• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عکرمہ بن عمار اور اختلاط

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم۔
ایک بہت ضروری سوال ہے کہ کیا عکرمہ بن عمار مختلط تھے؟ انہیں امام بیہقی کے علاوہ کسی نے مختلط نہیں کہا۔
امام بیہقی کا قول اس طرح ہے:

عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ اخْتَلَطَ فِي آخِرِ عُمْرِهِ , وَسَاءَ حِفْظُهُ , فَرَوَى مَا لَمْ [ص:527] يُتَابَعْ عَلَيْهِ
سنن الکبری: 8/526

امام بیہقی کے علاوہ کسی نے انہیں اختلاط کی وجہ سے کلام نہیں کیا، یہاں تک کہ ابن حجر، ذہبی، اور کسی عالم نے بھی اس بات کا ذکر تک نہیں کیا۔
اس بات کا سچ واضح کریں۔ کیا عکرمہ واقعی آخری عمر میں اختلاط میں مبتلا ہو گئے تھے؟؟
والسلام
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اگر مختلط راوی کے چار مختلف شاگرد، جن کے بارے میں یہ نہیں پتا کہ انہوں نے استاد سے اختلاط کے پہلے روایت کیا ہے یا بعد میں، اگر یہ چاروں اپنے استاد سے ایک ہی حدیث ایک ہی الفاظ کے ساتھ روایت کریں تو کیا اس کی روایت کی تقویت نہیں ہوتی؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عکرمہ بن عمار ثقہ راوی ہیں ۔
البتہ خاص طور سے يحيى بْن أبي كثير سے ان کی مرویات پر کلام ہے۔
باقی مرویات میں وہ بالکل ثقہ ہیں ۔

اورامام بیہقی رحمہ اللہ کی طرف سے ان پر اختلاط کی جرح مردود ہے۔
اس میں بارے قدرے تفصیل ملاحظہ ہو:

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
عكرمة بن عمار اختلط في آخر عمره وساء حفظه فروى ما لم يتابع عليه[السنن الكبرى للبيهقي: 8/ 303]۔

امام بیہقی رحمہ اللہ ایک دوسرے مقام پرفرماتے ہیں:
تركه البخاري وكان لا يحتج في كتابه الصحيح بعكرمة بن عمار وقال لم يكن عنده كتاب فاضطرب حديثه[السنن الكبرى للبيهقي: 7/ 140]۔


مؤخرالذکرحوالہ پر غورکریں یہاں پر امام بیہقی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ سے یہ نقل کررہے ہیں کہ:
لم يكن عنده كتاب فاضطرب، في حديثه
اس جملہ سے غالبا امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہ سمجھا کہ عکرمہ بن عمار کے پاس پہلے کتاب رہی ہوگی اور اس وقت وہ صحیح الحدیث تھے لیکن بعد میں ان کی کتاب ضائع ہوگئی پھر جب وہ بغیر کتاب کے روایت بیان کرنے لگے تو اضطراب کے شکار ہوگئے ، پھر امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسی بات کی ان الفاظ میں بیان کردیا کہ وہ اخیر میں اختلاط کے شکار ہوگئےتھے۔

وضاحتا عرض ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے عکرمہ سے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ کی جرح کو معلوم نہیں کہاں سے نقل کیا ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ سے عکرمہ سے متعلق ان الفاظ سے جرح ثابت نہیں ہے بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے اصل الفاظ کچھ اور ہیں ، ملاحظہ ہو:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنَا ابْن الفضل، أخبرنا عليّ بن إبراهيم المستملي، حدّثنا أبو أحمد بن فارس، حَدَّثَنَا البخاري قَالَ: عكرمة بْن عمار أَبُو عمار العجلي اليمامي مضطرب في حديث يحيى بْن أبي كثير، ولم يكن عنده كتاب، مات ببغداد زمن المهدي.[تاريخ بغداد: 12/ 256 واسنادہ صحیح]۔

غورفرمائین کہ یہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
مضطرب في حديث يحيى بْن أبي كثير، ولم يكن عنده كتاب

ان الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عکرمہ کو صرف اورصرف یحیی بن ابی کثیر کے طریق میں مضطرب بتلایا ہے ، اوران پر اختلاط کا الزام قطعا نہیں لگایا ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے جن الفاظ میں امام بخاری رحمہ اللہ کی جرح نقل کیا ہے وہ امام بخاری رحمہ اللہ سے ثابت ہی نہیں ، لہٰذا اگر امام بخاری رحمہ اللہ کی اس جرح کی بنیاد پر عکرمہ بن عمار کو مختلط کہا گیا ہے تو یہ درست نہیں ۔

نیز اگر امام بیہقی رحمہ اللہ کی طرف سے اختلاط کی جرح کی مذکورہ وجہ نہ ہو تب بھی امام بیہقی رحمہ اللہ کی جرح بہرحال مردود ہوگی۔
اس لئے کہ امام بیہقی سے قبل دیگر تمام جارحین میں سے کسی ایک نے بھی عکرمہ پر اخیر میں اختلاط کا الزام نہیں لگایا ہے، بلکہ تمام جارحین نے عکرمہ پر ایک خاص قسم کی اورمحدود جرح ہی کی ہے ایسی صورت میں دیگر محدثین کی طرف سے محدود جرح اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی طرف سے اختلاط کی جرح میں کوئی تطبیق ممکن ہی نہیں لہٰذا جمہور محدثین کے خلاف امام بیہقی رحمہ اللہ کی طرف سے اختلاط کی جرح غیرمسموع ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اگر مختلط راوی کے چار مختلف شاگرد، جن کے بارے میں یہ نہیں پتا کہ انہوں نے استاد سے اختلاط کے پہلے روایت کیا ہے یا بعد میں، اگر یہ چاروں اپنے استاد سے ایک ہی حدیث ایک ہی الفاظ کے ساتھ روایت کریں تو کیا اس کی روایت کی تقویت نہیں ہوتی؟
اول تو یہ ضروری نہیں کہ چاروں نے مختلف اوقات میں اپنے مختلط استاذ سے حدیث سنی ہو ، ممکن ہے چاروں ایک ہی دن اپنے استاذ کے درس میں رہے ہوں ایسی صورت میں چار کیا چالیس شاگرد بھی ایک ہی طرح روایت کریں تو بے سود۔
دوم اگر فرض کرلیں کے چاروں نے مختلف اوقات میں حدیث سنی ہے تو بھی ضروری نہیں ہے کہ مختلط نے صحیح طور سے بیان کیا ہے ، کیونکہ ممکن ہے کہ اختلاط کے بعد روایت کردہ حدیث ، متن یا سند میں کسی تبدیلی کے بعد مختلط کے ذہن میں بیٹھ گئی ہو۔


جزاک اللہ خیرا۔ شیخ مجھے تو آپ کی عادت ہو گئی ہے۔ :)
کیا مطلب ؟؟؟؟؟؟؟
 
Top