• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عمار بن یاسر رضی الله عنہ کا قتل - تحقیق درکار ہے

شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
السلام علیکم
بھائی صرف حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ نہیں بلکہ سیدنا طلحہ رضہ و زبیر رضہ کے قتل اور حضرت علی رضہ و معاویہ رضہ کے دور میں صحابہ کے قتل ہوئے ان کا معاملہ بھی ہے جمل کا حادثہ اور ام المومنین کو قتل کرنے کی کوشش اور بصرہ میں ان سے ناروا سلوک ان کومعاذاللہ باندی بنانے کے مطالبے ان سب پر اگر صحیح سے تحقیق کریں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں جمل ایک جنگ نہیں حادثہ تھا حضرت زبیر و طلحہ رضوان اللہ علہم اجمعین کے قتل کا حل تو علماء اہل سنت نے نکال لیا لیکن حضرت عمار بن یاسر رضہ کے قتل کو حضرت معاویہ رضہ و عمرو بن العاص رضہ کے گلے میں فٹ رہنے دیا۔۔ اس جنگ عمار ضہ کی عمر 92 برس تھی کیا علی رضہ ان کو ساتھ لے سکتے تھے اس عمر میں جنگ کے لئے یہ سوچنے کی بات ہے۔اور اسی طرح حضرت حسین رضہ کی شہادت اور اس کے بعد تاریخی کہانیوں میں بھی عصبیت کا بہت سا عمل دخل ہے ۔ یہاں تک رئیس المورخین کہلانے والے ابن خلدون بھی اسی عصبیت کا شکر ہوگئے۔۔ مزید اللہ ہی بہتر جانتا ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
السلام علیکم
بھائی صرف حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ نہیں بلکہ سیدنا طلحہ رضہ و زبیر رضہ کے قتل اور حضرت علی رضہ و معاویہ رضہ کے دور میں صحابہ کے قتل ہوئے ان کا معاملہ بھی ہے جمل کا حادثہ اور ام المومنین کو قتل کرنے کی کوشش اور بصرہ میں ان سے ناروا سلوک ان کومعاذاللہ باندی بنانے کے مطالبے ان سب پر اگر صحیح سے تحقیق کریں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں جمل ایک جنگ نہیں حادثہ تھا حضرت زبیر و طلحہ رضوان اللہ علہم اجمعین کے قتل کا حل تو علماء اہل سنت نے نکال لیا لیکن حضرت عمار بن یاسر رضہ کے قتل کو حضرت معاویہ رضہ و عمرو بن العاص رضہ کے گلے میں فٹ رہنے دیا۔۔ اس جنگ عمار ضہ کی عمر 92 برس تھی کیا علی رضہ ان کو ساتھ لے سکتے تھے اس عمر میں جنگ کے لئے یہ سوچنے کی بات ہے۔اور اسی طرح حضرت حسین رضہ کی شہادت اور اس کے بعد تاریخی کہانیوں میں بھی عصبیت کا بہت سا عمل دخل ہے ۔ یہاں تک رئیس المورخین کہلانے والے ابن خلدون بھی اسی عصبیت کا شکر ہوگئے۔۔ مزید اللہ ہی بہتر جانتا ہے
ہماری تاریخ ایسے ہی مغالطات سے بھری ہوئی ہے جس کا کوئی جواب نہیں ہے
جیسا کہ واقعہ کربلا میں دمشق، کوفہ، مکہ کے درمیان خط و کتابت کا معاملہ ہے کیا اس دور کے وسائل نقل و اتصال کے لیے اتنی محدود مدت میں ممکن تھا کہ یہ ساری خط و کتابت ہو سکے اگر 08 ذوالحجۃ سے 10 محرم تک 31 یا 32 دن بنتے ہیں اور ان شہروں کی جغرافیائی حدبندیاں آج بھی وہی ہیں ۔ میرا تو خیال ہے اس فاصلے کے ساتھ ایک مرتبہ ہی ابن زیاد کا خط دمشق پہنچ سکتا ہے کجا کے بار بار رابطے ہو رہے تھے
اسی طرح جنگ جمل کو سمجھنے کے لیے مدینہ ، مکہ، کوفہ اور بصرہ کے محل وقوع کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ایک لشکر مکہ سے نکلتا ہے اور مدینہ کے پاس سے ہوتا ہوا بصرہ پہنچتا ہے اور وہاں یہ جنگ ہوتی ہے کیا ساری منظر کشی حقیقت اور سچ پر مبنی ہے یا رواۃ نے قصہ گوئی انداز میں اسلام کی خوبصورتی کو داغدار ہی کیا ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کون سا حل نکالا ؟
اسحاق سلفی بھائی اگر تو آپ سمجھنے کے لیے پوچھ رہے ہیں تو میں بتا دیتا ہوں لیکن اگر ؟
میرا آپ کے بارے میں یہ خیال ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو علم و عمل کی دولت سے نوازا ہوا ہے
اس جملہ کا سادا سا یہ مطلب یہ ہے کہ سید نا طلحہ و سید نا زبیر رضی اللہ عنہما کے قتل کے معاملات کی تحقیق ہو گئی ہے گو کہ اس میں بعض پہلو ابھی بھی تشنا ہیں لیکن عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ والا معاملہ تو ابھی تک تحقیق طلب ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
محترم بھائی !
زادك الله علما وفضلا
وجزاك الله خيرا
گزارش ہے کہ میں نے واقعی سمجھنے کے لئے ہی پوچھا ہے ؛
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
کون سا حل نکالا ؟
کیا حضرت طلحہ و زبیر کا مقصد اپنی خلافت قائم کرنا تھا؟

چونکہ حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے باغیوں کی طاقت پر کاری ضرب لگائی، اس وجہ سے باغیوں کو ان سے خاص بغض تھا۔ انہوں نے ایسی روایتیں گھڑنے کر پھیلائیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے۔ ان روایات کا جھوٹ ان حقائق سے ظاہر ہو جاتا ہے:

1۔ اگر حضرت طلحہ و زبیر کو خلافت کا لالچ ہوتا تو وہ اس وقت خلافت سے دستبردار کیوں ہوتے جب حضرت عمر نے انہیں شوری کا ممبر بنایا تھا۔ اس وقت انہوں نے خلافت سے دستبردار ہو کر اپنا ووٹ حضرت عثمان کے حق میں دے دیا تھا۔

2۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد بھی اگر حضرت طلحہ یا زبیر میں سے کوئی خلیفہ بننا چاہتا تھا، تو اس کا بہترین موقع وہ تھا جب ابھی حضرت علی رضی اللہ عنہم کی بیعت نہیں ہوئی تھی۔ اس موقع پر خود حضرت علی خلافت قبول نہیں کر رہے تھے۔ اگر حضرت طلحہ یا زبیر کو اس کا لالچ ہوتا تو وہ خلافت کو قبول کر لیتے۔ ایک یا دو ماہ بعد ایسی کیا قیامت آ گئی تھی کہ انہوں نے حضرت علی کو معزول کر کے خود خلیفہ بننا چاہا؟

3۔ متعدد روایات میں یہ بات آئی ہے کہ جب حضرت طلحہ یا زبیر کو خلافت کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم علی کی بیعت سے نکلنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ صرف عثمان کے قاتلوں کو سزا دلوانا چاہتے ہیں۔

3۔ حضرت معاویہ نے حضرت زبیر کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ اگر وہ شام آ جائیں تو وہ ان کی بیعت خلافت کے لیے تیار ہیں لیکن حضرت زبیر نے اسے قبول نہیں کیا۔[31] اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت زبیر کے دل میں کوئی لالچ نہ تھا اور وہ حضرت علی کے ساتھ مخلص تھے۔ رضی اللہ عنہم
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
حضرت معاویہ نے حضرت زبیر کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ اگر وہ شام آ جائیں تو وہ ان کی بیعت خلافت کے لیے تیار ہیں لیکن حضرت زبیر نے اسے قبول نہیں کیا۔
اس کی دلیل اور حوالہ؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کیا حضرت طلحہ و زبیر کا مقصد اپنی خلافت قائم کرنا تھا؟

چونکہ حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے باغیوں کی طاقت پر کاری ضرب لگائی، اس وجہ سے باغیوں کو ان سے خاص بغض تھا۔ انہوں نے ایسی روایتیں گھڑنے کر پھیلائیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے۔ ان روایات کا جھوٹ ان حقائق سے ظاہر ہو جاتا ہے:

1۔ اگر حضرت طلحہ و زبیر کو خلافت کا لالچ ہوتا تو وہ اس وقت خلافت سے دستبردار کیوں ہوتے جب حضرت عمر نے انہیں شوری کا ممبر بنایا تھا۔ اس وقت انہوں نے خلافت سے دستبردار ہو کر اپنا ووٹ حضرت عثمان کے حق میں دے دیا تھا۔

2۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد بھی اگر حضرت طلحہ یا زبیر میں سے کوئی خلیفہ بننا چاہتا تھا، تو اس کا بہترین موقع وہ تھا جب ابھی حضرت علی رضی اللہ عنہم کی بیعت نہیں ہوئی تھی۔ اس موقع پر خود حضرت علی خلافت قبول نہیں کر رہے تھے۔ اگر حضرت طلحہ یا زبیر کو اس کا لالچ ہوتا تو وہ خلافت کو قبول کر لیتے۔ ایک یا دو ماہ بعد ایسی کیا قیامت آ گئی تھی کہ انہوں نے حضرت علی کو معزول کر کے خود خلیفہ بننا چاہا؟

3۔ متعدد روایات میں یہ بات آئی ہے کہ جب حضرت طلحہ یا زبیر کو خلافت کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم علی کی بیعت سے نکلنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ صرف عثمان کے قاتلوں کو سزا دلوانا چاہتے ہیں۔

3۔ حضرت معاویہ نے حضرت زبیر کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ اگر وہ شام آ جائیں تو وہ ان کی بیعت خلافت کے لیے تیار ہیں لیکن حضرت زبیر نے اسے قبول نہیں کیا۔[31] اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت زبیر کے دل میں کوئی لالچ نہ تھا اور وہ حضرت علی کے ساتھ مخلص تھے۔ رضی اللہ عنہم
طلحہ بھائی میں اس موضوع پر اس عنوان کے تحت تفصیلی گفتگو نہیں کروں گا ورنہ آپ کی تحریر کے بعد کچھ اشکالات سامنے آتے ہیں
یہاں بات نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں نے اپنے لیے ایک اصول بنا لیا ہے کہ محدث فورم پر صرف متعلقہ موضوع پر تفصیلی بات کروں گا ورنہ یہ موضوع عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے قتل سے ہٹ کر بہت دور نکل جائے گا جیسا کہ اب یہ موضوع طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے قتل کی طرف جا رہا تھا اور اب ان کی خلافت کی طرف
اس کے لیے تاریخ میں الگ عنوان بنا لیں تو مناسب ہو گا
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اسحاق سلفی بھائی اگر تو آپ سمجھنے کے لیے پوچھ رہے ہیں تو میں بتا دیتا ہوں لیکن اگر ؟
میرا آپ کے بارے میں یہ خیال ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو علم و عمل کی دولت سے نوازا ہوا ہے
اس جملہ کا سادا سا یہ مطلب یہ ہے کہ سید نا طلحہ و سید نا زبیر رضی اللہ عنہما کے قتل کے معاملات کی تحقیق ہو گئی ہے گو کہ اس میں بعض پہلو ابھی بھی تشنا ہیں لیکن عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ والا معاملہ تو ابھی تک تحقیق طلب ہے
تحقیق سے آپ کی مراد کہیں یہ تو نہیں ان صحابہ کے قتل میں جو لوگ ملوث ہیں ان کو بچالیا جائے اور ان کا قتل کا الزام ایک فرضی سبائی تحریک کے سر ڈال دیا جائے جبکہ حضرت زبیر کے قتل کے حوالے سے جناب کفایت اللہ صاحب نے ایک صحیح حدیث پیش کی ہے وہ میں آپ کی خدمت میں پیش کئے دیتا ہوں
عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے والد محترم اورجنت کی بشارت یافتہ عظیم المرتبت صحابی زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا اورقاتل ان کے سر کو لیکرعلی رضی اللہ عنہ کے دروازے پرحاضرہوا، چنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ زَائِدَةَ بْنِ نَشِيطٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ يَعْنِي الْوَالِبِيَّ قَالَ : دَعَا الأَحْنَفُ بَنِي تَمِيمٍ فَلَمْ يُجِيبُوهُ ، ثُمَّ دَعَا بَنِي سَعْدٍ فَلَمْ يُجِيبُوهُ ، فَاعْتَزَلَ فِي رَهْطٍ ، فَمَرَّ الزُّبَيْرُ عَلَى فَرَسٍ لَهُ يُقَالُ لَهُ : ذُو النِّعَالِ ، فَقَالَ الأَحْنَفُ : هَذَا الَّذِي كَانَ يُفْسِدُ بَيْنَ النَّاسِ ، قَالَ : فَاتَّبَعَهُ رَجُلاَنِ مِمَّنْ كَانَ مَعَهُ فَحَمَلَ عَلَيْهِ أَحَدُهُمَا فَطَعَنَهُ ، وَحَمَلَ عَلَيْهِ الْآخَرُ فَقَتَلَهُ ، وَجَاءَ بِرَأْسِهِ إِلَى الْبَابِ فَقَالَ : ائْذَنُوا لِقَاتِلِ الزُّبَيْرِ ، فَسَمِعَهُ عَلِيٌّ فَقَالَ : بَشِّرْ قَاتَلَ ابْنِ صَفِيَّةَ بِالنَّارِ ، فَأَلْقَاهُ وَذَهَبَ.
ابوخالد الوالبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احنف نے بنوتمیم کو دعوت دی مگر انہوں نے قبول نہ کی ، پھر اس نے بنوسعد کی دعوت دی انہوں نے بھی قبول نہ کی ، پس ایک دن زبیررضی اللہ عنہ اپنے ایک گھوڑے پر جارہے تھے جس کا نام ذوالنعال تھا ، تو احنف نے کہا: یہی وہ شخص ہے جو لوگوں کے مابین فساد برپاکرتاہے ، راوی کہتے ہیں کہ پھر احنف کے ساتھیوں میں سے دولوگوں نے ان کا پیچھا کیا پھر ایک نے ان پرحملہ کرکے انہیں زخمی کردیا اور دوسرے نے حملہ کرکے انہیں قتل کرڈلا ۔ اس کے بعد احنف زبیررضی اللہ عنہ کا سر لے کر علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہنچا اوراورکہا: قاتل زبیر کو اجازت دیں ، علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن لی اورکہا: ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو ، پھر احنف نے زبیررضی اللہ عنہ کے سر کو وہیں پھینکا اورچلاگیا۔[الطبقات الكبرى لابن سعد: 3/ 110 واسنادہ صحیح ، واخرجہ ایضا ابن عساکر من طریق ابن سعد بہ]

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اس کے تمام رجال ثقہ ہیں ،
 
Top