• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورتوں کی طہارت کے مخصوص مسائل

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نفاس سے متعلقہ اَحکام
درج ذیل اُمور میں احکام نفاس ، احکام حیض کی مانند ہیں:
1۔حائضہ کی مانند نفاس والی عورت سے جماع کرنا حرام ہے، جماع کے علاوہ استمتاع مباح ہے۔
2۔حائضہ کی مانند نفاس والی عورت پر روزہ رکھنا، نماز پڑھنا اور بیت اللہ کا طواف کرنا حرام ہے۔
3۔حائضہ کی مانند نفاس والی عورت پر مصحف کو چھونا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا حرام ہے،لیکن اگر بھول جائے کا اندیشہ ہو تو مصحف کو ہاتھ لگائے بغیر تلاوت کر سکتی ہے۔
4۔حائضہ کی مانند نفاس والی عورت پر چھوڑے گئے فرض روزوں کی قضا کرنا واجب ہے۔
5۔ حائضہ کی مانند نفاس والی عورت پر انتہاء حیض کے وقت غسل کرنا واجب ہے۔
٭ حضرت اُم سلمہ رض سے مروی ہے:
’’کَانَتِ النُّفَسَائُ تَجْلِسُ عَلَی عَھْدِ رَسُوْلِ اﷲِ أرْبَعِیْنَ یَوْمًا‘‘ [سنن أبوداؤد:۳۱۱]
’’عہد نبویﷺ میں نفاس والی عورتیں چالیس دن تک (نماز روزہ ادا کرنے سے) بیٹھی رہتی تھیں۔‘‘
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ [المنتقیٰ:۱؍۱۸۴] میں فرماتے ہیں:
میرے نزدیک اس حدیث کا معنی ہے کہ عورتوں کو چالیس دن تک (نماز، روزہ ادا کرنے سے) بیٹھنے کا حکم دیا جاتا تھا، تاکہ یہ خبر جھوٹی نہ ہو، کیونکہ حیض یا نفاس میں کسی بھی زمانے کی عورتوں کی عادت کا متفق ہونا ناممکن ہے۔انتہیٰ
٭ سیدہ اُم سلمٰہ رض سے مروی ہے:
’’کَانَتِ الْمَرْأة مِنْ نِسَائِ النَّبِیِّ تَقْعُدُ فِیْ النِّفَاسِ أرْبَعِیْنَ لَیْلَة لَا یَأمُرُھَا النَّبِیُّ بِقَضَائِ صَلاة النَّفَاسِ‘‘ [أبوداؤد:۳۱۲]
’’ازواج النبیؐ میں سے کوئی عورت حالت نفاس میں چالیس (دن) راتوں تک (نماز روزہ ادا کرنے سے) بیٹھی رہتی تھی اور نبی کریمﷺ اسکو حالت نفاس میںچھوڑی گئی نمازوں کی قضاء کا حکم نہیں دیتے تھے۔‘‘
فائدہ
اگر نفاس والی عورت کا خون چالیس دن سے پہلے ہی منقطع ہوگیا اور اس نے غسل کرکے نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا شروع کردیا۔ پھر چالیس دن سے پہلے اس کا خون دوبارہ لوٹ آیا تو صحیح رائے کے مطابق اس کو نفاس ہی شمار کیا جائے گا اور وہ نماز روزہ سے رُک جائے گی اور درمیانی حالت طہر کے وقفہ میں رکھے گئے روزے درست اور صحیح ہوں گے ان کی قضاء نہیں کرے گی۔
[انظر مجمو ع فتاویٰ الشیخ محمد بن إبراہیم:۲؍۱۰۲، وفتاویٰ الشیخ عبدالعزیز بن باز:۱؍۴۴، و حاشیۃ ابن القاسم علی شرح الزاد :۱؍۴۰۵،والدماء الطبیعیۃ للنسائ، ص ۵۵،۵۶،والفتاویٰ السعدیۃ، ص۱۳۷]
فائدہ
شیخ عبدالرحمن بن سعدیؒ فرماتے ہیں:
مذکورہ بالا کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ دم نفاس کا سبب ولادت، دم استحاضہ کا سبب بیماری وغیرہ ہے، جبکہ خون حیض ہی اصلی خون ہے۔ واللہ اعلم (انظر کتاب إرشاد أولی الأبصار والألباب ، ص۲۴)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مانع حیض گولیاں کھانا
عورت کے لئے مانع حیض گولیاں (دوائی) کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بشرطیکہ وہ اس کے لئے مضر صحت نہ ہوں۔ جب عورت یہ دوائی کھالے اور اس کا حیض رک جائے تو وہ دیگر طاہرہ عورتوں کی مانند نماز پڑھے ، روزہ رکھے اور بیت اللہ کا طواف کرے۔ یہ تمام عبادات اس سے صحیح ثابت ہوں گی۔
اِسقاط حمل کا حکم
اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورت کو اس کے پیٹ میں موجود حمل پر امین بنایا ہے،لہٰذا اس کے لیے اس حمل کو چھپانا منع ہے ۔اِرشاد ربانی ہے:
{وَلَا یَحِلُّ لَھُنَّ أنْ یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اﷲُ فِیْ أرْحَامِھِنَّ إنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ} [البقرۃ:۲۲۸]
’’انہیں حلال نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جوپیدا کیا ہو اسے چھپائیں اگر انہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو۔‘‘
اور اس کو ساقط کرانے کی کسی بھی ذریعہ سے اس سے جان چھڑانے کی سازش نہ کر۔ بے شک اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حالت حمل میں رمضان کے فرض روزے مشقت دور کرنے کے لئے چھوڑنے کی اجازت دی ہے۔ اسقاط حمل حرام عمل ہے۔ جب حمل میں روح پھونک دی جائے اور وہ اسقاط کی وجہ سے مرجائے تو اس کو قتل نفس شمار کیا جائے گا، جس کونہ حق قتل کرنا اللہ نے حرام قرا ردیاہے اور اس پر قابل سزا جرم کے احکام مرتب ہوں گے۔ بایں طور پر کہ اس پر دیت واجب ہے یا بعض آئمہ کے نزدیک اس پر کفارہ واجب ہے کہ ایک مومن غلام آزاد کرے، اگر غلام نہ پائے تو دو مہینے کے مسلسل روزے رکھے۔
بعض علماء نے اسقاط حمل کو ’’الموؤدة الصغری‘‘ (زندگی درگور کی ہوئی) کا نام دیاہے۔
شیخ محمد بن ابراہیم اپنے مجموع فتاویٰ [۱۱؍۱۵۱] میں فرماتے ہیں:
اسقاط حمل کی کوشش کرنا بھی حرام ہے جب تک اس کی موت متحقق نہ ہوجائے۔ اگر حمل کی موت ثابت ہوجائے تو اسقاط جائز ہے۔
سعودی عرب کی مجلس ھیئۃ کبار العلمائنے بتاریخ۲۰؍۶؍۱۴۰۷ھ، نمبر ۱۴۰، درج ذیل فتویٰ جاری کیا۔
1۔انتہائی تنگ حدود اور شرعی عذر کے بغیر کسی بھی مرحلہ پر اسقاط حمل جائز نہیں ہے۔
2۔جب حمل پہلے مرحلہ میں ہو، جو چالیس دن کی مدت ہے، اور اس مدت میں اسقاط کا سبب تربیت اولاد میںمشقت کا خوف، ان کی تعلیم اور معیشت کی تنگی کا خوف یا ان کے مستقبل کا خوف یا میاں بیوی کے پاس موجود اولاد پر اکتفاء کرلینا ہو، تو اسقاط حمل جائز نہیں ہے۔
3۔جب حمل علقۃً (جما ہوا خون) یا مضغۃً (گوشت کا لوتھڑا) کی حالت میں ہو تو جب تک معتمد میڈیکل کونسل یہ پاس نہ کردے کہ’’ رحم مادر میں جنین کا باقی رہنا ماں کے لئے خطرناک ہے اور اس کو ہلاکت میں ڈال سکتا ہے۔‘‘ اس وقت تک اسقاط حمل جائز نہیں ہے۔ معتمد میڈیکل کونسل کی مذکورہ تصدیق پر ان خطروں کی تلافی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لانے کے بعد اسقاط جائز ہے۔
4۔ تیسرے مرحلے اور چار ماہ مکمل ہونے کے بعد اسقاط حمل جائز نہیں ہے الا یہ کہ معتمد اور متخصّص ڈاکٹروں کی ایک جماعت یہ پاس کردے کہ رحم مادر میں بقائِ جنین ہلاکت ِماں کا سبب بن سکتا ہے۔ معتمد میڈیکل کونسل کی مذکورہ تصدیق پر ہلاکت زچہ کی تلافی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لانے کے بعد اسقاط جائز ہے۔ اقدام اسقاط حمل کی یہ رخصت دو عظیم اصولوں’’دفعاً لاعظم الضررین‘‘ اور ’’جلباً لعظمی المصلحتین‘‘ کی بنیاد پر دی گئی ہے۔
مجلس مذکورہ فتویٰ جاری کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے خوف اور اس معاملہ میں ثابت قدمی کی وصیت کرتی ہے۔ واﷲ الموفق وصلی اﷲ علی نبینا محمد وآلہ و صحبہٖ وسلم۔
شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ ’’رسالة الدماء الطبیعیة للنسائ، ص۶۰‘‘ پر فرماتے ہیں:
روح پھونک دیئے جانے کے بعد اسقاط حمل بلا شک و شبہ حرام ہے، کیونکہ یہ ناحق قتل نفس ہے اور قتل نفس کتاب و سنت اور اجماع سے حرام کیا گیا ہے۔
امام ابن الجوزیؒ اپنی کتاب أحکام النساء ص ۱۰۸،۱۰۹ پر فرماتے ہیں:
نکاح کا مقصد طلب اولادہے اور ہر پانی سے بچہ پیدا نہیں ہوتا۔ جب حمل ٹھہر جائے تو مقصود حاصل ہوگیا۔پس اس حمل کو ساقط کرنا مراد حکمت کے خلاف ہے، الا یہ کہ شروع حمل میں اسقاط ہو، اس میں بھی کبیرہ گناہ ہے، کیونکہ وہ کمال اور تمام ہونے کے مراحل کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ پس روح پھونک دیئے جانے سے پہلے اسقاط کرنا روح پھونک دیئے جانے کے بعد اسقاط کرنے سے گناہ میں کم ہے اور روح پھونک دیئے جانے کے بعد اسقاط حمل قتل مومن کی مانند ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَاِذَا الْمَوْؤُدَة سُئِلَتْ بِأَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ} [التکویر:۸،۹]
’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا کہ کس گناہ کے بدلے میں وہ قتل کی گئی۔‘‘
اے مسلمان بہن! اللہ سے ڈر اور کسی بھی مقصد کے لئے اس خطرناک جرم سے بچ اور گمراہ کن پروپیگنڈہ اور باطل تقالید کے دھوکے میں مت آجو عقل و دین سے عاری ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جزاک اللہ خیرا یا کلیم حیدر اخی!
@نادرحسین صاحب!ایک جگہ آپ نے عورتوں کے مسائل کے حوالے سے احادیث کی کتاب کا لنک مانگا ہے۔ کیا اس تھریڈ سے گزارہ ہوجائے گا؟
 
Top