• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عمرو بن شعیب کا اپنے داد سے سماع ؟

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
حضرت عمرو بن شعیب ایک راوی ہیں ۔ ان کے اپنے دادا سے سماع کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے ۔ کچھ محدثین کہتے ہیں کہ کہ ان کا اپنے دادا سے سماع درست ہے اور بعض اس کا انکار کرتے ہیں ۔
انہی سے ترمذی اور ابوداود میں ایک روایت ہے جس میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے اپنے نابالغ بچوں کے گلے میں تعویذ لٹکانے کا عمل نقل ہے ۔ محدث فورم کی لائبریری میں ایک کتاب ہے تعویذ اور دم قران و سنت کی روشنی میں اور مصنف ہیں خواجہ محمد قاسم
وہ عمرو بن شعیب کی روایت کے بارے میں مذکورہ کتاب کے صفحہ 10 پر لکتھے ہیں
"محدثین نے عمرو بن شعیب کی روایت کو ضعیف اس لئیے کہا ہے کہ وہ اپنے داد کے صحیفے سے روایت کرتا ہے خود اس کا دادا سے سماعت ثابت نہیں ، یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ عمرو بن شعیب کی روایت ہمارے نذدیک بیکار ہے "








اب آتے ہیں ایک محدث لائبریری کی دوسری کتاب کی طرف
"خیر الکلام فی وجوب الفاتحہ خلف الامام " مصنف ہیں "حضرت الحاج حافظ محمد صاحب گوندلوی "
وہ مذکورہ کتاب کے صفحہ 147 میں اس سماع کو ثابت کرتے ہیں
"یعنی اس نے اپنے داد سے نہیں سنا مگر یہ بات غلط ہے اس کا سماع ثابت ہے "






اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہم کس کی بات کو مانیں۔ دونوں اہل حدیث کے علماء ہیں ۔ ایک نے اپنے مسلک کو ثابت کرنے کے لئیے عمرو بن شعیب کا اپنے داد سے سماع کا انکار کیا اور صرف وہ اقوال نقل کیے جو ان کے عدم سماع کے قائل ہیں اور دوسرے صاحب نے اپنے مسلک کو ثابت کرنے کےلئیے اس سماع کو درست قرار دیا
ذرا اہل علم حضرات روشنی ڈالیں گے اصل معاملہ کیا ہے یا میں کسی غلط فہمی کا شکار ہو رہا ہوں
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
کفایت اللہ بھائی سے گزارش ہے کہ اظہار خیال فرمائیں۔
اور تلمیذ بھائی، مجھے اتنا معلوم ہے کہ علماء کی تحقیق میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ کئی احادیث کی صحت میں علمائے کرام آپس میں اختلاف کر جاتے ہیں۔ راویان حدیث کی توثیق یا تضعیف میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ بعض شاگرد اپنے استادوں سے ستر فیصد مسائل میں اختلاف کر جاتے ہیں، اس کے باوجود انہیں کوئی مسلک پرستی کا طعنہ نہیں دیتا۔ ہاں ایک ہی شخص دو مختلف مقامات پر ایک ہی راوی پر دو حکم لگاتا ہو، اور کسی ایک موقف سے رجوع بھی نہ کرتا ہو، یعنی مطلب کی حدیث میں اس کی توثیق اور مخالف میں تضعیف، وغیرہ۔ تو اس پر قرائن کی بنیاد پر مسلک پرستی کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔ باقی تحقیق میں اختلاف تو کوئی نئی بات نہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جده کا طریق بالکل صحیح ہے جمہور محدثین کی یہی تحقیق ہے ، بلکہ بعض محدثین نے تو اس طریق کے دفاع میں رسالے بھی تالیف کئے ہیں۔

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
رأيت احمد بن حنبل وعلي بن المديني وإسحاق بن راهويه والحميدي وأبا عبيد، وعامة أصحابنا يحتجون بحديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده، ما تركه أحد من المسلمين [تهذيب التهذيب لابن حجر: 24/ 49 وانظرالتاريخ الكبير للبخاري : 6/ 343]۔

شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728)نے کہا:
وَأَمَّا أَئِمَّةُ الْإِسْلَامِ وَجُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ فَيَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ إذَا صَحَّ النَّقْلُ إلَيْهِ[مجموع الفتاوى: 18/ 8]۔

امام مزي رحمه الله (المتوفى742)نے کہا:
فدل ذلك على أن حديث عَمْرو بن شعيب عَن أبيه ، عن جده صحيح متصل إذا صح الاسناد إليه ، وأن من ادعى فيه خلاف ذلك ، فدعواه مردودة[تهذيب الكمال للمزي: 12/ 536]۔

امام زيلعي رحمه الله (المتوفى762)نے کہا:
وَأَكْثَرُ النَّاسِ يَحْتَجُّ بِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ إذَا كَانَ الرَّاوِي عَنْهُ ثِقَةٌ [نصب الراية للزيلعي: 1/ 58]۔

امام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى:804)نے کہا:
وَلَكِن الْجُمْهُور وَالْأَكْثَرُونَ عَلَى الِاحْتِجَاج بِهِ ، كَمَا قَالَه الشَّيْخ تَقِيّ الدَّين بن الصّلاح فِي كَلَامه عَلَى الْمُهَذّب ، وَهُوَ كَمَا قَالَ ، فقد قَالَ البُخَارِيّ : رَأَيْت أَحْمد بن حَنْبَل وَعلي بن الْمَدِينِيّ وَإِسْحَاق بن رَاهَوَيْه يحتجون بِحَدِيث عَمْرو بن شُعَيْب عَن أَبِيه عَن جده . قَالَ البُخَارِيّ : مَن النَّاس بعدهمْ ؟ .[البدر المنير لابن الملقن: 2/ 148]۔

معلوم ہواکہ جمہورمحدثین کے نزدیک یہ طریق بالکل صحیح ہے۔

رہی تعویذ والی مذکورہ روایت تو یہ ضعیف ہی ہے کیونکہ عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جده کے طریق سے نیچے ہی علت موجود ہے ،سب سے پہلے یہ روایت مع سند ومتن ملاحظہ ہو:
امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا فَزِعَ أَحَدُكُمْ فِي النَّوْمِ فَلْيَقُلْ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ ". فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ، وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ كَتَبَهَا فِي صَكٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ.[سنن الترمذي 5/ 542 رقم 3528 ].
عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اسکے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبداللہ بن عمرو یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے۔
ساری کتابوں میں یہ روایت ایک ہی سند سے نقل کی گئی ہے اوراس میں محمدبن اسحاق راوی ہے جس نے عن سے روایت کیا ہے اوریہ مدلس ہے۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
امام عقیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں: حَدَّثَنِي الْخَضِرُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: مَا تَقُولُ فِي مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ؟ قَالَ: هُوَ كَثِيرُ التَّدْلِيسِ جِدًّا[الضعفاء الكبير للعقيلي 4/ 28 وسندہ صحیح، و الحضربن داود عندی ثقۃ]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان يدلس على الضعفاء فوقع المناكير في روايته من قبل أولئك [الثقات لابن حبان 7/ 383]۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
ويدلس في حديثه [تاريخ بغداد 2/ 21]۔

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
محمد بن إسحاق وهو مدلس[مجمع الزوائد:10/ 27]۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اسے طبقات المدلسین کے چوتھے طبقہ میں ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
صدوق مشهور بالتدليس عن الضعفاء والمجهولين وعن شر منهم وصفه بذلك أحمد والدارقطني وغيرهما[تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس ص: 51]

مذکورہ بالا تمام اقوال کاخلاصہ یہ کہ محمدبن اسحاق معروف مشہورمدلس راوی ہیں اوراصول حدیث میں یہ بات مسلم ہے کہ معروف مدلس کا عنعنہ مردود ہوتاہے، یعنی وہ جس روایت کو عن سے روایت کرے وہ روایت ضعیف ونامقبول ہوتی ہے۔

اورمذکورہ حدیث کے کسی بھی طریق میں محمدبن اسحاق کے سماع کی تصریح نہیں ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔

اورجہاں تک تعلق ہے ’’تعویذ اوردم ‘‘ کے مولف کی مذکورہ تحریرکا تو ہمیں ان کی پوری پڑھ کرقطعا یہ نہیں لگتا کہ مؤلف نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے بلکہ مؤلف نے عمرو بن شعيب سے متعلق محض بعض کی جرح نقل کی ہے اور یہ بتلانا چاہا ہے کہ بعض کے اصول کے مطابق یہ روایت ضعیف ہے۔
اسی طرح آگے چل کر مؤلف نے ابن اسحاق کے حوالہ سے بھی کہا کہ ان پر حنفیہ کہ جرح مشہور ہے اس سے مؤلف کا مقصود یہ ہے کہ احناف کے اصول کے مطابق یہ روایت ضعیف ہے ۔

الغرض مؤلف کی عبارت سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس روایت کی صحت کا اختلاف بتلارہے یعنی یہ کہہ رہے کہ کہ بعض کے اصول کے مطابق یہ روایت ضعیف ہوگی لیکن مولف خود اپنی یہ تحقیق نہیں پیش کررہے ہیں کہ ان کی نظر میں یہ روایت ثابت نہیں یا عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جده کا طریق ان کی تحقیق میں ضعیف ہے۔

پھر اختلاف کی طرف اشارہ کرکے آگے کہتے ہیں کہ اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کیا جائے تو اس کا یہ جواب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔الخ
اورپھر صفحہ نمبر ١١ پر لکھتے ہیں:
اورکم ازکم صحابی مذکور کے عمل سے اتنا تو معلوم ہوا کہ تعویذ معصوم بچوں کو پہنایا جاسکتا ہے ، بڈھے طوطوں کو نہیں ، گو حدیث کی روشنی میں بندہ اس کا بھی قائل نہیں [تعویذ اوردم قران وسنت کی روشنی میں :ص 13].
ان تمام باتوں کو پڑھ یہ مستفاد ہوتا ہے کہ مولف نے اس روایت کے درجہ پر اپنی کوئی تحقیق پیش نہیں کی ہے ۔


اورفرض کرلیں کہ انہوں نے اپنی کوئی تحقیق پیش کی ہے اوردوسرے نے ان سے الگ تحقیق پیش کی ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ مسلک پرستی میں متضاد موقف اپنایا جارہا ہے ، کیونکہ دنوں تحریریں الگ الگ عالم کی ہیں نہ کہ ایک ہی شخص کی ۔
اگرایک ہی شخص ایک مقام پر کچھ کہے اوردوسرے مقام پر اس کے بالکل برعکس کہے اوردونوں جگہوں پر اپنا مسلک ثابت کرنا مقصود ہو تو اس شبہہ کی گنجائش ہے لیکن جب اختلاف دو الگ الگ عالموں میں ہو تو یہاں بھی تضاد دکھلا کر مسلک پر ستی ثابت کرنا بالکل مضحکہ خیزہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
الٹاچور کوتوال کوڈانٹے


اعتراض کرنے والے نے دومقامات کے حوالے دئے ہیں اوراتفاق سے دونوں مقامات پر محمدبن اسحاق کا کاذکرموجودہے۔
معترض سے گذارش ہے کہ ذرا اپنے گریبان میں جھانک کردیکھ لے ، اورشرم کرے۔

محمدبن اسحاق رحمہ اللہ سیرت ومغازی کے بہت بڑے امام ہیں ، لیکن حنفی ٹولا اس امام کو قرات خلاف الامام پربات کرتے ہوئے کذاب و دجال اورنہ جانے کیا کیا کہتاہے۔
لیکن تعویذ والی روایت میں اسی امام کو گلے لگاکر گلے میں میں تعویذ لٹکانے کی دلیل دیتاہے، یعنی اس امام کی روایت ان کے مسلک کے خلاف ملی تو یہ امام ان کی نظر میں کذاب و دجال ہے اورجب اسی امام کی روایت ان کے حق میں ملی تو یہی امام قطب وابدال کی فہرست میں ہے، صرف تعویذ ہی نہیں بلکہ اوربھی بہت ساری روایات میں یہ امام ان کی آنکھوں کا تارہ بن جاتاہے تفصیل کے لئے شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی کتاب توضیح الکلام دیکھیں۔


لطیفہ:
خلف الامام کے مسئلہ میں حنفی فرقہ امام مالک کے حوالہ سے مزے لے لے کر کہتاہے کہ امام مالک نے محمدبن اسحاق کو دجال من الدجاجلہ کہا ۔
لیکن جب آٹھ رکعات تراویح کی بات آتی ہے تو امام مالک ہی کی روایت کو غلط قراردیتے ہوئے بہت ساری باتوں کے ساتھ یہ بھی کہاجاتاہے کہ محمدبن اسحاق نے امام مالک کے خلاف روایت کیا ہے۔
انا للہ واناالیہ راجعون۔
غورکریں قرات فاتحہ والی روایت کی تغلیط کرتے وقت امام مالک رحمہ اللہ کا قول یاد تھا کہ امام مالک نے محمدبن اسحاق کو دجال من الدجاجلہ کہا ہے لیکن جب آٹھ رکعات تراویح کی بات آئی تو جسے امام مالک نے دجال کہا تھا اسی دجال کو امام مالک ہی کے خلاف استعمال کیا ۔

نوٹ:
یادرہے کہ مدینہ ہی کے ایک ثقہ محدث وفقیہ اورامام نے ابوحنیفہ کو بھی دجال من الدجاجلہ کہا ہے ۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
نہ تو ہمارا موضوع سخن تعویذ والی روایت کی صحت ہے نہ محمد بن اسحاق کی ائمہ جرح و تعدیل کے ہاں حیثیت ۔
موضوع سے متعلق کفایت اللہ صاحب نے دو جوابات دیے
اولا ،

الغرض مؤلف کی عبارت سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس روایت کی صحت کا اختلاف بتلارہے یعنی یہ کہہ رہے کہ کہ بعض کے اصول کے مطابق یہ روایت ضعیف ہوگی لیکن مولف خود اپنی یہ تحقیق نہیں پیش کررہے ہیں کہ ان کی نظر میں یہ روایت ثابت نہیں یا عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جده کا طریق ان کی تحقیق میں ضعیف ہے۔
اگر مولف یہ بتارہے ہیں کہ بعض کے نذدیک یہ روایت ضعیف ہے تو ان کو اصل بات بھی بتانی جاہئیے تھی ۔ ایک طالب علم جب یہ کتاب پڑہے گا وہ تو عمرو بن شعیب کی اپنی دادا سے روایت کو ضعیف سمجھے گا ۔ اگر وہ اس طریق کو صحیح سمجھتے تو ضرور وضاحت کرتے ۔ اس کے دو مطلب لئیے جاسکتے ہیں

ایک ۔ مولف کے نذدیک یہ طریق ضعیف ہے اس لئیے انہوں نے سماع کے اقوال ذکر نہیں کیے کیوں وہ ان سے متفق نہیں ہیں ،
دوم اگر مولف کے نذدیک یہ طریق صحیح ہے تو میرے نذدیک مولف نے صحیح قول کا ذکر نہ کرکے حق کو چھپایا ہے
میں حسن الظن سے یہی سمجھتا ہوں کہ مولف کے نذدیک یہ طریق ضعیف ہے اس لئیے انہوں نے سماع کے اقوال ذکر نہیں کیے

ثانیا
اورفرض کرلیں کہ انہوں نے اپنی کوئی تحقیق پیش کی ہے اوردوسرے نے ان سے الگ تحقیق پیش کی ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ مسلک پرستی میں متضاد موقف اپنایا جارہا ہے ، کیونکہ دنوں تحریریں الگ الگ عالم کی ہیں نہ کہ ایک ہی شخص کی ۔
اگرایک ہی شخص ایک مقام پر کچھ کہے اوردوسرے مقام پر اس کے بالکل برعکس کہے اوردونوں جگہوں پر اپنا مسلک ثابت کرنا مقصود ہو تو اس شبہہ کی گنجائش ہے لیکن جب اختلاف دو الگ الگ عالموں میں ہو تو یہاں بھی تضاد دکھلا کر مسلک پر ستی ثابت کرنا بالکل مضحکہ خیزہے۔
کچھ اسی طرح کا شاکر صاحب نے دیا اور میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ یہ مسلک پرستی نہیں ۔ یہ صرف دو علماء میں اجتھادی اختلاف ہے
خلاصہ بحث
میں نے یہ ایک مثال صرف یہ بتانے کے لئیے پیش کی کہ یہ اختلافات ہر مسلک میں ہوتے ہیں ۔ بعض حضرات اسی قسم کے احناف کے اختلافات کو بنیاد بنا کر مسلک پرستی اور قسم قسم کے الزامات لگاتے ہیں ۔اسی طرح کی علماء کی اختلاف کی مثال پیش کر کے جو وہ دور دراز کے نتائج اخذ کرتے ہیں اس یر شعر یاد آجاتا ہے
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
مگس (شہد کی مکھی) باغ میں جائے گی تو پھولوں کا رس چوسے گي جس سے وہ شہد بنائے گی ۔ اس شہد سے موم بنے گا اور موم سے شمع بھی بنتی ہے ۔ جب شمع ( موم بتی) جلے گی تو پروانے آئیں گے اور جل کر مریں گے تو ان کا خون ہو گا
میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ کم از کم اس فورم پر اہل حدیث حضرات احناف کے علماء کے اجتھادی اختلافات کو بنیاد بنا کر طرح طرح کے دور دراز نتائج اخذ کرنے سے پہلے اپنے علماء کے اجتھادی اختلافات کو بھی پیش نظر رکھیں گے ۔
باقی کفایت اللہ صاحب نے اپنی اگلی پوسٹ میں جو محمد بن اسحاق کے حوالہ سے جو تحریر کیا وہ ہمارا موضوع نہیں بلکہ انہوں نے روایاتی اہل حدیثوں کی طرح بات کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض کرکے ختم کیا وہ بھی ہمارا موضوع نہیں
 
شمولیت
اکتوبر 08، 2012
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
32
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
مگس (شہد کی مکھی) باغ میں جائے گی تو پھولوں کا رس چوسے گي جس سے وہ شہد بنائے گی ۔ اس شہد سے موم بنے گا اور موم سے شمع بھی بنتی ہے ۔ جب شمع ( موم بتی) جلے گی تو پروانے آئیں گے اور جل کر مریں گے تو ان کا خون ہو گا
بہت اعلی اور خوبصورت بات
اگر یہ بات سچے دل سے سمجھ لی جائے تو جھگڑا اور فتنہ ہی ختم ہوجائے۔
لیکن اس بات کو اگر ضد اور انا پرستی کی بھینٹ چڑھا دی جائے تو دنیا میں صرف فساد اور جھگڑا ہی باقی رہ جائے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
کچھ اسی طرح کا شاکر صاحب نے دیا اور میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ یہ مسلک پرستی نہیں ۔ یہ صرف دو علماء میں اجتھادی اختلاف ہے
خلاصہ بحث
میں نے یہ ایک مثال صرف یہ بتانے کے لئیے پیش کی کہ یہ اختلافات ہر مسلک میں ہوتے ہیں ۔ بعض حضرات اسی قسم کے احناف کے اختلافات کو بنیاد بنا کر مسلک پرستی اور قسم قسم کے الزامات لگاتے ہیں ۔اسی طرح کی علماء کی اختلاف کی مثال پیش کر کے جو وہ دور دراز کے نتائج اخذ کرتے ہیں
جو احباب اجتہاد کے قائل ہی نہ ہوں، ان کے آپسی اختلاف کو اجتہادی اختلاف کیسے کہیں؟ ابتسامہ۔

خیر، یہ ایک فرق یاد رکھنا ضروری ہے جس کا ذکر اوپر بھی ہو چکا کہ جب ایک ہی عالم اپنے مطلب کی جگہ پر ایک حدیث یا راوی کو صحیح و ثقہ اور مخالف حدیث میں حدیث یا راوی کو ضعیف وغیرہ کہتا ہے اور کسی ایک رائے سے رجوع بھی نہیں کرتا، تو یہ مسلک پرستی ہی ہے۔
اگر برا نہ لگے تو ایسی ایک آدھ مثال ہم بھی پیش کر کے آپ کی رائے جان سکتے ہیں کہ آیا آپ کے نزدیک یہ اجتہادی اختلاف ہے یا مسلک پرستی؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
=راجا;63355]جو احباب اجتہاد کے قائل ہی نہ ہوں، ان کے آپسی اختلاف کو اجتہادی اختلاف کیسے کہیں؟ ابتسامہ۔
کس مسلک کی بات کر رہے ہیں جہاں اجتہاد مطلق منع ہے

اگر برا نہ لگے تو ایسی ایک آدھ مثال ہم بھی پیش کر کے آپ کی رائے جان سکتے ہیں کہ آیا آپ کے نزدیک یہ اجتہادی اختلاف ہے یا مسلک پرستی؟]
میں اور آپ کے ہم مسلک ممبران اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ اس طرح کے اجتہادی اختلافات ہر مسلک میں ہیں تو پھر مثالیں پیش کرنے کا کیا فائدہ
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
میں اور آپ کے ہم مسلک ممبران اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ اس طرح کے اجتہادی اختلافات ہر مسلک میں ہیں تو پھر مثالیں پیش کرنے کا کیا فائدہ
آپ کے نزدیک ایک ہی عالم کا ایک جگہ کسی راوی کو ثقہ قرار دینا اور دوسری جگہ اسی راوی کو ضعیف قرار دینا اور کسی ایک تحقیق سے رجوع بھی نہ کرنا، مسلک پرستی کی تعریف میں شامل ہے یا اجتہادی اختلاف کی صف میں؟ اگر یہ وضاحت کر دیں تو پھر اپنی بات کی وضاحت پیش کروں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ کے نزدیک ایک ہی عالم کا ایک جگہ کسی راوی کو ثقہ قرار دینا اور دوسری جگہ اسی راوی کو ضعیف قرار دینا اور کسی ایک تحقیق سے رجوع بھی نہ کرنا، مسلک پرستی کی تعریف میں شامل ہے یا اجتہادی اختلاف کی صف میں؟ اگر یہ وضاحت کر دیں تو پھر اپنی بات کی وضاحت پیش کروں۔
کیا آپ کچھ اس طرح کی مثال دینا چاہ رہے ہیں ؟



]
 
Top