• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید الفطر کی تکبیریں

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں جہاں رمضان کے روزوں کی فرضیت اور حکمت بتائی ہے
وہاں ساتھ ہی اپنی کبریائی کا اظہار کرنے کی تلقین بھی فرمائی ہے ، بلکہ رمضان میں روزوں میں دی گئی آسانیوں اور رختصوں کے ساتھ تکمیل رمضان پر اس کا تقاضا تکبیر اور ادائے شکر بتایا گیا ہے ،

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (185)
"تكبروا الله" أي : تعظموه بقلوبكم وألسنتكم ، ويكون ذلك بلفظ التكبير .
ترجمہ :
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل موجود ہیں۔ لہذا تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پالے اس پر لازم ہے کہ پورا مہینہ روزے رکھے۔ ہاں اگر کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرسکتا ہے (کیونکہ) اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا برتاؤ چاہتا ہے سختی کا نہیں چاہتا۔ (بعد میں روزہ رکھ لینے کی رخصت اس لیے ہے) کہ تم مہینہ بھر کے دنوں کی گنتی پوری کرلو۔ اور جو اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو۔ اور اس لیے بھی کہ تم اس کا شکر ادا کرو ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی :: ان رخصتوں اور اللہ کی مہربانیوں کی وجہ سے تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ جس نے ہر قسم کے لوگوں کا لحاظ رکھ کر ایسے احکام فرمائے ہیں۔
اور اس کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرنا چاہیئے ،جس کا آسان تر طریقہ تکبیر پڑھنا ہے
اس لئے عید کے دن بڑے خشوع اور جذبہ تشکر کے ساتھ تکبیرات پڑھنا چاہیئے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام شافعیؒ ( محمد بن ادریس ) (المتوفى: 204هـ)
فرماتے ہیں :
(قَالَ الشَّافِعِيُّ) - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: فِي شَهْرِ رَمَضَانَ {وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ} [البقرة: 185] قَالَ فَسَمِعْت مَنْ أَرْضَى مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْقُرْآنِ أَنْ يَقُولَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ عِدَّةَ صَوْمِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَتُكَبِّرُوا اللَّهُ عِنْدَ إكْمَالِهِ عَلَى مَا هَدَاكُمْ، وَإِكْمَالُهُ مَغِيبُ الشَّمْسِ مِنْ آخِرِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ شَهْرِ رَمَضَانَ (قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَمَا أَشْبَهَ مَا قَالَ بِمَا قَالَ، وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ ‘‘ (الاْم ، صلاۃ العیدین )
ترجمہ :۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ : اللہ کریم کا احکام رمضان کے ضمن میں یہ فرمان کہ :
’’ تاکہ تم مہینہ بھر کے دنوں کی گنتی پوری کرلو۔ اور جو اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو۔ اور اس لیے بھی کہ تم اس کا شکر ادا کرو ‘‘
اس کی تفسیر و معنی کے متعلق میں نے اپنے دور کے اہل علم حضرات سے یہ سنا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ : تکمیل ماہ صیام ، اور اس کے روزوں کی ھدایت دینے پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے ، اور تکبیرات پڑھی جائیں ، اور ماہ رمضان کی تکمیل چونکہ اس کے آخری دن کا سورج غروب ہونے پر ہوتی ہے ‘‘
(اس لئے تکبیر بھی آخری دن کے اس غروب آفتاب کے بعد سے شروع ہوگی )
امام شافعی مزید فرماتے ہیں :
(قال الشافعي) : فإذا رأوا هلال شوال أحببت أن يكبر الناس جماعة، وفرادى في المسجد والأسواق، والطرق، والمنازل، ومسافرين، ومقيمين في كل حال، وأين كانوا، وأن يظهروا التكبير، ولا يزالون يكبرون حتى يغدوا إلى المصلى، وبعد الغدو حتى يخرج الإمام للصلاة ثم يدعوا التكبير‘‘
ترجمہ : جب اہل ایمان ھلال شوال دیکھیں تو مجھے تو یہ پسند ہے کہ وہ سب تکبیرات پڑھیں ، مساجد میں بھی اور گھروں بازاروں میں بھی ، سفر وحضر ہر حال میں یہ تکبیریں پڑھی جائیں ، اور بآواز بلند پڑھیں ،
اور تکبیریں نماز عید کیلئے نکلتے وقت تک اور اس کے بعد بھی جاری رکھیں ،حتی کہ امام نماز پڑھانے کیلئے آجائے اس وقت موقوف کردیں ‘‘
اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ تعالی نے ان عید الفطر کی ان تکبیروں پر جلیل القدر سلف صالحین کے اقوال اور عمل ثبوت کے طور پر نقل کیا ہے ، لکھتے ہیں :
قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني صالح بن محمد بن زائدة أنه سمع ابن المسيب وعروة بن الزبير وأبا سلمة وأبا بكر بن عبد الرحمن يكبرون ليلة الفطر في المسجد يجهرون بالتكبير ‘‘
’’سید التابعین سعيد بن مسيب اورجناب عروہ بن زبير اور سیدناابو سلمہ اور ابو بكر بن عبد الرحمن وغيرہ سے روايت كيا ہے: وہ مسجد ميں عيد الفطر كى رات اونچى آواز سے تكبيريں كہا كرتے تھے.الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني صالح بن محمد بن زائدة عن عروة بن الزبير وأبي سلمة بن عبد الرحمن أنهما كانا يجهران بالتكبير حين يغدوان إلى المصلى
جناب عروہ بن زبير اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروى ہے كہ وہ دونوں عيدگاہ جانے تك اونچى آواز سے تكبيريں كہا كرتے تھے.
أخبرنا الربيع قال أخبرنا الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني يزيد بن الهاد أنه سمع نافع بن جبير يجهر بالتكبير حين يغدو إلى المصلى يوم العيد
نافع بن جبير سے روايت ہے كہ وہ جب عيد كے روز عيدگاہ جاتے تو بلند آواز سے تكبيريں كہتے.
(( أخبرنا الربيع قال أخبرنا الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني عبيد الله عن نافع عن ابن عمر أنه كان يغدو إلى المصلى يوم الفطر إذا طلعت الشمس فيكبر حتى يأتي المصلى يوم العيد ثم يكبر بالمصلى حتى إذا جلس الإمام ترك التكبير ))
سیدنا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ: عيد الفطر كے دن وہ سورج طلوع ہونے پر عيدگاہ جاتے اور عيدگاہ پہنچنے تك تكبيريں كہتے اور عيدگاہ ميں بھى امام كے بيٹھنے تك تكبيريں كہتے رہتے تھے، جب امام بيٹھ جاتا تو تكبيريں ترك كر ديتے. اھ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
مفسر قرآن جناب محمد لقمان سلفی تفسیر’’ تیسیر الرحمن ‘‘ میں لکھتے ہیں :۔
’’ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت اللہ تعالیٰ کا بندوں پر انعام ہے، اور جب اللہ کی توفیق سے انہوں نے روزے بحسن و خوبی پورے کرلئے تو انہیں اب حکم دیا گیا کہ بطور شکر اللہ کو یاد کریں اور تکبیر کہیں اسی آیت کے پیش نظر بہت سے علماء نے عید الفطر میں تکبیر کہنے کو مشروع قرار دیا ہے۔ امام داود ظاہری (رحمہ اللہ) نے اسے واجب کہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) عید الفطر اور عید الاضحی میں بآواز بلند تکبیر کہتے ہوئے عید گاہ جاتے تھے اور امام کے آنے تک کہتے رہتے تھے‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور حافظ عبد السلام بھٹوی لکھتے ہیں :
’’ (وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ) اس آیت سے علمائے کرام نے روزوں کی تکمیل پر اس کا شکر ادا کرنے کے لیے عید الفطر کا اہتمام اور اس کے لیے جاتے اور واپس آتے ہوئے تکبیرات کا اہتمام اخذ کیا ہے۔ جس کی عملی تفسیر احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملتی ہے۔
 
Last edited:

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں جہاں رمضان کے روزوں کی فرضیت اور حکمت بتائی ہے
وہاں ساتھ ہی اپنی کبریائی کا اظہار کرنے کی تلقین بھی فرمائی ہے ، بلکہ رمضان میں روزوں میں دی گئی آسانیوں اور رختصوں کے ساتھ تکمیل رمضان پر اس کا تقاضا تکبیر اور ادائے شکر بتایا گیا ہے ،

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (185)
"تكبروا الله" أي : تعظموه بقلوبكم وألسنتكم ، ويكون ذلك بلفظ التكبير .
ترجمہ :
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل موجود ہیں۔ لہذا تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پالے اس پر لازم ہے کہ پورا مہینہ روزے رکھے۔ ہاں اگر کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرسکتا ہے (کیونکہ) اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا برتاؤ چاہتا ہے سختی کا نہیں چاہتا۔ (بعد میں روزہ رکھ لینے کی رخصت اس لیے ہے) کہ تم مہینہ بھر کے دنوں کی گنتی پوری کرلو۔ اور جو اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو۔ اور اس لیے بھی کہ تم اس کا شکر ادا کرو ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی :: ان رخصتوں اور اللہ کی مہربانیوں کی وجہ سے تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ جس نے ہر قسم کے لوگوں کا لحاظ رکھ کر ایسے احکام فرمائے ہیں۔
اور اس کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرنا چاہیئے ،جس کا آسان تر طریقہ تکبیر پڑھنا ہے
اس لئے عید کے دن بڑے خشوع اور جذبہ تشکر کے ساتھ تکبیرات پڑھنا چاہیئے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام شافعیؒ ( محمد بن ادریس ) (المتوفى: 204هـ)
فرماتے ہیں :
(قَالَ الشَّافِعِيُّ) - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: فِي شَهْرِ رَمَضَانَ {وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ} [البقرة: 185] قَالَ فَسَمِعْت مَنْ أَرْضَى مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْقُرْآنِ أَنْ يَقُولَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ عِدَّةَ صَوْمِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَتُكَبِّرُوا اللَّهُ عِنْدَ إكْمَالِهِ عَلَى مَا هَدَاكُمْ، وَإِكْمَالُهُ مَغِيبُ الشَّمْسِ مِنْ آخِرِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ شَهْرِ رَمَضَانَ (قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَمَا أَشْبَهَ مَا قَالَ بِمَا قَالَ، وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ ‘‘ (الاْم ، صلاۃ العیدین )
ترجمہ :۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ : اللہ کریم کا احکام رمضان کے ضمن میں یہ فرمان کہ :
’’ تاکہ تم مہینہ بھر کے دنوں کی گنتی پوری کرلو۔ اور جو اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو۔ اور اس لیے بھی کہ تم اس کا شکر ادا کرو ‘‘
اس کی تفسیر و معنی کے متعلق میں نے اپنے دور کے اہل علم حضرات سے یہ سنا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ : تکمیل ماہ صیام ، اور اس کے روزوں کی ھدایت دینے پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے ، اور تکبیرات پڑھی جائیں ، اور ماہ رمضان کی تکمیل چونکہ اس کے آخری دن کا سورج غروب ہونے پر ہوتی ہے ‘‘
(اس لئے تکبیر بھی آخری دن کے اس غروب آفتاب کے بعد سے شروع ہوگی )
امام شافعی مزید فرماتے ہیں :
(قال الشافعي) : فإذا رأوا هلال شوال أحببت أن يكبر الناس جماعة، وفرادى في المسجد والأسواق، والطرق، والمنازل، ومسافرين، ومقيمين في كل حال، وأين كانوا، وأن يظهروا التكبير، ولا يزالون يكبرون حتى يغدوا إلى المصلى، وبعد الغدو حتى يخرج الإمام للصلاة ثم يدعوا التكبير‘‘
ترجمہ : جب اہل ایمان ھلال شوال دیکھیں تو مجھے تو یہ پسند ہے کہ وہ سب تکبیرات پڑھیں ، مساجد میں بھی اور گھروں بازاروں میں بھی ، سفر وحضر ہر حال میں یہ تکبیریں پڑھی جائیں ، اور بآواز بلند پڑھیں ،
اور تکبیریں نماز عید کیلئے نکلتے وقت تک اور اس کے بعد بھی جاری رکھیں ،حتی کہ امام نماز پڑھانے کیلئے آجائے اس وقت موقوف کردیں ‘‘
اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ تعالی نے ان عید الفطر کی ان تکبیروں پر جلیل القدر سلف صالحین کے اقوال اور عمل ثبوت کے طور پر نقل کیا ہے ، لکھتے ہیں :
قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني صالح بن محمد بن زائدة أنه سمع ابن المسيب وعروة بن الزبير وأبا سلمة وأبا بكر بن عبد الرحمن يكبرون ليلة الفطر في المسجد يجهرون بالتكبير ‘‘
’’سید التابعین سعيد بن مسيب اورجناب عروہ بن زبير اور سیدناابو سلمہ اور ابو بكر بن عبد الرحمن وغيرہ سے روايت كيا ہے: وہ مسجد ميں عيد الفطر كى رات اونچى آواز سے تكبيريں كہا كرتے تھے.الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني صالح بن محمد بن زائدة عن عروة بن الزبير وأبي سلمة بن عبد الرحمن أنهما كانا يجهران بالتكبير حين يغدوان إلى المصلى
جناب عروہ بن زبير اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروى ہے كہ وہ دونوں عيدگاہ جانے تك اونچى آواز سے تكبيريں كہا كرتے تھے.
أخبرنا الربيع قال أخبرنا الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني يزيد بن الهاد أنه سمع نافع بن جبير يجهر بالتكبير حين يغدو إلى المصلى يوم العيد
نافع بن جبير سے روايت ہے كہ وہ جب عيد كے روز عيدگاہ جاتے تو بلند آواز سے تكبيريں كہتے.
(( أخبرنا الربيع قال أخبرنا الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني عبيد الله عن نافع عن ابن عمر أنه كان يغدو إلى المصلى يوم الفطر إذا طلعت الشمس فيكبر حتى يأتي المصلى يوم العيد ثم يكبر بالمصلى حتى إذا جلس الإمام ترك التكبير ))
سیدنا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ: عيد الفطر كے دن وہ سورج طلوع ہونے پر عيدگاہ جاتے اور عيدگاہ پہنچنے تك تكبيريں كہتے اور عيدگاہ ميں بھى امام كے بيٹھنے تك تكبيريں كہتے رہتے تھے، جب امام بيٹھ جاتا تو تكبيريں ترك كر ديتے. اھ

ان تمام روایات کی سند میں ابراہیم بن محمد ہے جو کہ ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی ہے متروک کذاب ہے۔۔۔
براہ مہربانی روایات کا حوالہ اور ان کی صحت بھی ذکر کر دیا کریں۔۔۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
نیز قرآن مجید کی آیت کے تحت تکبیرات کا ذکر پورے رمضان کے لئے آتا ہے نہ کہ صرف عید الفطر کے لئے۔۔۔
براہ مہربانی نبی ﷺ کی سنت سے کوئی دلیل دی جائے یا صحیح سند سے صحابہ سے دلیل دی جائے۔
جو عمل۔ نبی ﷺ و خلفائے راشدین و دوسرے صحابہ سے ہی ثابت نہیں۔۔ وہ سنت کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
جہاں تک حضرت عبداللہ بن عمر کے عمل کا تعلق ہے تو اس کی کوئی سند پیش نہیں کی گئی۔
بلا شبہ امام داود بن ظاہری اپنے دور کے فقیہ اعظم اور اصحاب الحدیث کے اصل امام ہیں مگر جب تک نبی ﷺ خلفائے راشدین اور صحابہ سے دلیل نہ دی جائے ان کا واجب قرار دینا حجت نہ ہو گا۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
قرآن مجید کی آیت کے تحت تکبیرات کا ذکر پورے رمضان کے لئے آتا ہے نہ کہ صرف عید الفطر کے لئے
امام ابو بكر البيهقي رحمہ اللہ نے السنن الكبرى میں باب قائم کیا ہے : بَابُ التَّكْبِيرِ لَيْلَةَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْفِطْرِ وَإِذَا غَدَا إِلَى صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نقل کیا ہے :

قَالَ اللهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ {وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ} [البقرة: ١٨٥]
اس کے بعد امام الشافعی رحمہ اللہ کے حوالے سے أهل العلم بالقرآن کا استدلال نقل کیا ہے : قَالَ الشَّافِعِيُّ: سَمِعْتُ مَنْ أَرْضَى مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْقُرْآنِ يَقُولُ: " فَتُكْمِلُوا عِدَّةَ صَوْمِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَتُكَبِّرُوا اللهَ عِنْدَ إِكْمَالِهِ عَلَى مَا هَدَاكُمْ، وَإِكْمَالُهُ مَغِيبُ الشَّمْسِ مِنْ آخِرِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ شَهْرِ رَمَضَانَ ". [السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية، ج ٣ ، ص: ٣٩٤]


خلفائے راشدین و دوسرے صحابہ سے ہی ثابت نہیں
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ , نا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ , ثنا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ , ثنا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ , عَنِ الْحَجَّاجِ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَشْوَعَ , عَنْ حَنَشِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يَوْمَ أَضْحًى «لَمْ يَزَلْ يُكَبِّرُ حَتَّى أَتَى الْجَبَّانَةَ» [سنن الدارقطني، رقم الحديث: ١٧١١]

جہاں تک حضرت عبداللہ بن عمر کے عمل کا تعلق ہے تو اس کی کوئی سند پیش نہیں کی گئی۔
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ , حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , وَحَفْصُ بْنُ عَمْرٍو , قَالَا: نا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ «أَنَّهُ كَانَ يَخْرُجُ لِلْعِيدَيْنِ مِنَ الْمَسْجِدِ فَيُكَبِّرُ حَتَّى يَأْتِيَ الْمُصَلَّى وَيُكَبِّرُ حَتَّى يَأْتِيَ الْإِمَامَ» [سنن الدارقطني، رقم الحديث: ١٧١٢]
 
Last edited:

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
امام ابو بكر البيهقي رحمہ اللہ نے السنن الكبرى میں باب قائم کیا ہے : بَابُ التَّكْبِيرِ لَيْلَةَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْفِطْرِ وَإِذَا غَدَا إِلَى صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نقل کیا ہے :

قَالَ اللهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ {وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ} [البقرة: ١٨٥]
اس کے بعد امام الشافعی رحمہ اللہ کے حوالے سے أهل العلم بالقرآن کا استدلال نقل کیا ہے : قَالَ الشَّافِعِيُّ: سَمِعْتُ مَنْ أَرْضَى مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْقُرْآنِ يَقُولُ: " فَتُكْمِلُوا عِدَّةَ صَوْمِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَتُكَبِّرُوا اللهَ عِنْدَ إِكْمَالِهِ عَلَى مَا هَدَاكُمْ، وَإِكْمَالُهُ مَغِيبُ الشَّمْسِ مِنْ آخِرِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ شَهْرِ رَمَضَانَ ". [السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية، ج ٣ ، ص: ٣٩٤]



حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ , نا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ , ثنا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ , ثنا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ , عَنِ الْحَجَّاجِ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَشْوَعَ , عَنْ حَنَشِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يَوْمَ أَضْحًى «لَمْ يَزَلْ يُكَبِّرُ حَتَّى أَتَى الْجَبَّانَةَ» [سنن الدارقطني، رقم الحديث: ١٧١١]


حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ , حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , وَحَفْصُ بْنُ عَمْرٍو , قَالَا: نا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ «أَنَّهُ كَانَ يَخْرُجُ لِلْعِيدَيْنِ مِنَ الْمَسْجِدِ فَيُكَبِّرُ حَتَّى يَأْتِيَ الْمُصَلَّى وَيُكَبِّرُ حَتَّى يَأْتِيَ الْإِمَامَ» [سنن الدارقطني، رقم الحديث: ١٧١٢]

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جہاں تک امام بیہقی کے باب قائم کرنے کا تعلق ہے تو امام بیہقی کے کسی باب کے قائم کرنے سے اس بات کا سنت ثابت ہونا بنتا نہیں ہے، اور جہاں تک امام شافعی والی روایت ہے کہ میں نے "قرآن کا علم رکھنے والے سے سنا" تو ، پہلی بات تو یہ ہے کہ امام شافعی تابعی نہیں ہیں کہ وہ کسی صحابی سے یہ "تفسیر " سن رہے ہیں بلکہ وہ اپنے دور کے کسی شخص کی بات کررے ہیں تو یہ اس کا اپنا مؤقف بھی ہو سکتا ہے ، جو کہ کسی طرح حجت نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس عالم قرآن نے یہ روایت اپنے سے پہلے زمانے والے سے لی ہے تو وہ عالم قرآن ہے ہی مجہول، امام شافعی نے اس کا نام ہی نہیں لیا ، اور امام شافعی تو ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ جیسے کذاب و متروک راوی کو ثقہ کہتے ہیں جو کہ "مردود" مؤقف ہے اور اسناد دین کا حصہ ہیں جب سند میں ایک شخص کی شخصیت ہی معلوم نہیں مجہول ہے تو وہ روایت کیونکر مانی جا سکتی ہے ، اس لئے یہ بالکل بھی حجت نہیں۔
جہاں تک سنن دارقطنی والی روایت کا تعلق ہے تو اس میں حنش بن المعتمر الکنانی صدوق اوہام والا راوی ہے، بلکہ اس میں تو حجاج بن ارطاۃضعیف اور مدلس راوی ہے یہ روایت کیسے قابل حجت ہو سکتی ہے، نیز امام دارقطنی نے سنن دارقطنی اس لئے تالیف کی تھی کہ اس میں روایات کی علتیں بیان کر سکیں اور اس کتاب کو وہ مکمل نہ کر سکے، اس لئے سنن دارقطنی میں آجانے سے کوئی روایت حجت نہیں ہو جاتی خاص طور پر کہ جب اس کی سند ضعیف ہو ۔
تیسری روایت میں محمد بن عجلان ہیں جو کہ نافع سے روایت کررے ہیں جبکہ محمد بن عجلان تو تیسرے طبقہ کے مدلس ہیں اور ان کی اس روایت میں سماع کی تصریح نہیں ہے، جبکہ تیسرے طبقہ کے مدلس کے لئے سماع کی تصریح کا ہونا لاز مہے۔۔
تو خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام روایات کی اسناد ہی ضعیف و منقطع ہیں تو یہ روایات حجت کیسے ہو سکتی ہیں ، افسوس ہے کہ "محدث" کے نام سے اس فورم میں محدث والا کام تو کیا نہیں جاتا ، فضائل اعمال کی طرح اٹھا کر روایات کو پیش کر دیا جاتا ہے، نہ چھان پھٹک کی جاتی ہے اور نہ ہی محدثین کو دیکھا جاتا ہے۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جہاں تک امام بیہقی کے باب قائم کرنے کا تعلق ہے تو امام بیہقی کے کسی باب کے قائم کرنے سے اس بات کا سنت ثابت ہونا بنتا نہیں ہے،
یہ بات کس نے کہی کہ امام بیہقی یا کوئی محدث اپنی کتاب میں کوئی باب قائم کرے تو وہ چیز سنت بن جاتی ہے؟ شاید آپ نے وہ اقتباس نہیں دیکھا جسے میں نے آپ کے میسج سے لیا تھا جس میں آپ قرآنی آیات پر اپنی رائے بتاتے ہوئے کہہ رہے تھے :
قرآن مجید کی آیت کے تحت تکبیرات کا ذکر پورے رمضان کے لئے آتا ہے نہ کہ صرف عید الفطر کے لئے
تو بھائی قرآن کی آیت سے ہمارے علماء سلف نے جو سمجھا وہ فہم ہم لیں گے یا آپ نے جو سمجھا آپ کی جو رائے ہے اسے قبول کریں اور اسے حجت سمجھے؟؟؟
امام البیہقی جیسے محدث نے اپنی حدیث کی کتاب میں باب باندھ کر یہ آیت نقل کی اس سے دلیل پکڑی اور پھر امام اہل السنۃ امام الشافعی رحمہ اللہ جیسے فقیہ، محدث اور مجتہد مطلق کی لکھی بات جو کہ خود ایک دلیل ہوتی ہے انہوں نے آیت سے قرآن کا علم رکھنے والوں کا جو استدلال نقل کیا وہ مانا جائے گا یا آپ کی رائے؟ آپ ہو کون؟ آپ نے جو کہا ہے کہ قرآن مجید کی آیت کے تحت تکبیرات کا ذکر پورے رمضان کے لئے آتا ہے نہ کہ صرف عید الفطر کے لئے! اس کی دلیل کیا ہے؟ یہ کس کی رائے ہے؟ یہ کس کا فہم ہے؟ اور کس نے علماء اہل السنۃ کے فہم کو رد کر یہ والی بات لکھی جو آپ بیان کر رہے ہو؟

خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام روایات کی اسناد ہی ضعیف و منقطع ہیں تو یہ روایات حجت کیسے ہو سکتی ہیں ، افسوس ہے کہ "محدث" کے نام سے اس فورم میں محدث والا کام تو کیا نہیں جاتا ، فضائل اعمال کی طرح اٹھا کر روایات کو پیش کر دیا جاتا ہے، نہ چھان پھٹک کی جاتی ہے اور نہ ہی محدثین کو دیکھا جاتا ہے۔
کیا یہ درست طریقہ ہے کہ ایک سند میں کچھ ضعف ہو تو بغیر تحقیق روایت کا رد کر دیا جائے؟ اور یہ کس نے لازم کیا کہ محدث فورم پر تمام لوگ محدثین والا کام انجام دیں؟ احادیث پر حکم لگانے کا کام علماء و شیوخ الحدیث کریں گے عوام یا طلباء نہیں۔ اور چھان پھٹک تو آپ نے بھی نہیں کی محدثین کو تو آپ نے بھی نہیں دیکھا ہے بس ایک سند میں نقص نکال کر روایت کا انکار کر دیا۔ مثلا

روایت میں محمد بن عجلان ہیں جو کہ نافع سے روایت کررے ہیں جبکہ محمد بن عجلان تو تیسرے طبقہ کے مدلس ہیں اور ان کی اس روایت میں سماع کی تصریح نہیں ہے، جبکہ تیسرے طبقہ کے مدلس کے لئے سماع کی تصریح کا ہونا لاز مہے۔۔
تو خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام روایات کی اسناد ہی ضعیف و منقطع ہیں تو یہ روایات حجت کیسے ہو سکتی ہیں
اب آپ کو یہاں دار قطنی والی سند میں ابن عجلان کا عنعنہ نظر آیا تو اسے دلیل بنا کر آپ نے روایت کو رد کر دیا جبکہ ابن حجر العسقلاني رحمہ اللہ کی المطالب العالية میں سماع کی تصریح موجود ہے:
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ الله عَنْهُمَا كَانَ يَغْدُو إِلَى الْعِيدِ مِنَ الْمَسْجِدِ يَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى يَأْتِيَ الْمُصَلَّى وَيُكَبِّرُ حَتَّى يَأْتِيَ الْإِمَامُ [المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية، رقم الحديث: ٧٨٢]

IMG_20230427_024225.jpg

IMG_20230427_024525_097.jpg


اور اس روایت کی دوسری بھی اسناد ہیں مثلا امام الطحاوی رحمہ اللہ مشکل الآثار میں نقل کرتے ہیں :

وَوَجَدْنَا يُوسُفَ بْنَ يَزِيدَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا الدَّرَاوَرْدِيُّ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَى الْعِيدِ كَبَّرَ حَتَّى يَأْتِيَ الْمُصَلَّى ، وَلَا يَخْرُجُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ [مُشكِل الآثار للطحاوي، رقم الحدیث: ۴۷۳۳]

اسی طرح علامہ ناصر الدين الألباني نے إرواء الغليل میں فرمایا ہے :

(وروى الدارقطنى: " أن ابن عمر كان إذا غدا يوم الفطر , ويوم الأضحى يجهر بالتكبير حتى يأتى المصلى , ثم يكبر حتى يأتى الإمام " (ص ١٥٣) .

صحيح.

أخرجه الدارقطنى (١٨٠) من طريق ابن عجلان عن نافع عنه. ومن هذا الوجه أخرجه ابن أبى شيبة (٢/١/١) والفريابى (١٢٨/٢) والبيهقى (٣/٢٧٩) .

وهذا إسناد جيد.

وتابعه عن نافع موسى بن عقبة , وعبيد الله بن عمر وأسامة معا , وزادا فى آخر الحديث: " فيكبر بتكبيره ".

أخرجه الفريابى (١٢٨/٢ و١٢٩/١) بسند صحيح.


[إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل، ج ٣، ص: ١٢٢]
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

یہ بات کس نے کہی کہ امام بیہقی یا کوئی محدث اپنی کتاب میں کوئی باب قائم کرے تو وہ چیز سنت بن جاتی ہے؟ شاید آپ نے وہ اقتباس نہیں دیکھا جسے میں نے آپ کے میسج سے لیا تھا جس میں آپ قرآنی آیات پر اپنی رائے بتاتے ہوئے کہہ رہے تھے :

تو بھائی قرآن کی آیت سے ہمارے علماء سلف نے جو سمجھا وہ فہم ہم لیں گے یا آپ نے جو سمجھا آپ کی جو رائے ہے اسے قبول کریں اور اسے حجت سمجھے؟؟؟
امام البیہقی جیسے محدث نے اپنی حدیث کی کتاب میں باب باندھ کر یہ آیت نقل کی اس سے دلیل پکڑی اور پھر امام اہل السنۃ امام الشافعی رحمہ اللہ جیسے فقیہ، محدث اور مجتہد مطلق کی لکھی بات جو کہ خود ایک دلیل ہوتی ہے انہوں نے آیت سے قرآن کا علم رکھنے والوں کا جو استدلال نقل کیا وہ مانا جائے گا یا آپ کی رائے؟ آپ ہو کون؟ آپ نے جو کہا ہے کہ قرآن مجید کی آیت کے تحت تکبیرات کا ذکر پورے رمضان کے لئے آتا ہے نہ کہ صرف عید الفطر کے لئے! اس کی دلیل کیا ہے؟ یہ کس کی رائے ہے؟ یہ کس کا فہم ہے؟ اور کس نے علماء اہل السنۃ کے فہم کو رد کر یہ والی بات لکھی جو آپ بیان کر رہے ہو؟



کیا یہ درست طریقہ ہے کہ ایک سند میں کچھ ضعف ہو تو بغیر تحقیق روایت کا رد کر دیا جائے؟ اور یہ کس نے لازم کیا کہ محدث فورم پر تمام لوگ محدثین والا کام انجام دیں؟ احادیث پر حکم لگانے کا کام علماء و شیوخ الحدیث کریں گے عوام یا طلباء نہیں۔ اور چھان پھٹک تو آپ نے بھی نہیں کی محدثین کو تو آپ نے بھی نہیں دیکھا ہے بس ایک سند میں نقص نکال کر روایت کا انکار کر دیا۔ مثلا


اب آپ کو یہاں دار قطنی والی سند میں ابن عجلان کا عنعنہ نظر آیا تو اسے دلیل بنا کر آپ نے روایت کو رد کر دیا جبکہ ابن حجر العسقلاني رحمہ اللہ کی المطالب العالية میں سماع کی تصریح موجود ہے:
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ الله عَنْهُمَا كَانَ يَغْدُو إِلَى الْعِيدِ مِنَ الْمَسْجِدِ يَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى يَأْتِيَ الْمُصَلَّى وَيُكَبِّرُ حَتَّى يَأْتِيَ الْإِمَامُ [المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية، رقم الحديث: ٧٨٢]

22962 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
22963 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

اور اس روایت کی دوسری بھی اسناد ہیں مثلا امام الطحاوی رحمہ اللہ مشکل الآثار میں نقل کرتے ہیں :

وَوَجَدْنَا يُوسُفَ بْنَ يَزِيدَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا الدَّرَاوَرْدِيُّ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَى الْعِيدِ كَبَّرَ حَتَّى يَأْتِيَ الْمُصَلَّى ، وَلَا يَخْرُجُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ [مُشكِل الآثار للطحاوي، رقم الحدیث: ۴۷۳۳]

اسی طرح علامہ ناصر الدين الألباني نے إرواء الغليل میں فرمایا ہے :

(وروى الدارقطنى: " أن ابن عمر كان إذا غدا يوم الفطر , ويوم الأضحى يجهر بالتكبير حتى يأتى المصلى , ثم يكبر حتى يأتى الإمام " (ص ١٥٣) .

صحيح.

أخرجه الدارقطنى (١٨٠) من طريق ابن عجلان عن نافع عنه. ومن هذا الوجه أخرجه ابن أبى شيبة (٢/١/١) والفريابى (١٢٨/٢) والبيهقى (٣/٢٧٩) .

وهذا إسناد جيد.

وتابعه عن نافع موسى بن عقبة , وعبيد الله بن عمر وأسامة معا , وزادا فى آخر الحديث: " فيكبر بتكبيره ".

أخرجه الفريابى (١٢٨/٢ و١٢٩/١) بسند صحيح.


[إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل، ج ٣، ص: ١٢٢]
السلام علیکم!!
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

یہ بات کس نے کہی کہ امام بیہقی یا کوئی محدث اپنی کتاب میں کوئی باب قائم کرے تو وہ چیز سنت بن جاتی ہے؟ شاید آپ نے وہ اقتباس نہیں دیکھا جسے میں نے آپ کے میسج سے لیا تھا جس میں آپ قرآنی آیات پر اپنی رائے بتاتے ہوئے کہہ رہے تھے :

تو بھائی قرآن کی آیت سے ہمارے علماء سلف نے جو سمجھا وہ فہم ہم لیں گے یا آپ نے جو سمجھا آپ کی جو رائے ہے اسے قبول کریں اور اسے حجت سمجھے؟؟؟
امام البیہقی جیسے محدث نے اپنی حدیث کی کتاب میں باب باندھ کر یہ آیت نقل کی اس سے دلیل پکڑی اور پھر امام اہل السنۃ امام الشافعی رحمہ اللہ جیسے فقیہ، محدث اور مجتہد مطلق کی لکھی بات جو کہ خود ایک دلیل ہوتی ہے انہوں نے آیت سے قرآن کا علم رکھنے والوں کا جو استدلال نقل کیا وہ مانا جائے گا یا آپ کی رائے؟ آپ ہو کون؟ آپ نے جو کہا ہے کہ قرآن مجید کی آیت کے تحت تکبیرات کا ذکر پورے رمضان کے لئے آتا ہے نہ کہ صرف عید الفطر کے لئے! اس کی دلیل کیا ہے؟ یہ کس کی رائے ہے؟ یہ کس کا فہم ہے؟ اور کس نے علماء اہل السنۃ کے فہم کو رد کر یہ والی بات لکھی جو آپ بیان کر رہے ہو؟



کیا یہ درست طریقہ ہے کہ ایک سند میں کچھ ضعف ہو تو بغیر تحقیق روایت کا رد کر دیا جائے؟ اور یہ کس نے لازم کیا کہ محدث فورم پر تمام لوگ محدثین والا کام انجام دیں؟ احادیث پر حکم لگانے کا کام علماء و شیوخ الحدیث کریں گے عوام یا طلباء نہیں۔ اور چھان پھٹک تو آپ نے بھی نہیں کی محدثین کو تو آپ نے بھی نہیں دیکھا ہے بس ایک سند میں نقص نکال کر روایت کا انکار کر دیا۔ مثلا


اب آپ کو یہاں دار قطنی والی سند میں ابن عجلان کا عنعنہ نظر آیا تو اسے دلیل بنا کر آپ نے روایت کو رد کر دیا جبکہ ابن حجر العسقلاني رحمہ اللہ کی المطالب العالية میں سماع کی تصریح موجود ہے:
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ الله عَنْهُمَا كَانَ يَغْدُو إِلَى الْعِيدِ مِنَ الْمَسْجِدِ يَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى يَأْتِيَ الْمُصَلَّى وَيُكَبِّرُ حَتَّى يَأْتِيَ الْإِمَامُ [المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية، رقم الحديث: ٧٨٢]

22962 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
22963 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

اور اس روایت کی دوسری بھی اسناد ہیں مثلا امام الطحاوی رحمہ اللہ مشکل الآثار میں نقل کرتے ہیں :

وَوَجَدْنَا يُوسُفَ بْنَ يَزِيدَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا الدَّرَاوَرْدِيُّ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَى الْعِيدِ كَبَّرَ حَتَّى يَأْتِيَ الْمُصَلَّى ، وَلَا يَخْرُجُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ [مُشكِل الآثار للطحاوي، رقم الحدیث: ۴۷۳۳]

اسی طرح علامہ ناصر الدين الألباني نے إرواء الغليل میں فرمایا ہے :

(وروى الدارقطنى: " أن ابن عمر كان إذا غدا يوم الفطر , ويوم الأضحى يجهر بالتكبير حتى يأتى المصلى , ثم يكبر حتى يأتى الإمام " (ص ١٥٣) .

صحيح.

أخرجه الدارقطنى (١٨٠) من طريق ابن عجلان عن نافع عنه. ومن هذا الوجه أخرجه ابن أبى شيبة (٢/١/١) والفريابى (١٢٨/٢) والبيهقى (٣/٢٧٩) .

وهذا إسناد جيد.

وتابعه عن نافع موسى بن عقبة , وعبيد الله بن عمر وأسامة معا , وزادا فى آخر الحديث: " فيكبر بتكبيره ".

أخرجه الفريابى (١٢٨/٢ و١٢٩/١) بسند صحيح.


[إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل، ج ٣، ص: ١٢٢]
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نقطہ نمبر 1:
یہ بات کس نے کہی کہ امام بیہقی یا کوئی محدث اپنی کتاب میں کوئی باب قائم کرے تو وہ چیز سنت بن جاتی ہے؟ شاید آپ نے وہ اقتباس نہیں دیکھا جسے میں نے آپ کے میسج سے لیا تھا جس میں آپ قرآنی آیات پر اپنی رائے بتاتے ہوئے کہہ رہے تھے :

تو بھائی قرآن کی آیت سے ہمارے علماء سلف نے جو سمجھا وہ فہم ہم لیں گے یا آپ نے جو سمجھا آپ کی جو رائے ہے اسے قبول کریں اور اسے حجت سمجھے؟؟؟
جواب: علماء سلف نے یہ فہم کہاں سے لیا ہے؟ بالفرض اگر یہ کہا جائے کہ امام بیہقی پانچویں صدی کے ہیں اور ان سے پیچھے بھی "سلف" گزرے ہیں تو انہوں نے اپنی کتب میں یہ باب باندھا ہے یا نہیں ؟ تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ امام بیہقی نے خود تدبر کیا ہے اور اس کا فہم لیا ہے ۔ جبکہ آپ حضرت تو یہ کہہ رہے ہیں کہ جو بھی بندہ کوئی فہم لے گا تو وہ سلف سے لے گا ۔ تو کیا امام بیہقی نے اپنے سلف سے یہ فہم لیا ہے یا خود تدبر کیا ہے ؟
جو بات آپ کررہے ہیں وہ تو مطلق تقلید کی طرف لے کر جاتی ہے ، بلاشبہ امام بیہقی کی کوئی بات حجت نہیں ہے ، اور ان کا جو تدبر ہے وہ اسی دلیل سے مانا جائے گا جس کی سند نبیﷺ ،خلفائے راشدین، صحابہ کی طرف معتبر ہو گی۔
یہاں میں جواباً مزید یہ بھی عرض کردوں کہ امام ترمذی نے اپنی جامع میں ناف کے نیچےہاتھ باندھنے والی روایت کو ذکر کیا ہے ، اور امام ترمذی اپنی جامع میں جو روایت لے کر آتے ہیں اس کے بارے میں انہوں نے فرمایا ہے کہ دو روایات کو چھوڑ کر میں نے اہل علم کا اس پر عمل دیکھا ہے ۔ تو یہ اہل علم کون ہیں، سلف ہی ہیں نا ، تو کیا پھرامام ترمذی کے سلف کا یہ فہم بھی مانیں گے یا پھراس روایت کو ضعیف ثابت کر کے کہیں گے کہ جی ہم نہیں مانتے۔ جبکہ آپ خودفرما رہے ہیں کہ روایت کے تھوڑے بہت ضعف کی وجہ سے اسے رد کرنا صحیح نہیں اور اہل علم ہی یہ کام کر سکتے ہیں ، تو آپ یہ جو محدث فورم چلا رہے ہیں ، اس میں کون کون سے اہل علم یہ پوسٹس دیکھتے ہیں؟
مزید برآں آپ نےشیخ البانی صاحب کا ذکر کیا تو کیا وہ سلف ہیں یا خلف ؟ یہ بھی بیان کردیں کہ شیخ البانی نے کون سے مدارس سے علم حاصل کیا تھا ۔ بھیا جو بھی شخص صاف نیت کے ساتھ تحقیق کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے یہ کس نے کہا ہے کہ وہ تحقیق نہیں کر سکتا ۔ شیخ البانی کی زندگی پڑھیں کہ انہوں نے بھی لائبریریوں میں جا جا کر کتابیں پڑھ پڑھ کر یہ علم حاصل کیا ہے ۔
جہاں تک بات آتی ہے کہ جو روایات آپ نے شیئر کی ہیں بلاشبہ ان کی اسناد مضبوط ہیں ، مگر اس سے پہلے اگر یہی مضبوط اسناد پیش کر دی جاتیں تو صحیح نہیں تھا کیا ؟
اصول حدیث کی ہر کتاب جو سلف سے روایت ہے اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسناد ، دین کا حصہ ہیں اور اگر اسناد نہ ہوتیں تو علم جہاں سے بھی چاہے حاصل کر لیا جاتا تو پھر ایسی اسناد کا کیا مطلب جن میں ضعف ہے اور یہ سلف ہی ہیں جو ضعیف اسناد کو کسی قابل نہیں جانتے تو ، بھلاضعیف روایات کو پیش کرنا سلف کا منہج ہے؟
 
Top