• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورتوں كا اپنے بال كاٹنا اور چہرے كے بال اتارنا :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عورتوں كا اپنے بال كاٹنا اور چہرے كے بال اتارنا

ميں مسلمان عورتوں كے متعلق ايك بحث ( مقالہ ) لكھ رہى ہوں، اور مسلمان عورت كے بالوں كے متعلق حكم معلوم كرنا چاہتى ہوں، آيا مسلمان عورت كے ليے اپنے بال كاٹ كر كندھوں كے برابر كرنے جائز ہيں يا نہيں ؟

اور چہرے پر اگے ہوئے بالوں كا حكم كيا ہے، كيا ان كو اتارنا حرام ہے يا نہيں ؟

آپ سے گزارش ہے كہ آپ ميرے ليے قوت ايمان كى دعا فرمائيں.


الحمد للہ:

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے ايمان كو اور زيادہ كرے، اور آپ كے سينہ كو كھول دے.

آپ كا سوال دو مسئلوں پر مشتمل ہے:

پہلا مسئلہ:

سر كے بال كاٹنے كا حكم:

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

عورت كے بال كاٹنے كے متعلق ہم كچھ نہيں جانتے، بال منڈانا منع ہے، آپ كو كوئى حق نہيں كہ آپ سر كے بال منڈائيں، ليكن ہمارے علم كے مطابق آپ بالوں كى لمبائى يا اس كى كثرت سے كاٹنے ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن يہ اچھے اور احسن طريقہ سے ہونا چاہيے جو آپ اور آپ كے خاوند كو پسند ہو، وہ اس طرح كہ آپ خاوند كے ساتھ متفق ہوں ليكن بال كٹوانے ميں كافر عورتوں كے ساتھ مشابہت نہيں ہونى چاہيے، اور اس ليے بھى كہ بال لمبے ہونے ميں انہيں دھونے اور كنگھى كرنے ميں مشقت ہے.

چنانچہ اگر بال زيادہ ہوں اور عورت اس كى لمبائى يا كثرت ميں سے كچھ كاٹ دے تو كوئى نقصان نہيں، يا اس ليے بھى كہ بال كاٹنےميں خوبصورتى ہے جو وہ خود اور اس كا خاوند چاہتا ہے اور اسے پسند كرتا ہے تو ہمارے نزديك اس ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن بال بالكل كاٹ دينا اور منڈا دينا جائز نہيں، ليكن اگر كوئى عذر ہو، يا بيمارى ہو تو ايسا كيا جا سكتا ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے. اھـ

ديكھيں كتاب: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 515 ).

صحيح مسلم ميں ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات اپنے بال كاٹا كرتى تھيں حتى كہ وہ كانوں كے برابر ہوتے تھے "

صحيح مسلم كتاب الحيض ( 320 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ميں عورتوں كے ليے بال چھوٹے كرنے كى دليل پائى جاتى ہے " اھـ

ليكن عورت كو كافر عورتوں اور فاسق و فاجر عورتوں كى مشابہت ميں بال كاٹنے سے اجتناب كرنا چاہيے.

شيخ صالح الفوزان كہتے ہيں:

" عورت كےليے پيچھے سے بال كاٹنے اور دونوں جانبوں سے بال لمبے چھوڑ دينا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں اپنے جمال كے ساتھ بدصورتى ہے كيونكہ بال اس كے جمال ميں شامل ہوتے ہيں، اور پھر اس ميں كافر عورتوں كے ساتھ مشابہت بھى ہوتى ہے.

اور اسى طرح مختلف شكلوں ميں كاٹنا، اور كافر يا حيوان كے ناموں سے بال كٹ بنوانا مثلا ڈيانا كٹ، يہ كافر عورت كا نام ہے، اور شير كٹ يا چوہا كٹ؛ كيونكہ كفاراور جانوروں كے ساتھ مشابہت حرام ہے، اور اس ليے بھى كہ عورت كے بالوں كے ساتھ مذاق ہے جو كہ عورت كا جمال ہے.

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 516 - 517 ).

دوسرا مسئلہ:

چہرے كے بال اتارنا:

شيخ محمد بن صالح ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اگر تو بال غير عادى ہوں يعنى وہ ايسى جگہ ہوں جہاں عادتا بال نہيں ہوتے، مثلا عورت كى مونچھيں آ جائيں، يا پھر اس كے رخسار پر بال اگ آئيں، تو انہيں اتارنے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ يہ عادت كے خلاف ہيں، اور ان ميں عورت كى بدصورتى ہے.

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 536 - 537 ).

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

عورت كے ليے چہرے كے بال اتارنے كا حكم كيا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

مونچھوں اور رانوں، اور پنڈليوں اور بازؤوں كے بال اتارنے ميں عورت پر كوئى حرج نہيں، اور نہ اس نہى ميں داخل نہيں ہوتے جو بال اكھيڑنے كے متعلق آئى ہے.

الشيخ عبد العزيز بن باز
الشيخ عبد الرزاق عفيقى
الشيخ عبد اللہ بن غديان
الشيخ عبد اللہ بن قعود

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 - 195 ).

اور مستقل فتوى كميٹى سے يہ سوال بھى كيا گيا:

عورت كے ليے اپنے جسم كے بال اتارنے كا حكم كيا ہے، اگر جائز ہے تو پھر يہ بال كون اتار سكتا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" سر اور ابرو كے بال كے علاوہ باقى بال اتارنے جائز ہيں، ابرو اور سر كے بال اتارنے جائز نہيں، اور نہ ہى وہ ابرو كا كوئى بال كاٹ سكتى ہے، اور نہ ہى مونڈ سكتى ہے، اور باقى جسم كے بال يا تو وہ خود اتارے، يا پھر اس كا خاوند، يا كوئى اس كا محرم وہاں سے جس حصہ كو وہ ديكھ سكتا ہے، يا كوئى عورت اس حصہ سے جہاں اس كو ديكھنا جائز ہے "

الشيخ عبد العزيز بن باز
الشيخ عبد الرزاق عفيفى
الشيخ عبد اللہ بن غديان
الشيخ عبد اللہ بن قعود

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 ).

اور زيرناف بال اور رانوں كے بالوں كو نہ تو كوئى دوسرى عورت ديكھ سكتى ہے، اور نہ ہى كوئى محرم ہى ديكھ سكتا ہے.

عورت كے ليے ابرو كے سارے يا كچھ بال اتارنے حرام ہيں، يہ كسى بھى طريقہ اور وسيلہ يعنى نہ تو كاٹ كر اور نہ ہى مونڈ كر اور نہ كوئى كوئى پاؤڈر اور كريم استعمال كر كے اتارے جا سكتے ہيں، كيونكہ يہ اس نمص ميں شامل ہوتا ہے جس سے منع كيا گيا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے والى پر لعنت كى ہے.

اور النامصہ وہ عورت ہے جو زينت كے ليے اپنے ابرو كے سارے يا كچھ بال اكھيڑتى اور اتارتى ہے، اور المتنمصہ وہ عورت ہے جس كے بال اتارے جائيں، اور يہ اللہ كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى ہے، جس كا شيطان نے اللہ تعالى كے ساتھ عہد كيا تھا كہ وہ ابن آدم كو اس كا حكم دےگا.. "

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 2162 ) اور ( 1172 ) اور ( 1192 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اور مزيد معلومات كے ليے آپ كتاب: الفتاوى الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 3 / 877 - 879 ) كا بھى مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
كاٹ كر ابرو ہلكے اور باريك كرنا

ميں نے بہت سے كالم اور پمفلٹ پڑھے ہيں جن ميں ابرو مونڈنے اور جسم كے دوسرے حصوں كے بال مونڈنے كے بارہ ميں بحث كى گئى ہے، ليكن ميں اس كى وضاحت چاہتى ہوں كہ آيا بالكل مكمل طور پر مونڈنے كى نہى ہے يا كہ نہيں ؟

ميرے ابرو كے بال بہت زيادہ گھنے ہيں جنہيں كاٹ كر ہلكے كرنے كى ضرورت ہے، تو كيا ميرے ليے بال كاٹ كر ابرو باريك اور ہلكے كرنے جائز ہيں ؟


Published Date: 2008-07-15

الحمد للہ:

ہم يہاں ابرو اور باقى جسم كے بال كاٹنے كے متعلق اہل علم كے فتاوى جات نقل كرتے ہيں:

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ابرو كے بال اگر تو اكھيڑ كر اتارے جائيں تو يہ النمص ميں شامل ہوتا ہے، جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بال اكھيڑنے اور اور يہ عمل كروانے والى دونوں پر لعنت فرمائى ہے، اور يہ كبيرہ گناہوں ميں شامل ہوتا ہے، اور عورت كے ساتھ اس ليے مخصوص ہے كہ غالبا اور عادتا يہ كام عورت ہى كرتى ہے، وگرنہ اگر مرد بھى يہ كام كرے تو وہ بھى عورت كى طرح ہى ملعون ہو گا، اللہ تعالى اس سے محفوظ ركھے.

اور اگر اكھيڑے بغير يعنى كاٹ كر يا مونڈ كر ابرو بنائے جائيں تو بعض اہل علم اسے اكھيڑنے جيسا ہى سمجھتے ہيں، كيونكہ يہ اللہ تعالى كى بنائى ہوئى صورت ميں تبديلى ہے، اس ليے اس ميں كوئى فرق نہيں كہ بال اكھيڑ كر يا كاٹ كر يا مونڈ كر ابرو بنائے جائيں، بلاشك اسى ميں زيادہ احتياط بھى ہے، اس ليے ہر كسى كو چاہيے كہ وہ اس سے اجتناب كرے، چاہے مرد ہو يا عورت.

ماخوذ از: فتاوى علماء بلد الحرام صفحہ نمبر ( 577 ).

اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل سوال نقل كيا گيا ہے:

ايك نوجوان لڑكى كے ابرو كے بال بہت زيادہ گھنے ہيں، تقريبا كريہ المنظر نظر آتى ہے، تو كيا يہ لڑكى كچھ بال مونڈ لے تا كہ دونوں ابرؤوں كے مابين فاصلہ ہو اور باقى كو ہلكا كر لے تا كہ اپنے خاوند كے ليے ديكھنے ميں اچھى اور بہتر نظر آئے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" ابرو كے بال نہ تو مونڈنے جائز ہيں، اور نہ ہى ہلكے كرنے؛ كيونكہ يہ اس نمص يعنى بال اكھيڑنے ميں شامل ہوتا ہے جس فعل كے كرنے اور كروانے والى عورت پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت كى ہے، لہذا جو كچھ ہو چكا ہے اس كے ليے آپ كو توبہ و استغفار كرنا ضرورى ہے، اور آئندہ مستقل ميں آپ اس سے اجتناب كريں "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 196 ).

اور فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے كہ:

النمص ابرو كے بال اكھيڑنے كو كہتے ہيں، اور يہ جائز نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بال اكھيڑنے اور اور اكھڑوانے والى دونوں عورتوں پر لعنت فرمائى ہے.

عورت كے ليے بعض اوقات جو داڑھى يا مونچھوں كے بال آ جاتے ہيں وہ اتارنے جائز ہے، يا پھر پنڈليوں يا ہاتھوں كے بال.

اور عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابرو كے بال ا كھيڑنے اور بال اكھيڑنے كا مطالبہ كرنے والى عورت پر لعنت فرمائى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4886 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2125 ).

حاصل يہ ہوا كہ: ابرو كے بال اتارنے حرام ہيں، چاہے كاٹ كر اتارے جائيں، يا پھر مونڈ كر يا اكھيڑ كر، اور اس كے علاوہ بال اتارنے مباح ہيں، مثلا ہاتھوں، اور پنڈليوں كے بال، اور اسى طرح جو دونوں ابرؤوں كے درميان ہوں "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 195 ).

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں يہ بھى آيا ہے كہ:

سوال:

دونوں ابرؤوں كے درميان موجود بال كاٹنے كا اسلام ميں كيا حكم ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" انہيں اكھيڑنا جائز ہے؛ كيونكہ يہ يہ ابرو ميں شامل نہيں ہيں"

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/22393
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ابرو کے بال اگر بہت زیادہ گھنے اور لمبے ہوں تو انہیں تراشنے کا حکم

سوال: اگر خواتین کے ابرو مردوں کی طرح لگتے ہوں تو کیا ان کیلئے ابرو کاٹنا یا مونڈنا جائز ہے؟ یعنی کہ ابرو کے بال بہت زیادہ گھنے ہیں ، برابر نہیں ہیں۔

Published Date: 2016-03-30

الحمد للہ:

اول:

اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ابرو کے بالوں کو مونڈنا یا تراشنا ان دونوں کا حکم نوچنے کے ساتھ ملایا جائے گا یا نہیں؟ چنانچہ جمہور علمائے کرام کے مطابق بالوں کو مونڈنا یا تراشنا بھی نوچنے کا ہی حکم رکھتا ہے، اس لیے کسی بھی شخص کیلئے اپنے ابرو مونڈنا یا تراشنا اسی طرح جائز نہیں ہے جیسے نوچنا حرام ہے۔

دوسرا موقف یہ ہے کہ:

ابرو کے بال صرف نوچنا حرام ہے، اس لیے ابرو کے بال مونڈ کر یا تراش کر زائل کیے جا سکتے ہیں، یہ موقف حنبلی فقہائے کرام کا ہے۔

چنانچہ " الموسوعة الفقهية " (14/82) میں ہے کہ:

"فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابرو کے بالوں کو نوچنا بھی چہرے [کے بال]نوچنے کی ممانعت میں شامل ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کی لعنت ہو بال نوچنے والی اور نوچنے کا کام کروانے والی پر)

لیکن فقہائے کرام کا مونڈنے اور تراشنے کے بارے میں اختلاف ہے، چنانچہ مالکی، شافعی فقہائے کرام تراشنے کو بھی نوچنے میں شمار کرتے ہیں، جبکہ حنبلی فقہائے کرام تراشنے اور مونڈنے کو جائز کہتے ہیں، چنانچہ ان کے نزدیک صرف نوچنا منع ہے" انتہی

اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر:
(22393) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

چہرے کے بال نوچنا حرام ہے، لیکن اس میں سے ابرو کے وہ بال مستثنی ہونگے جن کی وجہ سے آنکھوں کو تکلیف ہو ، یا حد سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں، یعنی اتنے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں کہ دکھنے میں عجیب لگے اور عورت کیلئے شرمندگی کا باعث بنے، تو ایسی حالت میں ابرو تراش کر عام لوگوں کے مطابق بنائے جائیں گے؛ کیونکہ ایسی صورت حال میں ابرو کو اس لیے تراشا جا رہا ہے کہ ابرو اذیت کا باعث نہ بنیں، اور یہ اسی وقت ہوگا جب انہیں معمول کے مطابق بنایا جائے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ابرو کے بال اگر نوچ کر ہلکے کئے جائیں تو یہ حرام ہے، بلکہ کبیرہ گناہ ہے؛ کیونکہ ابرو کے بالوں کو نوچنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔

اور اگر تراش کر یا مونڈ کر ابرو کے بال ہلکے کیے جائیں تو اسے اہل علم نے مکروہ کہا ہے، جبکہ کچھ نے اسے بھی حرام ہی کہا ہے، کیونکہ یہ ان کے نزدیک بال نوچنے کے مترادف ہی ہے، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ : چہرے کے بالوں میں کسی بھی تبدیلی کو بھی نوچنے میں ہی شمار کیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالی نے اس کی بالکل اجازت نہیں دی۔

لیکن جو بات ہمیں سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ ہم ابرو مونڈنے یا تراشنے کے عمل کو جائز یا مکروہ کہہ بھی دیں پھر بھی خواتین اپنے ابرو تراش کر یا مونڈ کر ہلکے مت کریں، البتہ اگر ابرو بہت ہی زیادہ لمبے ہوں کہ آنکھوں کے آگے آ جائیں، اور دیکھنے میں رکاوٹ بنیں تو پھر بقدر ضرورت انہیں تراشا جا سکتا ہے" انتہی

" مجموع فتاوى ابن عثیمین " (11/133)

نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ:

"ابرو کو ہلکا کرنا صرف اسی وقت جائز ہے جب معمول سے ہٹ کر بہت ہی زیادہ گھنے ہوں، اگرچہ بہتر یہی ہے کہ انہیں بھی ہلکا مت کریں، انہیں جیسے ہیں ویسے ہی رہنے دیں، نیز انہیں ہلکا کرنے کیلئے تراشیں یا مونڈیں، نوچنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ نوچنا حرام ہے" انتہی
" فتاوى نور على الدرب "

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/218579
 
Top