- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
باب: 8
وہ طریقہ جس میں کوئی تحریر نطق کے مطابق لکھی جاتی ہو۔اسے رسم الخط کہتے ہیں۔مگر ہر زبان کی طرح عربی بھی ایسی زبان ہے جس کی کتابت اس کے نطق کے مطابق نہیں۔ کیونکہ اس میں کچھ حروف وہ ہیں جو بولے جاتے ہیں مگر لکھے نہیں جاتے اور کچھ ایسے ہیں جو لکھے جاتے ہیں مگر بولے نہیں جاتے۔قرآن مجید کا بھی اپنا مخصوص رسم الخط ہے۔اس کا جاننا علم رسم الخط کہلاتا ہے ۔ یہ بھی علوم القرآن کی ایک اہم نوع ہے۔ رسم عربی میں اثر یعنی نشان کو کہتے ہیں۔جس سے مراد مصحف کا وہ خط قدیم جس سے صحابہ کرام نے قرآن کریم کی حفاظت کی۔۔موجودہ عربی رسم الخط دو قسم کا ہے:
عام عربی رسم الخط:
عام عربی رسم الخط میں کلمات کو اعراب (Vocalization)اور حروف کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے جس میں پڑھنے والا اس کلمہ یا جملہ کو ایک ہی انداز میں پڑھ سکتا ہے جس کے معنی میں وسعت پیدا نہیں ہوپاتی۔ مثلاً مالک کا لفظ عام عربی میں ایسا ہی لکھا جاتا ہے اور اسے مالک ہی پڑھتے ہیں۔ اور قال کو قال ہی۔ اس رسم الخط کی مزید انواع میں خط رقعہ اور خط نسخ خاصے معروف ہیں۔
قرآن مجید کارسم الخط:
یہ وہ خط ہے جوسیدنا عثمان ؓ کے دور میں بالاتفاق کتابت قرآن مجیدکے لئے اپنایا گیا اسے رسم عثمانی یارسم المصحف کہتے ہیں۔ یہ خط گو عربی رسم الخط سے ملتا جلتا ہے مگر چند مخصوص مقامات پر آپ ﷺکی ہدایات کے مطابق ضروری تبدیلیاں کی گئی جن سے الفاظ قرآن کے معانی میں وسعت پیدا ہوگئی ۔جیسے: ملک اور قل کے الفاظ ۔ اسے مَلِکِ بھی پڑھ سکتے ہیں اور مٰلِکِ بھی۔یا قُلَ بھی پڑھا جاسکتا ہے اور قَالَ بھی۔اس طرح بلاشبہ ان کے معانی وسیع ہوگئے۔ان خصوصیات کی بناء پر قرآن کریم لکھتے وقت اس رسم الخط کا انتخاب کیا گیا چونکہ سیدنا عثمان ذو النورینؓنے یہ زور دیا کہ رسم الخط وہی اختیار کیا جائے جس کی طرف آپ ﷺ نے راہنمائی فرمائی تھی۔ اسلئے اسے رسم عثمانی کہا گیا۔
اس خط کا فائدہ یہ ہوا کہ لکھے ہوئے قرآن مجید کو پڑھنا اور سمجھنا آسان ہو گیا۔ الفاظ کو مختلف انداز میں لکھنے اور پھر پڑھنے سے نص قرآن کی ادائیگی میں وسعت پیدا ہوگئی اور غلطی کا امکان ختم ہوگیا۔ قرآن علماء کے سینوں میں محفوظ تھا جو دوسرے سے بالمشافہہ سنداً اخذ کیا کرتے تھے۔ اس لئے قراءت میں اختلاف ممکن نہ رہا۔
علم رسم الخط
وہ طریقہ جس میں کوئی تحریر نطق کے مطابق لکھی جاتی ہو۔اسے رسم الخط کہتے ہیں۔مگر ہر زبان کی طرح عربی بھی ایسی زبان ہے جس کی کتابت اس کے نطق کے مطابق نہیں۔ کیونکہ اس میں کچھ حروف وہ ہیں جو بولے جاتے ہیں مگر لکھے نہیں جاتے اور کچھ ایسے ہیں جو لکھے جاتے ہیں مگر بولے نہیں جاتے۔قرآن مجید کا بھی اپنا مخصوص رسم الخط ہے۔اس کا جاننا علم رسم الخط کہلاتا ہے ۔ یہ بھی علوم القرآن کی ایک اہم نوع ہے۔ رسم عربی میں اثر یعنی نشان کو کہتے ہیں۔جس سے مراد مصحف کا وہ خط قدیم جس سے صحابہ کرام نے قرآن کریم کی حفاظت کی۔۔موجودہ عربی رسم الخط دو قسم کا ہے:
عام عربی رسم الخط:
عام عربی رسم الخط میں کلمات کو اعراب (Vocalization)اور حروف کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے جس میں پڑھنے والا اس کلمہ یا جملہ کو ایک ہی انداز میں پڑھ سکتا ہے جس کے معنی میں وسعت پیدا نہیں ہوپاتی۔ مثلاً مالک کا لفظ عام عربی میں ایسا ہی لکھا جاتا ہے اور اسے مالک ہی پڑھتے ہیں۔ اور قال کو قال ہی۔ اس رسم الخط کی مزید انواع میں خط رقعہ اور خط نسخ خاصے معروف ہیں۔
قرآن مجید کارسم الخط:
یہ وہ خط ہے جوسیدنا عثمان ؓ کے دور میں بالاتفاق کتابت قرآن مجیدکے لئے اپنایا گیا اسے رسم عثمانی یارسم المصحف کہتے ہیں۔ یہ خط گو عربی رسم الخط سے ملتا جلتا ہے مگر چند مخصوص مقامات پر آپ ﷺکی ہدایات کے مطابق ضروری تبدیلیاں کی گئی جن سے الفاظ قرآن کے معانی میں وسعت پیدا ہوگئی ۔جیسے: ملک اور قل کے الفاظ ۔ اسے مَلِکِ بھی پڑھ سکتے ہیں اور مٰلِکِ بھی۔یا قُلَ بھی پڑھا جاسکتا ہے اور قَالَ بھی۔اس طرح بلاشبہ ان کے معانی وسیع ہوگئے۔ان خصوصیات کی بناء پر قرآن کریم لکھتے وقت اس رسم الخط کا انتخاب کیا گیا چونکہ سیدنا عثمان ذو النورینؓنے یہ زور دیا کہ رسم الخط وہی اختیار کیا جائے جس کی طرف آپ ﷺ نے راہنمائی فرمائی تھی۔ اسلئے اسے رسم عثمانی کہا گیا۔
اس خط کا فائدہ یہ ہوا کہ لکھے ہوئے قرآن مجید کو پڑھنا اور سمجھنا آسان ہو گیا۔ الفاظ کو مختلف انداز میں لکھنے اور پھر پڑھنے سے نص قرآن کی ادائیگی میں وسعت پیدا ہوگئی اور غلطی کا امکان ختم ہوگیا۔ قرآن علماء کے سینوں میں محفوظ تھا جو دوسرے سے بالمشافہہ سنداً اخذ کیا کرتے تھے۔ اس لئے قراءت میں اختلاف ممکن نہ رہا۔