قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ سوره الاعراف ١٨٨
اب زرا ساغور اس آیت کے ہائی لائٹ کردہ حصے پر فرمالیں یعنی
إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ
یعنی جو اللہ چاہے اور اللہ نے کیا چاہا ہے اس کا ذکر قرآن میں کئی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادیا ہے
اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو! تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے
سورہ آل عمران آیت 179
وما هو على الغيب بضنين
اتنی جلدی بھی کیا ہے آپ کو منکر قرآن ہونے کی ابھی تو آپ صرف منکر حدیث ہوئے ہیں کچھ دن انکار حدیث کے مزے لوٹ لیں پھر انکار قرآن کی جانب آپ کو جانا ہی ہے
محترم آپ کی بیان کردہ تشریح سے ایک بات تو واضح ہے کہ :
الله تبارک و تعلیٰ اپنے علم غیب کو مطالع کرنے کے لئے صرف اپنے رسولوں میں سے جن کو چاہتا ہے چنتا ہے -کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی بس کی بات نہیں کہ وہ علم غیب کا دعوی کرسکے کہ اسے الله نے غیب کا علم عطا کیا ہے- جیسے اکثر مذہبی طبقوں کی طرف سے اول فول بکواس سننے کو ملتی ہے کہ ہمارے پیر صاحب مستقبل میں رونما ہونے والے واقعیات بتا دیتے ہیں- کہ کس کے گھر بیٹا ہو گا کون بے اولاد رہے گا- کس کا کاروبار چمکے گا کون کنگال ہو جائے گا - کسی کی اپنی من پسند جگہ شادی ہو گی کون اس سے محروم رہے گا وغیرہ وغیرہ- اور نہ ہی کسی اولیاء الله ، امام. محدث ،قطب ابدال کے بس کی بات ہے کہ الله اس کو اپنے علم غیب پرمطالع کردے -جیسا کہ اکثر اہل تشیع اور دوسرے بہت سے گمراہ فرقے حضرت علی رضی الله عنہ یا پھر پپرعبدلقادر جیلانی رح وغیرہ کے بارے میں دعوے کرتے ہیں-وہ غیب کا علم رکھتے تھے -جب کہ یہ سب بھی بہرحال غیر نبی و رسول تھے-
دوسری بات یہ کہ قرآن کی آیت ہے -
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ الخ اٰٰل عمران 179
ترجمہ:اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ
مطلع کرے غیب پر ،لیکن ہاں جس کو خود چاہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں ،اُن کو منتخب فرمالیتا ہے
یہاں لفظ
لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ اس بات کو واضح کررہا ہے کہ الله اپنے کسی نبی جس پر وہ چاہے اس اپنے غیب کی مطالع کردے - غیب کا مطلب ہے "چھپی ہوئی چیز" - ظاہر ہے جب وہ کسی الله کے چنے ہوے نبی پر مطالع ہو جائے گی- توکم از کم اس نبی کے لئے غیب نہیں رہے گی-
اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی ڈاکٹر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ فلاں چہز کھانے سے انسان کو کینسر ہو سکتا ہے یا فلاں چیز سے ہارٹ اٹیک ہوسکتا ہے وغیرہ - اگر ہم یہی بات آگے کسی اور کو بتا دیں تو کیا ہم بھی ڈاکٹر کہلائیں گے ؟؟؟
اسی لئے کسی نبی کو عالم الغیب کہنا قرآن کے صریح خلاف ہے-عالم الغیب کی صفت الله نے صرف اپنی طرف کی ہے- قرآن میں الله کا واضح فرمان ہے کہ :
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ سوره الانعام ٥٩
اور
اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کےسوا کوئی نہیں جانتا جو کچھ جنگل اور دریا میں ہے وہ سب جانتا ہے اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسے بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر یہ سب کچھ کتاب روشن میں ہیں-