• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم کیا ہے؟

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
علم کیا ہے؟

شکیل احمد، کراچی اپڈیٹ کام

اس وقت اگر ہم دنیا میں نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں کئی قسم کے علوم نظر آتے ہیں۔ سائنس، انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، بینکنگ، بائیو، کیمسٹری، فزکس، ہوم اکنامکس،۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ الغرض کہ ہر شعبہ کے حوالے سے ماہرین ملتے ہیں۔ اور ان کی کتب بھی سستے داموں دکانوں اور ٹھیلوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ لوگوں کا ایک جم غفیر ان علوم پر اپنا تن من دھن لٹانے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ اگر ان تمام علوم کے نتیجہ پر غور کریں تو ان سب علوم کا ماحاصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔

محترم قارئین! جس چیز کا تعلق صرف اور صرف دنیاوی زندگی کے ساتھ ہو تو اسے علوم کے بجائے فنون کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اب آپ خود غور کیجئے ہمارے نبی نے فرمایا تھا:

طلب العلم فریضة علیٰ کل مسلم
علم کی طلب ہر مسلمان پر فرض ہے۔

ہم نے تو حصول فن پر ہی اپنی زندگیا ں خرچ کر دیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہمیں دنیا میں بڑے بڑے ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنسدان تو نظر آتے ہیں لیکن محدث، مفسر، عالم نظر نہیں آتے۔ یہ امت کے لیے بڑی محرومی کی بات ہے۔ نتیجتاََ امت مسلمہ کی حالت زار آپ کے سامنے ہے کہ جہاں بھی مسلمان نظر آتے ہیں ظلم وسربریت کی چکی میں پستے نظر آتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ علم کا فقدان ہے۔

خدارا! اگر آج اپنی کھوئی ہوئی بلندیاں واپس لوٹانا چاہتے ہو تو حقیقی علم کی طرف واپس لوٹنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ دنیاوی فنون سے بہرہ ور فرما دے گا اور اخروی کامیابی بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ اس بات پر تاریخ شاہد ہے جن لوگوں نے اپنی زندگیاں دین کے لئے وقف کر دیں وہ دنیا کے امام بنے اور آخرت کی کامیابی کا سرٹیفیکیٹ بھی ”رضی اللہ عنہم ورضواعنہ“ صورت میں جاری ہوئے۔ اس بات سے علم ہوا کہ دین اسلام دنیاوی فنون کے حصول کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ ان کو دین کے تابع رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ آج امت مسلمہ اسی نقطہ پر دھوکے کا شکار ہوئی ہے کہ امت مسلمہ کا ایک طبقہ دنیا میں ایسا مگن ہوا کہ وہ دین سے بالکل فارغ رہا اور ایک گروہ دین میں ایسا گھسا کہ دنیاوی سیادت و قیادت سے نا آشنا۔ امت افراط و تفریط کا شکار ہو گئی جبکہ علم دین اس چیز کا قطعاً حکم نہیں دیتا بلکہ اس علم کے ذریعے تو دنیا و آخرت دونوں میں بلندیاں نصیب ہوتی ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ذیشان ہے:

ان اللہ یرفع بھذالکتاب اقواما و یضع بہ آخرین

بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے قوموں کو بلندیاں عطاء فرماتا ہے اور اس کو ترک کرنے کہ وجہ سے ان کو رسواکرتا ہے اور اس کی کئی مثالیں تاریخ میں ملتی ہے۔

زمانہ جاہلیت کے عرب ادیبوں کو دیکھو۔ وہ علم لغت میں اپنے آپ کو وقت کا امام کہتے تھے اور باقی لوگوں کو عجم گونگے کہا کرتے تھے مگر ان کے اس علم نے ان کو صرف اور صرف عرب کے چند قبائل تک محدود رکھا اور آخر کار وہ سرداری بھی کھو بیٹھے۔

ان میں سے جنہوں نے علم دین کی طرف رخ کیا وہ دنیا کے حکمران بن گئے۔ اس کی سب سے بڑی مثال پیارے نبی محمد ﷺ کہ زمانہ کی بات ہے، جب آپ ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو اس وقت شہر مکہ میں چند پڑھے لکھے لوگ تھے۔ ان میں عمرو بن ہشام اور عمر بن خطاب بھی شامل تھے۔ عمرو بن ہشام نے علم دین کو ٹھکرایا تو وہ ابو جہل بن گیا اور اپنی چھوٹی سی سرداری بھی کھو بیٹھا، جبکہ عمر بن خطاب تھے انہوں نے اپنے اس علم کے ساتھ دینی علم کو بھی سینے سے لگایا تو فاروق اعظم بن گئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں وہ مسلمانوں کے حکمران بن گئے۔ ایسے حکمران کہ جن کے نام سے عالم کفر بھی کانپتا تھا۔ ہزاروں میل دور بیٹھے قیصرو کسریٰ کے اعوانوں میں لرزا طاری رہتا تھا۔ تو یہ ساری عزت علم دین کو اپنانے کی وجہ سے حاصل ہوئی۔

انہی دور کی بات ہے کہ انہوں نے کسی علاقے پر ایک گورنر مقرر کیا ایک دن باہر نکلے تو سر راہ اسی گورنر سے ملاقات ہوئی تو اس سے پوچھا اپنی جگہ کس کو امیر بنا کے آئے ہو؟
جواب ملا: ابن ابزیٰ کو تو امیرالمومنین ناراض ہوئے اور کہنے لگے تو نے آزادوں پر غلام کو امیر مقرر کر دیا ہے۔
تو گورنر نے عرض کی: ”اے امیر المومنین! وہ غلام تو ضرور ہے مگر دین کا عالم ہے۔
امیرالمومنین کا غصہ کافور ہوا اور وہ یہ حدیث بار بار پڑھنے لگے۔
ان اللہ یرفع بھذالکتاب اقواما و یضع بہ آخرین

اسی طرح خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور کی بات ہے کہ ایک بچہ جس کا رنگ کالا سیاہ، ناک چپٹی، آنکھوں سے اندھا، کانوں سے بہرہ (جب تھوڑا بڑا ہوا تو سماعت درست ہو گئی تھی) الغرض کہ ظاہری حسن و خوبی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی نفرت کا نشانہ بنا ہوا تھا۔ اس کو کسی خیر خواہ نے مشورہ دیا اور اس کے ذہن میں خیال آیا کہ میں اللہ کی کتاب کا علم حاصل کرلوں۔ شاید کہ یہ رسوائیاں چھٹ جائیں۔ پھر اسی سوچ کے ساتھ وہ حصول علم دین میں جُت گیا۔ اور کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ دین کا بہت بڑا عالم بن کر ابھرا۔ اور وہ شہر مکہ کا قاضی و مفتی مقرر ہوا۔
ایک دفعہ خلیفہ عبدالملک بن مروان حج کے ارادے سے مکہ میں تشریف لائے اور ان جو چند سوالات کے جوابات مطلوب تھے۔ تو یہ مسجد میں آئے دیکھا کہ مفتی صاحب نماز میں مصروف ہیں۔
اب خلیفہ وقت اپنے بیٹوں سمیت مفتی صاحب کے پیچھے انتظار میں بیٹھ گئے اور مفتی صاحب نماز پڑھتے رہے۔ یہ منظر میرے اللہ نے علم دین کی برکت سے دکھایا۔

جب مفتی صاحب نماز سے فارغ ہوئے تو خلیفہ وقت نے اپنے سوالات کے جواب لیے اور اپنے بیٹوں سمیت مسجد سے نکلنے لگے تو ایک آواز لگانے والے نے اعلان کیا کہ .... آج کے بعد مکہ میں کوئی قاضی یا مفتی عطاء ابن ابی رباح کی اجازت کے بغیر فتویٰ نہیں دے گا توشہزادوں نے اپنے والد عبدالملک بن مروان سے پوچھا کہ یہ کس شخص کے بارے میں اعلان ہو رہا ہے؟

تو عبدالملک بن مروان نے جواب دیا، اے میرے بیٹو! یہ وہ شخص ہے جس کو دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا انتہائی حقیر سمجھا جاتا تھا۔ اس نے علم دین کو سیکھا تو اس کو یہ مقام ملا مکہ معظمہ کا قاضی و مفتی مقرر ہوا۔ اگر تم بھی دنیا و آخرت میں عزت چاہتے ہو تو علم دین کو سیکھو اور معزز بن جاﺅ۔
 
Top