• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عيد سے ہفتہ قبل فطرانہ كى ادائيگى كرنا :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عيد سے ہفتہ قبل فطرانہ كى ادائيگى كرنا :

الحمد للہ:

اول:

فطرانہ كى ادائيگى كے وقت ميں اہل علم كے كئى ايك اقوال ہيں:

پہلا قول:

عيد سے دو روز قبل ادا كيا جائے، مالكيہ، حنابلہ كا مسلك يہى ہے انہوں نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" اور وہ عيد الفطر سے ايك يا دو دن قبل فطرانہ ادا كيا كرتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1511 ).


اور بعض علماء كا كہنا ہے كہ: عيد سے تين روز قبل فطرانہ ادا كيا جائے.

امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مجھے نافع نے بتايا كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما فطرانہ دے كر فطرانہ جمع كرنے والے كے پاس عيد سے دو يا تين روز قبل بھيجا كرتے تھے "

ديكھيں: المدونۃ ( 1 / 385 ).


شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے يہى قول اختيار كيا ہے.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 14 / 216 ).

دوسرا قول:

رمضان المبارك كے شروع ميں ہى فطرانہ ادا كرنا جائز ہے، احناف كے ہاں اسى كا فتوى ہے، اور شافعيہ كے ہاں بھى يہى صحيح ہے.

ديكھيں: كتاب الام ( 2 / 75 ) المجموع ( 6 / 87 ) بدائع الصنائع ( 2 / 74 ).

ان كا كہنا ہے: اس ليے كہ فطرانہ كا سبب روزہ ركھنا اور روزے ختم ہونا ہے، اور جب دونوں سببوں ميں سے كوئى ايك پايا جائے تو اس ميں جلدى كرنى جائز ہے، جس طرح مال كى زكاۃ كى ادائيگى بھى پہلے كى جا سكتى ہے، كہ جب مال نصاب كو پہنچ جائے تو سال پورا ہونے سے قبل زكاۃ دينى جائز ہے.

تيسرا قول:

سال كے شروع ميں ہى فطرانہ ادا كرنا جائز ہے، يہ بعض احناف اور بعض شافعيہ كا قول ہے، ان كا كہنا ہے: اس ليے كہ يہ بھى زكاۃ ہے، تو يہ مال كى زكاۃ كى مشابہ ہونے كى بنا پر مطلقا پہلے ادا كرنا جائز ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ " المغنى " ميں لكھتے ہيں:

" فطرانہ كے فرض ہونے كا سبب روزے ختم ہونا ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ اس كى اضافت ہى اس ( يعنى روزے ) كى طرف كى گئى ہے، اور اس سے مقصود ايك مخصوص وقت ميں اس سے مستغنى ہونا ہے، اس ليے اس كى وقت سے پہلے ادائيگى جائز نہيں " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ المقدسى ( 2 / 676 ).

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

" ميں نے مكہ آنے سے قبل مصر ميں ہى رمضان كے شروع ميں فطرانہ ادا كر ديا تھا، اور اب ميں مكہ مكرمہ ميں مقيم ہوں، تو كيا ميرے ذمہ فطرانہ كى ادائيگى ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

جى ہاں آپ كے ذمہ فطرانہ كى ادائيگى ہے، كيونكہ آپ نے فطرانہ وقت سے قبل ادا كيا ہے، فطرانہ كى اضافت اس كے سبب كى جانب ہے، اور آپ چاہيں تو يہ بھى كہہ سكتے ہيں: اس كى اضافت اس كے وقت كى جانب ہے، اور ان دونوں صورتوں كى عربى لغت ميں وجوہات ہيں، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

" مكر الليل و النھار "

يہاں كسى چيز كى اس كے وقت كى طرف اضافت ہے، اور اہل علم كا كہتے ہيں: باب السجود السہو، يہ كسى چيز كى اس كے سبب كى جانب اضافت ہے.

تو يہاں فطرانہ كو فطر كى طرف مضاف كيا گيا ہے، كيونكہ يہ فطرانہ كا سبب ہے؛ اور اس ليے بھى كہ يہ فطرانہ كى ادائيگى كا وقت ہے، اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ رمضان المبارك كے روزوں سے مكمل افطار، تو رمضان المبارك كے آخرى دن ہوتى ہے، اس ليے رمضان المبارك كے آخرى يوم كا سورج غروب ہونے سے قبل فطرانہ ادا كرنا جائز نہيں.

ليكن عيد الفطر سے صرف ايك يا دو دن قبل فطرانہ ادا كرنے كى اجازت دى گئى ہے، وگرنہ فطرانہ كى ادائيگى كا حقيقى وقت تو رمضان المبارك كے آخرى روزے كا سورج غروب ہونے كے بعد ہى ہے؛ اس ليے كہ يہى وہ وقت ہے جس سے رمضان كا اختتام ہوتا اور عيد الفطر آتى ہے، اس ليے ہم كہينگے كہ:

افضل يہى ہے كہ اگر ممكن ہو سكے تو آپ عيد الفطر كى صبح فطرانہ ادا كريں.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن عثيمين زكاۃ الفطر سوال نمبر ( 180 ).

دوم:

آپ كے ليے رمضان المبارك كے شروع ميں ہى كسى خيراتى تنظيم يا بااعتماد شخص كو اپنى جانب سے فطرانہ كى ادائيگى كا وكيل بنانا جائز ہے ليكن شرط يہ ہے كہ وكيل عيد سے ايك يا دو دن قبل آپ كا فطرانہ تقسيم كرے، كيونكہ مشتحقين فقراء اور مساكين كو زكاۃ اور فطرانہ دينا ہى شرعى زكاۃ اور شريعت نے اس كى وقت كو مقيد كرتے ہوئے عيد سے ايك يا دو روز قبل مقرر كيا ہے.

اور فطرانہ كى ادائيگى ميں كسى كو وكيل بنانا يہ نيكى و تقوى ميں تعاون كے باب ميں شامل ہوتا ہے، اور اس كے ليے كوئى وقت مقرر نہيں.

اس كى تفصيل سوال نمبر ( 10526 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ ا س كا مطالعہ كريں.

حاصل يہ ہوا كہ: آپ كا عيد سے ايك ہفتہ قبل فطرانہ ادا كرنا كفائت نہيں كريگا، اس ليے آپ فطرانہ دوبارہ ادا كريں، ليكن اگر آپ نے كسى خيراتى تنظيم وغيرہ كو ديا كہ وہ آپ كى جانب سے وقت پر عيد سے ايك يا دو دن قبل فطرانہ تقسيم كر ديں، تو آپ اپنى جانب سے حق ادا كر ديا، اور يہ فطرانہ ان شاء اللہ صحيح اور مقبول شمار ہو گا.


واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/search?key=صدقہ+الفطر
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
آپ كے ليے رمضان المبارك كے شروع ميں ہى كسى خيراتى تنظيم يا بااعتماد شخص كو اپنى جانب سے فطرانہ كى ادائيگى كا وكيل بنانا جائز ہے ليكن شرط يہ ہے كہ وكيل عيد سے ايك يا دو دن قبل آپ كا فطرانہ تقسيم كرے، كيونكہ مشتحقين فقراء اور مساكين كو زكاۃ اور فطرانہ دينا ہى شرعى زكاۃ اور شريعت نے اس كى وقت كو مقيد كرتے ہوئے عيد سے ايك يا دو روز قبل مقرر كيا ہے.
محدث فتوی

صدقۃ الفطر رمضان کے پہلے عشرے میں ادا کرنا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 11 June 2012 11:50 AM

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رمضان کے پہلے عشرے ہی میں صدقۃ فطر ادا کر دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زکوٰۃ فطر کی اضافت فطر کی طرف ہے کیونکہ فطر ہی اس کا سبب ہے، اس لئے جب فطر رمضان ہی اس کفارے کا سبب ہے تو یہ اسی کے ساتھ مقید رہے گا، لہٰذا اس سے پہلے ادا نہیں کیا جا سکتا، اس کا افضل وقت عید کے دن نماز عید سے پہلے کا وقت ہے لیکن اسے عید سے ایک یا دو دن پہلے بھی ادا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں لینے اور دینے والے دونوں کے لیے سہولت ہے۔ اس سے زیادہ ایام قبل بطور پیشگی زکوۃ فطر ادا کرنے کے بارے میں اہل علم کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔ گویا اس کے لیے دو وقت ہیں:

(۱) وقت جواز اور وہ عید سے ایک یا دو دن پہلے کا وقت ہے۔

(۲) وقت فضیلت اور وہ عید کے دن نماز سے پہلے کا وقت ہے۔ نماز عید کے بعد تک اسے مؤخر کرنا حرام ہے، اس سے صدقۃ الفطر ادا نہ ہوگا کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے:

«مَنْ اَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِیَ زَکَاةٌ مَقْبُوْلَةٌ وَمَنْ اَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِیَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ» سنن ابی داود، الزکاة، باب زکاة الفطر، ح: ۱۶۰۹ وسنن ابن ماجه، الزکاة، باب صدقة الفطر، ح: ۱۸۲۷۔
’’جس نے اسے(صدقہ فطر)کو نماز سے پہلے ادا کر دیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو اس کا شمار صدقات میں سے ایک عام صدقہ میں ہوگا۔‘‘

اگر آدمی کو عید کے دن کا پتہ نہ چل سکے، اس لیے کہ وہ جنگل میں رہتا ہو یا اس کا علم اسے تاخیر سے ہوپائے یہ یا اس طرح کی دیگر صورتوں میں نماز عید کے بعد بھی صدقہ فطر ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس سے صدقہ فطر ادا ہو جائے گا۔

وباللہ التوفیق
فتاویٰ ارکان اسلام
زکوٰۃ کے مسائل

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
فتاویٰ جات: فطرانہ
فتویٰ نمبر : 12221

صدقۃ الفطر کی ادائیگی کس عشرہ میں ہو؟


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صدقۃ الفطر رمضان کے پہلے عشرہ میں ادا کیا جاسکتا ہے؟ احادیث اور تعامل صحابہ کرام ؓ سے جواب مطلوب ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صدقۃ الفطر کی فرضیت کا سبب فطر رمضان ہے۔اس بنا پر صدقہ ،فطر کے ساتھ مقید ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے فطر رمضا ن سے پہلے نہیں ادا کرنا چاہیے تاہم اس کی ادائیگی کے دووقت ہیں:

(۱)وقت جواز ،یہ عید سے ایک یا دودن پہلے ہے یعنی اسے عید سےایک یا دودن پہلے ادا کیا جاسکتاہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ صدقہ فطر عید سے ایک یا دو دن پہلے سرکاری طورپر صدقہ وصول کرنے والوں کے حوالے کردیتے تھے۔(صحیح بخاری،الزکوٰۃ:۱۵۱۱)

(۲)وقت فضیلت : یہ عید کے دن نماز عید سے پہلے کا وقت ہے ،چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :‘‘جس نے صدقہ فطر نما زسے پہلے ادا کردیاتو یہ صدقہ قبول ہوگا اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ صدقات میں سے ایک عام صدقہ ہے یعنی صدقہ فطر نہیں ہے۔’’ (سنن ابی داؤد،الزکوٰۃ:۱۶۰۹)

اگر کوئی نماز عید کے بعد تک اسے مؤخر کرتا ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے اس سے صدقہ فطر ادا نہیں ہوگا۔ان تصریحات کے پیش نظر ہمارا رحجان یہ ہے کہ صدقہ فطر رمضان کے پہلے عشرہ میں ادا کرنا صحیح نہیں ہے ۔اہل علم کے ہاں راجح قول یہی ہے کہ صدقہ فطر کو اس قدر قبل ازوقت ادا کرنا درست نہیں ہے۔ (واللہ اعلم )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج2ص212

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ما_حكم_من_لم_يخرج_زكاة_الفطر.jpg

وقت کی اہمیت : فطرانہ کی ادائیگی کیلئے شرعی قبولیت عید کے دن نماز عید سے پہلے کا وقت ہے ،
چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :‘
‘جس نے صدقہ فطر نما زسے پہلے ادا کردیاتو یہ صدقہ قبول ہوگا اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ صدقات میں سے ایک عام صدقہ ہے یعنی صدقہ فطر نہیں ہے۔’’ (سنن ابی داؤد،الزکوٰۃ:۱۶۰۹)
 
Top