• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم محکم و متشابہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
باب: 14
علم محکم و متشابہ

اللہ تعالی نے قرآنی آیات کو عقیدہ وایمان کے اعتبار سے دو حصوں میں منقسم کیا ہے جنہیں محکم اور متشابہ کہتے ہیں۔ ان کا علم، علم محکم و متشابہ کہلاتا ہے۔

محکم

لغوی معنی:
یہ لفظ، حکم سے نکلا ہے جو مضبوط ، مستحکم، واضح اور قابل عمل ہونے کو کہتے ہیں۔عرب کہتے ہیں: أَحْکَمَ الرَّأْیَ: أَیْ أَتْقَنَہُ۔ اس نے رائے کو پختہ کیا۔حَکَمَۃ: گھوڑے کی لگام کو بھی کہتے ہیں تاکہ اسے ہلنے اور ٹاپنے سے روکا جائے۔حاکم ومحکوم جیسے الفاظ اسی سے ہیں۔اس لغوی معنی میں سارا قرآن کریم محکم ہے۔یعنی اس میں کوئی نقص یا خرابی نہیں۔ نہ اس کے آگے سے باطل آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔{کتب أحکمت آیتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر}۔

اصطلاحی معنی:
محکم اسے کہتے ہیں جو واضح، مستحکم اور سمجھ میں آنے والی شے ہو کوئی ابہام نہ ہو۔اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال نہ ہو۔یا اس کے معنی ومفہوم کی صرف ایک ہی صورت ہو یا جس کی دلالت راجح ہو اسے ظاہر اور نص بھی کہتے ہیں۔ مثلاً:{إہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ¢ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ، غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضّآلِیْنَ¢} ان آیات میں صراط مستقیم کی وضاحت خود قرآن مجید نے کردی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
متشابہ

لغوی معنی:
متشابہ، شبہ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں مانند ہونا، ہم شکل ہونا، ملتا جلتا ہونا۔عربی میں کہتے ہیں: شَابَہَہُ، أَشْبَہَہُ۔ وہ اس سے ملتا جلتا ہے یا اس کی مانند ہے۔{وأتوا بہ متشابہا} اہل جنت کی خوراک کی صفت بیان کی ہے۔اسی طرح {إن البقر تشابہ علینا} یقیناً گائیں ہم پر متشابہ ہوگئی ہیں۔مراد یہ کہ سمجھ نہیں آتی کون سے گائے ذبح کریں۔اس لغوی معنی میں قرآن کریم کا زیادہ تر حصہ محکم اور کچھ حصہ متشابہ ہے۔

اصطلاحی معنی:
متشابہ سے مراد وہ الفظ ہے جن کے معنی صاف اور واضح نہ ہوں بلکہ کئی تاویلوں کا اس میں احتمال ہو کبھی ایک اور کبھی دوسری تأویل۔نیز وہ اپنے پختہ معنی پر دلالت کرنے کے قابل نہ ہو۔ مثلاً:
{یَدُ اللّٰہِ فَوْْقً أَیْدِیْہِمْْ }
اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے۔
اب یہ سوال کہ اللہ کا ہاتھ کیسا ہے ؟ کس کی طرح ہے؟ اس کا جو بھی تصور کرلیا جائے کسی بھی بشر کے لئے یا رسول کے لئے یہ جاننا یا اس کی کیفیت بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔یا اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ سوال! کیف اللّٰہ؟ اللہ تعالیٰ کیسے ہیں؟ یہ سوال ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ہی اس کا جواب دیا جا سکتا ہے۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی نے دیکھا ہی نہیں۔ بس اللہ ہی اس بارے میں بہتر جانتے ہیں۔لہذا قرآن کریم میں علم ِغیب، آخرت، قبر، سوال و جواب، پل صراط ، اللہ تعالیٰ کا آنا{وَجَاء رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً ں}(الفجر:۲۲) اور اس کا سمیع وبصیر ہونا۔جیسے مذکورمسائل سب متشابہات میں سے ہیں۔ ہمارا ان پر ایمان ہے۔ اسی طرح حروف مقطعات حم- الم- عسق-وغیرہ۔ کا معنی و مراد کیا ہے ؟ بے شمار غیر محققانہ اور اشاری معانی لکھ دئے گئے ہیں۔ جب کہ ان کی حقیقت حال اللہ ہی جانتا ہے۔ ہاں لوگوں کو متوجہ کرنے کیلئے اس قسم کا انداز جاہلیت کے بعض خطباء میں بھی ضرور ملتاہے جس کے معنی و مفہوم کو وہ بھی بیان نہیں کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تیسری رائے یہ ہے جو ان دونوں گروہوں کی نسبت زیادہ معتدل اور بہترہے۔ جس کے مطابق آیات متشابہات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

۱۔وہ آیات جن کی تاویل، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ مثلاً:
صفات الٰہی ،حروف مقطعات، قیامت کے آنے کا وقت وغیرہ۔
۲۔وہ آیات جن کے جاننے کے لئے انسان کے پاس ذرائع ہوں۔ مثلاً:
قوامیس، سائنس کی پیشین گوئیاں وغیرہ۔
۳۔وہ آیات جن کا علم انسان کو نہیں بلکہ صرف راسخ علماء ہی کو ہے۔ عام لوگ اس کی حقیقت یا معنی و مفہوم نہیں جان سکتے۔ آپ ﷺ نے مندرجہ ذیل ارشاد میں اسی کی طرف اشارہ کیا تھا جب آپؐ نے ابن عباس ؓ کے حق میں دعا فرمائی:
"اَللّٰھُمَّ فَقِھْہُ فِي الدِیْنِ وَ عَلِّمْہُ التَّأوِیْلَ"۔
اے اللہ! اس کو دین کی سمجھ عطا کر اور تأویل سکھا دے۔

یہ نقطہ نگاہ بلاشبہ معتدل ہے مگر جہاں تک اللہ کی ذات و صفات اور قیامت کے وقت کا علم ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی اس سے آگاہ و آشنا نہیں۔ اسی لئے سرور کائنات دعا میں فرمایا کرتے تھے:
أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ لاَ أُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ"۔
تو ایسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی مدح و ثناء بیان کی ہے۔ میں تیری تعریف کا حق ادا نہیں کر سکتا۔
وقت قیامت کے بارے میں آپﷺ کا یہ فرمانا:
"مَا الْمَسْؤُولُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ"۔
سوال کنندہ کی طرح سوال کردہ بھی زیادہ نہیں جانتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مسئلہ اسماء وصفات:
بہر حال ان صفات کے بارے میں علماء سلف کا نکتہ نظر یہ ہے کہ صفات کی کنایۃً یا اشارۃً گفتگو یا تاویل کرنا، بنیادی عقائد میں ان مباحث کو چھیڑ کرمزیداختلافات کو ہوا دینا ہو گاجو بالآخر گمراہی کا سبب بھی بن سکتا ہے جیسا کہ ماضی میں ہوا۔ ان متشابہات کا معنی و مفہوم کیا ہے؟ اللہ پرہی ان کی مراد چھوڑ کربس ایمان لانا چائیے۔ ان صفات میں کیا ہم:

-- اللہ کی کسی صفت کو کسی سے تشبیہ دے سکتے ہیں؟
-- اللہ کی کسی صفت کوکسی سے بطور مثال پیش کر سکتے ہیں؟
-- اللہ کو تمام صفات سے عاری قرار دے سکتے ہیں؟
-- اللہ کی ان صفات کا کوئی حتمی معنی و مراد بیان کر سکتے ہیں؟

مختصر جواب یہ ہے کہ
{لَیْْسَ کَمِثْلِہِ شَیْْء ٌ }(الشوری:۱۱) ۔
اس کے مثل کوئی شے نہیں۔اس لئے امام مالک ؒ نے
{الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی } (طہ:۵)
کہ استوی کیسا ہوتا ہے؟کے سوال پر جواب دینے سے قبل تھوڑی دیر سر جھکایا اور پسینہ سے شرابور چہرہ کو اٹھاتے ہوئے فرمایا:
" اَلاِسْتِوَائُ غَیْرُ مَجْہُولٍ ، وَالْکَیْفُ غَیْرُ مَعْقُولٍ، وَالإِیْمَانُ بِہِ وَاجِبٌ، وَالسُّؤَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ۔"۔
استواء معلوم ہے مگر اس کی کیفیت سمجھی نہیں جاسکتی۔ اس پر ایمان لانا فرض ہے اور اس کے بارے میں پوچھنا بدعت ہے۔ (الحلیۃ ۶/۳۲۵۔

امام مالک ؒ کا یہ سخت جواب اس لئے بھی ہے کہ ایسے سوال تو صحابۂ رسول ﷺنے نہیں پوچھے تھے۔ انہیں اس شخص کے سوال پر بہت تکلیف ہوئی اور پھر اپنا یہی مشہور قول ارشاد فرمایا جو بعد کے علماء نے اسماء وصفات کے لئے میزان بنالیا۔جس کا مطلب ہے کہ استواء تو لغت عربی میں معلوم ہے جیسے کہتے ہیں
اِسْتَوَی عَلَی فُلاَنٍ: عَلاَ عَلَیْہِ عُلُوًّا خَاصًّا۔
وہ اس پر ایک خاص بلندی پر چڑھ گیا۔
البتہ اس کی کیفیت عقل کے ذریعے جاننی ناممکن ہے کیونکہ اللہ تعالی کی صفات کا احاطہ ہو ہی نہیں سکتا۔
{یَعْلَمُ مَا بَیِنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیئٍ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلَّا بِمَا شَآء}(البقرہ:۲۵۵)
جو کچھ ان کے سامنے ہیں اور جو کچھ پیچھے وہ اسے بھی جانتا ہے اور اس کے علم کا احاطہ وہ نہیں کرسکتے مگر جتنا اللہ خود چاہے۔

اس لئے جب عقلی اور نقلی طور پر ہم اسے جان ہی نہیں سکتے تو یہی فرض ہے کہ ہم اس بحث میں نہ ہی پڑیں کیونکہ اس کا کوئی نتیجہ ہی نہیں اس لئے عقلی اور نقلی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے اس سلسلے میں خاموشی بہتر ہے۔صرف ایما ن لانا ضروری ہے کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی ہے اور اللہ تعالی نے خود اپنی کتاب میں یہ بات سات باردہرائی ہے جسے مسلمان صبح وشام اپنی تلاوت میں پڑھتے ہیں ااس لئے ا ستوی علی العرش کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا ہی غلط ہے۔ صحابہ رسول ﷺ نے جو اس امت کے افضل اور علم شریعت سیکھنے میں سب سے زیادہ حریص لوگ تھے کبھی ایسا سوال نہیں کیا ۔ہاں ایسے سوال ضرور کئے ہیں جن کا جواب دینا آپ ﷺ کے لئے ممکن تھا۔تو یہ سوال کسی عالم سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اہل زیغ کا رجحان

خیر جن سے معدوم ہو ان سے خیر کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے۔وہ ٹیڑھ پن کی وجہ سے اللہ، اس کے رسول اور دین کی ہر بات کو ٹیڑھا ہی دیکھتے ہیں۔مثلاً:
۱۔ اللہ تعالی کی ہستی کے بارے میں ان کا وہم یہ ہے:{ بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰن }(المائدۃ:۶۴)
کہ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں اور مخلوق سے ملتے جلتے ہیں۔

۲۔ کتاب اللہ سے متعلق یہ وہم کہ اس میں تضاد ہے یا تعارض۔مثلاً ایک مقام پر یہ فرمایا:
{مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِز وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَط}(النساء: ۷۹)
جو بھلائی تجھے پہنچے وہ اللہ کی طرف سے اور جو برائی تجھے پہنچے تو وہ تمہاری طرف سے ہے۔

اور کسی دوسری جگہ یہ فرمایا:
{اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍط وَاِنْ تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ہٰذِہِ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِج } (النساء: ۷۸)
اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچے تو وہ کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی تکلیف پہنچے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے ان سے کہئے ! کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔

۳۔ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یہ وہم:
{فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ فَاسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَئُ وْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَج لَقَدْ جَآئَ کَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَں} (یونس:۹۴)
پھر ہم نے جو آپ کی طرف اتارا ہے تواگر آپ کسی شک میں ہیں تو ان لوگوں سے پوچھ لیجئے جو آپ سے پہلے کتاب کو پڑھتے چلے آئے ہیں ۔ یقیناً آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے حق آچکا ہے اس لئے شک کرنے والوں میں سے نہ ہوئیے۔

اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ خود اترنے والے قرآن کے بارے میں مشکوک تھے۔

راسخ علماء کا موقف:
وہ علماء جنہیں علم میں پختگی اورگہرائی حاصل ہے انہیں راسخ کہتے ہیں۔ وہ اس اختلاف یا متشابہات میں پڑے بغیر یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی اس کتاب میں جو کچھ بھی مذکور ہے وہ حق ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ اس کتاب میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔اس لئے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے:
{اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَطوَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًاں} (النساء:۸۲)
کیا بھلا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے، اگر یہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بے شمار اختلاف پاتے۔

ان علماء کا کام یہ ہے کہ اگر قرآن مجید میں کوئی متشابہ آیت آجائے تو وہ اسے محکم کی طرف لوٹائیں تاکہ دونوں محکم ہوجائیں۔ مثلاً:وہ پہلی مثال کے بارے میں کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دو حقیقی ہاتھ ہیں اور وہ ایسے ہیں جو اللہ تعالی ہی کی عظمت وجلال کے لائق ہیں اور کسی مخلوق کے دو ہاتھ ویسے نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات جیسی کوئی مخلوق نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں{لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ۔۔} (الشوری:۱۱)اس جیسی کوئی ہستی نہیں وہی ہے جو سب کچھ سنتا ہے اور سب کچھ دیکھتاہے۔

دوسری مثال کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ نیکی اور برائی دونوں اللہ تعالی کی تقدیر سے متعلق ہیں مگر نیکی کا سبب اللہ تعالی کا اپنے بندے پرفضل وکرم ہی ہوا کرتا ہے۔ رہی برائی تو اس کا سبب انسان کا اپنا فعل ہے۔ جیسے اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْر} (الشوری: ۳۰)
جو بھی تمہیں مصیبت پہنچتی ہے تو اس وجہ سے جو تمہارے کرتوت ہیں اور بہت سے وہ مٹا دیتا ہے۔

برائی کی نسبت بندے کی طرف ایسی ہے جیسے کسی شے کی نسبت اس کے سبب کی طرف کردی جائے نہ کہ اس کے مقدِّر کی طرف۔ مثلاً کسی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا۔ اب اس حادثے کا سبب وہ ڈرائیور ہے نہ کہ گاڑی بنانے والا۔ اسی طرح یہاں بھی دونوں آیات کو الگ الگ رکھ کر ان کے مابین اختلاف کا وہم ختم ہوسکتا ہے۔

تیسر ی مثال کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ رسول اکرم ﷺکو نازل شدہ وحی اور کتاب کے بارے میں کبھی شک نہیں ہو بلکہ انہیں وحی اورکتاب کے نزول کا سب سے زیادہ علم و یقین تھا۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:
{قُلْ یٰٓاَیُّہَا النَّا سُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِی فَلآَ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللّٰہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ جصلے وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنں } (یونس: ۱۰۴)
آپ فرمائیے لوگو! اگر تم میرے دین کے بارے میں کسی بھی شک میں مبتلا ہو تو سنو! میں پھر ان خداؤں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو۔

مراد یہ ہے اگر تم خود مشکوک وباطل کی عبادت میں ڈٹے ہوئے ہو جس کی کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی ۔ تو میں اللہ تعالی کی عبادت کے بارے میں کیوں کوئی شک کروں مجھے تو یقین کامل ہے۔ اس لئے میں ان خداؤں کی عبادت نہیں کرتا بلکہ میں کھل کر ان کا انکار کرتا ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
متشابہات کی حکمتیں اور فوائد

ماہرین علوم القرآن نے متشابہات کی بہت سی حکمتیں اور فوائد بیان کیے ہیں:
-- امام زرکشیؒ کہتے ہیں کہ متشابہات کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ علماء کو قرآن پر زیادہ غور و خوض کا موقع میسر آ جاتا ہے جو قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔
-- مؤمن کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ ان کی تصدیق کرتا ہے یا تحریف، متشابہ کو پکڑتا ہے یا محکمات کو۔ اگر وہ یہ مانتا ہے کہ سارا قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور برحق ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں تو پھر وہ اس امتحان میں کامیاب ہے اور اگر ان میں کسی ایک پراسے شک ہے تو وہ اپنے عقیدے اور عمل میں منحرف ہے پھر وہ متشابہ آیات سے ہی اپنی غذا لیتا ہے۔
-- قرآن کے معجزہ ہونے کے اسرار و رموز کی اس علم میںوضاحت ہوتی ہے اور قرآن بڑی عظیم کتاب لگتی ہے۔
-- کجی اور ٹیڑھ پن ان متشابہات کی مختلف توجیہات سے پیدا ہوتی ہے۔ جبکہ ایک عاقل اور صاحب علم اپنے ایمان کو بچانے کی فکر کرتا ہے۔ وہ ان کا کوئی حتمی معنی مقرر نہیں کرتا۔

٭٭٭٭٭​

قرآن کریم اور اس کے چند مباحث
 

نور

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2022
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
20
جزاك الله خيرا
محترم یہ مواد کہاں سے لکھا ہے رہنمائی کردیں شکریه
 
Top