵،۶، نسائی (الیوم واللیلۃ:۷۴)، میں بہ سند:
عَبدُ العزیزِ بْنُ صُہَیبٍ عَن أَنسِ بنِ مِالكٍؓ قال: کَان النبیُّ ﷺ إَذَا دَخَلَ الْخَلَاءِ قَال: اللّٰھُمَّ إِنِّی أَعُوذُبِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ۔

مگر ابن ابی شیبہ نے مصنف(۱/۱۱) میں یہی حدیث بہ سند:
اَبو مَعْشَرٍ نَجِیحِ بْنِ عَبدِ الرَّحْمٰن السِّنْدِیُّ عَنْ عَبدِ اللہِ بْنِ اَبِی طَلْحَةَ، عَنْ اَنَسٍؓ أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ إِذَا دَخَلَ الْکَنِیْفَ، قَالَ: بِسْم اللہِ، اللّٰھُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ۔
ابومعشر راوی(ضعیف)، ثقات کے ساتھ حدیث کے الفاظ میں موافقت کررہے ہیں سوائے تسمیہ کے جو مخالفت ہے۔یہ اضافہ منکرہ ہے۔
۳۔ ایک ثقہ راوی۔۔صحیح حدیث کا۔۔کبھی اس کی روایت بھی منکر ہوسکتی ہے جب وہ اکیلا ہو اور اس ثقہ سے روایت کرے جس سے روایت کرنے میں ضعیف قرار دیا جاچکا ہو۔ جیسے معمر کی روایت قتادہ سے۔ معمر بن راشد خود حافظ حدیث ہیں اور ثقہ رواۃ میں سے ہیں مگر ان کی قتادہ سے روایت ضعیف ہے اس لئے کہ انہوں نے قتادہ سے بچپن میں سنا تھا مگر ان کی اسانید کو وہ یاد نہ رکھ سکے تھے لہٰذا جب وہ قتادہ سے منفرد ہوں اور کسی ثقہ نے ان کی متابعت نہ کی ہو یا کسی اضافہ میں وہ منفرد ہوں تو ان کا یہ تفرد بھی منکر کہلائے گا۔
۴۔ ایک صدوق راوی۔۔جو ضبط میں ثقہ سے کم تر مگر حسن حدیث کا راوی ہوتا ہے۔اس کی حدیث دو صورتوں میں منکر ہوجاتی ہے۔صحیحین میں مرفوعاً روایت ہے:
کُلُوا وَاشْرَبُوا حَتّٰی یُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَکتومٍ، فَإِنَّہُ لَا یُؤَذِّنُ حَتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ۔ کھاؤ پیو حتی کہ ابن ام مکتوم اذان دے دیں کیونکہ وہ اذان طلوع فجر پر ہی دیا کرتے ہیں۔
اس لئے آپ ﷺ کا یہ ارشاد: حَتّٰی یُؤَذِّنَ یہی فائدہ دے رہا ہے کہ کھانا پینا دوسری اذان کے شروع ہوتے ہی ختم ۔مگر ابوہریرہؓ کی حدیث میں اذان کے بعد تک بھی ڈھیل ہے وہاں فائدہ یہ نظر آتا ہے کہ جو اپنی ضرورت کی حد تک کھاپی سکتا ہے تو کھا پی لے۔

اس طرح یہ حدیث۔۔ باوجود اس کے کہ اس کا راوی صدوق حسن الحدیث ہے۔۔ منکر ہوئی۔

ب۔ صدوق یا ثقہ راوی اپنی بعض روایات میں اس وقت غلطی کھاجاتے ہیںجب وہ کسی ایسے مشہور حافظ سے روایت کریں جس کے دیگر شاگرد بھی ہوں مگر یہ صدوق اس مشہور حافظ سے روایت کرنے میں منفرد ہو ۔کوئی شاگرد بھی اس روایت میں شریک نہیں ہوتا۔ یوں یہ حدیث منکر ہو جاتی ہے۔ مقدمہ صحیح مسلم میں امام مسلم ؒفرماتے ہیں:۔
حَکَمَ أَھْلُ الْعِلْمِ، وَالَّذِیْ نَعْرِفُ مِنْ مَذْھَبِھِمْ فِی قَبُولِ مَا یَنْفَرِدُ بِہِ الْمُحَدِّثُ مِنَ الْحَدیثِ، أَنْ یَکُونَ قَدْ شَارَكَ الثِّقَاتِ مِنْ أَھْلِ الْعِلْمِ وَالْحِفْظِ فِی بَعْضِ مَا رَوَوْا، وَأَمْة عَنَ فِی ذَلِكَ عَلَی الْمُوَافَقَةِ لَھُمْ، فَإِذَا وُجِدَ کَذَلِكَ، ثُمَّ زَادَ بَعْدَ ذَلِكَ شَیْئًا لَیْسَ عِندَ أصْحَابِہِ، قُبِلَتْ زِیَادَتُہُ ۔فَأمَّا مَنْ تَرَاہُ یَعْمِدُ لِمِثْلِ الزُّہْرِیُّ فِی جَلَالَتِہِ وَکَثْرَةِ أَصْحَابِہِ الْحُفَّاظِ الْمُتْقِنِینَ لِحَدیثِہِ وَحَدیثِ غَیرِہِ، أَو لِمِثلِ ھِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، وَحَدِیْثُھُمَا عِندَ أَھْلِ الْعِلْمِ مَبْسُوطٌ مُشْتَرَكٌ، قَدْ نَقَلَ أَصْحَابُھُمَا عَنْھُمَا حَدِیْثَھُمَا عَلَی الاِتِّفَاقِ مِنْھُمْ فِی أَکْثَرِہِ، فَیَرْوِیْ عَنْھُمَا أَو عَنْ أَحَدِھِمَا الْعَدَدُ مِنَ الْحدیثِ مِمَّا لَا یَعْرِفُہُ أَحَدُ أَصْحَابِھِمَا، وَلَیسَ مِمَّنْ شَارَکَھُمْ فِی الصَّحِیحِ مِمَّا عِنْدَھُمْ، فَغَیرُ جَائِزٍ قَبُولُ حَدیثِ ھَذَا الضَّربِ مِنَ النَّاسِ۔
اہل علم کافیصلہ ہے کہ محدث، حدیث کی روایت میں جب منفرد ہوتو اس کی روایت کو تب قبول کیا جائے جب یہ محدث دیگر ثقات حفاظ کے ساتھ بعض روایات میں شریک ہو اور اس نے خودبھی سمجھا ہو کہ وہ ان سے موافقت کررہاہے۔ اس موافقت کے بعد اگر اس کی روایت میں کچھ ایسا اضافہ مل جائے جو اس کے دیگر اصحاب نے نہیں کیا تو اس کا یہ اضافہ قبول کیا جائے گا۔

رہا وہ راوی جو اپنے آپ کو امام زہری ؒجیسے جلیل القدر محدث ۔۔ جن کے ساتھ حدیث کی روایت میں بہت سے متقن حفاظ شریک ہیں۔۔کے ساتھ روایت میں شریک ٹھہراتا ہے یا ہشامؒ بن عروہ جیسے عالم کبیر کے ساتھ تو۔۔ ان دونوں کی روایت اہل علم کے ہاں موجود ومشترک ہے ان کے اصحاب نے ان دونوں کی احادیث کو متفقہ طور پر روایت بھی کیا ہے۔ یہ راوی ان دونوں سے یا ایک سے چند ایسی احادیث روایت کرتا ہے جن سے ان کے اصحاب لاعلم ہیں اور نہ ہی ان میں سے کوئی اس کے ساتھ ان کی صحیح روایت میں شریک ہوا ہے تو ایسے راوی کی احادیث کو قبول کرنا ناجائز ہوگا۔

اس کی مثال: امام بیہقی ؒنے السنن الکبری(۴/۳۱۶) میں اور امام ذہبیؒ نے سیر أعلام النبلاء (۱۵/۱۸) میں بہ سند:
محمودُ بْنُ آدَمَ المَرْوَزِیُّ، حَدَّثَنا سُفْیانُ بْنُ عُیَینَةَ، عَنْ جِامِعِ بْنِ أبی رَاشِدٍ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَال: قَالَ حُذَیْفَةُ لِعَبدِ اللہِ یَعنِی ابْنَ مَسعودٍ رَضِی اللہُ عنہُ: عَکُوفًا بَینَ دَارِك وَدَارِ أبِی مُوسٰی، وَقَدْ عَلِمْتَ أنَّ رسولَ اللہِ ﷺ قَالَ: لَا اِعْتِکافَ إِلا فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، أَو قَالَ: إِلَّا فِی الْمَسَاجِدِ الثَّلاثَةِ۔ فَقَالَ: عَبدُ اللہِ: لَعَلَّكَ نَسِیْتَ وَقَدْ حَفِظُوا۔
نوٹ: اس حدیث کے راوی محمود بن آدم صدوق راوی ہیں جو اس روایت میں ابن عیینہ سے منفرد ہیں۔ کیونکہ ابن عیینہ کے بہت سے دیگراصحاب( شاگرد وعلماء) بھی ہیںجو محمود کی اس روایت میں ابن عیینہ سے روایت کرنے میںشریک نہیں ہوئے۔ یہ مت خیال آئے کہ ابن عیینہ نے اپنے ساتھیوں کو یہ حدیث سنانے میں بخل سے کام لیا ہوگایا ان کی اپنی ہمتیں پست ہوگئی ہوں گی اور محمود بن آدم کی ہمت زور پکڑ گئی اس نے سن لیا مگر ابن عیینہ کے شاگرد ان سے نہ سن سکے۔بالخصوص وہ چیز جو محمود کے متن میں نکارت کی صورت میں ہے بلکہ اس کی سند بھی جو مرفوع تھی وہ تک نہ سن سکے۔
۵۔ امام بخاری رحمہ اللہ عبد اللہ بن معاویۃ الزبیری کو مُنْکَرُ الْحَدیثِ یا الضعفاء الکبیر میں بَعْضُ أَحَادِیْثِہِ مَنَاکِیْرُ کہتے ہیں۔ ان کا کیا مطلب ہے؟ امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں: دونوں عبارتوں کا مطلب ایک ہی ہے۔ کیونکہ جس کی کچھ احادیث منکر ہیں تو وہ خود بھی منکر ہوا۔کیونکہ منکر الحدیث سے مراد کوئی بھی یہ نہیں لیتا کہ اس کی تمام احادیث منکر ہیں۔اگر خاصی احادیث میں کچھ احادیث منکر ہوںتو وہ مُنْکَرُ الْحَدیثِ ہوتا ہے۔اور اس کی کچھ احادیث کے لئے بَعْضُ أَحَادِیْثِہِ مَنَاکِیْرُ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔(تاریخ الإسلام ۱۲؍۲۵۱)

حکم:
منکر کی روایت سے بچنا بھی چاہئے۔سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے:

حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُونَ، وَدَعُوا مَا یُنْکِرُونَ، أَتُحِبُّونَ أَنْ یُکَذَّبَ اللہُ وَرَسُولُہُ؟ لوگوں کو وہ احادیث بیان کرو جو وہ جانتے ہوں اور غیرمانوس احادیث کی روایت چھوڑدو۔ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کا رسول جھٹلا دئے جائیں؟

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تو منکر روایت سے خوب ڈانٹا ہے اور حدیث مشہور کی روایت پر ابھارا بھی ہے۔ یہی اہم اصول ہے کہ واہی چیزوں کو پھیلانے اور منکر احادیث سے فضائل وعقائد اور رقائق سنانے سے پرہیز کیا جائے۔ ان منکر باتوں کی معرفت تبھی حاصل ہوگی جب انسان رواۃ حدیث کی خوب معرفت رکھتا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۸۔معلل یا معلول
ھُوَ الْحَدیثُ الَّذِیْ اطُّلِعَ عَلَی عِلَّةٍ تَقْدَحُ فِی صِحَّتِہِ، مَعَ أنَّ ظَاھِرَہُ السَّلامَةُ مِنْھَا۔ وہ حدیث جو بظاہر سلامت ہو مگر اس میں ایسی علت ہو جو اس حدیث کی صحت میں قدح کی وجہ سے رخنہ ڈال دے۔

مثلاًسبھی رواۃ الاَسْوَدُ عَنْ عَائِشَةَ سے روایت کرتے ہیں مگر یہ راوی ان دونوں کے درمیان ایک اور راوی کو رکھ دیتا ہے۔ ایسی حدیث معلل یا معلول کہلاتی ہے۔کیونکہ اس میں موجودعلت قادحہ پر محقق مطلع ہوتاہے۔ ایسی علت حدیث کی صحت کے لئے انتہائی معیوب ہے۔ بظاہر وہ حدیث اس عیب سے محفوظ نظر آتی ہے۔

معلل ، شاذ یا منکر کی مانند نہیں ہوتی کیونکہ منکر اور شاذ میں مخالفت ظاہر ہوتی ہے مگر اس میں مخالفت مخفی ہوتی ہے جو محقق کو اس کی علت معلوم کرنے میں تھکا مارتی ہے۔
علت کی معرفت کے بغیر کتنے لوگ ہیں جنہوں نے ثقہ کو ضعیف اور ضعیف کو ثقہ قرار دے دیا۔ہوتا یہی ہے کہ ایک عام آدمی جب کسی روایت میں ثقہ راوی کو پاتا ہے تو اسے دیکھتے ہی وہ کہہ اٹھتا ہے :یہ روایت صحیح ہے۔ مگر اسے کیا معلوم کہ اس راوی کی روایت شامی محدثین سے ضعیف ہے اور مکی علماء سے قوی۔ وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس پر حدیث کا یہ عیب مخفی ہوتا ہے ۔ بہت کم علماء اس میدان میںماہر ہیں جن میں امام علی بن المدینی ، امام احمد بن حنبل، امام بخاریؒ، ابو حاتم، ابو زرعۃ اور امام دارقطنی رحمہم اللہ ہیں۔یہی علت خفیہ ہی تو تھی جو امام مسلم کو کئی روز پریشان کرتی رہی باوجودیکہ بیشتر مشایخ سے بھی پوچھ چکے تھے مگر امام بخاری رحمہ اللہ سے اس علت کا جواب پا کر امام مسلمؒ کی حیرت اور، خوشی ، عقیدت میں بدل گئی۔ امام حاکمؒ لکھتے ہیں۔ یہ حدیث :
مَنْ جَلَسَ مَجْلِسًا کَثُرَ فِیہِ لَغَطُہُ فَقَال قَبْلَ أَن یَقومَ: سُبْحَانَكَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِكَ لَا إِلٰہ إِلا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَیكَ، إِلاَّ غُفِرَ لَہُ مَا کَانَ فِی مَجْلِسِہِ ذَلِكَ۔ جو کسی ایسی مجلس میں بیٹھے جس میں فضولیات سرزدہوجائیں تو وہ اٹھنے سے پہلے یہ پڑھے: سُبْحَانَكَ اللہُمَّ وَبِحَمْدِكَ لَا إِلٰہ َإلا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَیكَ، تو مجلس کی ایسی فضولیات بخش دی جاتی ہیں۔
امام مسلمؒ امام بخاریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے کہا:
حَدَّثَكَ مُحمدُ بْنُ سَلَامٍ، قَال: ثَنَا مَخْلَدُ بْنُ یَزیدَ الْحَرَّانِیُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنْ مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ، عَن سُھَیلٍ، عَن أبیہِ، عَن أبی ھریرةَ عَنِ النبیِّ ﷺ فِی کَفَّارَةِ الْمَجْلِسِ فَمَا عِلَّتُہُ؟۔ آپ کو محمد بن سلام نے یہ حدیث بیان کی۔۔ جو محمد بن یزید حرانی، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ ، سہیل، ان کے والد اور ابوہریرہ اور نبی ﷺ سے کفارہ مجلس کے بارے میں ہے اس کی علت کیا ہے؟
یعنی آپ کو یہ حدیث اس سند سے ملی تو اس میں علت کیا ہے؟
قَاَل مُحمدُ بْنُ إسماعیلَ: ھَذا حَدیثٌ مَلِیحٌ، وَلَا أَعْلَمُ فِی الدُّنْیَا فِی ھَذَا الْبَابِ غَیرَ ھَذَا الْحَدیثِ إِلَّا ھُوَ مَعلولٌ، حَدَّثَنَا بِہِ مُوسَی بْنُ إِسماعیلَ، قَال: حَدَّثَنا وُھَیبٌ، قَالَ: ثَنَا سُھَیلٌ عَنْ عَونِ بْن عَبدِ اللہِ قَولَہُ۔ قَالَ محمدُ بْنُ إسماعیلَ: ھَذَا أَولٰی، فإِنَّہُ لَا یُذْکَرُ لِمُوسٰی بْنِ عُقْبَۃَ سَمَاعًا مِنْ سُھَیْلٍ۔ بخاری نے فرمایا: یہ حدیث ملاحت والی ہے۔ اور دنیا میں اس موضوع سے متعلق کوئی دوسری حدیث میں نہیں جانتا کہ ہو۔مگر یہ معلول ہے۔ہمیں یہ حدیث موسیٰ بن اسماعیل نے ، انہوں نے وہیب سے اور انہیں سہیل نے عون بن عبد اللہ سے آپ ﷺ کا ارشاد سنایا۔ امام بخاری فرمانے لگے: یہ سند اولی(سب سے بہتر) ہے کیونکہ پہلی حدیث کی سند میں موسیٰ بن عقبہ کا سماع سہیل سے مذکور ہی نہیں۔
یہ وضاحت سنتے ہی امام مسلمؒ فرط مسرت و حیرت میں فرمانے لگے:
دَعْنِیْ حَتّٰی أُقَبِّلَ رِجْلَیْكَ یَا أستاذَ الاستاذِیْنَ، وَسَیِّدَ المُحَدثینَ، وَطَبِیبَ الْحَدیثِ فِی عِلَلِہِ۔ مجھے اجازت دیجئے میں آپ کے قدم مبارک کو بوسہ دوں۔ اے استاذوں کے استاذ، محدثین کے سردار، اور حدیث کی بیماریوں کے ڈاکٹر۔(معرفۃ علوم الحدیث از امام حاکم: ۱۱۳)
علت، زیادہ تر سند میں ہوتی ہے اور کبھی کبھار متن میں۔ یہ علت قادحہ ہوتی ہے اور غیر قادحہ بھی۔مثلاً:
٭…سند میں علت قادحہ جیسے وقف وارسال کی ہے۔اور غیر قادحہ جیسے سند میں ثقہ کو ثقہ سے بدل دینا۔
٭…متن میں علت قادحہ جیسے متن ایسا ہو جو احادیث مشہورہ اور صحیحہ کے مخالف ہو۔ اور غیر قادحہ یہ ہے کہ اس میں کچھ کم یا کچھ زیادہ ایسی عبارت ہو کہ ان کا آپس میں جمع کرنا بغیر کسی ترجیح یا اضطراب کے ممکن ہو۔ اسی لئے بعض علماء نے علت اس مخالفت کوبھی کہا ہے جو قادح نہیں جیسے ایسی حدیث کا ارسال کرنا جسے ایک ثقہ و ضابط راوی نے موصول کیا تھا۔اس کی مزید تفاصیل تدریب الراوی (۱؍۲۵۸ )میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
مثال:
سنن ترمذی:۱۴ میں یہ روایت:

قُتَیبَةُ بْنُ سَعِیدٍ، حَدَّثَنَا عَبدُ السَّلامِ بْنِ حَرْبٍ الْمَلائِیُّ، عَنِ الاَعْمَشِ، عَن أَنَسٍ، قَال: کَانَ النبیُّ ﷺ إذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ لَمْ یَرْفَعْ ثَوبَہُ حَتّٰی یَدْنُوَ مِنَ الارضِ۔۔

۔۔ آپ ﷺ جب قضائے حاجت کے لئے بیٹھتے تو زمین کے قریب ہونے سے پہلے اپنا کپڑا نہیں اٹھاتے تھے۔
اس حدیث کی سند بظاہر صحیح لگتی ہے اور اس کے رواۃ بھی ثقات ہیں مگر جو عیب ہے وہ یہ کہ امام اعمشؒ کا سماع سیدنا انس ؓ سے ثابت ہی نہیں۔امام ابن المدینیؒ فرماتے ہیں:
الاَعْمَشُ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، إِنَّمَا رَآہُ بِمَکَّةَ، یُصَلِّی خَلْفَ الْمَقَامِ۔ اعمش نے انس بن مالک سے حدیث نہیں سنی بلکہ انہیں مکہ میں مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
اس کی پہچان: امام خطیبؒ بغدادی فرماتے ہیں:
وَالسَّبِیْلُ إِلٰی مَعْرِفَةِ عِلَّةِ الْحَدِیثِ أَنْ یُجْمَعَ بَینَ طُرُقِہِ، وَیُنْظَرَ فِی اخْتِلافِ رُوَاتِہِ، وَیُعْتَبَرُ بِمَکَانِھِم مِنَ الْحِفْظِ، وَمَنْزِلَتِھِمْ فیِ الإِتْقَانِ وَالضَّبْطِ۔ علت حدیث جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ حدیث کے تمام طرق کو جمع کیا جائے ، ان میں اختلاف رواۃ پر غور کیا جائے ، ان رواۃ کے فرق مراتب کو ملحوظ رکھا جائے کہ حفظ، اتقان اور ضبط میں کیسے ہیں۔
یہ تمام طرق یا اسانید کسی معین کتاب سے یا مسانید وسنن کی کتب سے جمع کئے جائیں۔جن سے اگر یہ معلوم ہو کہ اس راوی نے حدیث میں فلاں ثقہ کی مخالفت محض وہم کی بنا پر کی ہے۔تو ایسی حدیث غیر مقبول ہوگی۔امام علیؒ بن المدینی فرماتے ہیں:
الْبَابُ إِذَا لَمْ تُجْمَعُ طُرُقَہُ لَمْ یَتَبَیَّنْ خَطَؤُہُ۔ یہ موضوع ہی ایسا ہے کہ جب تک حدیث کے تمام طرق کو جمع نہ کیا جائے اس کی خطا کا علم ہی نہیں ہوتا۔
٭… ضعیف حدیث کا ثبوت کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ محدثین نے مبالغہ سے کام لئے بغیر صحیح کی اہم شروط رکھی ہیں۔مگر ساقط وموضوع روایات کے بارے میں ان کی یہ شرط نہیں۔اس لئے کہ وہ ناقابل عمل ہیں۔
٭…ضعیف مرویات کی کیا ہمیں ضرورت ہے؟ ابنؒ المبارک کہا کرتے: فِی صَحِیحِ الْحَدیثِ شُغْلٌ عَنْ سَقِیْمِہِ۔ صحیح حدیث میں مصروفیت بندے کو سقیم حدیث سے بچائے رکھتی ہے۔(سیر اعلام النبلاء ۸؍۴۰۳)
٭…پھرائمہ اربعہ نے اپنی سنن میں ضعیف رواۃ کی احادیث کیوں ذکر کیں؟ مثلاً: عطاء بن السائب، لیث، یزید بن ابی زیاد، ابان بن صمعہ، محمد بن اسحاق، محمد بن عمرو بن علقمۃ کی روایات، مسند احمد ، سنن ابو داؤد، ترمذی اور نسائی وغیرہ میں بکثرت ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل صحاح وحسن کے بعد ائمہ محدثین کا چوتھے طبقہ کے ان ضعیف رواۃ کا انتخاب ان کا ذاتی اجتہاد ہے۔جس میں شاید یہ باور کرانا ہے کہ طالب علم اتناجان لے کہ یہ روایت ہماری تحقیق کے مطابق اس وجہ سے ضعیف تھی جو ہم نے اپنی کتاب میں درج کردی۔ اس لئے اس آگاہی کے بعد کوئی معذرت پیش نہ کرے۔ جیسے امام ابوعیسیٰ ترمذی ان رواۃ کی احادیث کو بیان کرتے ہیں اور اپنے اجتہاد سے ان کی وضاحت بھی کرتے ہیں مگر یہ بہت ہی تھوڑی ہیں۔امام ابن ماجہ بھی ان کی چند احادیث بغیر بیان کئے ذکر کرجاتے ہیں ۔امام ابوداؤد بھی ان سے بہت کم روایت کرتے ہیں اور اگر کرتے بھی ہیں تو اکثر وبیشتر اس راوی کے بارے میں وضاحت کردیتے ہیں۔
٭…رہی وہ روایات جو پانچویں طبقہ کے رواۃ کی ہیں تومحدثین جس راوی کی روایات کو رد کرنے یا اسے ترک کرنے پر متفق ہیں وہ راوی کے عدم فہم اور عدم ضبط کی وجہ سے ہے یا پھرراوی متہم ہے۔مگر ایسے حضرات کی احادیث نادر ہی ہیں۔اس طبقہ کے راوی غالی رافضی، اور جہمی دعاۃہیں یا کذاب ووضاع لوگ یا متروک وتباہ شدہ لوگ جیسے عمر بن صبح، محمد مصلوب، نوح بن ابی مریم، احمد جویباری، اور ابوحذیفہ بخاری ان کی کوئی روایت بھی ان کتب میں نہیں۔ صرف عمر کی ایک روایت ابن ماجہ ذکر کرتے ہیں جو صحیح نہیں۔ اسی طرح ابن ماجہ نے واقدی کی بھی ایک حدیث روایت کی ہے اور اس کا نام تدلیس کرکے مبہم انداز میں پیش کیا ہے۔(سیر اعلام النبلاء ۱۲؍۵۷۵)
۲۔ سند میں سقوط کی وجہ سے
یہ سقوط یا انقطاع سند کے شروع ، آخر یادرمیان میں کہیں بھی ہوسکتاہے۔مثلاً:
حَدَّثَنِیْ ۱، حَدَّثَنِیْ ۲، حَدَّثَنِیْ ۳، حَدَّثَنِیْ ۴۔ اگر سند کو نمبر ۲ یا اس سے اوپر کسی کی طرف منسوب کیا جائے تو یہ سند کے ّٰشروع میں سقط ہوگیا ۔اور اگر سند میں نمبر ۲ ،۳راوی غائب ہوں تو یہ سقط درمیان میں ہوگیا ۔اور اگر نمبر ۴ راوی سند میں غائب ہو تو یہ سقط سند کے آخر میں ہوا۔یعنی صحابی سند میں غائب۔ اس وجہ سے حدیث ضعیف ہوجاتی ہے۔اس کی دو اقسام ہیں:
۱۔ سقط جلی
۲۔ سقط خفی
۱۔ سقط جلی :
اس کی درج ذیل چار اقسام ہیں:
۱۔ منقطع، ۲۔ معضل ، ۳۔مرسل ۴۔ معلق،
۲۔ سقط خفی کی درج ذیل دو اقسام ہیں:
۵۔ مدلس ۶۔ مرسل خفی
اولاً: سقط جلی کی اقسام بیان کی جاتی ہیں۔
۱۔ منقطع: یہ سقوط جلی کی پہلی قسم ہے۔ جس کی تعریف یہ ہے:
مَا کَانَ فِی إسنَادِہِ انْقِطَاعُ رَاوٍ فَأَکْثَرَ لَا عَلَی التَّوالِی فِیْمَا دُونَ طَبَقَةِ الصَّحاِبیِّ۔ جس حدیث کی سند میں انقطاع۔۔ صحابی کو چھوڑ کر۔۔ ایک یا دو جگہ پر ۔۔ تسلسل سے نہیں ۔۔ کہیں بھی ہو تو اسے منقطع کہتے ہیں۔
مثال:
مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ عَبدِ اللہ ِبْنِ عَلِیٍّ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ، قَاَل: عَلَّمَنِی رسولُ اللہِ ﷺ ھَؤُلاءِ الْکَلِمَاتِ فِی الْوِتْرِ۔ فَذَکرَ حَدیثَ دُعاءِ القُنوتِ۔
یہ سند منقطع ہے۔امام ابن حجر ؒ التَّلْخِیصُ الْحَبِیْرُ میں (۲۶۴۱) میں لکھتے ہیں: عبدُ اللہِ بنُ علیٍ وَ ھُو ابْنُ الْحُسَینِ بْنِ عَلِیٍّ لَمْ یَلْحَقِ الْحَسَنَ بْن عَلِیٍّ۔ مگر دوسری سند کے ساتھ یہی حدیث بقول امام ترمذی (ح:۴۶۴)حسن ہے اور امام ابن خزیمہ (ح۱۰۹۵) اسے صحیح کہتے ہیں۔ اسی طرح منقطع کی دوسری مثال: عَبدُ الرزاقِ عَنِ الثَّوریِّ، عَن أبی إسْحقَ۔ شریکؒ نے اپنی سند میں ثوری ؒ کو ساقط کردیا۔(معرفۃ علوم الحدیث:۳۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اقسام منقطع:
اس کی دو قسمیں ہیں:
انقطاع واضح اور انقطاع مخفی۔

۱۔ انقطاع واضح:
جس حدیث کی سند میں ایک، دو یا زیادہ مگر بغیر تسلسل کے راوی ساقط ہوں، یا سند میں مبہم آدمی کا ذکر ہو۔ جیسے مالك عن ابن عمر۔ یہ واضح انقطاع ہے کیونکہ بظاہر یہ روایت متصل اور صحیح لگتی ہے مگر ہے نہیں۔اکثر محدثین تبع تابعی کی صحابی سے روایت کو منقطع کہتے ہیں۔اسے بذریعہ تاریخ یا عدم ملاقات بھی پہچانا جاتا ہے ۔ مثلاً: راوی جس شیخ سے روایت کررہا ہے اس کا اس نے زمانہ ہی نہیں پایا وہ اس کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکا تھا تو یہ ثبوت ہے کہ راوی کی منسوب الیہ سے ملاقات ہوئی ہی نہیں۔یا زمانہ پایا ہے مگر شیخ سے سننا محال ہے۔ وہ اس طرح کہ جب شیخ فوت ہوئے تو راوی تین سال کے تھے۔دونوں اس عرصہ میں کبھی اپنے شہر سے نکلے ہی نہیں۔نہ ہی ان کی ملاقات ہوئی۔ اب راوی کی ان سے روایت منقطع ہی ہوگی۔محدثین کو اس لئے راویوں کی تاریخ پیدائش ووفات، طلب حدیث کا زمانہ اور رحلہ کو جاننے کے لئے علم رجال کو متعارف کرانا پڑا۔تاکہ روایات کے نودولتیے اس علم کے ذریعے جھوٹے ثابت ہوں۔ عدم ملاقات زمان اور مکان دونوں کو شامل ہے۔ امام دارقطنی اور امام بیہقی منقطع کی پہچان میں کمال رکھتے تھے۔

٭…کیا بہرے اور اندھے کی روایت بواسطہ کتابت متصل ہوگی یا منقطع؟ امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

کَتَبَ إِلَیَّ قَتَادَةُ ۔۔مِنَ الْبَصرۃة ۔۔إِنْ کَانَتِ الدَّارُ فَرَّقَتْ بَینَنَا وَبَیْنَكَ فَإنَّ أُلْفَةَ الإسْلامِ بَیْنَ أَھْلِھَا جَامِعَةٌ۔ امام قتادہ نے مجھے لکھا: اگرچہ شہر نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دی ہے مگر اسلام کی الفت ومحبت مسلمانوں میں اتحاد ویگانگت کو جمع کرنے والی ہے۔

امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: امام اوزاعی ؒ کا یہ کہنا: مجھے لکھا۔اور ایک حدیث میں ۔۔مجھے قتادۃ نے لکھا۔ہے ۔ یہ مجازی اتصال ہے کیونکہ قتادۃ پیدائشی نابینا تھے۔ انہوں نے کسی کو کہا جو اوزاعیؒ کے لئے ان کا یہ خط لکھے۔ ایک فروعی مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ نابینا کی یہ روایت بواسطہ کاتب ہوئی جس کا نام حدیث میں نہیں۔ جو واضح سا انقطاع ہے۔(سیر ۷؍۱۲۱)

حکم: ضعیف حدیث کی اقسام میں سے ہے۔کیونکہ اس میں محذوف راوی کے بارے میں لاعلمی ہے۔

٭… بیشترمحدثین نے معضل ومنقطع کو بمعنی مرسل لیا ہے جو ایک حدیثی اصطلاح ہے۔ (جَامِعُ التَّحْصیلِ از علائی: ۹۶)

٭… ہر معضل سند منقطع ہے اور ہر منقطع سند معضل نہیں۔ (تَوضِیحُ الاَفْکَارِ: ۲۹۳)

٭… مرسل اور منقطع ہونا علت نہیں ہے۔ (بَیانُ الْوَھْمِ وَالإِیْھَامِ۵؍۳۸۶)

۲۔ انقطاع مخفی: تدلیس اس میں شامل ہے جو تدلیس کے باب میں ہم تفصیل سے پڑھیں گے۔

۲۔ معضَل:

ھُوَ مَا سَقَطَ مِنْ إِسْنَادِہِ رَاوِیَانِ مُتَتَالِیَانِ أَو أَکْثَرُ۔ اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میں دو یا دو سے زیادہ راوی یکے بعد دیگرے ساقط ہوں۔

یہ حدیث کثرت سقوط کی وجہ سے مرسل اور منقطع سے بھی کم درجے کی ہوا کر تی ہے کیونکہ ان دونوں میں سقط ایک راوی کاہوتا ہے ۔اور اس حدیث میں دو کا۔ امام علیؒ بن المدینی نے معضل کی تعریف یہ کی ہے:

الْمُعْضَلُ مِنَ الرِّوایاتِ أَنْ یَکونَ سَقَطَ بَیْنَ الْمُرسِلِ إلی رسولِ اللہِ ﷺ أَکْثَرَ مِنْ رَجُلٍ۔ معضل وہ روایت ہے کہ مرسل اور رسول اکرم ﷺ کے درمیان ایک سے زائد راویوں کا سقوط ہو۔

ابنؒ الصلاح فرماتے ہیں:
ھُوَ لقَبٌ لِنَوعٍ خَاصٍ مِنَ الْمُنْقَطِعِ، فَکُلُّ مُعْضَلٍ مُنْقَطِعٌ وَ لَیْسَ کُلُّ مُنْقَطِعٍ مُعْضَلًا۔ یہ تو منقطع کی ایک خاص نوع کا نام ہے ۔ ہر معضل، منقطع ہوا کرتی ہے اور ہر منقطع ، معضل نہیں ہوا کرتی۔

مثال: ابن ابی شیبۃ ؒ نے مصنف (۵/۲۸۶) میں اور ابن ابی الدنیا نے ذَمُّ الْمَلَاہِیْ(۸۰) میں قتادۃ بن دعامہ کی سند سے یہ روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں:

ذُکِرَ لَنَا أَن نَبیَّ اللہِ ﷺ قَالَ: الْکَعْبَتَانِ مِنْ مَیْسِرِ الْعَجَمِ۔ ہمیں بیان کیا گیا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: چوسر کے دونوں پانسے عجمی حضرات کا جوا ہیں۔

اس سند میں قتادہ بن دعامۃ جو صغار تابعین میں سے ہیں جن کی زیادہ ترروایات کبار تابعین سے ہیں۔ مگر وہ رسول اللہ ﷺ سے صیغہ تمریض کے ساتھ روایت کررہے ہیں اس لئے اس سند میں تابعی اور صحابی دو راویوں کا سقوط ہے جو معضل ہوگی۔

مثال۔ الْقَعْنَبِیُّ عَن مالكٍ أنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّ أَبَا ھُرَیْرَةَ، کی سند میں امام مالکؒ اور سیدنا ابوہریرہؓ کے درمیان دو راوی کم از کم ساقط ہیں جو کہ دوسری سند سے یہ معلوم ہوتے ہیں: عَنْ مَالِكٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیرَةَ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۳۔ مرسل:
لغت میں:
اسم مفعول ہے ۔ جس کا مطلب ہے: بھیجی ہوئی۔چھوڑی ہوئی۔ جب کسی چیز کو چھوڑ دیں نہ روکیں تو اسے ارسال کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: {إنا أرسلنا الشیطن علی الکفرین تؤزھم أزا}اسی طرح عرب کہا کرتے ہیں: جَاءَ الْقَومُ أَرْسَالًا۔ لوگ گروہ گروہ آئے۔ رَسْلٌ: چیز سے کٹی ہوئی شے کو کہتے ہیں۔اس کی جمع أَرْسَال ہے۔أَرْسَلُوا أھِلَھُمْ إلَی الْمَاءِ إرسَالًا۔ انہوں نے اپنے اونٹ پانی کی طرف گروہ گروہ بنا کر بھیجے۔ وجَاؤوا رَسلةً رَسْلَةً: وہ جماعت در جماعت آئے۔یہ بھی ممکن ہے کہ مرسل استرسال سے لیا گیا ہو۔ جواپنی گفتگو میں اطمینان اور خود اعتمادی رکھتا ہو۔ گویا کہ مرسِل، اسناد کو چھوڑ دیتا ہے اور اسے کسی معروف راوی سے مقید نہیں کرتا۔

اصطلاح میں:
اس کی تعریف یہ ہے:

مَا رَفَعَہُ أو نَسَبَہُ التَّابِعِیُّ ۔۔ صَغیرًا أو کبیرًا۔۔ إلَی الرَّسولِ ﷺ مِنْ قَولٍ أَو فِعْلٍ أَو تَقْرِیرٍ أو صِفَةٍ۔وَ لَمْ یَسْمَعْ مِنْہُ ۔

وہ حدیث جسے تابعی خواہ وہ کبیر ہو صغیر ، رسول اللہ ﷺ تک پہنچا دے جو اس نے آپ ﷺ سے سنی ہی نہیں۔مرسل کہلاتی ہے(مقدمہ ابن الصلاح: :۱۳۰)

مثلاً تابعی یوں کہے: قَالَ رسولُ اللہِ ﷺ أَو فَعَلَ أو کَانَ کَذَا وکَذَا۔ امام عبد الرزاق اپنی (مصنف: ۵۲۸۱) میں ابن جریج سے اور وہ عطاء سے روایت کرتے ہیں:

أنَّ النَّبیَّ ﷺ کَانَ إِذَا صَعِدَ الْمِنْبَرَ أَقْبَلَ بِوَجْھِہِ عَلَی النَّاسِ، فَقَال: السَّلامُ عَلَیْکُمْ۔ بے شک نبی کریم ﷺ جب منبر پر چڑھتے تو اپنا چہرہ مبارک لوگوں کی طرف کرلیا کرتے تو فرماتے: السلام علیکم۔

اس روایت میں عطاء بن ابی رباح کبیر تابعی ہیں، جماعت صحابہ سے انہوں نے احادیث سنیں مگر ان کی یہ روایت مرسل ہے۔ وہ ثقہ ہیں مگران کے درمیان جو واسطہ ساقط ہے وہ یا تو ثقہ تابعی کا ہے یا صحابی کا۔ ضعیف تابعی کا نہیں۔

٭…محدثین مرسل کو تابعین کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں مگر اصولی اسے تابعی اور غیر تابعی تک لے جاتے ہیں۔یعنی سند کہیں بھی راوی اور مردی عنہ کے مابین منقطع ہو وہ مرسل ہوگی خواہ وہ تابعی سے ہو یا کہیں اور نیچے سے۔اس لئے ان اصولیوں کے نزدیک معضل، منقطع اور مرسل ایک ہی شے کے مختلف نام ہیں۔

اصول:
۱… جمہور محدثین کے نزدیک مرسل روایت ناقابل احتجاج ہے کیونکہ جو راوی ساقط ہے وہ مجہول ہے۔نیز اس سقط کے متعدد احتمالات ہوسکتے ہیں کہ وہ صحابی ہوں، یا تابعی ہو۔ اگر تابعی ہے تو یہ بھی احتمال ہے کہ وہ ضعیف ہو یا ثقہ بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال ان کے حالات سے آگاہی نہیں ہوپاتی اس لئے مرسل مردود ہے۔

۲…نقاد حفاظ اور ائمہ حدیث مرسل حدیث کو ناقابل احتجاج سمجھتے ہیں۔امام مسلم اپنی صحیح کے مقدمہ(۱؍۳۰) میں لکھتے ہیں: الْمُرْسَلُ مِنَ الرِّوَایاتِ فِی أَصْلِ قَولِنَا وَقَولِ أھْلِ العِلْمِ بِالاَخْبَارِ، لَیْسَ بِحُجَّةٍ۔ مرسل روایات ہمارے اصل قول یا ان علماء کے قول کے مطابق جو اخبار کو جانتے ہیں: حجت نہیں ہے۔جب کہ علماء احناف کا یہ مسلک ہے: فأمَّا مَراسِیْلُ الْقَرْنِ الثَّانِی وَالثَّالِثِ حُجَّةٌ فِی قَولِ عُلَمَائِنا رَحِمَھُمُ اللہُ۔ دوسری اور تیسری صدی ہجری کی مراسیل بھی ہمارے علماء کے بقول حجت ہیں۔ (اصول السرخسی ۱؍۳۶۰) اس لئے مرسل امام ابوحنیفہ ؒان کے اصحاب، امام مالکؒ اور ان کے اتباع اور ایک روایت کے مطابق امام احمد ؒکے نزدیک حجت ہے۔ (اصول الجصاص۳؍۱۴۵، کشف الاسرار۳؍۲، إحکام الفصول: ۳۴۹، العدۃ لابی یعلی ۳؍۹۱۰، شرح الکوکب ۲؍۵۷۶)

۳… محدثین کا کہنا ہے کہ اتصال سند اور اس کا سماع ہی روایت حدیث کی شان ہے ۔یہ دونوں حالتیں طرق تحمل ہی نہیں بلکہ اداء حدیث بھی بتا رہی ہیں نیز یہ بھی کہ روایت مثلی ہو۔یہ اشارہ بھی ان دونوں میں ہے کہ راوی اپنے شیخ سے وہی روایت کرے جو اس کے شیخ نے اپنے شیخ سے تاآخر سند سنا ہے ۔(جامع التحصیل:۵۲)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
متصل ومرسل میں تعارض اور اصول:
جب ایک حدیث کو ایک راوی مرسل پیش کرے اور دوسرا متصل ۔تو کون سی حدیث قبول کرنی چاہئے؟ علماء کے اس بارے میں چار نکتہ ہائے نظر ہیں۔
۱۔ متصل کو مرسل پر ہر حال میں ترجیح دینی چاہئے۔
۲۔ مرسل کو متصل پر ترجیح ہوگی۔
۳۔ فیصلہ کثرت روایات کی بنیاد پر کیا جائے گا۔اگر مرسل کرنے والے متصل سے زیادہ ہیں تو مرسل ورنہ متصل لے لی جائے گی۔
۴۔ رواۃ میں جس طرف احفظ ہے اسی کی روایت قابل اعتبار ہے۔اگر احفظ نے روایت مرسل کی ہے تو وہ لی جائے گی اسی طرح بالعکس۔
اب جمہور محدثین اور اصحاب اصول کی آراء کا ہم ذکر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق دو اقوال زیادہ معتبر ہیں۔
آراء: …
ابن حبان لکھتے ہیں: اگرایک عادل روایت کو مرسل بیان کرے اور دوسرا متصل۔ تو متصل کی خبر قبول ہوگی کیونکہ اس راوی کے پاس ایک اضافی شے ہے جسے اس نے یاد رکھا اور سند متصل پیش کی۔جبکہ دوسرا اتقان میں اس جیسا نہ تھا کہ وہ مکمل سند کو یاد رکھ سکتا۔ کثرت عدد اور قلت عدد کا یہی حکم اور شرط دیگر روایات پر بھی لاگو ہوگا۔ (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان ۱؍۱۵۷)

…ابو الحسن ابن القطان کا یہی خیال ہے کہ اس راوی کو لیا جائے جو ثقہ ہو اور سند متصل بیان کرتا ہو۔(النکت ۲؍۶۰۴)۔ مستدرک(۱؍۸۶) میں امام حاکم کا کہنا ہے اگرحدیث کو ایک راوی متصل بیان کرتا ہے اور دوسرا مرسل : إِنَّا عَلَی الاَصْلِ الَّذِیْ أَصَّلْتُہُ فِی قَبُولِ الزِّیَادَۃِ مِنَ الثِّقَةِ فِی الاَسَانِیدِ وَالْمُتُونِ۔ تو ہم اسی اصول پر چلیں گے جو میں نے بیان کردیا ہے کہ ثقہ راوی کا اضافہ اسانید ومتون میں قبول کیا جائے گا۔ابن الصلاح (مقدمہ:۱۶۳) اور نووی(مقدمہ صحیح مسلم ۱؍۳۲) نے محقق محدثین کا یہی قول لکھا ہے ۔امام عراقی (التبصرۃ والتذکرۃ ۱؍۱۷۵) اور ابن جماعہ (المنہل الروی: ۶۲) بھی اسی کے قائل ہیں۔

… جمہور اصولی علماء مرسل کی طرف التفات کئے بغیر متصل کو ہی وقت احتجاج لیتے ہیں۔ دیکھئے: (الْمَدْخَلُ فِی أُصولِ اْلحدیث:۵۷، مقدمہ ابن الصلاح :۱۶۳) امام مالکؒ کا بھی یہی قول ہے ۔ (شرح تنقیح الفصول: ۳۸۲)۔ امام الحرمین لکھتے ہیں: امام شافعی ؒثقہ کا اضافہ مطلق طور پر قبول کرتے ہیں۔ (البرہان۱؍۶۶۲)۔ ابو الخطاب نے یہ لکھا ہے (التمہید از کلوذانی ۳؍۱۴۴) کہ امام احمدؒ بھی دوروایات کے مطابق وصل کو قبول کرتے ہیں۔زیدیہ اور اکثر متکلمین بھی وصل ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ فخر الدین رازی بھی لکھتے ہیں کہ متصل روایت کو ترجیح دینے پراصولی اورفقہاء سب کا اتفاق ہے۔ ترجیح کی وجوہات وہ (المحصول ۲؍۱؍۶۶۲) یہ لکھتے ہیں:

وصل میں ثقہ کا اضافہ ہوتو مقبول ہے۔اگر عادل ہونے کی وجہ سے اس کا ارسال قبول ہے تو اس کاوصل بھی بطریق اولی قبول ہونا چاہئے۔وصل میں علم کا بھی اضافہ ہے جو مرسل کے حفظ وعلم میں نہیں ۔ حفظ تو غیر حافظ پر حجت ہوتا ہے۔مرسل، راوی کے حال کے بارے میں ساکت ہوتا ہے اور واصل ناطق ۔ساکت کس طرح ناطق کا معارض ہوسکتا ہے۔
 
Top