٭ اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ پر کی ہوئی نعمتیں شمار کرواتے ہوئے علم کو سب سے اعلی و ارفع مقام عطا فرمایا:
{وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ}
اللہ تعالی نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی اور آپ کو ان چیزوں کا علم دیا جو آپ نہیں جانتے تھے۔ [النساء : 113]
نیز اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو علم کے سوا کسی بھی چیز میں اضافے کی دعا کا حکم نہیں دیا، فرمایا:
{وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا}
اور آپ کہہ دیں: میرے پروردگار! مجھے مزید علم عطا فرما۔ [طہ : 114]
٭ علم انبیائے کرام کی وراثت ہے، چنانچہ انبیائے کرام کے وارثانِ علم ان کے بعد سب سے بہترین درجے کے مالک ہونگے، اور وہی ان کے قریب ترین بھی قرار پائیں گے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(علما انبیائے کرام کے وارث ہیں، انبیائے کرام وراثت میں درہم و دینار چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ علم چھوڑ کر جاتے ہیں، چنانچہ جو علم حاصل کرے تو اس نے بہت بڑا حصہ لے لیا) ترمذی
٭ اللہ تعالی نے اہل علم کو اپنی الوہیت کیلیے گواہ بھی بنایا اور فرمایا:
{شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ}
اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے [آل عمران : 18]
٭ علم کی وجہ سے اللہ تعالی کا ڈر پیدا ہوتا ہے اور اس کی اطاعت کی جاتی ہے:
{إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ}
یقیناً بندوں میں سے اللہ تعالی سے ڈرنے والے علما ہی ہوتے ہیں۔[فاطر : 28]
زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" اللہ تعالی کی حصولِ علم جیسی کوئی عبادت ہے ہی نہیں"
حصولِ علم خیر و بھلائی ہے:
(اللہ تعالی جس کے بارے میں خیر کا ارادہ فرما لے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے) متفق علیہ
٭ سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہی بہترین لوگ ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(دورِ جاہلیت کے بہترین لوگ اسلام میں بھی بہترین ہیں بشرطیکہ دین کی سمجھ رکھتے ہوں) متفق علیہ
٭ علم اعمال اور درجات میں درجہ بندی کا ترازو ہے، علم کی وجہ سے ہی اعمال میں بہتری اور عمدگی پیدا ہوتی ہے، چنانچہ انسان کا عقیدہ، اخلاص، اور سنتِ نبوی کی پیروی صرف علم کے ذریعے ہی ممکن ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ}
جان لو کہ: اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے [محمد : 19]
اللہ تعالی نے یہاں قول و عمل سے پہلے علم کو ذکر کیا ہے۔
٭ جب تک روئے زمین پر علم باقی رہے گا تو لوگ ہدایت پر قائم رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ علم کے بغیر اللہ تعالی کی عبادت کرنے والا فائدے کی بجائے نقصان زیادہ کرتا ہے، شرک و بدعات علم کی کمی اور اہل علم سے دوری کے باعث ہی پیدا ہوئیں ، کیونکہ گمراہی و جہالت ؛ لا علمی کا ہی ثمر ہوتا ہے؛ اسی لیے اللہ تعالی نے ہمیں گمراہ لوگوں کے راستے سے پناہ مانگنے کا ہر نماز کی ہر رکعت میں حکم دیا ہے
{غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}
[ہمارا راستہ] ان لوگوں کا نہ ہو جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ ہی گمراہوں کا ۔[الفاتحہ: 7]
٭ اللہ تعالی نے اہل علم اور جاہلوں میں برابری کو مسترد فرمایا، اس لیے ان دونوں میں برابری نہیں ہے جیسے کہ زندہ اور مردہ، بینا اور نابینا میں برابری نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ}
آپ کہہ دیں: کیا صاحب علم اور لا علم برابر ہو سکتے ہیں؟[الزمر : 9]
٭ علم ہی لوگوں کیلیے زندگی و روشنی ہے:
{أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا}
بھلا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کو روشنی عطا کی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں زندگی بسر کر رہا ہے اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو اور اس کے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہو؟ [الأنعام : 122]
٭ حسن سیرت اور دین کی سمجھ مؤمنین کی خصوصی صفات ہیں، اسی لیے ان کے سینے علم سے منور ہوتے ہیں:
{بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ }
بلکہ [قرآن ]تو واضح آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے[العنكبوت : 49]
٭ صرف اہل علم کو اللہ تعالی نے قرآن کریم کی امثال سمجھنے اور ان کے معنی و مفہوم کا ادراک رکھنے والا قرار دیا:
{وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ}
یہ مثالیں ہم لوگوں کیلیے بیان کرتے ہیں اور انہیں علما کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا۔[العنكبوت : 43]
٭ علمی مجلسوں اور وہاں کے حاضرین کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے، ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں:
(بیشک فرشتے طالب علم کو راضی کرنے کیلیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں) ترمذی
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" اگر حصول علم سے صرف قرب الہی ملے، عالم ملائکہ سے تعلق بنے اور ملأ الاعلی کی صحبت ملے تو یہی علم کی قدر و منزلت اور شان کیلیے کافی تھا، لیکن یہاں تو دنیا و آخرت کی عزت بھی حصول علم کیساتھ منسلک اور مشروط ہے"
٭ اہل علم کی مجلسوں میں حکمت و دانائی پائی جاتی ہے، وہی پوری امت کیلیے بہترین نمونہ ہیں، اہل علم کو ذاتی فائدہ تو ہوتا ہی ہے دوسرے بھی ان سے مستفید ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرتا ہے اور دعائیں دیتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(اللہ تعالی ، اللہ کے فرشتے، آسمان و زمین کے تمام مکین حتی کہ چیونٹیاں بھی اپنے بلوں میں اور مچھلیاں بھی لوگوں کو بھلائی سکھانے والے کیلیے دعائیں کرتی ہیں) ترمذی
٭ حصول علم کیلیے جد و جہد بھی "فی سبیل اللہ" میں شمار ہوتی ہے، چنانچہ ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
"جو شخص حصولِ علم کیلیے صبح شام آنا جانا جہاد میں شمار نہیں کرتا اس کی عقل اور رائے دونوں ناقص ہیں"
٭ حصول علم کیلیے مقابلہ بازی بھی قابل ستائش عمل ہے، چنانچہ دو لوگوں کے بارے میں رشک کیا جا سکتا ہے علم پھیلانے والا اور مال خرچ کرنے والا، اس کے علاوہ کسی بھی چیز کے بارے میں رشک نہیں کرنا چاہیے آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(رشک صرف دو لوگوں کے بارے میں کیا جا سکتا ہے: ایک وہ شخص جسے اللہ تعالی نے خوب مال نوازا اور پھر اسے حق کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق دی، [دوسرا ] وہ آدمی جسے اللہ تعالی نے حکمت [علم] سے نوازا تو وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور آگے لوگوں کو سکھاتا ہے) متفق علیہ
شرعی اور تقدیری فیصلوں کا متفقہ اصول ہے کہ "جیسا کرو گے ویسا بھرو گے" چنانچہ علم اللہ تعالی کے بارے میں قریب ترین راستے کے ذریعے معلومات فراہم کرتا ہے، چنانچہ حصولِ علم کے راستے پر چلنے والا حقیقت میں اللہ تعالی اور جنت کے قریب ترین راستے پر چل نکلتا ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے
جو شخص کسی راستے پر علم کی جستجو میں نکلے تو اس عمل کی وجہ سے اس کیلیے اللہ تعالی جنت کا راستہ آسان بنا دیتا ہے) مسلم
شرعی علم پوری امت کیلیے فتنوں اور مصیبتوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" کچھ لوگوں نے عبادت میں مشغول ہو کر علم حاصل نہیں کیا، پھر وہی لوگ امت محمدیہ کے خلاف تلوار اٹھا کر بغاوت پر اتر آئے اگر وہ علم حاصل کرتے تو اس اقدام سے باز رہتے"
٭ فوائدِ علم کی وجہ سے پوری دھرتی پر علم پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے چاہے وہ معمولی سا ہی کیوں نہ ہو، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(میری طرف سے [دین]آگے پہنچاؤ چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو) بخاری
٭ اللہ تعالی نے اہل علم سے استفسار اور ان سے رجوع کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:
{ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}
تم اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے۔ [الأنبياء : 7]
٭ نبی کریم ﷺ نے اہل علم کیلیے تر و تازگی ، خوش باش زندگی ، روشن چہرے اور شرح صدر کی دعا فرمائی:
(اللہ تعالی ایسے شخص کے چہرے کو ہمیشہ تر و تازہ رکھے جو ہم سے دین سنے اور بعینہٖ آگے پہنچائے، بہت سے شاگرد اپنے اساتذہ سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں) ترمذی
٭ نیز نبی ﷺ نے اپنے محبوب صحابی کیلیے دعا فرمائی کہ وہ بھی اہل علم میں شامل ہوں، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا:
(یا اللہ! اسے دین کا فقیہ بنا دے) بخاری
٭ علم کی وجہ سے زندگی اور موت کے بعد بھی بلند درجات ملتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ}
اللہ تعالی تم میں سے ایمان والوں اور اہل علم کے درجات بلند فرماتا ہے۔[المجادلۃ : 11]
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" علم حاصل کر کے عمل کرنے والے اور پھر آگے پھیلانے والے کو ہی آسمانوں میں "عظیم" کہہ کر پکارا جائے گا"
٭ صاحب علم کو مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا رہے گا، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(جس وقت انسان فوت ہو جائے تو تین ذرائع کے علاوہ اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں: صدقہ جاریہ، علم جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، نیک اولاد جو اس کیلیے دعائیں کرے) مسلم
٭ افضل ترین علم کی کتاب و سنت میں مدح سرائی بھی کی گئی ہے اور یہ وہی علم ہے جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہو، تمام علوم میں ذاتِ باری تعالی اور اس کے اسما و صفات کا علم بلند ترین ہے، یہی حقیقت میں تخلیق و تدبیر کا مقصد بھی ہے:
{اَللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا}
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی طرح زمینیں بھی، ان کے درمیان سے حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ اللہ یقینا ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ کہ اللہ نے علم سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔ [الطلاق : 12]
ہر مسلمان پر علم کی فرض مقدار حاصل کرنا واجب ہے، وہ اسی کی روشنی میں اپنا عقیدہ ، نمازیں اور روزے صحیح کر سکے گا، اپنے وقت میں سے کچھ علم کیلیے بھی مختص کرے، علمی مجالس اور حلقوں میں بیٹھنا بوجھ مت سمجھے۔
طالب علم کو چاہیے کہ علم کی قدر و منزلت کا خیال کرے، اللہ تعالی سے علم نافع مانگے، اور اللہ تعالی سے حسن ظن قائم رکھے، حصولِ علم کیلیے تقوی اپنے دامن کیساتھ باندھ لے، اپنی نیت خالص اللہ تعالی کیلیے بنائے، اپنے علم کے ذریعے بیوقوف لوگوں سے مت جھگڑے، اور نہ ہی علمائے کرام سے بحث کرے، حاصل شدہ علم کے مطابق عمل کرنے پر غیر حاصل شدہ علم بھی اللہ تعالی عطا کر دیتا ہے۔
مسلمانو!
٭ اللہ تعالی نے متلاشیان علم کیلیے اسے آسان بنانے، اور وہ کچھ دینے کا وعدہ کر لیا ہے جو ابھی طالب علم کے ذہن میں بھی نہیں ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ}
پڑھو، تمہارا رب کریم ترین ہے۔[العلق : 3]
علم کا راستہ بہت آسان اور سب کی پہنچ میں ہے، چنانچہ قرآن مجید یاد کریں، نبی ﷺ کی کچھ احادیث مبارکہ حفظ کریں، اہل علم کے چنیدہ علمی متن یاد کریں، انہیں سمجھیں اور پھر ان پر عمل پیرا بھی ہوں، جتنا علم زیادہ ہوگا اتنی ہی بلندی ملے گی، اس طرح انسان رضائے الہی اور بلند جنتوں کو پا سکتا ہے۔
اس تفصیل کے بعد:
أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ}
مومنوں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ سب کے سب ہی نکل کھڑے ہوں ، پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ہر گروہ میں سے کچھ لوگ دین میں سمجھ پیدا کرنے کے لئے نکلتے تاکہ جب وہ ان کی طرف واپس جاتے تو اپنے لوگوں کو [برے انجام سے] ڈراتے، اسی طرح شاید وہ برے کاموں سے بچے رہتے [التوبۃ: 122]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!
معرفتِ الہی اور اوامر و نواہی کا علم رکھنے والے گزشتہ و پیوستہ تمام علمائے امت کو اچھے لفظوں میں ہی یاد کیا جائے، امت پر ان کا بہت عظیم حق ہے، اس کیلیے ان سے محبت اور ان کا احترام کرنا چاہیے، ان سے علم حاصل کریں اور مسائل کے حل کیلیے ان سے رجوع کریں، اہل علم کی تعظیم حقیقت میں دین کی تعظیم ہے، یہی اہل علم ہی دین کے علم بردار اور امین ہیں، چنانچہ ان کے راستے سے کنارہ کشی اختیار کرنے والا ہی گمراہ ہے، ان سے بغض و عداوت رکھنا کم عقلی اور فطرت سے انحراف ہے، بلکہ یہ اللہ تعالی کے عذاب اور اس سے اعلان جنگ کی گھنٹی بھی ہے، کیونکہ حدیث قدسی میں ہے کہ: (جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے تو میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں) بخاری
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام ابو حنیفہ اور شافعی رحمہما اللہ کہتے ہیں: اگر علما ہی اللہ کے ولی نہیں ہیں تو پھر اس دنیا میں اللہ تعالی کا کوئی ولی نہیں "
یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد، یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین : ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما، اور تمام مسلمانوں کی تیری طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کے خطوں کو امن و امان عطا فرما، یا قوی! یا عزیز!
یا اللہ! ہمارے سپاہیوں کو کامیاب فرما، یا اللہ! ان کے قدموں کو ثابت بنا ، یا اللہ! ان کی نشانے درست فرما، یا اللہ! انہیں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!
یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال اپنے رضا کیلئے مختص فرما، اور تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب کے نفاذ اور شریعت کو بالا دستی دینے کی توفیق عطا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!
یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! ہم تجھ سے علم نافع اور عمل صالح کا سوال کرتے ہیں۔
یا اللہ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو ہی غنی ہے ہم تیرے در کے فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما، اور ہمیں مایوس مت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما۔
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر خوب ظلم ڈھائے، اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
اللہ کے بندو!
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو [امداد] دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے [قبول کرو]اور یاد رکھو۔[النحل: 90]
تم عظمت و جلالت والے اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔