• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عیدمیلاد النبیﷺکے حوالے سے دو سوال

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عیدمیلاد النبیﷺکے حوالے سے دو سوال

محسنِ انسانیتﷺ کی پیدائش ربیع الاوّل میں ہوئی جس کے معنی ہیں’موسم بہار کی پہلی بارش‘۔جس طرح بارش سے مردہ زمین سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے، اسی طرح آپﷺ کی تشریف آوری سے مردہ دِلوں کو تروتازگی نصیب ہوئی۔ ظلم و جور کرنے والے عدل و انصاف کے داعی اور کفر و شرک کی تاریکی میں غرق رہنے والے شمع ِ توحید کے پروانے بن گئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال نمبر1:
سوموار کو آپﷺ کی پیدائش کے بارے میں مؤرخین کا عام طور پر اتفاق ہے۔ لیکن ربیع الاوّل کی کس تاریخ کو آپﷺ پیدا ہوئے، اس بارے میں محققین کا اختلاف ہے۔
ابوالفدا حافظ ابن کثیر نے یہ تاریخ ۱۰ ربیع الاوّل بتائی ہے جبکہ طبری اور ابن خلدون نے ۱۲ربیع الاوّل لکھی ہے۔ مولاناادریس کاندھلوی نے زرقانی کے حوالے سے ۸ ربیع الاوّل بتائی ہے۔ سلیمان منصور پوری نے ماہرین فلکیات کے حسابی دلائل کو مدنظر رکھ کر۹ ربیع الاوّل لکھی ہے۔مؤرخین کاایک تاریخ پر اجماع ثابت نہیں ہے؛
اس میں کیا حکمت ہے؟ یہ بھی ایک سوال ہے جو حل طلب ہے…!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال نمبر2:
صحابہ کرام ؓ کو خاتم النّبیینﷺسے جو محبت و عقیدت تھی، وہ اظہر من الشمس ہے۔ صحابہ آپﷺ کی اطاعت و اتباع پرمرمٹنے والے تھے۔ حتیٰ کہ اُنہوں نے آپﷺ سے کہا کہ ہمارادل چاہتا ہے کہ ہم آپﷺ کو سجدہ کریں تو ہادء برحق نبی مکرم ﷺ نے فرمایا کہ
’’اگر اللہ کے سوا اور کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو کہتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کیاکریں۔‘‘
لیکن اس سب محبت، عقیدت اور آپﷺ کی ہر اَدا پر مٹنے کے باوجود کسی صحابی سے یہ سوال منقول نہیں ہے کہ
حضورﷺ ! ہم آپؐ کی پیدائش کے دن کو کیسے منایا کریں؟
اور نہ ہی خلفاے راشدینؓ کے دور میں ایسی کوئی کاوش نظر آتی ہے۔ شاید اس لئے کہ یہ سب حضرات اس بات کو سمجھتے تھے کہ
سیرت منانے کی نہیں بلکہ عمل کرنے کی چیز ہے یاپھر شایدکوئی اور وجہ تھی جس کے باعث صحابہؓ کی زندگی اس استفسار اور کاوش سے خالی نظر آتی ہے۔
بہرحال ایساکیوں تھا؟ یہ بھی ایک سوال ہے جو حل طلب ہے…!
 

siddique

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
170
ری ایکشن اسکور
900
پوائنٹ
104
سوال نمبر1:
سوموار کو آپﷺ کی پیدائش کے بارے میں مؤرخین کا عام طور پر اتفاق ہے۔ لیکن ربیع الاوّل کی کس تاریخ کو آپﷺ پیدا ہوئے، اس بارے میں محققین کا اختلاف ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے؟ یہ بھی ایک سوال ہے جو حل طلب ہے…!
اسلام علیکم
اس روایت کے بارے میں کیا خیال ہے
افروز بھائی نے اس فورم پر ایک پوسٹ کی اس تعلق سے مگر اسکا کوئی جواب نہیں آیا کفایت بھائی کی مشغولیت کی وجہ سے۔اور بعد میں یہ حوالہ میں نے بھی دیکھا ہے الصادق المین کتاب میں
ابن عباس اور جابر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلےاللہ علیہ وسلم واقعہ فیل کے سال ١٢ ربیع الاول کو پیدا ہوئے اور اسی دن آپ معراج سے مشرف ہوئے اور اسی دن آپ نے ہجرت کی اور اسی دن وفات پائی۔
مسند احمد جلد ا صفحہ ٢٧٧ المعجم الکبیر طبرانی حدیث نمبر ١٢٩٨٤ یہ حدیث حسن ہے۔
الصادق المین صفحہ ١٣٢ پر ڈاکٹر محمد لقمان سلفی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے
حافظ ابن کشیر نے اپنی کتاب السيرة النبوية جلد نمبر ١ صفحہ ١٩٩
ورواه ابن أبى شيبة في مصنفه عن عفان، عن سعيد بن ميناء، عن جابر وابن عباس أنهما قالا: ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل يوم الاثنين الثاني عشر من شهر ربيع الاول وفيه بعث وفيه عرج به إلى السماء، وفيه هاجر وفيه مات.
مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ روایت نہیں ہے۔
مگر ابن ابی شیبہ کی ہی سند سے یہ روایت مجھے الاباطیل و المناکیر والمشاھیر للجورقاتی میں ملی متوفی ٥٤١ھ
[122 ] أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ مُحَمَّدُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عِيسَى، إِمْلَاءً، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، عَنْ سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ وَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُمَا قَالَا: " وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الْفِيلِ، يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، الثَّانِي عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ، وَفِيهِ بُعِثَ، وَفِيهِ عَرَجَ إِلَى السَّمَاءِ، وَفِيهِ هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ صلى الله عليه وسلم
کیونکہ ابن کثیر کی سند میں ایک راوی کا انقطاع ہے سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ،
علمائے کرام اس مسلئے پر روشنی ڈالے تو بہتر رہیگا۔
اللہ حافظ
 
F

fast_iamil

مہمان
رسول اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت بارہ ۱۲ ربیع الاوّل شریف کو ہوئی ۔ اس کے ثبوت ہم با سند صحیح روایت سے کرتے ہیں۔

امام ابوبکر بن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں کہ
عن عقان عن سعید بن مینار عن جابر و ابن عباس انھما قال ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یوم الاثنین الثانی عشر من شھر ربیع الاول
ترجمہ :عقان سے روایت ہے وہ سعید بن مینا سے روایت فرماتے ہیں اور وہ حضرت جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنھم سے راوی کہ یہ دونوں (حضرت جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنھم) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت عام الفیل میں پیر کے روز بارہ کے روز بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔
(سیرۃ انبویہ لابن کثیر جلد ا صفحہ ۱۹۹، البدایہ والنھایہ جلد ۲، صفحہ ۲۶۰)

اس روایت کی سند بھی صحیح ہے تو ثابت ہوا کہ جلیل القدر دو صحابہ کرام سے باسند صحیح یہ ثابت ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی ولادت باسعادت بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ ۹ بیع الاول کے تاریخ ہونے کی رٹ لگانا باطل و مردود ہے۔تمام عالم میں ولادت کی تاریخ ۱۲ ہی ہے جس کا انکار کرنا ناممکن ہے
جس حدیث کومیں نے پیش کیا جو تمام مسلمانوں کے نزدیک معتبر ہے ۔ اس حدیث کے راویوں کی توثیق جلیل القدر آئمہ محدیثین کرام سے آپ ملاحظہ کریں۔

(۱) اس کے پہلے راوی خود امام ابوبکر بن شیبہ ہیں جو امام بخاری و امام مسلم کے استاد ہیں ۔ جو جلیل القدر آئمہ محدیثین کی تصریحات کی رو سے ثقہ حافظ ہیں۔ (تہذیب التہذیب جلد ۶، صفحہ ۳۔۴،) متصل سند کے ساتھ امام بخاری نے ان سے ۲۲روایات صحیح بخاری میں ۔امام مسلم نے ۱۵۲۸ روایات صحیح مسلم میں امام نسائی نے ۶ روایات سنن نسائی میں امام ابوداؤد نے ۶۰ روایات سنن ابوداؤدمیں امام ابن ماجہ نے ۱۱۵۱ روایات سنن ابن ماجہ میں نقل کی ہیں۔

(۲) اس روایت کے دوسرے راوی عقان ہیں جو کہ بلند پایہ امام ثقہ صاحب ضبط اور اتقان تھے۔ خلاصۃ التہذیب صفحہ ۲۶۸، امام عجلی نے کہا کہ وہ ثقہ اور صاحب سنت تھے (تہذیب التہذیب جلد ۷، صفحہ ۲۳۱، )امام ابن معین نے ان کو اصحاب الحدیث بلند پایہ میں شمار کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب جلد ۷، صفحہ ۲۳۳، )امام ابن سعد نے کہا کہ وہ ثقہ ثبت حجت اور کثیر الحدیث تھے۔ امام ابن خراش نے کہاکہ وہ ثقۃ من خیار المسلمین تھے۔ ابن قانع نے کہا کہ وہ ثقہ اور مامون تھے۔ابن حبان نے ان کوثقات میں شمار کیا ہے ۔(تہذیب التہذیب جلد ۷، صفحہ ۲۳۴، )امام ذہبی نے کہا کہ وہ مشائخ الاسلامیں سے تھے ۔ آئمۃ العلام میں سے تھے۔ امام عجلی نے ثبت اور صاحب سنت کہا (میزان الاعتدال ،جلد ۳ ، صفحہ ۸۱) امام ابن معین نے ان کو پانچ بلند اصحاب الحدیث میں شمار کیا۔ امام ابو حاتم نے ثقہ متقن متین کہا (میزان الاعتدال ،جلد ۳ ، صفحہ ۸۲)

(۳) تیسرے راوی سعید بن مینار ہیں۔ امام ابن معین اور امام ابو حاتم نے ان کو ثقہ کہا۔ ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ۔ امام نسائی نے الجرح و التعدیل میں ثقہ کہا (تہذیب التہذیب جلد ۴، صفحہ ۹۱)
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
وھذا ھو المشھور عند الخمھور ۔ جمہور علماء کے نزدیک یہی مشہور ہے (سیرۃ النبویہ جلد ۱، صفحہ ۱۹۹)
روایت دوسری (۲)

عن سعید بن جبیر عن ابن عباس ولد انبی صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من ربیع الاوّل
حضرت سعید بن جبیر نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ بنی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت عام الفیل میں۔ پیر کے روز ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔(تلخیص المستدرک ،جلد ۲، صفحہ ۶۰۳)

امام ابن جریر طبری کا قول :
امام ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ : ولد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل۔ رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے روز ربیع الاوّل کی بار ہویں تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔ (تاریخ طبری ، جلد ۲، صفحہ ۱۲۵)
 
F

fast_iamil

مہمان
اب محدیثین اور علماؤں کے حوالہ ملحضہ فرمائیں


امام ابن جریر طبری کا قول :

امام ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ :
ولد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل۔
رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے روز ربیع الاوّل کی بار ہویں تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔ (تاریخ طبری ، جلد ۲، صفحہ ۱۲۵)

محمد بن اسحاق اور امام ابن ہشام
امام ابن ہشام نے محمد بن اسحاق کا قول نقل فرمایا کہ
ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین لا ثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من شھر ربیع الاوّل عام الفیل:
رسول اللہ ﷺ کی ولادت پیر کے دن بارہویں ربیع الاوّل کو عام الفیل میں ہوئی۔(السیرۃ النبویہ، لابن ہشام ، جلد۱، صفحہ ۱۸۱)

محدث ابن جوزی علیہ الرحمۃ
محدث ابن جوزی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ
قال ابن اسحاق ولد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل
امام ابن اسحاق نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل کو عام الفیل میں ہوئی۔(الوفاء جلد ۱ صفحہ۹۰) امام ابن اسحاق کا یہ قول ان کتب میں بھی موجود ہے
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد ۱، صفحہ ۳۳۴، شیعب الایمان بیہقی، جلد ۲، صفحہ ۴۵۸، السیرۃ النبویہ مع الروض الانف جلد ۳ ص ۹۳)
امام ابن جوزی نے اپنی دیگر کتب میں بھی سرکار اقدس ﷺ کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاوّل کو قرار دیا ہے (بیان المیلاد النبوی، ص ۳۱۔مولد العروس ،ص ۱۴)

علامہ ابن خِلدون
علامہ ابن خِلدون لکھتے ہیں کہ
ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من ربیع الاوّل ۔
رسول اللہ ﷺ کی ولادت عام الفیل کو بارہویں ربیع الاوّل کو ہوئی (تاریخ ابن خلدون، جلد ۲، صفحہ ۷۱۰)

الحافظ امام ابو الفتح الشافعی
امام ابو الفتح محمد بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن یحییٰ بن سید الناس الشافعی الاندلسی لکھتے ہیں کہ
ولد سیدنا و نبینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین لاثنتی عشرۃ مضت من شھر ربیع الاوّل عام الفیل (عیون الاثر، جلد ۱ ،ص۲۶)
ہمارے سردار اور ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل شریف کو عام الفیل میں ہوئی

امام ابن حجر مکی
امام ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ
وکان مولدہ لیلۃ الاثنین لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من شھر ربیع الاوّل ( النعمۃ الکبری علی العالم ، ص ۲۰)
اور آپ ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کی رات بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی

امام حاکم
عن محمد بن اسحاق ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل (مستدرک جلد ۲،ص ۶۰۳)
امام المغازی محمد بن اسحاق سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی۔

امام برہان الدین حلبی : حضرت سعید بن مسیّب
امام برہان الدین حلبی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں
عن سعید بن المسیب ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عندالبھار ای وسطہ و کان ذلک لمض اثنی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل (سیرت حلبیہ، جلد۱،ص ۵۷)
حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت بہار نہار کے قریب یعنی وسط میں ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔

امام بیہقی (۳۸۴-۴۵۸ھ)
جلیل القدرمحدث امام بیہقی لکھتے ہیں کہ
ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل
رسول اللہﷺ پیر کے دن عام الفیل میں ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے (دلائل النبوت بیہقی، جلد ۱،ص ۷۴)

امام ابن حبان(متوفی۳۵۴ھ)
جلیل القدر محدث امام ابن حبان لکھتے ہیں کہ
قال ابو حاتم ولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یوم الاثنین لاثنتی عشرۃ مضت من شھر ربیع الاوّل
امام ابو حاتم نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ کی ولادت عام الفیل کے سال پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی(سیرۃ البنویہ و اخیار الخلفاء، ص ۳۳)

امام سخاوی (متوفی۹۰۲ھ)
محدث جلیل امام سخاوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ
(ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) فی یوم الاثنین عند فجرہ لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت ربیع الاوّل عام الفیل
رسول اللہ ﷺ عام فیل ربیع الاوّل پیر کے دن فجر کے وقت ۱۲ کی رات میں پیدا ہوئے (التحفۃ اللطیفۃ، جلد ۱، ص ۷)

امام ابوالحسن علی بن محمد ماوردی (متوفی ۴۵۰ھ)
امام ابوالحسن علی بن محمد ماوردی لکھتے ہیں کہ
لانہ ولد بعد خمسین یومامن الفیل و بعد موت ابیہ فی یوم الاثنین الثانی عشرمن شھر ربیع الاوّل
عام الفیل کے پچاس روز بعد والد گرامی کے وصال کے بعد رسول اللہ ﷺ ماہ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے۔(اعلام النبوۃ، جلد ۱، ص ۳۷۹)

ملا معین واعظ کاشفی
معروف سیرت نگار ملامعین واعظ کاشفی لکھتے ہیں۔
مشہور ہے کہ ربیع الاوّل کے مہینے میں آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور اکثر کہتے ہیں کہ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ تھی۔(معارج النبوت،ج۱ ،ص ۳۷،باب سوم)

مولانا عبدالرحمٰن جامی(متوفی ۸۹۸ھ)
مولانا عبدالرحمٰن جامی ؒ لکھتے ہیں کہ
ولادت رسول اکرم ﷺ بتاریخ ۱۲ ربیع الاوّل بروز پیر واقعہ خیل سے پچیس دن بعد ہوئی۔(شواہد البنوت فارس، ص،۲۲۔اردو،ص۵۶)

سید جمال حسینی
محدث جلیل سید جمال حسینیؒ رقمطراز ہیں کہ
مشہور قول یہ ہے اور بعض نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاوّل کے مہینہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۲ ربیع الاوّل مشہور تاریخ ہے (رسالت مآب ترجمہ روضۃ الاحباب از مفتی عزیز الرحمٰن ص ۹)

امام ابو معشر نجیع
امام ذہبی لکھتے ہیں کہ :-
و قال ابو معشر نجیع ولد لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من ربیع الاوّل
ابو معشر نجیع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بارہ ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے (سیرت النبویہ للذہبی ،ج۱،ص،۷)

ملاعلی قاری (متوفی ۱۰۱۴ھ)
محدث جلیل ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ:-
و المشھور انہ ولد فی یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاوّل
اور مشہور یہی ہے کہ حضور اقدسﷺ کی ولادت پیر کے روز بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی ۔(الموردالروی،ص۹۸)

امام قسطلانی (۸۵۱-۹۲۳ھ)
شارح بخاری امام قسطلانی لکھتے ہیں کہ:-
و المشھور انہ دلد یوم الاثنین ثانی عشر شھر ربیع الاوّل
اور مشہور یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ پیر بارہ ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے۔(مواہب اللدنیہ،ج۱،ص ۱۴۲)

امام زرقانی (متوفی۱۱۲۲ھ)
امام زرقانی لکھتے ہیں کہ:-
و قال ابن کثیر وھو المشھور عند الجمھورو بالغ ابن جوزی و ابن الجزار نقلا فیہ الاجماع وھو الذی علہہ العمل
امام ابن کثیر نے فرمایا کہ جمہور کے نزدیک بارہ ربیع الاوّل کو ولادت مشہور ہے۔ ابن جوزی اور ابن الجزار نے مبالغہ سے اس اجماع نقل کیا ہے۔یہ وہ قول ہےجس پر (امت کا ) عمل ہے (زرقانی علی المواہب، ج۱، ص۱۳۲)

امام حسین بن محمد دیا ربکری(۹۸۲ھ)
علامہ حسین بن محمد دیاربکری لکھتے ہیں کہ
والمشھور انہ ولد فی ثانی عشر ربیع الاوّل وھو قول ابن اسحاق
اور مشہور یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی ولادت بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی اور یہ ابن اسحاق کا قول ہے ( تاریخ الخمیس، ج۱،ص ۱۹۲)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی(متوفی ۱۲۳۹ھ)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ
و قیل لاثنتی عشرۃ و ھو االمشھور۔
اور کہا گیا ہے کہ حضور کریمﷺ کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاوّل ہے اور یہی مشہور قول ہے (ماثبت بالسنۃ،ص۱۴۹۔مدارج النبوت ،ج۲،ص ۲۳)

علامہ یوسف بنھانی
علامہ یوسف بن اسمعٰیل بنھانی لکھتے ہیں کہ
فی یوم الاثنین ثانی عشرمن شھر
ربیع الاوّل رسول اکرم ﷺ کی ولادت پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی۔(حجۃ اللہ علی العالمین ص ۱۷۶)
دیگر حوالہ جات

ان کے علاوہ متعد د آئمہ نے باریخ ولادت بارہ ربیع الاوّل کی ہی صراحت کی ہے۔ مزید چند حوالہ جات درج ذیل ہیں۔
نسیم الریاض،ج۳،ص۲۷۵۔صفۃ الصفوۃ ،ج۱،ص۵۲۔اعلام النبوۃ ،ج۱،ص ۱۹۲۔ فقہ السیرۃ للغزالی،ص ۲۰۔ تواریخ حبیب الہٰ ،ص ۱۲۔وسیلۃ الاسلام ،ج۱،ص۴۴۔ مسائل الامام احمد ،ج۱،ص ۱۴۔سرور المخزون ص۱۴۔
 
F

fast_iamil

مہمان
اب ہم تمام مکتب فکر کے علماء کے قوال نقل کرتے ہیں


نواب صدیق حسن بھوپالی
جماعت اہلحدیث کے مفسر مولوی نواب صدیق حسن بھوپالی لکھتے ہیں کہ
ولادت شریف مکہ مکرمہ میں وقت طلوع فجر کے روز دو شنبہ شب دواز دہم ربیع الاوّل عام فیل کو ہوئی۔ جمہور علماء کا قول یہی ہے۔ ابن الجوزی نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے ۔(اشمامۃ العنبریہ من مولد خیرالبریہ ،ص ۷)

سلیمان ندوی
دیوبند اور اہلحدیث کے معتمد عالم مولوی سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ
(آپ ﷺ کی ) پیدائش ۱۲ تاریخ کو ربیع الاوّل کے مہینے میں پیرکے دن حضرت عیسٰی ؑسے پانچ سوا کہتر(۵۷۱) برس بعد ہوئی۔(رحمت عالم ،ص ۱۳،طبع مکتبہ دارارقم)

عبدالستار
اہلحدیث کے مشہور مولوی عبدالستار اپنے پنجابی اشعار پر مشتمل کتاب میں لکھتے ہیں کہ
بارھویں ماہ ربیع الاوّل رات سو سوار نورانی
فضل کنوں تشریف لیایا پاک حبیب حقانی
(کرام محمدی، ص ۲۷۰)

صادق سیالکوٹی
اہلحدیث کے صادق سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ
بہار کے موسم بارہ ربیع الاوّل (۲۲اپریل ۵۷۱ء)سوسوار کے روز نور کےتڑکے........امت محمدیہ کے زہےنصیب کہ یہ آیہ رحمت اسے عطا ہوئی۔ (سیدالکونین ،ص ۵۹۔۶۰)

ابو القاسم محمد رفیق دلاوری
دیوبندی مسلک کے مشہور عالم ابو القاسم محمد رفیق دلاوری لکھتے ہیں کہ
حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ٰﷺ دوشنبہ کے دن ۱۲ ربیع الاوّل صبح صادق کے وقت مکہ معظمہ کے محلہ شعب بنو ہاشم میں اس مقام پرظہور فرماہوئے۔(سیرت کبریٰ، ج۱،ص۲۲۴)

مفتی محمد شفیع آف کراچی
دیوبند مسلک کے مفتی اعظم محمد شفیع آف کراچی لکھتے ہیں کہ
ماہ ربیع الاوّل کی بارھویں تاریخ روز شنبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالا دن ہے کہ آج پیدائش عالم کا مقصد لیل و نہار کے انقلاب کی اصلی غرض آدم اور اولادآدم کا فخر کشتی نوح کی حفاظت کا راز ابراہیم کی دعا اور موسیٰ و عیسیٰ کی پیشن گوئیوں کا مصداق یعنی ہمارے آقا ئے نامدار محمد رسول اللہ ﷺ رونق افروز عالم ہوتے ہیں۔(سیرت خاتم الانبیاء،ص ۲۰،طبع دارالاشاعت)
مزید لکھتے ہیں کہ
(آپ ﷺ کی ولادت کے متعلق)مشہور قول بارھویں تاریخ کا ہے۔ یہاں تک کہ ابن البزار نے اس پر اجماع نقل کر دیا اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیا ہے۔اور محمود پاشامکی مصری نے جو نویں تاریخ بذریعہ حسابات اختیار کیا ہے ۔ یہ جمہور کے خلاف بے سند قول ہے اور حسابات پر بوجہ اختلاف مطالع ایسا اعتماد نہیں ہوسکتا کہ جمہور کی مخالفت اس کی بناء پر کی جائے (سیرت خاتم الانبیا ،ص ۲۰)

اشرف علی تھانوی
اشرف علی تھانوی بیان کرتے ہیں کہ :جمہور کے قول کے موافق بارہ ربیع الاوّل تاریخ ولادت شریف ہے ( ارشاد العباد فی عیدالمیلاد،ص۵)

اسلم قاسمی:-
قاری محمد طیب کے فرزند محمد اسلم قاسمی لکھتے ہیں کہ بارہ ربیع الاوّل پیر کے روز بیس تاریخ اپریل ۵۷۱ء کو صبح کے وقت جناب آمنہ کے یہاں ولادت ہوئی۔(سیرت پاک ،ص۲۲)

احمد علی لاہوری :- دیوبند مسلک کے امام التفسیر احمد علی لاہوری لکھتے ہیں کہ
احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ رحمۃ للعالمین ﷺ ۱۲ ربیع الاوّل بیس اپریل ۵۷۱ء پیر کے دن عرب دیس کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔(ہفت روز خدام الدین ، ص ۷، ۱۸ مارچ ۱۹۷۷ء)

مولانا مودودی:-جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ
ربیع الاوّل کی کون سی تاریخ تھی اس میں اختلاف ہے لیکن ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور جابربن عبداللہ ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ آپ ۱۲ ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے تھے ۔ اس کی تصریح محمد بن اسحاق نے کی ہے اور جمہور اہل علم میں یہی تاریخ مشہور ہے ۔(سیرت سرور عالم ، ص ۹۳،ج۱)
سرسید احمد خان:-لکھتے ہیں کہ جمہور مورخین کی رائے یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ بارہویں ربیع الاوّل کو عام الفیل کے پہلے برس یعنی ابراہہ کی چڑھائی سے پچپن روز بعد پیدا ہوئے۔(سیرت محمدی ، ص۲۱۷)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
أقوال العلماء في وقت ولادة النبي صلى الله عليه وسلم ووفاته وذِكر الراجح منها

ما هو تاريخ ولادة ووفاة الرسول صلى الله عليه وسلم ، فلدي الكثير من الآراء حول ذلك ، فما هو القول الصحيح والدليل في ضوء الكتاب والسنة ؟ .
أولاً:
اختلف أهل السيَر والتاريخ في تحديد يوم وشهر ولادة النبي صلى الله عليه وسلم ، وهو أمر له سببه المعقول حيث لم يُعلم ما سيكون لهذا المولود من شأن ، فكان حاله كحال غيره من المواليد ، ولذا لم يكن لأحد أن يجزم على وجه اليقين بوقت ميلاده صلى الله عليه وسلم .
قال الدكتور محمد الطيب النجار – رحمه الله - :
ولعل السر في هذا الخلاف أنه حينما ولد لم يكن أحد يتوقع له مثل هذا الخطر ، ومن أجل ذلك لم تتسلط عليه الأضواء منذ فجر حياته ، فلما أذِن الله أن يبلغ الرسول صلى الله عليه وسلم دعوته بعد أربعين سنة من ميلاده : أخذ الناس يسترجعون الذكريات التي علقت بأذهانهم حول هذا النبي ، ويتساءلون عن كل شاردة وواردة من تاريخه ، وساعدهم على ذلك ما كان يرويه الرسول صلى الله عليه وسلم نفسه عن الأحداث التي مرت به أو مر هو بها منذ نشأته الأولى ، وكذلك ما كان يرويه أصحابه والمتصلون به عن هذه الأحداث . وبدأ المسلمون – حينئذٍ - يستوعبون كل ما يسمعون من تاريخ نبيهم صلى الله عليه وسلم لينقلوه إلى الناس على توالي العصور . " القول المبين في سيرة سيد المرسلين " ( ص 78 ) .
ثانياً:
من مواضع الاتفاق في ميلاده صلى الله عليه وسلم تحديد العام ، وتحديد اليوم :
1. أما العام :
فقد كان عام الفيل ، قال ابن القيم – رحمه الله - : لا خلاف أنه ولد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بجوف مكّة ، وأن مولده كان عامَ الفيل . " زاد المعاد في هدي خير العباد " ( 1 / 76 ) .
وقال محمد بن يوسف الصالحي – رحمه الله - : قال ابن إسحاق رحمه الله تعالى : عام الفيل .
قال ابن كثير : وهو المشهور عند الجمهور .
وقال إبراهيم بن المنذر الحزامي شيخ البخاري : وهو الذي لا يشك فيه أحد من العلماء . وبالغ خليفة بن خياط وابن الجزار وابن دحية وابن الجوزي وابن القيم فنقلوا فيه الإجماع . " سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد " ( 1 / 334 ، 335 ) .
وقال الدكتور أكرم ضياء العمري – وفقه الله - :
والحق : أن الروايات المخالفة كلها معلولة الأسانيد ، وهي تفيد أن مولده بعد الفيل بعشر سنوات ، أو ثلاث وعشرين سنة ، أو أربعين سنة ، وقد ذهب معظم العلماء إلى القول بمولده عام الفيل ، وأيدتهم الدراسة الحديثة التي قام بها باحثون مسلمون ومستشرقون اعتبروا عام الفيل موافقاً للعام 570م ، أو 571م ." السيرة النبوية الصحيحة " ( 1 / 97 ) .
2. وأما اليوم :
فهو يوم الاثنين ، ففيه وُلد صلى الله عليه وسلم ، وفيه بُعث ، وفيه توفي .
عن أبي قتادة الأنصاري رضي الله عنه قال : ( سُئِلَ صلى الله عليه وسلم عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ ؟ قَالَ : ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ - أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ - ) .رواه مسلم ( 1162 ) .
قال ابن كثير – رحمه الله - :
وأبعدَ بل أخطأ من قال : ولد يوم الجمعة لسبع عشرة خلت من ربيع الأول . نقله الحافظ " ابن دحية " فيما قرأه في كتاب " إعلام الروى بأعلام الهدى " لبعض الشيعة . ثم شرع ابن دحية في تضعيفه وهو جدير بالتضعيف إذ هو خلاف النص .
" السيرة النبوية "
( 1 / 199 ) .
ثالثاً:
أما موضع الخلاف فقد كان في تحديد الشهر واليوم منه ، وقد وقفنا على أقوال كثيرة في ذلك ، ومنها :
1.
أن ميلاده صلى الله عليه وسلم كان لليلتين خلتا من ربيع الأول .
قال ابن كثير – رحمه الله - : فقيل : لليلتين خلتا منه ، قاله ابن عبد البر في " الاستيعاب " ، ورواه الواقدي عن أبي معشر نجيح بن عبد الرحمن المدنى . " السيرة النبوية " ( 1 / 199 ) .
2.
وقيل : في ثامن ربيع الأول .

قال ابن كثير – رحمه الله - : وقيل لثمان خلون منه ، حكاه الحميدى عن ابن حزم ، ورواه مالك وعقيل ويونس بن يزيد وغيرهم عن الزهري عن محمد بن جبير بن مطعم ، ونقل ابن عبد البر عن أصحاب التاريخ أنهم صححوه ، وقطع به الحافظ الكبير محمد بن موسى الخوارزمي ، ورجحه الحافظ أبو الخطاب بن دحية في كتابه " التنوير في مولد البشر النذير " . " السيرة النبوية "
( 1 / 199 ) .
3.
وقيل : في عاشر ربيع الأول .
قال ابن كثير – رحمه الله - : وقيل : لعشر خلون منه ، نقله ابن دحية في كتابه ، ورواه ابن عساكر عن أبي جعفر الباقر ، ورواه مجالد عن الشعبى . " السيرة النبوية " ( 1 / 199 ) .
4.
وقيل : في ثاني عشر ربيع الأول .
قال ابن كثير – رحمه الله - : وقيل : لثنتى عشرة خلت منه ، نصَّ عليه ابن إسحاق ، ورواه ابن أبى شيبة في " مصنفه " عن عفان عن سعيد بن ميناء عن جابر وابن عباس أنهما قالا : ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل يوم الاثنين الثاني عشر من شهر ربيع الأول ، وفيه بعث ، وفيه عرج به إلى السماء ، وفيه هاجر ، وفيه مات . وهذا هو المشهور عند الجمهور ، والله أعلم . " السيرة النبوية " ( 1 / 199 ) .
وقيل : ولد في رمضان ، وقيل في صفر ، وقيل غير ذلك .
والذي يظهر لنا أن أقوى ما قيل في مولده صلى الله عليه وسلم يدور بين الثامن والثاني عشر من ربيع أول ، وقد حقق بعض العلماء المسلمين من أهل الحساب والفلك أن يوم الاثنين يوافق التاسع من ربيع الأول ! فيمكن أن يكون هذا قولاً آخر ، وفيه قوة ، وهو يعادل العشرين من نيسان لعام 571 م ، وهو ما رجحه بعض العلماء من كتَّاب السيرة المعاصرين ومنهم الأستاذ محمد الخضري ، وصفي الرحمن المباركفوري .
قال أبو القاسم السهيلي – رحمه الله - :
وأهل الحساب يقولون : وافق مولده من الشهور الشمسية " نيسان " ، فكانت لعشرين مضت منه ." الروض الأُنُف " ( 1 / 282 ) .
وقال الأستاذ محمد الخضري – رحمه الله - :
وقد حقق المرحوم محمود باشا الفلكي - عالم فلكي مصري ، له باع في الفلك والجغرافيا والرياضيات وكتب وأبحاث ، توفي عام 1885م - : أن ذلك كان صبيحة يوم الاثنين تاسع ربيع الأول الموافق لليوم العشرين من أبريل / نيسان ، سنة 571 من الميلاد ، وهو يوافق السنة الأولى من حادثة الفيل ، وكانت ولادته في دار أبي طالب بشعب بني هاشم . " نور اليقين في سيرة سيد المرسلين " ( ص 9 )، وينظر: " الرحيق المختوم " ( ص 41 ) .
رابعاً:
أما يوم وفاة نبينا محمد صلى الله عليه وسلم : فلا خلاف في أنها كانت يوم الاثنين ، وما نقل عن ابن قتيبة أنه يوم الأربعاء : فليس بصواب ، ولعل مراده أنه صلى الله عليه وسلم دفن يوم الأربعاء ، فهذا صحيح .
وأما سنة الوفاة : فلا خلاف في أنها كانت في العام الحادي عشر من الهجرة .
وأما شهر الوفاة : فليس ثمة خلاف أنها كانت في شهر ربيع أول .
وأما تحديد يوم الوفاة من ذلك الشهر : ففيه خلاف بين العلماء :
1. فالجمهور على أنها كانت في الثاني عشر من شهر ربيع أول .
2. وذهب الخوازمي إلى أنها كانت في الأول من ربيع أول .
3. وقال ابن الكلبي وأبو مخنف إنها كانت في الثاني من ربيع أول ، ومال إليه السهيلي ، ورجحه الحافظ ابن حجر رحمه الله .
والمشهور هو ما ذهب إليه الجمهور من أن وفاة النبي صلى الله عليه وسلم كانت في الثاني عشر من ربيع أول في العام الحادي عشر للهجرة .وينظر : " الروض الأنف " ، للسهيلي ( 4 / 439 ، 440 ) ، " السيرة النبوية " لابن كثير( 4 / 509 ) ، " فتح الباري " لابن حجر ( 8 / 130 ) .
والله أعلم
الاسلام والجواب
 

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
fast_iamil
قطع نظر اس اختلاف کے آپ ﷺ کی پیدائش یا وفات فلاں فلاں ڈیٹ کو ہوئی۔ایک منٹ کےلیے مان لیا جائے ان لوگوں کی بات کو جو 9 ربیع الاول پیدائش کا دن بتلاتے ہیں یا ایک منٹ کےلیے ان لوگوں کی بات کومان لیا جائے جو 12 ربیع الاول آپﷺ کی پیدائش کا دن بتلاتے ہیں۔
دونوں باتیں اپنی جگہ پہ تسلیم کرتے ہوئے سوچا تو اس بات پر جائے کہ آیا پیدائش پر مروجہ عید کی طرح عید منائی جاسکتی ہے یانہیں۔؟ اور شریعت میں اس عید کی کیاحیثیت ہے۔؟ یہ ہے اصل بات اور بحث ومباحثہ والا موضوع۔
باقی اس اختلاف میں پڑ جانا کہ پیدائش 9 کو ہے 12 کونہیں یا 12 کوہے 9 کو نہیں۔دونوں فریقین کی بات کو مان لو یا ایک کی مان لو۔یہ بات کوئی قابل گرفت نہیں۔قابل گرفت راستہ تو یہ ہے جس پر بریلوی حضرات چل رہےہیں۔
 

ردباطل

مبتدی
شمولیت
فروری 06، 2012
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
0
رسول اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت بارہ ۱۲ ربیع الاوّل شریف کو ہوئی ۔ اس کے ثبوت ہم با سند صحیح روایت سے کرتے ہیں۔

امام ابوبکر بن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں کہ
عن عقان عن سعید بن مینار عن جابر و ابن عباس انھما قال ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یوم الاثنین الثانی عشر من شھر ربیع الاول
ترجمہ :عقان سے روایت ہے وہ سعید بن مینا سے روایت فرماتے ہیں اور وہ حضرت جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنھم سے راوی کہ یہ دونوں (حضرت جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنھم) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت عام الفیل میں پیر کے روز بارہ کے روز بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔
(سیرۃ انبویہ لابن کثیر جلد ا صفحہ ۱۹۹، البدایہ والنھایہ جلد ۲، صفحہ ۲۶۰)

اس روایت کی سند بھی صحیح ہے تو ثابت ہوا کہ جلیل القدر دو صحابہ کرام سے باسند صحیح یہ ثابت ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی ولادت باسعادت بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ ۹ بیع الاول کے تاریخ ہونے کی رٹ لگانا باطل و مردود ہے۔تمام عالم میں ولادت کی تاریخ ۱۲ ہی ہے جس کا انکار کرنا ناممکن ہے
جس حدیث کومیں نے پیش کیا جو تمام مسلمانوں کے نزدیک معتبر ہے ۔ اس حدیث کے راویوں کی توثیق جلیل القدر آئمہ محدیثین کرام سے آپ ملاحظہ کریں۔

(۱) اس کے پہلے راوی خود امام ابوبکر بن شیبہ ہیں جو امام بخاری و امام مسلم کے استاد ہیں ۔ جو جلیل القدر آئمہ محدیثین کی تصریحات کی رو سے ثقہ حافظ ہیں۔ (تہذیب التہذیب جلد ۶، صفحہ ۳۔۴،) متصل سند کے ساتھ امام بخاری نے ان سے ۲۲روایات صحیح بخاری میں ۔امام مسلم نے ۱۵۲۸ روایات صحیح مسلم میں امام نسائی نے ۶ روایات سنن نسائی میں امام ابوداؤد نے ۶۰ روایات سنن ابوداؤدمیں امام ابن ماجہ نے ۱۱۵۱ روایات سنن ابن ماجہ میں نقل کی ہیں۔

(۲) اس روایت کے دوسرے راوی عقان ہیں جو کہ بلند پایہ امام ثقہ صاحب ضبط اور اتقان تھے۔ خلاصۃ التہذیب صفحہ ۲۶۸، امام عجلی نے کہا کہ وہ ثقہ اور صاحب سنت تھے (تہذیب التہذیب جلد ۷، صفحہ ۲۳۱، )امام ابن معین نے ان کو اصحاب الحدیث بلند پایہ میں شمار کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب جلد ۷، صفحہ ۲۳۳، )امام ابن سعد نے کہا کہ وہ ثقہ ثبت حجت اور کثیر الحدیث تھے۔ امام ابن خراش نے کہاکہ وہ ثقۃ من خیار المسلمین تھے۔ ابن قانع نے کہا کہ وہ ثقہ اور مامون تھے۔ابن حبان نے ان کوثقات میں شمار کیا ہے ۔(تہذیب التہذیب جلد ۷، صفحہ ۲۳۴، )امام ذہبی نے کہا کہ وہ مشائخ الاسلامیں سے تھے ۔ آئمۃ العلام میں سے تھے۔ امام عجلی نے ثبت اور صاحب سنت کہا (میزان الاعتدال ،جلد ۳ ، صفحہ ۸۱) امام ابن معین نے ان کو پانچ بلند اصحاب الحدیث میں شمار کیا۔ امام ابو حاتم نے ثقہ متقن متین کہا (میزان الاعتدال ،جلد ۳ ، صفحہ ۸۲)

(۳) تیسرے راوی سعید بن مینار ہیں۔ امام ابن معین اور امام ابو حاتم نے ان کو ثقہ کہا۔ ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ۔ امام نسائی نے الجرح و التعدیل میں ثقہ کہا (تہذیب التہذیب جلد ۴، صفحہ ۹۱)
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
وھذا ھو المشھور عند الخمھور ۔ جمہور علماء کے نزدیک یہی مشہور ہے (سیرۃ النبویہ جلد ۱، صفحہ ۱۹۹)
روایت دوسری (۲)

عن سعید بن جبیر عن ابن عباس ولد انبی صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من ربیع الاوّل
حضرت سعید بن جبیر نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ بنی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت عام الفیل میں۔ پیر کے روز ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔(تلخیص المستدرک ،جلد ۲، صفحہ ۶۰۳)

امام ابن جریر طبری کا قول :
امام ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ : ولد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل۔ رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے روز ربیع الاوّل کی بار ہویں تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔ (تاریخ طبری ، جلد ۲، صفحہ ۱۲۵)
السلام علیکم
بھائی صاحب میں آپکی ایک بات سے متفق ہوکہ یہ رٹ لگانا چھوڑ دینا چاہئے کہ ٩ اصل تاریخ ہے۔اور حوالہ کے طور پر زیادہ اعتماد پاشاہ فلکی کے اوپر۔
افروذ بھائی اور صدیق بھائی نے جوحوالے دیے۔وہ صحابہ کی روایت پیش کرے۔اور وہ بھی ایک اہلحدیث عالم کی کتاب کا۔
دوسری بات آپ صدیق بھائی کی پوسٹ کا بغور مطالعہ نہیں کرے۔اگر کرتے تو اسطرح کی پوسٹ نہیں کرتے۔
امام ابن کثیر نے جوحوالہ دیا مصنف ابن شیبہ کا اورصدیق بھائی اور افروز بھائی کا کہنا ہے کہ مصنف میں یہ روایت نہیں ہے
آپ کوکرنا یہ چاہیے تھا کہ آپ مصنف ابن ابی شیبہ سے حوالہ پیش کرتے،اگرمصنف میں حوالہ نہیں ہے تو آپکو امام ابن کثیر سے امام ابن شیبہ تک سند پیش کرتے پھر راویوں پر کلام کرتے،کیوں کہ ’’اسناد دین میں سے ہے‘‘ راویوں پر کلام کوئی بھی کرسکتا ہے کیونکہ آج بہت سے اسلامی سافٹ ویر موجود ہے،مسلئہ یہ ہے کہ ابن کثیر نے جو حوالہ دیا کیا وہ مصنف میں ہے؟اگر نہیں ہے تو کہاں ہے؟اسکاجواب صدیق بھائی نے دیا کہ یہ سندالاباطیل و المناکیر والمشاھیر للجورقاتی میں ہے،اور آپکی طرح صدیق بھائی نے اس پر حکم نہیں لگایا اور اس سند کا فیصلہ علماء پر چھوڑ دیا،اور یہ بھی کہا کہ ابن کثیر نے جو حوالہ دیا اسکی سند میں انفطاع ہے۔آپ حکم لگانے سے پہلے سند کو متصل ثابت کرے کہ عَفَّانُ کا سماع سعید بن مینا سے ہے یانہیں؟ اسکے بعدصدیق بھائی نے جو کتاب کا حوالہ دیا ہے۔اس کی سند پر بحث کرے پھردعوہ کرے کہ یہ سند صحیح ہے۔ہمارا مطالبہ آپ سے یہ ہے کہ ابن کثیر کی سند مصنف میں بتائے یا پھر امام ابن کثیر سے امام ابن شیبہ تک سند بتائے جسطرح الاباطیل و المناکیر والمشاھیر للجورقاتی کے مصنف اپنی سند کو ابن شیبہ تک لیکر گئے۔
 
Top