- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
علومِ اسلامیہ کی معیاری تعلیم؛ وقت کی اہم ضرورت
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
اسلام اللہ کا آخری دین ہے جس میں دین ودنیا کی تمام خوبیاں جمع کردی گئی ہیں۔دین کے بارے میں یہ تصور مغربی تہذیب نے دیا ہے کہ وہ صرف اللہ اور بندے کے باہمی تعلق کا احاطہ کرتا ہے اور دنیا کے دیگر معاملات کو ہمیں انسانی عقل ودانش اور تجربے کی روشنی میں بروے کار لانا چاہئے۔ دین کا یہ محدود تصور ایک طرف سیکولر نظریہ کو پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف اس سے دین ودنیا کی ثنویت وجود میں آتی ہے۔ مغرب کے اس بنیادی نظریہ پر ایمان لے آنے کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں بھی تمام علوم کی تعلیم اس سیکولر سوچ کی بنا پر دی جاتی ہے اور اس سیکولر نظام تعلیم کے پروردہ آخرکار مسلم معاشرے کو بھی دو خانوں: دین ودنیا میں تقسیم کردیتے ہیں۔ اللہ کے ہاں دین صرف اسلام ہی ہے، اور اسلام جس طرح ہماری آخرت کی اصلاح کرتا ہے، اسی طرح اس سے ہماری دنیا بھی سنورتی ہے۔ اسلام زندگی کی اُن بیش قیمت تفصیلات پر مشتمل ہے جس پر عمل پیرا ہوکر مسلمان خیرالقرون میں ایک مثالی معاشرہ میں ڈھل گئے اور یہ اسلامی تعلیمات کا ہی اعجاز تھا کہ عرب کے جاہل بدو، اسلام کی تعلیمات سیکھ کر چند ہی سالوں میں دنیا کے قائد وامام بن گئے۔اُن کا دین بھی سنورا اور دنیا بھی نکھر گئی۔اسلام نے ان کو عظیم سیاسی اور اجتماعی قوت ہی نہیں بنایا بلکہ وعدہ قرآنی کے عین مصداق امن وامان کی دولت سے بھی یہ معاشرے مالا مال ہوگئے اور بشارتِ نبوی کے مطابق چشم فلک نے یہ دیکھا کہ زکوٰۃ لے کر نکلنے والوں کو زکوٰۃ وصول کرنے والا نہ ملتا تھا، گویا مسلم معاشروں سے غربت کا بھی خاتمہ ہوگیا جس کے خاتمے کے لئے آج کی مغربی تہذیب ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود کامیاب نہیں ہوپارہی ۔دورِعثمانیؓ میں زکوٰۃ کی تقسیم مشکل ہوجانے سے صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ خلافتِ اسلامیہ نے اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ ادا کرنے کی ذمہ داری ہر صاحبِ نصاب مسلمان کے ہی سپرد کردی۔ نبی کریمﷺ کے ارشادات اور قرآنِ کریم کے فرامین پر عمل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقت کی سپر پاورزقیصر وکسریٰ اُن کے قدموں میں ڈھیر ہوگئے۔ گویا اسلامی نظریہ نے اُنہیں دنیا میں بھی کامیابی وکامرانی کی ضمانت دی!!مسلم معاشروں میں یہ مسئلہ مدارس دینیہ کے ذریعے پیدا نہیں ہوا کہ دین ودنیا کے دو خانے وجود میں آگئے اور مسٹر وملّا کی گہری خلیج حائل ہوئی، بلکہ استعمار کے دورِ حکومت میں جب سیکولر نظریۂ زندگی پر معاشرے کی تشکیل کی گئی اور مغرب نے سکول وکالج کا نظام قائم کرکے دنیاکی تعلیم کے ادارے علیحدہ کرلئے تو دین کی بنا پر تعلیم دینے والے مدارسِ دینیہ باقی رکھے جانے کے نتیجے میں از خود دین ودنیا کی ثنویت قائم ہوگئی۔ جبکہ ان مدارس دینیہ کی بنا پر صدیوں تک چلے آنے والے مسلم معاشروں میں دین ودنیا کی کوئی تقسیم نہیں تھی، اور ان کے ہاں تمام علوم ہی شریعتِ اسلامیہ کے وسیع اور جامع تر تصور کے تحت پڑھے پڑھائے جاتے تھے۔
مسلم فرد اور اسلامی معاشرے کی کامیابی وکامرانی علومِ اسلامیہ میں رسوخ ، اس کے فروغ اور اس پر مخلصانہ عمل میں ہی مضمر ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ دیگر علوم کی طرح اسلام کو بھی جدید یونیورسٹیوں میں محض علم کی ایک شاخ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، اور جس طرح سیاسیات ومعاشیات میں دو سالوں میں طالب علم کے ہاتھوں میں سندِ فراغت تھما دی جاتی ہے، علوم اسلامیہ کو بھی اتنا یا اُس سے مختصر ہی وقت دیا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام تو علوم کا ایسا خزینہ ہے جس پر پوری زندگی بھی صرف کی جائے تو اس کے معانی ومفاہیم ختم ہونے میں نہ آئیں۔یہ اسلام کی محض عسکری فتح ہی نہیں تھی، بلکہ اسلام کی نظریاتی قوت نے بھی ان قوموں کو زیر کیا اور اسلامی احکام وشرائع کو دل وجان سے مسلمانوں نے قبول کیا۔ظاہر ہے کہ قوم مسلم کی یہ دنیوی کامیابی انہی کتاب وسنت کو سیکھنے اور پھر اُن پرمخلصانہ عمل پیرا ہونے کا نتیجہ تھی جنہیں آج ہمارے نادان مسلمان بھائی صرف مسجد ومدرسہ تک محدود رکھنے پر اصرار کئے بیٹھے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سیاست وعدالت ، معاشرت ومعیشت، قانون وقضا اور تعلیم وابلاغ کی اس قدر لمبی چوڑی تفصیلات ہیں جن سے دنیا کے دیگر مذاہب یکسر محروم ہیں۔ اسلامی علمیت کا دیگر مذاہب کے علوم سے اگر مقابلہ کیا جائے تو اپنی جزئیات وتفصیلات کے لحاظ سے اسلامی علوم کا ظاہری حجم ہی اُن سے دسیوں گنا زیادہ ہے۔ اور اگر ان علوم کی گہرائی اور گیرائی کا بصیرت افروز جائزہ لیا جائے تو اسلام کو اللہ کا عطا فرمودہ دین اور انسانیت کے لئے عظیم الشان تحفہ مانے بنا کوئی چارہ نہیں رہتا۔