• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علوم قرآن

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
باب : 7
علوم قرآن

تعریف علوم قرآن :
قرآن مجید میں واقع مختلف مباحث، مثلاً:نزول قرآن،وحی کا بیان، مصاحف میں اس کی کتابت، جمع اور تدوین ، محکم ومتشابہ آیات، مکی و مدنی سورتیں، اسباب نزول، قرآن کے الفاظ کی تفسیروترجمہ، ان کی اغراض و خصوصیات ،وغیرہ سے متعلق گفتگو کو’’علوم القرآن‘‘کہتے ہیں۔ ان کا مقصد قرآن مجید کی تمام جزئیات ، کلیات اور تصورات کو واضح کرنا اور سمجھنا ہے۔اس علم کو اصول التفسیر بھی کہتے ہیں۔

امام زرکشیؒ نے اپنی معروف کتاب البرھان میں علوم القرآن کے تینتالیس موضوعات شمار کرکے ان پر تفصیلی گفتگو چار ضخیم اجزاء میں کردی ہے۔علامہ جلال الدین عبد الرحمن سیوطیؒ نے ان کی تعداد اسی (۸۰)شمار کی ہے اور ان پر تفصیلی گفتگو کی ہے جبکہ کلام اللہ میں اور بھی بے شمار علوم ہیں جن کی تعداد تین سو سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ان علوم میں سے چند کے نام یہ ہیں:

۱۔ علم تجوید
۲۔ علم محکم ومتشابہ
۳۔ علم قراء ت
۴۔ علم أسباب نزول
۵۔ علم رسم قرآنی
۶۔ علم إعجاز قرآن
۷۔ علم إعراب قرآن
۸۔ علم ناسخ ومنسوخ
۹۔ علم مکی ومدنی
۱۰۔ علم غریب قرآن
۱۱۔ علم تفسیر
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
فوائد علوم قرآن

علوم القرآن کے بے شمار فوائد ہیں۔ مثلاً:
رسم قرآن کا علم بتاتا ہے کہ قرآن کی تحریر بتدریج اپنے کمال تک کن کن مراحل سے ہوکر پہنچی۔اس کی تشکیل کب او رکیسے ہوئی؟ اسی طرح احزاب، منازل ، اجزاء اور ہر سورۃ کے نام وغیرہ کب ، کیوں او رکیسے متعین ہوئے ۔ مصحف قرآنی کے مختلف خطوط کا تعین اور پھر کتابت جیسی دلچسپ باتیں یہی علم کرتا ہے۔

علم تجوید ، قرآن کریم کے طالب علم کو حروف کے صحیح مخارج ونطق کی معرفت دیتاہے۔ اس کی مشق تلاوت قرآن یا سماع قرآن کی لذت کو دوبالا کردیتی ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ تجوید کے بغیرقرآن کی تلاوت غیر مؤثر رہتی ہے۔
علم قرأت پر دسترس اسی تلاوت کا خوگر بناتی ہے جوہادی برحق نے ترتیل سے کی تھی۔اور جس کے مختلف طرز ادا تھے۔
اسبابِ نزول آیات و سور کے پس منظر سے آگاہ کرتا اور ان کی تشریح و توضیح میں بھرپور معاونت کرتا ہے۔
ناسخ و منسوخ کا علم ، قرآنی آیات میں بیان کردہ مخصوص حکم کی پہلی او رآخری نزولی ترتیب کا تعین کرتا ہے۔ وہ ذات اپنی حکیمانہ تدبیر سے جو حکم چاہے ، ابتداء ً نازل کر دے اور بعد میں اس حکم کو اٹھالے اور اس کی جگہ زیادہ بہتر حکم نازل کر دے یا ویسا ہی حکم لا کر ہمارے ایمان کا امتحان لے۔عقل انسانی کو شاہد بناتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی آیات و الفاظ میں سے جتنا چاہے باقی رکھے اور جو چاہے محو کر دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مکی و مدنی آیات وسور کے علم سے اس تقسیم کی حکمتیں اور فوائد ظاہر ہوتے ہیں، قرآن مجید کیوں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا؟ عقائد اوراحکام کے نزول میں تدریجی پہلو کیوں پیش نظر رکھے گئے؟ یہ علم روایات مختلفہ کو چھانٹنے اور ان کے بارے میں بہتر فیصلہ کرنے میں بڑا ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔ خاص طور پر دعوت اسلامی کے مراحل کو سمجھنے میں، تاکہ ہر علاقے او رہر زمانے میں دعوت دین کے دوران داعی حضرات کو ان سے استفادہ کا موقع ملے۔یہ علم سیرت نبوی سے بھی آگاہ کرتا ہے۔نیز آیات اور الفاظ کے معنی و مفہوم میں امکانی تحریف کو یہی علم ہی کھنگالتا ہے۔

قرآن فہمی کے لئے عربی زبان کا علم بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔وہ عربی زبان جو قرآن فہمی میں مدد دے۔ اس کی مددگار قرآن مجید واحادیث کی لغات، گرامرصرف ونحو اور احادیث نبویہ ہیں ۔

تفسیر قرآن کے لئے یہ علوم کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ علوم طالب ِ علم کو قرآن کے افہام وتفہیم میں اعتماد دیتے اور درست منہج عطا کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف ان سے عملاً مستفید ہوتا ہے بلکہ تعلیم وتعلّم کا جذبہ بھی بیدار کرتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ میری ہمت وقوت میں اضافہ کا سبب نہ صرف یہ پاک کلام ہے بلکہ فہم وعقل کو جلا بخشنے والی یہ مقدس کتاب ہے۔ اسی معنی میں قرآن کو آسان کتاب کہا گیا ہے۔ طالب علم کو یہی علوم ، قرآن پر کئے گئے اعتراضات، تحریفات اور شبہات کا مدلل جواب دینے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید کے اسرار و رموز، عقائد و احکام کا علم اور ان کی حکمتیں انہی علوم کی مرہون منت ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تدوین ِ علومِ قرآن کی مختصر تاریخ:
قرآن کریم کے علوم کی بنیاد دور رسالت میں ہی رکھ دی گئی تھی جسے صحابہ کرام ؓنے اجتہادی فہم سے استوار کیا اور بعد کے علماء نے اس کو مزید نکھارا۔اس تدوین کو تاریخی طور پر تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
پہلا دور :
تدوین سے قبل کا عہد :
یہ نبی اکرم ﷺ کا زمانہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ، سینوں میں محفوظ ہوا او رلکھا بھی گیا۔اس عہد کے عرب حضرات کے لئے قرآن کا سمجھنا اور سمجھانا اس لئے آسان تھا کہ قرآن انہی کی زبان میں اترا۔ آپﷺ بھی عرب اور مخاطب قوم بھی عرب تھی۔قرآن نے غیر عربوں کے لئے بھی اپنے پیغام میں خاصی کشش رکھی جسے سمجھنا ان کے لئے بھی چنداںمشکل نہ تھا۔یہود، نصاریٰ اور غیر عرب حضرات سبھی دور رسالت میں قرآن کی سماعت سے متاثر نظر آتے ہیں۔ صحا بہ کرامؓ اسے بہتر انداز سے سمجھتے، پڑھتے ، عمل کرتے اور سمجھاتے تھے۔مثلاً:
سیدنا عبد اللہؓ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت
{الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَلَمْ یَلْبِسُواْ إِیْمَانَہُم بِظُلْمٍ أُوْلَـئِکَ لَہُمُ الأَمْنُ وَہُم مُّہْتَدُونَ¡} (الأنعام:۸۲)
اتری تو ہم پریشان ہو گئے۔ خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی، کہ اللہ کے رسول ﷺ أینا لم بظلم نفسہ ؟ ہم میں کوئی ایسا ہے جو اپنے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کرتا؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا: جو مفہوم آیت کا تم سمجھ رہے ہو یہاں وہ مراد نہیں بلکہ یہ وہی ہے جو لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو فرمایا تھا،
{۔۔۔ یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللَّہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْم¡} (لقمان: ۱۳)
بیٹااللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا یقیناً شرک کرنا بڑا ظلم ہے یعنی ظلم سے مرادیہاں شرک ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس لئے صحابہ رسول یہ جانتے تھے کہ فلاں آیت کس پس منظر میں نازل ہوئی، اس کا معنی ومفہوم کیا ہے۔ کون سی آیت منسوخ ہوچکی ہے اور کن آیات متشابہات پر ہم نے صرف ایمان رکھنا ہے اور ان کی تاویل نہیں کرنی۔اگر کوئی مشکل پیش آتی تو آپ ﷺ ان کے درمیان موجود تھے جن سے وہ دریافت کرلیتے۔اس لئے اس دور میں علوم قرآن متعارف کرانے یا انہیں مدون کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔اور بھی کئی وجوہات تھیں۔ جن میں چند اہم درج ذیل ہیں:

٭ … اس دور میں اگرچہ قرآن سے متعلق علوم موجود تھے اور صحابہ کرامؓ ان سے واقف بھی تھے لیکن ان علوم نے ابھی تک کوئی ایسی واضح شکل اختیاز نہ کی تھی کہ ان کو باقاعدہ طور پر ضبط تحریر میں لایا جاتا۔

٭ … اس دورمیں نزول قرآن کے ساتھ تدوین قرآن کا کام بھی ہو رہا تھا او ر صحابہ کرامؓ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ تدوین میں مصروف تھے کہ کسی او رموضوع پر کوئی کام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

٭ … قرآن عربی زبان میں قلب ِ رسول ﷺ پر نازل ہوا تھا جو عربوں کی اپنی زبان تھی۔ اس لئے انہیں قرآن سے متعلق علوم مثلاً: علم التجوید ، علم الاعراب ، علم غریب القرآن وغیرہ سے بخوبی واقفیت حاصل تھی لہذا ان تمام علوم کو مدوّن کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔

٭ … ایک او روجہ یہ بھی تھی کہ قرآن ان کے سامنے نازل ہوا تھا۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ کونسا حصہ کس موقع پر اور کس پس منظر میں نازل ہوا او ریوں وہ علم تفسیر ، ناسخ و منسوخ، علم مکی ومدنی ، علم نزول ، علم وحی، علم اسباب وغیرہ کے بارے میں اچھی طرح جان چکے تھے۔

٭ … اگر صحابہ کرام ؓ کو اہل زبان ہونے اورنزول قرآن کا شاہد ہونے کے باوجود کوئی مشکل پیش آ جاتی تھی تو وہ براہ راست نبی اکرم ﷺ سے اس کا حل دریافت کر لیا کرتے تھے۔

٭… علوم قرآن کو احاطہ تحریرمیں لانے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نبی اکرم ﷺ نے قرآن کے علاوہ کسی بھی قسم کی کتابت سے منع کیا تھاکیونکہ اس سے یہ احتمال تھا کہ وہ قرآن میں شامل ہو جائے گا۔ لہذا نہ صرف علوم القرآن کی کتابت بلکہ کسی بھی موضوع کی کتابت کی طرف توجہ نہ دی گئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دوسرا دور:
تدوین کا عہد او راس کا آغاز :
رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام ؓ نے قرآن مجید کے سلسلے میں جو علمی و تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں ان کا بنیادی مقصد ، خدمت قرآن ، اس کے صحیح فہم کی اشاعت کرنا اور کسی بھی کج فہم کی ممکنہ شرارتوں سے قرآن مجید کو محفوظ رکھنا تھا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دور صحابہ ؓ میں ہی فضائل قرآن ، علم تفسیر ، علم رسم قرآن او رعلم اعراب القرآن پر بہت کچھ کہا بھی گیا اور لکھا بھی گیا۔

خلافت صدیقی و فاروقی:
اس عہد میں علوم ِ قرآن کی نشر و اشاعت محض زبانی نہ رہی بلکہ تدوین کی ابتدا اس عہد میں ہی شروع ہوئی۔ صحابی رسول ابو المنذر أبی بن کعبؓ نے عجمیوں میں قرآن مجید کی عظمت کو جاگزیں کرنے کے لئے فضائل قرآن پر ایک کتاب لکھی۔ اس میں دلوں کو نرمانے اور قرآن کی طرف مائل کرنے کے لئے اہم علمی نکات تھے۔ اسی طرح غیر عربی اقوام کو اصول دین سے آگاہ کرنے اور قرآن کے معنی و مفاہیم سے روشناس کرانے کے لئے علم التفسیر کی تدوین بھی انہوں نے شروع کی۔ ان کا انتقال عہد فاروقیؓ میں ہوا تھا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عہد صدیقیؓ یا عہد فاروقیؓ کی کتابیں ہیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کی تفسیر کا بھی علوم قرآن میں ایک قابل قدر حصہ ہے جو ان کے ارشد تلامذہ سعید بن جبیر ،مجاہدبن جبر وابو العالیۃ الریاحی کی روایات سے تفاسیر میں سموئی جا چکی ہے۔ ترجمان القرآن کا لقب رسول اللہ ﷺ نے آپ کو دیا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
خلافت ِ عثمانیؓ:
سیدنا عثمان ذوالنورینؓ کے عہد میں اسلامی خلافت کی حدود جب غیر عربوں تک پھیلیں اور لوگ مسلمانوں کے کردار، اخلاق اور نیکی و پاکیزگی سے متاثر ہو کر اسلام میں جوق درجوق داخل ہوئے تو انہیں بھی قرآن مجید کو پڑھنے سمجھنے کا شوق ہوا۔ یہ نئے لوگ عربی زبان سے نابلد، قرآن مجید کے نزول کی اہمیت سے ناآشنا اور جو حالات نزول قرآن کے دوران پیش آئے ان سے بھی ناواقف تھے۔ انہیں شوق تلاوت تو تھا مگر عربی لہجہ کے نہ ہونے سے ان کا غیر عربی لہجہ تلاوت کلام پاک میں آہستہ آہستہ عام ہو گیا۔نیز اس وقت جو قرآن لکھا ہوا تھا اس کا رسم الخط بھی کچھ ایسا تھا جو تلاوت قرآن میں اختلاف کو عام کرنے کا سبب بنا۔

سیدنا عثمانؓ نے جس لغت اور خط کو اس امت کے لئے پسند فرمایا اسے رسم عثمانی کہا جاتا ہے جو علوم ِ قرآن کی ایک قسم ہے۔اسے علم رسم القرآن بھی کہا جاتا ہے۔اس طرح اس علم کا پہلا تعارف ہوا۔

خلافت ِ علیؓ:
عربی زبان ولہجہ کی حفاظت اور قراءت قرآن میں لحن سے بچاؤ اور صحیح نطق کے لئے چند پیشگی اقدامات اٹھانے پر سیدناعلیؓ بھی مجبورہوئے۔آپؓ نے أبو الأسود الدؤلی کو بعض بنیادی اصولوں کی رہنمائی کرتے ہوئے قرآن مجید کے اعراب سمجھائے۔ اس رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دؤلی نے نقط مصاحف پر ایک مختصر رسالہ لکھا۔ جو علم اعراب القرآن کا نقطہ آغاز تھاجس کے مؤسس سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تدریس و تعلیم کے ذریعے بھی علوم قرآن کو صحابہ کرامؓ نے عام کیا ان میں خلفاء اربعہؓ، عبد اللہ بن عباسؓ ، عبد اللہ بن مسعودؓ، زیدبن ثابتؓ، ابوموسیٰ اشعری ؓاور عبد اللہ بن زبیرؓ کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں۔مزید ان کے چند لائق شاگردوں نے ان کی چھوڑی اس وراثت کو خوب اشاعت دی یہ سب تابعین تھے۔ ان میں سرفہرست ابن المسیبؒ، مجاہدؒ، عطاءؒ، عکرمہؒ، قتادہؒ، حسن بصریؒ، سعید بن جبیرؒاورزید بن اسلمؒ ہیں۔عہد تابعین میں پہلی تفسیر سعیدؒ بن جبیر نے لکھی۔ ان کے بعد ابو العالیہ رفیع ؒبن مہران الریاحی نے قرآن کی تفسیر لکھی۔ یہ دونوں حضرات عبد اللہ بن عباسؓ کے شاگرد ہیں۔مجاہد نے بھی تفسیر ابن عباس کی روایت کی جو انہی کے مدرسہ سے تعلق رکھتے ہیں۔علقمہ بن قیس ، مسروق بن الأجدع، قتادۃ بن دعامۃ، عمرو بن شرحبیل اور ابوعبد الرحمن السلمی کا تعلق کوفہ سے تھا یہ سبھی مدرسہ ابن ؓمسعود سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور مدینہ منورہ میں ابی ؓبن کعب کا مدرسہ بھی اپنے قابل شاگردوں سے معمور ہے جن میںابو العالیہ الریاحی اور محمد بن کعب القرظی ہیں جنہوں نے سیدناابی کے مدرسہ کو فروغ دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تیسرا دور:
دوسری صدی ہجری : یہ دور دوسری صدی ہجری سے ہمارے دور تک محیط ہے۔صحابہ وتابعین نے علوم القرآن کی بنیاد رکھ کر مزید فکرو عمل کی راہیں کھولیں۔ چنانچہ دوسری صدی ہجری میں علوم ِ قرآن کی تدوین پر سب سے زیادہ کام قرآن کے خاص خاص موضوع اور مختلف مباحث پر جداگانہ اور مستقل تصانیف کے سلسلے سے شروع ہوا۔ ہر موضوع پر بلند پایہ ائمہ نے اپنی نگارشات پیش کیں۔جن میں اسباب نزول، غریب قرآن ، ناسخ ومنسوخ، علم قراء ت، متشابہ قرآن ، اعراب و معانی قرآن اور علم تفسیر پر لاتعداد کتب تھیں۔

کتب حدیث میں آپﷺ کی تفسیر یا صحابہ کرام ؓ کی تفاسیر، بذریعہ روایات معمولی جگہ پاسکیں۔ اس لئے علماء تفسیر نے علم التفسیر پر لکھنا شروع کیا۔جن میں کسی ایک سورۃ کی ہو یا چند آیات کی یا مکمل قرآن مجید کی تفسیر تھی۔ان تفاسیر میں ضمناً مباحث علوم ِ قرآن بھی آگئے۔ کچھ علماء کے تفسیری نکات بھی مروی ہیں ان میں امام شعبہ بن الحجاج البصریؒ، امام مالک بن انسؒ، امام حجاز سفیان بن عیینہؒ، امام وکیع بن الجراحؒ اور یگانہ روز گار مجاہد امام عبد اللہ بن المبارکؒ شامل ہیں۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے صرف تفسیری موضوع کو اختیار کیا اور اس پر بہت کچھ لکھا ۔ ان میں سرفہرست امام محمد بن جریرالطبریؒ(م: ۳۱۰ھ) ہی نظر آتے ہیں جن کی تفسیر’’جامع البیان عن تأویل آي القرآن‘‘تفسیر بالمأثور میں ایک وقیع اور عمدہ کتاب ہے۔
 
Top