• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم نزول ِقرآن

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
باب :5
علم نزول ِقرآن


نزول کا مطلب بلندی سے نیچے اترنا، ہے ۔اور تنزیل کا مطلب ہے بتدریج کسی شے کو اوپر سے نیچے اتارنا۔ نزول قرآن کریم کے لئے یہ دونوں کلمات استعمال ہوئے ہیں۔نزول قرآن یا تنزیل قرآن کیوں ہوا؟اس کے کیا مقاصد تھے ؟ کون کون سے مراحل تھے ؟ ان تمام باتوں کا علم، علم نزول قرآن کہلاتا ہے۔قرآن کریم کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ رب العالمین نے اسے بتدریج آپﷺ کے قلب مبارک پر بذریعہ جبریل امین اس لئے اتارا کہ آپ ﷺ لوگوں کو اس کی دعوت دیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نزولِ قرآن کے مقاصد:
متعدد آیات ہیں جو نزول قرآن کے مقاصد ومراحل کو واضح کرتی ہیں۔

٭… آپﷺ اللہ کے احکامات لوگوں تک کھول کھول کر پہنچا دیں اور انہیں متنبہ کردیں:
{وَإِنَّہُ لَتَنزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْن¢ نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْأَمِیْنُ ¢ عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِیْن ¢ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْن ¢ وَإِنَّہُ لَفِیْ زُبُرِ الْأَوَّلِیْنَ ¢} (الشعراء ۱۹۲۔۱۹۶)
اور بیشک یہ رب العالمین کانازل کردہ ہے۔ اس کو روح الأمین نے آپﷺ کے قلب پر نازل کیا ہے تاکہ آپﷺ متنبہ کرنے والوں میں سے ہوں۔واضح عربی زبان میں اور بلاشبہ اس کا ذکر پہلی کتابوں میں بھی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭… انسانوں کو اچھے اور برے انجام سے متنبہ کیا جائے:
{إِنَّ ہَـذَا الْقُرْآنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ أَجْراً کَبِیْراً}(بنی إسرائیل : ۹)
یقینا یہ قرآن اس منزل کی راہنما ہے جو انتہائی سیدھی ہے اور نیک عمل کرنے والے اہل ایمان کو خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہوگا اور بلاشبہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لئے درد ناک عذاب تیار کررکھا ہے۔

٭…متقی افراد کی راہنمائی کی جائے۔
{ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ¢} (البقرہ: ۲)
یہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، متقیوں کے لئے باعث ہدایت ہے۔

٭… محدود وقت، علاقے اور مخصوص قوموں کی بجائے قرآن مجید تمام بنی نوع انسان کے لئے بلا قید رنگ ونسل اور زمان ومکان نازل کیا جائے۔
{قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُولُ اللّہِ إِلَیْْکُمْ جَمِیْعاً ۔۔۔} ( الاعراف:۱۵۸)
کہہ دیجئے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔
{وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْراً۔۔۔} (سبا :۲۸)
اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری دینے والا ، اور متنبہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭…گذشتہ الہامی کتب میں شریعت کے احکام وقتی اور علاقائی ضرورت کے تھے۔ قرآن نے آ کراس شریعت کو دائمی اور آفاقی بنادیا۔ اللہ تعالیٰ نے دین کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
{ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً۔۔۔۔} (المائدہ:۳)
آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔

٭…گذشتہ کتب میں احکامات الٰہی ہونے کے باوجود ان پر عمل کرنا ممکن نہ رہا تھا کیونکہ ان میں تحریف کر دی گئی تھی۔ لہٰذا قرآن کو نازل کیا گیا جس میں بغیرکسی تحریف یا تبدیلی کے عمل کرنا آسان و ممکن ر ہے۔
{… وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیْز¢ لَا یَأْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْْنِ یَدَیْْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ …}(حمٓ السجدہ:۴۱۔۴۲)
بے شک یہ زبردست کتاب ہے باطل اس پر آگے اور پیچھے سے نہیں آ سکتا ہے۔

٭…یہود ونصاریٰ سے امامت چھین کر امت مسلمہ کو دی جارہی تھی ۔ اس لئے نبی آخر الزمان کو بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل سے مبعوث کیا گیا۔ امامت کی مکمل منتقلی کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ ایک کتاب بھی نازل کر دی جائے۔

٭…نبی اکرمﷺ آخری نبی کے طور پر آ رہے تھے۔ آپ ﷺ کے بعد وحی کا سلسلہ قیامت تک کے لئے رک جانا تھا۔ لہذایہ ضروری تھا کہ ایک کتاب بھی ایسی ہو جو قیامت تک ہدایت وراہنمائی کا کام دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مراحل نزول قرآن
پہلا مرحلہ:
نزول کے پہلے مرحلے میں قرآن مکمل طور پر لوح محفوظ میں لکھا گیا۔ یہ مرحلہ کتنے عرصہ میں مکمل ہوا اور اس کی تاریخ کیا ہے؟ اس بارے میں قرآن و حدیث دونوں خاموش ہیں۔یہ سب غیبی امور ہیں۔ البتہ قرآن کے لوح محفوظ میں ہونے کے بارے میں شہادت موجود ہے۔ مثلاً:
{بَلْ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ¢ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ¢} (البروج:۲۱۔۲۲)
بلکہ وہ قرآن مجید ہے اور لوح محفوظ میں ہے۔

اس لوح کے بارے میں ابن ابی العز الحنفی اپنی شرح عقیدہ طحاویہ ص: ۲۶۳ میں لکھتے ہیں:
اس آیت سے یہی واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید لوح محفوظ میں ایک ہی دفعہ اکٹھا نازل کیا گیا۔جبریل امین اسے لوح محفوظ سے نہیں لیتے تھے بلکہ اللہ تعالی سے اخذ کرتے اور سنتے تھے۔اس نزول میں جبریل امین اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی واسطہ نہیں۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فَمَنْ قَالَ: إِنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِنْ بَعْضِ الْمَخْلُوْقَاتِ کَاللَّوحِ وَالْہَوَائِ فَہُوَ مُفْتَرٍ عَلَی اللّٰہِ، مُکَذِّبٌ لِکِتَابِ اللّٰہِ، مُتَّبِعٌ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِینَ، أَلَا تَرَی أَنَّ اللّٰہَ فَرَّقَ بَیْنَ مَا نَزَلَ مِنْہُ وَمَا نَزَلَ مِنْ بَعْضِ الْمَخْلُوْقَاتِ کَالْمَطَرِ بِأَنْ قَالَ: {وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَائِ مَائً} وَأَخْبَرَ أَنَّہٗ نَزَّلَہٗ مِنَ السَّمَائِ، وَالْقُرْآنُ أَخْبَرَ أَنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِنْہُ: { قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالّحَقِّ}{ تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ}
جو کہتا ہے کہ یہ قرآن بعض مخلوقات سے مثلاً لوح محفوظ یا ہوا سے اتارا گیا ہے تو یہ اللہ تعالی پر جھوٹ گھڑنا ہے ، کتاب اللہ کو جھٹلانا ہے، ایسا شخص اہل ایمان کی روش سے ہٹا ہوا ہے۔غور کیجئے اس فرق میں کہ اللہ تعالی نے جواپنی طرف سے اتار اہے اور جو بعض مخلوقات سے اتارا ہے۔ جیسے بارش کے اتارنے پر اس نے فرمایا: اس نے آسمان سے پانی اتارا۔اس نے اطلاع دی کہ اسی نے پانی کو آسمان سے اتارا ہے۔اور قرآ ن کے نزول کے بارے میں یوں آگاہ فرمایا:کہ وہ اس کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ کہہ دیجئے اسے روح القدس نے تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ اتارا ہے۔ اسی طرح: یہ عظیم کتاب، اللہ زبردست اور حکیم کی طرف سے اتاری گئی ہے۔

نیزفرماتے ہیں:
اگر جبریل امین نے اسے اللہ تعالی سے نہ سنا ہوتا بلکہ اسے لکھا ہوا لوح محفوظ میں پایا ہوتا تو یہ عبارت پھر جبریل امین کی ہوتی اور کلام بھی کلام جبریل ہوتا۔بس انہوں نے اللہ تعالی کی طرف سے اس کا ترجمہ کردیاجیسا کہ ایک گونگے آدمی کا لکھا کوئی ترجمہ کردیتا ہے اور اسے بولنے کا یارا نہیں ہوتا۔یہ بات تو خلاف دین اسلام ہے۔(مجموع فتاوی ۱۲؍ ۵۱۹)

لوح محفوظ تو ایسی مخلوق ہے جہاں کسی کی رسائی ہی نہیں جو ساتویں آسمان میں ہے۔ اسے اللہ تعالی نے شب قدر کے کسی حصے میں آسمان دنیا کے بیت العزت میں اتارا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
فُصِل القرآنُ مِنَ الذِّکْرِ فَوُضِعَ فی بَیْتِ العِزَّۃِ فی سَمَاء ِ الدُّنْیَا، فَجَعَلَ جِبْرِیْلُ علیہ السلام یَنْزِلُہُ علَی النبیِّ ﷺ ویُرَتِّلُہُ تَرْتِیْلاً۔
قرآن پاک کو ذکر لوح محفوظ سے جدا کیا گیا پھر اسے آسمان دنیا کے بیت العزت میں رکھا گیا۔ پھر یہاں سے جبریل امین علیہ السلام نبی کریم ﷺپر لے کر نازل ہوا کرتے۔اور آپ کو ترتیل سے سناتے ۔

یہ روایت مستدرک حاکم میں شیخین کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔گویہ موقوف تو ہے مگر صحابی رسول کی یہ بات غیبی امور کے بارے میں ہے جس میں اجتہاد کی مجال نہیں ہوتی اس لئے اس روایت کا حکم مرفوع روایت کا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۲۔ نزول ثانی:
اس مرحلے میں پورے قرآن مجید کو لوح محفوظ سے ’’آسمان دنیا‘‘میں موجودبیت العزت میں منتقل کیا گیا۔ اس بات کی دلیل سیدنا ابن عباسؓ کی ایک روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دوسرانزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے ایک مقام "بیت عزت"پر ہوا جسے "بیت المعمور"بھی کہا جاتا ہے جو کعبۃ اللہ کے متوازی (parallel ) آسمان پر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے۔اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{ وَالطُّورِ ¢ وَکِتَابٍ مَّسْطُورٍ ¢ فِیْ رَقٍّ مَّنشُورٍ¢ وَالْبَیْْتِ الْمَعْمُورٍ¢}(الطور: ۱۔۴)
قسم ہے طور کی، اور لکھی ہوئی کتاب کی، جو جھلی کے کھلے ورق میں ہے، اور آباد گھر کی۔
فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ¢ وَإِنَّہُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِیْمٌ¢إِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِیْمٌ¢ فِیْ کِتَابٍ مَّکْنُونٍ ¢لَّا یَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ¢} (الواقعہ: ۷۵۔۷۹)
پس نہیں! میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے مواقع کی ، اور اگر تم سمجھو تو یہ قسم ہے بہت بڑی۔ بے شک قرآن ہے بلند پایہ، ایک محفوظ کتاب میں ثبت، جسے مطہرین کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا۔

ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن ایک ایسی جگہ لکھا ہوا ہے جو مکنون یعنی چھپی ہوئی ہے اور جہاں اسے مطہرین یعنی فرشتوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا۔ لیکن کیایہ جگہ لوح محفوظ ہے؟ کیونکہ لوح محفوظ تک تو فرشتوں سمیت کسی مخلوق کی رسائی ہی نہیں۔ اس لئے یہ لوح محفوظ کے علاوہ اور کسی مقام کا ذکر ہے اور تاروں کے مواقع کا ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں آسمان دنیا مراد ہے۔اور ماہ رمضان کی مبارک شب قدر میں اسے بیک وقت اتارا گیا ہے۔امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لاَ خِلَافَ أَنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ مِنَ اللَّوْحِ الْمَحْفُوْظِ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ۔۔عَلَی مَا بَیَّنَّاہُ۔۔جُمْلَۃً وَاحِدَۃً، فَوَضَعَ فِی بَیْتِ الْعِزَّۃِ فِیْ سَمَائِ الدُّنْیَا، ثُمَّ کَانَ جِبْرِیْلُ یَنْزِلُ بِہٖ نَجْماً نَجْماً فِی الْأَوَامِرِ وَالنَّوَاہِیْ وَالْأسْبَابِ، وَذَلِکَ فِیْ عِشْرِیْنَ سَنَۃٍ۔(تفسیر القرطبی ۲؍۲۹۷)
کوئی اختلاف نہیں یعنی اجماع ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ سے شب قدر میں یکبارگی اتارا گیا۔۔جیسا کے ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔۔پھر اسے آسمان دنیا کے بیت العزت میں رکھا گیابعد میں جبریل امین اس سے تھوڑا تھوڑا کرکے اوامر ونواہی اور اسباب لے کر نازل ہواکرتے۔ اور یہ بیس سال میں سب کچھ ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بیت عزت میں نزول قرآن کی حکمتیں:
قرآن مجید کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے بیت عزت میں اتارنے کی بظاہر حکمت یہ نظر آتی ہے کہ:
۱۔ لوح محفوظ سے بیت المعمور میں اسے نازل فرما کر اللہ تعالی نے فرشتوں کو باور کرایا کہ میں ہی علام الغیوب ہوں۔جس سے کوئی شے چھپی نہیں۔ کیونکہ اس قرآن میں کچھ ایسی چیزوں کا ذکر بھی تھا جو ابھی واقع نہیں ہوئی تھیں۔

۲۔ ختم المرسلین ﷺ کامقام اور فضیلت بیان کردی جائے۔نیز امت محمد ﷺ کی تکریم اور اس کی تعظیم بھی باور کرائی جائے۔اس نزول کا اعلان عام فرشتوں میں کر دیا گیا کہ یہ آخری کتاب ہے اور جسے خاتم المرسلین پر ان کی امت وسط کے لئے نازل کیا جا رہا ہے۔اللہ تعالی اس امت کی تعریف کررہا ہے کہ میری ان پر ایک خاص رحمت یہ بھی ہے۔اسی معنی میں معجم کبیر از امام طبرانیؒ حدیث نمبر ۱۲۹۳۰میں ہے سورۃ الأنعام جب آپ ﷺ پر اتری تو ستر ہزار فرشتے اس کے جلو میں تھے۔ اللہ تعالی نے جبریل امین کو یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ اس قرآن کی املاء فرشتوں کی معزز اور نیک جماعت کو کرائیں جسے وہ لکھیں اور اس کی تلاوت بھی کریں۔

۳۔ کتاب کو یکبارگی اتارنے میں آپ ﷺ اور موسیٰ کے درمیان برابری ہوجائے ۔مگر فضیلت محمد ﷺ بھی بیان کردی جائے کہ ان پر یہ قرآن بتدریج اتارا جائے گا تاکہ وہ اسے اچھی طرح حفظ کرسکیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۳۔ نزول ثالث:
اس نزول کیلئے قرآن مجید میں لفظ تنزیل استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی ہیں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنا۔ جبکہ انزال کے معنی کسی چیز کو ایک ہی دفعہ نازل کر دینا۔ قرآن مجید میں لفظ انزال جہاں استعمال ہواہے اس سے مراد عموماً وہ نزول ہے جو لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف ہوا۔اور تنزیل سے مرا دوہ نزول جو آسمان دنیا سے آپ ﷺ پر بتدریج ہوا۔ اس تیسرے مرحلے میں سیدنا جبریل ؑ نے آسمان دنیا سے قرآن کو نبیﷺ کے قلب مبارک پر نازل کیا ۔پہلے دونوں مرحلوں کی نسبت اس مرحلے میں قرآن مجید کو تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا گیا۔ عربی اصطلاح میں اسے "مُنَجَّم" بھی کہتے ہیں۔آیات کو بھی نجم کہا گیا ہے۔اس میں کوئی لفظ بھی خواب ، الہام یا بلاواسطہ کلام سے نازل نہیں ہوا۔ صرف جبریل ؑ امین ہی واسطہ تھے۔

نزول قرآن کے اس مرحلے کا آغاز صحیح روایات کے مطابق رمضان میں اس وقت ہوا جب نبی اکرم ﷺ کی عمر چالیس برس تھی۔ جس رات اس نزول کا آغاز ہوا وہ شب قدر تھی۔ لیکن رمضان کی کون سی یہ رات تھی؟ اس کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی۔ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رمضان کی سترہویں، اکیسویں اور ستائیسویں شب میں سے کوئی شب ہوسکتی ہے۔امام طبری ؒنے {۔۔۔وَمَا أَنزَلْنَا عَلَی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ۔۔۔} (الانفال :۴۱) سے استدلال لیا ہے کہ یوم بدر سترہ رمضان کو تھا۔ دوسروں نے ستائیس شب کی روایت جو لیلۃ القدر کے بارے میں ہے اس سے استدلال لیا ہے۔ قرآن کریم کے بتدریج، نازل ہونے کے بارے میں واضح آیات بھی موجود ہیں۔
{وَقُرْآناً فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنزِیْلاً¢} (بنی اسرائیل:۱۰۶)
اور قرآن کو ہم نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تاکہ آپ بھی ٹھہر ٹھہر کر اسے لوگوں کے سامنے پڑھیں اور ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
قرآن کے مرحلہ وار نزول کی وجوہات:
قرآن کو مختلف مراحل میں نازل کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ جو

۱۔ جبرائیل علیہ السلام نے اذن الٰہی سے یہ قرآن آپ ﷺ کے قلب مبارک پر نازل کرنا تھا۔ ان کی رسائی لوح محفوظ تک نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کو آسمان دنیا پر نازل کیا گیا۔

۲۔ قرآن کی عظمت کا تقاضاتھا کہ اسے یک بارگی نازل کرنے کے بجائے مختلف مراحل میں نازل کیا جائے۔

۳۔ مرحلہ وار اتارنے سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ یہ کتاب ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے۔

۴۔ قرآن کو آسمان دنیا پر نازل کر کے ملائکہ او ردیگر مخلوق کو بھی اس بات کا گواہ بنایا گیا کہ قرآن وہ آخری کتاب ہے جو آخری رسول اور آخری امت کے لئے نازل کی جارہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نزول ِ ثالث کی مدت:
اس تیسرے مرحلے کی مدت کے بارے میں تین اقوال پائے جاتے ہیں۔

۱۔ پہلی رائے کے مطابق قرآن کریم بیس برس میں نازل ہوا۔ یعنی دس برس مکہ میں اور دس برس مدینہ میں۔ یہ گروہ سیدنا ابن عباسؓ کے ایک قول کو بنیاد بناتا ہے اور فترۃ الوحی کو مدت نزول میں شامل نہیں کرتا۔

۲۔ ایک اور رائے ہے کہ قرآن مجید پچیس برس میں نازل ہوا۔یہ لوگ مکی دور پندرہ سال پر جبکہ مدنی دور دس سال پر محیط بتاتے ہیں۔ ان کے پاس اپنی اس رائے کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں۔

۳۔ تیسری رائے کے مطابق نزول کا یہ مرحلہ تئیس برس رہا ہے اس میں تیرہ سالہ مکی اور دس سالہ مدنی دور شامل ہے۔ یہ گروہ بھی سیدنا ابن عباس ؓ کے ایک قول کو بنیاد بناتا ہے: جب آپ ﷺ پر قرآن نازل ہوا تو آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس برس تھی۔ آپ ﷺ نے مکہ میں تیرہ برس گزارے پھر ہجرت کا حکم ہوا اور عمر عزیز کے باقی دس برس آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں گذارے اور وہیں وفات پائی۔اس گروہ کی دوسری دلیل یہ ہے کہ تاریخ اور صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کو چالیس برس کی عمر میں مبعوث کیا گیا اورتریسٹھ برس کی عمر میں آپ ؐﷺ کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح کل مدت نزول تئیس برس بنتی ہے۔

مندرجہ بالا آراء میں راجح رائے تیسرے گروہ کی ہے کیونکہ اس کے دلائل زیادہ مضبوط ہیں۔ جہاں تک سیدنا ابن عباسؓ کے اقوال کا تعلق ہے تو ان کا وہ قول جس کے مطابق قرآن تئیس برس میں نازل ہوا زیادہ قابل ترجیح ہے کیونکہ اسے امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے۔ جبکہ دوسرا قول جس کے مطابق مدت تنزیل ثالث بیس برس ہے یہ دوسرے راویوں کا روایت کردہ ہے اس لئے امام بخاریؒ کی روایت پر اسے ترجیح نہیں دی جاسکتی۔

سیدنا ابن عباسؓ کے اختلافی اقوال کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ تین سال قبل از ہجرت پیدا ہوئے جس کی وجہ سے وہ تاریخ کا صحیح تعین نہیں کر سکے۔ یا انہوں نے ایک قول میں فترۃ الوحی کو شمار کیا اور دوسرے میں نہیں کیا۔
 
Top