• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم رسم الخط

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب: 8
علم رسم الخط

وہ طریقہ جس میں کوئی تحریر نطق کے مطابق لکھی جاتی ہو۔اسے رسم الخط کہتے ہیں۔مگر ہر زبان کی طرح عربی بھی ایسی زبان ہے جس کی کتابت اس کے نطق کے مطابق نہیں۔ کیونکہ اس میں کچھ حروف وہ ہیں جو بولے جاتے ہیں مگر لکھے نہیں جاتے اور کچھ ایسے ہیں جو لکھے جاتے ہیں مگر بولے نہیں جاتے۔قرآن مجید کا بھی اپنا مخصوص رسم الخط ہے۔اس کا جاننا علم رسم الخط کہلاتا ہے ۔ یہ بھی علوم القرآن کی ایک اہم نوع ہے۔ رسم عربی میں اثر یعنی نشان کو کہتے ہیں۔جس سے مراد مصحف کا وہ خط قدیم جس سے صحابہ کرام نے قرآن کریم کی حفاظت کی۔۔موجودہ عربی رسم الخط دو قسم کا ہے:

عام عربی رسم الخط:
عام عربی رسم الخط میں کلمات کو اعراب (Vocalization)اور حروف کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے جس میں پڑھنے والا اس کلمہ یا جملہ کو ایک ہی انداز میں پڑھ سکتا ہے جس کے معنی میں وسعت پیدا نہیں ہوپاتی۔ مثلاً مالک کا لفظ عام عربی میں ایسا ہی لکھا جاتا ہے اور اسے مالک ہی پڑھتے ہیں۔ اور قال کو قال ہی۔ اس رسم الخط کی مزید انواع میں خط رقعہ اور خط نسخ خاصے معروف ہیں۔

قرآن مجید کارسم الخط:
یہ وہ خط ہے جوسیدنا عثمان ؓ کے دور میں بالاتفاق کتابت قرآن مجیدکے لئے اپنایا گیا اسے رسم عثمانی یارسم المصحف کہتے ہیں۔ یہ خط گو عربی رسم الخط سے ملتا جلتا ہے مگر چند مخصوص مقامات پر آپ ﷺکی ہدایات کے مطابق ضروری تبدیلیاں کی گئی جن سے الفاظ قرآن کے معانی میں وسعت پیدا ہوگئی ۔جیسے: ملک اور قل کے الفاظ ۔ اسے مَلِکِ بھی پڑھ سکتے ہیں اور مٰلِکِ بھی۔یا قُلَ بھی پڑھا جاسکتا ہے اور قَالَ بھی۔اس طرح بلاشبہ ان کے معانی وسیع ہوگئے۔ان خصوصیات کی بناء پر قرآن کریم لکھتے وقت اس رسم الخط کا انتخاب کیا گیا چونکہ سیدنا عثمان ذو النورینؓنے یہ زور دیا کہ رسم الخط وہی اختیار کیا جائے جس کی طرف آپ ﷺ نے راہنمائی فرمائی تھی۔ اسلئے اسے رسم عثمانی کہا گیا۔

اس خط کا فائدہ یہ ہوا کہ لکھے ہوئے قرآن مجید کو پڑھنا اور سمجھنا آسان ہو گیا۔ الفاظ کو مختلف انداز میں لکھنے اور پھر پڑھنے سے نص قرآن کی ادائیگی میں وسعت پیدا ہوگئی اور غلطی کا امکان ختم ہوگیا۔ قرآن علماء کے سینوں میں محفوظ تھا جو دوسرے سے بالمشافہہ سنداً اخذ کیا کرتے تھے۔ اس لئے قراءت میں اختلاف ممکن نہ رہا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عربی رسم اوررسم عثمانی کافرق

علماء نے ان دونوں خطوط میں بظاہر اختلاف یا فرق سے چھ قواعد مستنبط کئے ہیں۔

پہلا قاعدہ :
حذف: رسم عثمانی میں پانچ حروف کو بعض مقامات پر حذف کر دیا گیا ہے جبکہ عام عربی رسم الخط میں یہ حروف موجود ہیں۔جو درج ذیل ہیں:
الف، واؤ ، یاء، لام، اور نو ن ۔
(ا) حذف الالف :
رسم عثمانی میں تین وجوہ کی بناء پر الف کو حذف کیا گیا ہے۔ مثلاً:
حذف اشارہ :
اشارہ سے مراد کہ یہاں الف کسی اور قراءت میں محذوف ہے ۔ جیسے: {مٰلکِ یَوْمِ الدِّیْنِ} میں الف کا حذف ۔ یا { وإن یأتوکم أسری تفدوہم} میں أسری کی سین پر الف کا حذف۔ امام حمزہ نے اسے أَسْرَی یعنی سین ساکن اور راء کو بغیر الف کے پڑھا ہے۔یا {تفدوہم } میں الف کو گرا کر {تَفْدُوہم} تاء زبر اور فاء جزم کے ساتھ بغیر الف کے پڑھا گیا جو امام ابن کثیر، ابو عمرو، ابن عامر اور حمزہ وخلف کی قراءت ہے۔
حذف اختصار:
جمع مذکر و مؤنث سالم سے وہ الف جس کے بعد نہ تشدید ہو نہ ہمزہ، حذف کردی گئی ۔ جیسے: {العٰلَمِینَ}، {وَالذّٰرِیٰتِ} {وَالْحٰفِظِیْنَ}، { وَالصّٰدِقِیْنَ}۔ اگر الف کے معاً بعد حرف مشدد آیا یا مہموز، تو پھر الف کو لکھا ۔ جیسے: {الضّٰالِیْنَ} { وَمَا ہُمْ بِضَارِّیْنَ} یا {للِطَّائِفِیْنَ} {وَالْقَائِمِیْنََ} یا {أوْ ہُمْ قَائِلُوْنَ}۔اسی طرح فَعَّالین اور فَعَّالون کے وزن پر جو لفظ آیا ۔۔سوائے چند ایک کے۔۔ اس میں بھی الف محذوف کردیا۔جیسے: { کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ}، {لِلأوّٰبِیْنَ} ، {طَوّٰفُوْنَ} اور {الخرّٰصُوْنَ} میں ۔
حذف اقتصار:
مراد یہ ہے کہ ایک مقام پر ایک لفظ میں یہ الف حذف ہوا مگر دوسرے مقام پرنہیں ہوا ۔جیسے لفظ المیعاد میں الف کو اس آیت میں حذف کردیا گیا ہے ۔{ وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِی الْْمِیْعٰدِ}(الا نفال:۴۲جبکہ دوسرے مقامات پر یہ بدستور موجود ہے۔ اسی طرح {الْقَہَّار} کا لفظ سورۃ الرعد کی آیت :۱۶میں بغیر الف کے ہے اور دوسرے مقامات پر نہیں۔اسی طرح یُسٰرِعُوْنَ، اِبْرَھِیْمَ، سَلٰمٌ،الْمَسْجِدِ ، یُجٰدِلُوْکُمْ، بَلِّغُ، بَطَلَ، عَھَّدُ، تُرٰباً وغیرہ میں الف حذف شدہ ہے۔

رسم عثمانی میں الف کواور متعدد جگہوں پر بھی حذف کیا گیا ہے۔ مثلاً:
ہر وہ اسم جس کے آخر میں یاء ماقبل کسرہ آیا ہو وہاں بھی الف کو حذف کیا گیا۔جیسے:{الصّٰبئین}،{ طٰغِین} {غٰوِین} وغیرہ۔

جب الف، لام کے بعد درمیان میں آئے یا دو لاموں کے بعد آئے تو وہاں بھی الف حذف کیا گیا۔ جیسے: {الإصلٰح}، {عَلّٰمَ الغُیُوْبِ}، دو لاموں کے درمیان الف کے حذف کی مثال: {إلَّا فِیْ ضَلٰٰلٍ} { وَلَا خَلٰلٍ}۔کَلٰلۃٍ}۔

ہر ایسا لفظ جس میں ہاء تنبیہ (warning)کی تھی یا نداء کی۔ اس سے الف حذف کیا گیا بشرطیکہ وہ لفظ کے آخر میں نہ ہو۔ جیسے: {ہٰتین} {ہٰذَا} یا {ہٰؤُلََائِ}، {ھَاَنْتُمْ} جبکہ ھا کے ساتھ موجود الف، انتم اور اولاء کا اپناہے۔

l اسی طرح الف کا حذف {یاأیھا}کی یا سے ۔ اور اس کو یوں لکھاگیا (یٓأیُّھَا النَّاسُ) اسی طرح {یٰنساء النَّبِی} {یٰآدم}، {یٰإبْرِہِیْمَ} وغیرہ میں حرف ندا کو بھی بغیر الف کے لکھا گیا۔

(ب) حذف الیاء:
الف کی طرح "ی" بھی متعدد مقامات پر حذف کی گئی۔ مثلاً:

متصل یاء المتکلم کو ان کلمات سے حذف کیا گیا، جیسے أطِیْعُوْنَ، تَعْبُدُوْنَ، کِیْدُوْنَ، اِتَّبِعُوْنَ وغیرہ میں آخری نون دراصل نی ہے جس کی "ی" محذوف ہے اور "ن"کی زیر اس کی قائم مقام ہے۔

جب ایک یاء دوسری یاء کے ساتھ لفظ میں اکٹھی ہوگئی تو وہاں بھی ایک یاء گرا دی گئی خواہ وہ یاء ہمزہ کی صورت میں تھی جیسے: { مُتَکِئِیْنَ} ، {سَیِّآتِ} ۔ یا وہ ہمزہ کی صورت میں نہ تھی جیسے: { النَبِیّٖنَ} {الأمیّٖن}۔

٭ ہر اسم منقوص کے آخر میں جہاں رفع یا جر آنا تھا وہاں بھی یاء حذف کی گئی۔ جیسے: {بَاغٍ}، ہَادٍ}، {وَالٍ}، {وَاقٍ}،{ الدَّاعِ}، {والْبَادِ}۔

(ج) حذف الواو:
واؤکو بھی متعدد مقامات پر حذف کیا گیا۔ مثلاً:

٭ جب ایک واؤ دوسری واؤ کے ساتھ ایک ہی کلمہ میں جمع ہوجائے تو وہاں ایک واؤ گرا دی گئی خواہ وہ ہمزہ کی صورت میں تھی جیسے {مَسْؤُلاًً}، {وَلَا یؤدِّہٖ}، {تؤیہ} یا وہ ہمزہ کے بغیر تھی۔ جیسے: {دَاوٗدَ}، { وََلَا تَلْوٗن}، {لَا یَسْتوٗن}۔

٭ واؤ کو لفظ پر بوجھ سمجھ کر حذف کردیا گیا کیونکہ اس کا پڑھنا بھی ممکن نہ تھا۔جیسے: یَدُعُ الدَّاعِ، وَیَمْحُ اللّٰہ البَاطِلَ ، سَنَدْعُ الزَّبَانِیَّۃ، میں سے واؤ حذف ہوئی جو دراصل یدعو، یمحو، سندعوا تھے۔

(د) حذف اللام:
پانچ الفاظ خواہ وہ مفرد تھے یا تثنیہ وجمع۔ ان میں اس لام کو حذف کردیا گیا جو دوسری لام کے ساتھ آیا۔یہ پانچ الفاظ (الَّیْل)، (الائی)، (الّٰتِی)، ( الاتِی)، ( الَّذِیْ)ہیں۔ ان پانچ الفاظ کے علاوہ باقی میں لام کو رہنے دیا گیا جیسے: (اللَّطِیْفُ)، اللَّوَامَۃُ)،( اللُّؤلُؤُ) اور (اللّٰہُمَّ)۔

(ہ ) حذف النون:
دو مقامات پر نون کو حذف کیا گیا۔ جو {فَنُجِّیِّ مَنْ نَّشَائُ} اور {وَکَذٰلِکَ نُــجِیِ الْمُؤْمِنِیْنَ} ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا قاعدہ :
الزیادۃ(اضافہ) :
کلمہ میں کسی حرف کا حقیقی اضافہ اس طرح ہو کہ اسے نہ ملا کر پڑھا جاسکے اور نہ اس پر وقف ہوسکے۔کبھی بعض حروف میں یہ اضافہ غیر حقیقی بھی ہوتا ہے پھر وقف میں وہ پڑھا بھی جاتا ہے جیسے: {لٰکِنَّا} کے لفظ میں الف کا اضافہ۔یا ابتداء میں الف کا اضافہ جیسے: لفظ ابن کی ابتداء میں الف کا اضافہ، جب وہ سطر کے شروع میں آئے۔رسم عثمانی میں جن حروف کا اضافہ کیا گیاہے وہ تین ہیں: الف، واؤ اور یاء۔مثلاً:

(ا) زیادۃ الالف:
کچھ الفاظ میں واؤ جمع کے بعد الف کا اضافہ کیا گیا بشرطیکہ واؤ جمع فعل ضمیر سے متصل نہ ہو مثلاً: {تَاْمَنُوْا}،{ کَفَرُوْا}، {اِعْدِلُوْا} وغیرہ۔ سوائے چند کے جیسے: {فإنْ فَائُ وْ} {عَتَو} ۔

٭ واؤ اصلی کے بعد الف کا اضافہ فعل مضارع معتل الآخر میں مرفوع یا منصوب واؤ کے بعد کیا گیا۔ جیسے: {یدعُوْا} {لِیَرْبُوْا} {نبلوَا} سوائے ایک جگہ کے جو {عَسَی اللّٰہُ أَنْ یَّعْفُوَ}ہے اس میں الف حذف کردی گئی۔

٭ جمع مذکر سالم میں جو واؤ علامت رفع ہے اسکے بعد الف کا اضافہ بھی کیا گیا۔یا جو واؤ مذکر سالم کے قائم مقام آئی اس کا نون حذف کرکے وہاں الف کا اضافہ کردیا گیا۔ جیسے: { مُرْسِلُوا النَّاقَۃِ}، {کَاشِفُوا الْعَذَابِ}، {صَالُوا النَّارِ}۔

٭ اسی طرح بعض مقامات پر الف کا اضافہ بغیر کسی قاعدے کے کیا گیا۔مثلاً: {عٰلیھم}،{ لِشَايْئٍ}، {مِائَۃٍ}، {لَا اِلیَ الَّلہِ} ،{ مَلإتہ}، {أَفَاِئنْ مَّاتُ} وغیرہ ،جو دراصل عَلَیہم، لِشَئٍ، مِئَۃٌ، لَإِلَی اللَّہ، ملئہ، أَفَئِنْ مَّاتُ تھے۔

٭ واؤ کے بعد الف کا بھی ہواجیسے: {تفتؤا}، { أتوکَّؤا}{ تَظْمَؤُا} شاید یہ الف، ہمزہ متطرفۃ ہے جو لفظ کے کنارے پرواؤ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح نون کے بعد الف کا اضافہ جیسے: { لَکِنّاْ ہُوَا اللّٰہُ}، {والظُّنُوْنَاْ}۔

(ب) زیادۃ الیاء:
رسم عثمانی میں یاء کا اضافہ دو طرح سے کیا گیا ہے۔

٭ جس لفظ میں ہمزہ مکسورہ تھا خواہ اس سے پہلے الف ہی کیوں نہ آئی ہو وہاں یاء کا اضافہ کیا گیا۔ جیسے: { مِنْ وَّرَائ حِجَاب}، {مِنْ تِلْقَائ نَفْسِی}،{ اِیْتَائ} وغیرہ ہیں۔یا الف آئی ہو جیسے: {أفائِن متَّْ} یا {أفائِن مات} میں۔

٭ وہ لفظ جس میں ہمزہ مکسورہ تھا اور نہ ہی الف۔ وہاں بھی یاء کا اضافہ اسی نوعیت کے دو کلموں میں کیا گیا۔جیسے: {بأَییِّکم } اور {بأییْدٍ} وغیرہ میں۔

(ج) زیادۃ الواؤ :
الف اور یاء کی طرح چار الفاظ {یٰأُولِی}،{ أُولُوا}{أُولَائِ}، {أولٰت} میں واؤ کا اضافہ بالاتفاق کیا گیا اور { سَأُوْرِیْکُمْ} ،{ وَلَأُصَلِّبَنَّکُمْ} میں واؤ کے اضافہ پر اختلاف کیا گیا ۔ پہلے میں واؤ کا اضافہ راجح کہا گیا اوردوسرے میں عملاً اس کا اضافہ نہیں کیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسرا قاعدہ :
قاعدہ ہمزۃ:
رسم عثمانی میں عام عربی رسم الخط سے ہٹ کر ہمزہ کی کتابت کے لئے یہ چند منفرد طریقے اپنائے گئے۔اس لئے کہ ہمزہ لفظ کی ابتداء یا وسط یا آخر میں ہوتا ہے ۔

(ا) ہمزہ ساکن:
ہمزہ ساکن کو اس سے ما قبل حرف کی حرکت کے مطابق لکھا گیا۔

٭ … اس سے قبل زبر کی صورت میں اسے" الف" پر لکھا گیا۔ مثلاً: البأساء، اقرأ۔

٭… زیر کی صورت میں ہمزہ کو "ی"پر لکھا گیا۔ مثلاً: ائذن لی، جئنا۔بئر۔

٭… جبکہ پیش کی صورت میں اسے "و"پر لکھا گیا۔ مثلاً: اؤتمن، المؤتون۔

(ب) ہمزہ متحرک:
ہمزہ متحرک کی کتابت الف پر ہوئی چاہے اس پر زبرہو، زیرہو یا پیش ہو۔ مثلاً: أیُّوْبَ، إذا، أنْزَلَ۔ لیکن اگر ہمزہ متحرک کلمہ کے وسط میں آئے تو اس کی حرکت کے موافق حرف پر اس کی کتابت کی گئی مثلاً: سأَلَ، سُئِل، نقرؤُہ۔

ہمزہ اگر آخر میں آیا اوراس کا ماقبل ساکن تھا تو اس کی کوئی صورت بھی اختیار نہیں کی گئی بلکہ اسے علیحدہ لکھا گیا۔ جیسے: {دِفئٌ}، اور {الخبْئَ} وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چوتھا قاعدہ :
البدل:
رسم عثمانی میں تین حروف الف، نون اور تاء تانیث کو بدل کر ان کی جگہ دوسرے حروف کو لکھا گیا۔مثلاً:

(ا) الف کو دو حروف یاء اور واؤ سے بدلا گیا۔

۱۔ الف کا یاء سے بدل: کچھ الفاظ میں الف کو یاء سے بدل کر بھی لکھا گیا۔

٭ جب الف یاء سے بدلی گئی ہو۔یعنی اصل میں وہ یاء تھی تو وہ محض اپنے اصل کی تنبیہ کے لئے اور امالہ کے جواز کے لئے یاء کے ساتھ لکھ دی گئی۔ مثلاً: {ہوٰیہ}، {ہُدٰی}، {استسقٰیہ}، { أعطٰي}، {یٰأسفَي}۔

نوٹ: اصل الف پہچاننے کا قاعدہ یہ ہے کہ لفظ اگر اسم ہے جیسے : فَتًی تو اس کا تثنیہ دیکھا جائے۔ جیسے: فَتَیَان۔ یا اگر لفظ فعل ہے تو اسے تاء ضمیر کی طرف مسند کیا جائے۔ جیسے: رمی سے رمیتَ۔

٭ لفظ اگر رباعی تھا تو اس میں الف ، کو یاء سے بدل دیاگیا جیسے: {المَوتٰی}، {السَّلْوٰی} اور {إحْدٰیہُمَا}۔

٭ الف اگر یاء سے بدلی ہوئی محسو س ہوئی تو اسے بھی یاء سے لکھ دیا گیا جیسے: {أتَی، یتامٰی، سکارٰی، مرضٰی، متٰی، بلٰی، توفیکم، إلی، علی وغیرہ۔

الف کا واؤسے بدل: کچھ الفاظ میں الف کو تفخیم کے لئے واؤ سے بدل کر لکھا گیا جب کہ اصلاً اس میں واؤ تھی اور اضافت بھی نہیں تھی۔ مثلاً:یہ چار عام الفاظ: الصلوۃ، الزکوۃ، الحیوۃ، الربو وغیرہ۔ جو اصل میں الصلٰاۃ، الزکاۃ، الحیاۃ اور الرباتھے۔یا {بِالْغٰدٰوَۃِ}، {کَمِشْکٰٰوۃِ}، {مَنٰوَۃٍ} میں۔ مضاف ہونے کی صورت میں ان میں دو الفاظ پھر الف کے ساتھ لکھے جائیں گے۔مثلاً: {وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ}، اور{ قدمت لحیاتی}۔ لفظ صلوۃ واؤ کے ساتھ بعض مقامات پر مضاف ہوا ہے وجوہ قراءت کی بناء پروہ مستثنی قرار دیا گیا ہے: جیسے: {إنْ صَلَٰوتِکَ سَکَنُ لَّہُمْ}، {وَصَلَوٰاتِ الرَّسُوْل}، {أَصَلٰوتُکَ تَأمُرُکَ} اور {وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلٰٰوتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ} میں۔

(ب) نون:
مختلف مقانات پر الف کی صورت میں لکھا گیا۔

٭ تنوین کو الف کی ہر اس صورت میں لکھا گیا جہاں اسم منصوب تھا اور اس میں ہاء تانیث کی نہیں تھی اور نہ ہی وہ اسم ، مقصور تھا۔ مثلاً: {حکمًا وعلمًا}۔

٭ نون تاکید خفیفہ کو الف سے لکھا گیا جب اس کا ماقبل مفتوح تھا جیسے: {۔۔۔وَلَیَکُوناً مِّنَ الصَّاغِرِیْنَ ں} (یوسف:۳۲) ، یا {لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِیَۃ ں} (العلق:۱۵)

٭ جن الفاظ کے نون کو الف لکھا گیا ان میں لفظ (إذن) بھی ہے۔ جیسے: { إذًا لأذَقْنٰک}، {وَقَدْ ضَلَلْتُ إذًا} اور{۔۔۔وَإِذاً لاَّ یَلْبَثُونَ خِلافَکَ إِلاَّ قَلِیْلاً ں} (الاسراء:۷۶) اس کو الف سے اس لئے بھی لکھا گیا کہ قراء حضرات کا اجماع ہے کہ اگر اس پر وقف کیا تو وہ الف ہوجائے گا۔

(ج) تاء تأنیث :
تاء تانیث اسماء میں ہاء سے لکھی جاتی ہے۔ افعال میں نہیں۔وصل کی صورت میں تاٖ پڑھی جاتی ہے اور وقف کی صورت میں ہاء۔ یہی عام قاعدہ ہے۔مثلاً: لفظ رحمۃ اس آیت میں: {۔۔۔وَآتَانِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِہ۔۔۔} (ہود:۲۸) اور نعمۃ { ۔۔۔وَمَن یُبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللّہِ۔۔۔} (البقرۃ:۲۱۱) اور لفظ کلمۃ: {۔۔۔ وَلَوْلاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّکَ ۔۔۔} (یونس:۱۹) وغیرہ۔ مگر تیرہ کلمات اس قاعدے سے مستثنی قرار دئے گئے۔ جو درج ذیل ہیں:

{رَحْمَتُ}، {نِعْمَتُ}، {سُنَّتُ}، { اِبْنَتُ}، {شَجَرَتْ}، {امْرَأْتُ}،{قُرَّتْ}، {بَقِیَّتُ}، { فِطْرَتُ}، {لَعْنَتُ}، {وَجَنَّتُ}، {وَمَعْصِیَتُ}، اور {کَلِمَتُ}۔

ان میں فرق یہ ہے کہ جو لفظ ہاء کے ساتھ لکھا گیا اس پر ہاء کا ہی وقف کریں گے اور وصل کی صورت میں اسے تاء کے ساتھ ملا دیں گے۔ اور جو تاء مفتوحہ کے ساتھ لکھا گیا وہ تاء وصل میں پڑھا جائے گا اور سانس کی تنگی، مقام تعلیم یا امتحان کی صورت میں وقف کے ساتھ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پانچواں قاعدہ :
وصل وفصل:

(ا) وصل:
وصل سے مراد دو الفاظ کو ملا کر ایک لفظ کی صورت میں لکھنا ہے۔ رسم عثمانی میں کچھ مقامات پر وصل ہوا۔ مثلاً: إن اور لا کو ملا کر إلاّ لکھا گیا اسی طرح { بِئْسَمَا}، {وَیْکَأن}، {أَلَّّنْ}{یَبْنَؤُمَّ}جو اصل میں ایک دوسرے سے جدا تھے۔

(ب)فصل:
دو لفظ کے مرکب کو توڑ کر الگ الفاظ لکھنے کو فصل کہتے ہیں۔ مثلاً: أمن کو أم من لکھا گیا۔ إلم کو إن لم لکھا گیا۔

علماء کا کہنا یہ ہے کہ فصل کو وصل اس لئے بنایا ہے تاکہ قرآن کریم کی تحریر میں اختصار آجائے ورنہ وصل کو لے بیٹھتے تو پھر اختصار نہ رہتا اور کلام طویل ہوجاتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چھٹا قاعدہ :
دو قراء تیں:
رسم عثمانی میں کچھ الفاظ کو اس طرح لکھا گیا کہ ایک سے زیادہ قراء ت کی گنجائش نکل آئے۔مثلاً: {ملک یوم الدین}۔ لکھ کر دو قراءتوں {مالک} اور {ملک}کو امکان پیداکردیا۔ اسی طرح {مسیطر} کو{ مصیطر} لکھا تاکہ اسے س اور ص دونوں حروف سے پڑھا جاسکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رسم عثمانی کی خصوصیات :
عام عربی رسم الخط کی نسبت رسم عثمانی مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہے:

۱۔ مختلف قراء ت کی گنجائش:
نقطوں اور اعراب کی موجودگی میں قاری ایک ہی قراءت پڑھنے پر مقید ہوتا ہے لیکن رسم عثمانی میں حرکات ونقاط کی موجودگی کی وجہ سے قرآن کریم کو ایک سے زیادہ قرا ء ات میں پڑھنے کی گنجائش ملتی ہے۔جبکہ معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مثلاً: {إن ہذان لساحرٰن}۔ اسے رسم عثمانی کے مطابق یوں لکھا جانا تھا: {إن ہذان لساحران}۔ اس آیت کو حرکات کے بغیر لکھنے سے ایک سے زیادہ قراء ات کی گنجائش نکل آئی۔

۱۔ امام تافعؒ نے اسے{ إنّ ہذان }پڑھا ۔ یعنی پہلے نون کو مشدد اور دوسرے کو مخفف ۔ اور

۲۔ ابن کثیر نے پہلے نون کو مخفف اور دوسرے نون کو مشدد {إنْ ہذانّ} کرکے پڑھا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۲۔ ایک سے زائد معانی کا امکان:
رسم عثمانی میں پائی جانے والی وصل اور فصل کی خصوصیات سے معنوں میں بہت وسعت پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً: {أَم مَّن یَکُونُ عَلَیْْہِمْ وَکِیْلاً } (النساء:۱۰۹) اور{أَمَّن یَمْشِیْ سَوِیّاً عَلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ } (الملک:۲۲)

پہلی آیت میں أَمْ اور مَنْ حالت فصل میں دو الگ الگ الفاظ کے طور پر استعمال ہوئے۔ یہاں "أم" "بل"کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے "أم من"کا مطلب ہو گا۔ "بلکہ جو"جبکہ دوسری آیت میں وصل کے قاعدے کے مطابق ان دونوں الفاظ کو ملا کر ایک لفظ "أمن"کی صورت میں لکھا گیا جس کا مطلب ہے "بھلا کو ن ہے جو "۔ چنانچہ اس ایک آیت کے دو ترجمے کئے جا سکتے ہیں۔

۱۔ بلکہ جو چلتا ہے بالکل درست سیدھی راہ پر ۲۔ بھلا کون چلتا ہے بالکل سیدھی راہ پر
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اصل حرکت کی وضاحت:
چونکہ رسم عثمانی میں اعراب استعمال نہیں کئے گئے تھے اس لئے بعض مقامات پر لفظ کو غلط حرکت کے ساتھ پڑھے جانے کے اندیشے کے پیش نظر وہاں اصل حرکت کی طرف رہنمائی کے لئے اشارہ کے طور پر کچھ حروف کا اضافہ کیا گیا۔ مثلاً:’’سَاُوْرِیْکُم‘‘میں بظاہر واؤ زائد لگتی ہے۔ لیکن حرکات کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس بات کا امکان تھا کہ لوگ غلطی سے الف ہی پڑھ لیں یا اس پر زیر یا زبر پڑھ لیں گے۔ اس لئے الف کے بعد واؤ کا اضافہ کر دیا گیا۔ جو کہ پیش کا قائم مقام ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’’الف‘‘پر پیش ہے۔ یہ ’’واؤ‘‘پڑھی نہیں جائیگی۔ اسی طرح ’’أولٰٓئِکَ‘‘کی ’’واؤ‘‘بھی پیش کی قائم مقام ہے اور پڑھی نہیں جائیگی۔ ’’ذي القربی‘‘میں ’’یا‘‘حالت جر کے قائم مقام ہے۔
 
Top