• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت کو حق طلاق تفویض کرنا، شریعت میں تبدیلی ہے!

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عورت کو حق طلاق تفویض کرنا، شریعت میں تبدیلی ہے!۔۔۔ قسط اول


پاکستان میں حکومت کے مجوزہ نکاح فارم کی ایک شق میں یہ درج ہوتا ہے کہ خاوند نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کیا ہے یا نہیں؟... اکثر لوگ تو اس شق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اثبات یا نفی (ہاں یا نہیں) میں کچھ نہیں لکھتے۔ لیکن بعض لوگ اس پر اصرار کرتے ہیں کہ نکاح کے موقعے پر تفویض طلاق کے اس حق کو تسلیم کیا جائے اور وہ اس شرط کو لکھواتے یعنی منواتے ہیں کہ عورت کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب چاہے اپنے خاوند کو طلاق دے سکتی ہے اور اس طرح کے واقعات اب پیش آنے لگے ہیں کہ ایسی عورتیں جن کو حق طلاق تفویض کیا گیا، انھوں نے اپنے خاوندوں کو طلاقیں دے دیں۔

علماے احناف اور دیگر فقہا تو اس تفویض طلاق کو صحیح سمجھتے ہیں اور اس کی و جہ وہ فقہی جمود ہے جس میں وہ مبتلا ہیں، اس لیے عدمِ دلیل کے باوجود وہ اس بنا پر اس کے قائل ہیں کہ ان کے فقہانے اس کو تسلیم کیا ہے۔ بنابریں وہ عورت کے طلاق دینے کی و جہ سے میاں بیوی میں جدائی کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں۔لیکن بعض علماے اہلحدیث بھی اس کے جواز کا فتویٰ دے دیتے ہیں۔ غالباً انھوں نے مسئلے کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا یا عورتوں کے 'حقوق' کے شور میں اس کی شاید ضرورت ہی محسوس نہیں کی، اس لیے وہ بھی جواز کے قائل ہو گئے!!

راقم کے پاس بھی یہ استفسار آیا اور اس میں بعض علماے اہلحدیث کی طرف سے اس کے اثبات کا حوالہ بھی دیا گیا۔ اس بنا پر ضرورت محسوس ہوئی کہ مسئلے کی نوعیت کو شرعی دلائل کی روشنی میں واضح اور منقح کیا جائے تاکہ ایک طرف مسلک ِتفویض کے حامل علماے احناف کے دلائل کی بے ثباتی واضح ہو جائے اور جو علما محض بعض شبہات کی و جہ سے اس کے جواز کے قائل ہیں، وہ بھی اپنے موقف پرنظرثانی کرکے صحیح دلائل پر مبنی موقف کو اختیار کر سکیں۔

بہرحال ہمارا موقف یہ ہے کہ عورت کو طلاق کا حق تفویض نہیں کیا جا سکتا اور اگر کسی نے اس کو یہ حق دے دیا اور عورت نے اسے استعمال کرتے ہوئے خاوند کو طلاق دے دی، تو یہ طلاق نہیں ہوگی۔ طلاق کا حق صرف مرد کو حاصل ہے، یہ حق اللہ نے صرف اُسے ہی عطا کیا ہے، اسے پوری اُمت مل کر بھی عورت کی طرف منتقل کرنے کی مجاز نہیں ہے۔

اس کے دلائل حسب ِذیل ہیں:
اسلام میں طلاق کا حق صرف مرد کو دیا گیا ہے، عورت کو نہیں۔ اس کی و جہ یہ ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں زود رنج، زود مشتعل اور جلد بازی میں جذباتی فیصلہ کرنے والی ہے، نیز عقل اور دوراندیشی میں کمزور ہے۔ عورت کو بھی حق طلاق دیے جانے کی صورت میں، یہ اہم رشتہ جو خاندان کے استحکام و بقا اور اس کی حفاظت و صیانت کے لیے بڑا ضروری ہے، تارِعنکبوت سے زیادہ پائیدار ثابت نہ ہوتا۔ علمائے نفسیات و طبیعیات بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل راقم کی کتاب 'خواتین کے امتیازی مسائل' مطبوعہ دارالسلام میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

اگر عورت کو بھی طلاق کا حق مل جاتا تو وہ اپنا یہ حق نہایت جلد بازی یا جذبات میں آکر استعمال کر لیا کرتی اور اپنے پیروں پر آپ کلہاڑا مار لیا کرتی۔ اس سے معاشرتی زندگی میں جو بگاڑ اور فساد پیدا ہوتا، اس کا تصور ہی نہایت روح فرسا ہے۔ اس کا اندازہ آپ مغرب اور یورپ کی اُن معاشرتی رپورٹوں سے لگا سکتے ہیں جو وہاں عورتوں کو حق طلاق مل جانے کے بعد مرتب اور شائع ہوئی ہیں۔ان رپورٹوں کے مطالعے سے اسلامی تعلیمات کی حقانیت اور عورت کی اس کمزوری کا اثبات ہوتا ہے جس کی بنا پر مرد کو تو حق طلاق دیاگیا ہے لیکن عورت کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ عورت کی جس زود رنجی، سریع الغضبی، ناشکرے پن اور جذباتی ہونے کا ہم ذکر کر رہے ہیں، احادیث سے بھی اس کا اثبات ہوتا ہے۔ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«وَرَأَیْتُ النَّارَ فَإِذَا أَکْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ یَکْفُرْنَ» قِیْلَ: أَیَکْفُرْنَ بِاللهِ؟ قَالَ: «یَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ وَ یَکْفُرْنَ الْإِحْسَانَ، لَوْأَحْسَنْتَ إِلٰى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَیْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَیْتُ مِنْكَ خَیْرًا قَطُّ»
''میں نے جہنم کا مشاہدہ کیا تو اس میں اکثریت عورتوں کی تھی (اس کی و جہ یہ ہے کہ) وہ ناشکری کا ارتکاب کرتی ہیں۔ پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں) وہ خاوند کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ایک عورت کے ساتھ احسان کرتے رہو، پھر وہ تمہاری طرف سے کوئی ایسی چیز دیکھ لے جو اسے ناگوار ہو تو وہ فوراً کہہ اُٹھے گی کہ میں نے تو تیرے ہاں کبھی بھلائی اور سکھ دیکھا ہی نہیں۔''
جب ایک عورت کی افتادِ طبع اور مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ عمر بھر کے احسان کو مرد کی کسی ایک بات پر فراموش کر دیتی ہے تو اسے اگر حق طلاق مل جاتا تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس آسانی کے ساتھ وہ اپناگھر اُجاڑ لیا کرتی؟

عورت کی اس کمزوری، کم عقلی اور زود رنجی ہی کی و جہ سے مرد کو اس کے مقابلے میں صبرو ضبط، تحمل اور قوت برداشت سے کام لیتے ہوئے عورت کے ساتھ نباہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے ، کیونکہ عورت کی یہ کمزوریاں فطری ہیں، کسی مرد کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ قوت کے زور سے اُن کمزوریوں کو دور کرکے عورت کو سیدھا کر دے یاسیدھا رکھ سکے۔نبیﷺ نے فرمایا:

«اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ الـْمَرأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِیْمُهُ کَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَکْتَهُ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ»
''عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت مانو، عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور سب سے زیادہ کجی اوپر کی پسلی میں ہوتی ہے، پس اگر تم اُسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور یوں ہی چھوڑ دو گے تو کجی باقی رہے گی، پس عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت قبول کرو۔''
شارح بخاری حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
''مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ عورت کے مزاج میں کجی (ٹیڑھا پن) ہے (جو ضد وغیرہ کی شکل میں بالعموم ظاہر ہوتی رہتی ہے)، پس اس کمزوری میں اسے معذور سمجھو کیونکہ یہ پیدائشی ہے، اسے صبر اور حوصلے سے برداشت کرو اور اُن کے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ کرو۔ اگر تم اُنھیں سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اُن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکو گے جبکہ اُن کا وجود انسان کے سکون کے لیے ضروری ہے اور کشمکشِ حیات میں اُن کا تعاون ناگزیر ہے، اس لیے صبر کے بغیر اُن سے فائدہ اٹھانا اور نباہ ناممکن ہے۔''
بہرحال عورت کی یہی وہ فطری کمزوری ہے جس کی و جہ سے اللہ نے مرد کو تو حق طلاق دیا ہے لیکن عورت کو نہیں دیا۔ عورت کا مفاد ایک مرد سے وابستہ اور اس کی رفیقۂحیات بن کر رہنے ہی میں ہے، نہ کہ گھر اجاڑنے میں۔ اور عورت کے اس مفاد کو عورت کے مقابلے میں مرد ہی صبر و ضبط اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرکے زیادہ ملحوظ رکھتا اور رکھ سکتا ہے۔
بنابریں اسلام کا یہ قانونِ طلاق بھی دراصل عورت کے مفاد ہی میں ہے، گو عورت آج کل پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اس کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔


نوٹ:
پورا مضمون مع حوالہ جات پڑھنے کےلیے کلک کریں۔۔۔۔۔محدث میگزین
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عورت کو حق طلاق تفویض کرنا، شریعت میں تبدیلی ہے!۔۔۔ قسط دوم


خلع کے بارے میں ایک ضروری وضاحت
گذشتہ شمارہ محدث (نمبر361) میں میرا سابقہ مضمون پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ اشکال آسکتا ہے کہ علماے احناف تو خلع کا ذکر بھی کرتے ہیں او راس کا اثبات بھی، پھر ان کی بابت یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ خلع کا انکار کرتے ہیں؟

یہ بات ایک حد تک صحیح ہے کہ وہ ظاہری طور پر خلع کا اقرار کرتے ہیں لیکن وہ اس کو اس طرح ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں جس طرح شریعت نے یہ حق عورت کو دیا ہے۔ اس لئے اُن کا ماننا اقرار کے پردے میں انکار کے مترادف ہے۔ اس کی تشریح حسب ِذیل ہے:
خلع عورت کا وہ حق ہے جو اسے مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں دیا گیا ہے۔ مرد تو اپنا حق طلاق ایسے موقعوں پر استعمال کرلیتا ہے جب وہ اپنی بیوی سے ناخوش ہو۔ لیکن اگر عورت کو ایسی ضرورت پیش آجائے کہ وہ خاوند سے گلو خلاصی کرانا چاہے، مثلاً شوہر نامرد ہو، وہ حقوقِ زوجیت ادا کرنے پر قادر نہ ہو، یا وہ نان نفقہ دینے پر قادر نہ ہو یا قادر تو ہو لیکن دیتا نہ ہو، یا کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو جس کا علم عورت کو شادی کے بعد ہو، یا وہ سخت ظالم و جابر قسم کا ہو جو عورت پر بے جا ظلم و تشدد کرتا ہو، یا شکل و صورت کے اعتبار سے عورت کے لئے ناقابل برداشت اور اس کا اس کے ساتھ نباہ مشکل ہو؛ اس قسم کی تمام صورتوں میں شریعت نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ شوہر کا دیا ہوا حق مہر اُس کو واپس کرکے اس سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ اگر شوہر عورت کی خواہش او رمطالبے پر اُس کو طلاق دے دے تو ٹھیک ہے، مسئلہ نہایت آسانی سے گھر کے اندر ہی حل ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر مرد مذکورہ معقول وجوہات کے باوجود عورت کی خواہش او رمطالبے کو تسلیم نہ کرے، تو پھر عدالت یا پنچایت کے ذریعے سے اس مسئلے کو حل کیا جائے گا، اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ عورت کا مطالبۂ علیحدگی بالکل جائز ہے تو وہ مرد کو طلاق دینے کا حکم دے گا، اگر وہ پھر بھی طلاق نہ دے تو عدالت یا پنچایت فسخ نکاح کا حکم جاری کرے گی جو مرد کے طلاق کے قائم مقام ہوجائے گا او رعورت عدتِ خلع (ایک حیض) گزارنے کے بعد کسی دوسری جگہ شادی کرنے کی مجاز ہوگی۔یہ ہے خلع کا وہ طریقہ جو قرآن کریم کی آیت :﴿فَإِن خِفتُم أَلّا يُقيما حُدودَ اللَّهِ...٢٢٩﴾... سورة البقر ة" اور حدیث میں مذکور واقعہ حضرت ثابت بن قیس سے ثابت ہے۔
﴿فَإِن خِفتُم﴾ (پس اگر تم ڈرو...) میں خطاب خاندان کے اولیا(ذمّے داران) معاشرے کے معزز افراد یا حکومت کے افسرانِ مجاز(عدالتی حُکام) سے ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان پیدا ہونے والا نزاع، اُن کی آپس کی بات چیت سے ختم نہ ہوسکے تو تم مداخلت کرکے اس کو حل کرو اور عورت سے فدیہ (حق مہر) لے کر مرد کو دو اور اس سے طلاق دلواؤ، اگر وہ طلاق نہ دے تو تم فسخ نکاح کا آرڈر جاری کرکے اُن کے درمیان علیحدگی کروا دو۔

حدیث سے بھی اسی بات کا اثبات ہوتا ہے، حضرت ثابت بن قیس خوش شکل نہ تھے جب کہ اُن کی بیوی خوبرو تھی، اُنہوں نے بارگاہِ رسالت میں آکر نہایت مناسب الفاظ میں اس بات کو بیان کیا او رکہا کہ میں ثابت بن قیس کے دین و اخلاق کے بارے میں تو اُن کو معتوب نہیں کرتی لیکن ان کے ساتھ رہنے میں مجھے ناشکری کا اندیشہ ہے۔ رسول اللّٰہﷺ نے اس کی بات سن کر صورتِ حال کا اندازہ کرلیا او راس سے پوچھا: کیا تو ثابت بن قیس کو وہ باغ واپس کرنے پر آمادہ ہے جو اس نے تجھے (حق مہر میں) دیا تھا؟ اس نے کہا! ہاں۔ آپ نے ثابت بن قیس کو حکم دیا: اس سے اپنا باغ لے لو اور اس کو طلاق دے دو، چنانچہ اُنہوں نے طلاق دے دی۔ (یہ واقعہ احادیث کی ساری کتابوں میں موجود ہے)

رسول اللّٰہﷺ کا حضرت ثابت کو طلاق کا حکم دینا ایک حاکم کے طور پر تھا اور ظاہر بات ہے کہ خاندانی معاملات و نزاعات میں عدالت یا پنچائیت کی مداخلت ناگزیر ہے، اگر عدالت کو یہ حق نہیں دیا جائے گا یا اُس کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جائے گا تو پھر ان نزاعات کا حل آخر کس طرح نکالا جائے گا؟

ہم نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ علماے احناف عورت کے حقِ خلع کو تسلیم نہیں کرتے تو اس کے بارے میں ان کا یہ غیر منطقی موقف ہی اس کی بنیاد ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ خاوند اگر عورت کے مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرتا تو عدالت کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر طلاق کی ڈگری جاری کردے، جیسا کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد ہماری عدالتیں اس طرح کے فیصلے کررہی ہیں۔ علماے احناف کہتے ہیں کہ عدالتوں کے یہ فیصلے غلط ہیں اور اس طرح عورت کو طلاق نہیں ہوتی۔

حالانکہ عدالت کا یہ حق قرآنِ کریم کی آیت اور حضرت ثابت بن قیس کے واقعے سے واضح ہے جس کی مختصر تفصیل ابھی گزری اور اس کے بغیر گھریلو نزاعات کا کوئی دوسرا حل ہےہی نہیں۔ اگر آپ اس منطقی اور فطری طریق کونہیں مانتے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ آپ شریعت کے عطا کردہ عورت کےحقِ خلع کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔

آپ ذرا تصور کیجئے، ایک عورت خاوند کے رویے سے سخت نالاں ہے اور وہ اس سے ہر صورت خلاصی چاہتی ہے، وہ طلاق کا مطالبہ کرتی ہے، خاوند نےاُس کو جو کچھ (حق مہر وغیرہ) دیا ہے، وہ اُس کو واپس کرنے کی پیش کش کرتی ہے۔ لیکن وہ کسی صورت طلاق دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا۔ اب بتلائیے کہ اگر طلاق خاوند کی رضا مندی کے بغیرنہیں ہوسکتی جیسا کہ علماے احناف کہتے ہیں، تو عورت کو اس کا حق خلع کون دلائے گا؟ آپ کہتے ہیں ، عدالت مداخلت نہیں کرسکتی، اور خاوند کی رضا مندی کے بغیر علیحدگی ممکن ہی نہیں ہے، تو اس صورت کا حل کیا ہے؟ او رکیا یہ حق خلع کو تسلیم کرنا ہے...؟

یہ تو اللّٰہ کے عطا کردہ حق خلع کا صاف انکار ہے۔ خاوند کی ہٹ دھرمی ہی کا تو علاج عورت کے حق خلع کی صورت میں بتلایا گیا ہے جو صرف عدالت ہی عورت کو دلوا سکتی ہے۔ عدالت کو اگر یہ حق نہیں ہے اور خاوند کسی صورت طلاق دینے کے لئے تیار نہیں ہے تو عورت کو اُس کا یہ حق کس طرح ملے گا جو اللّٰہ نے اسے عطا کیا ہے؟


نوٹ:
پورا مضمون مع حوالہ جات پڑھنے کےلیے کلک کریں۔۔۔۔۔محدث میگزین
 
Top