• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث کو کھلواڑ اور بازیچہ اطفال بنانے کی ایک مذموم کاوش

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
دوسری قسم: ایسے روات جن کے متعلق امام صاحب متردد ھوں یا انکا معاملہ ان پر مشتبہ ھو، ان روات کی روایات مستقیمہ بھی ہوتی ہیں اور مناکیر بھی، یعنی اس قسم کے روات سے امام صاحب حجت نہیں پکڑتے، بلکہ انہیں اعتبار کے لائق سمجھتے ہیں۔ ایسے روات کو امام صاحب "الثقات " میں بھی ذکرکرتے ہیں اور "المجروحین " میں بھی، مثلا ایک راوی ابراھیم بن طہمان، ابوسعید ، کے متعلق آپ کے الفاظ ہیں:
" امره مشتبه، له مدخل في "الثقات " ومدخل في الضعفاء، قد روی احاديث مستقيمة تشبه احاديث الأثبات، وقد تفرد عن الثقات باشياء معضلات سنذكره ان شاء الله تعالي في كتاب "الفصل بين النقلة "ان قضی الله ذلك ، وكذلك كل من توقفنا في امره ممن له مدخل في الثقات والضعفاء جميعا" (الثقات :۶/۲۷)
امام صاحب کے اس کلام میں صراحت ھے کہ جس راوی کے بارے میں انکو تردد ھوگا، ان سے احتجاج کرنے میں وہ توقف کرینگے، اور اسے وہ "الثقات " میں بھی ذکر کر دینگے اور اسی طرح " الضعفاء" میں بھی۔
امام صاحب کے اس طرز عمل کو تناقض کا نام دیا گیا ھے کہ وہ جن روات کو"الثقات" میں ذکر کرتے ھیں، انہیں "المجروحین " میں بھی ذکر کر دیتے ھیں، حالانکہ امام صاحب نے جب اپنے منہج کے متعلق صراحت کر دی ھے کہ وہ ایسے کسی وجہ سے کریں گے تو پھر ان پر تناقض کا الزام عائد کرنا کیسے درست ھوسکتا ھے؟!
ان پر یہ اعتراض علامہ کتانی اور علامہ البانی وغیرہ نے کیا ھے، ویسے اس قسم کے روات پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مذکورہ بالا دونوں قسموں کو امام صاحب نے "اپنی کتاب " الثقات " میں منہج بنایا ھے، جبکہ انکی " الثقات " کے تتبع سے ھمیں معلوم ھوا ہے کہ وہ اپنے اس منہج میں وسعت اختیار کرتے ہوئے اسکی پاسداری نہیں کرسکے اور آپ نے ثقات کے علاوہ اس میں درج ذیل اقسام کے روات کو بھی "الثقات " میں درج کر دیا ہے:
۱ـ ضعفاء، جنہیں خود آپ ضعیف کہتے ہیں،
۲ ـ محض معرفت کے لیے.یعن تتبع کے بعد انکی معرفت حاصل کی جائے کہ وہ کون ہیں..اورجرح وتعدیل میں انکامقام ومرتبہ کیا ہے؟؟
۳ ـ تاریخ، وحکایات،کو بیان کرنے والے روات
۴ ـ جن سے سرے سے ہی روایت مروی نہیں، لیکن عبادت اور زہد میں شہرت کی وجہ سے انھیں "الثقات " میں ذکر کر دیا ہے، جسکا اقرار خود امام صاحب نے کیا ہے۔
۶ ـ امام صاحب اسے بھی " الثقات " میں داخل کرتے ہیں جسکی ایسی روایات نہیں ہوتیں کہ انکی طرف رجوع کیاجائے، بلکہ اس لیے ذکرکرتے ہیں کہ معلوم ہو جائے کہ اس سے بھی روایات مروی ہیں۔
ذیل میں ان سب کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں :
#الضعفاء #
ضعفاء کو ہم چاراقسام میں تقسیم کرتے ہیں:
۱ ـ جن پر امام امام صاحب نے ضعیف، یخطئ کثیرا،لایحتج بہ اذا انفرد، جسے الفاظ وارد کرکے انہیں ضعیف قرار دیا ہو، یا پھر قلیل الروایہ روات کو الثقات میں داخل کرکے "یخطئ مع قلة حديثه " جیسے الفاظ انکے متعلق کہے ہوں.
۲ ـ ایسے روات جو قلیل الروایہ ہونے کے باوجود مناکیر بیان کرتے ہیں.
۳ ـ جس راوی سے صرف غیر ثقہ راوی روایت کرے، وہ امام صاحب کے نزدیک ضعیف ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں :
" الشيخ اذا لم يرو عنہ ثقة فهو مجهول لا يجوز الاحتجاج به، لان رواية الضعيف لا تخرج من ليس بعدل عن حد المجهولين الي جملة اهل العدالة كان ما روی الضعيف وما لم يرو في الحكم سيان»
( المجروحين : ۳۲۷ ـ ۳۲۸) ترجمه سعید بن زیاد بن فائد.
یعنی اگر کسی راوی سے کوئی ثقہ راوی روایت نہیں کرتا، تو وہ حد جہالت سے نہیں نکلتا بلکہ وہ مجہول ہے، جسکی خبر سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی، کیونکہ ضعیف راوی اپنی روایت سے غیر عادل ( راوی) کو جہالت سے نکال کر عدالت والوں میں شامل نہیں کرسکتا، کیونکہ ضعیف کا روایت کرنا اور نہ کرنا برابر ہے.اھ
گویا امام صاحب نے شرط لگائی ہے کہ جس سے ثقہ راوی روایت نہیں کرتا بلکہ صرف ضعیف ہی روایت کرتا ہے، تو ایسا راوی امام صاحب کے نزدیک ضعیف رہتا ہے، بلکہ اسکا ہونا نہ ہونا برابر ھے، تو اس قسم کے روات کو امام صاحب نے " الثقات میں بھی ذکر کیا ھے۔
۴ ـ قلیل الروایہ ہونے کے باوجود بھی منکر یاباطل روایت بیان کرتا ہوں۔
اب علی الترتیب ضعفاء کی اقسام کے مطابق روات ملاحظہ فرمائیں.
تنبيه : ذیل میں میں اگر بغیر نام کے حوالے ھوں تو ان سے مراد "الثقات " لابن حبان ہے، اور اگر کسی اور کتاب کا حوالہ ہوگا تو اسکا نام ذکر کر دوں گا.
#قسم اول کے ضعفاء#
۱ ـ عبدالله بن قنطس.
قال « وكان يتهم بامر سوء» ( ۵/۵۸)
۲ ـ مسلم بن عقال
۳ ـ مسلم بن عمار
۴ ـ مسلم بن ابی کریمہ
۵ ـ مسلم بن ھرمز
۶ ـ مسلم مولی علی.
قال : "روی ( في الاصل رووا) هؤلاء عن علي بن ابي طالب، الا اني لست اعتمد عليهم ولا يعحبني الاحتجاج بهم لما كانوا فيه من المذهب الردئ "( ۵/۴۰۱)
۷ ـ الحسن بن عطية.
قال : «واحاديث الحسن بن عطية ليست نقية» (۶/۱۷۰)
۸ ـ ـ سعيد بن سفيان الجحدري.
قال : « وكان ممن يخطئ، حمل عليه علي ابن المديني، وليس ممن يسلك مسلك الاثبات، ثم لم يعتر عن الوهم والخطإ، استحق الحمل عليه، حتي يعدل به عن مسلك الاثبات الي غيرهم »( ۸/۲۶۵)
۹ ـ محمد بن سلیمان بن ھاشم.
قال : « ليس له في القلب حلاوة» ( ۹/۱۳۱)
۱۰ ـ عبداللہ بن عصم الحنفی.
قال : « يخطئ كثيرا» (۵/۵۷)
۱۱ ـ مختار بن فلفل.
قال : « يخطئ كثيرا.(۵/۴۲۹)
۱۲ ـ بشیر بن المہاجر الغنوی.
قال : يخطئ كثيرا.(۶/۹۸)
۱۳ ـ ربيعة بن سيف المعامري الاسكندراني.
قال : « يخطئ كثيرا »(۶/۳۰۱)
۱۴ ـ عبداللہ بن عبدالعزيز بن عبدالله بن حنيف بن واهب الاوسي.
قال:« وقد كف، يخطئ كثيرا » ( ۷/۱۴۷)
۱۵ ـ اسماعیل بن عمرو البجلی.
قال : « يغرب كثيرا» ( ۸/۱۰۰)
۱۶ ـ مالک بن سليمان بن مرة النهشلي. من اهل هراة.
قال : « يخطئ كثيرا، وامتحن باصحاب سوء، كانوا يقلبون عليه حديثه، ويقررون عليہ، فان اعتبر المعتبر حديثه الذي يرويه عن الثقات ويروي عنه الاثبات مما بين السماع فيه لم يجدها الا ما يشبه حديث الناس علي انه من جملة الضعفاء، ادخل ان شاء الله، وهو ممن استخير الله عزوجل فيه» ( ۹/۱۶۵)
۱۷ ـ النضر بن منصور،
قال :«لا يجوز عندي الاحتجاج بخبره اذاانفرد» (۷/۵۳۴) وقال فی المجروحین: « منكر الحديث جدا » ( ۳/۵۰)
۱۸ ـ روح بن عطاء البصري،
ذكره في "الثقات "( ۶/۳۰۵) و قال في المجروحین : يخطئ ويهم كثيرا، لا يعجبني الاحتجاج بخبره اذاانفرد.
۱۹ ـ عمران بن ضبیان الکوفی.
ذكره في " الثقات "(۷/ ۲۳۹) وقال فی "المجروحين "(۲/۱۲۳) لا يحتج بماانفرد.
۲۰ ـ کثیر بن زیاد البرسانی الخراسانی.
ذکرہ فی " الثقات "(۷/۵۳۵) وقال فی " المجروحین " ( ۲/۲۲۴): استحب مجانبة ما انفرد من الروایات.
۲۱ ـ اسماعیل بن محمد بن جحادة.
ذكره في "الثقات " ( ۸/۶) وقال فی "المجروحين "( ۱/۱۲۸): یخطئ، خرج عن حد الاحتجاج به اذاانفرد.
۲۲ ـ صالح بن مسلم بن رومان،
ذكره في "الثقات "( ۶/۴۶۴) وقال فی "المجروحين " (۱/۳۶۶): کان ممن یخطئ، حتی خرج عن حد الاحتجاج به اذاانفرد.
۲۳ ـ سعید بن واصل الجرشی،
ذکرہ فی "الثقات "( ۸/۲۶۶) وقال فی " المجروحین "(۱/۳۲۵) : یخطئ کثیرا، حتی خرج عن حدالاحتجاج بہ اذاانفرد.
۲۴ ـ محمد بن عمرو بن عبید ابو سہل الانصاری الواقفی،
ذکرہ فی "الثقات "(۷/۴۳۹) وقال: یخطئ، ۔ وقال فی " المجروحین " (۲/۲۸۶) ممن ینفرد عن المشاھیر، یعتبر حدیثہ من غیر احتجاج بہ.
۲۵ ـ سبرة بن معبد اللخمي،
ذكره في "الثقات "(۷/۵۲۴) وقال فی "المجروحین "( ۳/۴۲) لایجوز الاحتجاج بہ اذاانفرد.
۲۶ ـ رباح بن ابی معروف
ذکرہ فی "الثقات "(۶/۳۰۷) وقال فی "المجروحین "( ۱/۳۰۰):والذی عندی التنکب عماانفرد بہ من الحدیث والاحتجاج بما وافق الثقات من الروایات.
۲۷ ـ اسحاق بن.یحیی بن طلحة .
ذكره في "الثقات "(۶/۴۵) وقال فی "المجروحین "(۱/۱۳۳): کان ردئ الحفظ، سیئ الفھم، یخطئ ولایعلم، ویروی ولا یفھم.
۲۸ ـ حسین بن عطاء بن یسار المدنی،
ذکرہ فی "الثقات "(۶/۲۰۹) وقال فی "المجروحین "(۱/۲۴۳) :لایجوز الاحتجاج بہ اذا انفرد لمخالفته الاثبات في الروايات.
۲۹ ـ ادريس بن صبيح،
قال (۶/۷۸): یخطئ ویغرب علی قلتہ.
۳۰ ـ حلو بن السری،
قال ( ۶/۲۶۸): یخطئ ویغرب علی قلة روايته.
۳۱ ـ عبداللہ بن انسان.
قال (۷/۱۷): کان یخطئ.
قلت : ھو قلیل الحدیث، واذا کان یخطئ مع قلة حديثه فكيف يكون ثقة...؟؟
۳۲ ـ عبداللہ بن سعد.
قال (۷/۳۹): یخطئ، حدیثہ فی الاغلوطات.
قلت: ھو قلیل الحدیث، ومع ذلک یخطئ، فکیف یکون ثقة ،،، ؟؟؟
۳۳ ـ عسل بن سفیان.
قال ( ۷/۲۹۲): یخطئ ویخالف علی قلة روايته.
۳۴ ـ الوليد بن الولید.
قال : (۷/۵۵۲): ربما خالف علی قلة روايته.
۳۵ ـ محمد بن نافع،
قال ( ۵/۳۷۹): لا یعتد بہ اذاانفرد.
۳۶ ـ نافع ابوغالب الخیاط.
قال (۵/۴۷۱): روی عنہ البصریون، لا یعجبنی الاحتجاج بخبرہ اذاانفرد.
۳۷ ـ اسحاق بن یحی بن طلحة بن عبيدالله.
قال(۶/۴۵): یخطئ ويهم، قد ادخلنا اسحاق بن يحيی هذا في الضعفاء لماكان فيه من الايهام، ثم سبرت اخباره، فاذاالاجتهاد أدی الی ان يترك مالم يتابع عليه ويحتج بما وافق الثقات بعد ان استخرنا الله تعالي فيه.
۳۸ ـ اسماء بن الحکم الفزاری.
قال(۴/۵۹): یخطئ۰
قلت : ھو قلیل الحدیث، فاذاکان یخطئ مع قلة حديثه عنده فكيف يوثقه..؟؟؟
۳۹ ـ خيثمة بن ابي خيثمة البصرى.
ذكره في "الثقات " (۴/۲۱۴) وسکت علیہ، وقال في "المجروحين "(۱/۲۸۷) : « روي عنه جابرالجعفي، منكرالحديث علي قلته، لاتتميز كيفية سببه في النقل، لان راويه جابر الجعفي، فما يلزق به من الوهن فهو لجابر ملزق ايضا، فمن هاهنا اشتبه امره ووجب تركه».
۴۰ـ عامر بن خارجة بن سعد.
قال ( ۵/۱۹۴) : یروی عن جدہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیثا منکرا فی المطر، روی عنہ حفص بن النضر السلمی، لا یعجبنی ذکرہ.
۴۱ ـ حبان بن علی، ابو علی العنزی.
ذکرہ فی " الثقات "( ۶/۲۴۰) وقال فی " المجروحین "(۱/۲۶۱): فاحش الخطأ فیما یروی، یجب التوقف فی امرہ اھ.
۴۲ ـ زاذان، مولی كندة
قال ( ۴/۲۶۵) یخطئ کثیرا.
۴۳ـ سماك بن حرب البكري، من اهل الكوفة.
قال (۴/۳۳۹)يخطئ كثیرا.
۴۴ ـ سدوس بن حبیب صاحب السابری
قال (۴/۳۴۹) من اھل البصرة، يخطئ كثيرا.
۴۵ ـ شبیب بن بشرالبجلی
قال (۴/۳۵۹) یخطئ کثیرا
تنـبــیـــــــــــــــــــــــــــــــــہ: ۱
مذکورہ ضعفاء میں سے چند ضعفاء میں نے ایسے بھی ذکر کیے ھیں جنہیں امام صاحب نے "الثقات " اور "المجروحین " دونوں میں ذکر کیا ھے، اس قسم کے روات کے متعلق میں پہلے وضاحت کرچکا ھوں کہ اگرچہ بعض علماء نے امام صاحب کے اس عمل کو تناقض کا نام دیا ھے، مگر ــ جیسا کہ پہلے میں نے کہا ــ یہ امام صاحب کا تناقض نہیں، بلکہ اس بات کی صراحت وہ خود کر چکے ہیں کہ وہ ایسا کرینگے.یعنی جن روات کی روایات سے استدلال کرنے میں توقف کرینگے، جو انفرادی طور پر حجت نہیں انکو "الثقات " میں ذکرینگے اور " المجروحین " میں بھی ذکر کرینگے..سو اسی لیے جو روات انکی دونوں کتابوں میں پائے جائیں تو اسکو تناقض کا نام نہیں دیا جائےگا، لیکن یہ یاد رھے کہ اکثر طور پر امام صاحب اپنی اس بات پر پورے اترے ھیں، مگر بعض مواضع میں وہ اپنی اس شرط پر پورا نہیں اتر سکے ...بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے جو روات میں نے اوپر ذکر کیے جو دونوں کتابوں میں موجود ھیں، تو میرا ان پر یہ استدراک نہیں، بلکہ بتانا یہ مقصود ھے کہ جو "الثقات " میں مذکور تمام روات کو ثقہ سمجھتے ھیں انہیں ان روات پر نظر رکھنی چاھیے کہ اعتبار کے قابل روات بھی "الثقات " میں موجود ھیں، جو انفرادا قابل حجت نہیں، بلکہ متابعت کے لائق ھیں، اور ایسے روات کسی طرح ثقات نہیں ہو سکتے.
تنبیـــــــــــــــــــــہ: ۲
امام صاحب اپنے اس کلام « امره مشتبه، له مدخل في "الثقات " ومدخل في الضعفاء، قد روي احاديث مستقيمة تشبه احاديث الاثبات، وقد تفرد عن الثقات باشياء معضلات سنذكره ان شاء الله تعالي في كتاب "الفصل بين النقلة "ان قضي الله ذالك وكذالك كل من توقفنا في امره ممن له مدخل في في الثقات والضعفاء جميعا»( الثقات : ۶/۲۷) میں واضح طور پر فرما رھے ھیں کہ جن روات کے متعلق وہ متردد ھونگے تو انکا مدخل "الثقات " میں بھی ہوگا اور "الضعفاء " میں بھی،یعنی احادیث مستقیمہ بھی ہیں اور مناکیر بھی، اور اسی طرح وہ روات جن سے احتجاج کرنے سے توقف کرینگے، تو ان دونوں صورتوں میں امام صاحب ایسے روات سے حجت پکڑنے میں توقف کرینگے، اور پھر "المجروحین " میں باقاعدہ عام طور پر وضاحت کرتے ھیں کہ یہ روات انفرادا حجت نہیں، بلکہ اعتبار کے وقت حجت ھیں، گویا یہ روات انکے نزدیک ثقہ نہیں ہیں، ..لیکن علامہ محمود سعید ممدوح نے امام صاحب کی اس قریب الذکر عبارت کا کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ اشارہ تک بھی نہیں کیا، کیونکہ انکا موقف ھے کہ " الثقات " میں مذکور تمام روات ثقہ ہیں، اور اس حوالے سے انہوں نے علامہ البانی وغیرہ کا ٹھیک ٹھاک رد کیا ھے، اور اپنے تئیں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ " الثقات " میں مذکور تمام روات ثقہ ھیں،انھوں نے «التعريف باوهام من قسم السنن الي صحيح وضعيف »اور اپنی کتاب " الاحتفال بمعرفة الروات الثقات الذين ليسوا في تهذيب الكمال " میں بھی امام صاحب کی "الثقات " سے بھی کافی استفادہ کیا ہے، جبکہ یہ انکی صریح غلطی ھے،
اولا: امام صاحب نے جب خود صراحت کر دی ھے کہ وہ "الثقات " میں ایسے روات کو بھی ذکر کرینگے جن کا معاملہ مشتبہ ہوگا کہ جن سے حجت پکڑنے میں یقین نہیں ھوگا، اور ایسے بھی ذکرکرینگے جن سے احتجاج کرنے میں وہ توقف کرینگے، علامہ محمود سعید ممدوح امام صاحب کی عبارت ذکر کرنے کے باوجود خاموش رھے ھیں، جو انتہائی تعجب خیز ھے.
ثانیا : محترم قارئین !جیسا پیچھے آپ ملاحظہ فرما چکے ھیں کہ " الثقات " میں ضعفاء بھی ھیں جنہیں خود امام صاحب نے بھی ضعیف قرار دیا ھے، تو پھر ایسے میں علامہ محمود سعید ممدوح کی یہ بات کیسے درست ہوسکتی ھے کہ "الثقات " میں تمام کے تمام روات ثقہ ہیں...؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
※ضعفاء کی دوسری قسم:
کتاب "الثقات " میں ایسے بھی روات موجود ہیں جو قلیل الروایہ ہونے کے باوجود منکر احادیث بیان کرتے ہیں، اب اس قسم کے روات روایات بھی کم بیان کریں، پھر بھی اوہام کا شکار ہو جائیں کہ جس کی وجہ سے وہ مناکیر بیان کر بیٹھیں، تو ایسے روات ثقہ کیسے ہوسکتے ہیں،،، ؟؟
انکے مناکیر بیان کرنے سے واضح ہوتا ھے کہ ان روات کا ضبط ٹھیک نہیں تھا، اس لیے وہ روایات کو صحیح طرح سے ضبط نہ کر سکے اور انھوں نے جس طرح روایات کو سنا تھا اس طرح روایت نہ کر سکے،،، ان کے اس طرز عمل سے واضح ہوتا ھے کہ ایسے روات ثقات نہیں بلکہ انھیں ضعفاء کے زمرے میں داخل کیاجائے گا۔
جیسا کہ میں پہلے واضح کرچکا ھوں کہ کتاب "الثقات " میں موجود روات ــ جو قلیل الروایہ ہیں ــ ان کی روایات میں مناکیر دیکھنا ہوں تو
التاریخ الکبیر "للبخاری
الکامل لابن عدی
میزان الاعتدال
لسان المیزان
سلسلة الاحاديث الصحيحة
سلسلة الاحاديث الضعيفة
ارواء الغليل( للعلامة الالباني)
وغيرها کا مطالعہ کیا جائے، انکی مراجعت سے معلوم ھوگا کہ بظاہر ان کی روایات میں کوئی وجہ ضعف نہیں ہے مثلا.: راوی کا ضعیف نہ ہونا، سند میں عدم انقطاع ،، وغیرہ..سوائے "الثقات " میں مذکور اس راوی کے،، جس سے ظاہر ہوتا ھے کہ یہ منکر حدیث اس راوی کے علاوہ کسی اور سبب سے نہیں آئی،، اور اس منکر روایت کا موجب یہی راوی ھے،،تو جب یہ متعین ہو گیا کہ یہ منکر اسی راوی سے مروی ھے، اور ھے بھی یہ قلیل الروایہ، تو پھر ایسا راوی ثقہ کیسے بن سکتا ھے....؟؟
الغرض. !اس قسم کے روات بھی کتاب "الثقات " میں آگئے ہیں،، بلکہ چند کے متعلق تو امام ابن حبان خود صراحت کرتے ہیں کہ اس نے منکر یا باطل حدیث بیان کی ھے،، اب اس سے زیادہ اس بات کی تغلیط کے لیے اور کیا دلیل ہو سکتی ھے کہ "الثقات " میں موجود روات. ــ جو قلیل الروایہ ہیں ــ نے منکر روایت بیان نہیں کی، ،، اگر منکر پائی گئی تو وہ پانچ اسباب میں سے کسی ایک سبب کے باعث ہوگی،،، ؟؟؟
ذیل میں وہ چند روات ملاحظہ فرمائیں جو قلیل الروایہ ہونے کے باوجود بھی منکر احادیث بیان کرتے ہیں .
۱ ـ عبداللہ بن مرة (او ابن ابي مرة) الزوفي.،
امام صاحب کہتے ہیں.: "یروی عن خارجة بن حذافة في الوتر ان كان سمع منه، روی عن يزيد بن حبيب.، اسناد منقطع ومتن باطل" (۵/۴۵)
اب دیکھیں، اس راوی سے یہی ایک روایت وتر پر مروی ھے، اس سے ایک ہی روایت مروی ہونے کی وضاحت امام بخاری بھی کر چکے ھیں، آپ "التاریخ الکبیر " میں فرماتے ہیں. « لا يعرف الا بحديث الوتر » کہ اس سے وتر والی روایت کے علاوہ کوئی روایت معلوم نہیں..
جب اس راوی سے ھے ہی ایک روایت مروی، اور وہ بھی منقطع وباطل ھے، تو پھر یہ راوی ثقہ کیسے ہوسکتا ھے،، ؟؟
۲ ـ عامربن خارجة بن سعد.
آپ فرماتے ہیں. : " يروي عن جده عن النبي صلي الله عليه وسلم حديثا منكرا في المطر....لا يعجبني ذكره" (۵/۱۰۴)
اس راوی سے یہی ایک روایت مروی ھے، جسے خود امام صاحب منکر کہہ رھے ہیں، اور اس راوی کے متعلق بھی کہ رھے ھیں کہ اس کو ذکر کرنا مجھے پسند نہیں، پھر بھی اسے " الثقات " میں ذکرکر دیا،
یاد رھے امام بخاری "التاریخ الکبیر " میں اس راوی کے ترجمے میں یوں رقمطراز ہیں.: "فی اسنادہ نظر".
اور امام ابو حاتم اس کی حدیث کی سند کے متعلق فرماتے ہیں.: "اسناد منکر"..
لہذا جب اس راوی سے ایک ہی روایت مروی ھے اور وہ بھی منکر ھے، تو پھر یہ ثقہ کیوں کر ھو سکتا ھے خصوصا خود امام صاحب کو بھی اسکو "الثقات " میں ذکرکرنا ناپسند ہو.
۳ ـ عبداللہ بن انسان الطائفی، الثقفی.
امام صاحب فرماتے ہیں.: "کان یخطئ" (۷/۱۷)
اس راوی نے ایک ہی حدیث بیان کی ھے، اور وہ بھی ضعیف، امام بخاری رح اس سے مروی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں.: "لم یصح حدیثہ".
حافظ ابن حجر رح تہذیب التہذیب میں فرماتے ہیں کہ امام ذہبی نے امام ابن حبان کے اس قول ( کان یخطئ) پر تعاقب کیا ھے، اور کہتے ہیں: "هذا لا يقوله الحافظ الا فيمن روی عدة احاديث، وعبدالله ما عنده غير هذاالحديث، فان كان اخطأ فيه فما هو الذي ضبطه،،، ؟؟
مفہوم. : "کان یخطئ "جیسے الفاظ محدث اس راوی پر استعمال کرتا ھے جب اس سے چندروایات مروی ھوں، لیکن جب اس راوی سے صرف ایک ہی روایت مروی ھے اور اس میں بھی غلطی کی ھے، تو پھر باقی پیچھے بچا کیا جسکا اس نے ضبط کیا ھےکہ اس کے متعلق "کان یخطئ کہاجائے ...؟!
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس راوی سے ایک ہی روایت مروی ھے اور اس میں بھی امام ابن حبان کے نزدیک اس نے غلطی کی ھے، اور محدثین کرام نے بھی اسے ضعیف کہا ھے، تو پھر یہ راوی ثقہ کیسے ہو سکتا ھے جو امام صاحب نے اسے. "الثقات " میں ذکرکیا ھے..
اب ذرا اس راوی نے جو منکر حدیث بیان کی ھے وہ ملاحظہ فرمائیں.:
عن عروة بن الزبير ، عن الزبير ، قال : لما أقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من لية حتى إذا كنا عند السدرة وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم فى طرف القرن الأسود حذوها فاستقبل نخبا ببصره ، يعنى واديا ، و وقف حتى أتقف الناس كلهم ، ثم قال : " إن
صيد وج و عضاهه حرم محرم لله " و ذلك قبل نزوله الطائف ، و حصاره لثقيف .
اسے امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں روایت کیا ھے، اس میں ھے کہ وج نامی جگہ بھی حرم میں سے ھے اور اس کے شکار اور جھاڑیوں کا بھی احترام کیا جائے گا۔حدیث " وج "کو امام بخاری وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے.
علامہ محمود سعید ممدوح نے "التعریف" میں اس حدیث کو صحیح ثابت کرنے کے لیے بڑا زور لگایا ھے، لیکن اس حوالے سے انکے دلائل انتہائی کمزور ہیں...بہرکیف تفصیل اسکی پھر کبھی صحیح،یہاں محض اشارہ مقصود تھا.
۴ ـ محمد بن ابي محمد.
قال (۷/۴۰۱) : يروي عن ابيه عن ابي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم. : حجوا قبل ان لا تحجوا۔ روی عن عبد الرزاق عن عبد الله ابن بحير بن ريسان الصغاني عنه، وهذا خبر باطل، و ابو محمد لا يدری من هو،،، ؟؟
۵ ـ مطيع الغزال، ابو الحسن.
قال ( ۷/۵۱۸): يروي عن ابيه عن جده قال.: كان النبي صلي الله عليه وسلم.: اذا صعد المنبر اقبلنا بوجوهنا اليه، روی عنه محمد بن القاسم واهل الكوفة، لست اعرف اباه و لا جده، والخبر ليس بصحيح من طريق احد فيعتبر به۰
۶ ـ السيد بن عيسي.
ذكر له حديثا في الوضوء، ثم قال بعد ان ذكره. : والحديث باطل۰
۷ ـ. عبد الله بن صرار بن عمرو الملطي.
قال. : (۸/ ) : يروي عن ابيه، وابوه ضعيف۰
قلت ( ابو المحبوب) :والخبر المروي من طريقه منكر.
اب یہ وہ روات ہیں جو قلیل الروایہ ہونے کے باوجود بھی مناکیر اور باطل روایات بیان کرتے ہیں،
اس کے علاوہ اور بھی ایسے کئی روات ہیں.، جو تتبع کرنے سے مل جائینگے، ہم نے چند روات محض نشاندہی کرنے کے لیے ذکر کیے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
※ ضعفاء کی تیسری قسم:
یعنی جس غیر موثق راوی سے کوئی غیر موثق یعنی مجہول یا ضعیف راوی ہی روایت کرے۔ امام ابن حبان کا اس پر قول پہلے گذر چکا ہے:
" الشيخ اذا لم يرو عنہ ثقة فهو مجهول لا يجوز الاحتجاج به، لان رواية الضعيف لا تخرج من ليس بعدل عن حد المجهولين الي جملة اهل العدالة ، كان ما روی الضعيف و ما لم يرو في الحكم سيان"
تو یہ امام صاحب کی شرط و قید ہے، اسکے باوجود بھی انہوں نے ایسے روات ذکر کیے ہیں جو اس قیدوشرط پر پورا نہیں اترتے، یعنی ان سے غیرموثق ہی راوی روایت کرتا ہے...ملاحظہ فرمائیں۔
۱ ـ عامر بن مصعب.
قال (۵/۱۹۲) : لا اعلم لہ راویا الا ابراھیم بن المھاجر، ..لا يعجبني الاعتبار بحديث ابراهيم بن المهاجر اھ
قلت: وابراھیم ضعیف
۲ ـ عمر بن حرملة.
قال( ۵/۱۴۹) : روی عنہ علی بن زید بن جدعان.اھ
قلت.: لم یرو عنہ الا علی ہذا، وھو ضعیف. ولم یعلم لہ الا روایة واحدة، ففي التهذيب( ۷/۳۸۹) : وعنہ علی بن زید بن جدعان، وقال ابوزرعة.: لا اعرفہ الا فی ھذا الحدیث.اھ
۳ ـ کعب المدنی،کنیتہ ابو عامر
قال (۵/۳۳۴) : روی عنہ لیث بن ابی سلیم.اھ
قلت.: ولم یرو عنہ غیرہ. ففی التھذیب (۸/۳۹۶): اخرج له الترمذي حديثه عن ابي هريرة في ذكر الوسيلة، وقال: غريب، وكعب ليس بالمعروف، ولا نعلم احدا روی عنه غير ليث بن ابي سليم، وابن ماجہ حديث "اللهم اني اعوذ بك من الجوع، قلت ( القائل.: ابن حجر) : ولما ذكره المزي في الاطراف.، قال.: كعب المدني احد المجاهيل.اھ
۴ ـ کعب بن ذھل الایادی.
قال (۵/۳۳۵): یروی عن ابی الدرداء، وروی عنہ تمام، وتمام ضعیف.اھ
قلت.: لم یرو عنہ غیر تمام، وھو ضعیف ایضا عند ابن حبان، فکیف یکون ثقة،، ؟؟ ففی التھذیب (۸/۳۸۹) :وقال البزار.: کعب وتمام لیسا بالقویین.
۵ ـ سلیم بن عثمان، ابو عثمان الطائی
قال(۶/۶۱۵) : روی عنہ سلیمان بن سلمة الخبائري الاعاجيب الكثيرة، ولست اعلم له بعدالة ولاجرح، ولا له راو غير سليمان، وسليمان ليس بشئ، فان وجد له راو غير سليمان بن سلمة اعتبر حديثه، ويلزق به ما يتأهله من جرح او عدالة .اھ
۶ ـ عبدالرحمن بن امرؤ القيس.
قال (۵/۹۴): روی عنہ ابن عجلان عن ابی المصفی عنہ، ولا ادری من ابو المصفی،،، اھ
قلت.: اذن فابو المصفي عنده مجهول، والمترجم له ليس من شرط "الثقات ".
یہ چند روات مجھے ملے ہیں جو امام صاحب کی اپنی شرط کے مطابق "الثقات " کے مطابق نہیں ہیں،، تتبع کے بعد اور بھی اس قسم کے کئی روات مل سکتے ہیں،، ہم سردست انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔
دوسری قسم. : یعنی "الثقات " میں ایسے روات بھی موجود ہیں جو محض معرفت کے لیے ذکر کر دیے گئے ہیں، یعنی مزید تتبع کرکے انکی معرفت حاصل کی جائے کہ وہ کون ہیں..؟؟
آپ فرع نامي راوی کے ترجمے میں فرماتے ہیں: "شہد القادسية، يروي عن المقنع، وقد قيل.: ان للمقنع صحبة، ولست اعرف فزعا ولا مقنعا، ولا اعرف بلدهما ولا اعرف لهما ابا، وانما ذكرتهما للمعرفة، لا للاعتماد عليهما ما يرويانه" (۷/۳۲۶)
امام صاحب کی اس عبارت پر اچھی طرح نظر ڈالیں، اس میں واضح طور پر فرما رہے ہیں کہ وہ نہ انکو جانتے ہیں، نہ انکے شہر کو اور نہ انکے والدین ہی کو، انہیں "الثقات " میں ان پر اعتماد کرنے کی غرض سے ذکر نہیں کیا، بلکہ اس لیے کہ تتبع کر کے معلوم کیا جائے کہ وہ کون ہیں۔
"امام صاحب کی کتاب " الثقات " کے مطالعے سے معلوم ہوتا ھے کہ انہوں نے روات کی اچھی خاصی تعداد ایسی بھی ذکر کی ہے جن کے متعلق وہ خود صراحت کرتے ہیں کہ " لا اعرفہ ولا اباہ " کہ نہ میں اس راوی کو جانتا ہوں اور نہ ہی اس کے والد کو " ..ایک عربی صاحبِ علم نے اس قسم کے روات کو جمع کیا ہے جس کی تعداد قریبا سو کے قریب ہے،،روات کی یہ تعداد بھی اسی قسم سے ہے جس پر ہم بحث کر ر ہے ہیں، یعنی یہ تمام روات بھی امام صاحب نے محض معرفت ہی کے لیے ذکر کیے ہیں نہ کہ انکی توثیق کرنا مقصود ہے،، مگر علامہ محمود سعید ممدوح اس رائے کے خلاف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ امام صاحب کا یہ کہنا کہ "میں اس راوی کو نہیں جانتا " اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ انکی تجریح کر رہے ہیں۰۰۰!!!
اس کی پوری روداد انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں .
کہتے ہیں: " اماقول ابن حبان.: "لا ادري من هو، ولا ابن من هو،، فمعناه ــ والله اعلم ــ لا اعرف الا اسمه ونسبه فقط، فلا ادري من اي الانصار هو، او لا ادري عنه اكثر مما ذكرت، ولا اعرف اباه حتی اعرف به اكثر، والحاصل ان الرجل معروف العين والاسم والنسبة والرواية المستقيمة، وفي هذاالقدر كفاية لتوثيقه، فهو عدل برواية الثقة عنه، ضابط باستقامة روايته، ....وفي التدريب(۱/ ۱۷۱، ۲۷۳) «ومن عرفت عينه وعدالته وجهل اسمه ونسبه احتج به، وفي الصحيحين من ذالك كثير، كقولهم.: ابن فلان، او والد فلان، وقد جزم بذلك الخطيب في الكفاية ونقله عن القاضي ابي بكر الباقلاني، وعلله بان الجهل باسمه لا يخل العلم بعدالته» (التعریف.: ۱/۳۹۹)
کہ امام ابن حبان کا یہ قول " کہ میں اسکو نہیں جانتا، اور نہ ہی مجھے اسکے والد کا علم ہے" تو اسکا مطلب یہ ہے کہ مجھے اسکےنام اور نسب نامہ سے زیادہ علم نہیں کہ وہ کس قبیلے سے ہے، یا جتنا میں نے اسکے متعلق ذکرکیا ھے، اس سے زیادہ اسکے متعلق میں نہیں جانتا، اور نہ ہی اسکے والد کے متعلق کہ مزید اسکا احوال بیان کر سکوں، اصل بات یہ ہے کہ یہ شخص نام اور نسب میں اور روایت کی استقامت میں معروف العین ہے، ثقہ راوی کا اس سے روایت کرنا،اور اسکا اپنی روایت میں استقامت والا ہونا ہی اسکی توثیق کے لیے کافی ہے،، تدریب الراوی میں ہے کہ جس ( راوی) کا عین اور عدالت معلوم ہو، اور اسکا نام ونسب نامہ مجہول ہو تو اس سے حجت پکڑی جائیگی، اور صحیحین میں اس قسم کے کافی روات موجود ہیں، جیسا کہ کہتے ہیں کہ فلاں کا بیٹا، فلاں کا والد۔ خطیب بغدادی نے الکفایہ میں اسے بالجزم بیان کیا ہے اور قاضی ابوبکر الباقلانی سے نقل کیا ھے کہ کسی راوی کا نام مجہول ہو تو اس سے اسکی عدالت میں فرق نہیں آتا. اھ
محترم قارئین! انکی یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر کسی راوی کا نسب نامہ مجہول ھے، تو یہ بات اسکی عدالت میں مانع نہیں، لیکن سوال یہ ھے کہ کیا امام ابن حبان کا اپنے قول "لا ادری من ھو ولا ابن من ھو " میں واقعی ابن حبان کی یہی غرض ہے کہ اگرچہ راوی کا نسب نامہ مجہول ھے، یعنی مجھے اسکا علم نہین، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس راوی کی عدالت اور توثیق سے بھی میں نا آشنا ہوں اور میں اسکی توثیق نہیں کررہا،،بلکہ اسکا روایت میں مستقیم ہونا ہی اسکی عدالت وتوثیق کے لیے کافی ھے، تو اس پر عرض ہے کہ پیچھے ابن حبان کا اپنا کلام گزر چکا ہے کہ انہوں نے" فزع "نامی راوی کے متعلق بتایا کہ وہ نہ اسکو جانتے ہیں اور نہ ہی اسکے والد کو اور نہ ہی انہیں اسکے شہر کا علم ہے، پھر "الثقات " میں ذکر کرنے کی غرض بھی بتادی کہ انہیں اس لیے نہیں ذکر کیا کہ اس کو ثقہ سمجھ کر اس کی روایات پر اعتماد کیا جائے،، بلکہ اس لیے ذکر کیا ھے کہ اس کا تتبع کیاجائے اور اسکی معرفت حاصل کی جائے کہ وہ کون ہے،، ؟؟
جب خود امام صاحب سے اس قسم کے روات کے متعلق انکی اپنی نص مل گئی کہ ایسے روات کی میں توثیق نہیں کر رہا کہ ان پر اعتماد کیا جائے، بلکہ انکو ذکر کرنے کا یہ مقصد ہے کہ انکی معرفت حاصل کی جائے،، تو جب ان سے اس طرح کی واضح نص موجود ہونے کے باوجود بھی یہ کہا جائے کہ امام صاحب نے ایسے روات کی توثیق ہی کی ھے، تو یقینا یہ بات قابل تعجب ہے،،
مزید مجھے دو اور بھی "الثقات " سے نصوص ملی ھیں جن سے یہی امر واضح ہوتا ھے کہ اس قسم کے روات کی روایات کا امام صاحب نے تتبع وسبر کر کے انکی توثیق کرتے ہوئے انہیں "الثقات " میں ذکر نہیں کیا، بلکہ جس غرض سے انہیں ذکر کیا ھے وہ یہی ھے کہ انکی معرفت واحوال معلوم کیا جائے، ملاحظہ فرمائیں.:
۱ ـ سعید بن ابی راشد
آپ فرماتے ہیں. : ان لم يكن سعيد بن السماك فلا ادري من هو، فان كان ذاك فهو ضعيف.
یعنی اگر سعید بن ابی راشد، سعید بن السماک نہیں تو پھر مجھے نہیں پتا کہ وہ کون ہے، اور اگر یہ وہی ھے تو تب ضعیف ھے، ( ۶/۳۷۲)
اب دیکھیں، اس نص میں واضح طور پر کہہ رھے ہیں کہ اگر سعید بن ابی راشد، سعید بن سماک نہیں تو پھر میں اسے نہیں جانتا کہ وہ کون ہے،، اور اگر وہی ھے تو وہ ضعیف ھے،،
اب بتایا جائے،، اگر امام صاحب کے الفاظ "لا ادری من ھو" سے وہی مراد لی جائے جو علامہ محمود سعید ممدوح نے لی ہے کہ اس سے مراد نسب نامہ کا عدم علم ہے، نہ کہ اس سے مراد اسکی عدم توثیق وتضعیف ، تو پھر بتایا جائے اس راوی کو "الثقات " میں ذکر کر کے توثیق کی، پھر یہ کہہ کر کہ " اگر وی سعید بن السماک ہے تو وہ ضعیف ھے " اسکی تضعیف کردی،، کیا اس طرح ایک ہی عبارت میں تناقض نہیں آرہا....؟
یعنی "الثقات " میں ذکر کر کے اسکی پہلے توثیق کی، پھر اسکی تضعیف بھی کردی؟؟؟ یا پھر یہ ماننا پڑیگا کہ اس طرح کے روات ذکر کر کے امام صاحب نے انکی توثیق نہیں کی بلکہ محض معرفت کے لیے انہیں ذکرکیا ھے،،
اور اگر نہیں، تو پھر مذکورہ تناقض کا حل کیا ھے،، ؟؟؟ اگر واقعی امام صاحب نے اس کی روایات کا سبر و تتبع کر کے اور اسے اسقامت والا سمجھ کر ہی اسے "الثقات " میں ذکر کر کے اسکی توثیق کی ہے تو پھر انکو تردد کس بات پر ہورہا ھے کہ اگر فلاں نہیں ہے تو میں نہیں جانتا، اور اگر فلاں ھے تو وہ ضعیف ھے...گویا اس نص میں یہ بات بالکل واضح ھے کہ امام صاحب نہ اسکے احوال سے پوری طرح واقف تھے اور نہ ہی اسکی روایات کا سبر وتتبع کیا ھے ج واسے استقامت والا سمجھین، اگر مستقیم سمجھتے ھوتے تو پھر اسے ضعیف کیوں قرار دیتے، گویا انکے نزدیک سعید بن السماک ضعیف راوی ھے، اور اس راوی سے کسی طرح بھی وہ واقف نہیں ، اسے لیے اسکی تعیین میں بھی متردد ھین،، اس نص کے بعد بھی کیا کوئی یہ کہہ سکتا ھے کہ اس قسم کے روات کی امام صاحب نے توثیق کی ھے،،،، !!!!
۲ ـ سیف ابو محمد
قال.: "لست اعرف اباه، فان كان سيف بن محمد فهو واه، وان كان غيره فهو مقبول الرواية، حتي تصح مخالفته الاثبات في الروايات، او يسلك غير مسلك العدول في الاخبار، فحينئذ يلزق به الوهن "(۸۴۸۴)
اب اس نص میں بھی دیکھین، وہی کیفیت ھے، اگر وہ سیف بن محمد ھے تو "واہ "(انتہائی کمزور) ھے، اور اگر وہ نہیں تو وہ مقبول الروایہ ھے، جب تک اسکی مخالفت سامنے نہ آئے،، اگر وہ امام صاحب کے نزدیک ثقہ ہی ہے تو پھر یہ طرز کیا واضح کر رہا ھے،،
کیا کسی کی روایات کے تتبع سے اس طرح تردد کا طرز اختیار کیاجاتا ھے،،، امام صاحب نے صراحت کی ھے کہ اگر وہ سیف بن محمد نہیں ھے تو پھر وہ مقبول الروایہ ھے، اور اسکی روایات کا تتبع کیا جائیگا،، اگر مخالفت ہوتی ھے تو وہ اسی راوی پر ہی فٹ کی جائیگی،اور اسی کی وجہ سے اسکی روایت کو ضعیف قرار دیا جائیگا،، اب اس قدر واضح نص کے بعد بھی یہ کہنا کہ اس قسم کے روات کو امام صاحب کا اپنی "الثقات " میں ذکر کرنا اسکی توثیق ہی ھے، تو پھر امام صاحب کے اپنے ہی طرز میں ایسا شدید تناقض ہوگا کہ الامان والحفیظ...!!!
ان نصوص سے یہ بھی واضح ہوا کہ امام صاحب نے "الثقات " میں موجود تمام روات کی روایات کا سبر وتتبع نہیں کیا ھے جیسا کہ علامہ محمود سعید ممدوح کہتے ہیں-
خلاصہ کلام. ! کہ امام ابن حبان نے "الثقات " میں ایسے بھی روات ذکر کیے ہیں جنکو وہ بھی نہ توثیقا جانتے ہین اور نہ ہی حالا...بلکہ محض وہ معرفت کے لیے ذکرکیے گئے ہیں.جس سے معلوم ہوا کہ "الثقات مین موجود تمام روات ثقہ نہیں، لہذا اس نظریے سے احتراز کیا جائے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تیسری قسم: تاریخ وحکایات اور رقائق کو بیان کرنے والے روات.
یعنی کتاب "الثقات " میں ایسے روات بھی موجود ہیں جن سے ایک بھی حدیث مروی نہیں، بلکہ وہ صرف تاریخ وحکایات ہی بیان کرتےہیں،
چوتھی قسم ـ جن سے سرے سے کوئی روایت ہے مروی نہیں، لیکن عبادت، اور زہد میں شہرت کی وجہ سے انھیں کتاب الثقات " میں ذکر کر دیا گیا ہے، جس کا اقرار خود امام صاحب نے کیا ہے-
پانچویں قسم ـ امام صاحب کتاب " الثقات " میں روات کو محض اس لیے بھی داخل کرتے ہیں ، کہ معلوم ہوجائے کہ اس سے بھی روایات مروی ہیں.
ذیل میں ان تینوں اقسام کے روات ملاحظہ فرمائیں.
۱ ـ عامر بن عبداللہ بن عبد بن قیس التمیمی العنبر
قال(۵/۱۸۷): لست احفظ له خبرا مسندا حدث به.
۲ ـ عامر بن طھفة السهمي
قال. ( ۵/۱۹۳) : روی عنه شيخ، يقال له الربيع.: حكاية.
۳ ـ عكرمة، مولي ابن عباس.
قال( ۵/۲۳۰) : یروی عن ابن عباس، روی عنہ العوام بن حوشب، ولیس ھذا بعكرمة الاول، هذا يروي الحكايات، وما اعلم له راويا الا العوام بن حوشب.
۴ـ معاوية بن ابي مذددالمديني
قال(۵/۴۱۶): روی عنه سعد الجريري الحكايات في الرقائق.
۵ ـ حسان بن ابی سنان العابد
قال ( ۶/۲۲۵): یروی عن اھل البصرة الحكايات والرقائق، ولست احفظ له حديثا مسندا.
۶ ـ حیان بن سریج.
قال. ( ۶/۲۲۹): کان عمر بن عبدالعزیز یکاتبہ، لیس لہ رواية يعتمد عليها،
۷ ـ خليفة العبدي.
قال( ۶/ ۲۶۸) : ما له حديث يرجع اليه، وله حكايات في العبادات.
۸ ـ عتبة الغلام.
قال(۷/۲۷۰) :روی عنه البصريون الحكايات، ما له حديث صحيح يرويه.
۹ ـ کهمس بن الحسن القسي العابد، من اهل البصرة.
قال(۷/۳۵۸): يروي الرقائق، ما له حديث مسند يرجع اليه، روی عنه البصريون الحكايات.
۱۰ ـ محمد بن ابی ( والصواب: ابن عيينة كما في اللسان ۵/۳۳۷)عيينة بن المهلب العتكي المهلبي، من اهل البصرة.
قال (۷/۵۳۱) : من زھاد اھل البصرة
قال( ۷/۴۱۸) : وكان شاعرا هجاء، يروي الحكايات، ليس من اهل العلم الذي يرجع الي روايته ويحكم بما يرويه، ولكني ذكرته ليعلم ان له روايات، يرويه۰
۱۱ ـ مسعود الضرير، ابو جهرالعابد.
قال(۷/۵۲۱): يروي عن الحسن الحكايات،
۱۲ ـ النعمان بن شول.
قال( ۷/۵۳۱) :: من زهاد اهل البصرة، يروي عن الحسن، روی عنه عنبسة الخواص الرقائق.
۱۳ ـ ھمام ابو علی الطویل.
قال ( ۷/۵۸۶) : يروي عن كعب الحكايات والاخبار.
۱۴ ـ یزید بن مشاطة،ابوخالد المؤذن
قال ( ۷/۶۲۰) : من اهل الكوفة، من عبادهم وزهادهم، يروي الحكايات.
۱۵ ـ یزید الضبی.
قال ( ۷/۶۲۰) : من عباد اهل البصرة، يروي عن الحسن، روی عنه اهل البصرة، ما له حديث مسند يرجع اليه.
۱۶ ـ ایوب بن الجراح.
قال ( ۸/۱۲۵): من عباد اھل الثغر وقرائھم، ممن کان یستجاب دعاؤہ اذا دعا، لیس لہ حدیث یرجع الیہ، لکن لہ حکایات فی التعبد.
۱۷ ـ دھن العابد،من اھل البصرة.
قال (۸/۱۵۴) : ما له حديث يرجع اليه.
۱۸ ـ الحسن بن محمد اللیثی، ابو محمد البلخی.
قال ( ۸/۱۶۸) : روی عنہ اھل مرو الحکایات.
۱۹ ـ الحسن بن سھیل التیاس.
قال(۸/۱۶۸) : یروی عن ابی عبیدةالناجی الحکایات.
۲۰ ـ الحسن بن نصر بن الحسین بن عثمان بن بشر بن المحتفز، من اھل مرو
قال(۸/۱۷۹) : روی عنہ المزاورة الحكايات.
۲۱ ـ حجاج بن احمد الصیدلانی، من اھل الرقة،
قال (۸/۲۰۳) : روی عنہ الحسین الرھاوی الحکایات.
۲۲ ـ حماد بن عطیة.
قال(۸/۲۰۵) : یروی عن حبیب العجمی الحکایات.
۲۳ ـ خداش بن معاویة، ابوطالب المروزي.
قال(۸/۲۳۳) : روی عنہ احمد بن منیع الحکایات.
۲۴ ـ الربیع بن مرة، من عباد اهل البصرة ومتكلميهم.
قال (۸/۲۴۰) : حدیث یرجع الیہ کذا فی الثقات
( ولعل الصواب.: مالہ او لیس لہ حدیث یرجع الیہ)
۲۵ ـ سلیمان الخواص، من عباد اھل الثغر.
قال( ۸/۲۷۷) : کان لا یأكل الا الحلال المحض، فان وجده، والا استنف الرمل، من اقران ابراهيم بن ادهم، حكاياته في تعبده اشهر من ان يحتاج الي الاغراق في ذكره، ما له حديث مستقيم يرجع اليه.
۲۶ ـ سھل بن صدقة، مولي عمر بن عبد العزيز
قال ( ۸/۲۹۱) : روی ابن المبارک عن ابی الصباح عنہ الحکایات.
۲۷ ـ صدقة بن مسلم المروزی.
قال ( ۸/۳۲۰): روي عنه محمد بن احمد بن الخليل الرقائق.
۲۸ ـ عبدالعزیز بن سلیمان العابد.
قال (۸/۳۹۴) لیس لہ حدیث مسند یرجع الیہ، وانما ذکرتہ لشہرتہ فی التعبد، ولما کان فیہ من استجابة الدعاء.
۲۹ ـ عبیداللہ السجزی، ابوالھیثم.
قال(۸/۴۰۴) : روی عنہ قتیبة بن سعد الحكايات.
۳۰ ـ عبد الخالق بن عبداللہ العبدی، بصری.
قال(۸/۴۲۳) : یروی عن عطاءالسلمی الحکایات،
۳۱ عمر العنبری.
قال(۸/۴۴۲) : ادخلناه في هذه الطبقة، لانه لا نعلم له رواية الا هذاالحرف الذي حكاه عن عمر بن عبدالعزيز، وما رواه عنه الا قتادة حكاية لا يحسن ذكرها.
۳۲ ـ عمر بن درھم القریعی، من عباد اھل الكوفة.
قال(۸/۴۴۲) : لیس لہ حدیث مسند یرجع الیہ.
۳۳ ـ عمر بن صالح البصری.
قال(۸/۴۴۳) : روی عنہ صفوان بن صالح الدمشقی الحکایات.
۳۴ ـ عیسی بن زاذان الابلی.
قال(۸/۴۹۱) : ما لہ حدیث مسند، وانما لہ الرقائق والحکایات فی العبادة.
۳۵ ـ عیسی بن جابان، من عباد اھل الکوفة.
قال(۷/۴۹۱) : ممن حفظ لسانہ، لیس یروی الاخبار ولا یسمع الآثار.، انما یحکی عنہ الرقائق فی التعبد.
۳۶ ـ عاصم بن ابی بکر الزھری.
قال( ۸/۵۰۵) : یروی عن مالک وعبدالرحمن بن زید بن اسلم الحکایات فی الرقائق.
۳۷ ـ عتبة بن ابان بن صمعة.
قال(۸/۵۰۷) : من عباد اھل البصرة وقرائهم.
قال(۸/۵۰۷): لہ حکایات عجيبة في الرقائق ...ما له حديث مسند يرجع اليه.
۳۸ ـ عرفجة العابد، من اهل الكوفة.
قال( ۸/۵۰۷) : لیس لہ حدیث مسند یرجع الیہ، ولہ الحکایات فی التعبد.
۳۹ ـ قعنب الیمامی.
قال (۹/۲۳) : من العباد المتورعین، لیس لہ حدیث یرجع الیہ، ولہ الحکایات فی الرقائق، روی عنہ اھل الیمن فی العبادات.
۴۰ ـ قسم العابد، من اھل البصرة.
قال(۹/۲۵) یروی عن عبدالواحد بن زید الرقائق
۴۱ ـ کلاب بن جزی.
قال(۹/۲۷) من عباد اھل الکوفة و متقشفيهم، له اخبار في الرقائق، وليس له حديث مسند يروی.
۴۲ ـ محمد بن النصر الحارثی.
قال(۹/۷۲) : من عباد اھل الکوفة وقرائهم والحافظين السنتهم في احوالهم واوقاتهم، ما له حديث مسند يرجع اليه، انما له حكايات في الرقائق.
۴۳ ـ مسلم بن ابی حفص، المروزی
قال( ۹/۱۵۷) : کان ممن یختلف الیہ ابن المبارک ویزورہ لفضلہ وتعبدہ وکثرة ورعه، روی عنه يعمر بن بشر الحكايات.
۴۴ ـ معمر بن المبارک، ابو عامر الراسبی.
قال(۹/۱۹۲): روی عنہ محمد بن نعیم بن معاویة الموصلي الحكايات في فضائل عتبة.
۴۵ ـ مسمع بن عاصم، ابوسنان
قال(۹/۱۹۸) من عباد اھل البصرة ومتقنيهم، ما له حديث مسند يرجع اليه، لكن الحكايات في فضائله وتعبده كثيرة، رواها عنه اهل البصرة.
۴۶ ـ معروف الكرخي، ابو محفوظ.
قال(۹/ ۲۰۶) : من عباد اھل العراق وقرائھم ممن لہ الحکایات الكثيرة في كرامته واستجابة دعائه، من رفقاء بشىر بن الحارث، ليس له حديث يرجع اليه.
محترم قارئین! کتاب "الثقات" کے تتبع سے مجھے مذکورہ بالا روات ملے ہیں، جن سے سرے سے کوئی مسند حدیث مروی ہی نہین، بلکہ کوئی حکایات کا راوی ھے، کوئی تاریخ کا، تو کوئی عابد ھے.، ایسے روات کو بھی امام صاحب نے کتاب "الثقات " میں ذکر کر دیا ھے..ظاہر ھے اس قسم کے روات کا توثیق وتعدیل سے کوئی تعلق ہی نہیں، تو اگرکتاب "الثقات " میں مذکور تمام روات کو ثقہ قرار دیا جائے تو پھر مذکورہ روات کی توثیق چہ معنی دارد.!!
لہذا اس پورے سلسلے سے ثابت ہوا کہ امام صاحب نے اپنی کتاب "الثقات " میں ثقہ روات کے علاوہ اور روات کو بھی ذکر کیا ھے جن کی تعدیل وتوثیق سے کوئی غرض نہیں،، بلکہ وہ جس وجہ سے ذکر کیے گئے ہیں انکو اسی غرض تک ہی محدود رکھا جائے..
اور سابقہ سطور میں نصوص کے ساتھ اس امر کی بھی نشاندھی کی گئی کہ کتاب "الثقات " میں موجود تمام روات کی روایات کا سبر اور تتبع نہیں کیا گیا ، اس لیے علامہ محمود سعید ممدوح کی یہ رائے بھی قطعا غلط ھے کہ کتاب "الثقات " میں موجود تمام روات کی روایات کا سبر و تتبع کرکے ہی انکی توثیق کرکے انہین "الثقات " میں ذکر کیا گیا ھے.... اس رائے کا غلط ہونا ھماری سابقہ سطور سے بالکل واضح ھے....والحمدللہ.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تیسری قسم: تاریخ وحکایات اور رقائق کو بیان کرنے والے روات.
یعنی کتاب "الثقات " میں ایسے روات بھی موجود ہیں جن سے ایک بھی حدیث مروی نہیں، بلکہ وہ صرف تاریخ وحکایات ہی بیان کرتےہیں،
چوتھی قسم ـ جن سے سرے سے کوئی روایت ہے مروی نہیں، لیکن عبادت، اور زہد میں شہرت کی وجہ سے انھیں کتاب الثقات " میں ذکر کر دیا گیا ہے، جس کا اقرار خود امام صاحب نے کیا ہے-
پانچویں قسم ـ امام صاحب کتاب " الثقات " میں روات کو محض اس لیے بھی داخل کرتے ہیں ، کہ معلوم ہوجائے کہ اس سے بھی روایات مروی ہیں.
ذیل میں ان تینوں اقسام کے روات ملاحظہ فرمائیں.
۱ ـ عامر بن عبداللہ بن عبد بن قیس التمیمی العنبر
قال(۵/۱۸۷): لست احفظ له خبرا مسندا حدث به.
۲ ـ عامر بن طھفة السهمي
قال. ( ۵/۱۹۳) : روی عنه شيخ، يقال له الربيع.: حكاية.
۳ ـ عكرمة، مولي ابن عباس.
قال( ۵/۲۳۰) : یروی عن ابن عباس، روی عنہ العوام بن حوشب، ولیس ھذا بعكرمة الاول، هذا يروي الحكايات، وما اعلم له راويا الا العوام بن حوشب.
۴ـ معاوية بن ابي مذددالمديني
قال(۵/۴۱۶): روی عنه سعد الجريري الحكايات في الرقائق.
۵ ـ حسان بن ابی سنان العابد
قال ( ۶/۲۲۵): یروی عن اھل البصرة الحكايات والرقائق، ولست احفظ له حديثا مسندا.
۶ ـ حیان بن سریج.
قال. ( ۶/۲۲۹): کان عمر بن عبدالعزیز یکاتبہ، لیس لہ رواية يعتمد عليها،
۷ ـ خليفة العبدي.
قال( ۶/ ۲۶۸) : ما له حديث يرجع اليه، وله حكايات في العبادات.
۸ ـ عتبة الغلام.
قال(۷/۲۷۰) :روی عنه البصريون الحكايات، ما له حديث صحيح يرويه.
۹ ـ کهمس بن الحسن القسي العابد، من اهل البصرة.
قال(۷/۳۵۸): يروي الرقائق، ما له حديث مسند يرجع اليه، روی عنه البصريون الحكايات.
۱۰ ـ محمد بن ابی ( والصواب: ابن عيينة كما في اللسان ۵/۳۳۷)عيينة بن المهلب العتكي المهلبي، من اهل البصرة.
قال (۷/۵۳۱) : من زھاد اھل البصرة
قال( ۷/۴۱۸) : وكان شاعرا هجاء، يروي الحكايات، ليس من اهل العلم الذي يرجع الي روايته ويحكم بما يرويه، ولكني ذكرته ليعلم ان له روايات، يرويه۰
۱۱ ـ مسعود الضرير، ابو جهرالعابد.
قال(۷/۵۲۱): يروي عن الحسن الحكايات،
۱۲ ـ النعمان بن شول.
قال( ۷/۵۳۱) :: من زهاد اهل البصرة، يروي عن الحسن، روی عنه عنبسة الخواص الرقائق.
۱۳ ـ ھمام ابو علی الطویل.
قال ( ۷/۵۸۶) : يروي عن كعب الحكايات والاخبار.
۱۴ ـ یزید بن مشاطة،ابوخالد المؤذن
قال ( ۷/۶۲۰) : من اهل الكوفة، من عبادهم وزهادهم، يروي الحكايات.
۱۵ ـ یزید الضبی.
قال ( ۷/۶۲۰) : من عباد اهل البصرة، يروي عن الحسن، روی عنه اهل البصرة، ما له حديث مسند يرجع اليه.
۱۶ ـ ایوب بن الجراح.
قال ( ۸/۱۲۵): من عباد اھل الثغر وقرائھم، ممن کان یستجاب دعاؤہ اذا دعا، لیس لہ حدیث یرجع الیہ، لکن لہ حکایات فی التعبد.
۱۷ ـ دھن العابد،من اھل البصرة.
قال (۸/۱۵۴) : ما له حديث يرجع اليه.
۱۸ ـ الحسن بن محمد اللیثی، ابو محمد البلخی.
قال ( ۸/۱۶۸) : روی عنہ اھل مرو الحکایات.
۱۹ ـ الحسن بن سھیل التیاس.
قال(۸/۱۶۸) : یروی عن ابی عبیدةالناجی الحکایات.
۲۰ ـ الحسن بن نصر بن الحسین بن عثمان بن بشر بن المحتفز، من اھل مرو
قال(۸/۱۷۹) : روی عنہ المزاورة الحكايات.
۲۱ ـ حجاج بن احمد الصیدلانی، من اھل الرقة،
قال (۸/۲۰۳) : روی عنہ الحسین الرھاوی الحکایات.
۲۲ ـ حماد بن عطیة.
قال(۸/۲۰۵) : یروی عن حبیب العجمی الحکایات.
۲۳ ـ خداش بن معاویة، ابوطالب المروزي.
قال(۸/۲۳۳) : روی عنہ احمد بن منیع الحکایات.
۲۴ ـ الربیع بن مرة، من عباد اهل البصرة ومتكلميهم.
قال (۸/۲۴۰) : حدیث یرجع الیہ کذا فی الثقات
( ولعل الصواب.: مالہ او لیس لہ حدیث یرجع الیہ)
۲۵ ـ سلیمان الخواص، من عباد اھل الثغر.
قال( ۸/۲۷۷) : کان لا یأكل الا الحلال المحض، فان وجده، والا استنف الرمل، من اقران ابراهيم بن ادهم، حكاياته في تعبده اشهر من ان يحتاج الي الاغراق في ذكره، ما له حديث مستقيم يرجع اليه.
۲۶ ـ سھل بن صدقة، مولي عمر بن عبد العزيز
قال ( ۸/۲۹۱) : روی ابن المبارک عن ابی الصباح عنہ الحکایات.
۲۷ ـ صدقة بن مسلم المروزی.
قال ( ۸/۳۲۰): روي عنه محمد بن احمد بن الخليل الرقائق.
۲۸ ـ عبدالعزیز بن سلیمان العابد.
قال (۸/۳۹۴) لیس لہ حدیث مسند یرجع الیہ، وانما ذکرتہ لشہرتہ فی التعبد، ولما کان فیہ من استجابة الدعاء.
۲۹ ـ عبیداللہ السجزی، ابوالھیثم.
قال(۸/۴۰۴) : روی عنہ قتیبة بن سعد الحكايات.
۳۰ ـ عبد الخالق بن عبداللہ العبدی، بصری.
قال(۸/۴۲۳) : یروی عن عطاءالسلمی الحکایات،
۳۱ عمر العنبری.
قال(۸/۴۴۲) : ادخلناه في هذه الطبقة، لانه لا نعلم له رواية الا هذاالحرف الذي حكاه عن عمر بن عبدالعزيز، وما رواه عنه الا قتادة حكاية لا يحسن ذكرها.
۳۲ ـ عمر بن درھم القریعی، من عباد اھل الكوفة.
قال(۸/۴۴۲) : لیس لہ حدیث مسند یرجع الیہ.
۳۳ ـ عمر بن صالح البصری.
قال(۸/۴۴۳) : روی عنہ صفوان بن صالح الدمشقی الحکایات.
۳۴ ـ عیسی بن زاذان الابلی.
قال(۸/۴۹۱) : ما لہ حدیث مسند، وانما لہ الرقائق والحکایات فی العبادة.
۳۵ ـ عیسی بن جابان، من عباد اھل الکوفة.
قال(۷/۴۹۱) : ممن حفظ لسانہ، لیس یروی الاخبار ولا یسمع الآثار.، انما یحکی عنہ الرقائق فی التعبد.
۳۶ ـ عاصم بن ابی بکر الزھری.
قال( ۸/۵۰۵) : یروی عن مالک وعبدالرحمن بن زید بن اسلم الحکایات فی الرقائق.
۳۷ ـ عتبة بن ابان بن صمعة.
قال(۸/۵۰۷) : من عباد اھل البصرة وقرائهم.
قال(۸/۵۰۷): لہ حکایات عجيبة في الرقائق ...ما له حديث مسند يرجع اليه.
۳۸ ـ عرفجة العابد، من اهل الكوفة.
قال( ۸/۵۰۷) : لیس لہ حدیث مسند یرجع الیہ، ولہ الحکایات فی التعبد.
۳۹ ـ قعنب الیمامی.
قال (۹/۲۳) : من العباد المتورعین، لیس لہ حدیث یرجع الیہ، ولہ الحکایات فی الرقائق، روی عنہ اھل الیمن فی العبادات.
۴۰ ـ قسم العابد، من اھل البصرة.
قال(۹/۲۵) یروی عن عبدالواحد بن زید الرقائق
۴۱ ـ کلاب بن جزی.
قال(۹/۲۷) من عباد اھل الکوفة و متقشفيهم، له اخبار في الرقائق، وليس له حديث مسند يروی.
۴۲ ـ محمد بن النصر الحارثی.
قال(۹/۷۲) : من عباد اھل الکوفة وقرائهم والحافظين السنتهم في احوالهم واوقاتهم، ما له حديث مسند يرجع اليه، انما له حكايات في الرقائق.
۴۳ ـ مسلم بن ابی حفص، المروزی
قال( ۹/۱۵۷) : کان ممن یختلف الیہ ابن المبارک ویزورہ لفضلہ وتعبدہ وکثرة ورعه، روی عنه يعمر بن بشر الحكايات.
۴۴ ـ معمر بن المبارک، ابو عامر الراسبی.
قال(۹/۱۹۲): روی عنہ محمد بن نعیم بن معاویة الموصلي الحكايات في فضائل عتبة.
۴۵ ـ مسمع بن عاصم، ابوسنان
قال(۹/۱۹۸) من عباد اھل البصرة ومتقنيهم، ما له حديث مسند يرجع اليه، لكن الحكايات في فضائله وتعبده كثيرة، رواها عنه اهل البصرة.
۴۶ ـ معروف الكرخي، ابو محفوظ.
قال(۹/ ۲۰۶) : من عباد اھل العراق وقرائھم ممن لہ الحکایات الكثيرة في كرامته واستجابة دعائه، من رفقاء بشىر بن الحارث، ليس له حديث يرجع اليه.
محترم قارئین! کتاب "الثقات" کے تتبع سے مجھے مذکورہ بالا روات ملے ہیں، جن سے سرے سے کوئی مسند حدیث مروی ہی نہین، بلکہ کوئی حکایات کا راوی ھے، کوئی تاریخ کا، تو کوئی عابد ھے.، ایسے روات کو بھی امام صاحب نے کتاب "الثقات " میں ذکر کر دیا ھے..ظاہر ھے اس قسم کے روات کا توثیق وتعدیل سے کوئی تعلق ہی نہیں، تو اگرکتاب "الثقات " میں مذکور تمام روات کو ثقہ قرار دیا جائے تو پھر مذکورہ روات کی توثیق چہ معنی دارد.!!
لہذا اس پورے سلسلے سے ثابت ہوا کہ امام صاحب نے اپنی کتاب "الثقات " میں ثقہ روات کے علاوہ اور روات کو بھی ذکر کیا ھے جن کی تعدیل وتوثیق سے کوئی غرض نہیں،، بلکہ وہ جس وجہ سے ذکر کیے گئے ہیں انکو اسی غرض تک ہی محدود رکھا جائے..
اور سابقہ سطور میں نصوص کے ساتھ اس امر کی بھی نشاندھی کی گئی کہ کتاب "الثقات " میں موجود تمام روات کی روایات کا سبر اور تتبع نہیں کیا گیا ، اس لیے علامہ محمود سعید ممدوح کی یہ رائے بھی قطعا غلط ھے کہ کتاب "الثقات " میں موجود تمام روات کی روایات کا سبر و تتبع کرکے ہی انکی توثیق کرکے انہین "الثقات " میں ذکر کیا گیا ھے.... اس رائے کا غلط ہونا ھماری سابقہ سطور سے بالکل واضح ھے....والحمدللہ.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
"کتاب الثقات " کے متعلق ائمہ کرام اور علمائے عظام کی آراء.
محترم قارئین! میں نے کتاب "الثقات " لابن حبان کا تتبع کر کے جو نتیجہ پیش کیا ہے ، وہ آپ کے سامنے ہے، مگر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دیگر ائمہ کرام اور علمائے عظام کی آراء بھی ذکر کر دی جائیں:
(۱) ـ امام ابن حجر رحمہ اللہ تعالی اپنے شیخ امام عراقی سے امام ابن حبان کی توثیق کے متعلق یوں سوال کرتے ہیں:
ما يقول سيدي في أبي حاتم ابن حبان : إذا انفرد بتوثيق رجلٍ لا يعرف حاله إلا من جهة توثيقه له، هل ينتهض توثيقه بالرجل إلى درجة من يحتج به؟
وإذا ذكر الرجل بعينه أحد الحفّاظ كأبي حاتم بالجهالة، هل يرفعها عنه توثيق ابن حبان وحده أم لا؟
قال الحافظ العراقي: إن الذين انفرد ابن حبان بتوثيقهم لا يخلو إما أن يكون الواحد منهم لم يرو عنه إلا راوٍ واحد، أو روى عنه اثنان ثقتان وأكثر بحيث ارتفعت جهالة عينه، فإن كان روى عنه اثنان فأكثر ووثقه ابن حبان ولم نجد لغيره فيه جرحاً فهو ممن يحتج به۰ وإن وجدنا لغيره فيه جرحاً مفسراً فالجرح مقدَّم.
وقد وقع لابن حبان جماعة ، ذكرهم في الثقات وذكرهم في الضعفاء فينظر أيضا إن كان جرحه مفسراً فهو مقدم على توثيقه.
فأما من وثقهم ولا يعرف للواحد منهم إلا راو واحد فقد ذكر ابن القطان في كتابه بيان الوهم والإيهام أن من لم يرو عنه إلا واحد ووثق فإنه تزول جهالته .
وذكر ابن عبدالبر : پأن من لم يرو عنه إلا واحد ، وكان معروفا في غير حمل العلم ، كالنجدة والشجاعة والزهد ، احتج به.
وإذا تعارض توثيق ابن حبان بتجهيل أبي حاتم الرازي لمن وثقه ، فمن عرف حال الرواي بالثقة مقدم على من جهل حاله ، لأن من عرف ، معه زيادة علم ، لكن ابن حبان منسوب إلى التساهل في التصحيح والتوثيق ، لكنه أرفع درجة من الحاكم.
قال أبو بكر الحازمي : وابن حبان أمكن في الحديث من الحاكم . هـ
مفہوم.: امام عراقی مذکورہ کلام میں کہتے ہیں:
۱ ـ اگر امام ابن حبان کسی راوی کی توثیق میں منفرد ہیں اور اس راوی سے اتنے روات روایت کرنے والے ہوں کہ جس سے اسکی جہالة العین مرتفع ہو جائے، اور اس پر کسی محدث نے جرح مفسر نہ کی ہو تو ایسا راوی قابل حجت ہے، لیکن اگر وہ جرح مفسر ہو تو پھر جرح کو مقدم رکھتے ہوئے اس راوی کو ضعیف قرار دیا جائے گا۔
ابن حبان کا یہ طرز بھی ھے کہ ایک ہی راوی کو "ثقات " میں بھی ذکر کرتے ہیں اور " ضعفاء " میں بھی، تو ایسی صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر جرح مفسر ہے تو اسے مقدم کیا جائے گا، ورنہ توثیق معتبر ہو گی.
اور اگر امام ابن حبان نے ایسے راوی کی توثیق کی ھے جس سے محض ایک راوی روایت کرتا ھے، تو امام ابن القطان نے "بیان الوھم والایھام " میں صراحت کی ہے کہ جس راوی سے ایک ہی راوی روایت کرتا ھو اور اسکی توثیق کی گئی ھو تو پھر اس سے جہالت مرتفع ہو جائے گی.
امام ابن عبد البر کا موقف ہے کہ اگر راوی سے ایک ہی شخص روایت کرے لیکن وہ علم کے علاوہ دیگر خصائلِ خیر سے متصف و معروف ہو تو وہ بھی قابل احتجاج ہے۔
۲ ـ اگر کسی راوی کی توثیق و تجہیل میں امام ابو حاتم رازی کا اختلاف ہو جائے، یعنی امام ابن حبان اس کی توثیق کریں، جبکہ امام ابوحاتم اسکی تجھیل ( اسکو مجہول کہیں) کریں، تو ایسی صورت میں توثیق کو تجہیل پر مقدم کیا جائے گا، کیونکہ جاننے والے کی معرفت نہ جاننے والے پر حجت ہوتی ھے، کیونکہ اس کے پاس اضافی معرفت ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ ابن حبان حدیث کی تصحیح اور روات کی توثیق میں متساھل ھیں، لیکن پھربھی وہ امام حاکم سے بہر نوع درجے میں بلند تر ہیں .اھ
تو عرض ھے کہ واقعی اگر کسی راوی سے ایک ہی راوی روایت کرتا ھے اور اسکی توثیق بھی ثابت ھے، تو ایسا راوی حدِ جہالت سے نکل جاتا ھے،، اس میں کوئی شک نہیں،، لیکن مسئلہ یہ ھے کہ "کتاب الثقات " میں مذکور تمام روات کو امام ابن حبان نہ جرحا جانتے ہیں اور نہ ہی تعدیلا، جس کا اقرار خود امام صاحب نے بھی کیا ھے، اور یہ بھی ثابت ہو چکا ھے کہ امام صاحب نے تمام روات کی روایات کا تتبع وسبر بھی نہیں کیا جو یہ کہا جائے کہ "من عرف حجة علی من لم يعرف ".لہذا جب صورت حال یہ ہے تو پھر ایسے میں کس طرح محض امام ابن حبان کا روات کو کتاب " الثقات " میں ذکر کر دینا ہی اسکی معرفت اور تعدیل کے لیے کافی ہو جائے گا،،، ؟؟
(۲) حافظ ابن حجر رح کے دو اقوال سابقہ سطور میں ذکر کیے جا چکے ہیں، یہاں مزید انکا ایک اور قول ملاحظہ فرماتے جائیں. کہتے ہیں :
وهذا القول من ابن حبان يؤيد ما ذهبنا اليه من انه يذكر في كتاب الثقات كل مجهول روي عنه ثقة ولم يجرح، ولم يكن الحديث الذي يرويه منكرا، هذه قاعدته، وقد نبه علي ذلك الحافظ صلاح الدين العلائي والحافظ شمس الدين ابن عبدالهادي وغيرهما رحمهم الله تعالي ۰ ( اللسان ۱/۴۹۲)
عرض ہے کہ "الثقات " میں ایسے بھی روات ہیں -- یعنی قلیل الروایہ -- جنکی مناکیر واضح ہیں اور ان سے اوھام بھی سرزد ہوئے ہیں،، ظاہر ھے ان اوھام سے کسی بشر کو مفر نہیں، اور اسی طرح ایسے بھی روات ہیں جن سے محض غیر موثق روات ہی روایت کرتے ہیں، جسکی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے، لہذا ایسے روات کی روایات میں "عدمِ نکارت " کا کہنا "الثقات" کی حقیقت کے موافق نہیں.
(۳) شیخ محمدعوامہ نے بھی "دراسات الکاشف " للذھبی میں علامہ محمود سعید ممدوح والا موقف اپنایا ہے کہ ابن حبان نے روات کی روایات کا سبر و تتبع کرکے ہی انکی توثیق کرتے ہوئے انہیں "الثقات " میں ذکرکیا ہے، نیز امام عراقی کا مذکورہ قول بھی تائیدا ذکرکیا ھے، اوریہ بھی کہا ھے کہ "الثقات " میں پندرہ ھزار روات ہیں، تو اگر ـ بالفرض یہ کہاجائے کہ ـ "الثقات " میں موجود ان ھزاروں روات کے بالمقابل چند روات کو وہ نہیں جانتے، تو اس سے امام ابن حبان کا تساہل لازم نہیں آتا کہ ان پر تساہل کا الزام عائد کیا جائے.کیونکہ ھزاروں روات کے تناسب کے لحاظ سے اس قلیل تعداد کی کوئی حیثیت نہیں.
انتہی من کلامہ ملخصا.(۱/ ۱۸۰، ۱۸۱)
تو جوابا عرض ہے کہ سابقہ سطور میں یہ مفصلا اور مکررا بیان ہ وچکاہے کہ "الثقات " میں موجود تمام روات کی روایات کا سبر و تتبع نہیں کیا گیا، اور اگر ایسے روات کو جمع کیا جائے تو انکی ایک اچھی خاصی تعداد جمع ہو جائے گی،لہذا محض یہ کہہ کر کہ " ان ھزاروں روات کی تعداد کےبالمقابل یہ قلیل تعداد ہے " حقائق سے روگردانی نہیں کی جاسکتی، مزید ہم "الثقات " میں ایسی اقسام کے روات کے موجود ہونے کی نشاندہی بھی کر چکے ہیں جو سرے سے "الثقات " کی شرط پر ہی نہیں ، اگر وہ روات جو نہ "الثقات " کی شرط پر ہیں اور نہ ہی قلیل الروایہ روات اوہام اور مناکیر بیان کرنے سے محفوظ ہیں، ان سب کو جمع کیا جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ شیخ محمد عوامہ کا مذکورہ دعوی غلط ثابت ہوگا،،، اس کے لیے "کتاب الثقات " میں موجود تمام غیر موثق روات کی روایات کا سبر و تتبع کرنے کی ضرورت ہے،، جو ایک وقت طلب کام ہے،،اگر کتاب "الثقات " میں موجود غیر موثق قلیل الروایہ روات کی مناکیر جمع کرکے ان روات کی کیفیت جاننی ہو تو
"التاریخ الکبیر "للبخاری
" الجرح والتعدیل " لابن ابی حاتم
"الکامل " لابن عدی
" میزان الاعتدال " للذھبی
"لسان المیزان " لابن حجر
"السلسلہ الصحیحہ "
"السلسلہ الضعیفہ "
"ارواء الغلیل " للالبانی
وغیرہ جیسی کتب کا مطالعہ کیاجائے، جس سے معلوم ہو جائے گا کہ کس قدر ایسے روات نکلیں گے جو کتاب "الثقات " کی شرط پر نہیں بلکہ ضعفاء کی شرط پر ہوں گے،، لہذا شیخ محمد عوامہ کا مذکورہ دعوی قطعا غلط ہے، جسے کسی طور بھی قبول نہیں کیاجاسکتا.واللہ اعلم بالصواب.
(۴) علامه عبدالحي نے "الرفع والتکمیل " ۱۳۹) میں تو سرے سے امام ابن حبان کے تساہل ہی کا انکار کیا ھے، حالانکہ انکی یہ بات صریحا غلط ہے، اور علامہ البانی نے "صحیح موارد الظمآن " میں انکے اس موقف پر تعاقب کیا ہے جو وہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے.
(۶) دکتور عداب حمش کہتے ہیں:
فمجرد ذكر الراوي في «الثقات» دليل علي انه ثقة عنده، لكن لا يعني هذا انه مقبول الرواية في كل حال، بدليل انه قد يعدل بالفاظ تعديل صريحة، ويغمز في بعض الاحيان بعض رواته بالخطأ، والاضطراب، والوهم، والجهالة وغير ذلك من عبارات الجرح، وفي الغالب يسكت، مما يدل علي ان هؤلاء الرواة المذكورين ليسوا علي درجة واحدة من الوثاقة۰
یعنی کسی راوی کا محض "الثقات " میں ہونا ابن حبان کے نزدیک اسکی توثیق ہے، لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ بہر نوع مقبول الروایہ ہی ہے، اسکی دلیل یہ ہے وہ بعض اوقات واضح الفاظ میں توثیق کرتے ہیں اور اسی طرح بعض اوقات روات پر جرح بھی کرتے ہیں، مثلا. : کسی راوی پر جرح کرتے ہیں.
* اسکی خطا کی وجہ سے
* کسی پر روایات میں اضطراب کی وجہ سے
* کسی پر وہم کی وجہ سے
* کسی پر جہالت کی وجہ سے
اور انکے علاوہ اور بھی روات پر جرح کے الفاظ وارد کرتے ہیں، لیکن اکثر طور پر وہ روات کے معاملے میں سکوت ہی اختیار کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ "الثقات " میں مذکور تمام روات ثقاہت میں برابر نہیں۔
( ابن حبان ومنھجہ. : )
گویا ان کا بھی یہی منہج ہے کہ کتاب "الثقات " میں موجود تمام روات مقبول الروایہ نہیں، بلکہ ضعفاء بھی ہیں، جن پر خود امام صاحب بھی جرح کرتے ہیں، یعنی کتاب " الثقات " میں ایسے روات ہیں جو قابل اعتماد ہیں اور ایسے روات بھی ہیں جو قابل اعتماد نہیں بلکہ قابل اعتبار ہیں، جو محض متابعت وشواھد کےلائق ہیں، وغیرہ وغیرہ...اور دلائل وحقائق کی رو سے یہی درمیانی اور مناسب رائے ہے، ورنہ بہت زیادہ تناقضات کا شکار ہونے کاخدشہ بلکہ یقین ہے..
ان کے علاوہ اور ائمہ کرام کے اقوال بھی موجود ہیں، مگر سردست ہم انہی پر اکتفا کرتے ہوئے اس بحث کا یہیں اختتام کرتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
* صحیح ابن حبان میں امام صاحب کا منہج*
محدثین کرام کی تصریحات اور امام ابن حبان کی "الصحیح " کے تتبع سے معلوم ہوتا ھے کہ امام صاحب کا ان کی"الصحیح " میں روات کی تعدیل وتوثیق کا منہج انکی "الثقات " میں منہج سے مختلف ہے، یعنی "الثقات " میں انکا یہ منہج تھا کہ "لان العدل من لم یعرف منہ الجرح ضد التعديل، فمن لم يعلم بجرح فهو بعدل اذا لم يبين ضده، اذ لم يكلف الناس ما غاب عنهم " کہ جرح سے خالی راوی عادل اور ثقہ ھے، کیونکہ جرح تعدیل کی ضد ہے، تو جس( راوی) پر جرح وارد نہیں تو وہ عادل ھے، جب تک اس کی ضد بیان نہیں کی جاتی، کیونکہ مخفی چیزوں کے لوگ مکلف نہیں، وہ محض ظاہری اشیاء کے مکلف ہیں، (۱/۱۱)
گویا امام صاحب کے نزدیک ہر مسکوت عنہ راوی عادل ہے، الا یہ کہ اس پر کسی کی جرح ثابت ہو جائے، یا اسکی روایات کے سبر وتتبع سے اسکا ضعیف ہونا ثابت ہو جائے، ورنہ بصورت دیگر وہ راوی ثقہ ھے،،
روایات کے سبر وتتبع سے توثیق وتضعیف کرنا تو یہ عین محدثین کرام کا منہج ھے اور بہت سارے روات کی تعدیل وتجریح اسی انداز ہی میں کی گئی ہے،،، ائمہ کرام تمام روات سے بنفس نفیس نہیں ملے ، لیکن ان( امام ابن حبان) کا یہ کہنا کہ جرح سے خالی ہر راوی عادل وثقہ ھے، تو انکے اس قول میں نظر ہے،، کیونکہ پیچھے ہم بالتفصیل واضح کر آئے ہیں کہ "الثقات " میں موجود کافی روات ایسے بھی ہیں کہ جنکی روایات کے تتبع سے ان میں واضح مناکیر موجود ہیں، اور ایسوں کو بھی امام صاحب نے اسی لیے ہی "الثقات " میں ذکر کر دیا ھے کہ ان پر کسی محدث سے جرح ثابت نہیں، اور امام صاحب بھی انکی روایات کا سبر و تتبع نہ کر سکے تو ایسی صورت میں یہ منہج کس طرح درست ہوسکتا ھے،،، ؟؟
مگر "الثقات " کے برعکس انکی"الصحیح " بظاہر اس منہج سے منفرد اور ہٹی ہوئی نظر آتی ہے،، جس پر خود امام صاحب کا قول، "الصحیح " میں ان کا تعامل، اور محدثین کرام کی تصریحات بخوبی دلالت کرتی ہیں.
(۱) امام صاحب اپنی "الصحیح " کے مقدمے میں اپنا منہج یوں بیان کرتے ہیں.:
واما شرطنا فی نقل ما اودعناہ کتابنا ھذا من السنن، فانا لم نحتح به فيه الا بحديث اجتمع في كل شيخ من رواته خمسة اشياء. :
الاول. : العدالة في الدين بالستر الجميل.
والثاني.: الصدق في الحديث بالشهرة فيه.
والثالث.: العقل بما يحدث من الحديث
الرابع: العلم بما يحيل من معاني ما يروي.
والخامس: المتعري خبره عن التدليس،
فكل من اجتمع فيه هذه الخصال الخمس، احتججنا بحديثه، وبنينا الكتاب علی روايته، وكل من تعري عن خصلة فكل من اجتمع فيه هذه الخصال الخمس احتججنا بحديثه، وبنینا الكتاب على روايته، وكل من تعری عن خصلة من هذه الخصال الخمس لم نحتج به،
والعدالة في الانسان.: هو ان يكون اكثر احواله طاعة لله، لانا متي مالم نجعل العدالة الا من لم يوجد منه معصية بحال، ادانا ذلك الي ان ليس في الدنيا عدل، اذ الناس لا تخلو احوالهم من ورود خلل الشيطان فيها، بل العدل من كان ظاهر احواله طاعة الله، والذي يخالف العدل.: من كان اكثر احواله معصية الله
وقد يكون العدل. : الذي يشهد له جيرانه وعدول بلده، وهو غيرصادق فيما يروي من الحديث، لان هذا شئ ليس يعرفه الا من صناعته الحديث،وليس كل معدل يعرف صناعة الحديث، حتي يعدل العدل علي الحقيقة في الرواية والدين معا(۱ /۱۵۱، ۱۵۲)
اب امام صاحب اپنی "الصحیح " میں روات کے لیے شروط لگاتے ہیں کہ اگر یہ شروط روات اور انکی بیان کردہ روایت میں پائی جائیں گی تو اس کی حدیث کو "الصحیح " میں ذکر کریں گے،
ان شروط میں واضح طور پر شدت اور سختی بھی پائی جاتی ھے،،مثلا. :
* راوی اپنی عدالت میں معروف ہو،، یعنی اسکے ظاہری حالات یہ پتا دیں کہ وہ اکثر طور پر مطیع و فرمانبردار ہے، اور بہت کم معصیات کا ارتکاب کرتا ھے،، اگر یہ شرط رکھی جائے کہ وہ سرے سے ہی معصیات کا مرتکب نہ ہو تو اس طرح پھر کوئی بھی عادل نہیں بن سکتا۔
* راوی اپنی حدیث بیان کرنے میں صدق کے اعتبار سے مشہور ومعروف ہو،، محض حسن ظن رکھتے ہوئے راوی کو صادق نہیں سمجھتے،، ـــ جیسا کہ الثقات میں ان کا منہج تھا ـــ.اور صادق بھی اس طرح کہ اس کو اس نے صادق کہا ھو جو حدیث کی صناعة اور واقفیت ہو ( یعنی جرح وتعدیل کے اصولوں سے باخبر اور مطلع ہو) یہ نہیں کہ اگر اسکو اسکے پڑوسی یا اس کے شہر اور علاقے کے عادل لوگ اسکی تصدیق کریں تو کافی ہے کیونکہ ایسا بھی ہوتا ھے کہ شہر اور علاقے کے عادل مکین کسی کی تصدیق تو کرتے ہیں، لیکن فی الحقیقة روايت حدیث میں وہ غیرصادق ہوتا ھے، لہذا ہر مُعدِّل ( عادل ھونے کی تصدیق کرنے والا) حدیث کی صناعت واہلیت نہیں رکھتا کہ اس کی تعدیل کا اعتبار کرکے حقیقت میں بھی راوی کو روایت اور دین میں بھی عادل ہی مانا جائے .
یعنی اس شرط ( راوی کے صادق ہونے میں) کے متعلق امام صاحب یہ کہنا چاہ رھے ھیں کہ محض راوی کے ظاہری حالات سے اور اسکے شہر وعلاقے کے عادل مکین( عام لوگ نہ کہ جرح وتعدیل کے ائمہ) کے اسکے صادق ھونے کی گواہی دینے سے فی الحقیقہ وہ راوی صادق نہیں بن جائیگا،،بلکہ جو جرح وتعدیل کے ائمہ کرام ھیں وہ ( اس کی روایات کا سبر وتتبع کرکے) یہ فیصلہ کرینگے کہ یہ راوی اپنی روایات میں صادق ہے یا نہیں،،؟؟
شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ امام ابن حبان کی اس عبارت پر تعلیق لگاتے ھوئے فرماتے ہیں. :
يريد ابن حبان ان التعديل للراوي يجب ان يكون من علماء الحديث الذين مارسوا صناعته، وعرفوا دقائق الرواية ونقدوا الرواة علي الميزان الصحيح في الجرح والتعديل، وانه لا يكفي تعديل المعدلين الذين كانوا في العصور السابقة يعدلون الشهود للقضاة، اذ ليس كل معدل يعرف صناعة الحديث »
یعنی ابن حبان کے اس قول کا یہ مطلب ھے کہ کسی راوی کی تعدیل کرنے والوں کے لیے ضروری ھے کہ وہ ان علمائے حدیث میں سے ہوں جنہوں نے اس فن سے ممارست کی ھو،روایت کی باریک بینیوں سے واقف ہوں، اور روات کا جرح وتعدیل میں پوری دیانتداری سے نقد کیا ہو، ان معدلین کی تعدیل کافی نہیں کہ جو سابقہ ازمنہ میں فیصلہ جات کے گواہوں کی تعدیل کیا کرتے تھے،، اس لیے کہ ان میں سے ہر معدل( تعدیل کرنے والا) ایسا نہیں ہے کہ جو صناعت حدیث سے واقفیت رکھتا ہو ـ
صحیح ابن حبان.:
یعنی ائمہ جرح والتعدیل اور ماہرین فی علم الرجال محض راوی سے مل کر اسے بظاہر اچھا محسوس کر کے اور خالی حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس کی تعدیل نہیں کیا کرتے تھے،، بلکہ اسکی روایات کی بھی اچھی طرح جانچ پڑتال کرکے ہھر ہی اس پر جرح وتعدیل کا حکم لگایا کرتے تھے،، اور اصل اعتبار بھی اسی چیز کا ہے.، اسی لیے مصطلح الحدیث میں یہ طے شدہ ہے کہ بظاہر اگرچہ کسی راوی کی عدالت اور صداقت معلوم نہیں ہے،، لیکن اگر اسکی روایات یہ پتا دیتی ھیں کہ ان میں راوی اغلب طور پر ثقات روات کی موافقت کرتا ہے، یعنی کثرتِ اوہام یا کثرتِ مناکیر( اگر راوی کثیر الروایہ ھے، ورنہ اگر قلیل الروایہ کی ایک بھی روایت خطا شدہ یا منکر پائی گئی تو اسکی باقی تمام روایات سے اعتماد اٹھ جائیگا) نہیں، تو ایسا راوی ثقات کے زمرے میں داخل ھو جائے گا اور اسکی تعدیل ہوگی،، اور اگر اسکی روایات میں کثرتِ اوھام یا کثرتِ مناکیر ہیں تو وہ پھر ضعفاء کے زمرے میں داخل ہوگا، کیونکہ عربی کا ایک معروف مقولہ ہے: "الاناء يترشح بما فیہ" یعنی برتن سے وہی کچھ بہے گا جو اس میں ہوگا ۔
لہذا راوی اگر کذاب، وضاع اور دجال ہوگا تو وہی کچھ اُگلے گا،یعنی اسکی روایات میں واضح ہفوات ہونگی اور ائمہ جرح والتعدیل تو اسے محض دیکھ کر ہی فورا طے کر لیں گے یہ راوی کس قسم کا ہے،، اسکو یوں سمجھیئے کہ تاریخ میں ایسے ایسے لوگ گذرے ھیں جن سے ہم ملاقات نہیں کرسکے ، لیکن اسکے حالات زندگی اور سیرت سے معلوم کر لیتے ھیں کہ فلاں شخص کیسا تھا،،یعنی کسی کے متعلق رائے قائم کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ اس سے لازما لقاء ہو،، بلکہ اس کے احوال واطوار سے مطلع اور باخبر ہوکر بھی ہم اسکے متعلق رائے قائم کرلیتے ھیں اور کرتے ہیں، اسی طرح کسی راوی کی محض روایات کی جانچ پڑتال کر کے ہی معلوم کیا جا سکتا ھے کہ اس کی پوزیشن کیا ھے.یعنی کسی راوی کی روایات ایسی ہیں کہ جن میں سراسر شریعت کی مخالفت ہو اور کسی ثقہ وعادل راوی سے اسکا صدور بھی ممکن نہ ہو،یعنی وہ راوی اسکا متحمل نہ ہو، تو یہ اس راوی کے کذب اور وضع پر دال ہے،،کیونکہ اگر وہ صادق وامین ہوتا تو کبھی ایسی ہفوات کا مرتکب نہ ہوتا۔
یعنی اسکی روایات بے اصل ہوتی ھیں ،، اسی سے ہی طے کر لیا جاتا ھے کہ یہ راوی کس درجہ ومرتبہ کا ہے،،، اسی طرح قلیل الحفظ راوی کا اندازہ کر لیا جاتا ہے،، یعنی اسکی روایات میں اصل موجود ہوتی ھے کہ ثقات روات سے مفہوما اس طرح کی روایات مروی تو ہوتی ہین، مگر وہ راوی اس میں عدم حفظ وعدم ضبط کی وجہ سے غلطیاں کر بیٹھتا ھے کہ جس سے اس کی روایات میں ثقات روات کی مخالفت واقع ہو جاتی ہے اور وہ مناکیر بیان کرنے لگ جاتا ھے،،
ایک کذاب، وضاع اور اور قلیل الحفظ راوی کا اس طرح بھی پتا چلا سکتے ھیں کہ اول الذکر کی روایات بے اصل ہوتی ہیں، جبکہ ثانی الذکر کی روایات بے اصل نہیں ہوتیں، بلک انکی اصل ہوتی ہے، لیکن ثقات کی مخالفت کے ساتھ..لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ثقہ کی روایت بھی بسا اوقات اس کے وہم کی وجہ سے بے اصل ہوتی ھے کہ جس کے مختلف اسباب ہیں،، تفصیل کا یہ محل نہین، اپنے مقام پر اسکی وضاحت کی جائے گی...ان شاء اللہ
یہاں بیان کرنے کا یہ مقصد ہے کہ روایات کے تتبع وسبر سے روات کی حقیقت واضح ہوجاتی ھے، اصل اور غیر اصل کا بھی پتا لگ جاتا ھے،، امام ابن حبان یہی کہنا چاہ رھے ہیں کہ راوی کے محض ظاہری حالات سے عام مکینوں اور پڑوسیوں کی تعدیل سے کسی راوی کی توثیق وتعدیل نہیں کی جا سکتی، بلکہ اس کے لیے ائمہ جرح وتعدیل کی طرف رجوع کرنا پڑیگا جو راوی کی روایات کا سبر وتتبع کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں،،
لہذا امام صاحب کی یہ شرط عین ائمہ جرح وتعدیل کے موافق ھے اور "الثقات " کے بر عکس اپنی "الصحیح " کے لیے اسی کے مطابق منہج اپنایا ھے،،ظاہر ھے جرح وتعدیل کے اعتبار سے یہ سختی اور شدت ہے، جو عین منہج المحدثین ہے، اور امام صاحب اسی پر کار آمد ہونے کی صراحت کررھے ہیں،،
اب یہ الگ بات ہے کہ امام صاحب کس حد تک اس پر پورا اترے ھیں،، لیکن اس منہج کے اختیار کرنے سے یہ تو ضرور طے ہوا کہ بہر نوع اپنی "الثقات " کے مقابلے میں "الصحیح " میں بہت حد تک تساہل سے بچ گئے ہیں، کیونکہ "الثقات،" اور "الصحیح " کے منہج میں عملا بھی واضح فرق موجود ھے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حسن لغیرہ حجت نہیں!!!

موصوف نے مذکورہ بالا عنوان قائم کر کے درج ذیل باتیں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے:
۱ ـ "حسن لغیرہ " والی اصطلاح کو متاخرین ومتساہلین محدثین نے متعارف کروایا ہے،متقدمین محدثین سے ثابت نہیں.اور متاخرین محض ناقلین ہیں، انکی وہی بات حجت ہوگی جو بات متقدمین محدثین سے صحیح ثابت ہو، کیونکہ علوم الحدیث کی اساس متقدمین محدثین ہی ہیں۔(ص: ۹۷)
۲ ـ بعض لوگ کہتے ہیں: " حسن لغیرہ " کو سب سے پہلے امام ترمذی رحمہ اللہ نے معروف کیا تھا۔ انکی یہ بات سرا سر غلط ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ سے قطعا یہ ثابت نہیں، بلکہ امام ترمذی رحمہ اللہ سے اسکے خلاف ثابت ہے۔(ص: ۱۰۸)
امام ترمذی کے اسلوب سے پتا چلتا ہے کہ وہ حدیث "مختلف اسناد (درست :اسانید) سے مروی ہو " سے مراد ایسی حدیث ہے جس کے مرکزی راوی سے بیان کرنے والے متعدد ہوں تو اس حدیث کی امام ترمذی کے نزدیک ایک سے زائد سندیں شمار ہونگی۔(ص :۱۱۱)
۳ ـ ضعیف + ضعیف: ضعیف ہی رہتی ہے،، جیسے صفر + صفر، "صفر " رہتا ہے، یا جیسے "ایک اندھا + ایک اندھا + ایک اندھا: اندھا ہی رہتا ہے، تین اندھوں کے ملنے سے ایک آنکھوں والا نہیں بن سکتا-( ۹۷)
گویا انکے نزدیک ضعف کے طبقات ہیں ہی نہیں۰۰۰!!!
۴ ـ موصوف نے مختلف اسانید کے ساتھ مروی پانچ احادیث ذکر کر کے ائمہ کرام سے انکی تضعیف نقل کرکے ان سے حسن لغیرہ کی عدم حجیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔(ص: ۹۸ ـ ۱۰۷)


ازالہ اوھام
محترم قارئین: اب حسبِ ترتیب ہمارا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
موصوف نے پہلی شق میں درج ذیل باتیں کہی ہیں:
۱ ـ حسن لغیرہ چونکہ ائمہ متقدمین سے ثابت نہیں، بلکہ اسکے موجد ائمہ متاخرین ہیں،،، لہذا یہ حجت نہیں.
۲ـ حجت صرف ائمہ متقدمین ہیں،کیونکہ وہی علوم الحدیث کی اساس ہیں، متاخرین نہیں، انکی حیثیت محض ناقلین کی ہے۔
محترم قارئین اب ذیل میں ہماری معروضات ملاحظہ کریں.
(۱) ان صاحب نے ائمہ متقدمین اور ائمہ متاخرین کی بات کی ہے۔ انکے نزدیک ائمہ متقدمین کا زمانہ تیسری صدی ہجری تک ممتد ہے، جس کے لیے موصوف نے دلیل حافظ ذہبی کے اُس قول سے پکڑی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب "میزان الاعتدال " میں رقم کیا ہے، پھر شیخ زبیر رحمہ اللہ سے ( مقالات.: ۴/ ۱۸۵) بھی نقل کیا کہ وہ بھی ائمہ متقدمین کو تیسری صدی ہجری تک مقید کرتے ہیں، اسکے بعد متاخرین کا زمانہ شروع ہوجاتا ہے.( ص:۳۹۳)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں: « فالحد الفاصل بين المتقدم والمتأخر هو رأس سنة ثلاثمائة»
یعنی ائمہ متقدمین اور ائمہ متاخرین کے درمیاں حد فاصل ( فرق کرنے والی حد) تیسری صدی کا آغاز ہے۔( ميزان الاعتدال : ۱/ ۴)
: محترم قارئین
اولا : ان صاحب نے تقدم وتاخر کے حوالے سے محض حافظ ذہبی ہی کا قول پیش کیا ہے،، جبکہ دیانتداری کا تقاضا یہ تھا کہ چونکہ اس مسئلے میں مختلف اقوال موجود ہیں (جیسا کہ آگے ذکر ہو گا ) لہذا انسب یہ تھا کہ باقی ائمہ کے اقوال کو ذکر کرکے ان کے ما بین جمع وتطبیق کی جاتی یا مناقشہ کیا جاتا پھر کسی ایک قول کو دلائل کی بنا پر ترجیح دیتے، جیسا کہ محققین کا طرز تحقیق اور اسلوب ہوتا ہے.، اور اسی طرح ہر ایک کی منشا و مراد کو بھی واضح کیا جاتا، لیکن موصوف نے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی، بس شیخ زبیر رحمہ اللہ تعالی کی اتباع میں حافظ ذہبی سے نقل کردہ قول پر ہی اکتفاء کر کے اپنے ایک مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے اوہام کی بلڈنگ کھڑی کردی،،یعنی "حجت صرف متقدمین ہیں، متاخرین نہیں ". کیا “اصولِ تحقیق” اسے کہا جاتا ہے؟ مقام تعجب ہے کہ کتاب بھی اصولوں پر لکھی جا رہی ہے، اور پھر اس میں اپنا عمل سرا سر اسکے برعکس(!!!)
ثانیا : سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہمیشہ کسی مقولے کو اس کے قائل کی منشا ومراد پر محمول کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اس کلام اور عبارت کے ذریعے سے کیا کہنا چاہتا ہے،، پھر اسکے مطابق اس کلام سے وہ مفہوم اخذ کیا جائیگا، نہ کہ اپنی طرف سے اسکا کوئی دل پسند معنی مراد لیا جائیگا،، یہ ایک اٹل حقیقت ہے، اس میں کوئی دورائے نہیں.
ان صاحب نے حافظ ذہبی کے مذکورہ قول سے یہ اخذ کیاکہ " حجت صرف ائمہ متقدمین ہیں( تیسری صدی والے) ، متاخرین
( تیسری صدی کے بعد والے) نہیں..
محترم قارئین: اب ہم بیان کرتے ہیں کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا اپنے مذکورہ کلام سے کیامقصد ہے، ملاحظہ فرمائیں.
حافظ ذہبی نے جو یہ تقدم وتاخر کا کہا ہے تو انکی اس بات کا تعلق صرف اور صرف روات کی توثیق وتضعیف کے متعلق ہے،،(نہ کہ ائمہ متقدمین ومتاخرین کے مابین حد فاصل مقرر کررہے ہیں) اور اسکے علاوہ انکا کوئی مقصد نہیں، چنانچہ انکے مكمل الفاظ ہیں: «نعم، وكذلك من قد تُكلِّم فيه من المتأخرين لا أورد منهم إلا من قد تبيَّن ضعفه، واتضح أمره من الرواة، إذ العمدة في زماننا ليس على الرواة، بل على المحدثين والمقيدين والذين عرفت عدالتهم وصدقهم في ضبط أسماء السامعين،
ثم من المعلوم انه لابد من صون الراوي وستره والحد الفاصل بين المقدم والمتأخر هو رأس ثلاثمائة، ولو فتحت على نفس تليين هذا الباب ما سلم إلا القليل، اذاالاكثر لايدرون مايروون، ولايعرفون هذاالشان، وانما سمِّعوا في الصغر، واحتيج الي علو سندهم في الكبر،، فالعمدة علي من قرأ لهم، وعلي من اثبت طباق السماع لهم، كماهو مبسوط في علوم الحديث »( ۱/۴)
اب سارے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ تیسری صدی ہجری کے آغازتک اغلب طور پرروایت حدیث کا زمانہ تھا، یعنی حافظہ سے احادیث بیان کی جاتی تھین، اس لیے عدالت کے ساتھ ساتھ انکے ضبط پر بھی سختی برتی جاتی تھی، لہذا راوی پر جرح کرنا اور اسکے ضعف و خلل ضبط کی نشاندہی کرنا بے حد ضروری تھا، اس لیے ان ادوار میں روات پر سختی کی جاتی تھی،، لیکن تیسری صدی ہجری کے آغاز میں تدوین کا زمانہ شروع ہوا، جس میں اغلب طور پر اعتماد کتب پر ہونے لگا،، اور کتب، واجزاء روایت ہونے لگے،، اور کتب سے روایت کرنے میں ضبط کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، لہذا ضبط کی سختی کو ختم کردیاگیا، محض ظاہری عدالت پر اکتفاء کرکے راوی کی توثیق وتعدیل کی جانے لگی،،لیکن اگر متاخرین کے روات کے لیے بھی متقدمین والی سختی رکھی جاتی تو بہت قلیل تعداد میں ثقہ روات بچتے،
حافظ ذہبی کی یہی بات ابن حجر نے "اللسان "(۱/ ۸) میں ذکرکرکے اسے برقرار رکھا ہے، آگے چلیے،،
"المغنی فی الضعفاء " میں فرماتے ہیں:
« وكذالم اعتن بمن ضُعِفَ من الشيوخ ممن كان في المائة الرابعة وبعدها، ولو فتحت هذاالباب لما سلم احد الاالنادر من رواة الكتب والاجزاء، »(۱/ ۴)
اب یہ الگ بات ہے کہ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنے اس منہج کی مکمل طور پر پاسداری کرسکے ہیں یا نہیں، ( یعنی تیسری صدی ہجری کے بعد والے سے روات کو بھی "میزان " وغیرہ میں ذکردیا ہے) یہ الگ بحث ہے، اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں،اور نہ ہی یہاں اسکا محل وموقعہ ہے، بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ تعالی کا تقدم وتاخر سے مراد یہی ہے، جو انہوں نے خود صراحتا ذکردی ہے،،دوسروے لفظوں میں یوں سمجھ لینا چاہیے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنے اس کلام میں ائمہ متقدمین اور ائمہ متاخرین کا سرے سے ذکر ہی نہیں چھڑا ہے کہ ہم اس سے ائمہ متقدمین اور ائمہ متاخرین کے لیے ایک حد فاصل کی تعیین کریں.. اب قائل کی ایسی صراحت کو چھوڑ کر کوئی اپنا مفہوم اور مراد اخذ کرنا کسی طرح بھی مناسب اور قابل قبول نہیں.لگے ہاتھوں ایک اور دلیل ملاحظہ فرمائیں،
سیر اعلام النبلاء " میں حافظ ذہبی فرماتے ہیں: « ابن خلاد الشيخ الصدوق، المحدث، مسندالعراق ابو بكر احمد بن يوسف ابن خلاد بن منصور النصيبي ثم البغدادي العطار،
اس راوی کی ابوالفتح بن ابی الفوارس،امام ابونعیم، خطیب بغدادی، اور ــ جیسا ابھی گذرا ــ حافظ ذہبی نے توثیق کی ہے، جبکہ اس راوی سے سرے سے کوئی حدیث مروی ہی نہیں، اسکے باوجود بھی اسکی توثیق کی گئی،
خطیب بغدادی کہتے ہیں: « كان لايعرف شيئا من العلم، غير ان سماعه صحيح، وقد سال ابالحسن الدارقطني فقال: ايمااكبر الصاع اوالمد؟ ؟ فقال للطلبة: انظروا الي شيخكم».
امام ابوالفتح بن ابي الفوارس كہتے ہیں
:«لم يكن يعرف من الحديث شيئا »
یعنی ایسے راوی کی توثیق کی جارہی ہے جو حدیث کا سرے سے علم ہی نہیں رکھتا، آخر کیوں..؟؟؟ وجہ صرف یہ ہے کہ یہ راوی اسانید کتب کاراوی ہے، اور اس کا سماع ٹھیک ہے، اس لیے اسکی توثیق کی گئی، حافظ ذہبی ان تمام باتوں کو ذکرکرنے کے بعد فرماتے ہیں: قلت: « فمن هذاالوقت بل وقبله صار الحفاظ يطلقون هذه اللفظة علي الشيخ الذي سماعه صحيح بقراءة متقن، واثبات عدل، وترخصوا في تسميته بالثقة، وانما الثقة في عرف ائمة النقد كانت تقع علي العدل في نفسه، المتقن لماحمله، الضابط لمانقل، وله فهم ومعرفة بالفن، فتوسع المتاخرون. مات ابن خلاد في صفر سنة تسع وخمسين وثلاث مئة»
( السير: ۱۶/ ۶۹ ـ ۷۰)
خلاصہ یہ ہے کہ: ائمہ متقدمین کے یہاں ثقہ کے لیے راوی کی عدالت کے ساتھ ساتھ اسکے ضبط کی بھی شرط ہوتی تھی، مگر متاخرین اور ان سے بھی کچھ پہلے محض راوی کی ظاہری عدالت پر اکتفاء کیاگیا، اس شرط پر کہ اسکا سماع صحیح ہو، گویا کتب کے راوی کے لیے ضبط کی شرط ختم کردی گئی، یہ منہج باقی محدثین کرام سے بھی ثابت ہے، ضرورت پڑنے پر اسکی بھی وضاحت کی جائیگی..
ان شاء اللہ العزیز..
محترم قارئین: مذکورہ بالا سطور سے یہ اچھی طرح واضح ہورہا ہے کہ حافظ ذہبی کی تقدم وتاخر سے کیاغرض اور مراد ہے، اور موصوف اس سے کیامطلب نکال رہے ہیں(!!!)
( ثالثا): اب جب انکے تقدم وتاخر کے حوالے سے پیش کی گئی دلیل ہی انکے دعوی پر پوری نہیں اتررہی تو پھر ہماری موصوف اور احباب سے مودبانہ گذارش ہے کہ اب وہ محدثین کرام سے پہلے یہ ثابت کریں کہ "حجت صرف ائمہ متقدمین ہی ہیں، متاخرین نہیں،" کیونکہ امت کے لیے حجت، ائمہ نقد اور محدثین کرام ہیں، جنہوں نے اصول بنائے اور ان کو تطبیقی انداز میں پیش کیاہے. یہ احباب یا محض انکی بات دلیل و حجت نہیں، اورنہ ہی وہ اصول بنانے کے حق دار ہیں، لہذا جب یہ دعوی " کہ حجت صرف ائمہ متقدمین ہیں، متاخرین نہیں " ہی سرے سے محدثین کرام سے ثابت نہیں، تو پھر اس غیر ثابت شدہ چیز کو بنیاد بناکر کس طرح "حسن لغیرہ "کو ائمہ متاخرین کی پیداوار "قرار دیکر ردکیاجاسکتا ہے، یہ ہے، وہ ہے، چونکہ، چنانچہ، یہ سب تاویلیں ہیں، جنہیں آسانی کے ساتھ قبول نہیں کیاجاسکتا اور نہ یہ سب کچھ حجت بن سکتی ہیں .صریحا اور واضح الفاظ میں ہمیں بتایاجائے کہ "ائمہ متاخرین حجت نہیں " پھر ہم بھی اس " حسن لغیرہ " کے انکار میں احباب کے ساتھ تعاون کرینگے ورنہ "منہج المتقدمین " والے دعوی " سے رک جانا چاہیے.
(رابعــــا): محدثین کرام کے مابین تقدم اور تاخر کے حوالے مختلف اقوال منقول ہیں، ذیل میں اسے ملاحظہ کیاجائے.

۱ ـ امام علائی، امام بیہقی، کے زمانہ تک کہ محدثین کرام کو متقدمین میں شمار کرتے ہیں، امام سخاوی ان سے نقل کرتے ہیں:
« ولذا كان الحكم من المتاخرين عسر جدا،بخلاف الائمة المتقدمين الذين منحهم الله التبحر في علم الحديث والتوسع في حفظه كشعبة والقطان وابن مهدي ونحوهم واصحابهم مثل احمد وابن المديني وابن معين وابن راهويه وطائفة، ثم اصحابهم مثل البخاري ومسلم وابي داؤد والترمذي، والنسائي، وهكذا الي زمن الدارقطني والبيهقي ولم يجئ بعدهم مساو لهم ولامقارب۰۰۰ فمتي وجدنا كلام احد من المتقدمين الحكم به كان معتمدا لمااعطاهم الله من الحفظ الغزير، وان اختلف النقل عنهم عدل الي الترجيح
( فتح المغيث: ۱/ ۲۳۷)
۲ ـ خطیب بغدادی اور ابن حجر نے امام ابن خزیمہ کو متقدمین میں شمار کیا ہے، خبیب بغدادی کے الفاظ ہیں: وممن سمي لنا انه كان يصحح العمل باحاديث الاجازة ويري قبولها من المتقدمين .....محمد بن اسحاق بن خزيمة النيسابوري.
ابن حجر، تہذیب التہذیب میں عبدالرحمن بن وہب کے ترجمہ میں رقمطراز ہیں: «وقد صح رجوع احمد عن هذه الاحاديث التي انكر عليه، ولاجل ذالك اعتمده ابن خزيمة من المتقدمين.اھ.
۳ ـ حافظ ذہبی امام ابوبکر اسماعیلی صاحب المستخرج علی صحیح البخاری کو بھی متقدمین میں شمار کرتے ہیں، جو چوتھی صدی ہجری کے ہیں، امام اسماعیلی کے ترجمہ میں فرماتے ہیں:« صنف مسند عمررضي الله عنه، طالعته وعلقت منه وابتهرت بحفظ الامام، وجزمت بان المتاخرين علي اياس من ان يلحقوا المتقدمين »
(تذکرة الحفاظ: ص: ۷۲۶ ـ۸۲۶)
گویا ذہبی کے نزدیک چوتھی صدی ہجری کے ائمہ کرام متقدمین ہی میں شمار ہوتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے متقدمین کو چوتھی صدی تک ہی مقید رکھا ہے، ہوسکتا ہے اس سے بھی بعد والے محدثین بھی انکے نزدیک متقدمین میں ہی شمار ہوتے ہوں،
۴ ـ حافظ ابن حجر نے امام دارقطنی تک والے محدثین کو ائمہ متقدمین میں شمار کیا ہے، اور اسی طرح وہ، پانچویں صدی کے بعد والوں کو متاخرین قراردیتے ہیں،یعنی پانچویں صدی تک والے متقدمین ہی ہیں، انکے دونوں اقوال ملاحظہ فرمائیں. کہتے ہیں: « والمنقول عن ائمة المتقدمين كعبدالرحمن بن مهدي، ويحيي القطان واحمد بن حنبل، ويحيي بن معين، وعلي بن المديني، والبخاري، وابي زرعة، وابي حاتم، والنسائي، والدارقطني، وغيرهم اعتبار الترجيح فيما يتعلق بالزيادة وغيرها،
( النکت: ۲/ ۶۰۴)
واماالمتاخرون وهم من بعد الخمسمائة ...
محترم قارئین: دیکھیں، مذکورہ اقوال میں زیادہ سے زیادہ امام بیہقی کے دور تک کو متقدمین میں شمار کیا گیا ہے،، اور یہ پانچویں صدی کا دور ہے، نیز اس تقدم پر کسی اور وجہ سے کلام نہیں کیاگیا، بلکہ یہ ائمہ کرام کے حفظ،ضبط اور علل حدیث کی معرفت وغیرہا کے حوالے سے کلام کیاگیا ہے،، کہ حفظ اور ضبط، کے قوی ہونے کی وجہ سے احادیث، اسکے روات،اورروات کے طبقات کی معرفت،اور حدیث کے طرق، اور ان میں موجود مخفی علتوں پر اطلاع، یہ سارے امور انہیں بآسانی میسر تھے،لیکن جیسے جیسے روایت حدیث کا زمانہ ختم ہوتاجارہاتھا تو ایک تو اسناد میں واسطے بڑھتے جارہے تھے اور دوسرازیادہ اعتماد کتب پر ہی ہونے لگا، جس وجہ سے قوت حافظہ میں خلل آتا گیا،، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جس چیز سے کام لینا ترک کردیاجائے تو وقت کے ساتھ ساتھ اسکی قوت میں قابل قدر کمی آنا شروع ہوجاتی ہے،، لہذا مذکورہ ائمہ کے اقوال اسی پس منظر
( قوی ضبط وغیرہ) سے متعلق ہیں،،جن کے ذریعے علل کی پہچان ہوتی ہے،، اور علل کا پہچاننا علم حدیث کی روح ہے، اور اسی وصف کا ہی انہیں اہل بتلایاگیا ہے.
اب بتایا جائے کہ ایسی کونسی دلیل ہے جس سے ائمہ متقدمین کو محض تیسری صدی تک مقید کرکے اور انہیں ہی مصطلح الحدیث کی اساس سمجھ کر "حسن لغیرہ " کا انکار کیاجارہا ہے،،، ؟؟؟
اسکے باوجود بھی اگر اس بات پراصرار ہوکہ اصول صرف متقدمین کے ہی مانے جائینگے، تو پھر جیساپہلے گذرا ائمہ متقدمین میں امام
ترمذی (۱) امام دارقطنی، امام حاکم امام بیہقی کوبھی شامل کیاگیا ہے،،اور ان سے "حسن لغیرہ کی حجیت ثابت شدہ حقیقت ہے، اور متقدمین کو محض تیسری صدی تک محدود کرنا ثابت نہیں، لہذا اپنے دعوی کے مطابق "حسن لغیرہ " کی عدم حجیت سے دستبردار ہوناچاہیے،،
۰۰۰۰( جاری ہے)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) امام بخاری سے بھی حجیت حسن لغیرہ ثابت ہے ...جیساکہ آگے اسکی وضاحت کی جائیگی...ان شاء اللہ العزیز
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خامســـــــــــا : تقدم وتاخر، کا تعلق محض زمنی حد تک ہے۔لغت میں "متقدم " اسے کہتے ہیں جو حسی یا معنوی اعتبار سے دوسرے سے سبقت کرجائے، جبکہ "متاخر " اسے کہتے ہیں جو بعد والے سے سبقت کر جائے،یعنی میں پہلے آیا اور وہ بعد میں، اللہ تعالی کا ارشاد مبارک ہے: « ولقد علمنا المستقدمين منكم ولقد علمنا المستأخرين » النحل.
اسے یوں سمجھ لیں کہ امام بخاری اور انکے طبقے کے محدثین اپنے سے ماقبل والے محدثین کرام کے لیے متاخرین ہوئے، مثلا: امام مالک، امام شافعی، امام حسن بصری وغیرہ، اور اسی طرح اپنے طبقے سے متاخرین والوں کے لیے متقدم ہوئے.
یہ عجیب بات ہے کہ ایک لکیر کھینچ کر اسے بارڈر لائن بناکر متقدمین ومتاخرین کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کرکھڑا کردیں!
میرے تعجب کا اس وقت کوئی ٹھکانا نہ رہا جب موصوف نے یہ لکھ ڈالا کہ "دوسرا ہمارے بھائی نے متساہل امام ابن حبان کو متقدمین میں شامل کیا ہے، جبکہ متساہل امام ابن حبان کاشمار متاخرین میں ہوتا ہے، کیونکہ متقدمین کا دور ۳۰۰ ہجری پر ختم ہوجاتا ہے، اور متساہل امام ابن حبان "۲۷۴ ھ میں پیدا ہوئے اور ۳۵۶ ھ میں فوت ہوئے تھے، لہذا جب متساہل امام ابن حبان جوان ہوئے تو متقدمین کا دور اختتام کو پہنچ چکا تھا اور متساہل امام ابن حبان کا شمار چوتھی صدی کے متاخرین محدثین میں ہوتا ہے۔ (۳۹۳)
پہلی بات یہ ہے کہ موصوف نے امام صاحب کو اس مختصر کلام میں کتنی دفعہ "متساہل " کے لقب سے نوازا ہے، اس حد تک کسی امام ومحدث کو ایسے وصف کے ساتھ ذکر کرنا یہ میں پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں، محدثین وعلماء نے امام صاحب کو متساہل ضرور کہا ہے،، لیکن اس انداز میں نہیں جو موصوف نے اختیار کیا ہے۔
اگر میں خطا نہین کر رہا تو موصوف کا یہ انداز "طعن " میں شمار ہوتا ہے،،، کیونکہ کسی کو باربار ایسے وصف کے ساتھ ذکرنا ــ جسے اچھا نہ سمجھاجاتا ہو ــ طعن میں ہی شمار ہوتا ہے،، لہذا ائمہ کے ساتھ اس طرح کے ناروا سلوک میں کبھ خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی،، باقی امام صاحب کا تساہل بھی محض انکی "الثقات " کے ساتھ ہی مقید ہے،، ہر وقت اور ہر کتاب میں انہیں تساہل کا الزام نہیں دیا گیا اور نہ ہی وہ مطلقا متساہل ہیں، "الثقات،" میں تساہل کے حوالے سے بحث ہوچکی ہے، باقی دوسری کتب میں ان کے تساہل پر آئندہ بحث کی جائیگی،، جس سے ثابت ہوگا کہ انکا تساہل محض "الثقات " کے ساتھ مقید ہے، لہذا انہیں ہر وقت( جس طرح ان صاحب نے اپنے مذکورہ کلام میں کیا ہے) مطلقا "متساہل " کا طعنہ دینا بہت بڑی جرات ہے۔
دوسری بات یہ کہ امام صاحب کی پیدائش اگر ۲۷۴ ھ میں ہوئی ہے اور ۳۰۰ ھ تک متقدمین کا دور ہے، تو اس اعتبار سے امام صاحب کی عمر ۳۰۰ ھ تک ۲۶ سال بنتی ہے،، اتنی عمر والا شخص موصوف کے نزدیک ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والا بنتا ہے، فانا للہ واناالیہ راجعون.
سب کامشاہدہ اور تجربہ ہے کہ دس سال کے بعد بچے میں جوانی کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اب اس پر حیرت کے مارے کیوں نہ کہا جائے کہ "حبک الشئ یعمی ویصم "..
زمانہ قدیم میں بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ محض بیس سال کی عمر میں ہی لوگ بڑے محدث ومصنف بن جایا کرتے تھے، اور موصوف کے نزدیک امام صاحب ۲۶ سال کی عمر میں ابھی جوانی کے دور میں داخل ہوتے ہیں.
تیسری بات کہ محدثین کرام نے زمانے کے اعتبار سے ائمہ کو طبقات میں تقسیم کیا ہے اور ان طبقات کی مختلف اقسام ہیں.مثلا : طبقہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا ، طبقہ تابعین، طبقہ تبع تابعین،طبقہ محدثین، طبقہ حفاظ، طبقة القراء۔
سن کے اعتبار سے بھی طبقات کی حد بندی کی گئی ہے، اور پھر ان تمام طبقات کو طبقہ در طبقہ میں بھی تقسیم کیا گیا ہے۔
اوپر گزر چکا ہے کہ پانچویں صدی تک کے محدثین کو ائمہ متقدمین میں شمار کیا گیا ہے، جبکہ امام صاحب چوتھی صدی کے ہیں، تو لامحالہ وہ متقدمین میں ہی شمار ہونگے، یہ ساری تفصیل کتب میں موجود ہے، بلکہ ان طبقات پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں،لہذا اس ساری وضاحت کے بعد بھی موصوف اگر امام ابن حبان کو متاخرین میں شامل کرنے پر مصر ہیں تو پھر موصوف کے لیے ہم اللہ تعالی سے دعاء ہی کرسکتے ہیں.
بہرکیف یہ ساری بات ضمنا آگئی تھی، چلیئے اب ہم اپنے اصل ہدف کی جانب بڑھتے ہیں،
بات ہو رہی تھی کہ محض زمانہ فی الفور اثر انداز نہیں ہوا کرتا،بلکہ تقدم کو اگر مقید کرنا ہو تو پھر ائمہ کے مذکورہ بالا اقوال میں موجود یہ انداز بہت بہتر رہیگا کہ متقدمین کا زمانہ آہستہ آہستہ ختم ہوتے ہوتے پانچویں صدی تک منتہی ہوگیا، کیونکہ فی الفور کوئی چلتا ہوا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ آہستہ آہستہ کمی آنا شروع ہوتی ہے۔ یہاں تین باتیں مد نظر رہنی چاہییں.
۱ ـ ۳۰۰ صدی کو سنہری دور قرار دیا جاتا ہے کہ اس دور میں علوم وفنون کی بہتر انداز میں تدوین کا آغاز ہوا، تو لازمی بات ہے کہ یہ صدی اپنے اختتام کو پہنچتے ہی اپنے حسن کو تو فی الفور نہیں کھو بیٹھیگی، بلکہ اس میں کمی آہستہ آہستہ آنا شروع ہوگی۔
۲ ـ تقدم کے اس سلسلے کو بھی ـ جیسا کہ پہلے گذرا ـ متقدمین کے حفظ اور ضبط قوی کو مدنظر رکھ کر تقسیم کیا گیا ہے۔
۳ ـ غالب طور پر روایت حدیث کا سلسلہ پانچویں صدی تک منتہی ہوگیا،
گویا اس دور میں علوم وفنون مرتب ہوئے اور قواعد بنائے گئے، غالب طور پر روایت حدیث کا سلسلہ چلتے چلتے(چوتھی صدی کا اختتام، یعنی پانچویں صدی) بالآخر امام بیہقی کے زمانہ تک منتہی ہوگیا، اس دور کے بعد کے محدثین کا وہ حافظہ نہ رہا جو اس سے پہلے والوں کا تھا،کیونکہ اس تدوین والے دور میں زیادہ تر اعتماد کتب پر ہونے لگا،اور علوم وفنون پر کافی کچھ لکھا جانے لگا، ہم اسکی یوں تقسیم کر سکتے ہیں :
* ـ ائمہ متقدمین کا زمانہ، جو امام بیہقی یعنی پانچویں صدی تک منتہی ہوتا ہے، اس زمانے کو دور الروایہ، دور بدایة التدوين، دور اهل الحفظ والضبط قرار دیتے ہیں،
* ـ ائمہ متاخرین کا زمانہ،یعنی پانچویں صدی کےبعد والا دور.،
اس زمانے میں تدوین کا سلسلہ کثرت سے ہونے لگا، متقدمین کے کلام سے استنباط و استخراج کیاجانے لگا، انکے اصول اور قواعد کی تشریح، توضیح ، تفصیل اور انہیں سہل سے سہل تر بنانے کی سعی مشکور کی گئی۔
معلوم شد کے جب بھی کوئی شے معرض وجود میں آتی ہے تو وہ اس وقت اپنی ابتدائی شکل میں ہوتی ہے، چونکہ احتیاج اور ضرورت کے مطابق وہ صرف اسی حد تک محدود رہتی ہے، لیکن پھر آہستہ آہستہ اس میں ارتقا کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ہمارے اردگرد یہ ساری ٹیکنالوجی اور جدت اس بات کی گواہی دیگی،بعینہ اسی طرح اول میں جو علوم وفنون ایجاد کیے گئے تو اس وقت وہ اپنے ابتدائی شکل میں تھے، لیکن بعد میں ان کو ضرورت اور حالات کے مطابق ہر ممکن طریقے سے بہتر سے بہتر انداز میں نکھارا جانے لگا۔ بعد والے محدثین کی یہ تجدید اور تشریحات تو ہمارے لیے ایک عظیم سرمائے کی حیثیت رکھتی ہیں، بلکہ یوں کہا جائے کہ بعد والے محدثین نے ہی ائمہ متقدمین کو سمجھا ہے، اور اگر انہوں نے کوئی مستقل نیا اصول یا قاعدہ متعارف کرایا ہے تو اسکی اصل بنیاد ائمہ متقدمین کا تعامل ہے، اور نظر غائر سے حقائق بھی انکی تائید کرتے ہیں، لہذا آسانی کے ساتھ محض یہ کہ دینا "یہ تو متاخرین کی پیداوار ہے، متقدمین سے ثابت نہیں" کسی خیر کا دروازہ نہیں کھولے گا۔
استاذ ملیباری نے " تفریق بین المتقدمین والمتاخرین " کے موازنہ کی جو بات کی ہے، تو اسپر رد اسی کتاب میں کسی جگہ آجائیگا، یامستقل اس پر تعاقب لکھا جائیگا..ان شاء اللہ العزیز.
۰۰۰( جاری ہے)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سادســــــــا : موصوف نے اپنی اس کتاب میں "متواتر " کو بطور مصطلح مان کر اسے قبول کیا ہے۔(ص: ۷۷) اسی طرح شیخ زبیر رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتب میں کافی مقامات پر اسے بطور حجت ذکرکیا ہے اور احادیث کو متواتر قرار دیا ہے۔
دور نہ جائیے، رفع الیدین پر مشتمل ان کی معروف کتاب "نورالعینین " کو ہی ملاحظہ کیاجائے تو اس میں احادیثِ رفع الیدین کو متواتر قرار دیکر اسکی حجیت پر زور دیا ہے۔
محترم قارئین! مصطلح الحدیث کی کتب میں "حدیث متواتر " کی درج ذیل تعریف کی جاتی ہے:
* ـ اسے روایت کرنے والی ایک بڑی جماعت ہو، جس کا جھوٹ پر جمع اور متفق ہو جانا محال ہو۔
* ـ اس خبر کا تعلق حس سے ہو، عقل سے نہیں. وغیرہ
عرض ہے کہ اس تعریف کے ساتھ متواتر کی یہ تعریف کیا ائمہ متقدمین سے ثابت کی جاسکتی ہے؟
پہلے پہل یہ اصطلاح اصولیوں نے استعمال کی اور اصول کی کتب میں ہی اسے جگہ دی ہے، پھر وہاں سے بعض اہل علم نے اخذ کر کے مصطلح الحدیث کی کتب میں جگہ دیکر اسے بطور اصطلاح محدثین میں شمار کیا، لیکن اس میں بھی اختلاف باقی رہا،
سب سے پہلے جس امام نے اسے مصطلح الحدیث کی کتاب میں ذکر کیا وہ حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ ہیں،جنہوں نے اسے "الکفایہ " میں ذکر کیا ہے ( ص: ۱۶)
خطیب بغدادی کے اس عمل پر امام ابن الصلاح نے نقد کرتے ہوئے واضح الفاظ میں اس تعریف کو "غیر اہل حدیث " یعنی اصولیوں کی اصطلاح قرار دیا ہے، انکے الفاظ ہیں:
«ومن المشهور المتواتر الذي يذكره اهل الفقه واصوله، واهل الحديث لايذكرونه باسمه الخاص المشعر بمعناه الخاص، وان كان الحافظ الخطيب قد ذكره، ففي كلامه ما يشعر بانه اتبع فيه غير اهل الحديث، ولعل ذالك لكونه لا تشمله صناعتهم ولايكاد يوجد في رواياتهم، فانه عبارة عن الخبر الذي ينقله من يحصل العلم بصدقه ضرورة، و لا بد في اسناده من استمرار هذا الشرط في رواته من اوله الی منتهاه »( ص: ۲۴۱)
مذکورہ بالا عبارت میں امام صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ اس خاص مفہوم والی اصطلاح، جسے خطیب بغدادی نے ذکر کیا ہے ، وہ ائمہ حدیث کی اصطلاح نہیں، بلکہ یہ اصولیوں کی اصطلاحات میں سے ہے، اور ظاہر سی بات ہے اس میں خطیب بغدادی نے اصولیوں کی اتباع کرتے ہوئے اسے مصطلح الحدیث میں داخل کردیا ہے، آگے امام صاحب کہتے ہیں کہ متواتر کی اس تعریف سے علم یقینی کا حصول ہوتا ہے، اور ائمہ کرام حدیث کو دو معنوں میں ہی جانتے ہیں: ظن یا یقین، یعنی ہر وہ بات جس سے قطعیت حاصل ہو جائے، اور چونکہ تواتر سے بھی پختگی اور یقین حاصل ہوتا ہے اس لیے خطیب نے اسے مصطلح الحدیث میں ذکرکردیا..
محترم قارئین! امام ابن الصلاح کا کلام اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے جس سے ہم درج ذیل نتائج اخذ کرتے ہیں:
۱ ـ متواتر ائمہ حدیث کی اصطلاح نہیں تھی ، بلکہ اسے اصولی استعمال کرتے تھے۔
۲ ـ متقدمین ائمہ حدیث سے اس کا اصطلاحی ثبوت نہیں۔
۳ ـ سب سے پہلے خطیب بغدادی نے اسے بطور مصطلح الحدیث متعارف کرایا ہے،
اب اگر کوئی یہ کہے کہ امام حاکم، امام ابن عبدالبر، امام ابن حزم(۱) وغیرہ اہل حدیث سےتواتر کا لفظی اثبات موجود ہے، تو پھر امام ابن الصلاح ان سے کیسے انکار کا کہہ رہے ہیں. ۰۰؟؟
تو جواب یہ ہے کہ امام ابن الصلاح نے تواتر کا انکار نہیں کیا، بلکہ ان سے اس خاص تعریف کی نفی کی ہے کہ اس تعریف کے ساتھ ان سے متواتر ثابت نہیں، باقی "تواترت الاحادیث " اور "تواترت الآثار"، تواتر عنہ صلی اللہ علیہ وسلم کذا وکذا، یا. "ان الحدیث الفلانی متواتر " یا جیسا ابن عبدالبر حديث المسح علي الخفين کے متعلق کہتے ہیں: « انہ استفاض وتواتر » تو اس ( تواتر) سے محدثین کرام شہرت اور اسکا مشہور ہونا مراد لیتے ہیں، نہ کہ وہ معنی جسکی عام اصولی تفسیر کرتے ہیں.ملاحظہ ہو: التقیید والایضاح ( ۲۴۹) للامام زین الدین العراقی.
محترم قارئین:ہمیں نہ یہاں متواتر کی حجیت سے بحث ہے اور نہ ہی عدم حجیت سے، یہاں جس غرض سے اسے زیر بحث لایاگیا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک طرف یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ "حسن لغیرہ " ائمہ متقدمین سے ثابت نہیں، مگر دوسری طرف یہ حال ہے کہ جو اصطلاح نہ متقدمین ائمہ حدیث نے استعمال کی، نہ اسے ائمہ متقدمین(موصوف کے نزدیک تین سو صدی تک والوں) نے بطور اصطلاح استعمال کیا، اسے حجت مان کر فریق مخالف کے خلاف اسے بطور دلیل پیش کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف حسن لغیرہ ایسی اصطلاح جو خاص طور پر.:
۱ ـ ائمہ حدیث کی اصطلاح ہے
۲ ـ متقدمین کا اس پر تعامل ہے، اور متاخرین نے اسے مصطلح الحدیث مان کر حجت مانا ہے،
۳ ـ حقائق وتطبیقات بھی اسکی حجیت کی گواہی دیتے ہیں،
اسے یہ کہہ کر کہ یہ" متقدمین ائمہ سے ثابت نہیں " رد کردیاجاتا ہے!!!
موصوف نے اپنی کتاب میں "ائمہ حدیث کو متساہلین، متشددین اور معتدلین کی طبقات کے اعتبار سے تقسیم کو درست سمجھا ہے،تو کیا یہ تفریق ائمہ متقدمین سے ثابت کی جاسکتی ہے،۰۰؟؟
اگر یہ کہاجائے کہ حقائق اس کے وجود پر دلالت کرتے ہیں، تو عرض ہے کہ
اولا : حقائق تو بہت سی دیگر چیزوں پر بھی دلالت کرتے ہیں، جسکی آگے وضاحت کی جائیگی۔
ثانیا :جب ہم "طبقات المدلسین " کی بات کرتے ہیں تو اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ "متقدمین سے ثابت نہیں " تو عرض ہے کہ یہ حقائق ہی ہیں جن سے طبقات کا اثبات ہوتا ہے اور انکا اثبات تعامل ائمہ متقدمین سے ہی ثابت ہے، تو یہاں "حقائق " سے صرف نظر اور چشم پوشی کیوں، ۰۰۰؟
یہاں بات تساہل اور تشدد کے حوالے سے بطور قاعدہ کے اعتبار سے ہے، کیونکہ یہ تفریق بطور ضابطہ ائمہ متقدمین سے ثابت نہیں، بلکہ اسے متاخرین نے ہی متعارف کروایا ہے اور متاخرین تو موصوف کے نزدیک محض ناقلین کی حیثیت ہی رکھتے ہیں، لہذا متقدمین یا انکے ہم عصر نے اگر ان ائمہ کو "معتدلین "،متساہلین "یا "متشددین " میں تقسیم نہیں کیا تو آپ بھی اس بات سے دستبردار ہو جائیے!!!
سابعــــــــــا: موصوف نے اتنا تو مان لیا کہ "حسن لغیرہ " متاخرین ائمہ حدیث " سے ثابت ہے، جبکہ بعض مشایخ تو سرے سے ہی ان سے اثبات کے منکر ہیں۔ اگر چہ اس میں بھی وہ تناقض کا شکار ہوگئے ہیں جس کی وضاحت آگے ہورہی ہے.

۰۰۰۰۰(جاری ہے)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ابن حزم کے حوالے سے مزید تفصیل آگے آرہی ہے، ان شاء اللہ العزیز
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top