• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علی مولا ہیں

شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
20
سیدنا علی رضی اللہ مولا ہیں :
از افادات شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
راقم : ابوالوفا محمد حماد اثری

نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
من کنت مولاہ ، فعلیّ مولاہ
''علی اس کے مولا ہیں، جس کا میں مولاہوں۔''
یہ حدیث سند و متن ہر دو لحاظ سے صحیح اور متواتر ہے۔
حافظ ذہبی (سیر اعلام النبلاء :335/8،تاریخ الا سلام : 146/55) علامہ عجلونی (کشف الخفا : 261/2)حافظ سیوطی(قطف الازہار المتناثرۃ فی الاحادیث المتواترۃ :277)اورعلامہ البانی (الصحیحہ :343/4) رحمہم اللہ نےمتواتر قرار دیا ہے ۔
امام ابنِ شاہین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہذا حدیث غریب صحیح ، وقد روی حدیث غدیر خم عن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نحو مأۃ نفس ، وفیہم العشرۃ ، وہو حدیث ثابت ، لا أعرف لہ علّۃ ۔
''یہ حدیث غریب صحیح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غدیر خم والی حدیث قریباً سو صحابہ کرام ] نے بیان کی ہے ۔ ان میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں ۔ اس حدیث میںکوئی علت نہیں۔''
(مذاہب اہل السنۃ لابن شاہین : ٨٧)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فلہ طرق جیّدۃ ۔
''اس کی سندیں عمدہ ہیں۔''(تذکرۃ الحفاظ للذہبی : ٣/١٦٤)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں؛
وکثیر من اسانیدہا صحاح و حسان .
''اس کی صحیح و حسن بہت سی سندیں ہیں۔''
(فتح الباري 74/7)
یہ حدیث درجِ ذیل صحابہ کرام سے مروی ہے :
1 سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے یہ روایات مندرجہ ذیل اسناد سے مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَعْفَرٌ الْأَحْمَرُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، وَعَنْ مُسْلِمِ بْنِ سَالِمٍ، قَالَا: نا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَنْشُدُ النَّاسَ،
(مسند البزار : ٦٣٢، وسندہ، حسنٌ)
أخبرنَا مُحَمَّد بن يحيى بن عبد الله النَّيْسَابُورِي وَأحمد بن عُثْمَان بن حَكِيم الأودي قَالَا حَدثنَا عبيد الله بن مُوسَى قَالَ أَخْبرنِي هانىء بن أَيُّوب عَن طَلْحَة الأيامي قَالَ حَدثنَا عميرَة بن سعد أَنه سمع عليا
(خصائص علی للنسائی : ٨٥، وسندہ، حسنٌ )
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَأَبُو نُعَيْمٍ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا [ص:56] فِطْرٌ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ،
(مسند الامام احمد : ٤/٣٧٠، وسندہ صحیحٌ زوائد مسند الامام احمد بن حنبل : ١/١٥٢)
امام ابن حبان رحمہ اللہ : ٦٩٣١نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
أخبرنَا عَليّ بن مُحَمَّد بن عَليّ قَاضِي المصيصة قَالَ حَدثنَا خلف قَالَ حَدثنَا إِسْرَائِيل عَن أبي إِسْحَاق قَالَ حَدثنَا سعيد بن وهب أَنه قَامَ مِمَّا يَلِيهِ سِتَّة وَقَالَ زيد بن يثيع وَقَامَ مِمَّن يليني سِتَّة فَشَهِدُوا أَنهم سمعُوا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
( خصائص علی للنسائی : ٨٧٧، وسندہ، صحیحٌ)
ایک سند اس کی زوائد فضائل الصحابۃ : ١٢٠٦میں ہے، وہ سند بھی حسن ہے۔ اسی طرح مسند الامام احمد : ٥/٣٦٦کی سند بھی صحیح ہے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایۃ والنہایۃ میں اس سند کے بارے میں فرما یاہے (٥/٢١٠): وہذا اسناد جید
(2) سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ
(السنۃ لابن ابی عاصم : ١٣٧١، وسندہ حسنٌ)
(3) سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
(مسند الامام احمد : ١/٣٣٠۔٣٣١، السنۃ لابن ابی عاصم : ١٣٦١، خصائص علی للنسائی : ٢٤٤، وسندہ، حسنٌ ، وقال الحاکم (٣/١٣٤): صحیح الاسناد)
(4) سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
(السنۃ لابن ابی عاصم : ١١٨٩، مسند البزار : ١٠٢٣، خصائص علی للنسائی : ٩، ٩٤، ٩٥٥، وسندہ، حسنٌ، وصححہ الضیاء فی المختارۃ : ٩٣٧)
حدیث سعد بن ابی وقاص میں ایک راوی کا مسئلہ :
اس کا راوی موسیٰ بن یعقوب زمعی جمہور محدثین کے نزدیک ''حسن الحدیث'' ہے۔
1 امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ثقۃ ۔ ''یہ ثقہ ہے۔''
(تاریخ یحیی بن معین : ٦٧٢)
2 امام ابنِ شاہین رحمہ اللہ نے بھی ثقہ کہا ہے۔(تاریخ الثقات لابن شاہین : ١٣٤٩)
3 امام ابنِ عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
غیر ما ذکرت أحادیث حسـان ، وہو عندی لا بأس بہ وبروایاتہ ۔
''مذکورہ روایات کے علاوہ اس کی احادیث حسن ہیں ۔ میرے نزدیک اس میں اور اس کی روایات میں کوئی خرابی نہیں۔'' (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٦/٣٤٣)
4 امام ابنِ حبان رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہے ۔(الثقات لابن حبان : ٧/٧٥٨)
5 ابن القطان فاسی نے بھی ثقہ قرار دیا ہے۔(تہذیب التہذیب : ١٠/٣٣٧)
6۔! امام ابن الجارود (١٠٦٥)، امام ابنِ خزیمہ(٤١٩)، امام حاکم (٢/١٣٣۔١١٤٤)، حافظ ذہبی ، حافظ ضیاء مقدسی (المختارۃ : ١٣٠٧)اورحافظ نووی(الاذکار : ١٨٩) رحمہم اللہ نے اس کی حدیث کی تصحیح کرکے ضمنی توثیق کی ہے۔
1 امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ نے اس سے روایت لی ہے وہ اپنے نزدیک ثقہ سے روایت لیتے ہیں
2 امام ترمذی رحمہ اللہ (٤٨٤)، حافظ بغوی رحمہ اللہ (٦٨٦٦)اورحافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (فتح الباری : ١/٣١٣، المطالب العالیۃ : ٤٣٢٣)نے اس کی حدیث کو ''حسن'' کہہ کر اس کی توثیق کی ہے۔
^ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اُسے ثقہ کہا ہے۔(مجمع الزوائد : ٩/١٠٧)
نیز فرماتے ہیں : وثّقہ جماعۃ ۔ ''اسے محدثین کی ایک جماعت نے ثقہ قرار دیا ہے۔''(مجمع الزوائد : ٩/٣٨)
33 حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : الزمعیّ صدوق ، قال شیخنا الذہبی : وہذا حدیث حسن غریب ۔ ''زمعی صدوق راوی ہے۔ ہمارے شیخ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔''(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : ٥/٢١٢)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب من تکلّم فیہ وہو موثّق (ایسے راویوں کا بیان جن میں کلام کی گئی ہے ، لیکن وہ ثقہ ہیں) میں ذکر کر کے ''صالح الحدیث'' کہا ہے۔
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ کا اس کے بارے میں ''ضعیف الحدیث'' اور ''منکر الحدیث'' کہنا ثابت نہیں ہوسکا۔ ثابت ہونے کی صورت میں جمہور کے مقابلے میں ناقابل التفات ہوگا۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا اس کے متعلق لا یعجبنی حدیثہ (مجھے اس کی حدیث اچھی نہیں لگتی) کہنا (تہذیب التہذیب لابن حجر: ١٠/٣٣٧) بھی ثابت نہیں۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ (العلل: ٥/١١٣٣)نے اس کے بارے میں لا یحتجّ بہ اورامام نسائی رحمہ اللہ (الضعفاء : ٥٥٣)نے لیس بالقویّ کہا ہے ۔یہ جمہور کی توثیق کے خلاف ہونے کی وجہ سے قبول نہیں ۔
باقی حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا''مختصر المستدرک''( ٢/٣٤٨) میں اسے لیس بذاک اور ''الکاشف''(٣/١٦٨٨) میں فیہ لین کہنا ،نیز حافظ منذری(مختصر السنن : ٤/٨٦)کا فیہ مقال اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (تقریب التہذیب : ٧٠٢٦)کا اسے سیّء الحفظ کہنا جمہور محدثین اور ان کی اپنی تحقیق کے بھی خلاف ہے۔
لہٰذا حافظ عراقی رحمہ اللہ (المغنی : ٣/٨٣٣)کا اس کے بارے میں ضعّفہ الجمہور کہنا بھی صحیح نہ ہوا۔
 
Top