• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علی ہجویری دربارپرحاضری‘ناقدین کےنام ایک پیغام اور ریسرچ ورک ((ظفر اقبال ظفر ))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
علی ہجویری دربار پرحاضری اور میر اریسرچ ورک
بعض لوگ توحید و سنت کے علمبرداروں اور خالص قرآن و حدیث کے پیروکاروں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ’’اولیائے کرام‘‘کی تعظیم نہیں کرتے ،انہیں مانتے نہیں اور یہ کہ ان کی گستاخی کرتے ہیں۔میں نے ان الزامات کو سامنے رکھتے ہوئے تحقیق کی ہے
ایک سچے مسلمان کا عقیدہ اولیاء کے بارے میں کیا ہونا چاہیے اور اولیاء اللہ کی پہچان کیا ہے ؟اولیاء اللہ کی کونسی صفات ہوتی ہے؟
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ولی کا معنی کیا ہے اور ولی کی اقسام کتنی ہیں ؟یہ بات یاد رکھیں کہ: ولی دو قسم کے ہوتے ہیں (اولیاء اللہ ) اور (اولیاء الشیطان) اب اولیاء اللہ کی صفات کیا ہوتی ہیں اور اولیاء الشیطان کی صفات کیا ہیں تاکہ عام آدمی فرق کر سکے اور اولیاء الشیطان کے چنگل سے بچ سکے ۔اس بارے میں قرآن کی روشنی میں اہل شرک کے اولیاء کے بارے میں عقیدہ کے بار ے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔

اولیاء اللہ کے بار ے میں میرا عقیدہ:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تقریبًا 12 مقامات پر اولیاء اللہ کے بارے میں فرمایا :
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ) (
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے جو دوست(ولی) ہونگے قیامت کے دن نہ انہیں کسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ کوئی غم ہو گا ۔

اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
(وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا نَصِيرٍ)
ترجمہ: ترجمہ: اور تمہارے لیے الله کے سوا نہ کوئی دوست ہے نہ مددگار (سورۃ البقرۃ،آیت: 107)
جن معنوں میں صرف اللہ ہی ولی ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا ولی نہیں ہے ،ان معنوں اور مفہوم میں دوسرا کوئی شخص کسی بندے کو ’’ولی‘‘ بنا دے تو یہ اللہ کے ساتھ شرک ہو گا۔مثال کے طور پر مشکل وقت میں صرف اللہ تعالیٰ کو ہی پُکارنا چاہیے ،لیکن اگر کوئی شخص کسی بزرگ بندے کو آواز دیتا ہے کہ وہ میری کشتی کو پار لگائے ،وہ قبر میں پڑا روحانی قوت سے اسے ساحل پر اتارےتو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو چیلنج کے انداز میں سمجھاتے ہیں۔

مشرکین کے بارے میں قرآن کا فیصلہ
ار شاد باری تعالیٰ ہے ۔
(إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَٱدْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا۟ لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِین)
ترجمہ: بے شک جنہیں تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں پھر انہیں پکار کر دیکھو پھر چاہے کہ وہ تمہاری پکار کو قبول کریں اگر تم سچے ہو (سورۃ الاعراف،آیت:194 )
وہ بندے کہ جنہیں بزرگ،پیر اور ولی مان کر لوگ پکارتے ہیں تو جب ان پکارنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے بندو! ان ولیوں کی عبادت مت کرو،اولیائے کرام کو معبود نہ بناؤ تو وہ جھٹ کہہ اٹھتے ہیں۔
ارشاد خدا وندی ہے ۔

(وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦ أَوْلِيَآءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَآ إِلَى ٱللَّهِ زُلْفَىٰ)
ترجمہ: جنہوں نے اس کے سوا اور کارساز بنا لیے ہیں ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ وہ ہمیں الله سے قریب کر دیں بے (سورۃ الزمر،آیت:3 )
یعنی اولیائے کرام اللہ تعالیٰ اور ہمارے درمیان واسطہ ہیں ،وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیتے ہیں اور چونکہ وہ خود اللہ کے بہت قریب ہیں اس لیے وہ ہماری مدد بھی فرتے ہیں،اس لیے کہ اللہ ان کی بات کو ر د نہیں کرتااور چونکہ ہم ان کے مرید ہیں اور مردی ہونے کے ناطے وہ ہمارے احوال سے آگاہ بھی ہیں اس لیے ہماری فریاد ان کے آگے ہے اور ان کی اللہ کے سامنے ۔
تو ان عقائد پر اللہ تعالیٰ ضرب شدید لگاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

(وَمَا كَانَ لَهُم مِّنْ أَوْلِيَآءَ يَنصُرُونَهُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ)
ترجمہ: اور ان کا الله کے سوا کوئی بھی حمایتی نہ ہوگا کہ ان کو بچائے (سورۃ الشوری،آیت: 46)
اس آیت پر ،اس اعلان پر ،اس فرمان عزت پر بار بار غور کرو اور سوچو اور جواب دو کہ آخر تم نے اللہ میں کیا کمزوری دیکھی ہے کہ ولیوں کو اللہ اور مخلوق کے درمیان واسطہ مان لیا ہے؟کیا اللہ ان واسطوں وسیلوں کے بغیر اپنی مخلوق سے رابطہ نہیں رکھ سکتا؟یقینا وہ بڑا زبردست اور باریک بین ہے ،قوتوں والا ہے،وہ ایسی کمزوروں سے پاک ہے۔لہذا باز آ جاؤ!اور اللہ کے اعلان عزت کے بعد اللہ کے وقار و عزت کے منافی عقیدہ اور گفتگو سے رُک جاؤ۔
یاد رکھو!یہ جو لوگوں نے ولایت ولایت کی رٹ لگا رکھی ہے کہ فلاں ولی کو ولایت مل گئی،فلاں ولی کو فلاں چلہ کرنے سے ولایت مل گئی تو لایت کہ ٰجس کا معنی (اقتدار و اختیار )ہے،یہ اقتدار و اختیار اُسے کس نے دیا؟کیا اللہ نے دیا؟کیا اللہ اپنے اختیار ان بندوں کے سپرد کر رہا ہے؟کیا وہ غوث،قطب،ابدال اور قیوم کے عہدے بنا کر اپنی بادشاہت ان بندوں کے سپرد کر رہا ہے؟اور کیا وہ خود فارغ ہو گیا ہے؟استغفراللہ،نعوذباللہ،اللہ تعالیٰ کی پناہ ایسے خیالات اور فاسد تصورات سے۔

اولیاء الشیطان کی پہچان
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰھُمُ الطَّاغُوْت
اور جو لوگ کافر ہیں، ان کے ولی شیطان ہیں
يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ
انہیں روشنی سے نکال کر تاریکیوں میں دھکیلتے ہیں۔
اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ
وہی دوزخی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔(البقرہ: ۲‘۲۵۷)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بت شکنی
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستی کے معاملہ میں پہلے تو اپنی قوم سے مناظرہ کر کے حق کو ظاہر کردیا۔ مگر لوگوں نے حق کو قبول نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ کل ہماری عید کا دن ہے اور ہمارا ایک بہت بڑا میلہ لگے گا، وہاں آپ چل کر دیکھیں کہ ہمارے دین میں کیا لطف اور کیسی بہار ہے۔اس قوم کا یہ دستور تھا کہ سالانہ ان لوگوں کا ایک میلہ لگتا تھا۔ لوگ ایک جنگل میں جمع ہوتے اور دن بھر لہو و لعب میں مشغول رہ کر شام کو بت خانہ میں جا کر بتوں کی پوجا کرتے اور بتوں کے چڑھاوے، مٹھائیوں اور کھانوں کو پرشاد کے طور پر کھاتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام قوم کی دعوت پر تھوڑی دور تو میلہ کی طرف چلے لیکن پھر اپنی بیماری کا عذر کر کے واپس چلے آئے اور قوم کے لوگ میلہ میں چلے گئے۔ پھر جو میلہ میں نہیں گئے آپ نے اُن لوگوں سے صاف صاف کہہ دیا۔
وَتَاللہِ لَاَکِیۡدَنَّ اَصْنَامَکُمۡ بَعْدَ اَنۡ تُوَلُّوۡا مُدْبِرِیۡنَ
(الانبیاء:57)
ترجمہ:اور مجھے اللہ کی قسم ہے میں تمہارے بتوں کا برا چاہوں گا بعد اس کے کہ تم پھر جاؤ پیٹھ دے کر۔
چنانچہ اس کے بعد آپ ایک کلہاڑی لے کر بت خانہ میں تشریف لے گئے اور دیکھا کہ اس میں چھوٹے بڑے بہت سے بت ہیں اور دروازہ کے سامنے ایک بہت بڑا بت ہے۔ ان جھوٹے معبودوں کو دیکھ کر توحید ِ الٰہی کے جذبہ سے آپ جلال میں آگئے اور کلہاڑی سے مار مار کر بتوں کو چکنا چور کر ڈالا اور سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا اور کلہاڑی اُس کے کندھے پر رکھ کر آپ بت خانہ سے باہر چلے آئے۔ قوم کے لوگ جب میلہ سے واپس آ کر بت پوجنے اور پرشاد کھانے کے لئے بت خانہ میں گُھسے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اُن کے دیوتا ٹوٹے پھوٹے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک دم سب بوکھلا گئے اور شور مچا کر چلانے لگے۔

مَنۡ فَعَلَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَاۤ اِنَّہٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ
الانبیاء:59))
ترجمہ: کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا بیشک وہ ظالم ہے۔
تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم نے ایک جوان کو جس کا نام ”ابراہیم”ہے اس کی زبان سے ان بتوں کو برا بھلا کہتے ہوئے سنا ہے۔ قوم نے کہا کہ اس جوان کو لوگوں کے سامنے لاؤ۔ شاید لوگ گواہی دیں کہ اُس نے بتوں کو توڑا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بلائے گئے۔ تو قوم کے لوگوں نے پوچھا کہ اے ابراہیم!کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے؟ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارے اس بڑے بت نے کیا ہو گا کیونکہ کلہاڑی اس کے کاندھے پر ہے۔ آخر تم لوگ اپنے ان ٹوٹے پھوٹے خداؤں ہی سے کیوں نہیں پوچھتے کہ کس نے تمہیں توڑا ہے؟ اگر یہ بت بول سکتے ہوں تو ان ہی سے پوچھ لو۔ وہ خود بتا دیں کہ کس نے انہیں توڑا ہے۔ قوم نے سرجھکا کر کہا کہ اے ابراہیم! ہم ان خداؤں سے کیا اور کیسے پوچھیں؟ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ بت بول نہیں سکتے۔ یہ سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جلال میں تڑپ کر فرمایا:۔

قَالَ اَفَتَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَا یَنۡفَعُکُمْ شَیْـًٔا وَّلَا یَضُرُّکُمْ ٭اُفٍّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوۡنَ
الانبیاء:66۔67))
ترجمہ:کہاتو کیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے اور نہ نقصان پہنچائے۔ تف ہے تم پر اور ان بتوں پر جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں۔
آپ کی اس حق گوئی کا نعرہ سن کر قوم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ شور مچایا اور چلا چلا کر بت پرستوں کو بلایا۔

حَرِّقُوۡہُ وَ انۡصُرُوۡۤا اٰلِہَتَکُمْ اِنۡ کُنۡتُمْ فٰعِلِیۡنَ
الانبیاء:68))
ترجمہ:ان کو جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کرنا ہے۔
چنانچہ ظالموں نے اتنا لمبا چوڑا آگ کا الاؤ جلایا کہ اس آگ کے شعلے اتنے بلند ہو رہے تھے کہ اس کے اوپر سے کوئی پرندہ بھی اُڑ کر نہیں جا سکتا تھا۔ پھر آپ کو ننگے بدن کر کے ان ظلم و ستم کے مجسموں نے ایک گوپھن کے ذریعے اس آگ میں پھینک دیا اور اپنے اس خیال میں مگن تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جل کر راکھ ہو گئے ہوں گے، مگر احکم الحاکمین کا فرمان اس آگ کے لئے یہ صادر ہو گیا کہ

قُلْنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰہِیۡمَ
الانبیاء :69))
ترجمہ:ہم نے فرمایا اے آگ ہوجا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر۔
چنانچہ نتیجہ یہ ہوا جس کو قرآن نے اپنے قاہرانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ

وَاَرَادُوۡا بِہٖ کَیۡدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَخْسَرِیۡنَ
(الانبیاء:70)
ترجمہ:اور انہوں نے اس کا برا چاہا تو ہم نے انہیں سب سے بڑھ کر زیاں کار کردیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا بتوں کو توڑنا !
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے راستے کو وانضح و روشن کر دیا ہے اور ایک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے ہی اللہ تعالی نے جزیرہء عرب کو وثنیت پرستی ، تماثیل پرستی اور صنم و بت پرستی جیسی تمام غلاظتوں سے پاک کر دیا ہے ۔ عربوں کے سب سے بڑے بت کا نام ( ھبل ) تھا اور وہ مکہ مکرمہ کی سب سے بالائ جگہ پر رکھا ھوا تھا اور اسکے گرد تین سو ساٹھ بت رکھے ھوئے تھے جوکہ سب کے سب ہی پتھر سے تراشے ھوئے تھے ۔ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دخول کعبہ کے وقت اپنے دست مبارک سے ان بتوں کو توڑا اور انکی جھوٹی شان و شوکت پر کاری ضرب لگاتے ھوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کریم میں نازل شدہ اللہ تعالی کا یہ ارشاد پڑھتے جارہے تھے ۔
اور کہہ ( اعلان کر ) دیجیئے کہ حق آ گیا اور باطل نابود ھو گیا ، یقینا باطل تھا بھی نیست و نابود ھونے والا

( بنی اسرائیل : 18 )
امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ جب غلبہ حاصل ھو جائے تو مشرکین کے نصب کردہ تمام اوثان و اصنام اور بتوں کو توڑ دینا چاہیئے ۔
امام ابن منذر کہتے ہیں :
اصنام اور بتوں کے حکم میں ہی وہ مجسمے ( اسٹیچوز)بھی داخل ہیں جو قیمتی پتھروں ، لکڑی یا ایسی ہی کسی دوسری چیز سے بنا کر سجائے گئے ھوں ۔
اللہ کے بندو ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کعبہ کے گرد مشرکوں کے رکھے ھوئے بت توڑے جبکہ اس وقت بعض صحابہ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے
اے عزی ! ھم تیری عبادت کا انکار کرتے ہیں ، تجھ سے کسی قسم کی بخشش و مدد ہرگز طلب نہیں کرتے کیونکہ میں دیکھ رہا ھوں کہ اللہ تعالی نے تجھے ذلیل و رسوا کر دیا ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ مکرمہ کے ارگرد مختلف علاقوں میں نصب کردہ بتوں کو توڑنے کیلئے اپنے صحابہ کرام کے دستے بھیجے اور مکہ مکرمہ میں ایک منادی نے یہ اعلان کر دیا :
جو شخص اللہ تعالی اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے گھر میں پڑے بت کو توڑ دے ۔

قبرو ں کی زیارت اور منہج سلف
اللہ والو !اس طرز عمل کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نیز آئمۂ دین رحمھم اللہ نے بھی اپنایا تھا ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہیاج اسدی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایا:
کیا میں تمھیں بھی اس کام کیلئے نہ بھیجوں جس کام کیلئے مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھیجا تھا۔
پھر فرمایا:
کوئ تمثال و بت نہ چھوڑو سب کو مسمار کر دو ، جو کوئ بلند و بالا قبر ( مزار و دربار ) دیکھو اسے گراکر برابر کر دو۔
(صحیح مسلم)
اھل علم کے یہاں یہ بات طے ہے کہ اس جگہ کلمۂ تمثال نکرہ اور نہی کے سیاق میں آیا ہے ۔ لھذا یہ ہر تمثال کو شامل ہے وہ چاہے کسی بھی قسم کی کیوں نہ ھو ، چاہے وہ عبادت کیلئے بت بنا کر رکھی گئ ھو ۔ یا چاہے وہ محض زینت و ڈیکوریشن کیلئے بطور شوپیس رکھی ھوئ ھو ۔
امام محمد بن اسحاق نے اپنی کتاب المغازی میں حضرت ابوالعالیہ سے روایت بیان کی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں :
جب ھم نے تستر کو فتح کیا تو ھم نے دیکھا کہ ہرمزان کے گھر میں چارپائ پر ایک مردہ آدمی پڑا ھے جسکے پاس ہی اسکا مصحف بھی رکھا ہے ۔ ھم اس آدمی کو اٹھاکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف لئے گئے آگے چل کر وہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا : تم نے اس آدمی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ انھوں نے کہا : ھم نے اسکے لئے دن کے وقت تیرہ مختلف قبریں کھودیں جب رات ھوئ تو ھم نے اسے کسی ایک قبر میں دفن کر دیا اور تمام قبروں پر مٹی برابر کر دی تاکہ لوگوں کو اسکے بارے میں اندھیرے میں رکھا جا سکے تاکہ وہ اسکی قبر نہ کھود سکیں ۔ ایک آدمی نے کہا : تم نے ایسا کیوں کیا ؟ وہ لکھتے ہیں : اس شخص کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جب کبھی قحط سالی ھوتی اور بارش نہ برستی تو لوگ اس شخص کی چار پائ باھر نکالتے تھے جسکے نتیجہ میں بارش ھو جاتی تھی ۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس قصہ پر حاشیہ و تعلیق چڑھاتے ھوئے لکھتے ہیں : اس قصہ میں وہی رویہ مذکور ھوا ہے جو انصار و مھاجرین صحابہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر کو لوگوں سے اندھیرے میں رکھنے کیلئے ان کی تدفین پر کیا تھا ۔ تا کہ لوگ فتنہ میں مبتلا نہ ھوں اور دعائیں کرنے کیلئے یا ان سے تبرک حاصل کرنے کیلئے انکی قبر کو زیارت گاہ ( مزار ) نہ بنا لیں ، اور اگر متاخرین کو انکی قبر کا پتہ چل جائے تو وہ انکی قبر کی زیارت میں سبقت لے جانے کیلئے باھم شمشیرزنی بھی کرتے ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ابن سعد نے (طبقات میں ) صحیح سند کے ساتھ روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ملی کہ لوگ اس درخت کے پاس آتے ہیں جس کے نیچے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نےاپنے ( چودہ سو صحابہ کرام سے بیعت ( رضوان ) لی تھی اور اسکے پاس آکر نمازیں پڑھتے ہیں ۔ اس پر پہلے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس فعل سے ڈرایا دھمکایا اور پھر بالآخر اسے کاٹ دینے کا حکم صادر فرما دیا اور انکے حکم سے اس درخت کو واقعی کاٹ دیا گیا ۔
توحید باری تعالی کے تحفظ اور شرک کی طرف کھلنے والے دروازوں کو بند کرنےکیلئے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور پھر آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس طرح کے انسدادی مواقف اور حفاظتی تدابیر اختیار کیں
کیونکہ کوئ بدعت جب وجود میں آ جائے اور وہ لوگوں کو قرآن و سنت کے احکام و تقاضوں سے پھیرنے والی بھی بن جائے اور اس کے لئے دلائل نما شبہات و اعتراضات بھی گھڑلئے گئے ھوں اور کئ باتیں جوڑ کر اسے ثابت کرنے کی کوشش کر لی گئ ھو تو پھر وہ بدعت بھی ایسی شکل اختیار کرنے لگتی ہے جیسے کہ وہ کوئ واقعی چیز اور مسلمات میں سے کچھ ھو جسکا تدارک و دفیعہ بڑی مشکلات کے بعد ہی ممکن ھو سکے ۔
صنم و وثن میں فرق ؟
اللہ کے بندو ! یہ بات بھی ذھن میں رکھیں کہ بعض اھل علم نے اس بات کو طے کیا ہے کہ کبھی صنم و بت کا اطلاق وثن پر بھی ھوتا ہے اور وثن سے مراد ہر وہ چیز ہے جسکی پوجا و عبادت کی جائے وہ چاہے کس شکل میں ھو ۔ اللہ تعالی نے اس سے منع کیا اور فرمایا ہے
{پس تمھیں اللہ کے سوا پوجی جانے والی چیزوں سے دور رہنا چاہیئے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہیئے ۔}
( الحج : 30 )
بعض لوگوں نے غیراللہ کی عبادت کے مفہوم کو بڑا محدود کردیا ہے اور اس سے مراد صرف پتھروں کی اور بتوں کی عبادت ہی لی ہے ۔ جبکہ یہ انکے اس مسئلہ کے بارے میں سخت جہالت و بے علمی کی علامت ہے، کیونکہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا صرف اسی بات میں منحصر نہیں ہے کہ صرف پتھر کے بت کو رکوع و سجدہ کیا جائے بلکہ اس کے محدود فہم کی وضاحت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائ ہے : چنانچہ جب حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ارشاد الہی پڑھتے سنا :
{انھوں نے اپنے پیشواؤں کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا تھا۔}
( التوبہ : 31 )
تو حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
ھم ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے ۔ ] اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
کیا تمھارے وہ پیشوا اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار نہ دیتے تھے اور تم انکی اس بات کو مان کر ان چیزوں کو حرام سمجھتے تھے ؟ اور وہ اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء کو حلال قرار دیتے اور تم انھیں حرام مانتے تھے ؟ حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ایسا تو ھم کرتے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
{ یہی ان کی عبادت کرنا ہے ۔ }
( مسنداحمد ، ترمذی ، اور امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے ۔ )
اے اللہ ھم ظاھر و باطن تمام فتنوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ھم تیرے ساتھ کسی چیز کو شریک کریں جبکہ ھم اس جانتے ھوں ، اے اللہ ! ھم اگرکسی چیز کو ان جانے میں تیرے ساتھ شریک بنا لیں تو ھمیں بخش دے تو بڑا بخشنے والا ہے ۔
اسلامیان عالم ! اللہ کا خوف کھاؤ اور یہ بات ذھن نشین کر لو کہ اللہ کے لئے صرف دین خالص ہی ہے اور ہر مسلمان مرد و زن کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ظاھر و باطن کی خوب تطہیر و صفائ کر لے اور ان امور سے بچ جائے جو اسے اکیلے اللہ تعالی کی عبادت کرنے سے پھیر کر شرک پر لگانے والے ہیں ، اسی طرح ھم تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ ھم اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کی اطاعت و پیروی کریں ۔ اور انھیں اپنی ذات ، اپنے والدین اور تمام رشتہ داروں پر ترجیح دیں ۔ ایسے ہی تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے معاشروں کو حسب مقدور بتوں کی پوجا اور انکی عبادت کی غلاظت سے پاک کریں ۔ خصوصا ان چیزوں سے اپنے گھروں کو پاک کریں جو محض زینت کیلئے شوپیس کے طور پر رکھی گئ ہیں ۔ کیونکہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ھوتے جس میں کوئ مجسمہ یا تصویر ھو ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اگر کسی دعوت و ولیمہ میں مدعو کیا جاتا تو دعوت دینے والے سے پوچھتے کہ تمھارے گھر میں کوئی مجسمے یا تصویریں تو نہیں ہیں ؟ اگر وہ کہتا کہ نہیں ہیں تو اسکی دعوت کو قبول فرما لیتے ۔
خبردار ! مفاسد و بگاڑ کے راستوں کو بند کرنا اور شرک کی طرف لے جانے والے ذرائع کا سد باب کرنا بہت ضروری امر ہے جس سے عام مسلمانوں کو کبھی بھی غافل نہیں ھونا چاہیئے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت رضوان والا درخت صرف اسی غرض سے اکھڑوا دیا تھا ۔
بت اور مجسمے رکھنا ، انکی تعظیم کرنا اور مزاروں و درباروں کی تعظیم کرنا اسلام میں ایک نیاپیداکردہ امر ہے اور اسکے پیدا کرنے والے بھی کوئ اھل علم و تقوی لوگ نہیں تھے بلکہ یہ چیزیں پیدا کرنے والے لوگ خواہشات نفس کے پیروکار ، جاھل و بے علم اور اقتدار و غلبہ والے لوگ تھے کیونکہ قرآن کریم میں اصحاب کہف کے تذکرہ میں اللہ تعالی نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :
{ جن لوگوں نے ان کے بارے میں غلبہ پایا وہ کہنے لگے ھم تو انکے آس پاس مسجد بنا لیں گے ۔ }
( الکہف : 31)
علی ہجویری کے دربار کے گرد جسم فروشی اور دیگر واقعات کے اخباری حقائق
انہی خانقاہوں میں سے بیشتر جگہیں بھنگ ‘چرس ‘افیون ‘گانجا اور ہیروئن جیسی منشیات کے کاروبار ی مراکز بمیں تبدیل ہیں‘بعض خانقاہوں خانقاہوں میں فحاشی بدکاری او رہوس پرستی کے اڈے بھی بنے ہوئے ہیں۔بعض خانقاہیں مجرموں اور قاتلوں کی محفوظ پناہ گاہیں تصور کی جاتی ہیں (ویسے تو اخبارات میں آئے دن مزاروں اور خانقاہوں پر پیش آنے والے المناک واقعات لوگوں کی نظروں سے گزرتے ہی رہتے ہیں آئیے علی ہجویری کے دربار کے گرد قائم ہوٹلز کے بارے میں شائع ہونے والی خبر کے بارے میں آپ کو آگاہ کرتے ہیں ۔
https://www.siasat.pk/forums/threads/bhais-badal-ke-31st-march2013
داتا دربار کے قریب ہوٹلوں میں جسم فروشی کا دھندہ، پولیس ملوث
لاہور (قدرت روزنامہ12فروری2017)داتادربار کے قریب ہوٹلز میں دعوت گناہ کی لوٹ سیل، جسم فروشی کا دھندہ عروج پر، شراب و منشیات کا استعمال، انتظامیہ کی جانب سے بھی خوبرو لڑکیوں کی پیشکش، آنے والے جوڑوں سے من مانے ریٹ، گھنٹہ یا پوری نائٹ ایک سے تین ہزار روپے خرچ کریں اور موج مستی کریں. ہوٹل کے ایجنٹوں نے لڑکیوں کی تصاویر اور ان کے نمبرز کی لسٹیں تیار کررکھی ہیں، پولیس اہلکار منتھلیاں لے کر خاموش تماشائی بن گئے۔
برائے نام چھاپوں کے باوجود مکروہ دھندہ ختم نہ ہوسکا، نوجوان نسل کا متقبل تباہ ہونے لگا. تفصیلات کے مطابق داتادربار کے نزدیکی ہوٹلوں میں الرحمن ہوٹل، گلف ہوٹل، دربار ویو ہوٹل، داتادربار ہوٹل، ہجویری ہوٹل، مدنی ہوٹل، شاہد ہوٹل، غازی ہوٹل، نیو داتا ہوٹل، وادو ہوٹل، شیش محل ہوٹل، الجہادی ہوٹل، اصل سستا ہوٹل، نیو شاہ جمال ہوٹل، حبیب ہوٹل اور داتاگنج بخش ہوٹل میں سرعام جسم فروشی کا دھندہ عروج پر ہے. ساری رات محفلیں سجنے کے ساتھ ساتھ دن دیہاڑے بھی جوڑوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جبکہ انتظامیہ بھاری رقوم کے عوض کمروں میں ٹھہرنے والوں کو خود ساختہ طور پر بھی خوبرو لڑکیوں کی پیشکش کرتے ہیں جس کے لئے منہ مانگے دام وصول کئے جاتے ہیں. ہوٹل میں آنے والے جوڑوں سے من مانی قیمت ایک ہزار سے لے کر تین ہزار روپے تک وصول کئے جاتے ہیں اور اصل ناموں کی بجائے رجسٹرڈ پر فرضی ناموں اور فرضی شناختی کارڈ نمبر اندراج کردئیے جاتے ہیں. انتظامیہ نے نائٹ ہو یا کچھ عرصہ کے لئے کمرہ درکار ہو ایک جیسے ہی ریٹ مقرر کررکھے ہیں، ہوٹلز میں موجود ایجنٹس نے لڑکیوں کے نام اور نمبرز کی لسٹیں بنا رکھی ہیں جنہیں مخصوص گاہکوں کے آنے پر بلایا جاتا ہے. ان کی طرف سے عام لوگوں کو بھی دعوت گناہ کی دعوت دی جاتی ہے، ہوٹلوں میں جسم فروشی کے علاوہ شراب و منشیات کا کام بھی جاری ہے. ہوٹلوں میں آنے والے افراد خود بھی شراب و منشیات لاکر کمروں میں اس کے مزے لوٹ سکتے ہیں بلکہ ہوٹلز انتظامیہ کی جانب سے اضافی رقم کے عوض شراب و منشیات خریدی جاسکتی ہیں. ہوٹلوں میں پولیس سے بچا
کے لئے جوڑوں کو فیملی ثابت کیا جاتا ہے اور چھاپوں کے خطرے کے باعث انہیں پہلے ہی آگاہ یا پھر کمروں سے نکال دیا جاتا ہے جبکہ پولیس کے کئی اہلکار انتظامیہ کی سرپرستی کا کام کررہے ہیں اور منتھلیاں وصول کرنے کے باعث مکروہ دھندہ روکنے کی بجائے سب اچھا کی رپورٹ دینے لگے ہیں. علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ جسم فروشی کا دھندہ سرعام ہورہا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل کا مستقبل دا پر لگاہوا ہے جس کے خلاف متعدد بار تھانوں میں درخواستیں دے چکے ہیں مگر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی. ہوٹلوں کی انتظامیہ کو اس دھندے کو ختم کرنے کے لئے گزارش کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ ختم نہیں کرسکتے تمہیں جو کرنا ہے کرلو. ہوٹلوں کے قریب لڑکیوں پر آوازیں کسنے اور چھیڑ خانی کے واقعات بھی عام ہوچکے ہیں. ڈی ایس پی لوئر مال سرکل ملک عبدالغفور نے مقامی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جسم فروشی کا دھندہ کرنے والے کے خلاف کارروائی کررہے ہیں. تھانوں میں 8 مقدمات درج کئے ہیں اور جوڑے بھی پکڑے ہیں، علاقہ سے اس مکروہ دھندے کا خاتمہ کرکے دم لیں گے۔
داتا کے دیوانے، تماش بین اور ایک طوائف
23/04/2018 محمد اشفاق
آصف اور میں پہلی بار سیاحت کو نکلے تھے، یعنی اپنے خرچے پہ پہلی بار، پہلی بار ہی ہماری کمیٹی نکلی تھی اور چونکہ اس کی زیادہ تر اقساط حرام کے پیسوں سے ادا کی جاتی تھیں اس لئے اجتہاد ہوا کہ ان پیسوں کا گھر پہ لگانا درست نہیں، البتہ تفریح کیلئے مباح ہے۔
لاہور پہنچے، داتا دربار سے دو تین گلیاں پیچھے ایک ہوٹل میں کمرا لیا گیا۔ دو لوہے کی چارپائیاں بان سے بنی ہوئی، ایک سائیڈ ٹیبل، جگ گلاس اور چھت کا پنکھا۔ یہ اس کمرے کی کل متاع تھی اور ہمارے لئے کافی تھی۔ باتھ روم میں پانی البتہ وافر تھا اور گرمیوں کے باوجود کافی ٹھنڈا۔ بہت خوش ہوئے، آخر ہوٹل میں کمرا بھی پہلی بار ہی لیا گیا تھا۔
داتادربار کے قریب تقریباً 16 ہوٹلوں میں جسم فروشی کا دھندہ، پولیس ملوث
فروری 2017 07 /11:55:AM
لاہور (ویب ڈیسک) داتادربار کے قریب ہوٹلز میں دعوت گناہ کی لوٹ سیل، جسم فروشی کا دھندہ عروج پر، شراب و منشیات کا استعمال، انتظامیہ کی جانب سے بھی خوبرو لڑکیوں کی پیشکش، آنے والے جوڑوں سے من مانے ریٹ، گھنٹہ یا پوری نائٹ ایک سے تین ہزار روپے خرچ کریں اور موج مستی کریں۔ ہوٹل کے ایجنٹوں نے لڑکیوں کی تصاویر اور ان کے نمبرز کی لسٹیں تیار کررکھی ہیں، پولیس اہلکار منتھلیاں لے کر خاموش تماشائی بن گئے۔ برائے نام چھاپوں کے باوجود مکروہ دھندہ ختم نہ ہوسکا، نوجوان نسل کا متقبل تباہ ہونے لگا۔

تفصیلات کے مطابق داتادربار کے نزدیکی ہوٹلوں میں الرحمن ہوٹل، گلف ہوٹل، دربار ویو ہوٹل، داتادربار ہوٹل، ہجویری ہوٹل، مدنی ہوٹل، شاہد ہوٹل، غازی ہوٹل، نیو داتا ہوٹل، وادو ہوٹل، شیش محل ہوٹل، الجہادی ہوٹل، اصل سستا ہوٹل، نیو شاہ جمال ہوٹل، حبیب ہوٹل اور داتاگنج بخش ہوٹل میں سرعام جسم فروشی کا دھندہ عروج پر ہے۔
ساری رات محفلیں سجنے کے ساتھ ساتھ دن دیہاڑے بھی جوڑوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جبکہ انتظامیہ بھاری رقوم کے عوض کمروں میں ٹھہرنے والوں کو خود ساختہ طور پر بھی خوبرو لڑکیوں کی پیشکش کرتے ہیں جس کے لئے منہ مانگے دام وصول کئے جاتے ہیں۔ ہوٹل میں آنے والے جوڑوں سے من مانی قیمت ایک ہزار سے لے کر تین ہزار روپے تک وصول کئے جاتے ہیں اور اصل ناموں کی بجائے رجسٹرڈ پر فرضی ناموں اور فرضی شناختی کارڈ نمبر اندراج کردئیے جاتے ہیں۔
انتظامیہ نے نائٹ ہو یا کچھ عرصہ کے لئے کمرہ درکار ہو ایک جیسے ہی ریٹ مقرر کررکھے ہیں، ہوٹلز میں موجود ایجنٹس نے لڑکیوں کے نام اور نمبرز کی لسٹیں بنا رکھی ہیں جنہیں مخصوص گاہکوں کے آنے پر بلایا جاتا ہے۔ ان کی طرف سے عام لوگوں کو بھی دعوت گناہ کی دعوت دی جاتی ہے، ہوٹلوں میں جسم فروشی کے علاوہ شراب و منشیات کا کام بھی جاری ہے۔ ہوٹلوں میں آنے والے افراد خود بھی شراب و منشیات لاکر کمروں میں اس کے مزے لوٹ سکتے ہیں بلکہ ہوٹلز انتظامیہ کی جانب سے اضافی رقم کے عوض شراب و منشیات خریدی جاسکتی ہیں۔ ہوٹلوں میں پولیس سے بچا
کے لئے جوڑوں کو فیملی ثابت کیا جاتا ہے اور چھاپوں کے خطرے کے باعث انہیں پہلے ہی آگاہ یا پھر کمروں سے نکال دیا جاتا ہے جبکہ پولیس کے کئی اہلکار انتظامیہ کی سرپرستی کا کام کررہے ہیں اور منتھلیاں وصول کرنے کے باعث مکروہ دھندہ روکنے کی بجائے سب اچھا کی رپورٹ دینے لگے ہیں۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ جسم فروشی کا دھندہ سرعام ہورہا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل کا مستقبل دا پر لگاہوا ہے جس کے خلاف متعدد بار تھانوں میں درخواستیں دے چکے ہیں مگر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔ ہوٹلوں کی انتظامیہ کو اس دھندے کو ختم کرنے کے لئے گزارش کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ ختم نہیں کرسکتے تمہیں جو کرنا ہے کرلو۔ ہوٹلوں کے قریب لڑکیوں پر آوازیں کسنے اور چھیڑ خانی کے واقعات بھی عام ہوچکے ہیں۔
ڈی ایس پی لوئر مال سرکل ملک عبدالغفور نے مقامی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جسم فروشی کا دھندہ کرنے والے کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔ تھانوں میں 8 مقدمات درج کئے ہیں اور جوڑے بھی پکڑے ہیں، علاقہ سے اس مکروہ دھندے کا خاتمہ کرکے دم لیں گے۔
https://dailypakistan.com.pk/07-Feb-2017/522503

علی ہجویری دربار پر حاضری اور میرا ریسرچ ورک
’’سورہ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس خبر کی تحقیق کر لیا کرو ورنہ بغیر تحقیق کے اس کے بارے میں بات کرنے سے تمہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے۔ ‘‘
قارئین کرام! ایک طرف تو یہ کہ عرصہ 12 سال سے جب سےراقم الحروف لاہور میں آیا اس دربار کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا ۔دوسری طرف اس دربار کی شہرت اور ملک بھر سے زائرین کا بابا جی کے عرس کے علاوہ بھی نذرو نیاز کے لیے آنا اور یہاں پر ہونے والی بدعات و خرافات کے سلسلے کا آئے روز بڑتے جانا ‘میری دلچسپی اور ریسرچ کا سبب بنا ۔میں نے ریسرچ کا طالب ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اس طرح کےمقامات کی وجہ شہرت اور وہاں ہونے والی بدعات و خرافات کے صحیح ادراک کی غرض سے جانے میں دلچسپی لی ۔اور اس پر کچھ لکھنے کی کوشش کی تاکہ ان مقامات پر نہ جانے والے لوگوں اور لا علم و جہالت کی نظر ہو جانے والے لوگوں کی صحیح طرح رہنمائی کی جا سکے اور یہ اس جگہ کی ریسرچ اور مطالعہ کے بغیر ہرگز ممکن نہیں ہوتا۔
اتفاق سے 28 اکتوبر 2018 بروز اتوار کو علی ہجویری کے3 روزہ سالانہ عرس کا آغاز ہوا۔ مگر گو نہ گو مصروفیات کے سبب راقم الحروف پہلے دن تو خیر نہ جا سکے۔مگر دوسرے روز 29 اکتوبر 2018 بروز سوموار بعد ا ز نماز عشاء راقم الحروف نے 2 قریبی ساتھیوں کے ہمراہ بابا کے دربار پر جانے کا پرگرام بنایا اور نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد مرکز القادسیہ چوبرجی چوک لاہور سے پیدل دربار کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک طرف تو زائرین کی بڑی تعداد ٹولیوں میں دربار پر حاضری اور چادر چڑھانے کے لیے ڈھول کی تاپ پر رقص کرتے جارہی تھی تو دوسری طرف لاہور کی گجر برادری کے لوگ گھوڑا گاڑی پہ دودھ نذر و نیاز کے لیے ڈھول بجھاتے جا رہے تھے۔ راقم الحروف افسوس کا اظہار کرتے کہ(یہ امت خرافات میں کھو گئی ) آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ غالباً کچہری کے قریب پولیس اہلکار سکیورٹی احصار لگائے چیکنگ کے عمل کو آسان بنانے کےلیے لوگوں کو لائن میں لگا کر چک کر رہے تھے۔ لائن بہت لمبی تھی مگر راقم قانون کی کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئےچیکنگ کےعمل سے گزر رہے تھے۔ جگہ جگہ چیکنگ کا عمل جاری تھا لمی لائنوں میں دھکے کسی آزمائش سے کم نہ تھےآخر کار ایک طرف زائرین کی ہجوم تو دوسری طرف لاہور کی گجر برادری کی دودھ کی سبیلیں اور گھوڑا گاڑی کا رش ناک میں دم کیے کھڑا تھا۔ دربار کے مین گیٹ پر پہنچے رش اور دھکوں کے بعث دوسری جانب ایک راستہ جو اندر کی طرف جا رہا تھا اس راستے کی طرف بڑھے۔ لائن کافی لمبی تھی مگر جواں مردی سے آگے بڑھتے چلے گئے بدنظمی اورشوروں غوغہ سے لوگوں نےآسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ اتنے میں ہم دربار کے اندر داخل ہوئے جوتے ہاتھوں میں کیے اور قبر کی مغربی جانب مسجد میں محفل ثناء منعقد ہو رہی تھے جس میں اسٹیج سیکرٹری آنے والے لوگوں کے لیے ہدیہ سلام پیش کر رہا تھا۔باہر صحن میں مختلف علاقوں سے آئے لوگوں کو ان کے پیر جو مختلف علاقوں کے درباروں کے گدی نشین ان سے بیعت لے رہے تھے۔ گچھ لوگ نماز میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ تبرک تقسیم کرنے اور وصول کرنے میں مصروف تھے۔ مردو زن کے اختلاط نے طوفان بدتمیزی کھڑا کر رکھا تھا۔ اللہ میری توبہ ۔ ہم قبر تک پہنچنے والی لائن میں کھڑے ہوئے ۔ قبر کے قریب گئے تو کسی ملنگ نے آگئے قبر تک جانے سے روک دیا کیوں کے ہم وہابی تھے اور جوتے ساتھ قبر تک لے جا چکے تھے۔ مگر آگے جانے کا پختہ ارادہ اپنی جگہ ‘ راقم نے ایک ساتھی کو پیچھے کونے میں جوتے دےکر کھڑا کر دیا اور خود دوبار ہ ( پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا ) کے نظریے سے پھر آگے بڑھے آخر کار قبر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ۔ اور قبر کی جھالی کے ساتھ منہ لگا کر دیکھا کہ اندر کیا ہے اور کیا ہوتا ہے۔پھر واپس کچھ دعا مانگنے والوں ‘ لیٹنے والوں ‘ تلاوت کرنے والوں کو نصیحت بھی کی گویا کہ وہاں پہنچ کر دعوت وتوحید کا م بھی کیا اور امر بالمعروف و نہی عن النکر بھی حسب توفیق کیا۔ پھر دربار کے مشرقی دروازے سے واپسی کا ارادہ کیا اوردربار سے باہر آگئے۔باہر زائرین کا ہجوم‘سینگڑوں گھوڑا گاڑی اور ٹریکٹر ٹرالی اور دودھ سے بھرے ٹینکرز نے لوگوں کا پیدل چلنا محال کر رکھا تھا۔خیر بڑھی مشکل سے وہا ں سے نکلے ہی تھے کہ ایک عورت گینڈے کے پھولوں کے ہار لیے رافم کی طرف بڑھی اور مجھے سر جھکانے کا اشارہ دیا راقم نے سر جھکایا اور اس نے ہار راقم کے گلے میں ڈال دیا ۔اب وہ بضد تھی کہ سرکار کے نام پہ کچھ دو مگر راقم تھا کہ شیطان کے بہقاوے میں آگیا اور وہ بیچاری پیچھے پیچھے راقم الحروف آگےحتی کہ راقم وہاں سے رش میں داخل ہو کر نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ بیچاری پیچھے رک گئی۔ اسطرح راقم پھولوں کا ہار پہنے سڑک پر چل رہا تھا اور زائرین راستے میں راقم کے گلے میں ہار دیکھ کر کوئی پہنچی سرکار خیال کرتے جھک جھک کر سلیوٹ کر رہے تھے اور عزت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے اسطرح راقم واپس اپنی قیام گاہ میں پیدل سفر کر کے پہنچے میں کامیاب ہوا ۔
 
Last edited:
Top