• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم قراء ات اور قراء اتِ شاذہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم قراء ات اور قراء اتِ شاذہ

حافظ انس نضر مدنی​
ماہنامہ رشد کے مدیر اعلیٰ جناب حافظ انس مدنی حفظہ اللہ، شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کے اَرشد تلامذہ میں سے ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ امتیاز ہے کہ بیک وقت دو تخصُّصات کے حامل ہیں، جامعہ لاہورالاسلامیہ کے کلِّیۃ القرآن الکریم کے اَوّلین خرّیجین میں سے ہیں، جبکہ مدینہ منورہ یونیورسٹی کے کلِّیۃ الشریعۃ سے درجہ امتیاز مع الشرف کے ساتھ سند ِفضیلت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ عرصہ پانچ سال سے جامعہ پنجاب میں’ حمید الدین فراہی کے اُصول تفسیر‘ پر پی ایچ ڈی کے طالبعلم ہیں۔ آپ نے پنجاب یونیورسٹی میں دوران ِتعلیم زیر نظر مقالہ کو ایک تحقیقی اسائنمنٹ کے طور پر ترتیب دیا تھا، جسے قبل ازیں ماہنامہ رشد کے نومبر؍دسمبر۲۰۰۷ء کے مشترکہ شمارے میں شائع کیا جاچکا ہے۔ موضوع پرایک جامع اور مفید تحریرہونے کی وجہ سے رشد’قراء ت نمبر‘ میں اُسے دوبارہ شائع کیا جارہاہے۔ یادر ہے کہ ماضی قریب میں کلِّیۃ الشریعۃ، جامعہ لاہور الاسلامیہ، لاہور کے فاضل اور مجلس التحقیق الاسلامی کے سابق رکن جناب پروفیسر مولانا محمد اسلم صدیق حفظہ اللہ نے ’قرا ء ات شاذہ اور ان کے تفسیر وفقہ پر اثرات‘ کے عنوان سے ایک گراں قدر مقالہ لکھ کرپنجاب یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی تھی۔ مقالہ مذکور کے بہترین مقالہ جات کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی نے اِسے کتابی صورت میں طبع کروایا ہے۔ زیر نظر موضوع کے جملہ پہلوؤں پر مطالعہ کے سلسلہ میں شائقین کو اس علمی کاوش کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ (اِدارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات سے مراد

’قراء ات‘، قراء ت کی جمع ہے جو قَرَأَ یَقْرَأُ قِرَاءَ ۃً کا مصدر سماعی ہے، اس کا معنی تلاوت یعنی پڑھنا ہوتاہے۔قراء کی اصطلاح میں ’قراء ات‘ کی تعریف یہ کی جاتی ہے: علمٌ بکیفیۃ أدآئِ کَلِمات القرْاٰن واختلافِہا مَعزُوّ لِناقِلہ۔
’’کلماتِ قرآنِ کریم کے ردّ وبدل (اختلاف) جس کی نسبت اس کے ناقل کی طرف ہو اور اَدا کی کیفیت کے متعلق علم کا نام ’علم قراء ات‘ ہے۔‘‘
یہ تعریف امام ابن جزری رحمہ اللہ کی ہے، بعض قرا نے ’قراء ات‘ کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے:
مَذہبٌ مِن مذاہبِ النّطق في القرآنِ، یَذہَب بہ إمامٌ من الأئمّۃ القُرّآئِ مذہباً یُخالِف غیرَہٗ في النّطقِ بالقرآن الکریم، وہِي ثابتۃٌ بأسانیدہا إلیٰ رسول اﷲ ﷺ۔
’’قراء اتِ قرآنیہ، قرآن کریم کے نطق کے مذاہب میں ایک ایسا مذہب ہیں جن کو معروف قرا میں سے کوئی ایک قاری اختیار کرتا ہے اور اس میں وہ دوسرے قرا کے نطق کی مخالفت کرتا ہے، لیکن وہ تمام مذاہب اللہ کے رسول ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم قراء ات کا اِرتقا

جب خلیفۂ ثالث جامع ِقرآن سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صحابہ کرام] مختلف شہروں میں پھیل گئے اور ہر ایک صرف اسی کو قرآن سمجھنے لگا جو اس نے رسول کریمﷺ سے بالمشافہ سنا تھا، لوگوں میں قراء ات کے متعلق اختلاف بڑھ گیا، ہر شخص اپنی قراء ت کو ہی صحیح اور دوسروں کی قراء ت کو غلط کہنے لگا تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سخت پریشان ہوگئے۔ پھر جب سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ غزوہ اَرمینیہ سے لوٹے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اہل ِشام اور عراق میں قراء ات کے مختلف اختلاف کی خبر دی تو عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور ان سے اس بارے میں مشورہ کیا۔ سب نے یہ مشورہ دیا کہ تمام لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیا جائے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اُم المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے وہ مصحف منگوایا جو خلیفۂ اَوّل سیدنا اَبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لکھا گیا تھا اور پھر ان کی وفات کے بعد خلیفۂ ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور اُن سے اُم المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا تک پہنچ چکا تھا، تاکہ وہ جمع ِقرآن کی اساس اور بنیاد بنے اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں قرا کی ایک جماعت کو حکم دیا کہ وہ تمام قراء اتِ قرآنیہ متواترہ کو اُم المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے مصحف کی روشنی میں مصاحف میں لکھیں۔ قرا کی جماعت نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق تمام قرآن کریم کو اس کی قراء ات کے ساتھ جمع کیا۔ جن مقامات پر ایک ہی رسم سے سب قراء تیں نکل سکتی تھیں وہاں سب کا رسم ایک ہی رکھا اور ان مصاحف کو نقطوں اور حرکات سے مجرد کر دیا تاکہ تمام قراء اتِ متواترہ ان مصاحف میں آجائیں۔
اِمام شاطبی رحمہ اللہ علم الرسم میں اپنی معروف کتاب ’قصیدہ رائیہ‘ میں فرماتے ہیں:
فَقَام فِیہِ بِعَونِ اﷲِ یَجْمَعُہٗ
بِالنُّصْح وَالْجِدِّ وَالْحَزْمِ الَّذِی بَہَرَا

مِنْ کُلِّ أَوْجُہِہٖ حَتَّیٰ اسْتَتَمَّ لَہٗ
بِالأَحْرُفِ السَّبْعَۃِ الْعُلْیَا کَمَا اشْتَہَرَا

فَجَرَّدُوہُ کَمَا یَہْوَیٰ کِتَابَتَہٗ
مَا فِیہِ شَکْلٌ وَلَا نَقْطٌ فَیَحْتَجِرَا​

’’پس زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس کام کیلئے مستعد ہوگئے اور وہ قرآن کو اس کی تمام وجوہ سمیت اخلاص، پوری کوشش اور احتیاط سے جمع کررہے تھے حتیٰ کہ وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کیلئے ان سات حروف کے ساتھ پورا ہو گیا جو بلند ہیں جیسا کہ وہ مشہور ہیں (یعنی مشہور حدیث میں آیا ہے کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے)۔ پس اس جماعت نے اس کو حرکتوں اور نقطوں سے خالی کر دیا جیسا کہ عثمان رضی اللہ عنہ اس کی کتابت چاہتے تھے تاکہ یہ (نقاط اور حرکات) روک نہ دیں (یعنی باقی قراء ات کے اس رسم میں داخل ہونے کو)۔‘‘
پھر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان مصاحف کو مشہور قرائے کرام کے ساتھ مختلف علاقوں میں بھیج کر باقی تمام مصاحف جلانے کا حکم دے دیا ۔ تمام علاقے والے اپنے اپنے مصحف اور اس کے ساتھ آنے والے قاری سے قرآن کریم سیکھتے رہے یہاں تک کہ ان مشہور ومعروف قرائے سبعہ کا زمانہ آگیا جنہوں نے صرف قرآن کریم کی خدمت اور اس کی نشر واشاعت کیلئے اپنے آپ کو مخصوص کرلیا۔
متواتر اَحادیث سے ثابت ہے کہ قرآن کریم اللہ کے رسول ﷺ پر سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ سے بالمشافہہ قرآن کریم سیکھا۔ کسی نے ایک حرف کے مطابق، کسی نے دو کے مطابق جبکہ بعض نے دو سے زیادہ حروف کے مطابق۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مختلف شہروں میں پھیل گئے اور اُنہوں نے جس جس طریقہ سے آپ سے سیکھا تھا، اسی طریقہ سے قرآن کریم کو پڑھانا اور سیکھانا شروع کر دیا۔ اس طرح تابعین عظام رحمہم اللہ نے ان سے یہ حروف سیکھے اور اُن سے تبع تابعین نے اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ معاملہ ان معروف ومشہور قرائے سبعہ تک پہنچ گیا جو صرف قرآنِ کریم کی خدمت اور نشر واِشاعت کیلئے مختص ہوگئے تھے۔ ۴ ؎
واضح رہے کہ قرآنِ کریم اور قراء ات کی اصل اساس نہ تو مصاحف ِعثمانیہ ہیں اور نہ ہی کبھی ہو سکتے ہیں بلکہ ان کی بنیاد اُستاد کے منہ سے بالمشافہ اَخذ وتلقّی پر ہے حتیٰ کہ اس کی سند رسول اللہﷺ سے ہو کر اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائے۔ مصاحف ِعثمانیہ ایک لحاظ سے کتاب اللہ کیلئے مسلمانوں کا جامع مرجع ہیں اور وہ بھی صرف ان معاملات میں جن پر وہ دلالت اور جن کی وہ تعیین کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو قراء ت بھی ان مصاحف ِعثمانیہ کی رسم کے احاطہ میں نہیں آتی وہ قرآن نہیں بلکہ وہ شاذ قراء ت ہوگی۔
اگر مصاحف ِعثمانیہ کو ہی قراء ات کی اَصل بنیاد قرار دے دیا جائے تو یہ لازم آئے گا کہ ان مصاحف کی رسم کے مطابق قرآنی لفظ کو جیسے بھی پڑھ لیں تو وہ قرآن ہے حالانکہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہ قرآن نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآنِ کریم اور علم قراء ات

قرآن کریم اور قراء ات دونوں حقیقت ہیں، اور ایک چیز نہیں بلکہ باہم متغیر ہیں۔ ان میں یہ فرق بیان کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جو محمدﷺ پر اعجاز اور بیان کیلئے نازل ہوا جبکہ علم قراء ات: مذکورہ کلام کے الفاظ کے حروف اور کیفیات کے اختلاف کا علم ہے۔
علمائے کرام نے قراء اتِ قرآنیہ پڑھنے، پڑھانے کیلئے تین بڑی شرطیں بیان کی ہیں:
٭ اس کو فقہ اسلامی کا کم از کم اتنا علم ہو کہ وہ اپنے دین کے لازمی اُمور پر صحیح طور پر عمل کر سکے۔
٭ اس کو اُصولِ فقہ کا اتنا علم ہو کہ وہ قراء ات کے متعلق شبہات پیدا کرنے والوں کا ردّ کر سکے اور مخالف پر حجت قائم کر سکے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اسے قواعد ِاُصولیہ کی معرفت حاصل ہو۔
٭ نحو و صرف کا اتنا علم ہو کہ ہر قراء ت کی توجیہ کر سکے، اس کیلئے ضروری ہے کہ اسے معرب، مبنی اور اشتقاق کے قواعد معلوم ہوں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سلف صالحین میں معروف قرا ئے کرام

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں درج ذیل قرا بہت معروف ہوئے:
مہاجرین میں سے: سیدنا عثمان بن عفان، علی بن اَبی طالب ، عبد اللہ بن مسعود ، سالم مولیٰ اَبی حذیفہ ، حذیفہ بن یمان ، عبد اللہ بن عباس ، عبد اللہ بن عمر ، زبیر بن عوام، معاویہ بن اَبی سفیان وغیرہم رضی اللہ عنہم ، جبکہ انصار میں سے: سیدنا اُبی بن کعب ، معاذ بن جبل ، زید بن ثابت ، اَبو الدردا ، اَبو موسیٰ اشعری وغیرہم رضی اللہ عنہم
تابعین میں سے جو قرائے کرام بہت معروف ہوئے وہ درج ذیل ہیں:
مدینہ نبویہ سے: سیدنا سعید بن مسیب، مسلم بن جندب، ابن شہاب الزہری، عبد الرحمن بن ہرمز (اَعرج)، معاذ ابن الحارث جو معاذ القاری کے نام سے مشہور ہیں، مکہ مکرمہ سے: عطا بن رباح، طائوس بن کیسان الیمانی، عبد اللہ ابن اَبی ملیکہ، بصرہ سے: اَبو العالیہ ریاحی، اَبو رجا عطاردی، نصر بن عاصم، یحییٰ بن یعمر، حسن بصری، محمد بن سیرین، قتادۃ بن دعامہ، کوفہ سے: علقمہ بن اسود، اسود بن یزید نخعی، مسروق بن اَجدع، عبیدہ بن عمرو سلمانی، عمرو بن شرحبیل، ربیع بن خیثم، حارث بن قیس اور شام سے: مغیرۃ بن شہاب مخزومی صاحب مصحف ِعثمان، اَبو بحریہ عبد اللہ بن قیس حمصی، یحییٰ بن حارث الذماری، عطیہ بن قیس وغیرہم رحمہم اللہ
درجِ بالا قرائے کرام وہ ہیں جن کا مشغلہ قرآنِ کریم کی تعلیم و نشر واِشاعت بھی تھا اور دوسرے علوم بھی۔ کچھ علما ایسے بھی تھے جنہوں نے خود کو علم قراء ات کی حفاظت اور نشر واشاعت کیلئے مختص کر لیا تھا، ان قرائے کرام کے نام درج ذیل ہیں:
مدینہ نبویہ سے: اَبو جعفر یزید بن قعقاع، شیبہ بن نصاح، نافع بن اَبی نعیم، مکہ مکرمہ سے: عبد اللہ بن کثیر، حمید بن قیس اَعرج، محمد بن محیصن، بصرہ سے: عبد اللہ بن اَبی اسحاق، عیسیٰ بن عمرو، اَبو عمرو بن العلا، عاصم جحدری، یعقوب حضرمی، کوفہ سے: یحییٰ بن وثاب، عاصم بن اَبن نجود، سلیمان اعمش، اَبو عمارہ حمزہ بن حبیب، علی بن حمزہ کسائی، جبکہ شام سے: عبد اللہ بن عامر، عطیہ بن قیس کلابی، اسمٰعیل بن عبد اللہ بن مہاجر، یحییٰ بن حارث ذماری اور شریح بن یزید حضرمی وغیرہم رحمہم اللہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات، روایات اور طرق میں فرق

قرآنِ کریم کی کل قراء اتِ متواترہ دس معروف قرائے کرام سے منقول ہیں، ان میں سے ہر قاری کے دو دو راوی اور ہر راوی کے کئی شاگرد ہیں جن کو طریق کہا جاتا ہے ۔ کل رواۃ بیس جبکہ کل طرق اَسی ہیں۔ اور یہ تمام طرق صحیح ہیں جن پر علمائے قراء ات کا اتفاق ہے۔
یہ وہ روایات اور طرق ہیں جو اَبو عمرو دانی رحمہ اللہ کی التیسیر اور امام شاطبی رحمہ اللہ نے حرز الامانی میں ذکر کیے ہیں، لیکن قراء اتِ سبعہ وعشرہ کی صرف وہ وجوہ ہی صحیح نہیں جو التیسیر اور شاطبیہ وغیرہ میں منقول ہیں، بلکہ یہ تو مختصر کتابیں ہیں جن میں ان قرائے کرام کے صرف دو دو راوی بیان کئے گئے ہیں حالانکہ ان اماموں نے تقریباً ۷۵ سال سے ۹۹ سال تک عمریں پائی ہیں اور ہر ایک نے قرآنِ کریم کی خدمت میں ساٹھ برس سے زیادہ صرف کئے ہیں۔ تذکروں اور طبقات سے معلوم ہوتا ہے کہ روزانہ بیشمار طلبہ ان کے دروس میں شریک ہوتے تھے۔ امام نافع رحمہ اللہ فجر سے پہلے پڑھانا شروع کرکے عشا تک برابر پڑھاتے رہتے تھے، ہر شخص کیلئے تیس آیتوں کا وقت مقرر تھا، بڑی کوشش پر ورش رحمہ اللہ کو تہجد کے بعد زیادہ وقت ملا تھا۔ اِمام ابو عمرورحمہ اللہ کے گرد طلبہ کا زیادہ مجمع دیکھ کر سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ نے تعجب سے کہا تھا کہ کیا علما اَرباب بن گئے؟ امام عاصم رحمہ اللہ سے پڑھنے کا موقع مشکل سے ملتا تھا۔ امام علی کسائی رحمہ اللہ سے دَور اور قراء ت کے طور پر پڑھنا نا ممکن ہو گیا تھا بلکہ طلبہ کی کثرت کی بنا پر دور بیٹھنے والوں کو شکل دیکھنی بھی دشوار تھی، اس لئے امام صاحب منبر پر بیٹھ کر خود پڑھتے تھے اور شائقین آپ سے قراء ت حاصل کرتے جاتے تھے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان قرائے کرام کے لازماً اور شاگرد بھی تھے جن کی روایات بھی متواتر و صحیح تھیں۔ التیسیر اور شاطبیہ وغیرہ میں اختصاراً صرف دو دو راوی مذکور ہیں۔
قاری فتح محمد رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’پانچویں صدی کے شروع تک قراء اتِ سبعہ اکثر مشہور طرق ورِوایات کے ساتھ پڑھی اور پڑھائی جاتی تھیں، چنانچہ علامہ دانی رحمہ اللہ نے جامع البیان میں پانچ سو روایات اور طرق بیان کئے ہیں۔ پھر ہمتیں گھٹ گئیں اور طلبہ مزید اختصار کی درخواست کرنے لگے تو علامہ دانی رحمہ اللہ نے تیسیر لکھی اور اس میں ہر امام سے فقط دو دو رواتیں بیان کیں تاکہ طلبہ آسانی سے یاد کر سکیں۔ پھر علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے تیسیر کو نظم کرکے اس کی روایات اور طرق کو چار چاند لگا دئیے اور یہ تمام عالم میں مشہور ہوگئیں۔ جن قراء توں کا رواج کم ہوتا گیا وہ ختم ہوتی گئیں۔ اسی طرح سبعہ کے بعد کی تین قراء تیں بھی غائب ہوجاتیں لیکن حق سبحانہ وتعالیٰ نے اَئمہ کرام ابن مہران، ابن غلبون، ابن شیطا اہوازی، ابو العلا اور محقق ابن جزری رحمہم اللہ کو توفیق عطا فرمائی اور وہ ان کے پڑھنے وپڑھانے اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہے اور اہل ِمصر بھی خدمت کرتے رہے، اس لئے یہ بھی محفوظ ہوگئیں۔ قرائے سبعہ کی باقی روایات التیسیر کے بعد ختم ہوگئیں۔ سبعہ کی یہ روایات اور ان سے پہلے اِماموں کی قراء ات اس لئے غائب نہیں ہوئیں کہ وہ شاذ تھیں بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ علما فوت ہوگئے اور علم ان کے ساتھ چلا گیا۔ آئندہ کوئی جانشین نہیں بنا، اب اُمت کے پاس صرف دس متواتر قراء تیں اور ان کی دو دو روایتیں باقی ہیں ۔ ان کے علاوہ چار قراء تیں اور ہیں جو صرف کتابوں میں درج ہیں، پڑھی پڑھائی نہیں جاتیں، دس قراء تیں پڑھی جاتی ہیں۔ یہ بھی یاد رَہے کہ کوئی قراء ت اَول سے آخر تک شاذ نہیں ہوتی بلکہ ہر ایک قراء ت کی وہی وجوہ شاذ ہوتی ہیں جو ضابطۂ قراء ت کے خلاف ہوں۔
اِمام اَبو حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان اماموں کے زمانے میں قراء ت کے نقل کرنے والے اور اختیار کرنے والے بے شمار تھے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ علم کم ہوجائے، پڑھانے والوں نے جب لوگوں میں سستی اور ان کی ہمتوں میں قصور اور فتور دیکھا تو پہلے سبعہ پر پھر ان میں سے بھی قلیل حصے پر اکتفا کر لیا۔
تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان قرا کے دو دو راویوں کے علاوہ اور بھی رواۃ ہیں اور ان کی روایات بھی متواتر وصحیح ہو سکتی ہیں۔ واللہ اعلم
اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ قراء ت، روایت اور طرق کا فرق کیا ہے تو اختلاف کی نسبت اگر امام کی طرف ہو تو اسے قراء ت، اگر راوی کی طرف ہو تو اُسے روایت اور اگر راوی کے شاگرد کی طرف نسبت ہو تو وہ طریق ہے۔ راوی کے شاگرد کو طریق کہتے ہیں خواہ یہ خود راوی کا شاگرد ہو یا اس کے شاگرد کا شاگرد ہو، غرض اس کے سلسلۂ تلامذہ میں داخل ہو ۔
مثلاً دو سورتوں کے درمیان بسم اللہ پڑھنا امام ابن کثیررحمہ اللہ کی قراء ت اور امام قالون کی روایت جبکہ اَبو عدی کا طریق ہے ابن سیف سے، جس کو اُنہوں نے ازرق سے اور ازرق نے امام ورش رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات کی تعداد

جب ہم علم قراء ات کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اکثر ملتا ہے کہ قرائے سبع، قرائے عشر، قرائے اَربعہ عشر۔سوال پیدا ہوتا کہ کیا قراء اتِ متواترہ کی تعداد ان قرا یا ان میں سے بعض قرا میں منحصر ہے یا پھر ان قرائے کرام کے علاوہ کی قراء ات بھی متواتر ہو سکتی ہیں؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ علماء کاقراء ات سبعہ اور عشرہ کی صحت پر اجماع ہے۔
اور ان کے علاوہ کی قراء ات کے بارے میں امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی شخص آج قراء اتِ عشر کے علاوہ ایک نئی قراء ت دریافت کرے اور کہے کہ یہ متواتر ہے تو یہ نا ممکن ہے لیکن صدورِ اوّل میں ممکن ہے کہ کوئی ایسی متواتر قراء ت بھی ہو جو قرائے عشر کی قراء ات کی علاوہ ہو۔‘‘
صاحب مناہل العرفان شیخ زرقانی رحمہ اللہ اس مسئلہ کو کچھ تفصیل سے ڈسکس کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’چار قراء توں (یعنی وہ قراء ات جو قراء اتِ عشرہ کے علاوہ ہیں یعنی امام حسن بصری، ابن محیصن، یحییٰ یزیدی اور الاعمش رحمہم اللہ کی قراء ات) میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض متواتر ہیں، بعض کہتے ہیں کہ وہ صحیح ہیں اور بعض کے نزدیک وہ شاذ ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ شخصیات اور عدد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ قراء ات ِصحیحہ کا ایک ضابطہ ہے ۔ پس جس قراء ت میں بھی تین رُکن پورے ہو جائیں وہ قراء تِ مقبولہ ہے اور اگر تین رکن پورے نہیں ہوتے تو وہ مردودہے، اس معاملہ میں قراء اتِ سبعہ، عشرہ، اَربعہ عشر اور ان کے علاوہ قراء ات میں کوئی فرق نہیں ۔ پس ہر قراء ت کیلئے ایک ہی میزان ہے جس کی اتباع کی جانی چاہئے۔ ‘‘
شیخ زرقانی رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ شخصیات اور عدد کا مسئلہ نہیں یعنی یہ نہیں کہ قراء اتِ سبعہ صحیح ہیں یا قراء اتِ عشرہ صحیح ہیں یا ائمہ نافع ؒ، ابن کثیرؒ ، ابن عامرؒ اور عاصمؒ وغیرہ کی قراء ت صحیح ہے بلکہ اصل مسئلہ ضابطے کا ہے جو علماء نے مقرر کیا ہے یعنی اگر کسی قراء ت میں تینوں ارکان پائے جائیں گے تو وہ قراء ت صحیحہ ومقبولہ ہوگی ورنہ نہیں۔
تو معلوم ہوا کہ قراء ات کی تعداد محدود نہیں بلکہ جو قراء ت بھی معروف تین ارکان، جن کی تفصیل آگے آ رہی ہے، پر پورا اُترے وہ صحیح قراء ت ہے اور اس کی بطور قرآن کریم تلاوت جائز ہے۔ واللہ اعلم
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات کی اَقسام

عرفِ عام میں عموماً قراء ات کی دو مشہور قسمیں ذکر کی جاتی ہیں: (۱) قراء اتِ متواترہ (۲) قراء اتِ شاذہ
قراء اتِ متواترہ سے مراد وہ صحیح اور مقبول قراء ات مراد لی جاتی ہیں جو نبی کریم ﷺ سے بطریق ِتواتر مروی ہوں اور عربی قواعد ورسم عثمانی کے موافق ہوں۔ صرف انہی کی تلاوت جائز ہے۔
قراء اتِ شاذہ سے مراد ضعیف سند والی قراء ات ہیں یا پھر وہ قراء ا ت جو عربی قواعد اور رسم عثمانی کے موافق نہ ہوں۔
علمائے قراء ات نے قراء ات کی اقسام کو تفصیل سے ذکر کیا ہے، اِمام اَبو محمد مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قراء ات کی کل تین اقسام ہیں:
٭ وہ قراء ت جس میں تینوں اَرکان پائے جائیں یعنی وہ ثقات سے مروی ہو، عربی قواعد اور رسم عثمانی کے موافق ہو۔
٭ جو خبر واحد سے مروی ہو، عربی قواعد کے موافق ہو اور رسم عثمانی کے مخالف ہو۔ اس کو بطور قرآن نہیں پڑھا جا سکتا۔
٭ جو کسی غیر ثقہ راوی سے مروی ہو یا پھر ثقہ سے مروی ہو لیکن عربی قواعد کے خلاف ہو تو اس کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ رسم عثمانی کے موافق بھی ہو۔
امام ابن جزری رحمہ اللہ نے قراء ات کی پانچ اور امام سیوطی رحمہ اللہ نے چھ اَقسام بیان کی ہیں جو درج ذیل ہیں:
(١) متواتر: وہ قراء ات ہیں جن میں درج ذیل تین شرطیں پائی جائیں:
٭ اس کو ایسی جماعت نے روایت کیا ہو جن کا جھوٹ پر جمع ہونا ممکن نہ ہو۔ اور یہ تواتر ہر طبقے میں پایا جاتا ہو حتیٰ کہ سند رسولِ اکرمﷺ تک پہنچ جائے ۔
٭ وہ قراء ت عربی قواعد کے ساتھ موافق ہو اگرچہ کسی ایک وجہ کے ساتھ ہی ہو۔ جیسے امام حمزہ کی قراء ت ’’ وَاتَّقُوا اﷲَ الَّذِی تَسآئَ لُونَ بِہٖ وَالْاَرْحَامِ ‘‘ (النّساء: ۱) میم کے جر کے ساتھ ہے جو متفق علیہ عربی قاعدے مطابق نہیں بلکہ ایک مختلف فیہ قاعدے کے مطابق ہے۔
٭ مصاحف ِ عثمانیہ میں سے کسی مصحف کی رسم کے موافق ہو اگرچہ تقدیراً ہی کیوں نہ ہو۔ اکثر قراء اتِ متواترہ تمام مصاحف کی رسم کے مطابق ہیں لیکن بعض ایسی بھی ہیں تو تمام مصاحف کی رسم کے مطابق نہیں بلکہ کسی ایک مصحف کی رسم کے مطابق ہیں۔ مثلاً ابن کثیر کی قراء ت ’’ جَنّٰتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِہَا الاَنْہٰرُ ‘‘ (التّوبۃ: ۱۰۰) مِنْ کی زیادتی کے ساتھ، مصحف ِمکی کے علاوہ کسی اور مصحف میں مِن کی زیادتی نہیں۔ اور تقدیراً مصحف کے موافق ہونے کی مثال امام عاصم وغیرہ کی قراء ت ’’ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّینِ ‘‘ (الفاتحۃ: ۴) الف کے ساتھ، حالانکہ تمام مصاحف میں ملِکِ بغیر الف کے لکھا ہوا ہے ۔
(٢) مشہور: وہ قراء ات جو اگرچہ تواتر کے درجہ کو نہ پہنچیں لیکن ان کی اسناد صحیح اور قرائے کرام کے ہاں مشہور ومعروف ہوں، نیز وہ عربی قواعد اور رسم عثمانی کے موافق بھی ہوں ۔ ایسی قراء تیں، متواتر قراء ات کے ساتھ ملحق ہیں اور ان کو علما نے نہ غلط قراء ات میں شمار کیا ہے اور نہ ہی شاذ میں۔ ان قراء ات کو بھی ، بقول امام ابن جزری اور ابو شامہ رحمہمااللہ بطور قرآن پڑھا جا سکتا ہے۔ مثلاً امام ابن عامر کے راوی ابن ذکوان سے ’’ وَلَا تَتَّبِعَانِ ‘‘ نون کی تخفیف کے ساتھ مروی ہے، امام ابن عامر ہی کے راوی ہشام کی قراء ت ’’ الاَفْیِدَۃ ‘‘ اور امام ابن کثیر کے راوی قُنبُل کی قراء ت ’’ عَلَیٰ سُؤقِہٖ ‘‘ ہے اور اسی طرح وہ تسہیلیں اور امالے جو ایک یا دو کتابوں کے علاوہ کسی اور کتاب میں موجود نہیں۔ مدات میں قرا کے مراتب بھی اسی قبیل سے ہیں۔
محقق ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ اور اس جیسی دیگر چیزیں اگرچہ متواتر نہیں لیکن یہ صحیح اور قطعی ہیں اور متواترکے ساتھ ملحق ہیں اور ہمارا اعتقاد ہے کہ یہ قرآن سے ہیں اور ان سات حروف سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نازِل فرمایا ہے کیونکہ اگر کوئی عادل اور ضابط جب کسی ایسی قراء ت میں منفرد ہو جو عربی قواعد اور رسم عثمانی کے موافق ہو اور وہ مشہور ہو اور اسے تلقی بالقبول بھی حاصل ہو تو وہ قطعی ہو جاتی ہے اور اس سے علم یقین حاصل ہوتا ہے … اسی کو محدثین کرام حدیث میں تلقی بالقبول کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے علم یقین حاصل ہوتا ہے۔ امام ابن صلاح رحمہ اللہ نے ’مقدمہ‘ میں اس موضوع پر تفصیلی بحث کی ہے اور ان کا خیال ہے کہ یہ بات (یعنی وہ روایات جو آحاد ہوں لیکن صحیح ہوں اور مشہور ہوجائیں تو وہ تواتر کے قائم مقام ہوتی ہیں اور ان سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے) ان سے پہلے کسی نے نہیں کہی، حالانکہ اَبو اسحق شیرازی نے اس بات کو اللمع في أصول الفقہ میں ذکر کیا ہے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بات کو ائمہ کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے جن میں قاضی عبد الوہاب مالکی، شافعیہ میں سے شیخ اَبو حامد اسفرائینی، قاضی اَبو طیب طبری، ابو اسحق شیرازی اور حنابلہ میں سے ابن حامد، اَبو یعلی بن فراء، اَبو خطاب، ابن زاغونی اور احناف میں سے شمس الائمہ سرخسی رحمہم اللہ شامل ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہی مذہب اشاعرہ میں سے اہل کلام مثلاً ابو اسحق اسفرائینی اور ابن فورک وغیرہ کا ہے، اور اہل الحدیث اور عام سلف کا یہی مذہب ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) آحاد: وہ قراء ات جن کی سند تو صحیح ہو لیکن وہ رسم عثمانی یا عربی قواعد کے خلاف ہوں، یا وہ قراء ات جن کی سند متواتر یا مشہور نہ ہو۔ انہیں قراء اتِ شاذہ کہا جاتا ہے، بطورِ قرآن ان کی تلاوت جائز نہیں۔ امام ترمذی رحمہما اللہ نے اپنی جامع میں اور امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی مستدرک میں باب قائم کر کے اس قسم کی بہت سی صحیح الاسناد آحاد قراء ات روایت کی ہیں۔ مثلاً مستدرک حاکم میں سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے پڑھا: (مُتَّکِئِینَ عَلَیٰ رَفَارِف خُضْرٍ وَعَبَاقَرِي حِسَان)، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے پڑھا: (لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفَسِکُم) فاء کے زبر کے ساتھ۔ اسی طرح صحیحین وغیرہ میں سیدنا عمر فاروق، ابن مسعود اور اَبو الدرداء رضی اللہ عنہم سے بعض قراء تیں کچھ زیادتی اور کچھ کمی اور بعض کلمات کی تقدیم وتاخیر کے ساتھ منقول ہیں۔ سیدنا ابن مسعود اور ابو الدردا رضی اللہ عنہ سے ’’ وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالاُنْثَیٰ ‘‘ (اللیل: ۳) کی بجائے (وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثَیٰ) مروی ہے۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے پڑھا (غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَغَیْرِ الضَّالِینَ)
(٤) شاذ: وہ قراء ات جن کی سند صحیح نہ ہو … جیسے کہ (مَلَکَ یَوْمَ الدِّینِ) صیغۂ ماضی اور یَوْمَ کے نصب کے ساتھ، (إِیَّاکَ یُعْبَد)، ابن السمیفع کی قراء ت (فَالْیَوْمَ نُنَحِّیکَ بِبَدَنِکَ) جیم کی بجائے حاء کے ساتھ اور (لتَکُونَ لِمَنْ خَلَفَکَ ئَ ایَۃً) (یونس: ۹۲) لام کے فتح کے ساتھ۔
(٥) موضوع: وہ قراء ات جو اپنے قائل کی طرف بغیر کسی اصل اور سند کے منسوب ہوں۔ جیسے محمد بن جعفر خزاعی کی قراء ات ہیں جن کو اُس نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا ہے۔
(٦) مدرج: وہ قراء ات جن میں راوی کی طرف سے تفسیراً کچھ اِضافہ کر دیا گیا ہو۔ جیسے سیدنا سعد بن اَبی وقاص رضی اللہ عنہ کی قراء ت (وَلَہٗ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ مِنْ أُمٍ) (النساء: ۱۲) ہے، یہ صحیح بخاری میں موجود ہے۔ سیدنا ابن زُبیررضی اللہ عنہ کی قراء ت (وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیَسْتَعِینُونَ بِاﷲِ عَلَیٰ مَا أَصَابَہُمْ) (آل عمران: ۱۰۴) ہے، عمرو کہتے ہیں مجھے علم نہیں کہ یہ ان کی قراء ت تھی یا اُنہوں نے تفسیر بیان کی تھی، اسے امام سعید بن منصور اور انباری رحمہما اللہ نے روایت کیا ہے اور امام انباری رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ یہ تفسیر تھی۔ ان کو مدرج اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مدرج اَحادیث سے ملتی جلتی قراء ات ہیں۔
قراء ات کی یہ اَنواع امام سیوطی رحمہ اللہ نے امام ابن جزری رحمہ اللہ سے نقل کی ہیں اور وہ فرماتے ہیں کہ امام ابن جزری رحمہما اللہ نے پانچ انواع بیان فرمائی ہیں، چھٹی نوع قراء ات کے تتبع کے بعد میرا اپنا اضافہ ہے۔
قراء ات کی ان چھ اقسام میں سے پہلی دو قسمیں صحیح اور متواتر قراء ات کے ساتھ ملحق ہیں اور ان کو بطور قرآن پڑھا جا سکتا ہے۔ جہاں تک آخری چار اقسام ہیں تو ان سب کو اصطلاحاً قراء اتِ شاذہ کہتے ہیں، ان کو بطور قرآن نہیں پڑھا جا سکتا اور نہ ہی نماز میں ان کی قراء ت جائز ہے۔ البتہ تیسری قسم یعنی آحاد قراء ات جو اگرچہ قراء اتِ شاذہ میں شامل ہے لیکن بعض علما اسے نماز میں پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شاذ قراء ت سے مراد

شاذ، شَذَّ الرَّجُلُ شُذُوذًا سے ہے، جس کا معنی ہے کسی قوم اور جماعت سے الگ ہونا۔ ابن منظوررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس لفظ میں بھی (ش ذ ذ) کے حروف ہوں تو اسمیں انفرادیت کا معنی پایا جاتا ہے اور شَذَّ الرَّجُلُ اس وقت بولتے ہیں جب کوئی شخص اپنے ساتھیوں سے منفرد ہو جائے اور ہر منفرد کو شاذ کہتے ہیں۔
قراء تِ شاذہ کے بارے میں ہمیں مختلف اصطلاحی تعریفیں ملتی ہیں۔
بعض علما فرماتے ہیں کہ ’شاذ‘ سے مراد وہ قراء ت ہے جو عربی قواعد کے موافق ہو اور اس کی سند صحیح ہو، لیکن وہ رسم عثمانی کے مخالف ہو۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر وہ قراء ت شاذ ہے جو قراء اتِ عشر کے علاوہ ہو۔
اس تعریف پر علماء نے اعتراض کیا ہے۔ چنانچہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ قراء ت جو خبرو احد سے منقول ہو، کیا وہ قرآن ہے یا نہیں؟ تو کہا جاتا ہے کہ جو متواتر نہیں وہ قرآن بھی نہیں۔ علمائے اُصول بھی کہتے ہیں کہ قراء اتِ سبعہ وعشرہ ساری کی ساری متواتر ہیں، جبکہ معاملہ ایسا نہیں بلکہ قراء اتِ سبعہ وعشرہ میں سے ہر قراء ت بطور خبر واحد ہی نقل ہوئی ہے (خبر واحد نقل ہونے سے نواب صاحب کی مراد وہ قراء ات ہیں جو آحاد کی طرف منسوب ہو گئی ہیں جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ امام ابن کثیرؒ کی قراء ت، امام ابو عمرو بصریؒ کی قراء ت وغیرہ وغیرہ) اور قرا کی ایک جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان میں سے بعض متواتر ہیں اور بعض آحاد۔ بلکہ قرائے کرام میں سے کوئی بھی تمام کی تمام قراء اتِ سبع کو متواتر نہیں کہتا، کجا یہ کہ قراء اتِ عشرہ کے بارے میں کہا جائے کہ یہ ساری کی ساری متواتر ہیں … المختصر ہر وہ قراء ت جو مصاحف میں موجود ہو اور مشہور قرا نے اس پر اتفاق کیا ہو تو وہ قرآن ہے اور جس میں ان کا اختلاف ہے تو اگر وہ قراء ات رسم عثمانی اور معنی عربی کے موافق ہیں تو قرآن ہیں اور اگر بعض رسم عثمانی کے موافق نہیں تو اگر تو انکی سند صحیح ہے اور وہ معنی عربی کے بھی موافق ہیں تو وہ ’قراء اتِ شاذہ‘ ہیں۔‘‘
نواب صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہر وہ قراء ت جو قراء اتِ عشر کے علاوہ ہو، شاذ ہوتی ہے بلکہ قراء اتِ عشر کے علاوہ بھی کچھ قراء ات ایسی ہو سکتی ہیں جو متواتر ہوں ۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر وہ قراء ت جوقراء اتِ عشر میں شامل ہے وہ متواتر ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم
امام سیوطی رحمہ اللہ قراء تِ شاذہ کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں :
’’قراء تِ شاذہ وہ قراء ت ہے جس کی سند صحیح نہ ہو۔‘‘
ابھی تک قراء تِ شاذہ کی تین تعریفیں سامنے آئی ہیں کہ ’قراء تِ شاذہ‘ وہ ہے جس میں معروف تین ارکان میں سے کوئی رُکن رہ جائے یا پھر جو قراء اتِ عشر کے علاوہ ہو یا پھر جس کی سند صحیح نہ ہو۔
جہاں تک دوسری تعریف (یعنی وہ قراء ت جو قراء ات عشر کے علاوہ ہو) کا تعلق ہے تو اس کا ردّ نواب صاحبؒ نے کر دیا ہے۔ جبکہ تیسری تعریف (وہ قراء ت جس کی سند صحیح نہ ہو) بھی صحیح نہیں، اس کا ردّ امام سیوطی رحمہ اللہ نے خود ہی دوسرے مقام پر کر دیا ہے، فرماتے ہیں:
’’شاذ قراء ت وہ ہے جو عربی وجوہ میں سے کسی وجہ سے مخالف ہو یا رسم عثمانی کی مخالف ہو یا اس کی سند صحیح نہ ہو۔‘‘
لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن علما نے قراء اتِ شاذہ ان قراء ات کو کہا ہے جو قرائے عشر کی قراء ات کے علاوہ ہیں یا وہ ہیں جن کی سند صحیح نہیں، تو ان کا قول غیر مسلم ہے۔ اور قراء اتِ شاذہ کی صحیح تعریف یہ ہوگی: ہر وہ قراء ت جس میں قراء تِ صحیحہ کے تینوں معروف اَرکان میں سے کوئی رکن رہ جائے تو وہ ’قراء تِ شاذہ‘ ہے۔ اس کی تائید ائمہ کے درج ذیل اَقوال سے بھی ہوتی ہے:
امام اَبو شامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر کسی قراء ت میں تین ارکان میں کوئی رکن رہ گیا تو وہ قراء تِ شاذہ ہوگی۔ یہی قول ابو محمد مکی بن ابی طالب اور امام سخاوی رحمہما اللہ کا ہے۔‘‘
اَبو شامہؒ فرماتے ہیں:
’’قراء تِ شاذہ وہ ہے جو بطور قرآن مروی ہو لیکن نہ وہ متواتر ہو اور نہ ہی مشہور ہو جسے پوری اُمت قبول کرے۔‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قراء اتِ صحیحہ مقبولہ صرف وہی ہیں جو قراء اتِ عشرہ میں ہیں یا ان کے علاوہ بھی کوئی قراء ت صحیح ومقبول ہو سکتی ہے؟
امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ممکن ہے کہ صدور اوّل میں کوئی ایسی متواتر قراء ت بھی ہو جو قرائے عشر کی قراء ات کی علاوہ ہو۔‘‘
شیخ زرقانی رحمہ اللہ صاحب مناہل العرفان اس مسئلہ کو تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حسن بصری، ابن محیصن، یحییٰ یزیدی اور اعمش کی قراء توں کے بارے میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض متواتر ہیں، بعض کہتے ہیں کہ وہ صحیح ہیں، اور بعض کہتے ہیں کہ وہ شاذ ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ شخصیات اور عدد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ قراء اتِ صحیحہ کا ایک ضابطہ ہے، پس جس قراء ت میں بھی تین رُکن پورے ہو جائیں وہ قراء ت مقبول ہے اور اگر تین رکن پورے نہیں ہوتے تو وہ مردود ہے، اس معاملہ میں قراء اتِ سبعہ، عشرہ، اربعہ عشر اور ان کے علاوہ قراء ات میں کوئی فرق نہیں ۔ پس ہر قراء ت کیلئے ایک ہی میزان ہے جس کی اتباع کی جانی چاہئے۔ ‘‘
شیخ زرقانی رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ شخصیات اور اعداد کا نہیں یعنی یہ نہیں کہ قراء اتِ سبعہ صحیح ہیں یا قراء اتِ عشرہ صحیح ہیں یا امام نافع، ابن کثیر ، ابن عامر اور امام عاصم وغیرہ کی قراء ت صحیح ہے بلکہ اصل مسئلہ ضابطے کا ہے جو علما نے مقرر کیا ہے یعنی اگر کسی قراء ت میں تینوں ارکان پائے جائیں گے تو وہ قراء ت صحیح ومقبول ہوگی، ورنہ نہیں۔
امام ابن جزریؒ نے مکہ مکرمہ، مدینہ نبویہ، کوفہ، بصرہ اور شام کے ۲۱ ائمہ کے حوالے سے کہا ہے:
’’قراء ت صحیحہ کا ضابطہ عام ہے جو کسی عدد یا شخصیت کے ساتھ خاص نہیں۔ پس ان قراء میں کسی قاری کی طرف کوئی قراء ت منسوب ہوگی تو ہم دیکھیں گے کہ اس میں قراء تِ صحیحہ کے تین ارکان پائے جاتے ہیں یا نہیں؟ اگر تینوں ارکان پائے جائیں گے تو ہم کہیں گے یہ قراء ت مقبول ہے اور اگر تینوں رُکن یا کوئی ایک رکن نہ پایا گیا تو وہ قراء ت غیر مقبول ہوگی چاہے خواہ سات قرا میں سے کسی کی قراء ت ہو یا دس قرا میں سے یا پھر چودہ قرا میں سے کسی کی۔ ‘‘
ابن جزریؒ امام ابن تیمیہ سے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا:
’’جو قراء تیں ائمہ اعمشؒ، یعقوبؒ، خلفؒ، ابو جعفرؒ اور شیبہ بن نصاح وغیرہ سے ثابت ہیں وہ انہی قراء ات کی منزلت میں ہیں جو قرائے سبعہ سے ثابت ہیں اور اس بات میں ان فقہا اور قرا کا اختلاف نہیں ہے جن کی پیروی کی جاتی ہے‘‘
اگر ہم ان قرا کے ناموں پر غور کریں جن کا امام ابن تیمیہؒ نے نام لیا ہے تو ان میں دو قاری ایسے ہیں جو قرائے سبع وعشر کے علاوہ ہیں اور وہ ہیں اعمش اور شیبہ … اور ابن تیمیہؒ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ فقہا جن کی پیروی کی جاتی ہیں انہوں نے ان کی اور ان کے علاوہ بعض ان قرا کی قراء ات کو بھی قبول کیا ہے جو قرائے سبع وعشر کے علاوہ ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس قسم کی قراء ات شاذ کی قبیل سے نہیں بلکہ وہ واضح الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’اکثر وہ علما جنہوں نے حمزہ (قراء سبعہ میں سے مشہور قاری) کا زمانہ پایا ہے جیسا کہ سفیان بن عیینہ اور احمد بن حنبل اور بشر بن حارث وغیرہ ہیں وہ جعفر بن قعقاع، شیبہ بن نصاح اور بصریوں کی قراء ات کو اختیار کرتے تھے۔‘‘
تو سلف صالحین کا قراء اتِ عشر کے علاوہ قراء ات کو اختیار کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قراء اتِ عشر یا ان کے علاوہ قراء ات میں اگر تینوں معروف ارکان جمع ہوجائیں تو وہ قراء ات صحیح اور مقبول ہوں گی، اس بناء پر نہیں کہ وہ قرائے سبع یا عشر کی قراء ات ہیں بلکہ اس بنا پر کہ ان میں قراء اتِ صحیحہ کی تمام شرائط پوری ہو گئی ہیں۔
 
Top