• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علی رضی اللہ کا ذکر عبادت ہے ! نعوذ باللہ شیعہ روافضی کے جھوٹ اور مکاریاں

آصف حسین

مبتدی
شمولیت
جنوری 27، 2016
پیغامات
24
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
محترم اسحاق سلفی صاحب ہوا میں باتیں ھم نہیں کرتے۔ یہ لیجیے جواب :

1 -منصور بن اي الاسود :ذكر متابعته ابن عساكر في تاريخه ج42 ص352
وقال السيوطي في الآلئ " قلت له متابع عن الاعمش قال الشيرازي في الالقاب انبانا ابو علي زاهر بن احمد حدثنا ابو عبد الله محمد بن مخلد حدثنا احمد بن الحجاج بن الصلت حدثنا محمد بن مبارك استوية حدثنا منصور بن ابي الاسود عن الاعمش به . " انتهى كلام السيوطي
وذكر متابعة منصور هذا ابو نعيم في فضائل الخلفاء ج1 ص67 رقم 38
ومنصور هذا من رجال ابو داود والنسائي والترمذي
قال ابن حجر في التقريب : صدوق رمي بالتشيع "
وقال في تهذيب التهذيب ج4 ص155
" قال ابن ابي خيثمة عن ابن معين ثقة وقال ابراهيم بن الجنيد عن ابن معين : لابأس به كان من الشيعة الكبار وقال ابو حاتم : يكتب حديثه وقال النسائي : ليس به بأس وذكره ابن حبان في الثقات
قلت : وذكره ابن سعد في الطبقة السادسة من اهل الكوفة وقال : كان تاجرا كثير الحديث " انتهى
فالرجل ثقة بالاتفاق فالمتابعة تامة

2- عاصم بن عمرو البجلي : روى متابعته في فضائل الخلفاء ج1 ص67 رقم 38
حدثنا محمد بن الحسن بن محمد بن الحسين بن ابي الحسين ، ثنا احمد بن جعفر بن اصرم ثنا علي بن المثنى ثنا عاصم بن عمر البجلي
عن الاعمش عن ابراهيم عن علقمة عن عبد الله قال : قال رسول الله (ص) النظر الى وجه علي عبادة " وذكرها السيوطي في اللآلئ
قال ابن حجر في التقريب : صدوق رمي بالتشيع
وقال الذهبي في الميزان ج2 ص 256 : لا بأس به ان شاء الله ، وهو من قدماء شيوخ سفيان "
وقال ابن حجر في تهذيب التهذيب ج2 ص259
" قال يحيى بن معين كان كوفيا قدم الشام وقال ابو حاتم : صدوق يحول من كتاب الضعفاء – يعني الذي للبخاري – وذكره ابن حبان في الثقات وروى له ابن ماجة حديثا واحدا في فضل صلاة الرجل في بيته قلت : قال البخاري لم يثبت حديثه
وذكره العقيلي في الضعفاء " انتهى
فالرجل ثقة ولاعبرة بضعيفهما لانه جرح غير مفسر
على كل حال : الرجل يصلح للمتابعات

3- وتابعه عبيد الله بن موسى ( من رجال الستة )
قال ابو نعيم في فضائل الخلفاء ج1 ص67 رقم 38
بعد ان روى الحديث عن عاصم بن عمرو البجلي عن الاعمش عن ابراهيم قال :
" ورواه عبيد الله بن موسى ومنصور بن ابي الاسود ويحيى بن عيسى الرملي عن الاعمش مثله " انتهى
والرجل من رجال الستة البخاري ومسلم والترمذي وابو داود والنسائي وابن ماجة

4- متابعة الثوري : الظاهر والله العالم – بقرينة الراوي والمروي – انه سفيان الثوري وهو من رجال الستة
وهذه المتابعة اخرجها ابن عساكر في تاريخه ج42 ص352
" وروي عن الاعمش عن ابي وائل عن عبد الله أخبرناه أبو الحسين الخطيب وأبو الحسن المقدسي قالا أنا أبو عبد الله بن أبي الحديد أنا مسدد بن علي نا إسماعيل بن القاسم الحلبي نا أبو أحمد العباس بن الفضل بن جعفر المكي نا أبو بكر محمد بن هارون بن حسان المعروف بابن البرقي نا حماد بن المبارك نا أبو نعيم نا الثوري عن الأعمش عن أبي وائل عن عبد الله بن مسعود عن النبي ( صلى الله عليه وسلم ) قال النظر إلى وجه علي بن أبي طالب عبادة "


فالذين رووه عن الاعمش هم :
1- يحيى بن عيسى الرملي
2- منصور بن ابي الاسود
3- عاصم بن عمرو البجلي
4- عبيد الله بن موسى
5- الثوري ( وهو سفيان
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
محترم اسحاق سلفی صاحب ہوا میں باتیں ھم نہیں کرتے۔ یہ لیجیے جواب :

1 -منصور بن اي الاسود :ذكر متابعته ابن عساكر في تاريخه ج42 ص352
وقال السيوطي في الآلئ " قلت له متابع عن الاعمش قال الشيرازي في الالقاب انبانا ابو علي زاهر بن احمد حدثنا ابو عبد الله محمد بن مخلد حدثنا احمد بن الحجاج بن الصلت حدثنا محمد بن مبارك استوية حدثنا منصور بن ابي الاسود عن الاعمش به . " انتهى كلام السيوطي
وذكر متابعة منصور هذا ابو نعيم في فضائل الخلفاء ج1 ص67 رقم 38
ومنصور هذا من رجال ابو داود والنسائي والترمذي
قال ابن حجر في التقريب : صدوق رمي بالتشيع "
وقال في تهذيب التهذيب ج4 ص155
" قال ابن ابي خيثمة عن ابن معين ثقة وقال ابراهيم بن الجنيد عن ابن معين : لابأس به كان من الشيعة الكبار وقال ابو حاتم : يكتب حديثه وقال النسائي : ليس به بأس وذكره ابن حبان في الثقات
قلت : وذكره ابن سعد في الطبقة السادسة من اهل الكوفة وقال : كان تاجرا كثير الحديث " انتهى
فالرجل ثقة بالاتفاق فالمتابعة تامة

2- عاصم بن عمرو البجلي : روى متابعته في فضائل الخلفاء ج1 ص67 رقم 38
حدثنا محمد بن الحسن بن محمد بن الحسين بن ابي الحسين ، ثنا احمد بن جعفر بن اصرم ثنا علي بن المثنى ثنا عاصم بن عمر البجلي
عن الاعمش عن ابراهيم عن علقمة عن عبد الله قال : قال رسول الله (ص) النظر الى وجه علي عبادة " وذكرها السيوطي في اللآلئ
قال ابن حجر في التقريب : صدوق رمي بالتشيع
وقال الذهبي في الميزان ج2 ص 256 : لا بأس به ان شاء الله ، وهو من قدماء شيوخ سفيان "
وقال ابن حجر في تهذيب التهذيب ج2 ص259
" قال يحيى بن معين كان كوفيا قدم الشام وقال ابو حاتم : صدوق يحول من كتاب الضعفاء – يعني الذي للبخاري – وذكره ابن حبان في الثقات وروى له ابن ماجة حديثا واحدا في فضل صلاة الرجل في بيته قلت : قال البخاري لم يثبت حديثه
وذكره العقيلي في الضعفاء " انتهى
فالرجل ثقة ولاعبرة بضعيفهما لانه جرح غير مفسر
على كل حال : الرجل يصلح للمتابعات

3- وتابعه عبيد الله بن موسى ( من رجال الستة )
قال ابو نعيم في فضائل الخلفاء ج1 ص67 رقم 38
بعد ان روى الحديث عن عاصم بن عمرو البجلي عن الاعمش عن ابراهيم قال :
" ورواه عبيد الله بن موسى ومنصور بن ابي الاسود ويحيى بن عيسى الرملي عن الاعمش مثله " انتهى
والرجل من رجال الستة البخاري ومسلم والترمذي وابو داود والنسائي وابن ماجة

4- متابعة الثوري : الظاهر والله العالم – بقرينة الراوي والمروي – انه سفيان الثوري وهو من رجال الستة
وهذه المتابعة اخرجها ابن عساكر في تاريخه ج42 ص352
" وروي عن الاعمش عن ابي وائل عن عبد الله أخبرناه أبو الحسين الخطيب وأبو الحسن المقدسي قالا أنا أبو عبد الله بن أبي الحديد أنا مسدد بن علي نا إسماعيل بن القاسم الحلبي نا أبو أحمد العباس بن الفضل بن جعفر المكي نا أبو بكر محمد بن هارون بن حسان المعروف بابن البرقي نا حماد بن المبارك نا أبو نعيم نا الثوري عن الأعمش عن أبي وائل عن عبد الله بن مسعود عن النبي ( صلى الله عليه وسلم ) قال النظر إلى وجه علي بن أبي طالب عبادة "


فالذين رووه عن الاعمش هم :
1- يحيى بن عيسى الرملي
2- منصور بن ابي الاسود
3- عاصم بن عمرو البجلي
4- عبيد الله بن موسى
5- الثوري ( وهو سفيان
اس پوسٹ میں جو متابعات اور تخریج پیش کی گئی ہے ،وہ کس کتاب سے منقول ہے ؟
 

آصف حسین

مبتدی
شمولیت
جنوری 27، 2016
پیغامات
24
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
اس کتاب کو کیا کرنا ہے آپکو ۔۔۔۔ متابعت مختلف کتب سے منقول ہوئی ہے جیسا کہ اوپر ھم نے چار راویوں کا ذکر کیا ہے مثلاً تاریخ ابن عساکر ، فضائل خلفاء وغیرھم


ویسے عجیب منطق ہے کہ امام علی علیہ السلام کے فضائل میں اتنی جانچ پڑتال اور دوسرے صحابہ کے فضائل کو آنکھ بند کرکے مانا


کہیں آپ روافض کے رد میں نواصب میں شامل نہ ہو رہے ہے :)
 

آصف حسین

مبتدی
شمولیت
جنوری 27، 2016
پیغامات
24
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
میں ایک مثال بھی دیتا ہوں ۔۔۔۔ کچھ وقت پہلے آپ نے اس حدیث سے استدال کیا تھا اپنی ایک تحریر میں


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنَّ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمن هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ


تحریر کا لنک یہ ہے : http://forum.mohaddis.com/threads/”-جنتی-فرقہ-“-کون-سا-ہے-؟.27021/


لیکن اس زیادت " أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي " کے تمام طرق ضعیف ہے

نوٹ : اگرچہ شیخ البانی نے سنن ترمذی کی تحقیق میں اسکو حسن کہا ہے لیکن مشکاۃ کی تحقیق میں ضعیف کہا ہے لہذا انکا حوالہ ٹھیک نہیں


لہذا یہ بات عیان ہے کہ کس طرح آپ امام علی علیہ السلام کے صحیح فضائل کو ضعیف قرار دینے میں تلے ہوئے ہوتے ہے اور باقی احادیث کو آنکھ بند کر کے مانتے ہے ۔۔۔عجیب سونچ ہے جو آجکل اھل سنت میں مہشور ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اس کتاب کو کیا کرنا ہے آپکو ۔۔۔۔ متابعت مختلف کتب سے منقول ہوئی ہے جیسا کہ اوپر ھم نے چار راویوں کا ذکر کیا ہے مثلاً تاریخ ابن عساکر ، فضائل خلفاء وغیرھم
کتاب معلوم ہونے سے میرے لئے آسانی ہوجاتی ۔۔وقت بچ جاتا ۔
ویسے عجیب منطق ہے کہ امام علی علیہ السلام کے فضائل میں اتنی جانچ پڑتال اور دوسرے صحابہ کے فضائل کو آنکھ بند کرکے مانا
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب جو قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ، وہ مسلم ہیں ،اپنے ایمان کاحصہ ہیں ،
اور جانچ پڑتال سب روایات کی ہوتی ہے ،اور ہونی چاہیئے ۔کیونکہ یہاں معاملہ عظیم اور پاکیزہ نفوس کا ہے ،ان کے متعلق ۔۔ہرراہ چلتے کی بات۔۔ قبول نہیں کی جاسکتی۔
اور جناب علی کے بارے مروی روایات تو مزید تحقیق کی متقاضی ہیں ،کیونکہ ان کے بارے میں غلو اور افراط و تفریط بکثرت پائی جاتی ہے،

کسی نے ان کو محبت کے عنوان سے پیغمبر سے بھی اونچا ، بلکہ خدا کے برابر مقام دیا ،تو کسی نے ان کی مخالفت میں توہین آمیز رویہ اپنالیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن اس زیادت " أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي " کے تمام طرق ضعیف ہے
نوٹ : اگرچہ شیخ البانی نے سنن ترمذی کی تحقیق میں اسکو حسن کہا ہے لیکن مشکاۃ کی تحقیق میں ضعیف کہا ہے لہذا انکا حوالہ ٹھیک نہیں
یہ حدیث بالکل صحیح اور صریح ہے ۔تاہم
صحابہ کرام کے معیار حق ہونے


کیلئے یہ پہلی اور اکیلی دلیل نہیں ،جس کے صحیح یا ضعیف ہونے سے صحابہ کرام کے حق کا معیار ہونے پر حرف آئے ۔

اس موضوع پر دلائل قرآن حکیم سے شروع ہوتے ہیں ۔اور دیئے جاتے ہیں ۔آپ علیحدہ اس موضوع پر تھریڈ قائم کرکے وہ دلائل معلوم کرسکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ امام علی علیہ السلام کے صحیح فضائل کو ضعیف قرار دینے میں تلے ہوئے ہوتے ہے
بھائی یہ بھی کیسی صحیح فضیلت ہے جسے ثابت کرنے کیلئے آپ کو حدیث کی کتابوں کو چھوڑ کر تاریخ ابن عساکر کا سہارا لینا پڑا ؟
جناب علی جیسی عظیم شخصیت کے فضائل و مناقب ایسے گمنام رواۃ سے مانگنا پڑے کہ جھوٹی روایات کے مجموعہ ’’ اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة ‘‘
کا حوالہ آپ نے دے ڈالا
 

آصف حسین

مبتدی
شمولیت
جنوری 27، 2016
پیغامات
24
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
محترم اسحاق سلفی صاحب سنن ترمذی کی یہ روایت ضعیف ہے اس میں ایک راوی " عبد الرحمان بم زیاد بن انعم الافریقی " ہے جو ضعیف ہے


اسکے تمام طرق کے بارے میں حافظ زبیر علی زائی نے اپنی کتاب اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ مصابیح میں پوری بحث کی ہے


اس لنک پر انکی تحقیق پڑھی جا سکھتی ہے :


https://irafidhi.wordpress.com/2016/01/22/ایک-مہشور-حدیث-کا-رد/


اب رہا آپ کے دوسرے اشکال کہ اب میں امام علی ع کے دفاع کے لے تاریخ عساکر وغیر سے روایت نقل کر رہا ہوں ۔۔۔۔


اسکا جواب ہوگا ۔۔۔شرم مگر تم کو نہیں آتی ۔۔۔ بھائی حدیث حدیث ہوتی ہے چاھے تاریخ کی کتاب میں ہوگی یا کسی اور جگہ ۔ کفایت اللہ سنابلی صاحب کی کتاب " یزید بن معاویہ پر اعتراضات کے جوابات " پڑھی ہے ۔۔اس میں مولف نے تاریخ تو دور الانساب کی کتب سے استدلال کیا ہے ۔

میں تو ایک ہی بات کہوں کا کہ آپ میں ناصبیت ہے ورنا ایسا بچگانہ اعتراض نہ کرتے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
محترم اسحاق سلفی صاحب مجھے سنن ترمذی کی یہ روایت ضعیف ہے اس میں ایک راوی " عبد الرحمان بم زیاد بم انعم الافریقی " ہے جو ضعیف ہے
اسکے تمام طرق کے بارے میں حافظ زبیر علی زائی نے اپنی کتاب اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ مصابیح میں پوری بحث کی ہے
اس لنک پر انکی تحقیق پڑھی جا سکھتی ہے
https://irafidhi.wordpress.com/2016/01/22/ایک-مہشور-حدیث-کا-رد/
میں نے پہلے بھی بتایا کہ :
صحابہ کرام کے معیار حق ہونے کیلئے یہ پہلی اور اکیلی دلیل نہیں ،جس کے صحیح یا ضعیف ہونے سے صحابہ کرام کے حق کا معیار ہونے پر حرف آئے ۔
اس موضوع پر دلائل قرآن حکیم سے شروع ہوتے ہیں ۔اور دیئے جاتے ہیں ۔آپ علیحدہ اس موضوع پر تھریڈ قائم کرکے وہ دلائل معلوم کرسکتے ہیں ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہاں موضوع چل رہا ہے کہ جناب علی کو دیکھنا عبادت ہے ،یا نہیں
اس لئے آپ اس پر صحیح اور صریح دلیل پیش کریں
 

آصف حسین

مبتدی
شمولیت
جنوری 27، 2016
پیغامات
24
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
محترم مجھے ان باقی دلایل کا معلوم نہیں لیکن اس روایت کو آپ نے صحیح کہا اور استدلال بھی کیا ۔۔۔۔ میرا اعتراض اسی روایت پر ہے


اب آپ پر فرض ہے کہ اسکو صحیح ثابت کریں جیسا کہ ھم نے امام علی علیہ السلام کے بارے میں اس روایت کو صحیح ثابت بھی کیا چار متابعت نقل کر کے



مجھے معلوم ہے کہ آپ پھر بھی مانے والے نہیں
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
محترم آصف حسین صاحب
ازراہ کرم ، اپنے طور پر فرض نا کریں ۔ مستقبل کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے ، پہر آپ نے بغیر ان شاء اللہ کہے کیسے لکہا کہ آپ کو معلوم ہے محترم اسحاق صاحب ماننے والے نہیں !
میں آپ سے گذارش کرتا هوں کہ تسلی خاطر رکہیں آپکی تشفی لازمی ہو جائیگی اللہ نے چاہا تو ۔ آپ سے پہلے بهی درخواست کی تهی کہ آپ مختلف تہریڈ شروع کر سکتے ہیں ۔
 
Top