• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورتوں کی طہارت کے مخصوص مسائل

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عورتوں کی طہارت کے مخصوص مسائل

الشیخ صالح الفوزان
مترجم:حافظ محمد مصطفی راسخ​
حیض کی تعریف اور اَحکام
حیض کا لغوی معنی ’’السیلان‘‘ (بہنا)ہے، جبکہ شرعاً حیض سے مرادوہ خون ہے جو مخصوص ایام میں بغیرتکلیف و بیماری کے عورت کے رحم سے خارج ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنت ِآدم کو اسی جبلت پر پیدا کیا ہے اور اس خون کو حمل کے وقت بچے کی غذا بنا دیا ہے، ولادت کے بعد یہی خون دودھ میں تحویل ہوجاتا ہے۔ جب عورت نہ حاملہ ہو اور نہ ہی مرضعہ، تو اس خون کا کوئی تصرف نہیں رہتا، پس یہ اپنے معلوم اوقات میں حسب عادت خارج ہوتا رہتا ہے جس کوسمجھدار عورتیں پہچان لیتی ہیں۔
حیض آنے کا عرصہ
غالباً کم از کم نو سال کی عمر سے لے کر پچاس سال تک عورت کو حیض آتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ وَالّٰٓيئِ یَئِسْنَ مِنْ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَائِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُھُنَّ ثَلٰثَة اَشْھُرٍ وَّالّٰئ لَمْ یَحِضْنَ} [الطلاق :۴]
’’تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نااُمید ہوگئی ہوں، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔‘‘
’’وَالّٰٓيئِ یَئِسْنَ ‘‘ سے مراد پچاس سال کی عمر کو پہنچ جانے والی عورتیں ہیں جبکہ
’’ وَّالّٰئ لَمْ یَحِضْنَ‘‘ سے مراد نو سال سے کم عمر چھوٹی بچیاں ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حائضہ کے لئے حرام اور مباح اُمور کے احکام
1۔حالت حیض میں جماع کرنا حرام ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ھُوَ أذًی فَاعْتَزِلُوْا النِّسَائَ فِیْ الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ فَاِذَا تَطَھَّرْنَ فَأتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اﷲُ إنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ} [البقرۃ:۲۲۲]
’’آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے، حالت حیض میں عورت سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘
حیض کا خون بند ہوجانے اور اس سے غسل کرلینے تک یہ تحریم قائم رہے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ فَاِذَا تَطَھَّرْنَ فَأتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اﷲُ} خاوند کے لئے حائضہ عورت کے ساتھ جماع کے علاوہ فائدہ اٹھانا مباح ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’ اِصْنَعُوْا کُلَّ شَیْئٍ إلَّا النِّکَاحَ ‘‘ [صحیح مسلم:۴۵۵] ’’جماع کے علاوہ سب کچھ کرو۔‘‘
2۔حائضہ عورت اپنی مدت حیض میں نماز اور روزہ چھوڑ دے گی، ان کی ادائیگی اس پر حرام ہے اور نہ ہی یہ عمل اس سے صحیح ثابت ہوں گے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :
’’ أَلَیْسَ إِذَا حَاضَتِ الْمَرْأَة لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ ‘‘ [صحیح البخاري:۲۹۳]
’’ کیا ایسانہیں، جب عورت حائضہ ہوجاتی ہے وہ نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے۔‘‘
حائضہ جب حیض سے پاک صاف ہوجائے تو روزہ کی قضا کرے گی جبکہ نماز کی قضا نہیں کرے گی، کیونکہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے:
’’ کُنَّا نَحِیْضُ عَلَی عَھْدِ رَسُوْلِ اﷲِ فَکُنَّا نُؤْمَرُ بِقَضَائِ الصَّوْمِ وَلَا نُؤْمَرُ بِقَضَائِ الصَّلَاة ‘‘ [سنن الترمذي:۶۴۵]
’’ہم عہد نبویﷺ میں حائضہ ہوجاتی تھیں، پس ہمیں روزے کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا جب کہ نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔‘‘
نماز اور روزے میں فرق اس لئے ہے کہ نماز مکرر ہے جس کی قضاء میں تنگی اور مشقت ہے اس لئے اس کی قضاء کا حکم نہیں دیا گیا۔ واللہ اعلم۔
3۔حائضہ پر بلا پردہ مصحف پکڑنا حرام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{لَا یَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ} [الواقعۃ:۷۹] ’’جسے صرف پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں۔‘‘
اور نبی کریمﷺ نے عمرو بن حزمؓ کو خط میں یہ لکھا :
’’ لاَ یَمَسُّ الْمُصْحَفَ اِلَّاطَاھِرٌ‘‘
’’مصحف کو پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں‘‘[إرواء الغلیل:۱؍۱۵۸]
اور یہ حدیث متواتر ہے کیونکہ اس کو لوگوں کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں۔ ائمہ اربعہ کا یہی مذہب ہے کہ مصحف کو پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔ حائضہ کے لئے مصحف کو چھوئے بغیر زبانی تلاوت کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے اور زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ تلاوت نہ کی جائے الا یہ کہ کوئی سخت ضرورت ہو مثلاً قرآن بھول جانے کا اندیشہ ہو۔ واللہ اعلم۔
4۔حائضہ پربیت اللہ کا طواف کرنا حرام ہے: کیونکہ جب حضرت عائشہؓ حائضہ ہوگئیں تو آپؐ نے فرمایا:
’’ اِفْعَلِیْ مَا یَفْعَلُ الْحَاجُّ غَیْرَ اَلَّا تَطُوْفِیْ بِالْبَیْتِ حَتَّی تَطْھُرِیْ‘‘ [صحیح البخاري:۲۹۴]
’’حاجیوں کے تمام اعمال کر سوائے بیت اللہ کے طواف کے یہاں تک کہ تو پاک ہوجائے۔‘‘
5۔حائضہ کے لئے مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’ إنِّیْ لَا أحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا لِجُنُبٍ ‘‘ [سنن أبوداؤد:۲۳۲]
’’میں حائضہ اور جنبی کے لئے مسجد کو حلال نہیں کرتا۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
’’ إنَّ الْمَسْجِدَ لَا یَحِلُّ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُبٍ ‘‘ [سنن ابن ماجہ:۶۴۵]
’’بے شک مسجد حائضہ اور جنبی کے لئے حلال نہیں ہے۔‘‘
لیکن مسجد میں ٹھہرے بغیر گزر جانا جائز ہے۔ جیسا کہ ایک موقع پر نبی کریمﷺ نے حضرت عائشہ رض کو کہا
’’ نَاوِلِیْنِیْ الْخَمْرَة مِنَ الْمَسْجِدِ ‘‘ ’’مجھے مسجد سے چٹائی پکڑاؤ‘‘
حضرت عائشہؓ نے کہا: میں حائضہ ہوں، نبی کریمﷺ نے فرمایا: "إنَّ حَیْضَتَکَ لَیْسَتْ بِیَدِکَ"
’’یقیناً تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘‘ [سنن أبوداود:۲۶۱]
حائضہ کے لئے صبح و شام، سونے جاگنے کا اذکار اور تسبیح، تہلیل، تحمید، تکبیر وغیرہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اسی طرح کتب تفسیر، حدیث، فقہ کا پڑھنا بھی جائز ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
الصفرۃاورالکدرۃ کا حکم
’الصفرۃ‘ پیپ کی مانند شئ جس پر زردی غالب ہو۔
’الکدرۃ‘ میلے اور گدلے پانی کی مانند شے۔

جب اَیام حیض میں صفرۃ یا کدرۃ خارج ہو تو اسے حیض ہی سمجھا جائے گا اور حیض کے مذکورہ بالا احکام اس پر لاگو ہوں گے اور اگر عادت سے ہٹ کر ایام حیض کے علاوہ خارج ہو تو اسے کچھ نہیں سمجھا جائے گا بلکہ عورت طاہر ہی شمار ہوگی۔ کیونکہ حضرت اُم عطیہؓ فرماتی ہیں:
" کُنَّالَا نَعُدُ الْکَدْرَة وَالصَّفْرَة بَعْدَ الطُّھْرِ شَیْئًا" [سنن أبوداؤد:۳۰۷] ’’ہم صفرۃ اور کدرۃ کو طہر کے بعد کچھ نہیں سمجھتی تھیں
اور بخاری نے ’بعد الطھر‘کے الفاظ کے بغیر ہی نقل کیا ہے۔اہل حدیث کے ہاں اس حدیث کا حکم مرفوع ہے کیونکہ یہ نبی کریمﷺ سے تقریر سمجھی جائے گی۔ اس حدیث کامفہوم مخالف یہ ہے کہ طہر سے پہلے کدرۃ اور صفرۃ حیض کے حکم میں ہے جیسا کہ گذرا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حیض سے طہارت کی علامت
کس چیز سے عورت انتہاء حیض کو پہچانے گی؟
عورت انقطاع خون سے انتہاء حیض جان لیتی ہے اور اس کی دو علامتیں ہیں۔
1۔سفید چونے کا نزول:
انتہاء حیض پر چونے کی مانند سفید رنگ کا پانی خارج ہوتا ہے اور کبھی کبھی رنگ مختلف بھی ہوتا ہے، یہ رنگ احوال النساء کے مطابق مختلف ہوسکتا ہے۔
2۔خشکی :
عورت کپڑے کا ٹکڑا یا روئی کا پھمبہ اپنی شرمگاہ میں داخل کرے اور پھر اس کو نکال کر دیکھے،۔ اگر وہ خشک ہے اس پر خون وغیرہ نہیں لگا ہوا تو یہ انتہاء حیض کی علامت ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
غسل کے وجوب اور کیفیت کا بیان
انتہاء حیض کے وقت عورت پر غسل کرنا واجب ہے بایں طور پر کہ وہ طہارت کی نیت سے پورے جسم پر پانی بہائے۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
’’ فَإِذَا أقْبَلَتْ حَیْضَتَکِ فَدَعِيْ الصَّلوٰة وَإِذَا أدْبَرَتْ فَاغْتَسِلِيْ وَصَلِّيْ ‘‘ [صحیح البخاري:۲۲۱]
’’جب تو حیض کا سامنا کرے تو نماز چھوڑ دے اور جب حیض ختم ہوجائے تو غسل کر اور نماز پڑھ۔‘‘
غسل کا طریقہ :
سب سے پہلے طہارت کی نیت کرے اور نماز والا وضو کرے پھر بسم اللہ کہہ کر اپنے پورے جسم پر پانی بہائے اور بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچائے، اگر مینڈھیاں ہوں تو ان کوکھولنا ضروری نہیں ہے صرف پانی سے تر کرے اور جڑوں تک پانی پہنچائے۔ غسل کرتے وقت بیری یاصابون وغیرہ استعمال کرنا مستحسن ہے، غسل کرلینے کے بعد روئی یا کستوری یا کوئی بھی خوشو لگا کر شرمگاہ میں لگانا مستحب ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺنے حضرت اسمائؓ کو ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔ [صحیح مسلم:۵۰۰]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نماز کے وقت پاکیزگی حاصل ہوجانے پر کون سی نماز پڑھنا واجب ہے
اگر حائضہ یا نفاس والی عورت غروب آفتاب سے پہلے پاکیزہ ہوجاتی ہے تو اس پراس دن کی نماز ظہر اور عصر پڑھنا ضروری ہے، اور اگر طلوع فجر سے پہلے پاکیزہ ہوجاتی ہے تو اس پر اس رات کی مغرب اور عشاء پڑھنا ضروری ہے، کیونکہ حالت عذر میں دوسری نماز کا وقت ہی پہلی نماز کا وقت ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رح اپنے فتاویٰ [۲۲؍۴۳۴] میں فرماتے ہیں:
اسی لئے امام مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم الله سمیت جمہور علماء کی یہی رائے ہے کہ اگر حائضہ غروب آفتاب سے پہلے طاہرہ ہوجاتی ہے تو ظہر اور عصر اکٹھی پڑھے گی۔اور اگر رات کے آخری حصہ میں طاہرہ ہوجاتی ہے تو مغرب و عشاء اکٹھی پڑھے گی۔ جیسا کہ عبدالرحمن بن عوفؓ، ابوہریرہؓ اور عبداللہ بن عباسؓ سے منقول ہے، کیونکہ حالت عذر میں وقت دو نمازوں کے درمیان مشترک ہوتا ہے، جب وہ دن کے آخری حصہ میں پاکیزہ ہوجائے تو ظہر کا وقت ابھی باقی ہے لہٰذا عصر سے پہلے ظہر پڑھے اور اگر رات کے آخری حصہ میں پاکیزہ ہوجائے تو حالت عذر کی وجہ سے مغرب کا وقت ابھی باقی ہے لہٰذا عشاء سے پہلے مغرب پڑھے۔انتہیٰ
اگر کوئی عورت کسی نماز کا وقت داخل ہوجانے کے بعد نماز ادا کرنے سے پہلے پہلے حائضہ یا نفاس والی ہوجاتی ہے تو قول راجح کے مطابق اس پر قضاء لازم نہیں ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ اپنے مجموع فتاویٰ [۲۳؍۳۳۵] میں اس مسئلے سے متعلق فرماتے ہیں:
دلیل میں امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کا مذہب زیادہ ظاہر ہے کہ اس پر قضا لازم نہیں آتی، کیونکہ قضا امر جدید سے واجب ہوتی ہے اور یہاں کوئی امر نہیں ہے جو قضاء کو لازم کرے ۔ بایں وجہ کہ یہ عورت تجاوز کئے بغیر جائز لیٹ ہوئی ہے، سوجانے والااوربھول جانے والا اگر تجاوز(سستی) کرنے والا نہ ہو توچھوٹ جانے والی یہ نماز اس کے حق میں قضا نہیں بلکہ ادا ہی ہوتی ہے جب وہ بیدارہو جائے یا اس کو یاد آجائے۔انتہیٰ
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مستحاضہ کے احکام و مسائل
استحاضہ اس خون کو کہتے ہیں جو بلا وقت بیماری کی وجہ سے ’’عاذل‘‘ نامی رگ سے بہتا رہتا ہے۔ خون استحاضہ کی دم حیض کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے مستحاضہ عورت کا معاملہ ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔ چونکہ اس عورت کی شرمگاہ سے ہمیشہ یا اکثر اوقات خون بہتا رہتا ہے چنانچہ یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ حیض کا خون ہے جس میں وہ نماز روزہ چھوڑ دے یا استحاضہ کا خون ہے جس میں وہ نماز روزہ نہ چھوڑے۔
اس مشکل کی بناء پر مستحاضہ کی تین حالتیں ہیں۔
٭ پہلی حالت :معتادۃ
وہ عورت جس کے مستحاضہ ہونے سے پہلے اس کی عادت حیض معروف تھی کہ وہ پانچ دن یا آٹھ دن مہینے کے شروع، وسط یا آخر میں حائضہ ہوتی تھی۔ وہ دنوں کی تعداد اور وقت کو جانتی ہو ایسی عورت اپنی معروف عادت کے مطابق نماز روزہ چھوڑ دے گی اور اس پر حیض کے احکام لاگو ہوں گے، جب معروف عادت کے دن اور وقت ختم ہوجائے تو اسے چاہئے کہ وہ غسل کرے اور نمازادا کرنا شروع کردے اور باقی خون کو استحاضہ سمجھے۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ نے حضرت اُم حبیبہ رض کو کہا:
’’ اِمْکُثِیْ قَدْرَ مَاکَانَتْ تَحْبِسُکِ حَیْضَتُکِ ثُمَّ اغْتَسِلِیْ وَصلَّیْ ‘‘[صحیح مسلم:۵۰۴]
’’اپنی مدت حیض کے برابر تو نماز روزہ سے رکی رہ، پھر غسل کر اور نماز پڑھ۔‘‘
حضرت فاطمہ بنت ابی جیش رض کو فرمایا:
’’ إِنَّمَا ذَلِکَ عِرْقٌ وَلَیْسَ بِحَیْضٍ فَاِذَا أقْبَلَتْ حَیْضَتُکِ فَدَعِيْ الصَّلوٰۃَ ‘‘ [صحیح البخاري:۲۲۱]
’’بے شک یہ رگ ہے، حیض نہیں جب تو اپنے (وقت) حیض کا سامنے کرے پس نماز چھوڑ دے۔‘‘
٭ دوسری حالت :متمیزۃ
اس عورت کی ’’معروف عادت‘‘ نہ ہو لیکن اس کا خون متمیز ہو جس سے علم ہوجاتا ہو کہ یہ حیض یا استحاضہ کا خون ہے۔ مثلاً دمِ حیض کالا، گاڑھا اور بدبودار ہو جبکہ دمِ استحاضہ سرخ، پتلا اور بلا بدبو ہو، اس حالت میں عورت تمیز کرتے ہوئے متمیز دمِ حیض کے وقت نماز روزہ چھوڑ دے گی اور اس پر حیض کے احکام لاگو ہوں گے۔ جب کہ دمِ استحاضہ کے وقت غسل کرے اور نماز شروع کردے اور اس پر طاہرہ کے احکام لاگو ہوں گے۔ کیونکہ نبی کریمﷺ نے فاطمہ بنت ابی جیشؓ سے کہا:
’’ إذَا کَانَ الْحَیْضُ فَإنَّہُ أسْوَدُ یُعْرَفُ،فَأمْسِکِيْ عَنِ الصَّلوٰة،فَإذَا کَانَ الآخَرُ فَتَوَضَّئِيْ وَصَلِّیْ ‘‘ [ابوداؤد:۲۸۶]
’’جب حیض ہو، جو معروف کالا خون ہے، پس نماز سے رک جا، جب اس کے علاوہ (خون) ہو تووضو کر اور نماز پڑھ۔‘‘
اس صورت میں عورت اپنے خون کی تمیز کرتے ہوئے جان لیتی ہے کہ یہ حیض ہے یا استحاضہ ہے۔
٭ تیسری حالت : فاقدۃ
ایسی عورت جس کی نہ تو ’معروف عادت‘ ہو اور نہ ہی ’صفت تمیز‘ ہو۔ یہ حیض کے غالب اوقات کااعتبار کرتے ہوئے مہینے میں چھ یا سات دن تک حائضہ شمار ہوگی کیونکہ اکثر عورتوں کی یہی عادت ہے۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ نے حضرت حمنہ بنت حجش رض کو فرمایا:
’’ إنَّمَا ھِيَ رَکْضَة مِنَ الشَّیْطَانِ فَتَحَیَّضِیْ سِتَّة أیَّامٍ أوْ سَبْعَة أیَّامٍ ثُمَّ اغْتَسِلِیْ،فَإِذَا اسْتَنَفَأتِ فَصَلِّیْ أرْبَة وَّعِشْرِیْنَ أوْثَلاَثة وَعِشْرِیْنَ وَصُوْمِيْ وَصَلِّيْ فَاِنَّ ذَلِکَ یُجْزِئُکَ وَکَذَلِکَ فَافْعَلِیْ کَمَا تَحِیْضُ النِّسَآئُ ‘‘ [جامع الترمذي:۱۲۸]
’’بے شک یہ شیطان کی طرف سے چو کا ہے، پس تو چھ یا سات دن تک حائضہ رہ پھر غسل کرلے اور ۲۳ یا ۲۴ دن نماز پڑھ اور روزہ رکھ، تیرے لئے یہی کافی ہے اور اسی طرح کر جیسے حائضہ عورت کرتی ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نتیجہ
مذکورہ بالا بحث کا حاصل یہ ہے کہ معتادۃ (معروف عادت والی) اپنی معروف عادت کا اعتبار کرے گی جب کہ متمیزہ (صفت تمیز والی) تمیز کا اعتبار کرے گی اور فاقدہ چھ یا سات دن تک اپنے آپ کو حائضہ شمار کرے گی اور مستحاضہ کے متعلق یہ تینوں حالتیں ہی نبی کریمﷺ سے وارد ہیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
مستحاضہ سے متعلق جو چھ علامات بیان کی گئی ہیں،ان میں سے عادتِ معروفہ قوی ترین علامات میں سے ہے کیونکہ حیض میں اصل، اس کا مقام ہے۔ اسی طرح تمیز میں یہ بات ظاہر ہے کہ جب خون کالا، گاڑھا اور بدبودار ہوگا تو سرخ خون کی نسبت یہ زیادہ مناسب ہے کہ اس کو حیض ہی سمجھا جائے۔ اور فاقدہ کو غالب عورتوں کی عادت کے ساتھ منسلک کردیا جائے، کیونکہ اصل یہی ہے کہ فرد کو عام اَغلبیت کے ساتھ ملحق کردیا جائے۔
یہی وہ تین علامات ہیں جن پر سنت اور اعتبار دلالت کرتا ہے۔ پھر امام ابن تیمیہ ؒ نے بقیہ تین علامتوں کو ذکرکر کے النھایۃمیں فرمایا: کہ زیادہ صحیح اور درست امر یہی ہے کہ سنت سے ثابت انہی (پہلی)تین علامات کااعتبار کیا جائے اور دیگر منقول علامات کو لغو (ختم) کردیا جائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
طہارت مستحاضہ کے اَحکام
1-مذکورہ بالا علامات کے مطابق معتبر حیض کی انتہاء پر مستحاضہ کے لئے غسل کرنا واجب ہے۔
2-ہر نماز کے وقت باہر سے اپنی شرمگاہ کو اچھی طرح دھوئے تاکہ گندگی صاف ہوجائے اور سوراخ میں روئی وغیرہ رکھ کر مضبوطی سے باندھ لے تاکہ گر نہ سکے۔ پھر ہرنماز کے لئے وضو کرے۔ کیونکہ نبی کریمﷺ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا:
" تَدَعِ الصَّلوٰۃَ أیَّامَ أَقْرَائِھَا،ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَّوَضَّأ عِنْدَ کُلِّ صَلَاة " [إرواء الغلیل:۷؍۱۹۹]’’مستحاضہ اپنے ایام حیض میں نمازچھوڑ دے گی، پھر غسل کرے گی اور ہر نماز کے وقت وضو کرے گی۔‘‘
اور فرمایا: ( أنْعَتُ لَکَ الْکُرْسُفَ تَحْشِیْنَ بِہِ الْمَکَانَ) ’’میں تجھے روئی کی حالت بتا دیتا ہوں جسے اپنی مخصوص جگہ میں رکھ لینا۔‘‘
آج کل موجود طبی پیمپرز Pampers بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نفاس اور اس کے اَحکام
نفاس سے مراد وہ خون ہے جو ولادت کے وقت رحم مادر سے جاری ہوتا ہے اور عموماً چالیس دن تک تھوڑاتھوڑا بہتا رہتا ہے۔ بسااوقات یہ خون ولادت سے پہلے بھی جاری ہوجاتا ہے۔ جس کی مدت فقہاء نے دو تین دن تک محدود کردی ہے۔ غالباً ولادت کے وقت ہی جاری ہوتا ہے۔ اور معتبر ولادت اس وقت ہوتی ہے جب انسان کی خلقت واضح ہوجائے، اور انسان کی خلقت واضح ہونے کی کم از کم مدت ۸۱ دن یا غالب مدت تین ماہ ہے۔ اگر کسی عورت سے اس مدت سے پہلے کوئی شئ ساقط ہوگئی اور اس کے ساتھ خون جاری ہوگیا تو اس کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی اس خون کی وجہ سے عورت نماز روزہ نہیں چھوڑے گی کیونکہ یہ فاسد خون ہے اور ا س کا حکم مستحاضہ کا ہوگا۔
عموماً مدت نفاس ولادت یاولادت سے دو تین دن پہلے سے لے کر چالیس دن تک ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت اُم سلمہؓ کی حدیث ہے:
’’کَانَتِ النُّفَسَائُ تَجْلِسُ عَلَی عَھْدِ رَسُوْلِ اﷲِ أرْبَعِیْنَ یَوْمًا‘‘ [جامع الترمذي:۱۳۹]’’نبی کریمﷺکے زمانہ میں نفاس والی عورتیں چالیس دن تک (نماز روزہ ادا کرنے سے) بیٹھی رہتی تھیں۔‘‘
اور اس امر پر اہل علم کا اجماع ہے جیساکہ ترمذی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔
اگر کوئی عورت چالیس دن سے پہلے ہی طاہرہ (پاکیزہ) ہوجاتی ہے اور اس کا خون منقطع ہوجاتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ غسل کرے اور نماز پڑھے۔ کیونکہ نفاس کے خون کی کم از کم کوئی حد متعین نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی سے اس کی تحدید ثابت ہے اور اگر چالیس دن مکمل ہوجانے کے بعد بھی خون جاری ہے اور منقطع نہیں ہوا تو اگر وہ عادت حیض کے موافق ہے تو اس کو حیض شمار کیا جائے گا اور اگر عادت حیض کے موافق نہیں ہے تو استحاضہ ہوگا اور عورت چالیس دن گذر جانے کے بعد اپنی عبادات کو ترک نہیں کرے گی۔
 
Top