- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,773
- ری ایکشن اسکور
- 8,473
- پوائنٹ
- 964
دوسری قسم: ایسے روات جن کے متعلق امام صاحب متردد ھوں یا انکا معاملہ ان پر مشتبہ ھو، ان روات کی روایات مستقیمہ بھی ہوتی ہیں اور مناکیر بھی، یعنی اس قسم کے روات سے امام صاحب حجت نہیں پکڑتے، بلکہ انہیں اعتبار کے لائق سمجھتے ہیں۔ ایسے روات کو امام صاحب "الثقات " میں بھی ذکرکرتے ہیں اور "المجروحین " میں بھی، مثلا ایک راوی ابراھیم بن طہمان، ابوسعید ، کے متعلق آپ کے الفاظ ہیں:
" امره مشتبه، له مدخل في "الثقات " ومدخل في الضعفاء، قد روی احاديث مستقيمة تشبه احاديث الأثبات، وقد تفرد عن الثقات باشياء معضلات سنذكره ان شاء الله تعالي في كتاب "الفصل بين النقلة "ان قضی الله ذلك ، وكذلك كل من توقفنا في امره ممن له مدخل في الثقات والضعفاء جميعا" (الثقات :۶/۲۷)
امام صاحب کے اس کلام میں صراحت ھے کہ جس راوی کے بارے میں انکو تردد ھوگا، ان سے احتجاج کرنے میں وہ توقف کرینگے، اور اسے وہ "الثقات " میں بھی ذکر کر دینگے اور اسی طرح " الضعفاء" میں بھی۔
امام صاحب کے اس طرز عمل کو تناقض کا نام دیا گیا ھے کہ وہ جن روات کو"الثقات" میں ذکر کرتے ھیں، انہیں "المجروحین " میں بھی ذکر کر دیتے ھیں، حالانکہ امام صاحب نے جب اپنے منہج کے متعلق صراحت کر دی ھے کہ وہ ایسے کسی وجہ سے کریں گے تو پھر ان پر تناقض کا الزام عائد کرنا کیسے درست ھوسکتا ھے؟!
ان پر یہ اعتراض علامہ کتانی اور علامہ البانی وغیرہ نے کیا ھے، ویسے اس قسم کے روات پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مذکورہ بالا دونوں قسموں کو امام صاحب نے "اپنی کتاب " الثقات " میں منہج بنایا ھے، جبکہ انکی " الثقات " کے تتبع سے ھمیں معلوم ھوا ہے کہ وہ اپنے اس منہج میں وسعت اختیار کرتے ہوئے اسکی پاسداری نہیں کرسکے اور آپ نے ثقات کے علاوہ اس میں درج ذیل اقسام کے روات کو بھی "الثقات " میں درج کر دیا ہے:
۱ـ ضعفاء، جنہیں خود آپ ضعیف کہتے ہیں،
۲ ـ محض معرفت کے لیے.یعن تتبع کے بعد انکی معرفت حاصل کی جائے کہ وہ کون ہیں..اورجرح وتعدیل میں انکامقام ومرتبہ کیا ہے؟؟
۳ ـ تاریخ، وحکایات،کو بیان کرنے والے روات
۴ ـ جن سے سرے سے ہی روایت مروی نہیں، لیکن عبادت اور زہد میں شہرت کی وجہ سے انھیں "الثقات " میں ذکر کر دیا ہے، جسکا اقرار خود امام صاحب نے کیا ہے۔
۶ ـ امام صاحب اسے بھی " الثقات " میں داخل کرتے ہیں جسکی ایسی روایات نہیں ہوتیں کہ انکی طرف رجوع کیاجائے، بلکہ اس لیے ذکرکرتے ہیں کہ معلوم ہو جائے کہ اس سے بھی روایات مروی ہیں۔
ذیل میں ان سب کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں :
#الضعفاء #
ضعفاء کو ہم چاراقسام میں تقسیم کرتے ہیں:
۱ ـ جن پر امام امام صاحب نے ضعیف، یخطئ کثیرا،لایحتج بہ اذا انفرد، جسے الفاظ وارد کرکے انہیں ضعیف قرار دیا ہو، یا پھر قلیل الروایہ روات کو الثقات میں داخل کرکے "یخطئ مع قلة حديثه " جیسے الفاظ انکے متعلق کہے ہوں.
۲ ـ ایسے روات جو قلیل الروایہ ہونے کے باوجود مناکیر بیان کرتے ہیں.
۳ ـ جس راوی سے صرف غیر ثقہ راوی روایت کرے، وہ امام صاحب کے نزدیک ضعیف ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں :
" الشيخ اذا لم يرو عنہ ثقة فهو مجهول لا يجوز الاحتجاج به، لان رواية الضعيف لا تخرج من ليس بعدل عن حد المجهولين الي جملة اهل العدالة كان ما روی الضعيف وما لم يرو في الحكم سيان»
( المجروحين : ۳۲۷ ـ ۳۲۸) ترجمه سعید بن زیاد بن فائد.
یعنی اگر کسی راوی سے کوئی ثقہ راوی روایت نہیں کرتا، تو وہ حد جہالت سے نہیں نکلتا بلکہ وہ مجہول ہے، جسکی خبر سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی، کیونکہ ضعیف راوی اپنی روایت سے غیر عادل ( راوی) کو جہالت سے نکال کر عدالت والوں میں شامل نہیں کرسکتا، کیونکہ ضعیف کا روایت کرنا اور نہ کرنا برابر ہے.اھ
گویا امام صاحب نے شرط لگائی ہے کہ جس سے ثقہ راوی روایت نہیں کرتا بلکہ صرف ضعیف ہی روایت کرتا ہے، تو ایسا راوی امام صاحب کے نزدیک ضعیف رہتا ہے، بلکہ اسکا ہونا نہ ہونا برابر ھے، تو اس قسم کے روات کو امام صاحب نے " الثقات میں بھی ذکر کیا ھے۔
۴ ـ قلیل الروایہ ہونے کے باوجود بھی منکر یاباطل روایت بیان کرتا ہوں۔
اب علی الترتیب ضعفاء کی اقسام کے مطابق روات ملاحظہ فرمائیں.
تنبيه : ذیل میں میں اگر بغیر نام کے حوالے ھوں تو ان سے مراد "الثقات " لابن حبان ہے، اور اگر کسی اور کتاب کا حوالہ ہوگا تو اسکا نام ذکر کر دوں گا.
#قسم اول کے ضعفاء#
۱ ـ عبدالله بن قنطس.
قال « وكان يتهم بامر سوء» ( ۵/۵۸)
۲ ـ مسلم بن عقال
۳ ـ مسلم بن عمار
۴ ـ مسلم بن ابی کریمہ
۵ ـ مسلم بن ھرمز
۶ ـ مسلم مولی علی.
قال : "روی ( في الاصل رووا) هؤلاء عن علي بن ابي طالب، الا اني لست اعتمد عليهم ولا يعحبني الاحتجاج بهم لما كانوا فيه من المذهب الردئ "( ۵/۴۰۱)
۷ ـ الحسن بن عطية.
قال : «واحاديث الحسن بن عطية ليست نقية» (۶/۱۷۰)
۸ ـ ـ سعيد بن سفيان الجحدري.
قال : « وكان ممن يخطئ، حمل عليه علي ابن المديني، وليس ممن يسلك مسلك الاثبات، ثم لم يعتر عن الوهم والخطإ، استحق الحمل عليه، حتي يعدل به عن مسلك الاثبات الي غيرهم »( ۸/۲۶۵)
۹ ـ محمد بن سلیمان بن ھاشم.
قال : « ليس له في القلب حلاوة» ( ۹/۱۳۱)
۱۰ ـ عبداللہ بن عصم الحنفی.
قال : « يخطئ كثيرا» (۵/۵۷)
۱۱ ـ مختار بن فلفل.
قال : « يخطئ كثيرا.(۵/۴۲۹)
۱۲ ـ بشیر بن المہاجر الغنوی.
قال : يخطئ كثيرا.(۶/۹۸)
۱۳ ـ ربيعة بن سيف المعامري الاسكندراني.
قال : « يخطئ كثيرا »(۶/۳۰۱)
۱۴ ـ عبداللہ بن عبدالعزيز بن عبدالله بن حنيف بن واهب الاوسي.
قال:« وقد كف، يخطئ كثيرا » ( ۷/۱۴۷)
۱۵ ـ اسماعیل بن عمرو البجلی.
قال : « يغرب كثيرا» ( ۸/۱۰۰)
۱۶ ـ مالک بن سليمان بن مرة النهشلي. من اهل هراة.
قال : « يخطئ كثيرا، وامتحن باصحاب سوء، كانوا يقلبون عليه حديثه، ويقررون عليہ، فان اعتبر المعتبر حديثه الذي يرويه عن الثقات ويروي عنه الاثبات مما بين السماع فيه لم يجدها الا ما يشبه حديث الناس علي انه من جملة الضعفاء، ادخل ان شاء الله، وهو ممن استخير الله عزوجل فيه» ( ۹/۱۶۵)
۱۷ ـ النضر بن منصور،
قال :«لا يجوز عندي الاحتجاج بخبره اذاانفرد» (۷/۵۳۴) وقال فی المجروحین: « منكر الحديث جدا » ( ۳/۵۰)
۱۸ ـ روح بن عطاء البصري،
ذكره في "الثقات "( ۶/۳۰۵) و قال في المجروحین : يخطئ ويهم كثيرا، لا يعجبني الاحتجاج بخبره اذاانفرد.
۱۹ ـ عمران بن ضبیان الکوفی.
ذكره في " الثقات "(۷/ ۲۳۹) وقال فی "المجروحين "(۲/۱۲۳) لا يحتج بماانفرد.
۲۰ ـ کثیر بن زیاد البرسانی الخراسانی.
ذکرہ فی " الثقات "(۷/۵۳۵) وقال فی " المجروحین " ( ۲/۲۲۴): استحب مجانبة ما انفرد من الروایات.
۲۱ ـ اسماعیل بن محمد بن جحادة.
ذكره في "الثقات " ( ۸/۶) وقال فی "المجروحين "( ۱/۱۲۸): یخطئ، خرج عن حد الاحتجاج به اذاانفرد.
۲۲ ـ صالح بن مسلم بن رومان،
ذكره في "الثقات "( ۶/۴۶۴) وقال فی "المجروحين " (۱/۳۶۶): کان ممن یخطئ، حتی خرج عن حد الاحتجاج به اذاانفرد.
۲۳ ـ سعید بن واصل الجرشی،
ذکرہ فی "الثقات "( ۸/۲۶۶) وقال فی " المجروحین "(۱/۳۲۵) : یخطئ کثیرا، حتی خرج عن حدالاحتجاج بہ اذاانفرد.
۲۴ ـ محمد بن عمرو بن عبید ابو سہل الانصاری الواقفی،
ذکرہ فی "الثقات "(۷/۴۳۹) وقال: یخطئ، ۔ وقال فی " المجروحین " (۲/۲۸۶) ممن ینفرد عن المشاھیر، یعتبر حدیثہ من غیر احتجاج بہ.
۲۵ ـ سبرة بن معبد اللخمي،
ذكره في "الثقات "(۷/۵۲۴) وقال فی "المجروحین "( ۳/۴۲) لایجوز الاحتجاج بہ اذاانفرد.
۲۶ ـ رباح بن ابی معروف
ذکرہ فی "الثقات "(۶/۳۰۷) وقال فی "المجروحین "( ۱/۳۰۰):والذی عندی التنکب عماانفرد بہ من الحدیث والاحتجاج بما وافق الثقات من الروایات.
۲۷ ـ اسحاق بن.یحیی بن طلحة .
ذكره في "الثقات "(۶/۴۵) وقال فی "المجروحین "(۱/۱۳۳): کان ردئ الحفظ، سیئ الفھم، یخطئ ولایعلم، ویروی ولا یفھم.
۲۸ ـ حسین بن عطاء بن یسار المدنی،
ذکرہ فی "الثقات "(۶/۲۰۹) وقال فی "المجروحین "(۱/۲۴۳) :لایجوز الاحتجاج بہ اذا انفرد لمخالفته الاثبات في الروايات.
۲۹ ـ ادريس بن صبيح،
قال (۶/۷۸): یخطئ ویغرب علی قلتہ.
۳۰ ـ حلو بن السری،
قال ( ۶/۲۶۸): یخطئ ویغرب علی قلة روايته.
۳۱ ـ عبداللہ بن انسان.
قال (۷/۱۷): کان یخطئ.
قلت : ھو قلیل الحدیث، واذا کان یخطئ مع قلة حديثه فكيف يكون ثقة...؟؟
۳۲ ـ عبداللہ بن سعد.
قال (۷/۳۹): یخطئ، حدیثہ فی الاغلوطات.
قلت: ھو قلیل الحدیث، ومع ذلک یخطئ، فکیف یکون ثقة ،،، ؟؟؟
۳۳ ـ عسل بن سفیان.
قال ( ۷/۲۹۲): یخطئ ویخالف علی قلة روايته.
۳۴ ـ الوليد بن الولید.
قال : (۷/۵۵۲): ربما خالف علی قلة روايته.
۳۵ ـ محمد بن نافع،
قال ( ۵/۳۷۹): لا یعتد بہ اذاانفرد.
۳۶ ـ نافع ابوغالب الخیاط.
قال (۵/۴۷۱): روی عنہ البصریون، لا یعجبنی الاحتجاج بخبرہ اذاانفرد.
۳۷ ـ اسحاق بن یحی بن طلحة بن عبيدالله.
قال(۶/۴۵): یخطئ ويهم، قد ادخلنا اسحاق بن يحيی هذا في الضعفاء لماكان فيه من الايهام، ثم سبرت اخباره، فاذاالاجتهاد أدی الی ان يترك مالم يتابع عليه ويحتج بما وافق الثقات بعد ان استخرنا الله تعالي فيه.
۳۸ ـ اسماء بن الحکم الفزاری.
قال(۴/۵۹): یخطئ۰
قلت : ھو قلیل الحدیث، فاذاکان یخطئ مع قلة حديثه عنده فكيف يوثقه..؟؟؟
۳۹ ـ خيثمة بن ابي خيثمة البصرى.
ذكره في "الثقات " (۴/۲۱۴) وسکت علیہ، وقال في "المجروحين "(۱/۲۸۷) : « روي عنه جابرالجعفي، منكرالحديث علي قلته، لاتتميز كيفية سببه في النقل، لان راويه جابر الجعفي، فما يلزق به من الوهن فهو لجابر ملزق ايضا، فمن هاهنا اشتبه امره ووجب تركه».
۴۰ـ عامر بن خارجة بن سعد.
قال ( ۵/۱۹۴) : یروی عن جدہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیثا منکرا فی المطر، روی عنہ حفص بن النضر السلمی، لا یعجبنی ذکرہ.
۴۱ ـ حبان بن علی، ابو علی العنزی.
ذکرہ فی " الثقات "( ۶/۲۴۰) وقال فی " المجروحین "(۱/۲۶۱): فاحش الخطأ فیما یروی، یجب التوقف فی امرہ اھ.
۴۲ ـ زاذان، مولی كندة
قال ( ۴/۲۶۵) یخطئ کثیرا.
۴۳ـ سماك بن حرب البكري، من اهل الكوفة.
قال (۴/۳۳۹)يخطئ كثیرا.
۴۴ ـ سدوس بن حبیب صاحب السابری
قال (۴/۳۴۹) من اھل البصرة، يخطئ كثيرا.
۴۵ ـ شبیب بن بشرالبجلی
قال (۴/۳۵۹) یخطئ کثیرا
تنـبــیـــــــــــــــــــــــــــــــــہ: ۱
مذکورہ ضعفاء میں سے چند ضعفاء میں نے ایسے بھی ذکر کیے ھیں جنہیں امام صاحب نے "الثقات " اور "المجروحین " دونوں میں ذکر کیا ھے، اس قسم کے روات کے متعلق میں پہلے وضاحت کرچکا ھوں کہ اگرچہ بعض علماء نے امام صاحب کے اس عمل کو تناقض کا نام دیا ھے، مگر ــ جیسا کہ پہلے میں نے کہا ــ یہ امام صاحب کا تناقض نہیں، بلکہ اس بات کی صراحت وہ خود کر چکے ہیں کہ وہ ایسا کرینگے.یعنی جن روات کی روایات سے استدلال کرنے میں توقف کرینگے، جو انفرادی طور پر حجت نہیں انکو "الثقات " میں ذکرینگے اور " المجروحین " میں بھی ذکر کرینگے..سو اسی لیے جو روات انکی دونوں کتابوں میں پائے جائیں تو اسکو تناقض کا نام نہیں دیا جائےگا، لیکن یہ یاد رھے کہ اکثر طور پر امام صاحب اپنی اس بات پر پورے اترے ھیں، مگر بعض مواضع میں وہ اپنی اس شرط پر پورا نہیں اتر سکے ...بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے جو روات میں نے اوپر ذکر کیے جو دونوں کتابوں میں موجود ھیں، تو میرا ان پر یہ استدراک نہیں، بلکہ بتانا یہ مقصود ھے کہ جو "الثقات " میں مذکور تمام روات کو ثقہ سمجھتے ھیں انہیں ان روات پر نظر رکھنی چاھیے کہ اعتبار کے قابل روات بھی "الثقات " میں موجود ھیں، جو انفرادا قابل حجت نہیں، بلکہ متابعت کے لائق ھیں، اور ایسے روات کسی طرح ثقات نہیں ہو سکتے.
تنبیـــــــــــــــــــــہ: ۲
امام صاحب اپنے اس کلام « امره مشتبه، له مدخل في "الثقات " ومدخل في الضعفاء، قد روي احاديث مستقيمة تشبه احاديث الاثبات، وقد تفرد عن الثقات باشياء معضلات سنذكره ان شاء الله تعالي في كتاب "الفصل بين النقلة "ان قضي الله ذالك وكذالك كل من توقفنا في امره ممن له مدخل في في الثقات والضعفاء جميعا»( الثقات : ۶/۲۷) میں واضح طور پر فرما رھے ھیں کہ جن روات کے متعلق وہ متردد ھونگے تو انکا مدخل "الثقات " میں بھی ہوگا اور "الضعفاء " میں بھی،یعنی احادیث مستقیمہ بھی ہیں اور مناکیر بھی، اور اسی طرح وہ روات جن سے احتجاج کرنے سے توقف کرینگے، تو ان دونوں صورتوں میں امام صاحب ایسے روات سے حجت پکڑنے میں توقف کرینگے، اور پھر "المجروحین " میں باقاعدہ عام طور پر وضاحت کرتے ھیں کہ یہ روات انفرادا حجت نہیں، بلکہ اعتبار کے وقت حجت ھیں، گویا یہ روات انکے نزدیک ثقہ نہیں ہیں، ..لیکن علامہ محمود سعید ممدوح نے امام صاحب کی اس قریب الذکر عبارت کا کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ اشارہ تک بھی نہیں کیا، کیونکہ انکا موقف ھے کہ " الثقات " میں مذکور تمام روات ثقہ ہیں، اور اس حوالے سے انہوں نے علامہ البانی وغیرہ کا ٹھیک ٹھاک رد کیا ھے، اور اپنے تئیں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ " الثقات " میں مذکور تمام روات ثقہ ھیں،انھوں نے «التعريف باوهام من قسم السنن الي صحيح وضعيف »اور اپنی کتاب " الاحتفال بمعرفة الروات الثقات الذين ليسوا في تهذيب الكمال " میں بھی امام صاحب کی "الثقات " سے بھی کافی استفادہ کیا ہے، جبکہ یہ انکی صریح غلطی ھے،
اولا: امام صاحب نے جب خود صراحت کر دی ھے کہ وہ "الثقات " میں ایسے روات کو بھی ذکر کرینگے جن کا معاملہ مشتبہ ہوگا کہ جن سے حجت پکڑنے میں یقین نہیں ھوگا، اور ایسے بھی ذکرکرینگے جن سے احتجاج کرنے میں وہ توقف کرینگے، علامہ محمود سعید ممدوح امام صاحب کی عبارت ذکر کرنے کے باوجود خاموش رھے ھیں، جو انتہائی تعجب خیز ھے.
ثانیا : محترم قارئین !جیسا پیچھے آپ ملاحظہ فرما چکے ھیں کہ " الثقات " میں ضعفاء بھی ھیں جنہیں خود امام صاحب نے بھی ضعیف قرار دیا ھے، تو پھر ایسے میں علامہ محمود سعید ممدوح کی یہ بات کیسے درست ہوسکتی ھے کہ "الثقات " میں تمام کے تمام روات ثقہ ہیں...؟؟؟
" امره مشتبه، له مدخل في "الثقات " ومدخل في الضعفاء، قد روی احاديث مستقيمة تشبه احاديث الأثبات، وقد تفرد عن الثقات باشياء معضلات سنذكره ان شاء الله تعالي في كتاب "الفصل بين النقلة "ان قضی الله ذلك ، وكذلك كل من توقفنا في امره ممن له مدخل في الثقات والضعفاء جميعا" (الثقات :۶/۲۷)
امام صاحب کے اس کلام میں صراحت ھے کہ جس راوی کے بارے میں انکو تردد ھوگا، ان سے احتجاج کرنے میں وہ توقف کرینگے، اور اسے وہ "الثقات " میں بھی ذکر کر دینگے اور اسی طرح " الضعفاء" میں بھی۔
امام صاحب کے اس طرز عمل کو تناقض کا نام دیا گیا ھے کہ وہ جن روات کو"الثقات" میں ذکر کرتے ھیں، انہیں "المجروحین " میں بھی ذکر کر دیتے ھیں، حالانکہ امام صاحب نے جب اپنے منہج کے متعلق صراحت کر دی ھے کہ وہ ایسے کسی وجہ سے کریں گے تو پھر ان پر تناقض کا الزام عائد کرنا کیسے درست ھوسکتا ھے؟!
ان پر یہ اعتراض علامہ کتانی اور علامہ البانی وغیرہ نے کیا ھے، ویسے اس قسم کے روات پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مذکورہ بالا دونوں قسموں کو امام صاحب نے "اپنی کتاب " الثقات " میں منہج بنایا ھے، جبکہ انکی " الثقات " کے تتبع سے ھمیں معلوم ھوا ہے کہ وہ اپنے اس منہج میں وسعت اختیار کرتے ہوئے اسکی پاسداری نہیں کرسکے اور آپ نے ثقات کے علاوہ اس میں درج ذیل اقسام کے روات کو بھی "الثقات " میں درج کر دیا ہے:
۱ـ ضعفاء، جنہیں خود آپ ضعیف کہتے ہیں،
۲ ـ محض معرفت کے لیے.یعن تتبع کے بعد انکی معرفت حاصل کی جائے کہ وہ کون ہیں..اورجرح وتعدیل میں انکامقام ومرتبہ کیا ہے؟؟
۳ ـ تاریخ، وحکایات،کو بیان کرنے والے روات
۴ ـ جن سے سرے سے ہی روایت مروی نہیں، لیکن عبادت اور زہد میں شہرت کی وجہ سے انھیں "الثقات " میں ذکر کر دیا ہے، جسکا اقرار خود امام صاحب نے کیا ہے۔
۶ ـ امام صاحب اسے بھی " الثقات " میں داخل کرتے ہیں جسکی ایسی روایات نہیں ہوتیں کہ انکی طرف رجوع کیاجائے، بلکہ اس لیے ذکرکرتے ہیں کہ معلوم ہو جائے کہ اس سے بھی روایات مروی ہیں۔
ذیل میں ان سب کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں :
#الضعفاء #
ضعفاء کو ہم چاراقسام میں تقسیم کرتے ہیں:
۱ ـ جن پر امام امام صاحب نے ضعیف، یخطئ کثیرا،لایحتج بہ اذا انفرد، جسے الفاظ وارد کرکے انہیں ضعیف قرار دیا ہو، یا پھر قلیل الروایہ روات کو الثقات میں داخل کرکے "یخطئ مع قلة حديثه " جیسے الفاظ انکے متعلق کہے ہوں.
۲ ـ ایسے روات جو قلیل الروایہ ہونے کے باوجود مناکیر بیان کرتے ہیں.
۳ ـ جس راوی سے صرف غیر ثقہ راوی روایت کرے، وہ امام صاحب کے نزدیک ضعیف ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں :
" الشيخ اذا لم يرو عنہ ثقة فهو مجهول لا يجوز الاحتجاج به، لان رواية الضعيف لا تخرج من ليس بعدل عن حد المجهولين الي جملة اهل العدالة كان ما روی الضعيف وما لم يرو في الحكم سيان»
( المجروحين : ۳۲۷ ـ ۳۲۸) ترجمه سعید بن زیاد بن فائد.
یعنی اگر کسی راوی سے کوئی ثقہ راوی روایت نہیں کرتا، تو وہ حد جہالت سے نہیں نکلتا بلکہ وہ مجہول ہے، جسکی خبر سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی، کیونکہ ضعیف راوی اپنی روایت سے غیر عادل ( راوی) کو جہالت سے نکال کر عدالت والوں میں شامل نہیں کرسکتا، کیونکہ ضعیف کا روایت کرنا اور نہ کرنا برابر ہے.اھ
گویا امام صاحب نے شرط لگائی ہے کہ جس سے ثقہ راوی روایت نہیں کرتا بلکہ صرف ضعیف ہی روایت کرتا ہے، تو ایسا راوی امام صاحب کے نزدیک ضعیف رہتا ہے، بلکہ اسکا ہونا نہ ہونا برابر ھے، تو اس قسم کے روات کو امام صاحب نے " الثقات میں بھی ذکر کیا ھے۔
۴ ـ قلیل الروایہ ہونے کے باوجود بھی منکر یاباطل روایت بیان کرتا ہوں۔
اب علی الترتیب ضعفاء کی اقسام کے مطابق روات ملاحظہ فرمائیں.
تنبيه : ذیل میں میں اگر بغیر نام کے حوالے ھوں تو ان سے مراد "الثقات " لابن حبان ہے، اور اگر کسی اور کتاب کا حوالہ ہوگا تو اسکا نام ذکر کر دوں گا.
#قسم اول کے ضعفاء#
۱ ـ عبدالله بن قنطس.
قال « وكان يتهم بامر سوء» ( ۵/۵۸)
۲ ـ مسلم بن عقال
۳ ـ مسلم بن عمار
۴ ـ مسلم بن ابی کریمہ
۵ ـ مسلم بن ھرمز
۶ ـ مسلم مولی علی.
قال : "روی ( في الاصل رووا) هؤلاء عن علي بن ابي طالب، الا اني لست اعتمد عليهم ولا يعحبني الاحتجاج بهم لما كانوا فيه من المذهب الردئ "( ۵/۴۰۱)
۷ ـ الحسن بن عطية.
قال : «واحاديث الحسن بن عطية ليست نقية» (۶/۱۷۰)
۸ ـ ـ سعيد بن سفيان الجحدري.
قال : « وكان ممن يخطئ، حمل عليه علي ابن المديني، وليس ممن يسلك مسلك الاثبات، ثم لم يعتر عن الوهم والخطإ، استحق الحمل عليه، حتي يعدل به عن مسلك الاثبات الي غيرهم »( ۸/۲۶۵)
۹ ـ محمد بن سلیمان بن ھاشم.
قال : « ليس له في القلب حلاوة» ( ۹/۱۳۱)
۱۰ ـ عبداللہ بن عصم الحنفی.
قال : « يخطئ كثيرا» (۵/۵۷)
۱۱ ـ مختار بن فلفل.
قال : « يخطئ كثيرا.(۵/۴۲۹)
۱۲ ـ بشیر بن المہاجر الغنوی.
قال : يخطئ كثيرا.(۶/۹۸)
۱۳ ـ ربيعة بن سيف المعامري الاسكندراني.
قال : « يخطئ كثيرا »(۶/۳۰۱)
۱۴ ـ عبداللہ بن عبدالعزيز بن عبدالله بن حنيف بن واهب الاوسي.
قال:« وقد كف، يخطئ كثيرا » ( ۷/۱۴۷)
۱۵ ـ اسماعیل بن عمرو البجلی.
قال : « يغرب كثيرا» ( ۸/۱۰۰)
۱۶ ـ مالک بن سليمان بن مرة النهشلي. من اهل هراة.
قال : « يخطئ كثيرا، وامتحن باصحاب سوء، كانوا يقلبون عليه حديثه، ويقررون عليہ، فان اعتبر المعتبر حديثه الذي يرويه عن الثقات ويروي عنه الاثبات مما بين السماع فيه لم يجدها الا ما يشبه حديث الناس علي انه من جملة الضعفاء، ادخل ان شاء الله، وهو ممن استخير الله عزوجل فيه» ( ۹/۱۶۵)
۱۷ ـ النضر بن منصور،
قال :«لا يجوز عندي الاحتجاج بخبره اذاانفرد» (۷/۵۳۴) وقال فی المجروحین: « منكر الحديث جدا » ( ۳/۵۰)
۱۸ ـ روح بن عطاء البصري،
ذكره في "الثقات "( ۶/۳۰۵) و قال في المجروحین : يخطئ ويهم كثيرا، لا يعجبني الاحتجاج بخبره اذاانفرد.
۱۹ ـ عمران بن ضبیان الکوفی.
ذكره في " الثقات "(۷/ ۲۳۹) وقال فی "المجروحين "(۲/۱۲۳) لا يحتج بماانفرد.
۲۰ ـ کثیر بن زیاد البرسانی الخراسانی.
ذکرہ فی " الثقات "(۷/۵۳۵) وقال فی " المجروحین " ( ۲/۲۲۴): استحب مجانبة ما انفرد من الروایات.
۲۱ ـ اسماعیل بن محمد بن جحادة.
ذكره في "الثقات " ( ۸/۶) وقال فی "المجروحين "( ۱/۱۲۸): یخطئ، خرج عن حد الاحتجاج به اذاانفرد.
۲۲ ـ صالح بن مسلم بن رومان،
ذكره في "الثقات "( ۶/۴۶۴) وقال فی "المجروحين " (۱/۳۶۶): کان ممن یخطئ، حتی خرج عن حد الاحتجاج به اذاانفرد.
۲۳ ـ سعید بن واصل الجرشی،
ذکرہ فی "الثقات "( ۸/۲۶۶) وقال فی " المجروحین "(۱/۳۲۵) : یخطئ کثیرا، حتی خرج عن حدالاحتجاج بہ اذاانفرد.
۲۴ ـ محمد بن عمرو بن عبید ابو سہل الانصاری الواقفی،
ذکرہ فی "الثقات "(۷/۴۳۹) وقال: یخطئ، ۔ وقال فی " المجروحین " (۲/۲۸۶) ممن ینفرد عن المشاھیر، یعتبر حدیثہ من غیر احتجاج بہ.
۲۵ ـ سبرة بن معبد اللخمي،
ذكره في "الثقات "(۷/۵۲۴) وقال فی "المجروحین "( ۳/۴۲) لایجوز الاحتجاج بہ اذاانفرد.
۲۶ ـ رباح بن ابی معروف
ذکرہ فی "الثقات "(۶/۳۰۷) وقال فی "المجروحین "( ۱/۳۰۰):والذی عندی التنکب عماانفرد بہ من الحدیث والاحتجاج بما وافق الثقات من الروایات.
۲۷ ـ اسحاق بن.یحیی بن طلحة .
ذكره في "الثقات "(۶/۴۵) وقال فی "المجروحین "(۱/۱۳۳): کان ردئ الحفظ، سیئ الفھم، یخطئ ولایعلم، ویروی ولا یفھم.
۲۸ ـ حسین بن عطاء بن یسار المدنی،
ذکرہ فی "الثقات "(۶/۲۰۹) وقال فی "المجروحین "(۱/۲۴۳) :لایجوز الاحتجاج بہ اذا انفرد لمخالفته الاثبات في الروايات.
۲۹ ـ ادريس بن صبيح،
قال (۶/۷۸): یخطئ ویغرب علی قلتہ.
۳۰ ـ حلو بن السری،
قال ( ۶/۲۶۸): یخطئ ویغرب علی قلة روايته.
۳۱ ـ عبداللہ بن انسان.
قال (۷/۱۷): کان یخطئ.
قلت : ھو قلیل الحدیث، واذا کان یخطئ مع قلة حديثه فكيف يكون ثقة...؟؟
۳۲ ـ عبداللہ بن سعد.
قال (۷/۳۹): یخطئ، حدیثہ فی الاغلوطات.
قلت: ھو قلیل الحدیث، ومع ذلک یخطئ، فکیف یکون ثقة ،،، ؟؟؟
۳۳ ـ عسل بن سفیان.
قال ( ۷/۲۹۲): یخطئ ویخالف علی قلة روايته.
۳۴ ـ الوليد بن الولید.
قال : (۷/۵۵۲): ربما خالف علی قلة روايته.
۳۵ ـ محمد بن نافع،
قال ( ۵/۳۷۹): لا یعتد بہ اذاانفرد.
۳۶ ـ نافع ابوغالب الخیاط.
قال (۵/۴۷۱): روی عنہ البصریون، لا یعجبنی الاحتجاج بخبرہ اذاانفرد.
۳۷ ـ اسحاق بن یحی بن طلحة بن عبيدالله.
قال(۶/۴۵): یخطئ ويهم، قد ادخلنا اسحاق بن يحيی هذا في الضعفاء لماكان فيه من الايهام، ثم سبرت اخباره، فاذاالاجتهاد أدی الی ان يترك مالم يتابع عليه ويحتج بما وافق الثقات بعد ان استخرنا الله تعالي فيه.
۳۸ ـ اسماء بن الحکم الفزاری.
قال(۴/۵۹): یخطئ۰
قلت : ھو قلیل الحدیث، فاذاکان یخطئ مع قلة حديثه عنده فكيف يوثقه..؟؟؟
۳۹ ـ خيثمة بن ابي خيثمة البصرى.
ذكره في "الثقات " (۴/۲۱۴) وسکت علیہ، وقال في "المجروحين "(۱/۲۸۷) : « روي عنه جابرالجعفي، منكرالحديث علي قلته، لاتتميز كيفية سببه في النقل، لان راويه جابر الجعفي، فما يلزق به من الوهن فهو لجابر ملزق ايضا، فمن هاهنا اشتبه امره ووجب تركه».
۴۰ـ عامر بن خارجة بن سعد.
قال ( ۵/۱۹۴) : یروی عن جدہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیثا منکرا فی المطر، روی عنہ حفص بن النضر السلمی، لا یعجبنی ذکرہ.
۴۱ ـ حبان بن علی، ابو علی العنزی.
ذکرہ فی " الثقات "( ۶/۲۴۰) وقال فی " المجروحین "(۱/۲۶۱): فاحش الخطأ فیما یروی، یجب التوقف فی امرہ اھ.
۴۲ ـ زاذان، مولی كندة
قال ( ۴/۲۶۵) یخطئ کثیرا.
۴۳ـ سماك بن حرب البكري، من اهل الكوفة.
قال (۴/۳۳۹)يخطئ كثیرا.
۴۴ ـ سدوس بن حبیب صاحب السابری
قال (۴/۳۴۹) من اھل البصرة، يخطئ كثيرا.
۴۵ ـ شبیب بن بشرالبجلی
قال (۴/۳۵۹) یخطئ کثیرا
تنـبــیـــــــــــــــــــــــــــــــــہ: ۱
مذکورہ ضعفاء میں سے چند ضعفاء میں نے ایسے بھی ذکر کیے ھیں جنہیں امام صاحب نے "الثقات " اور "المجروحین " دونوں میں ذکر کیا ھے، اس قسم کے روات کے متعلق میں پہلے وضاحت کرچکا ھوں کہ اگرچہ بعض علماء نے امام صاحب کے اس عمل کو تناقض کا نام دیا ھے، مگر ــ جیسا کہ پہلے میں نے کہا ــ یہ امام صاحب کا تناقض نہیں، بلکہ اس بات کی صراحت وہ خود کر چکے ہیں کہ وہ ایسا کرینگے.یعنی جن روات کی روایات سے استدلال کرنے میں توقف کرینگے، جو انفرادی طور پر حجت نہیں انکو "الثقات " میں ذکرینگے اور " المجروحین " میں بھی ذکر کرینگے..سو اسی لیے جو روات انکی دونوں کتابوں میں پائے جائیں تو اسکو تناقض کا نام نہیں دیا جائےگا، لیکن یہ یاد رھے کہ اکثر طور پر امام صاحب اپنی اس بات پر پورے اترے ھیں، مگر بعض مواضع میں وہ اپنی اس شرط پر پورا نہیں اتر سکے ...بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے جو روات میں نے اوپر ذکر کیے جو دونوں کتابوں میں موجود ھیں، تو میرا ان پر یہ استدراک نہیں، بلکہ بتانا یہ مقصود ھے کہ جو "الثقات " میں مذکور تمام روات کو ثقہ سمجھتے ھیں انہیں ان روات پر نظر رکھنی چاھیے کہ اعتبار کے قابل روات بھی "الثقات " میں موجود ھیں، جو انفرادا قابل حجت نہیں، بلکہ متابعت کے لائق ھیں، اور ایسے روات کسی طرح ثقات نہیں ہو سکتے.
تنبیـــــــــــــــــــــہ: ۲
امام صاحب اپنے اس کلام « امره مشتبه، له مدخل في "الثقات " ومدخل في الضعفاء، قد روي احاديث مستقيمة تشبه احاديث الاثبات، وقد تفرد عن الثقات باشياء معضلات سنذكره ان شاء الله تعالي في كتاب "الفصل بين النقلة "ان قضي الله ذالك وكذالك كل من توقفنا في امره ممن له مدخل في في الثقات والضعفاء جميعا»( الثقات : ۶/۲۷) میں واضح طور پر فرما رھے ھیں کہ جن روات کے متعلق وہ متردد ھونگے تو انکا مدخل "الثقات " میں بھی ہوگا اور "الضعفاء " میں بھی،یعنی احادیث مستقیمہ بھی ہیں اور مناکیر بھی، اور اسی طرح وہ روات جن سے احتجاج کرنے سے توقف کرینگے، تو ان دونوں صورتوں میں امام صاحب ایسے روات سے حجت پکڑنے میں توقف کرینگے، اور پھر "المجروحین " میں باقاعدہ عام طور پر وضاحت کرتے ھیں کہ یہ روات انفرادا حجت نہیں، بلکہ اعتبار کے وقت حجت ھیں، گویا یہ روات انکے نزدیک ثقہ نہیں ہیں، ..لیکن علامہ محمود سعید ممدوح نے امام صاحب کی اس قریب الذکر عبارت کا کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ اشارہ تک بھی نہیں کیا، کیونکہ انکا موقف ھے کہ " الثقات " میں مذکور تمام روات ثقہ ہیں، اور اس حوالے سے انہوں نے علامہ البانی وغیرہ کا ٹھیک ٹھاک رد کیا ھے، اور اپنے تئیں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ " الثقات " میں مذکور تمام روات ثقہ ھیں،انھوں نے «التعريف باوهام من قسم السنن الي صحيح وضعيف »اور اپنی کتاب " الاحتفال بمعرفة الروات الثقات الذين ليسوا في تهذيب الكمال " میں بھی امام صاحب کی "الثقات " سے بھی کافی استفادہ کیا ہے، جبکہ یہ انکی صریح غلطی ھے،
اولا: امام صاحب نے جب خود صراحت کر دی ھے کہ وہ "الثقات " میں ایسے روات کو بھی ذکر کرینگے جن کا معاملہ مشتبہ ہوگا کہ جن سے حجت پکڑنے میں یقین نہیں ھوگا، اور ایسے بھی ذکرکرینگے جن سے احتجاج کرنے میں وہ توقف کرینگے، علامہ محمود سعید ممدوح امام صاحب کی عبارت ذکر کرنے کے باوجود خاموش رھے ھیں، جو انتہائی تعجب خیز ھے.
ثانیا : محترم قارئین !جیسا پیچھے آپ ملاحظہ فرما چکے ھیں کہ " الثقات " میں ضعفاء بھی ھیں جنہیں خود امام صاحب نے بھی ضعیف قرار دیا ھے، تو پھر ایسے میں علامہ محمود سعید ممدوح کی یہ بات کیسے درست ہوسکتی ھے کہ "الثقات " میں تمام کے تمام روات ثقہ ہیں...؟؟؟