إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ
محترم -اب زرا ان آیت پر غور فرمائیں
إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
سورہ بقر :
إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
سورہ بقر :173
إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
سورہ بقر:182
فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
سورہ بقر:192
إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
سورہ بقر :199
وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
سورہ بقر :218
فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
سورہ بقر :226
یہ صرف سورہ بقر کے حوالے ہیں اگر پورے قرآن مجید سے دلیل دی جائے تو ایسی سیکڑوں آیات ربانی ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحیم کو ال کے بغیر ذکر کیا ہے
متفقعلم غیب کا مالک صرف اللہ ھے-
===================
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو شخص علم غیب کا دعویٰ کرے اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ کافر ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُل لَّا يَعۡلَمُ مَن فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ ٱلۡغَيۡبَ إِلَّا ٱللَّهُۚ وَمَا يَشۡعُرُونَ أَيَّانَ يُبۡعَثُونَ﴾--النمل:65
''کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں، اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کب (زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے۔''
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ سب لوگوں کے سامنے یہ اعلان فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی آسمانوں اور زمین میں غیب نہیں جانتا، لہٰذا جو شخص علم غیب کا دعویٰ کرے، وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تکذیب کرتا ہے۔ اس بنیادپران لوگوں سے ہم یہ بھی کہیں گے کہ تمہارے لیے غیب جاننا کیسے ممکن ہے، جب کہ غیب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہیں جانتے تھے؟ کیا تم افضل ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ اگر یہ کہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اشرف ہیں تو وہ اس بات کی وجہ سے بھی کافر ہو جائیں گے اور اگر وہ یہ کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشرف تھے تو پھر ہم ان سے پوچھیں گے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو غیب نہ جانتے ہوں اور تم اسے جانتے ہو؟
اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿عَٰلِمُ ٱلۡغَيۡبِ فَلَا يُظۡهِرُ عَلَىٰ غَيۡبِهِۦٓ أَحَدًا-إِلَّا مَنِ ٱرۡتَضَىٰ مِن رَّسُولٖ فَإِنَّهُۥ يَسۡلُكُ مِنۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَمِنۡ خَلۡفِهِۦ رَصَدٗا﴾--الجن:26۔27
''وہی غیب (کی بات) جاننے والا ہے اوروہ کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا، ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس (کو غیب کی باتیں بتا دیتا ہے اور اس) کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے۔''
یہ دوسری آیت ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ علم غیب کا دعویٰ کرنے والا کافر ہے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ حکم دیا ہے کہ
آپ لوگوں کے سامنے یہ اعلان فرما دیں:
﴿قُل لَّآ أَقُولُ لَكُمۡ عِندِي خَزَآئِنُ ٱللَّهِ وَلَآ أَعۡلَمُ ٱلۡغَيۡبَ وَلَآ أَقُولُ لَكُمۡ إِنِّي مَلَكٌۖ إِنۡ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰٓ إِلَيَّۚ﴾--الانعام:50
''کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ (یہ کہ) میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے (اللہ کی طرف سے) آتا ہے۔''
وباللہ التوفیق..
کیوں کیا حق آپ کو کڑوا لگا !ماسٹر آف کاپی پیسٹنگ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،،،ماسٹر آف کاپی پیسٹنگ
ٹھیک ہے آپ نے اپنی غلطی کا اعتراف فرمالیا یہی بہت ہےمحترم -
مجھ سے یہاں یہ غلطی ہوئی کہ مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ جہاں "ا ل " کا استمعال ہوا ہے وہ خالص الله کی صفت ہے - باقی جس صفت کے ساتھ ا ل کا استمعال نہیں ہوا تو ایسی صفات کو قرآن میں الله نے اپنے لئے اور اپنے بندوں دونوں کے لئے استمعال کیا ہے- "عالم الغیب" میں ا ل اس بات کی نشاندہی کررہ ہے کہ کہ یہ صفت خالص الله کے لئے ہے -
باقی رؤف رحیم جیسی صفات صرف اپنے نام کے حساب سے مماثلت رکھتی ہیں - اپنی ہییت کے حساب سے الله اور اس کے بندوں کی صفات میں کوئی مماثلت نہیں - جیسے کہ سلفی صاحب نے بھی فرمایا کہ: "اور چند صفات میں صرف ناموں کا لفظی اشتراک ہے ۔حقیقت کا نہیں" - بندوں کی صفت محدود ہوتی ہے اور ازلی نہیں- اور الله کی صفت لامحدود ہے اور ازلی ہیں-
اگر بندوں کی صفات کو الله کی بیان کردہ صفت پر قیاس کرلیا جائے تو نمرود بھی (نعوزباللہ) زندہ کرنے والا اور موت دینے والا بن جاتا- جب ابراہیم علیہ سلام نے اس سے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندہ کرنے والا اور موت دینے والا ہے :تو اس پر اس (نمرود) نے کہا کہ یہ کام میں بھی کرسکتا ہوں-
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ سوره البقرہ ٢٥٨
کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس لیے کہ الله نے اسے سلطنت دی تھی جب ابراھیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں کہا ابراھیم نے بے شک الله سورج مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال- تب وہ کافر حیران رہ گیا اور الله بے انصافوں کی سیدھی راہ نہیں دکھاتا-
تو اس پر حضرت ابراہیم علیہ سلام نے نمرود کی نفی نہیں کی (کہ یہ صفت تو صرف الله کی ہے) کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اس (نمرود) کی یہ زندہ کرنے اور مارنے والی صفت عارضی اور محدود ہے- جب کہ الله کی صفت لا محدود اور ازلی ہے -اسی لئے انہوں نے نمرود کو چیلنج کیا کہ اگر تو اپنے رب ہونے کی یہ دلیل دے رہا ہے تو پھر سورج کو مغرب سے نکال لے- تا کہ ہم مان سکیں کہ تو واقعی رب قرار دیے جانے کے قابل ہے-
اہل بیت اطہار نے ایسا کچھ نہیں کیا لیکن کیا اہل بیت اطہار کے مخالفوں نےاہل بیت اطہار کے ساتھ کیا سلوک کیا اس کی ایک جھلک محدث لائبریری کی ایک کتاب جو کہ عمر بن عبد العزیز کی سیرت پر لکھی گئی ہے اس کے ایک صفحہ پڑھ لینے سے نظر آجائے گیکیا علی رضی اللہ عنہ اور حسن وحسین رضی اللہ عنھما نے کبھی نبی ﷺ کے اصحاب اور ازواج مطھرات کو برا بھلا کہا؟
اہل بیت اطہار نے ایسا کچھ نہیں کیا لیکن کیا اہل بیت اطہار کے مخالفوں نےاہل بیت اطہار کے ساتھ کیا سلوک کیا اس کی ایک جھلک محدث لائبریری کی ایک کتاب جو کہ عمر بن عبد العزیز کی سیرت پر لکھی گئی ہے اس کے ایک صفحہ پڑھ لینے سے نظر آجائے گی